موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
ماہ رمضان المبارک خطبۂ شعبانیہ کے آئینے میں
مندرجات: 1556 تاریخ اشاعت: 11 خرداد 2024 - 11:09 مشاہدات: 10749
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
ماہ رمضان المبارک خطبۂ شعبانیہ کے آئینے میں

ماہ رمضان المبارک اپنے آپ کو برائیوں اور گناہوں سے پاک کرنے ، فضائل و کمالات سے آراستہ ہونے اور رب کریم سے قرب کا ایک بہترین اور مناسب موقع ہے، لیکن اس فرصت اور موقع سے صحیح اور مکمل استفادہ کرنا اسی وقت میسر ہے، جب انسان اس مہینہ کی عظمت و فضیلت ، اس کے احکام و اعمال واجبات و محرمات سے باخبر ہو۔

اس سلسلہ کا ایک عظیم الشان منبع و ماخذ خطبۂ شعبانیہ ہے کہ جس میں ان تمام چیزوں کو بطور احسن بیان کیا گیا ہے۔ انسان اس میں غور و فکر کے ذریعہ مذکورہ امور کی معرفت اور شناخت پیدا کر سکتا ہے۔ اس خطبہ کو رسول اکرم (ص) نے ماہ شعبان کے آخری دنوں میں مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایا ہے۔

اس خطبہ کو شیخ صدوق نے اپنی کتاب اخبار عیون الرضا علیہ السلام میں نقل کیا ہے۔ امام رضا (ع) نے اپنے آبائے طاہرین سے انھوں نے امیر المومنین حضرت علی (ع) سے اور آپ (ع) نے رسول اکرم (ص) سے نقل فرمایا ہے۔

خطبۂ شعبانیہ میں بیان شدہ مطالب کو چار اہم محور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1- فضائل ماہ رمضان المبارک،

2- اعمال ماہ رمضان المبارک،

3- تقویٰ و پرہیز گاری،

4- امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کا تعارف،

پہلا محور: فضائل ماہ رمضان المبارک:

اس خطبہ کے شروع میں رسول اکرم (ص) نے مؤمنین کو ماہ رمضان کی آمد کی خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ایھا الناس انہ قد اقبل الیکم شھر اللہ بالبرکۃ و الرحمۃ و المغفرۃ.

اے لوگو ! ماہ خدا تمہاری طرف برکت ، رحمت اور مغفرت کے ساتھ آ گیا ہے۔

آپ (ص) نے اس مہینہ کو شہر اللہ (خدا کا مہینہ) کہا ہے ، اگرچہ سارے مہنیے خدا ہی کے مہینے ہیں لیکن چونکہ ماہ رمضان کو ایک خاص شرف و فضیلت حاصل ہے اور اس مہینہ میں خدا سے نزدیک ہونے اور عبودیت و اخلاص کے زیور سے آراستہ ہونے کے تمام تر مواقع فراہم ہوتے ہیں، اسی لیے روایات میں اس مہینے کو شہر اللہ کہا گیا ہے۔

اوج فضیلت:

رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا:

شہر ھو عند اللہ افضل الشہور و ایامہ افضل الایام و لیالیہ افضل اللیالی و ساعاتہ افضل الساعات.

یہ مہینہ خدا کے نزدیک سب سے برتر اور بافضلیت مہینہ ہے، اس کے دن سب سے افضل دن، اس کی راتیں سب سے افضل راتیں اور اس کے اوقات و ساعات سب سے افضل اوقات و ساعات ہیں۔

اس کے بعد آپ نے ایک بہت اہم بات بیان فرمائی کہ اس مہینے میں مؤمنین کو خدا کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے اور انہیں کرامت الٰہی کا اہل قرار دیا گیا ہے:

دعیتم فیہ الیٰ ضیافۃ اللہ و جعلتم فیہ من اھل کرامۃ اللہ.

یہ ماہ رمضان المبارک کی سب سے برتر اور بالاتر فضیلت ہے اس لیے کہ ایک کریم صاحب خانہ اپنے مہمانوں کی بطور احسن مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی حاجتوں کو روا کرتا ہے۔

نبی کریم (ص) نے اس بے نظیر مہمان نوازی کے بعض جلووں کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

1- ماہ رمضان میں انسان کی اطاعت و عبادت کے علاوہ اس کے روز مرہ کے غیر اختیاری امور کو بھی عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے اور ان پر ثواب لکھا جاتا ہے۔ اس مبارک مہینے میں مؤمنین کی سانسوں کو تسبیح اور نیند کو عبادت کا ثواب دیا جاتا ہے:

 انفاسکم فیہ تسبیح و نومکم فیہ عبادۃ.

2- نیک اعمال اسی وقت انسان کے معنوی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں کہ جب وہ بارگار خداوندی میں قبول کر لیے جائیں، لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اعمال مختلف آفات کی بناء پر شرف قبولیت سے محروم رہ جاتے ہیں، مگر یہ کہ فضل و کرم پروردگار ان کی قبولیت کا باعث بن جائے۔ ماہ رمضان میں یہ فضل و کرم مؤمنین کے شامل حال ہوتا ہے اور ان کے اعمال مقبول بارگاہ الٰہی قرار پاتے ہیں:

و عملکم فیہ مقبول.

3-ماہ رمضان میں خداوند اپنے مہمانوں کی حاجتوں کو بر لاتا ہے اور ان کی دعاؤں کو مستجاب کرتا ہے :

دعائکم فیہ مستجاب.

4- پروردگار نے ہر نیک عمل کے لیے ایک خاص مقدار میں ثواب معین کر رکھا ہے، لیکن ماہ رمضان میں یہ ثواب کئی گنا ہو جاتے ہیں۔ نبی اکرم اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

جو شخص اس مہینے میں کسی مؤمن روزہ دار کو افطاری دے گا ، پروردگار اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا اور اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں ایک واجبی نماز ادا کرے گا خداوند اسے ستر (70) واجبی نمازوں کا ثواب عطا فرمائے گا اور جو شخص ایک آیت قرآن کی تلاوت کرے گا، تو اسے ایک قرآن ختم کرنے کا ثواب دے گا۔

5- ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے:

ایھا الناس ان ابواب الجنان فی الشھر مفتحۃ و ابواب النیران مغلقۃ و الشیاطین مغلولۃ.

دوسرا محور:  اعمال ماہ رمضان المبارک:

اگرچہ ماہ رمضان میں تمام انسانوں کو خدائی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کے سب خدا کے مہمان ہیں بلکہ صرف وہی افراد خدا کے مہمان بن سکتے ہیں، جنہوں نے خالص و صحیح نیت اور نیک و پسندیدہ اعمال کے ساتھ اس دعوت الٰہی پر لبیک کہا ہے اور اس عظیم مہمانی میں داخل ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ جس طرح میزبان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کی اچھی طرح مہمان نوازی کرے اسی طرح مہمانوں پر بھی میزبان کے سلسلہ میں کچھ ذمہ داریاں ہیں کہ ان کا برتاؤ بھی میزبان کے شایان شان ہوں۔ اس مہینے میں روزہ داروں کے حالات، عادات و اطوار اور رفتار و کردار دوسرے مہینوں سے الگ ہوں اور انہیں مندرجہ ذیل اعمال کو مزید اخلاص اور توجہ کے ساتھ انجام دینا چاہیے:

1- تلاوت قرآن کریم:

اس خطبہ میں رسول خدا (ص) نے حکم روزہ کے بعد جس چیز کی زیادہ تاکید فرمائی ہے، وہ تلاوت قرآن کریم ہے۔ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا:

سچی نیتوں اور پاک و پاکیزہ دلوں سے اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اس مہینہ میں روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کی توفیق عنایت فرمائے گا۔ ماہ رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیات میں تدبر و تفکر کو ایک خاص اہمیت اور فضیلت حاصل ہے ، اس لیے کہ یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اور شاید ماہ رمضان کی فضیلت کا ایک اہم سبب یہی ہے کہ اس مہینہ میں قرآن نازل ہوا ہے، جیسا کہ پروردگار نے ارشاد فرمایا:

شَھرُ رَمَضَانَ الَّذِی ٲُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ھدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنْ الْھدَی وَالْفُرْقَان۔

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے کہ جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔

سورۂ بقرہ،آیت 185

اگرچہ اس مہینہ میں تلاوت قرآن کا بہت ثواب ہے لیکن تلاوت اس کتاب سے استفادہ کا پہلا اور ادنیٰ مرحلہ ہے۔ مؤمنین کو صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ قرآنی مفاہیم و تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ روشناس ہوں اور اس میں تدبر کر کے قرآنی احکام و تعلیمات کو اپنی زندگی میں جاری کریں اور اس کی نورانی آیات پر عمل کر کے اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو منور کریں۔ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا:

من جعلہ امامہ قادہ الی الجنۃ و من جعلہ خلفہ ساقہ الی النار.

جو شخص قرآن کو آگے رکھے گا اور زندگی میں اس کی پیروی کرے گا قرآن ، قیامت میں اسے جنت کی طرف رہنمائی کرے گا اور جو قرآن کو پس پشت ڈال دے گا اور اس کے دستورات سے لا پرواہی کرے گا، قرآن اسے جہنم میں دھکیل دے گا۔

الکافی، ج 2 ص 995

2- دوسروں کے ساتھ نیکی:

انسان جتنا اپنے معبود سے نزدیک ہو گا اور اس کا رابطہ اپنے رب سے جتنا مضبوط ہو گا، وہ اتنا ہی بندگان خدا کے ساتھ مہربان ہو گا اور ان کی حاجتیں پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ رسول اکرم (ص) جو خدا کے سب سے مقرب بندے ہیں، قرآن نے انہیں عالمین کے لیے رحمت قرار دیا ہے۔

سورۂ انبیاء،آیت 107

اور آنحضرت (ص) نے فرمایا:

من اصبح و لم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم.

جو بھی اس حالت میں اپنے دن کو شروع کرے کہ اسے دوسرے مسلمانوں کی کوئی فکر نہ ہو تو، ایسا شخص مسلمان نہیں ہے۔

لہٰذا اسلام میں ایسی گوشہ نشینی جائز نہیں جو دیگر مسلمانوں کے امور سے بے توجہی اور لا پرواہی کا سبب بنے۔

رسول اکرم (ص) نے اس خطبہ میں دوسروں کے ساتھ نیکی اور احسان کے مختلف مصادیق کی طرف توجہ اور تاکید فرمائی ہے: جیسے فقراء و مساکین کی مالی امداد، بڑوں کا احترام و اکرام اور چھوٹوں کے ساتھ مہربانی، رشتہ داروں سے صلہ رحم، یتیموں کے ساتھ شفقت و مہربانی، مؤمن روزہ دارکو افطاری دینا اور دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا:

و تصدقوا علیٰ فقرائکم و مساکینکم و وقروا کبارکم و ارحموا صغارکم و صلوا ارحامکم و تحننوا علیٰ ایتام الناس.

اپنے فقراء اور مساکین کو صدقہ دو، اور اپنے بڑوں کا احترام کرو اور اپنے چھوٹوں پر مہربانی کرو اور صلہ رحم کرو اور دوسروں کے یتیموں پر شفقت و مہربانی کرو۔

3- خدا اور اولیائے خدا سے قریبی رابطہ:

ماہ رمضان، پروردگار اور خاصان و مقربان درگار الٰہی سے قریب ہونے اور ان سے رابطے کو مضبوط و مستحکم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ رسول خدا (ص) نے اس خطبہ میں مؤمنین کو توبہ و استغفار کی دعوت دی ہے تا کہ وہ گذشتہ گناہوں سے پاک و پاکیزہ ہو کر خدا سے رابطہ برقرار کر سکیں۔ آپ (ص) نے ارشاد فرمایا:

توبوا الی اللہ من ذنوبکم ... ان انفسکم مرھونۃ باعمالکم ففکوھا باستغفارکم و ظہورکم ثقیلۃ من اوزارکم فخففوا عنھا بطول سجودکم. من تطوع فیہ بصلاۃ کتب اللہ برائۃ من النار.

بارگاہ خدا میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو۔ تمہاری جانیں تمہارے اعمال کی قیدی ہیں، انہیں استغفار کے ذریعہ آزاد کراؤ۔ تمہاری پیٹھ (پشت) گناہوں کے بوجھ سے سنگین ہو گئی ہیں، انہیں طولانی سجدوں کے ذریعہ ہلکا کرو... جو شخص بھی اس مہینہ میں نماز فافلہ ادا کرے گا، خدا اس کے لیے آتش جہنم سے برات نامہ لکھ دے گا۔

نیز رسول خدا (ص) اور ہادی امت سے اپنا رابطہ مضبوط و مستحکم رکھنے اور اس رابطے کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کے لیے آپ (ص) نے صاحبان ایمان کو اپنے اوپر زیادہ سے زیادہ درود و صلوات بھیجنے کی تاکید و ترغیب فرمائی ہے:

ومن اکثر فیہ من الصلاۃ علیّ ثقل اللہ میزانہ یوم تخف الموازین.

جو شخص اس مہینے میں مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلوات بھیجے گا، خداوند اس کے میزان اعمال کو اس دن سنگین کر دے گا، جب بہت سے لوگوں کے میزان اعمال ہلکے ہوں گے۔

تیسرا محور: تقویٰ و پرہیزگاری:

امیر المؤمنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: میں اس خطبہ کے دوران کھڑا ہوا اور سول خدا سے سوال کیا:

اس مہینے میں سب سے برتر اور افضل عمل کیا ہے ؟ رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا: خدا کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرنا:

الورع عن محارم اللہ،

گناہوں کو ترک کرنا،

جسے اسلامی اصطلاح میں تقویٰ کہا جاتا ہے ، قرآن مجید اور روایات معصومین علیہم السلام میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اسے تمام کمالات اور خوبیوں کا سر چشمہ کہا گیا ہے۔ قرآن مجید نے تقویٰ کو بہترین زاد آخرت بتایا ہے :

فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی ،

سورۂ بقرہ،آیت 197

ایک مقام پر اسے ایک ایسا لباس کہا ہے کہ جو انسان کی برائیوں کو چھپاتا ہے :

وَلِبَاسُ التَّقْوَی ذَلِکَ خَیْرٌ،

سورۂ اعراف،آیت 26

اور ایک آیت میں آیا ہے کہ خداوند صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال کو قبول کرتا ہے:

انَّمَا یَتَقَبَّلُ ﷲُ مِنْ الْمُتَّقِینَ.

سورۂ مائدہ،آیت 27

حضرت علی (ع) نے ارشاد فرمایا:

یقینا تقویٰ ہدایت کی کنجی اور آخرت کا ذخیرہ ہے۔ ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اس کے وسیلہ سے کوشش کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اور بہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔

نہج البلاغہ،خطبہ 203

نیز ار شاد فرمایا:

بندگان خدا ! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تمہارے اوپر اللہ کا حق ہے اور اس سے تمہارا حق پروردگار پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے اللہ سے مدد مانگو اور اس کے ذریعہ اسی سے مدد طلب کرو کہ یہ تقویٰ آج دنیا میں سپر اور حفاظت کا ذریعہ اور کل جنت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ اس کا مسلک واضح اور اس کا راہرو فائدہ حاصل کرنے والا ہے .

نہج البلاغہ، خطبہ 191

چوتھا محور: امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کا تعارف:

رسول خدا (ص) حضرت علی (ع) کے سوال کا جواب دینے کے بعد رونے لگے۔ امیر المؤمنین (ع) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے گریہ کا سبب کیا ہے ؟ آپ (ص) نے فرمایا:

اے علی! میں تمہارے لیے رو رہا ہوں، اس لیے کہ ایک دن اسی مہینے میں تمہارا خون بہایا جائے گا۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بارگاہ الٰہی میں نماز میں مصروف ہو اور اولین و آخرین میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت شخص تمہارے سر پر ضربت لگا رہا ہے اور تمہاری داڑھی سر کے خون سے رنگین ہو گئی ہے۔ حضرت علی (ع) نے رسول خدا (ص) کے اس کلام کو سننے کے بعد ایک بہت ہی اہم اور سبق آموز سوال فرمایا:

کیا اس وقت میرا دین سالم ہو گا ؟ رسول خدا نے فرمایا: بے شک سالم ہو گا۔

حضرت علی (ع) کا یہ سوال اس بات کی علامت ہے کہ ایک مؤمن کو کس حد تک اپنے دین و ایمان کی سلامتی کی فکر میں رہنا چاہیے، بالخصوص موت اور اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرتے وقت، اس لیے کہ بعض روایات کی روشنی میں موت کے وقت شیطان اپنی پوری کوشش کر ڈالتا ہے کہ کسی طرح مؤمن کے ایمان کو اس سے چھین لے۔ بسا اقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایمان و اعتقاد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے باوجود اپنے بعض گناہوں کی وجہ سے موت کے وقت ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شقی و بدبخت بن جاتا ہے۔

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بارگاہ الٰہی میں تضرع و زاری اور اولیائے خدا سے توسل کے ذریعے سے اپنے ایمان کو ان حضرات کے حوالہ کر دیں اور ان سے درخواست کریں کہ موت کے وقت ہمارے ایمان کو ہمیں واپس کر دیں اور اس کی حفاظت فرمائیں تا کہ ہم اس دنیا سے با ایمان رخصت ہوں اور اس طرح زندگی بسر کریں کہ جب موت کا وقت نزدیک آئے تو ہم اطاعت معبود میں ہوں۔

دعائے عدیلہ (مفاتیح الجنان)

قرآن مؤمنین سے ایسی ہی موت چاہتا ہے:

یَا ٲَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا ﷲَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ الاَّ وَٲَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.

ایمان والو ! اللہ سے اس طرح ڈرو کہ جیسا ڈرنے کا حق ہے اور خبر دار ایسی حالت میں مرنا کہ تم مسلمان ہو۔

سورۂ آل عمران،آیت 102

اس خطبہ میں بھی رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کو اپنا ہم رتبہ اور ہم مرتبہ قرار دیتے ہوئے، امام علی (ع) کو مخاطب قرار دے کر فرمایا:

یا علی! من قتلک فقد قتلنی و من ابغضک فقد ابغضنی و من سبک فقد سبنی لانک منی کنفسی، روحک من روحی و طینتک من طینتی.

اے علی! جس نے تمہیں قتل کیا، اس نے مجھے قتل کیا، جس نے تم سے عداوت کی، اس نے مجھ سے عداوت کی، جس نے تمہیں برا بھلا کہا، اس نے مجھے برا بھلا کہا، اس لیے کہ تم میری جان کے مانند ہو ، تمہاری روح میری روح میں سے ہے اور تمہاری طینت میری طینت میں سے ہے۔

جس طرح ولایت نبی آپ (ص) کی نبوت و رسالت میں ظاہر ہوتی ہے اور تمام لوگوں پر آپ کے فرامین پر عمل کرنا واجب ہے، اسی طرح اوصیائے نبی (ص) کی ولایت ، ان حضرات کی امامت میں ظاہر ہوتی ہے اور سب پر واجب ہے کہ ان کی امامت پر ایمان لائیں اور ان کے حکم کی اطاعت کریں۔ رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

ان اللہ تبارک و تعالیٰ... و اختارنی للنبوۃ و اختارک للامامۃ فمن انکر امامتک فقد انکر نبوتی.

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے نبوت کے لیے اور تمہیں امامت کے لیے منتخب کیا۔ پس جس نے بھی تمہاری امامت کا انکار کیا، اس نے میری نبوت کا انکار کیا ہے۔

اس کے بعد ارشاد فرمایا:

یا علی ! انت وصیی و ابو ولدی و زوج ابنتی و خلیفتی علی امتی فی حیاتی و بعد موتی ، امرک امری و نھیک نھیی.

اے علی! تم ہی میرے وصی ، میرے بچوں (حسنین علیہما السلام) کے والد اور میری بیٹی کے شوہر ہو۔ میری امت کے درمیان میری زندگی میں اور میری وفات کے بعد میرے جانشین ہو۔ تمہارا حکم میرا حکم اور تمہاری نہی میری نہی ہے۔

رسول خدا (ص) خطبۂ شعبانیہ کے آخری حصہ میں اس طرح فرماتے ہیں:

اقسم الذی بعثنی بالنبوۃ و جعلنی خیر البریۃ ، انک لحجۃ اللہ علیٰ خلقہ و امینہ علیٰ سرہ و خلیفتہ علیٰ عبادہ.

قسم اس ذات پاک کی جس نے مجھے نبی بنایا اور مخلوقات میں سب سے افضل قرار دیا، بے شک تم خلق خدا پر اس کی حجت ہو ، سر الٰہی کے راز دار اور بندگان خدا پر خلیفۃ اللہ ہو۔

خطبہ شعبانیہ کی تشریح:

خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلے میں ہے کہ جو رسول خدا (ص) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعے کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبے کو حضرت امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) سے نقل کیا ہے۔ رسول خدا (ص) فرماتے ہیں کہ: 

اَنفاسُکُم فیهِ تَسبیحٌ، ونَومُکُم فیهِ عِبادَةٌ، وعَمَلُکُم فیهِ مَقبول ، ودُعاؤُکُم فیهِ مُستَجابٌ ،

اس (مہینے) میں تمہاری سانسیں تسبیح ہیں، اور اس میں تمہاری  نیند عبادت ہے اور اس میں تمہارا عمل قبول ہے اور اس میں تمہاری دعا مستجاب ہے۔

عیون أخبار الرضا، شیخ صدوق، ج2، ص265.

تشریح:
ماہ رمضان میں داخل ہونے کی شرائط: 

ماہ رمضان کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے:

ایک ماہ رمضان کا ہونا اور دوسرا انسان کی ظرفیت اور گنجائش کی وسعت، یعنی انسان ماہ رمضان میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو اور اس مبارک مہینے کی خاص برکات کا معتقد ہو۔ اگر انسان زبان سے کہے کہ ماہ رمضان، رحمت، مغفرت اور برکت کا مہینہ ہے، لیکن دل سے اس بات کا معتقد نہ ہو تو اس مہینے سے متعلق برکات کو حاصل نہیں کر پائے گا۔

جب اس مہینے کا دوسرے مہینوں سے فرق ہے تو اس میں جو خداوند کی رحمت نازل ہوتی ہے وہ بھی دوسرے مہینوں سے بڑھ کر ہے، جو خدا اس مہینے کو دوسرے مہینوں پر فضیلت دے سکتا ہے، وہی خدا اس مہینے میں نیکیوں کے ثواب کو بڑھا بھی سکتا ہے، یہاں تک کہ عمل انجام دئیے بغیر بھی ثواب دیتا ہے، سانسیں انسان کے اختیار سے ہٹ کر چل رہی ہیں تو تسبیح لکھی جا رہی ہے، انسان سو رہا ہے تو عبادت لکھی جا رہی ہے۔ لہذا بخشش و عطا کی فراوانی کی خبر سُن کر اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ عطا کرنے والا کریم، سخی اور لا محدود خزانوں کا مالک ہے۔

ماہ رمضان میں سانسیں تسبیح شمار ہوتی ہیں: 

ثواب عموماً اختیاری کام پر دیا جاتا ہے، سانس کا جاری رہنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ انسان اسے زیادہ دیر تک روک سکتا ہے، لیکن ماہ رمضان المبارک کی فضیلت اتنی زیادہ ہے اور رحمت الہی کا نزول اس قدر بھر پور ہے کہ اللہ تعالی غیر اختیاری عمل کو بھی تسبیح شمار کرتا ہے۔

بعض علماء کا کہنا ہے کہ سانسیں اس لیے تسبیح شمار ہوتی ہیں کہ روزہ کا ارادہ کرنا اور ماہ رمضان کی حرمت کا خیال رکھنا، انسان کو ایسے عالَم میں داخل کر دیتا ہے جہاں انسان نفس امّارہ سے جنگ کرتا ہے، ایسی حالت میں انسان کی حیات کا ہر نقطہ، ایسی حیات ہے جو اللہ کی عین تسبیح ہے، جیسا کہ ملائکہ کی جنس، تسبیح ہے یعنی اللہ کی طرف توجہ کرنا اور اسے عظیم سمجھنا اور خود کو نہ دیکھنا، اور روزہ دار ایسے عالَم میں داخل ہو جاتا ہے۔

رمضان دریچه رؤیت، اصغر طاہر زادہ، ص79۔

تسبیح کے معنی: 

تسبیح کے معنی یہ ہیں کہ خداوند کو سلبی صفات اور ہر طرح کے ضعف اور محتاجی سے مقدس اور پاک و منزہ سمجھا جائے۔

التبیان، طوسی، ج 6، ص 444 سے اقتباس۔

تسبیح کا واضح ترین مصداق " سبحان اللہ " کا ذکر ہے۔

تسبیح کا ثواب: 

تسبیح اور سبحان اللہ کی فضیلت کے بارے میں کئی احادیث نقل ہوئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ:

حضرت امام محمد باقر (ع) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: 

مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ غَرَسَ اللَّهُ لَهُ بِهَا شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ وَ مَنْ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ غَرَسَ اللَّهُ لَهُ بِهَا شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ وَ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ غَرَسَ اللَّهُ لَهُ بِهَا شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ وَ مَنْ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ غَرَسَ اللَّهُ لَهُ بِهَا شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ ،

جو شخص کہے: " سبحان اللہ "، اللہ اس کے لیے اس کے بدلے میں ایک درخت جنت میں لگاتا  ہے اور جو کہے: " الحمد للہ "، اللہ اس کے لیے اس کے بدلے میں ایک درخت جنت میں لگاتا ہے اور جو کہے: " لا الہ الا اللہ "، اللہ اس کے لیے اس کے بدلے میں ایک درخت جنت میں لگاتا ہے اور جو کہے: " اللہ اکبر "، اللہ اس کے لیے اس کے بدلے میں ایک درخت جنت میں اگاتا ہے۔

ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، شیخ صدوق، ج1، ص11۔

ماہ رمضان میں نیند عبادت شمار ہے: 

جب روزہ دار کی نیند جو بالکل بے خبری کی کیفیت ہے، عبادت ہے تو اس کی بیداری جو تلاوتِ قرآن، نماز اور دعائیں پڑھنے میں گزرے، وہ تو اور زیادہ بڑھ چڑھ کر عبادت ہے۔ خصوصاً نماز شب کہ جس کی اس مہینہ میں توفیق آسانی سے نصیب ہو جاتی ہے کہ انسان اذان سے پہلے جاگ کر تہجد اور نماز شب میں مصروف ہو سکتا ہے جو دنیا و آخرت میں انسان کے لیے مفید ہے۔

گفتار معصومین (ع)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج2، ص123۔

ماہ رمضان میں عمل قبول ہوتا ہے: 

قبول اور صحیح ہونے میں فرق یہ ہے کہ ہو سکتا ہے عمل صحیح ہو، لیکن بارگاہ الہی میں قبول نہ ہو، عمل تب صحیح ہوتا ہے کہ اس کے تمام اجزاء اور شرائط بجا لائے جائیں، لیکن عمل کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس عبادت میں روح پائی جاتی ہے اور عبادت کی روح، حضورِ قلب ہے جو فحشا اور منکر سے منع کرتی ہے، اگر انسان عبادت کے بعد گناہ کا ارتکاب کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی عبادت قبول نہیں ہوئی، روزے کی روح تقوی ہے، اگر ماہ رمضان کے بعد انسان کا تقوی اور خوفِ خدا بڑھ جائے تو روزے قبول ہوئے ہیں ورنہ اس کی صرف شرعی ذمہ داری ادا ہوئی ہے۔

گفتار معصومین (ع)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج2، ص123۔

دعا اس مہینے میں مستجاب ہوتی ہے کیونکہ روزہ دار کا حضور قلب زیادہ ہوتا ہے اور انسان کی جتنی اللہ کی طرف توجہ زیادہ ہو، دعا کے مستجاب ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

گفتار معصومین (ع)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج2، ص123۔

بعض علماء کا کہنا ہے کہ جو عمل اللہ کی رضا کے لیے بجا لاتے ہیں، وہ قبول ہوتے ہیں، کیونکہ اس مہینے میں اللہ اور بندے کے درمیان حجاب کم ہو جاتے ہیں اور اللہ اپنے اور اپنے عبد کے درمیان حجابوں کو خاص طور پر ہٹا دیتا ہے تا کہ وہ راستہ جو بندے چاہتے ہیں کہ اللہ اور بندوں کے درمیان کھل جائے، وہ کھل جائے اور چاہے ایک بار ہی، اللہ سے رابطہ کی لذت اور معنی کا ادراک کر لیں۔

ماہ رمضان میں دعا مستجاب ہوتی ہے: 

وَدُعاؤُکُم فِیه مُسْتَجابٌ،

اور تمہاری دعا اس (مہینہ) میں مستجاب ہے کے بارے میں ہے کہ: کیونکہ خداوند نے سورہ بقرہ میں روزےکی آیات کو  جو پے در پے ہیں بیان کیا ہے: 

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ...

پھر فوراً اس کے بعد والی آیت میں فرمایا ہے:

وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُونَ،

اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (آپ کہہ دیں) میں یقینا قریب ہوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا و پکار کو سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ تو ان پر لازم ہے کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یقین رکھیں) تا کہ وہ نیک راستے پر آ جائیں،

سورہ بقرہ، آیت 186۔

ترجمہ مولانا علامہ شیخ محسن نجفی،

اس آیت کا سابقہ آیات سے تعلق ہے یعنی روزہ رکھنے سے انسان کی دعا مستجاب ہوتی ہے روزہ دار شخص، اللہ کا محبوب ہے اور اللہ اپنے محبوب کی دعا رد نہیں کرتا۔

گفتار معصومین (ع)، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج2، ص1244۔

نتیجہ: 

ماہ رمضان خداوند کی اتنی بھرپور رحمت کا مہینہ ہے کہ جس میں حتی سانس لینا تسبیح شمار ہوتا ہے اور سونا عبادت شمار ہوتا ہے، عمل قبول ہوتے ہیں اور دعائیں مستجاب  ہوتی ہیں، جب سونا عبادت ہے تو بیداری میں عبادت کرنے کی فضیلت تو اور زیادہ بڑھ چڑھ کر ہے، اس مبارک مہینے میں جب اتنی آسانی سے ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے تو روزہ دار کو چاہیے کہ اپنا زیادہ تر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہے اور نیک اعمال انجام دے کیونکہ اس مہینے میں اعمال قبول ہوتے ہیں اور دعائیں بھی بہترین طرح کی مانگے، کیونکہ اس مہینے میں دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔

ماہ مبارک کی آمد پر رسول اسلام (ص) کا خطبہ شعبانیہ مع ترجمہ:

ماہ شعبان کے آخری جمعے کو پیغمبر خدا (ص) نے صحابہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو رمضان المبارک کی عظمت اور اہمیت سے آگاہ کیا اور اس مہینے کی خصوصیات و برکات کو بیان کیا۔ اسی وجہ سے یہ خطبہ، خطبہ شعبانیہ کے نام سے معروف ہے۔ اس خطبے کو شیخ صدوق نے کتاب عیون اخبار الرضا میں امام علی (ع) سے روایت کیا ہے۔

عَنِ الرِّضَا عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِیٍّ علیه السلام قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله خَطَبَنَا ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ:

رمضان المبارک برکت ،رحمت اور مغفرت کا مہینہ:

أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْكُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَیَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَیَّامِ وَ لَیَالِیهِ أَفْضَلُ اللَّیَالِی وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ.

آپ فرماتے ہیں: ایک دن آنحضرت (ص) نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اے لوگو خدا کی برکت، رحمت اور مغفرت سے بھرپور مہینہ آ رہا ہے ، یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو تمام مہینوں سے بہتر ہے اس کے دن تمام دنوں سے بہتر اور اس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر ہیں اس کے ساعات و لحظات تمام ساعات و لحظات سے افضل ہیں۔

خدا کی مہمانی اور انسان کی کرامت:

هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَى ضِیَافَةِ اللَّهِ وَ جُعِلْتُمْ فِیهِ مِنْ أَهْلِ كَرَامَةِ اللَّهِ أَنْفَاسُكُمْ فِیهِ تَسْبِیحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِیهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُكُمْ فِیهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُكُمْ فِیهِ مُسْتَجَابٌ فَاسْأَلُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ بِنِیَّاتٍ صَادِقَةٍ وَ قُلُوبٍ طَاهِرَةٍ أَنْ یُوَفِّقَكُمْ لِصِیَامِهِ وَ تِلَاوَةِ كِتَابِهِ  فَإِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللَّهِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِیمِ

یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ جس میں تمہیں خداوند کے یہاں دعوت دی گئی ہے اور تم لوگ کرامت خدا کے مہمان قرار پائے ہو، اس مہینے میں تمہارا سانس لینا تسبیح اور سونا عبادت ہے، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں۔ لہذا تم سب کو اس مہینے میں نیک اور سچی نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ خداوند سے سوال کرنا چاہیے کہ تمہیں اس مہینے کے روزے رکھنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت کرے ، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص کہ جو اس بابرکت مہینے میں غفران الہیٰ سے محروم رہا ہو۔

روزہ اور قیامت کی یاد:

وَ اذْكُرُوا بِجُوعِكُمْ وَ عَطَشِكُمْ فِیهِ جُوعَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَ عَطَشَهُ وَ تَصَدَّقُوا عَلَى فُقَرَائِكُمْ وَ مَسَاكِینِكُمْ وَ وَقِّرُوا كِبَارَكُمْ وَارْحَمُواصِغَارَكُمْ وَ صِلُوا أَرْحَامَكُمْ واحْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ غُضُّوا عَمَّا لَا یَحِلُّ النَّظَرُ إِلَیْهِ أَبْصَارَكُمْ وَ عَمَّا لَا یَحِلُّ الِاسْتِمَاعُ إِلَیْهِ أَسْمَاعَكُمْ وَ تَحَنَّنُوا عَلَى أَیْتَامِ النَّاسِ یُتَحَنَّنْ عَلَى أَیْتَامِكُمْ

اس مہینے میں روزے کی وجہ سے جو تمہیں پیاس اور بھوک لگتی ہے ، اس سے قیامت کے دن کی پیاس اور بھوک کو یاد کرو ، غریب اور تنگ دست لوگوں کو صدقہ دو، بزرگوں کا احترام کرو، چھوٹوں پر رحم کرو اور رشتہ داروں سے صلہ رحم کرو، اپنی زبانوں کو ہر قسم کی برائی سے بچاؤ اور اپنی نگاہوں کو ان چیزوں کی طرف دیکھنے سے بچاؤ جنہیں دیکھنا جائز نہیں ( حرام ہے ) اور اپنے کانوں کو ایسی آوازوں سے بچاؤ کہ جنہیں سننا حرام ہے، اور لوگوں کے یتیم بچوں سے ہمدردی اور مہربانی کا برتاؤ کرو، جس طرح تم اپنے یتیموں کے لیے مہربانی چاہتے ہو۔

توبہ اور دعا کا مہینہ:

وَ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَ ارْفَعُوا إِلَیْهِ أَیْدِیَكُمْ بِالدُّعَاءِ فِی أَوْقَاتِ صَلَاتِكُمْ‏فَإِنَّهَا أَفْضَلُ السَّاعَاتِ یَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِیهَا بِالرَّحْمَةِ إِلَى عِبَادِهِ یُجِیبُهُمْ إِذَا نَاجَوْهُ وَ یُلَبِّیهِمْ إِذَا نَادَوْهُ وَ یُعْطِیهِمْ إِذَا سَأَلُوهُ وَ یَسْتَجِیبُ لَهُمْ إِذَا دَعَوْهُ  أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَنْفُسَكُمْ مَرْهُونَةٌ بِأَعْمَالِكُمْ فَفُكُّوهَا بِاسْتِغْفَارِكُمْ وَ ظُهُورَكُمْ ثَقِیلَةٌ مِنْ أَوْزَارِكُمْ فَخَفِّفُوا عَنْهَا بِطُولِ سُجُودِكُمْ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَقْسَمَ بِعِزَّتِهِ أَنْ لَا یُعَذِّبَ الْمُصَلِّینَ وَ السَّاجِدِینَ وَ أَنْ لَا یُرَوِّعَهُمْ بِالنَّارِ یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ.

اپنے گناہوں سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اوقات نماز میں اپنے ہاتھوں کو اللہ کی طرف بلند کرو، کیونکہ اوقات نماز بہترین اوقات ہیں کہ جس میں خداوند اپنے بندوں کی طرف خاص رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اُس سے مناجات کریں تو جواب دیتا ہے اور اسے پکارے تو لبیک کہتا ہے اور جب اس سے کوئی چیز مانگیں اور دعا کریں تو اجابت کرتا ہے۔

اے لوگو، بے شک تمہارے نفس تمہارے اعمال کے گرو (گروی) میں ہے ، تو اس کو استغفار اور طلب بخشش کے ذریعے رہائی دلاؤ ، اور تمہاری پشتیں گناہوں کے وزن کی وجہ سے سنگین ہیں ، پس لمبے سجدوں کے ذریعے اس وزن کو ہلکا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت و جلالت کی قسم کھائی ہے کہ وہ نمازی اور سجدہ کرنے والے کو عذاب نہ کرے اور آتش جہنم سے نہ ڈرائے، جس دن سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے (قیامت کے دن)۔

مؤمن روزہ دار کو افطار دینے کی فضیلت:

أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ فَطَّرَ مِنْكُمْ صَائِماً مُؤْمِناً فِی هَذَا الشَّهْرِ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ عِتْقُ نَسَمَةٍ وَ مَغْفِرَةٌ لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ، قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَیْسَ كُلُّنَا یَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ ص اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاء،

اے لوگو ! اگر تم میں سے کوئی اس مہینے میں کسی مؤمن روزہ دار کو افطار دے تو خداوند اس کو اپنی راہ میں ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب دیتا ہے اور اس کے تمام گذشتہ گناہوں کو بخش دیتا ہے،۔

اس وقت آپ سے کہا گیا: یا رسول اللہ ہم سب تو اس عمل کو انجام دینے پر قدرت نہیں رکھتے، تو رسول خدا نے فرمایا: اپنے آپکو کو آتش جہنم سے بچاؤ گرچہ نصف خرما سے ہی کیوں نہ ہو، اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے نجات دو گرچہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ ہو۔

اچھے اخلاق ، صلہ رحم اور یتیم پر احسان کی فضیلت:

أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ حَسَّنَ مِنْكُمْ فِی هَذَا الشَّهْرِ خُلُقَهُ كَانَ لَهُ جَوَازاً عَلَى الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیهِ الْأَقْدَامُ وَ مَنْ خَفَّفَ فِی هَذَا الشَّهْرِ عَمَّا مَلَكَتْ یَمِینُهُ خَفَّفَ اللَّهُ عَلَیْهِ حِسَابَهُ وَ مَنْ كَفَّ فِیهِ شَرَّهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ أَكْرَمَ فِیهِ یَتِیماً أَكْرَمَهُ اللَّهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ  وَ مَنْ وَصَلَ فِیهِ رَحِمَهُ وَصَلَهُ اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ قَطَعَ فِیهِ رَحِمَهُ قَطَعَ اللَّهُ عَنْهُ رَحْمَتَهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ،

اے لوگو ! تم میں سے جو کوئی اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا اور نیک کرے گا تو وہ آسانی سے پل صراط عبور کرے گا کہ جس دن لوگوں کے قدم میں لغزش ہو گی اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے ماتحت سے مدارا اور نرمی کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اس کے حساب میں نرمی کرے گا اور اگر کوئی اس مہینے میں دوسروں کو اپنی اذیت سے بچاتا رہے گا تو قیامت کے دن خدا اس کو اپنے غیض و غضب سے محفوظ رکھے گا اور اگر کوئی اس مہینے میں کسی یتیم پر احسان کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اس پر احسان کرے گا اور کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم کرے گا، تو خداوند قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے متصل کرے گا اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے قطع رابطہ کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اس سے اپنی رحمت کو قطع کرے گا۔

نماز اور تلاوت قرآن کی فضیلت:

وَ مَنْ تَطَوَّعَ فِیهِ بِصَلَاةٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ وَ مَنْ أَدَّى فِیهِ فَرْضاً كَانَ لَهُ ثَوَابُ مَنْ أَدَّى سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ مِنَ الشُّهُورِ  وَ مَنْ أَكْثَرَ فِیهِ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَیَّ ثَقَّلَ اللَّهُ مِیزَانَهُ یَوْمَ تَخِفُّ الْمَوَازِینُ وَ مَنْ تَلَا فِیهِ آیَةً مِنَ الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِی غَیْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ.

جو کوئی اس مہینے میں مستحب نماز بجا لائے گا تو خداوند اس کو جہنم سے نجات دے گا اور جو کوئی اس مہینے میں ایک واجب نماز پڑھے گا تو اس کے لیے دوسرے مہینوں میں ستر نمازیں پڑھنے کا ثواب ملے گا اور جو کوئی اس مہینے میں مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجے گا، تو خداوند قیامت کے دن کہ جس دن لوگوں کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا، اس کے نیک اعمال کے پلڑے کو سنگین کرے گا اور جو کوئی اس مہینے میں قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا، اس کو دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرنے کا ثواب ملے گا۔

شیطان کی گرفتاری:

أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَبْوَابَ الْجِنَانِ فِی هَذَا الشَّهْرِ مُفَتَّحَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُغَلِّقَهَا عَنْكُمْ وَ أَبْوَابَ النِّیرَانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُفَتِّحَهَا عَلَیْكُمْ وَالشَّیَاطِینَ مَغْلُولَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُسَلِّطَهَا عَلَیْكُمْ.

اے لوگو ! یقینا اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں، اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ انکو تمہارے اوپر بند نہ کرے اور جہنم کے دروازے اس مہینے میں بند کر دیئے گئے ہیں اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ تمہارے لیے ان کو نہ کھولے اور شیاطین اس مہینے میں باندھے گئے ہیں، اپنے رب سے درخواست کرو کہ ان کو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے۔

اس مہینہ میں بہترین عمل:

قَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ علیه السلام فَقُمْتُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ؟ فَقَالَ یَا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ.

امیر المؤمنین علی (ع) فرماتے ہیں: پس میں کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول للہ، اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کیا ہے ؟ فرمایا: اے ابو الحسن اس مہینے میں بہترین عمل محرمات الہی سے پرہیز کرنا ہے۔

شہادت امام علی (ع) کی خبر:

ثمّ بَکَی، فَقلتُ: یا رسولَ اللهِ ما یَبکِیکَ ؟ فقالَ یا علیّ، أبکی لِما یَستحلّ مِنک فی هذا الشّهر.کأنّی بِکَ وَ أنتَ تُصلّی لِرَبّکَ وَ قد انبَعَثَ أشقَی الأولینَ شَقیقَ عاقِرِ ناقَهِ ثمود، فَضَرَبَکَ ضربَةً علَی قَرَنِکَ فَخَضّبَ منها لِحیتَکَ، قالَ امیرُالمؤمنینَ علیه السّلام: فَقلتُ: یا رسولَ اللهِ، و ذلکَ فی سَلامَةٍ مِن دِینی؟فقال صلی الله علیه و آله: فی سلامة من دینک.

اس کے بعد پیامبر گریہ کرنے لگے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، کس چیز نے آپ کو رلایا ہے ؟ فرمایا:

اے علی میں اس لیے رو رہا ہوں کہ اس مہینے میں تمہارا خون بہایا جائے گا ( اس مہینے آپ کو شہید کر دیا جائے گا ) گویا میں تمہاری شہادت کے منظر کو دیکھ رہا ہوں ، درحالیکہ تم اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھنے میں مشغول ہو گے ، اس وقت شقی اولین و آخرین قاتل ناقہ صالح ، تمہاری فرق (پیشانی) پر ایک وار کریگا، جس سے تمہاری ریش اور چہرہ خون سے تر ہو جائے گا۔ امیر المؤمنین (ع) فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اس وقت میرا دین ثابت و سالم ہو گا ؟ فرمایا : ہاں اس وقت تمہار دین سالم ہو گا۔

علی (ع) نفس پیغمبر (ص):

ثمّ قالَ صلّی الله علیه و آله: یا علیّ، مَن قَتلکَ فَقد قَتلَنِی،و مَن أبغَضَکَ فَقَد أبغَضَنی،و مَن سَبّکَ فَقَد سَبّنِی، لأنّکَ مِنّی کَنَفسِی، روحُکَ مِن روحی، و طِینتُکَ مِن طینتِی، إنّ الله تبارک و تعالی خَلقنِی و ایّاکَ،و أصطَفانِی وَ ایّاکَ،و أختارَنی للنبوّة، وَ أختارَکَ لِلإمامَةِ،و مَن أنکَرَ امامَتَکَ فَقَد أنکَرَ نُبُوّتِی۔

اس کے بعد پیامبر (ص)نے فرمایا: اے علی جس نے تمہیں قتل کیا، گویا اس نے مجھے قتل کیا اور جس نے تمہارے ساتھ بغض و دشمنی کی، درحقیقت اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے اور جو کوئی تمہیں ناسزا کہے، گویا اس نے مجھے ناسزا کہا ہے کیونکہ تم مجھ سے ہو اور میرے نفس کی مانند ہو تمہاری روح میری روح سے ہے اور تمہاری طینت و فطرت میری فطرت سے ہے،

 یقینا خداوند نے ہم دونوں کو خلق کیا اور ہم دونوں کو انتخاب کیا، مجھے نبوت کے لیے انتخاب کیا اور تمہیں امامت کے لیے انتخاب کیا، اگر کوئی تمہاری امامت سے انکار کرے گا، تو اس نے میری نبوت سے انکار کیا ہے۔

علی (ع) خلیفہ و جانشین پیغمبر (ص):

اے علی تم میرے جانشین و خلیفہ ہو اور تم میرے بچوں کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر ہو اور تم میری زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی میری امت پر میرے جانشین اور خلیفہ ہو، تمہارا حکم میرا حکم ہے اور تمہاری نہی میری نہیں ہے۔

ذات خدا کی قسم کہ جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا اور مجھے انسانوں میں سب سے بہتر قرار دیا ہے، یقینا تم مخلوقات پر خدا کی حجت ہو اور خدا کے اسرار کے امین ہو اور اس کے بندوں پر خلیفہ ہو۔

یہ خطبہ مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوا ہے :

شیخ صدوق ، عیون اخبار الرضا، ج 2 ص 265

شیخ صدوق ، امالی ص 155

فضائل الاشہر الثلاثة ، ص 77

نیشاپوری ، محمد بن الفتال ، روضة الواعظین ، ص 345

حر عاملی ، وسائل الشیعہ ، ج 10 ص 314

سید ابن طاؤس ، الحسنی ، اقبال الاعمال ج 1 ص 27

الطبری ، محمد بن علی ، بشارة المصطفی، ص 26

مجلسی محمد باقر ، بحار الانوار ، ج 93 ص 368

بحار الانوار ج 96 ص 157

امام سجاد (ع) کی نگاہ میں ماہِ خدا میں صائم کی ذمہ داریاں:

خداوند کی فرض کی ہوئی عبادات:

خداوند کی جانب سے فرض کی جانے والی یہ عبادات یا کسی خاص جگہ سے مخصوص ہیں یا کسی خاص زمانے سے۔ کسی خاص جگہ سے مخصوص فرض کی جانے والی عبادات میں حج کو اور کسی خاص زمانے سے مخصوص واجب کی جانے والی عبادت میں روزے کا نام لیا جا سکتا ہے۔

خدا وند نے ہم مسلمانوں پر سال میں ایک مہینے کے روزے صرف ماہ مبارک رمضان میں واجب کیے ہیں۔ یہ روزے گذشتہ اُمتوں پر واجب ہونے کے بجائے صرف اُن کے انبیاء پر واجب تھے اور یہ صرف اُمت محمدی کا اعلی و ارفع مقام ہے کہ جس میں خداوند عالم نے ہم مسلمانوں پر بحیثیت اُمتِ مسلمہ ماہ رمضان کے روزے واجب کیے ہیں۔

امام جعفر صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں:

بے شک ماہِ رمضان کے روزوں کو اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے کسی بھی اُمت پر فرض نہیں کیا تھا۔

راوی نے پوچھا:

تو اِس آیت یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ....کا کیا مطلب ہو گا ؟

امام نے جواب میں فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کے روزوں کو اُمتوں کی بجائے اُن کے انبیاء پر فرض کیا تھا اور اُس نے اِس اُمت کو اِس ماہ کے روزوں کی وجہ سے فضیلت دی ہے اور اِس ماہ کے روزوں کو رسول اللہ اور اُن کی اُمت پر فرض کیا ہے۔

میزان الحکمہ،ج 2 ،ص 1648

ماہ رمضان کی دیگر فضیلتیں:

جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ ہر کام کو انجام دینے سے قبل اُس کی کچھ خاص شرائط ہوتی ہیں کہ جن کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے ، اِسی طرح کوئی بھی عمل انجام دیتے وقت اور اُس کے خاتمے کے بعد بھی ، کچھ اور چیزوں کا بھی خیال رکھنا لازمی ہوتا ہے کہ جو عمل کے دوران اُس عمل کو استحکام بخشتے ہیں اور عمل کے خاتمے کے بعد اُس کی حفاظت میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اِنہیں دینی زبان میں مقدِّمات، مقارِنات اور مؤخّرات کہا جاتا ہے۔

ماہِ رمضان بھی خدا کی عبادت کا ایک مبارک مہینہ ہے کہ جس میں خداوند کی رحمت و مغفرت کی رعائتی سیل لگی ہوتی ہے اور رحمت و مغفرت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی بندوں کو شوق دلایا جاتا ہے کہ وہ خدا کی جانب رجوع کریں۔ اِس مبارک ماہ میں کہ جب خدا کی رحمتوں کی بارش ہو رہی ہوتی ہے تو شیطان کو بھی اُس کے لاؤ لشکر کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ کر قید کر دیا جاتا ہے، لیکن شیطان جانے سے قبل ہی ہمیں اتنا زیادہ درس دے کر چلا جاتا ہے کہ اُس کی غیر موجودگی میں بھی ہم اُس کی نیابت میں گناہ کرتے رہتے ہیں !

ماہ رمضان کی ایک بڑی فضیلت:

روایات کے مطابق یہ انسان کیلئے بہترین موقع ہوتا ہے۔ جنت کے دروازے کھلے ہوئے ، جہنم کے دروازے بند اور شیاطین قید میں ہوتے ہیں تا کہ انسان اپنی اصلاح اور تہذیب و تطہیر نفس کیلئے آزادانہ طور اقدامات کر سکے۔

رسول خدا (ص) نے ماہِ شعبان کے آخری جمعہ کے دن ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ اَبْوَابَ الْجِنَانِ فِی ھٰذَا الشَّھْر ِمُفَتَّحَۃٌ فَسَلُوْ ارَبَّکُمْ اَنْ لَا یَغْلُقَھَا عَلَیْکُمْ وَاَبْوَابَ النِّیْرَانِ مُغَلَّقَۃٌ فَسَلُوْا رَبَّکُمْ اَنْ لَا یَفْتَحَھَا عَلَیْکُمْ وَالشَّیَاطِیْنَ مَغْلُوْلَۃٌ فَسَلُوْا رَبَّکُمْ اَنْ لَا یُسَلِّطَھَا عَلَیْکُمْ،

اے لوگو!بیشک اِس ماہ میں جنت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں تو اپنے ربّ سے دعا کرو کہ وہ (اِس ماہ کے ختم ہو جانے کے بعد بھی) تم پر اُن کو بند نہ کرے، اور جہنم کے دروازے اِس ماہ میں بند کر دیئے جاتے ہیں تو اپنے پروردگار سے التجا کرو کہ وہ (اِس ماہ کے ختم ہو جانے کے بعد بھی) تم پر نہ کھولے اور اِس ماہ میں شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے تو اپنے ربّ سے عاجزانہ درخواست کرو کہ (اِس ماہ کے ختم ہو جانے کے بعد بھی) وہ اُن کو تم پر مسلّط نہ کرے۔

خطبہ شعبانیہ ،مفاتیح الجنان،

ماہ مبارک رمضان کا استقبال !!

استقبال ، مادہ قبول سے طلب قبول کو کہا جاتا ہے۔ استقبال کا مطلب ، کھڑے ہو کر چند قدم پیش قدمی کے ساتھ کسی کو قبول کرنا۔

استقبال کی قید کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات انسان کا کوئی ایسا مہمان بھی آتا ہے کہ جس کے آنے سے انسان خوش نہیں ہوتا لیکن وہ اُسے پھر بھی اپنے گھر آنے دیتا ہے لیکن جس مہمان سے اُسے محبت ہو اُس کے استقبال کیلئے چند قدم آگے بڑھتا اور اسے گلے لگاتا ہے۔

امام زین العابدین (ع) نے بہت سے تربیتی نکات کو اپنی دعاؤں اور مناجات کے ضمن میں بیان فرمایا ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے استقبال کی ایک دعا امام زین العابدین (ع) سے منسوب ہے جو صحیفہ سجادیہ میں موجود ہے۔

اِس دعا کے نام سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ امام زین العابدین اور دیگر ائمہ طاہرین (ع) ماہ رمضان اور روزوں کو کتنی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اُس کا استقبال کرنے کیلئے خود کو آمادہ کرتے ہوئے اُس کی شان میں یہ دعا پڑھتے تھے تا کہ اُس کا شایان شان استقبال کیا جا سکے اور دوسرے انسانوں کو بھی اس کا درس دیا جا سکے۔

آنے والا مہمان ، میزبان کو جتنا عزیز اور اُس کیلئے قابل قدر ہو گا، وہ اُس کی آمد سے قبل ہی اُس کی میزبانی کیلئے خود کو آمادہ کرے گا اور اُس کی آمد کے بعد بھی اُس کی یہی کوشش ہو گی کہ وہ اُس کی میزبانی کا پورا پورا حق ادا کرے اور اُس کی مہمان نوازی میں اُس سے کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔

بالکل یہی صورتحال ہمیں امام سجاد (ع) کی سیرت مبارکہ میں نظر آتی ہے کہ آپ ماہ رمضان کی آمد سے قبل اُس کا استقبال کرتے تھے اور اُس کے ایام کے ختم ہونے کے وقت اُسے وداع کرتے تھے۔

استقبال ماہِ رمضان کی اِس دعا میں امام معصوم نے ماہِ رمضان کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ہے اور اِس ماہ میں روزے دار کے وظائف و ذمہ داریوں کو بیان فرمایا ہے تا کہ ایک انسان صائم اِن کی جانب توجہ کرتے ہوئے اپنے روزے کو خدا کی بارگاہ اور اُس کی دعوت و ضیافت میں پہنچنے کے قابل بنا سکے اور اُس کی رحمتوں سے مستفید ہو سکے۔

رمضان المبارک، اللہ کے احسان کی راہ:

امام زین العابدین (ع) سب سے پہلے اِس دعا میں خداوند کی حمد و ثناء کرتے ہوئے، تین نکات بیان کرتے ہیں اور ایک نتیجہ دیتے ہیں:

1- اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ حَبَانَا دِیْنَہُ۔

ساری تعریفیں اللہ کیلئے سزاوار ہیں کہ جس نے ہمیں اپنا دین عطا کیا۔

2- وَاخْتَصَّنَا بِمِلَّتِہِ۔

ہمیں اپنے آئین سے مخصوص کیا۔

3- وَسَبَّلَنَا فِیْ سُبُلِ اِحْسَانِہِ۔

ہمیں اپنے احسان کی راہوں پر چلایا۔

اِن تین نکات میں امام معصوم خدا کی صفت ربوبیت کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ یہ خداوند کی رحمت و مغفرت اور ربوبیت ہے کہ اُس نے ہم انسانوں کی ہدایت کیلئے دین عطا کیا، ہمیں اپنی شریعت سے مخصوص کیا اور اپنے احسان کی راہوں پر چلایا کہ جن پر چل کر ہم میں یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ خود کو اہل جنت میں سے قرار دیں اور آتش جہنم سے نجات پائیں۔ یہ اُس کا احسان ہے اور اُس کے احسان کی بہت سی راہیں ہیں کہ جس کو اُس عظیم ذات نے اپنے بندوں کیلئے کھو لا ہے۔

تا کہ:

لِنَسْلُکَھَا بِمنِّہِ اِلیٰ رِضْوَانِہِ  ،

تا کہ ہم اُس کے دین و آئین سے بہرہ مند ہوتے ہوئے اور اُس کے احسان کی راہوں پر چلتے ہوئے اُس کے احسان و کرم کے سائے میں اُس کی جنت تک جا پہنچیں۔

ماہ رمضان ،خدا وندکے احسان کے راستوں میں سے ایک راستہ:

اِس کے بعد امام سجاد (ع) احسان کی راہوں کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ مِنْ تِلْکَ السُّبُلِ شَہْرَہُ شَہْرَ رَمْضَانٍ۔

ساری تعریفیں اُس ذات کو زیبا ہیں کہ جس نے اپنے احسان کی راہوں میں ایک راہ ماہ مبارک رمضان کو قرار دیا۔

خداوند کے احسان کے راستوں میں سے ایک راستہ ماہ مبارک رمضان ہے کہ جس کے ذریعے انسان خدا کی رحمت و مغفرت کو اِس ماہ میں حاصل کر کے خود کو اُس کی جنت اور بارگاہ میں جانے کے قابل بنا سکتا ہے، یعنی امام زین العابدین (ع) یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر انسان کی خواہش ہو کہ وہ خود کو گناہوں سے پاک کرے اور خود میں یہ صلاحیت پیدا کرے کہ وہ نورانی انسان بن جائے تو وہ اِس ماہ مبارک کی فضیلتوں سے مستفید ہو۔

ماہِ رمضان کی پانچ بڑی خصوصیات:

اِس کے بعد امام زین العابدین (ع) اِس ماہ کی خصوصیات اور فضیلتیں بیان کرتے ہیں:

1- شَہْرَ صِیَامٍ، یہ روزے رکھنے کا مہینہ ہے۔

2- شَہْرَ الاِسْلامِ، یہ اسلام کا مہینہ ہے کہ جس میں اسلام کی عظمت کھل کر سامنے آتی ہے۔

3- شَہْرَ الطُّہُوْر، ِپاکدامنی کو حاصل کرنے اور طہارتِ باطن اور نفس کو پاکیزہ کرنے کا مہینہ ہے۔

4- شَہْرَ التَّمْحِیْصِ، خدا سے دوری کی آلودگی اور گناہوں کی کثافتوں سے خود کو پاک اور خالص کرنے کا مہینہ ہے۔

5- شَہْرَ الْقِیَامِ، یعنی اِس کی راتوں میں خدا کی بارگاہ میں قیام کرنے کا مہینہ ہے۔

جیسا کہ امام سجاد (ع) نے فرمایا ہے کہ:

1- روزے رکھنے کا مہینہ:

سب سے پہلی اور بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ماہِ صیام ہے کہ جس میں مسلمانوں پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ روزوں کا اُمتِ محمدی پر فرض کیا جانا خدا کے فضل و احسان کی بناء پر ہے کہ اُس نے ہم مسلمانوں کو اِس ماہ میں روزے رکھنے کے لائق بنایا ہے۔

2- اسلام کا مہینہ:

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ اسلام کا مہینہ ہے۔ اِس ماہ کو خداوند کی جانب سے اسلام کا مہینہ قرار دینے کا سبب اِس کی خدا کی نظروں میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اسلام کا سب سے بڑا مقصد انسان کو خدا کی نورانی محفل میں جانے کے قابل بنانے کیلئے اُس کے باطن میں موجود گناہوں کی تمام کثافتوں کو دھونا، اُسے پاکیزہ کرنا اور اُس میں ایسی صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جسکی وجہ سے انسان خدا کی جانب پرواز کر سکے۔ یہ مہینہ انسان میں خدا کی جانب پرواز کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور شاید اِسی لیے اِسے اسلام کا مہینہ کہا گیا ہے۔

3- طہارتِ نفس کے حصول کا مہینہ:

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اِسے پاکدامنی کے حصول اور طہارتِ نفس کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ روزے میں بھوک و پیاس کی سختی کو برداشت کرنے، خواہشات نفسانی پر قابو پانے، گناہ کے تمام ممکنہ خیالات کو روکنے اور بھوک و پیاس کی حالت میں نفس کی شکستہ حالت میں انسان کی باطنی حالت اُس کے تذکیہ نفس میں بہترین کردار ادا کرتی ہے۔ سال کے دوسرے مہینوں میں پُر خوری کی وجہ سے انسان میں یہ باطنی کیفیت پیدا نہیں ہو پاتی، جو اُسے تذکیہ و تطہیر نفس کی جانب دعوت دے۔ ماہ صیام کے روزے انسان کو طہارت نفس کی جانب لے جاتے ہیں۔

4- گناہوں کی نجاست سے خود کو پاک اور خدا کیلئے خالص کرنے کا مہینہ:

ماہِ صیام کی چوتھی خصوصیت انسان میں سال کے تمام مہینوں میں خدا سے دوری کی آلودگی اور گناہوں کی کثافتوں سے خود کو پاک کرنے اور خالص بنانے کا مہینہ ہے۔ اِس مہینے میں انسانِ صائم اپنے روزوں کی پاکیزگی اور نورانیت کی وجہ سے کوشش کرتا ہے کہ وہ اِس نورانی مہینے میں خود کو خداوند کی مہمانی و دعوت کے قابل بنا سکے۔ یہ خدا کی مہمانی کا مہینہ ہے۔ رسول خدا (ص) نے ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ایک نہایت فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس میں آپ نے کہا:

قَدْ دُعِیْتُمْ اِلیٰ ضِیَافِۃِ اللّٰہِ،

تم سب کو اِس ماہ میں خدا کی مہمانی کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ خداوند کی یہ دعوت و مہمانی ایک ایسی نورانی محفل ہے کہ جس میں انسان اپنے گناہوں کے ساتھ کسی بھی صورت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ایسی دعوت سے بہرہ مند ہونے کیلئے لازمی ہے کہ انسان خود کو گناہوں کی کثافتوں اور نجاستوں سے پاک کرے اور یہ مہینہ انسان میں یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے۔

5- خداوند کی بارگاہ میں عبادت و قیام کا مہینہ:

اِس مہینے کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ یہ قیام کا مہینہ ہے۔ یوں تو مؤمن انسان کو سال کی تمام راتوں میں خدا کی بارگاہ میں قیام کرنے اور عبادت و تہجد برپا کرنے کی تاکید کی گئی ہے، لیکن اِس ماہ کو خاص طور پر قیام کا مہینہ کہنے کا سبب شاید یہ ہو کہ اِس ماہ میں قیام اور خدا کی بارگاہ میں عبادت کرنے کا ایک خاص ثواب اور درجہ ہے۔ ماہ صیام کی راتوں میں قیام اور عبادت انسان کو ایک خاص معنوی اور روحانی طاقت و قدرت عطا کرتی ہے کہ جو اُسے خدا سے نزدیک کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور ساتھ ہی اِس مہینے کے ختم ہونے کے بعد سال کے دوسرے مہینوں میں اُس کی معنوی مدد بھی کرتی ہے۔

اِس کے بعد وہ اِس ماہ کی دوسری فضیلتوں کو بیان کرتے ہیں:

1- خداوندا ! تو نے اِس ماہ کو اِس کے کثرت احترام اور اِس کی آشکارا فضیلتوں کی وجہ سے بقیہ تمام مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔

2- اِس کی عظمت کے بیان کیلئے جو چیزیں دوسرے مہینوں میں حلال تھیں ، اِس میں حرام کر دیں ہیں۔

3- اِس ماہ میں (روزے کی حالت میں) کھانے پینے سے روکا گیا ہے۔

4- اِس کا وقت مقرر کیا کہ جسے نہ اُس سے قبل قبول کرتا ہے اور نہ اُس کا وقت گزرنے کے بعد اُسے درجہ قبولیت دیتا ہے۔

اِن نکات میں بھی امام زین العابدین (ع) اِس ماہ کی عظمت و فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اِس ماہ رمضان کی فضیلت دوسرے مہینوں پر واضح و آشکار کر دی گئی ہے۔ اِس کیلئے ایک خاص زمانہ معین کیا ہے، اِس کے دنوں میں ایک روحانی کیفیت کے حصول اور معاشرے کے پست طبقات اور محروم افراد سے ہمدردی کیلئے دن میں کھانے پینے سے روکا اور بھوکے و پیاسے رہنے کا حکم دیا ہے کہ جو عام مہینوں میں حلال ہوتا ہے۔ اِس کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ جو چیزیں دوسرے مہینوں حلال ہوتی ہیں، اُنہیں اِس ماہ میں حرام کر دیا گیا ہے۔

اِس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ عام دنوں میں ایک لباس پہنتے ہیں اور ایک خاص قسم کی خوراک کھاتے ہیں لیکن اگر کوئی خاص مہمان آپ کے گھر آئے تو آپ گھر میں ایک خاص قسم کا قانون لاگو کر دیتے ہیں کہ جب تک یہ مہمان یہاں رہے گا، گھر والے ایسا لباس پہنیں گے ، ایسا کھانا کھائیں گے اور اِس قسم کا برتاؤ کریں گے۔ یہ سب اِس لیے ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں اُس مہمان کی قدر و قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ اِسی طرح خدا نے اپنے خاص مہینے کی عظمت کے بیان کیلئے دوسرے ماہ کی حلال چیزوں کو اِس ماہ میں حرام قرار دیا ہے۔

ایک سوال کا جواب:

یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ ماہِ رمضان میں خدا ہمیں بھوکا و پیاسا کیوں رکھنا چاہتا ہے ؟ اِس بھوک و پیاس سے وہ اپنے اور ہمارے لیے کس چیز کا خواہاں ہے ؟

اِس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے:

1- نہ تو خداوند کے کارخانہ قدرت میں پانی کی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی رزق کی کہ جس کی وجہ سے وہ ہمیں بھوکا پیاسا رہنے کا حکم دے۔

2- دوسری بات یہ کہ اُس نے جو عبادات ہم پر فرض کی ہیں اُن کا فائدہ ہماری ہی ذات کو ہوتا ہے کیونکہ اُسے نہ ہماری عبادت سے کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی معصیت و نا فرمانی سے کوئی نقصان۔

3- خداوند اِس بھوک و پیاس سے ہمیں :

الف: اپنے معاشرے سے مربوط اور غریب افراد سے ہمدردی کا احساس پیدا کرنے

ب: قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد کرنے

ج: صحت و سلامتی اور طول عمر عطا کرنے

د: خدا کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے

ھ: خالی شکم رہنے

و: غور و فکر کی عادت ڈالنے جیسے دوسرے فوائد کی جانب ہمیں متوجہ کرانا چاہ رہا ہے۔

شب قدر کی فضیلت:

اِس کے بعد امام سجاد (ع) شبِ قدر کی فضلیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

1- ثُمَّ فَضَّلَ لَیْلَۃً وَّاحِدَۃً مِّنْ لَیَالِیْہِ عَلٰی لَیَالِی اَلْفَ شَہْرٍ وَّسَمَّاھَا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ،

اور اِس کی ایک رات کو اِس کی دوسری راتوں پر ہزار راتوں کے برابر فضیلت دی اور اُسے شب قدر کا نام دیا ہے۔

2- اِس میں ملائکہ کا نزول ہوتا ہے ،

3- یہ رات ، طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

ماہِ رمضان المبارک کی معرفت:

امام سجاد (ع) ماہ رمضان کی معرفت کے حصول کے بارے میں پانچ نکات بیان کرتے ہیں:

1- اللّٰھُمَّ....اَلْھِمْنَا مَعْرِفَۃَ فَضْلِہِ ۔

خداوندا، ہمیں اِس مبارک مہینے کی فضیلت کی معرفت و شناخت عطا فرما۔

2- وَاِجْلَالَ حُرْمَتِہِ۔

ہمیں اِس کے احترام و عظمت کی پہچان کرا۔

3- وَالتَّحَفُّظَ مِمَّا حَظَرْتَ فِیْہِ۔

جو چیزیں اِس ماہ میں حرام کی ہیں، اُن سے دوری کرنے اور اِس ماہ کی حفاظت کی توفیق عنایت فرما۔

4- اَعِنَّا عَلیٰ صِیَامِہِ بِکَفِّ الْجَوَارِحِ عَنْ مَعَاصِیْکَ۔

ہمیں اپنے اعضا و وجوارح کے گناہوں اور اپنی معصیت و نافرمانی سے حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اِس ماہ میں روزے رکھنے کی توفیق عطا فرما۔

5- وَاسْتِعْمَالِھَا فِیْہِ بِمَا یُرْضِیْکَ ۔

ہمیں اپنے اعضاء و جوارح کو اُن چیزوں میں استعمال کرنے کی توفیق عنایت فرما جو ہمیں تیری خوشنودی و رضا سے قریب کر دیں۔

کسی چیز کی فضیلت کا انسانی عمل پر اثر:

اِن نکات میں امام سجاد (ع) ماہ مبارک کی فضیلت کے حصول کی دعا کر رہے ہیں۔ جب انسان کو کسی چیز کی اہمیت و قدر قیمت کا اندازہ ہوتا ہے تو اُس کی حفاظت کیلئے کوشش بھی کرتا ہے اور اُسے اچھی طرح سے استعمال کرنے کی سعی بھی اُس کے افعال میں شامل ہوتی ہے، لیکن اگر کسی انسان کو اپنے پاس موجود خزانے کی اہمیت اور قدر قیمت اور اُس کے گرانبہا ہونے کا اندازہ ہی نہ ہو تو وہ نہ تو اُسے صحیح طرح سے ستعمال کرے گا اور نہ ہی اُس کی حفاظت کی کوئی خاص کوشش کرے گا۔

امام سجاد (ع) اِسی لیے ماہ مبارک رمضان کی فضیلت کے حصول کی دعا کرتے ہیں تا کہ اُس کی فضیلت کو سامنے رکھتے ہوئے انسان اِس کے ہر ہر لمحے سے استفادہ کرنے کی کوشش کرے اور اُس کے کسی بھی لمحے کو ضائع نہ ہونے دے۔

فضیلت و عظمت کا فرق:

دوسرے جملے میں امام زین العابدین (ع) اِس ماہ کی عظمت و احترام کی معرفت کی دعا فرماتے ہیں۔ فضیلت و عظمت میں ایک فرق ہے لیکن دونوں کا مقصد ایک ہے۔ پہلے امام سجاد نے فضیلت کی پہچان کی دعا کی اور اِس دوسرے نکتے میں اِس ماہ کی عظمت کے حصول کی دعا فرمائی۔

کسی چیز کی فضیلت انسان میں اُس کا شوق و اشتیاق پیدا کرتی ہے اور انسان کو تشویق کرتی ہے کہ انسان اُن فضیلتوں کے حصول اور برکتوں کیلئے کوشش کرے جبکہ کسی چیز کی عظمت و احترام انسان میں اُس چیز کا پاس رکھنے ، اُس کی حفاظت کرنے، اُسے نقصان سے بچانے اور اُس کی ہر ہر چیز سے فائدہ حاصل کرنے کی جانب رغبت دلاتی ہے۔

یہاں امام سجاد (ع) نے فضیلت کے ساتھ ساتھ اِس ماہ کی عظمت و احترام کو بھی خداوند سے طلب کیا ہے تا کہ یہ دونوں پہلو مل کر انسان کو ماہ رمضان کی برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں سے کما حقہ استفادہ کرنے کیلئے شوق بھی دلائیں اور دوسری جانب سے انسان میں یہ احساس ذمہ داری پیدا کریں کہ وہ اِس ماہ کے ہر ہر لمحے سے بھر پور فائدہ حاصل کرے۔

گناہوں سے دوری:

تیسرے جملے میں امام سجاد (ع) اِس جانب ہماری توجہ مبذول کرا رہے ہیں کہ جب انسان میں کسی چیز کی فضیلت اور عظمت کی جانب توجہ کی یہ دونوں صفات پیدا ہو جائیں تو وہ خود بخود اُسے نقصان سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

وَالتَّحَفُّظَ مِمَّا حَظَرْتَ فِیْہِ۔

جو چیزیں اِس ماہ میں حرام کی ہیں، اُن سے دوری کرنے اور اِس ماہ کی حفاظت کی توفیق عنایت فرما۔

ماہ رمضان ، نور ہے اور شیطان کی اطاعت ، ظلمت و تاریکی:

اِس تیسرے جملے میں امام سجاد (ع) نے اِس ماہ کی حفاظت کرنے اور اِس میں گناہوں سے بچنے کی دعا فرمائی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گناہ خدا کی مخالفت ، معصیت اور نافرمانی ہے اور در حقیقت ، حکم خدا سے سر پیچی اور شیطان کی اطاعت ہے۔ خدا ، نور ہے اور شیطان ظلمت و تاریکی ، آیۃ الکرسی میں خداوند فرماتا ہے کہ :

اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمَاِت اِلَی النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰآءُ ھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمَاتِ....

اللہ ایمان والوں کا ولی ہے جو اُنہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی جانب لے جاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اُن کے ولی ، طاغوت ہیں جو اُنہیں نور سے نکال کر ظلمات و تاریکیوں کی جانب لے جاتے ہیں۔

سورہ بقرہ آیت 257

پس خدا اور اُس کی اطاعت نور ہے اور خدا کی مخالفت اور شیطان کی اطاعت ، ظلمت و تاریکی ہے۔ خدا کا یہ مہینہ بھی نور ہے اور انسانوں کو نور کی جانب دعوت بھی دیتا ہے۔ نور ، تایکی کی ضد ہے اور اِن دونوں میں کوئی قدرِ مشترک وجود نہیں رکھتی۔ لہٰذا امام سجاد اِس نورانی ماہ میں گناہوں اور خدا کی مخالفت سے دوری کی دعا کرتے ہیں۔ امام سجاد یہی فرما رہے ہیں کہ اگر کوئی انسان ماہ مبارک رمضان کی فضیلتوں سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے، تو اُسے چاہیے کہ اِس ماہ کی نورانیت کو تاریکی میں تبدیل کرنے والے کاموں، گناہوں اور معصیت سے دوری اختیار کرے، جو کسی بھی صورت میں اِس ماہ سے کوئی بھی مناسبت نہیں رکھتے۔

خداوند سے مدد کی درخواست:

چوتھے جملے میں امام زین العابدین (ع) خداوند سے اِس ماہ صیام کے روزے رکھنے کیلئے اُس سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔

اَعِنَّا عَلیٰ صِیَامِہِ بِکَفِّ الْجَوَارِحِ عَنْ مَعَاصِیْکَ،

ہمیں اپنے اعضاء و جوارح کے گناہوں اور اپنی معصیت و نافرمانی سے حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اِس ماہ میں روزے رکھنے میں ہماری مدد فرما۔

حقیقت تو یہی ہے کہ خدا کی مدد اور اُس کی عطا کردہ توفیق کے بغیر انسان کوئی بھی کار خیر انجام نہیں دے سکتا۔ انسان اِس ماہ میں اپنے اعضاء و جوارح کو گناہوں کے ارتکاب سے بچاتے ہوئے جہاں یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی روح کو نورانی بنائے، وہیں اپنے اعضاء و جوارح کو بھی حکم خدا کے مطابق نورانی بناتا ہے۔

توفیق سے کیا مراد ہے ؟

یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے اور وہ توفیق کے بارے میں ہے۔ توفیق سے کیا مراد ہے اور جب انسان کو نیک اعمال کی انجام دہی کی توفیق طلب کرنے کا کہا گیا ہے، تو اِس سے کیا مراد ہے۔ ہم لوگوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ توفیق ایک ایسی چیز ہے کہ جسے خداوند سے طلب کرنے کے بعد انسان کا اپنا کام ختم ہو جاتا ہے اور ساری کی ساری ذمہ داری خداوند پر عائد ہو جاتی ہے۔ در اصل یہ توفیق کے مفہوم کے بالکل خلاف ہے۔

توفیق در اصل خدا کی بارگاہ میں انسان کی اپنی آمادگی اور تیاری کا اعلان کرنا ہے ۔ توفیق انسان میں عمل انجام دینے کیلئے ہمت و حوصلہ اور شوق و رغبت پیدا کرتی ہے۔ توفیق در اصل انسان کا خود کو تلقین کرنا اور اپنے آپ کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ راہ خدا میں کسی عمل کی انجام دہی کیلئے حاضر ہے۔ جب ہم خداوند سے کسی بھی عمل کو انجام دینے کی دعا کرتے ہیں، تو اِس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم خود کو اُس عمل کو انجام دینے کیلئے تیار کر رہے ہیں۔

توفیق کا غلط معنی و مفہوم:

توفیق کے عوامی مفہوم سے ہمارے اذہان میں یہ معنی اُبھرتا ہے کہ بس توفیق کی دعا کرو اور تمہارا کام ختم ہو گیا۔ ساری کی ساری ذمہ داری اللہ پر عائد ہوتی ہے خواہ وہ تمہیں فلاں کام انجام دینے کی توفیق دے یا نہ دے۔ اگر اُس نے توفیق دی تو ٹھیک ہے اور اگر نہ دی تو اِس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ یہ در اصل وہ غلط تصور و مفہوم ہے کہ جو عرصہ دراز سے ہمارے معاشرے کی اجتماعی روح اور دینی مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ اِس غلط تصور کے مطابق انسان نہ صرف کاہل ہو جاتا ہے بلکہ کسی بھی کام کو انجام دینے کی ممکنہ صلاحیتوں کو بھی انسان سے سلب کر لیتا ہے۔ اب اگر یہی اجتماعی روح اور معاشرتی مزاج باقی رہے تو بتائیے کہ کون فعالیت ، کام اور محنت و مشقت کیلئے تیار ہو گا ؟!

توفیق کا صحیح و حقیقی مفہوم:

توفیق در اصل ایک دعا ہے کہ جسے انسان انجام دیتا ہے اور اپنے آپ کو تلقین کرتا ہے کہ تم فلاں کام کیلئے آمادہ ہو جاؤ۔ جب انسان دن میں کئی مرتبہ کسی خاص کام کو انجام دینے کی توفیق کی دعا کرے تو نفیساتی لحاظ سے اُس کے نفس اور باطن میں ایک اندرونی طاقت و قدرت پیدا ہوتی ہے کہ جو اُسے اُس کام کو انجام دینے کیلئے شوق دلاتی ہے اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ کام کیا ہے کہ جسے انجام دینے کیلئے میں خدا سے بار بار توفیق کی دعا کر رہا ہوں! اور نتیجے میں انسان اُس کام کو انجام دیتا ہے۔

اپنے آپ سے مذاق نہ کریں:

امام رضا (ع) فرماتے ہیں:

مَنْ سَأَلَ اللّٰہَ التَّوْفِیْقَ وَلَمْ یَجْتَھِدْ فَقَدِ اسْتَھْزَأَ بِنَفْسِہِ...

جو شخص خدا سے عمل کی توفیق طلب کرے اور عمل کی کوشش نہ کرے تو وہ شخص اپنے آپ سے مسخرہ کرتا ہے۔

مجموعہ ورّام،ج 2 ص 111

جو لوگ بغیر کسی محنت و جدّوجہد کے خدا کی راہ میں اُس سے عمل انجام دینے کی توفیق کا سوال کرتے ہیں تو وہ روحانی کمالات اور عرفانی مقامات تک پہنچنے میں خود کا مذاق اُڑاتے ہیں۔

پس توفیق اور عمل میں لازم و ملزوم کا تعلق پایا جاتا ہے۔ جہاں توفیق ہوتی ہے، وہیں عمل انجام پاتا ہے اور جہاں عمل انجام پایا جائے، اُس کے پیچھے کسی مضبوط و مستحکم توفیق کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پس انسان جتنا توفیق کی دعا کرے گا اُتنا ہی اُس کا عمل بھی زیادہ ہوتا رہے گا۔

توفیق کو ایک مثال کے ذریعے سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ آپ ایک اسپورٹس مین کو فرض کیجئے جو کسی عالمی مقابلے میں شرکت کیلئے حصہ لیتا ہے۔ اُس عالمی مقابلے کے فائنل میں ممتاز مقام حاصل کرنے کیلئے وہ جتنی بھی مشق کرے گا اور محنت و مشقت سے کام لے گا، فائنل میں اُس کے پہلے درجے پر آنے کے امکانات اتنے ہی بڑھتے جائیں گے۔ اگر وہ صرف اول آنے کے خواب ہی دیکھتا رہے اور عملاً کوشش نہ کرے تو اُس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔ توفیق بھی بالکل ایسی ہی ہے کہ انسان جب کسی عمل کو انجام دینے کیلئے توفیق کی جتنی بھی کوشش کر ے گا اُس عمل کو انجام دینے کے امکانات بھی اتنے ہی بڑھتے جائیں گے۔

توفیق کی علامات اور نشانیاں:

انسان سے صادر ہونے والا ہر نیک و صالح عمل یا ترک معصیت کے بارے میں خداوند کی توفیق کے شامل ہونے کی یہ بات اُسی وقت کہی جا سکتی ہے کہ جب اُس میں توفیق کی علامتیں اور نشانیاں موجود ہوں۔ اِس لیے کہ ممکن ہے کہ کوئی عمل ظاہری صورت میں انجام پائے لیکن اُس عمل کی کیفیت اور روح میں توفیق انسان کے شامل حال نہ ہو سکے اور وہ عمل مقبول شمار نہ کیا جائے:

1- عقل سے موافقت:

کسی بھی فکر و عقیدے یا کسی بھی عمل و فعل یا انسان سے کسی بھی صفت کے ظاہر ہونے میں اُس کے حق ہونے کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ عقل کے بدیہی اور مسلّم احکامات سے موافقت رکھتی ہو، جو بذاتِ خود اُس عمل کیلئے خدائی ہونے اور اُس کی رضایت کے حصول کے اسباب کا مہیا ہونا ہے۔ مولا علی (ع) کا ارشاد ہے:

اَلتَّوْفِیْقُ مُمِدُّ الْعَقْلِ،

توفیق ، عقل کی مدد کرنے والی ہے۔

غرر الحکم، حدیث: 718

2- عمل کا نتیجہ بخش ہونا اور اُس کا پایہ تکمیل تک پہنچنا:

اگر کسی عمل کو انجام دینے میں انسان کو خدا کی توفیق حاصل ہو جائے تو وہ عمل نتیجہ بخش ثابت ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسا عمل ابتداء میں اپنے نتیجے تک نہ پہنچے لیکن توجہ اور محنت اور اُس کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی طرف توجہ سے وہ نتیجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں:  

مَنْ لَمْ یَمُدُّہُ التَّوْفِیْقُ لَمْ یَنِبْ اِلیٰ الْحَقِّ،

جس کسی کو توفیق مدد نہ کرے تو وہ حق کی جانب لوٹ نہیں سکتا۔

غرر الحکم، حدیث: 476

3- بغیر آفت کے عمل کا انجام پانا:

انسان بہت سے عمل انجام دیتا ہے لیکن یہ عمل بہت سے عُجب، تکبر، ریا، حسد، احسان جتلانے اور اِس جیسی دوسری آفتوں اور بلاؤں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایسی چیزو ں کا عمل میں پایا جانا، اُس کے انجام پانے میں توفیق کے نہ ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ امام علی (ع) کا ارشاد ہے:

لَمْ یُوَفِّقْ مَنِ اسْتَحْسَنَ الْقَبِیْحَ وَ اَعْرَضَ عَنْ قَوْلِ النَّصِیْحِ،

جو شخص بھی کسی بھی بری اور قبیح بات کو اچھا جانے اور اپنے خیر خواہ کی باتوں کو پس پشت ڈال دے تو (یہ اِس بات کی علامت ہے کہ) وہ کامیاب نہیں ہوا ہے۔

غرر الحکم،حدیث: 104

مَنْ اَمَدَّہُ التَّوْفِیْقُ اَحْسَنَ الْعَمَلَ،

جس کسی کو توفیق نصیب ہو جائے وہ بہترین اور نیک عمل انجام دیتا ہے۔

غرر الحکم،حدیث: 300

4- معنوی لذت کا حصول:

انسان کے اعمال و عبادات اُسی وقت با نشاط و شادابی کے ساتھ انجام پائیں گے کہ جب وہ خداوند کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ انجام پائیں اور عمل انجام دینے والا شخص یہ سمجھ لے کہ اُس نے رضائے الٰہی کو حاصل کر لیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اُس کا عمل بے روح اور پژمردہ ہو گا۔ حضرت علی (ع) کا فرمان ہے:

کَیْفَ یَتَمَتَّعُ بِالْعِبَادَۃِ مَنْ لَمْ یَعِنْہُ التَّوْفِیْقُ،

وہ شخص عبادت سے کیسے لذت حاصل کر سکتا ہے کہ جس کی توفیق نے مدد نہ کی ہو۔

غرر الحکم،حدیث: 566

توفیق کو وجود میں لانے والے عوامل اور اسباب:

جب ہم یہ بات جان گئے کہ توفیق کے ذریعے سے ہر عمل کے اسباب مہیا کیے جاتے اور اُسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے، تو اب یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس میں کچھ اسباب کو مہیا کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ جن کی جانب اشارہ کیا جائے گا:

1- دعا:

خدا کی بارگاہ میں انسان کا فقر اور اُس کا نیاز مند ہونا، اُس کے کمال کا ایک اعلیٰ مرتبہ اور فیوضاتِ الٰہی کے حصول کیلئے اُس کی ظرفیت و استعداد کی نشانی ہے۔ خاکساری اور عاجزی ، خداوند کی توفیقات کو اپنے اندر جذب کرنے کی زمین ہموار کرتے ہیں۔ امیر المومنین علی (ع) اِس بارے میں فرماتے ہیں:

اَیُّھَا النَّاسُ ! اِنَّہُ مِنِ اسْتَنْصَحَ اللّٰہَ وَفَّقَ، وَمَنِ اتَّخَذَ قَوْلَہُ دَلِیْلاً ھُدِیَ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ فَاِنَّ جَارَ اللّٰہِ آمَنَ وَعَدُوُّہُ خَاءِفٌ،

اے لوگو ! جس کسی نے بھی اللہ سے نصیحت کا سوال کیا، وہ کامیاب ہو جائے گا اور جس کسی نے خدا کی باتوں کو اپنا رہنما قرار دیا وہ مستحکم و مضبوط امر کی جانب ہدایت پا جائے گا، اِس لیے کہ خدا کی پناہ میں آنے والا امان میں اور اُس کا دشمن اُس سے خائف ہے۔

نہج البلاغہ،خطبہ 147

حضرات معصومین (ع) کی دعاؤں میں خدا سے توفیق طلب کرنے کا ذکر موجود ہے۔ حضرت امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) ماہ رمضان المبارک میں ہر روز یہ دعا مانگتے تھے:

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ، وَفِّقْنیْ فِیْہِ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ عَلیٰ اَفْضَلِ حَالٍ تُحِبُّ اَنْ یَکُوْنَ عَلَیْھَا اَحَدٌ مِنْ اَوْلِیَآءِکَ وَاَرْضَاھَا لَکَ،

خدایا ! محمد و آل محمد (ع) پر درود و سلام بھیج اور مجھے اِس ماہِ رمضان میں شب قدر کو بہترین حال اور خوشنود ترین حالت میں حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرما کہ جس کو تو اپنے اولیاء کیلئے پسند کرتا ہے۔

بحار الانوار، ج 98 ص 102

2- عزم و ارادہ:

خداوند کی عطا کردہ توفیق، انسان کے عزم و ارادے سے مربوط ہوتی ہے، اِس لیے کہ خدا کی جانب قدم اُٹھانے والوں کیلئے عزم و ارادہ ایک بہترین توشہ راہ ہے۔ امام سجاد (ع) خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

فَقَدْ عَلِمْتُ اَنَّ اَفْضَلَ زَادِ الرَّاحِلِ اِلَیْکَ عَزْمُ اِرَادَۃٍ یَخْتَارُکَ بِھَا،

بیشک میں نے یہ بات جان لی کہ تیری جانب قدم اُٹھانے اور کوچ کرنے کا سب سے بہترین توشہ وہ مستحکم ارادہ ہے کہ جس کے ذریعے سے تجھے اختیار اور تیرا قصد کیا جائے۔

بحار الانوار،ج 98 ،ص 20

انسان کی ہمت و ارادہ اُس کی نیت کو تبدیل کر دیتا ہے اور اُس کی نیت جیسی اور جتنی بھی ہو، اُسے اُسی نسبت سے خدا کی توفیق حاصل ہو جاتی ہے۔ امام علی (ع) اِس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

عَلَی قَدرِ النّیَۃِ تَکُوْنُ مِنَ اللّٰہِ الْعَطِیَّۃِ،

انسان کی نیت کے اندزے کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ کی عطا نصیب ہوتی ہے۔

غرر الحکم،حدیث: 306

پس پست ہمت اور کم حوصلے و ارادے والے افراد اعلی مقامات کو درک و حاصل کرنے سے عاجز ہیں اور نہ ہی اُنہیں خدا کی توفیقات کے حصول کے انتظار میں بیٹھنا چاہیے۔ امام صادق (ع) ایسے پست ہمت اور کوتاہ نیتوں والے افراد کو خبر دار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اِنَّمَا قَدَّرَ اللّٰہُ عَوْنَ الْعِبَادِ عَلیٰ قَدْرِ نِیَّاتِھِمْ ،فَمَنْ صَحَّتْ نِیَّتُہُ تَمَّ عَوْنُ اللّٰہِ لَہُ ، وَمَنْ قَصُرَتْ نِیَّتُہُ قَصُرَ عَنْہُ الْعَوْنُ بِقَدَرِ الَّذِیْ قَصَّرَ،

بیشک خدا نے اپنے بندوں کی مدد و اعانت، اُن کی نیتوں کے اندازوں کے مطابق مقرر کی ہے۔ پس جس کسی کی بھی نیت صحیح ہو گی، خدا کی مدد اُس کیلئے تمام ہو جائے گی اور جو پست ہمت اور کم مقدار کی نیت کا مالک ہو گا، خدا کی مدد بھی اُسی اندازے کے مطابق کہ جتنی اُس نے کوتاہی کی، اُس کے شامل حال ہو گی۔

بحار الانوار، ج 70 ص 211

3- محنت و جدّوجہد:

ایک عمل کو انجام دینے میں لازمی ہے کہ اُس کی تمام شرائط پوری ہوں اور ایک یا چند عامل کی کمی اُس عمل کو وجود میں لانے کو غیر ممکن بنا دیتی ہے۔

شوق و رغبت، انگیزہ، علم و آگاہی، محنت و جدّوجہد ، فعالیت اور خدا کی عطا کردہ توفیق ایک نیک اور صالح عمل کو انجام دینے کے بنیادی عوامل میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی ایک نیک اور صالح عمل کو انجام دینے کی کوشش و جدّوجہد کرے لیکن خدا کی توفیق اُس کے شامل حال نہ ہو سکے تو امیر المومنین (ع) کی نگاہ میں اُس کی محنت و جدّوجہد کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا:

لَا یَنْفَعَ اجْتِھَادٌ بِغَیْرِ تَوْفِیْقٍ،

خدا کی مدد و توفیق کے بغیر کوئی محنت و جدّوجہد سُود بخش ثابت نہیں ہوتی۔

غرر الحکم،حدیث: 406

ایک اور مقام پر محنت اور توفیق کے درمیانی رشتے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خَیْرُ الْاِجْتِھَادِ مَا قَارَنَہُ التَّوْفِیْقُ،

سب سے بہترین کوشش و جدّوجہد وہ ہے جو خدا کی توفیق کے ساتھ انجام پائے۔

غرر الحکم،حدیث: 431

امام علی رضا (ع) کی ایک نہایت ہی دلچسپ اور ہمیں حقیقت کا آئینہ دکھانے والی ایک حدیث ہے کہ:

سات چیزوں کی تمنا اور اُن کا حصول سات چیزوں کے بغیر اپنے آپ سے مذاق و مسخرہ کرنا ہے:

1- کوئی اپنی زبان سے استغفار کرے اور اپنے دل میں نادم و پشیمان نہ ہو تو وہ اپنے آپ سے مسخرہ کرتا ہے۔

2- جو اللہ سے توفیق کا سوال کرے اور عمل کی کوشش نہ کرے تو وہ اپنے آپ سے مسخرہ کرتا ہے۔

3- کوئی خدا سے دور اندیشی کا سوال کرے اور اُس سے نہ ڈرے تو وہ اپنے آپ سے مسخرہ کرتا ہے۔

4- جو اللہ سے جنت کا سوالی بنے اور مشکلات پر صبر نہ کرے تو وہ اپنے آپ سے مسخرہ کرتا ہے۔

5- جو آتش جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور دنیوی خواہشات کو ترک نہ کرے، تو وہ اپنے آپ سے مسخرہ کرتا ہے۔

6- جو موت کو یاد کرے لیکن خود کو اُس کیلئے تیار نہ کرے تو وہ اپنے آپ سے مسخرہ کرتا ہے۔

7- جو اللہ کا ذکر کرے اور اُسے یاد کرے لیکن اُس سے ملاقات کیلئے جلدی نہ کرے تو وہ اپنے آپ سے مسخرہ کرتا ہے۔

 مجموعہ ورّام، ج 2 ص 111

روزے کے انسان پر کون سے تربیتی اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟

روزہ، تزکیہ نفس، انسان کے اپنے نفس پر غلبہ پانے اور نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی ایک قسم کی مشق ہے۔

روزہ جسمانی فوائد کے علاوہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے تربیتی اور تعمیری فوائد رکھتا ہے، جیسے: صبر کی تقویت، آخرت کی یاد، شہوت پر کنٹرول کرنا، فقراء کے ساتھ ہمدردی کی حس میں فروغ اور طبقاتی فاصلوں کو کم کرنا شامل ہے۔

امام صادق (ع) نے روزے کے فوائد میں سے ایک کو یوں بیان فرمایا ہے:

روزہ اس لیے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات برقرار ہو جائے اور یہ اس لیے ہے کہ غنی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ ثروتمند عام طور پر جو چاہتا ہے وہ اس کے لیے مہیا ہوتا ہے، اور خدا اپنے بندوں کے درمیان مساوات چاہتا ہے اور ثروتمند افراد کو بھوک، درد و رنج کا مزہ چکھانا چاہتا ہے تا کہ وہ ضعیفوں اور بھوکوں پر رحم کریں۔

خداوند نے سال کے اکثر ایام ، خاص کر رمضان المبارک میں روزہ کی تشریع کر کے انسان کے لیے ایک مناسب فرصت پیدا کی ہے تا کہ وہ قرب الہی تک پہنچنے کی بالقوہ استعداد کو عملی جامہ پہنا سکے، اور اپنے خلیفۃ الہی کے مقام کے نزدیک پہنچے، کیونکہ روزے کے تمام اخلاقی اور جسمانی اثرات و فوائد تقوی کی راہ میں ہوتے ہیں، جیسا کہ قرآن میں ہے:

صاحبان ایمان ، تمہارے پر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں  کہ جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے، شاید تم اسی طرح متقی بن جاؤ۔

سورہ بقره، آیت 183.

قابل ذکر بات ہے کہ اگرچہ اصل روزہ انسان کے جسم و روح پر اثر ڈالتا ہے، اس لحاظ سے روزہ ایک وسیع نعمت اور خداوند کی عام رحمت کا مصداق ہے اور سب لوگ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں، لیکن اگر یہ عبادی عمل، اپنی معنوی خصوصیات اور کمال کے صفات اور اخلاقی فضائل کے ہمراہ ہو تو یقینا، روزہ انسان کو کمال تک پہنچانے میں کافی موثر ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک عام انسان کا روزہ، تقوی اور انسانی کمال کے مراحل طے کر کے اخلاق الہی کے مالک بنے ہوئے شخص کے روزوں سے کافی فرق رکھتا ہے۔

روزہ، انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے جسمانی فوائد کے علاوہ تربیتی و تعمیری فوائد سے مالا مال ہے۔ یہاں پر ہم ذیل میں ان میں سے بعض فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

روزے کے انفرادی اثرات:

1- صبر کی پائیداری کی تقویت:

اخلاقی و انسانی فضائل میں سے ایک صبر ہے کہ اس کے بارے میں کافی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ سالک قرب الہی کی طرف گامزن ہوتا ہے اور اس صفت کا مالک ہونے کی صورت میں تمام نشیب و فراز، مشکلات اور مصیبتوں کے ساتھ مقابلہ کر کے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔

اس نفسانی طاقت اور انسانی فضیلت تک پہنچنے کا ایک طریقہ روزہ ہے، معصومین (ع) کی طرف سے ہم تک پہنچی روایات کے مطابق آیہ مبارکہ:

واستعینوا بالصبر والصلاۃ" میں لفظ " صبر" کی تفسیر روزہ کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) رمضان المبارک کو ماہ صبر جانتے ہوئے فرماتے ہیں:

اے لوگو ! بیشک ایک ایسا مہینہ آپ پر سایہ فگن ہوا ہے کہ جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے اور وہ ماہ رمضان ہے۔ خداوند نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا واجب قرار دیا ہے اور یہ مہینہ، صبر کا مہینہ ہے۔

کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 4، ص 63 و 64،

مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 93، ص 254،

عاملی، شیخ حرّ، وسائل الشیعة، ج 10، ص 408،

کافی، ج 4، ص 66.

حقیقت میں روزے کے اثرات میں سے ایک اہم اثر روزہ دار کی روح و جان میں صبر کا روحانی و معنوی اثر ہے، کیونکہ روزہ بھوک اور پیاس کے مقابلے میں عارضی محدودیت فراہم کر کے اسے پائیداری و صبر و شکیبائی کی طاقت عطا کرتا ہے تا کہ انسان جانکاہ حوادث اور نفسانی خواہشات پر کنٹرول پا کر اپنے دل میں نور و صفا پیدا کر سکے۔

تفسیر نمونه، ج 1، ص 629.

2- آرام و سکون:

روزہ، خاص کر رمضان المبارک کا روزہ، روزہ دار کے لیے دو لحاظ سے آرام و آسائش کا سبب بنتا ہے اور روزہ دار کو پریشانیوں اور اضطراب سے نجات دلاتا ہے، ان میں سے ایک انسان کو صبر عطا کرنا ہے اور صابر انسان اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اور خدا کا مطیع ہوتا ہے اور جو شخص ایسا ہو اس میں ایک اطمینان و سکون پیدا ہوتا ہے، کیونکہ صبر کی حقیقت اور اس کے معنی آرام و سکون ہیں اور حقیقت میں صابر وہ ہے کہ جو فوری طور پر حوادث کے زیر اثر قرار نہیں پاتا ہے اور مخالف ہوائیں اس کے پائے استقلال میں جنبش پیدا نہیں کر سکتی ہیں اور اسے مضطرب نہیں کر سکتی ہیں۔

بانوى اصفهانى، سيده نصرت امين‏، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، ج 1، ص 306،

 بلاغى، سيد عبد الحجت،‏ حجة التفاسیر و بلاغ الاکسیر، ج 1، ص 135،

دوسری جانب، روزہ خداوند کی عملی یاد اور ذکر ہے اور یقینا خدا کی یاد دلوں کو آرام و سکون بخشتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور آگاہ ہو جاؤ کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

سورہ رعد، آیت 28.

روزہ دار کو حاصل ہونے والے اطمینان و سکون کے علاوہ اسے خاص طور پر افطار کے وقت لذت بھی حاصل ہوتی ہے، اسی وجہ سے امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

روزہ دار کے لیے دو شادمانیاں ہیں، ایک شاد مانی سے افطار کے وقت بہرہ مند ہوتے ہیں اور دوسری شادمانی خداوند سے ملاقات ہوتے وقت حاصل ہوتی ہے۔

شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج 2، ص 76،

اس کے علاوہ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) سے اپنے ایک ارشاد میں فرمایا ہے:

اے علی مؤمن دنیا میں تین بار خوشحال ہوتا ہے:

ایک اپنے بھائیوں سے ملتے وقت، دوسرا رمضان المبارک میں افطار کے وقت اور تیسرا رات کے آخری وقت پر نماز شب پڑھتے ہوئے۔

من لایحضره الفقیه، ج 4، ص 360.

3- آخرت کا رجحان:

روزے کے انفرادی اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ روزہ انسان میں آخرت کا رجحان پیدا کرتا ہے، کیونکہ روزہ دار انسان اپنی بھوک اور پیاس کی وجہ سے، قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اس روز کے لیے کسی زاد راہ کا اہتمام کرے۔

پیغمبر اسلام (ص) خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں:

رمضان کے روزوں کے دوران تم لوگ اپنی بھوک اور پیاس کی وجہ سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔

وسائل الشیعة، ج 10، ص 313.

آنحضرت (ص) کی ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ:

بہشت کا ریان (سیراب شدہ) نام کا ایک دروازہ ہے کہ اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔

وسائل الشیعة، ج 10، ص 404؛

شیخ صدوق، معانی الاخبار، ص 409،

مرحوم شیخ صدوق اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ:

بہشت کے اس دروازے کے لیے اس نام کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ، روزے دار کی زیادہ زحمتیں پیاس کی وجہ سے ہوتی ہیں، جب روزہ دار اس دروازے سے بہشت میں داخل ہوتا ہے، تو وہ یوں سیراب ہو گا کہ پھر اس کے بعد کبھی بھی اسے پیاس نہیں لگے گی۔

معانی الاخبار، ص 409،

4- شہوتوں پر کنٹرول کی طاقت:

رحمت الہی سے دور ہونے اور خداوند کے بے حساب الطاف الہی سے محروم ہونے کی اہم وجہ انسان کا نفسانی پھندوں اور شہوتوں، خاص کر جنسی شہوتوں میں پھنسنا ہے۔ دینی تعلیمات میں ، ان شہوتوں پر کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح سمت دینے اور انہیں تبدیل کرنے کے لیے بہت سے دستور العمل اور طریقہ کار بیان کیے گئے ہیں کہ ان طریقوں میں سے ایک روزہ داری ہے، کیونکہ روزہ ایک قسم کی فطری اور معقول ریاضت ہے کہ اگر اسے منظم و مرتب صورت میں دہرایا جائے، تو انسان میں گناہوں سے بچنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے اور روزہ اسے اپنے ارادہ پر مسلط کرتا ہے اور شخص روزہ دار ہر گناہ کے مقابلے میں اختیار کی لگام کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ہے، اور خداوند کا تقرب حاصل کرنے میں سستی اور کاہلی سے دوچار نہیں ہوتا ہے ، اور گناہوں سے پرہیز کرتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید جملہ، لعلکم تتقون  سے اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

صاحبان ایمان؛ تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے، شاید تم اسی طرح متقی بن جاؤ،

سورہ بقره، آیت 183،

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں :

اے جوانو ! جو بھی تم میں سے بہتر زندگی گزارنا چاہتا ہے تو، وہ ازدواج کرے، کیونکہ ازدواج نظروں اور شرم گاہ کی حفاظت کے لیے بہتر ہےاور جس میں ازدواج کے لیے مالی طاقت نہ ہو، وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ اس کے لیے شہوت پر کنٹرول کرنے کا سبب بن جائے گا۔

محدث نوری، مستدرک الوسائل، ج 14، ص 153،

5- اخلاص کو بڑھانے کا سبب:

امام علی (ع) فلسفہ عبادات بیان کرتے ہوئے روزے کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

خداوند نے روزہ کو اخلاص کے امتحان اور تعلیم کے لیے واجب کیا ہے۔

سید رضی، نهج البلاغه، ص 512،

حضرت فاطمہ زہرا (س) اس سلسلہ میں فرماتی ہیں:

خداوند نے روزہ کو اخلاص کو مستحکم کرنے کے لیے واجب قرار دیا ہے۔

بحارالانوار، ج 93، ص 368.

اس بناء پر روزہ ، انسان میں اخلاص پیدا کرنے اور اسے رشد و ترقی بخشنے کے لیے موثر ہے، کیونکہ روزہ ایک قسم کا پرہیز ہے، اس لیے تنہا مخفی عبادت ہے اور جب تک خود شخص بیان نہ کرے، خدا کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا کہ وہ روزے سے ہے۔

روزہ کے اجتماعی و معاشرتی فوائد:

روزے کے بعض سماجی فوائد حسب ذیل ہیں:

1- فقراء کے ساتھ ہمدردی کی حس کی شکوفائی اور طبقاتی فاصلوں کا کم ہونا:

روزہ انسان میں ضعیف طبقوں کے ساتھ ہمدردی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ روزہ دار اپنی عارضی بھوک اور پیاس کے ذریعہ اپنے جذبات کو بیدار اور فروغ بخشتا ہے اور بھوکوں اور حاجتمندوں کی حالت کا بہتر صورت میں ادراک کرتا ہے اور اس کی زندگی میں ایک ایسی راہ کھلتی ہے کہ وہ اپنے ما تحتوں کے حقوق کو ضائع نہیں کرتا ہے اور محروموں کے دکھ درد سے غافل نہیں رہتا۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ ثروتمندوں اور سرمایہ داروں کو بھوکوں اور پیاسوں کے حالات بیان کر کے ان کی طرف متوجہ کیا جائے، لیکن اگر یہ مسئلہ حسی اور عینی پہلو اختیار کرے  تو اس کے بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔

امام صادق (ع) سے ایک مشہور حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ:

ہشام ابن حکم نے روزے کے واجب ہونے کی علت کے بارے میں سوال کیا تو امام نے جواب میں فرمایا:

روزہ اس لیے واجب ہوا ہے کہ غنی اور فقیر کے درمیان مساوات قائم ہو جائے اور یہ اس لیے ہے کہ غنی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ دولتمند لوگ عام طور پر جو چاہتے ہیں، وہ ان کے لیے مہیا ہوتا ہے، خداوند اپنے بندوں کے درمیان مساوات قائم کرنا چاہتا ہے اور دولتمندوں کو بھوک اور درد و رنج کا مزہ چکھانا چاہتا ہے تا کہ وہ ضعیفوں اور بھوکوں پر رحم کریں۔

من لا یحضره الفقیه، ج 2، ص 73.

2- حسن معاشرت:

روزہ داری انسان میں معنوی امور کو تقویت بخشتی ہے اور اسے سماجی برائوں سے نجات دے کر اپنے ہم نوعوں کے ساتھ اجتماعی تقوا اور حسن معاشرت کی راہ پر قرار دیتی ہے، البتہ یہ نتائج ماہ مبارک رمضان میں زیادہ جلوہ دکھاتے ہیں، کیونکہ اس میں اکثر لوگ روزہ دار وتے ہیں اور افطاری دینے کے مستحبات پر عمل کیا جاتا ہے۔

3- معاشرے میں معنوی فضا کا پیدا ہونا اور سماجی برائیوں میں کمی واقع ہونا:

روزہ، انسان میں تقوا کا جذبہ اور ہمدردی کا احساس پیدا کرتا ہے اور رفتہ رفتہ ان خصوصیات کو تقویت بخشتا ہے اور معاشرہ کے فرد فرد پر براہ راست اثر ڈالتا ہے، کیونکہ اکثر انفرادی و اجتماعی گناہوں کا سر چشمہ، غضب اور شہوت ہے اور روزہ ان دونوں سے روکتا ہے، لہذا معاشرے میں فساد اور برائیوں میں کمی واقع ہونے اور تقوا میں اضافہ ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔

قرائتی، محسن، تفسیر نور، ج 1، ص 281،

یہ بات مسلّم ہے کہ جس معاشرے کے اکثر افراد، خاص طور پر رمضان المبارک میں روزہ دار ہوں، تو وہ معنوی فضا کے مالک ہوتے ہیں، ان میں اجتماعی ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور ثقافتی اور سماجی برائیوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اہل بیت (ع) کی نگاہ میں روزے کی حکمت اور فلسفہ:

پيامبر اكرم (ص) اور روزه:

پيامبر خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ :

المعدة بيت كل داء ، والحمئة رأس كل دواء،

معده ہر درد و بیماری کا گھر ہے اور پرہیز (کم کھانا) کرنا، ہر دوا اور علاج کی بنیاد و جڑ ہے۔

اركان اسلام ، ص 108 .

اور یہ بھی فرمایا ہے کہ:

صوموا تصحوا ، و سافروا تستغنوا.

روزه رکھو تا کہ صحت مند رہ سکو اور سفر پر جاؤ تا کہ دوسروں سے بے نیاز ہو جا‎ؤ، (یعنی خود مالدار ہو جاؤ گے)،

اسی طرح رسول خدا نے فرمایا ہے کہ:

لكل شيء زكاة و زكاة الابدان الصيام،

ہر چیز کے لیے زکات ہے اور بدن کی زکات، روزہ رکھنا ہے۔

اصول كافي ، ج 4 ، ص 62.

حضرت علی (ع) اور روزه:

امام علی (ع) نے اپنے ایک خطبے میں  روزے داروں کے بار ے میں فرمایا ہے کہ:

و مجاهدة الصيام في الايام المفروضات ، تسكينا لاطرافهم و تخشيعا لابصارهم ، و تذليلا لنفوسهم و تخفيفا لقلوبهم ، و اذهابا للخيلاء عنهم و لما في ذلك من تعفير عتاق الوجوه بالتراب تواضعا و التصاق كرائم الجوارح بالارض تصاغرا و لحوق البطون بالمتون من الصيام تذللا.

گرم و دشوار دنوں میں واجب روزہ رکھنے سے انکے بدن کے اعضاء آرام محسوس کرتے ہیں اور انکی نگائیں خاشع اور انکے نفس، خاضع ہوتے ہیں، اور انکے دل گناہوں سے ہلکے ہوتے ہیں، اور خود پسندی ان عبادات کے ذریعے سے، ان سے دور ہوتی ہے، اور خوشحال چہروں کو عاجزی کے ساتھ خاک پر رکھنے سے اور سجدے والی جگہ کو زمین پر رکھنے سے، وہ اپنے نفس کو خداوند کے سامنے ذلیل کرتے ہیں اور روزہ داری سے انکے شکم انکی پشت کے ساتھ لگے ہوتے ہیں۔

نهج البلاغه ، خطبه 192.

1- روزہ اور اخلاص کا امتحان:

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ:

والصيام ابتلاء لاخلاص الخلق،

روزہ انسانوں کے اخلاص کو آزمانے کے لیے ہے۔

نهج البلاغه ، حكمت 252.

کیونکہ روزہ انسان میں صفت اخلاص کو ایجاد کرنے میں بہت مؤثر ہے۔

2- روزہ عذاب الہی کے سامنے ڈھال:

مولا علی (ع) نے کتاب شریف نہج البلاغہ میں فرمایا ہے کہ:

صوم شهر رمضان فانه جنة من العقاب.

ماہ رمضان کا روزہ رکھنا، عذاب کے سامنے ڈھال (مانع) بن جاتا ہے۔

نهج البلاغه ، خطبه 110.  

یعنی روزہ رکھنا گناہوں کے معاف ہونے کے لیے بہترین وسیلہ ہے۔
امام رضا (ع) اور روزه :

جب امام رضا (ع) سے روزے کے واجب ہونے کے سبب کے بارے میں سوال کیا گیا تو، آپ نے جواب میں فرمایا:

لوگوں کو روزہ رکھنے کا اسلیے حکم دیا گیا ہے تا کہ وہ بھوک اور پیاس سے ایجاد ہونے والی مشکلات کی طرف متوجہ ہوں اور وہ اسی کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھوک و پیاس کے بارے میں بھی آگاہ ہو جائیں، جیسا کہ رسول خدا (ص) نے خطبہ شعبانیہ میں بھی فرمایا ہے کہ: واذكروا بجوعكم و عطشكم جوع يوم القيمة و عطشة.

اپنے روزے کی بھوک اور پیاس کے ذریعے، قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو،

کہ اسی سوچ و فکر کی وجہ سے انسان خداوند کی رضایت و خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔

وسائل الشيعه ، ج 7 ، ص 3.

امام رضا (ع) نے ایک دوسری جگہ پر روزے کے فلسفے کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:

روزہ بھوک اور پیاس کو محسوس کرنے کے لیے واجب قرار دیا گیا ہے، تا کہ انسان خداوند کے سامنے ذلیل، متضرع اور صابر بن جائے، اسی طرح روزے کی وجہ سے عاجزی اور شہوات میں کمی بھی حاصل ہوتی ہے۔

علل الشرايع ، شيخ صدوق ، بخش روزه .

امیر المؤمنین علی (ع) کا ارشاد ہے:

روزہ ایسی عبادت ہے جو انسان کو تکبر سے بچاتی ہے۔

نہج البلاغہ خطبہ 192

حواس کی تطہیر:

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں:

مَا یَصْنَعُ الصَّائِمُ بِصِیَامِه اِذَا لَمْ یُصِنْ لِسَانَه وَسَمْعَه وَبَصَرَه وَ جَوَارِحَه،

روزہ دار اپنے اس روزے کا کیا کرے گا، جس میں وہ اپنی زبان، سماعت، بصارت اور اعضاء کو محفوظ نہ رکھے۔  دعائم الاسلام:ج 1 ص 268

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے خطبہ میں فرماتی ہیں:

 ۔۔۔ روزہ اخلاص کا اثبات ہے۔

خطبہ فدکیہ

 التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: