موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
شیعوں کے لاشوں سے گزر کر یزیدی لشکر کا کربلا پہنچنا:
مندرجات: 2037 تاریخ اشاعت: 03 آبان 2022 - 10:28 مشاہدات: 2759
یاداشتیں » پبلک
شیعوں کے لاشوں سے گزر کر یزیدی لشکر کا کربلا پہنچنا:

شیعوں کے لاشوں سے گزر کر یزیدی لشکر  کا کربلا پہنچنا:

مقدمہ :

بعض  لوگ  منفی پروپیگنڈوں  کی وجہ سے اہل بیتؑ  کے حقیقی دشمنوں کو اہل بیتؑ  کا حامی تصور کرتے  ہیں  اور امام حسینؑ  کے قتل کی  ذمہ داری  اس پاکیزہ خاندان سے اظہار عقیدت کرنے والوں کے گردن پر ڈال کر  خاندان نبوت کے قاتلوں سے  دفاع کرتے ہیں ۔

ہم تحریر  کے   اس حصے میں  یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ جس لشکر کو ابن زیاد نے کربلا کی طرف امام حسینؑ  کو شہید کرنے کیلئے روانہ کیا  اس لشکر کے اصلی ارکان اور  فوجیوں کی اکثریت عثمانی فکر  رکھنے  والے ہی تھے۔

  نوٹ : عثمانی فکر سے مراد  وہ لوگ  ہیں جنہوں نے  جناب خلیفہ سوم کے قتل  کے مسئلے میں  امام علیؑ کو اس میں قصور وار ٹھرا کر خلیفہ کے خون کا قصاص لینے کے بہانے  آپ سے جنگ کی  اور خاص کر بنی امیہ  والوں نے  80  سال سے زیادہ کا عرصہ اسی فکر کے ساتھ لوگوں پر حکومت  کی ۔ تاریخ میں  انہیں  شیعہ معاویہ یا عثمانی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے[1] ۔

بنی امیہ کے فکر   والوں کی کربلا روانگی :

جناب مسلم کی شہادت کے  تقریبا ایک مہینہ بعد  ابن زیاد جب مخالفین اور امام کے حامیوں کو سختی سے کچلنے میں کامیاب ہوا تو اس نے امام کو کربلا میں گھیرے میں  لینے کے ساتھ  امام کی نصرت کیلئے جانے کے تمام راہوں کو بند کردیا  اور  اپنے بااعتماد ،  بنو امیہ کے حامی اور ہمفکر کمانڈروں کی قیادت میں کربلا کی طرف لشکر  روانہ کیا  ۔

 1: ابن زیاد کا بنیادی  کردار  :

اس فوج کو یزید کے خصوصی گورنر  ابن زیاد نے بنو امیہ کے ہی  ہمفکر افراد کی  قیادت میں امام کو شہید کرنے  کربلا روانہ کیا تھا  ، کوئی بھی  ابن زیاد  کے اس مشن  میں بنیادی کردار  کا  انکار نہیں کر سکتے اور ہم بعد میں  ابن زیاد کی اہل بیتؑ  سے دشمنی  اور بنی امیہ سے وفاداری کے کچھ نمونے  نقل کرینگے۔

۲:  فوج کے سارے کمانڈر اہل بیتؑ  کے دشمنوں میں سے تھے :

ابن زیاد کی جانب سے جو لشکر کربلا روانہ کیا گیا  اس لشکر  کے سارے کمانڈر  بنو امیہ کے وفادار  اور اہل بیتؑ  کے دشمن تھے  جیسے :

۱۔2۔عمر بن سعد بن ابی وقاص  جو  اس فوج کا سب سے اعلی سربراہ تھا،  اسکا بنو امیہ کے کارندوں میں سے ہونا  مسلم ہے ، تاریخ گواہ  ہے کہ  کربلا  کے میدان میں یزیدی فوج کا  یہ کمانڈر ،  انتہائی بے شرمی کے ساتھ فرزند پیغمبر ؑکے قتل کا  حکم دیتا ہوا یہ کہہ رہا تھا : يا خيل الله اركبي وأبشرى[2]  اے راہ خدا کے سپاہیو: سوار ہو جاو  تمہیں  جنت کی بشارت ہو ۔

2۔2۔ حصین بن نمیر،یہ بھی شروع سے ہی بنو امیہ کے ساتھ تھا کوفہ کے پولیس کا سربراہ ،  کربلا میں تیر اندازوں کا سربراہ تھا   اور جب  امام حسین ؑ زحموں سے چور چور تھے تو اسی ظالم نے  امام کو تیر کا نشانہ بنایا[3]  اور شہدا کے سروں کو لے کر یزید کے پاس گیا ، اسی نے یزید کے حکم سے ابن زبیر کی حکومت ختم کرنے کیلئے خانہ کعبہ کو منجنیق  کے ذریعے سنگ باران کیا [4]۔

3۔2۔شبث بن ربعی ، یہ گرچہ خوارج کا سربراہ تھا  لیکن اہل بیتؑ  اور شیعوں  سے دشمنی اور مال و حکومت کی لالچ میں   دوسروں سے کم نہیں تھا  لہذا  یہ بھی ہزار افراد کا کمانڈر بن کر کربلا آیا تھا۔

 4۔2: شمر بن ذی الجوشن جو  جنگ صفین میں ظاہری طور پر امام علیؑ کے ساتھ تھا ،لیکن  آپ کی شہادت کے بعد یہ بھی بنو امیہ کا کارندہ    اور ہمفکر شمار ہوتا تھا [5]۔ 

5۔2۔عمروبن حجاج : یہ قبیلہ ہانی کا سردار اور یزیدی فوج کے کمانڈروں میں سے   تھا۔ جب جناب  ہانی کو قبیلہ  ای  تعصب کی بنیاد پر   ابن زیاد کے ہاتھوں سے آزاد کرنے آیا تو اس نے   صاف طور پر بنو امیہ سے اپنی وفاداری کا اعلان بھی کیا[6]  کربلا میں  بھی یزیدی فوج سےمخاطب ہو کر  کہا : اس شخص کو[امام حسینؑ  ] قتل کرنے میں تردید کا شکار نہ ہو جاو جو دین سے پھر گیا ہے جس نے اپنے امام[ یزید] کی مخالفت  میں خروج کیا  ہے [7] نعوذ باللہ۔

واضح  سی بات ہے کہ یزیدی فوج کا یہ کمانڈر ایسی باتیں  ان لوگوں کے درمیان ہی کہہ سکتا ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ  ہمعقیدہ ہو اور یزید کو امام اور واجب اطاعت جانتے ہوں اور کوئی بھی شیعہ کبھی  بھی یزید جیسوں کو اپنا امام نہیں مان سکتا۔

6۔2۔عزرہ بن قیس  احمسی : یہ بھی امام کو خط لکھنے  والوں میں سےتھا  اور  کربلا   میں یزیدی فوج کا  اہم  کمانڈر  تھا [8] امام حسینؑ   کا ایک سپاہی زهير بن قين کے ساتھ اس یزیدی کمانڈر کی گفتگو سے واضح ہوجاتی ہے کہ یہ بھی عثمانی فکر رکھنے والا تھا ۔[9]

یہاں پر قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ اس دور میں  کمانڈروں کی اکثریت اپنے ہی قبیلہ کے افراد پر کمانڈری کرتے تھے  اور قبیلہ کے نظام کے مطابق قبیلہ کے افراد فکری اور سیاسی اعتبار سے اپنے سرداروں کے ہی تابع ہوتے تھے ۔لہذا کربلا میں موجود فوج کے کمانڈر اور  قبیلے کے سردار جب اہل بیتؑ  کے دشمن تھے تو فوج میں موجود  عام افراد  کا مسئلہ بھی واضح ہے ۔

اب یہ کیسی فوج ہے جسکے سارے کا سارا کمانڈر اہل بیتؑ  کے دشمن اور بنو امیہ کے وفادار ہولیکن  یہ لوگ  اہل بیتؑ  سے اظہار عقیدت  رکھنے والوں  کی کمانڈری  کررہے ہوں ، کیا یہ  کوئی معقول بات ہے ؟

3 : امام حسین ؑ اور ان  کے اصحاب اور یزیدی لشکر  والوں  کی ایک دوسرے سے گفتگو :

امام حسینؑ  کے ساتھیوں اور آپ کو شہید کرنے والوں  کے  آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بحث و مناظرے،  ان دو گروہوں   کی  پہچان کیلئے  کافی ہے ہم یہاں پر اس سلسلے میں  چند نمونے ذکر کرتے ہیں ۔

الف : نافع بن هلال امام کے سپاہ سے یہ رجز پڑھتے ہوئے نکلا’’ أنا الجملي أنا على دين علي‘‘ انکا مقابلہ کرنے یزیدی لشکر سے  مزاحم بن حريث یہ رجز پڑھتے نکلا ’’ أنا على دين عثمان[10].

ب : امام حسینؑ  کے سپاہ میں سے زهير بن قين اور  یزیدی فوج کا ایک  کمانڈرعزرہ بن قیس  احمسی کی گفتگو  سے واضح ہوجاتی ہے  یہ فوجی کمانڈر   اس بات پر  تعجب کرتا ہے کہ عثمانی  فکر رکھنے والا کیسے علوی بن گئے ۔ مقابل میں زہیر نے بھی عثمانی فکر  مذمت کی[11] ۔

ج: امام کے دوستوں میں سے برير بن حضير  اور یزیدی سپاہ میں سے يزيد بن معقل کا مناظرہ بھی اس سلسلے میں قابل  ذکر ہے. جب یزید بن معقل نے  جناب بریر سے خلیفہ سوم  اور معاویہ کے بارے میں ان کا عقیدہ پوچھنے کے بعد کہا:کیاتمہارا یہ عقیدہ ہے کہ امام حق اور امام ہدایت علی بن ابی طالب ہی ہیں؟  تو اس پر جناب بریر نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میرا عقیدہ یہی ہے اس پر یزید نے کہا : تم گمراہ ہو ،جناب بریر نے کہا :  آو  ہم آپس میں مباہلہ کرتے ہیں اور خدا سے دعا کرے کہ جو بھی جھوٹا ہو اس پر لعنت  ہو اور خدا  اس کو قتل کرئے  ، اس کے  بعد دونوں نے ایک دوسرے پر حملہ کیا اور  جناب بریر نے یزید کو قتل کیا [12]  .

  4 : خود  امام سے یزیدی لشکر والوں کی گفتگو :

الف :  شب عاشور امام اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمارہے تھے :

الف : ولا يحسبن الذين كفروا أنما نملي لهم خير....حتى يميز الخبيث من الطيب ‘[ال عمران ،178-179]‘ 

یزیدی لشکر کے ایک سپاہی نے جب یہ سنی تو گستاخی  کی اور یہ کہا :  نحن ورب الكعبة الطيبون ميزنا [13]  یعنی پاکیزہ لوگ ہم ہی ہیں نہ آپ لوگ ۔

ب : یزیدی لشکر سے ایک آدمی باہر نکلا  اور کہا: کیا حسینؑ  تمہارے درمیان ہیں،  پھر اس نے امام سے مخاطب ہو کر کہا :اے حسینؑ  تمہیں [نعوذ بالله]جہنم کی بشارت ہو : امام نے جواب میں فرمایا : كلا ويحك إني أقدم على رب رحيم وشفيع مطاع، بل أنت أولى بالنار.[14]

ج : جب امام حسینؑ  نے کربلا میں  یزیدی لشکر  کو   اپنے خون میں ہاتھ ڈالنے سے  دور رہنے کی نصیحت کی،  تو جواب میں  یزیدی لشکر والوں نے آپ سے یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا ۔اس پر آپ نے فرمایا : خدا کی قسم میں  نہ ذلیلانہ انداز میں بیعت کرونگا اور نہ غلاموں کی طرح بھاگ جاوں گا[15]۔

واضح سی بات ہے کہ یزیدی لشکر کا امامؑ سے اصلی مطالبہ یہی تھا کہ آپ یزید کی بیعت کرے ورنہ ہم آپ سے جنگ کرینگے. لیکن  امام ؑنے بھی واضح انداز میں اس مطالبہ کو رد کرتے ہوئے شہادت کی راہ کا انتخاب کیا .واضح سی بات ہے کہ  اس قسم کے  مطالبے  وہی لوگ کرسکتے ہیں جو یزید کی پیروی کو اپنے لئے ضروری جانتے ہو  .

 لہذا  یہی  چند نمونے  شیعی  اور بنی امیہ کے  فکروں کی ایک دوسرے کے مقابل کربلا میں صف آرائی کو ثابت کرنے کے لئے  کافی ہے ۔ کیا  یزیدی  لشکر  کے کمانڈروں اور دونوں لشکر والوں  کے ایک  دوسرے سے اس قسم کی گفتگو کو دیکھنے کے بعد  کوئی عقلمند یہ کہہ سکتا ہے کہ  یزیدی لشکر میں شامل لوگ  بنی امیہ کے فکر والے نہیں تھے ؟ جی ہاں عقل و منطق سے دور ان باتوں کو  وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جو جہالت اور تعصب کی زنجیروں پھسے ہوئے ہو ۔

5 : ابن زیاد کا اعتراف اور   جناب زینب  کا احتجاج :

امام حسینؑ   اور ان کے یارو انصار کو  شہید کرنے کے بعد ان کے سروں اور  اہل بیتؑ  کے  بچوں اور خواتین کو جب ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا  تو خود ابن زیاد کی  تقریر ، امام سجادؑ  اور جناب  زینبؑ کے ساتھ اسکی گفتگو  اس بات پر روشن دلیل ہے کہ  ابن زیاد اور اس کے ہمفکر لوگ ہی امام کے قاتل تھے  اس سلسلے میں اس کی گفتگو کے چند نمونے ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔

الف  : ابن زیاد نے  بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا : اس خدا کا حمد  ہے جس نے حق اور اہل حق کو  کامیاب کیا اور امیر المئومنین یزید  اور اس کے گروہ کی مدد کی اور جھوٹے کے جھوٹے بیٹے اور اس کے شیعوں کو قتل کیا[16]نعوذباللہ۔

ب:  ابن زیاد نے جناب زینب ؑکی طرف متوجہ ہو کر  کہا : حمد ہے اس خدا کا جس نے تم لوگوں کو رسوا اور قتل کیا اور تمہاری بدعتوں کو جھٹلایا  ۔۔جناب زینب ؑنے اسے  جب منہ توڑ جواب دیا  تو  اس نے غصہ میں کہا  :  تیرے سرکش و نافرمان خاندان سے خدا نے مجھے سکون بخشا  ، یہ سن کر جناب زینب ؑرو  پڑیں اور فرمایا : مجھے میری جان کی قسم تم نے میرے جوانوں کو قتل کیا میرے خاندان کو برباد کیا ۔۔جب ابن زیاد نے امام سجادؑکو شہید کرنا چاہا تو جناب زینبؑ نے فرمایا :   اے ابن زیاد تیرے لئے ہمارے وہی خون کافی ہے جو تو لے چکاہے  کیا تم نے ہم میں سے کسی کو زندہ چھوڑا ہے ۔۔۔ اگرانہیں قتل کرنا ہے تو مجھے بھی قتل کردے[17]  ۔

تاریخ کا مطالعہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ ابن زیاد کی یہ فکر  وہی  ہے  جو بنی امیہ  کا امام علیؑ اور ان کے شیعوں کے بارے میں  تھا۔ جیساکہ اس نے یہ دستور دیا  تھا کہ امام ؑاورا ن کے اصحاب کو   ایک قطرہ بھی پانی  کا نہ دیا جائے جس طرح سے ان لوگوں  نے جناب عثمان بن عفان کے ساتھ ایسا کیا تھا[18] .

اب یہاں  عقل ومنطق سے عاری لوگ ہی کہہ سکتا ہے کہ یزیدی گورنر   کی یہ فکر  بنی امیہ کی نہیں بلکہ شیعوں کی فکر ہے ۔

عقل و منطق  اور تاریخی حقائق  کی  مخالفت کیوں ؟

  جناب زینبؑ جو  خاندان پیغمبر   پر کربلا میں ڈھاے گئے مظالم کی عینی شاہد ہیں،  آپ  واضح الفاظ میں ابن زیاد اور اس کے لشکر کو ہی امام کا قاتل کہہ رہی ہیں اور  خود ابن زیاد اس پر فخر کرتا ہے کہ خدا نے اہل بیتؑ  اور ان کے شیعوں کو قتل کر کے یزید کو  فتح و نصرت عنایت   فرمائی۔

کیا ابن زیاد کے لیے یہ مناسب نہیں تھا اس ننگ   و عار کو اپنے سے دور کرنے کیلئے اس  کام کو شیعوں کی گردن پر ڈال دے اور ان سے یہ کہے کہ مجھے کیوں قصوروار ٹھہراتی ہو یہ تو آپ کے شیعوں کا کام تھا   کیا ابن زیاد کا  یہ  انداز گفتگو خود اس بات کا اعتراف  نہیں کہ  امام کو شہید کرنے والے  ابن زیاد کے ہمفکر لوگ ہی تھے ؟  اسی لئے تو  وہ واضح طور پر کہہ رہا تھا  کہ یزید  اور اس کی گروپ کو حسینؑ  اور ان کے گروپ پر فتح ہوئی ۔

 لہذا   عجیب بات ہے کہ جس بات کو ابن زیاد  کہنے کی جرات نہ کرسکا  ،آج کے دور میں  بعض  لوگ خاندان پیامبر سے بغض و عداوت رکھنے والوں کی دفاع میں ایسی باتیں  کہتے ہیں اور یزید کے  اس بااعتماد اور باوفا گورنر  کی باتوں کے برخلاف آج یزید کے پیروکار  امام ؑ کے اصلی قاتلوں سے دفاع کی چکر میں شیعوں کو ہی امام ؑ کا قاتل کہنے  کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔سچ ہے کہ جھالت اور تعصب انسان کو حق  کے راستے   سے جدا کر کے اس حد تک  پستی اور ظلمت کی دادی میں دھکیل دیتی ہے ۔

6:  بنی امیہ کی طرف سے امام کی شہادت کو جناب عثمان کے قتل کا بدلہ کہنا ۔

امام کی شہادت کی خبر جب مدینہ پہنچی  اور لوگ آپ کی مظلومیت پر رونے لگی تو مروان اور بنو امیہ کے  لوگوں نے اس  کو جناب عثمان کے قتل کا بدلہ قرار دیا[19].

مروان جو  جناب عثمان کا داماد اور اس کا خاص آدمی تھا معاویہ کے دور میں  مدینہ کا گورنر  رہا اور خود بھی  بعد میں خلیفہ بن بیٹھا   ۔اس   جیسے افراد کا امام  حسینؑ  کے قتل کو  عثمان کے قتل کا بدلہ قرار دینا  خود اس بات کی دلیل ہے کہ امام کو اسی انتقامی کینہ کی بنا پر  شہید  کیا گیا تھا ،  واضح ہے یہ  وہی لوگ کر سکتے ہیں جو  خود  کو خلیفہ  سوم کا حامی اور امام علیؑ اور ان کے شیعوں کو انکا قاتل کہا کرتے تھے ۔

لہذا امام حسینؑ  کو قتل کرنے کے لئے جو لشکر ابن زیاد نے کربلا روانہ  کیا تھا  نہ  شیعہ اس لشکر میں شامل تھے  اور نہ اہل بیتؑ  سے اظہار عقیدت کرنے والے غیر شیعہ  لوگ ،بلکہ  اہل بیتؑ  کے دشمن اور بنو امیہ کے ہمفکر  اور ان کے کارندے ہی   اس لشکر میں شامل ہوکر فرزند پیغمبر کو شہید کرنے کربلا  آئے  تھے اور اس میں شامل لوگ  جس جذبہ کے ساتھ  امام  علیؑ  سے جنگ کرنے  جنگ جمل اور جنگ صفین میں آیے تھے اسی جذبہ کے تحت ان کے فرزند اور خاندان پیامبر پر ظلم کی ایک نئی داستان لکھنے کربلا  آئے  تھے  ۔

بعض کٹ حجت اور متعصب  لوگ اس دلخراش واقعےکے اصلی مجرموں کو بری الذمہ قرار دینے کے لئے  ے  ہاتھ پاوں مارتے ہیں اور  امام سجادؑ اور جناب زینبؑ کے بعض ایسے کلمات  کو لے آتے ہیں جو کوفہ والوں کی مذمت میں  ہیں  اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ شیعہ ہی امام  کے قاتل ہیں ۔

اس قسم کی مغالطوں   کا جواب دینے  کے لئے ہم کچھ   مطالب یہاں پیش کرتے ہیں ۔

1 : جیساکہ   خود یزید اور ابن زیاد بھی امام سجادؑ اور جناب زینب ؑکی طرف سے کئے احتجاج کے مقابل میں اس کام کو شیعوں کی طرف نسبت دینے کی  جرات نہ کرسکے اور اگر  ان باتوں کی ذرا بھی  حقیقت ہوتی تو یہ لوگ ان مظالم کی نگ و عار سے  خود کو بری ذمہ قرار دینے کے لئے ضرور ایسا کرتے۔

2: ایسا نہیں  ہے کہ  اہل کوفہ  کہنے سے   شیعہ ہی ذہنوں میں آئے اور شیعہ سے مراد  صرف انہی لوگوں کو قرار دیا  جاے  جو  عقیدتی طور پر آج بھی   شیعہ کے نامسے پہچانے جاتے ہیں[20] ۔اگر شیعہ مخالفین کی اس منطق کو قبول کیا جاے تو  اس سے شیعوں کے علاوہ باقی سب لوگوں کا  اہل بیتؑ  کے دشمن اور بنی امیہ کے حامی  ہونا  لازمی  آئے گا  کیونکہ کوفہ  دمشق کے مقابلے میں امام علی ؑ کے حامیوں کا مرکز تھا ۔

3 : یہ بات بھی پہلے واضح ہوئی کہ  اہل بیتؑ  کے شیعوں کو  کچلنے کے بعد ہی   یزیدی لشکر نے امام حسینؑ  کے خون میں ہاتھ ڈالا۔

4:  جیساکہ امامؑ نے  کربلا میں  آپ کو خط لکھ کر بعد میں آپ کے قتل میں شریک لوگوں کا نام لے کر یہ بتلا  دیا کہ آپ کو دعوت دینے والے صرف شیعہ نہ تھے ۔

ان مطالب کی روشنی میں اگر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ  امام سجادؑ  اور جناب زینبؑ  کے خطبوں کا مخاطب وہی لوگ ہیں جنہوں نے  امام کو دعوت دی اور  حمایت کا اعلان کیا    لیکن بعد  میں امام  کو تنہا چھوڑ ے  اور خاندان پیغمبر  سے  دفاع کے لئے جان کی قربانی نہیں دی۔ حتی  بعض تو یزیدی لشکر میں شامل ہوکر  امام حسینؑ   کو شہید کرنے آئے ۔ جیساکہ خود امام حسینؑ  نے ان کا نام بھی لیا   اور جب  خاندان  نبوت پر ظلم و ستم کئے تو  ان  کی مظلومیت پر آنسو بہا نے  اور ان سے اظہار عقیدت کرنے لگے  اس پر   امام سجادؑ اور جناب زینبؑ وغیرہ نے ان کی مذمت کی۔ کیونکہ   جو فرزند پیغمبرؑ اور ان کے بچوں کو یزیدی ظالم لشکر کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دے وہ قابل ٕمذمت ہی ہے ۔ اس بنا پر  ان  مذمتی  باتوں کا مصداق  ہر وہ لوگ ہیں جو اس خاندان  کی مظلومیت  دیکھ کر روئے   اور ان سے اظہار عقیدت کرنے  لگے لیکن کربلا میں  انہیں درندوں کے درمیان   چھوڑ دئے۔ جیساکہ امامؑ اور جناب زینبؑ وغیرہ کی  تعبیرات میں غور کرے تو معلوم ہوگا کہ کہیں پر ایسی تعبیر موجود نہیں ہے جو  یہ بتا سکے کہ شیعہ  ہی   اپنے امام کے قاتل  تھے اور مذمتی جملوں  سے مراد  عقیدتی شیعہ والے لوگ ہی ہو ۔

لہذا جو لوگ کہتے ہیں  کہ کوفہ شیعوں کا مرکز تھا اسی لئے   اہل بیت ؑ  کے ان مذمتی جملوں کا مصداق شیعہ ہی ہے تو ہم  یہ کہتے ہیں کہ جنگ  صفین  وغیرہ میں امام علیؑ کو چوتھا  خلیفہ ماننے والےکہاں تھے؟ اسی طرح  امام حسنؑؑؑ  اور امام حسینؑ  کے دور میں  اہل سنت کن کے ساتھ تھے؟ جنگ صفین کے بعد   انہوں نے فرزند پیامبر کا  ساتھ دیا  یا  ان سے جنگ والوں کا   ؟  کیا ان کے سلف   معاویہ کے حامی  کہے جاتے تھے یا اہل بیتؑ  کے   ؟

اگر  ان   کو معاویہ  کے حامی اور شیعہ کہے جاتے تھے تو  اس صورت میں مسئلہ واضح ہے  ، لیکن اگر اہل بیتؑ   کے حامی اور شیعہ کہے جاتے تھے تو   اس صورت میں    چاہے اہل بیتؑ  کی زبان سے شیعوں کی مذمت کا مسئلہ ہو یا کوئی اور تہمت ،سب شیعہ مخالف لوگوں بھی شامل ہے ،  صرف شیعوں کو  ہی ان کا مصداق کہنا  تناقض گوئی ،  فریب کاری یا اپنی تاریخ سے جھالت کی علامت ہے ۔

 



[1].منهاج السنة النبوية (2/ 95)

[2] ۔ تاريخ الطبري (4/ 315) البداية والنهاية (8/ 176)

[3] ۔ الكامل في التاريخ (3/ 181) 

[4] . المحن (ص: 203)

[5] ۔ الأعلام للزركلي [3 /175]   

[6] ۔ الكامل في التاريخ [2 /157] تاريخ الطبري [3 /286]

[7] ۔البداية والنهاية [8 /182]تاريخ الطبري [3 /324]

[8] ۔ .تاريخ الطبري [3 /310]  الكامل في التاريخ [2 /173]

[9] ۔ أنساب الأشراف [1 /418]

[10]۔۔ تاريخ الطبري [3 /324]

[11][11]۔  تاريخ الطبري [3 /320]

[12]۔ تاريخ الطبري [3 /322]الكامل في التاريخ [2 /172]

 [13] ۔ تاريخ الطبري [3 /317] البداية والنهاية [8 /178]

[14] ۔ البداية والنهاية [8 /196] تاريخ الطبري [3 /322]

[15]. البداية والنهاية(8/ 179)   أنساب الأشراف (3/ 188)

[16] -تاريخ الطبري [4 /351]  أنساب الأشراف [1 /425]

[17] - تاريخ الطبري [3 /337]  الكامل في التاريخ [2 /179]

[18]- تاريخ الطبري (3/ 311) الأخبار الطوال [ص 255]  

[19] -الكامل في التاريخ [2 /182] أنساب الأشراف [1 /426]

[20] ۔  عقیدتی شیعہ سے مراد  امام علیؑ کو خلیفہ بلافصل ماننے والے ہیں  اور  اس کے مقابلے میں   سیاسی شیعہ کی اصطلاح ہے  ان سے مراد  وہ لوگ ہیں جو جناب عثمان کے قتل کے بعد جنگ جمل اور جنگ صفین میں امام علی ؑ کی حمایت کرتے تھے ۔  معاویہ کے مقابلے میں  آپ کو خلیفہ مانتے ،خلیفہ اول  اور دوم کی خلافت پر ایمان رکھتے  لیکن خلیفہ سوم کی خلافت میں  اختلاف  کرتے  تھے  اور ان کا مرکز  دمشق کے مقابلے میں کوفہ تھا ۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: