2024 March 29
کیا اسلام میں گالی دینا، برا بھلا کہنا، دشنام دینا اور لعنت کرنا جائز ہے ؟
مندرجات: ١٠٢٤ تاریخ اشاعت: ١٩ September ٢٠١٧ - ١٣:٣٠ مشاہدات: 18717
سوال و جواب » متفرق
کیا اسلام میں گالی دینا، برا بھلا کہنا، دشنام دینا اور لعنت کرنا جائز ہے ؟

سوال:

کیا اسلام میں گالی دینا، برا بھلا کہنا، دشنام دینا اور لعنت کرنا جائز ہے ؟

مختصر جواب:

قرآن مجید، روایات اور مسلمانوں کی سیرت کے پیش نظر برا بھلا کہنا ( گالی دینا) خاص طور پر جھوٹ ہونے کی صورت میں، شرع مقدس اسلام کی نظر میں حرام اور ممنوع ہے، لیکن لعنت کا مسئلہ گالی سے مختلف ہے: لعنت، کسی شخص کے بُرے اعمال سے بیزاری کا اظہار اور اس کے رحمت خدا سے دور ہونے کے لیے دعا کے معنی میں جائز ہے۔ خداوند نے قرآن مجید میں اور پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی احادیث میں، بعض گروہوں کے برے اور نا پسند اعمال کی وجہ سے ان پر لعنت کی ہے۔ اسی طرح بعض صحابہ نے بھی، بعض دوسرے صحابہ پر، ان کے بُرے اعمال کی وجہ سے  لعنت کی ہے۔

تفصیلی جوابات:

سبّ و شتم، لغت میں گالی، دشنام اور کسی فرد کی اس چیز سے توصیف کرنے کے معنی میں ہے جس سے وہ ذلیل و خوار ہو جائے۔

ابن درید، محمد بن حسن‏، جمهرة اللغة، ج 1، ص 69، بیروت، دار العلم للملایین‏، طبع اول؛ صاحب بن عباد،

المحیط فی اللغة، ج 8، ص 254، بیروت، عالم الکتاب، طبع اول، 1414ق؛ لغت‌نامه دهخدا، واژه «سب»؛ فرهنگ لغت عمید، واژه «شتم».

اسلام کی نظر میں سبّ و شتم:

اسلام نے سبّ و شتم کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کے معنی میں منع کیا ہے:

1۔ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ:

اور خبر دار ! تم لوگ انھیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔

سورہ انعام، آیت 108.

2۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ،

مسلمان کو دشنام دینا فسق اور گناہ ہے۔

شیخ طوسی، محمد بن حسن‏، الأمالی، ص 537، قم، دار الثقافة، طبع اول، 1414ق؛

شیبانی، أحمد بن محمد، مسند احمد بن حنبل، ج 6، ص 157، بیروت، مؤسسة الرسالة، طبع اول، 1421ق.

3۔ جنگ صفین میں جب امیر المؤمنین علی (ع) کو خبر دی گئی کہ آپ (ع) کے بعض صحابی شامیوں کو برا بھلا کہتے ہیں ، تو حضرت (ع) نے انھیں اپنے پاس بلا کر یوں خطاب فرمایا: مجھے پسند نہیں ہے کہ آپ دشنام (گالی) دینے والے ہوں، لیکن اگر ان کے کردار کی جانچ کرتے اور ان کے حالات پر نظر ڈالتے، تو قابل قبول و توجیہ تھا۔

سید رضی، محمد بن حسین، نهج البلاغة، محقق، صبحی صالح، خطبه 206، ص 323، قم، هجرت، طبع اول، 1414ق.

4۔امام صادق (ع) نے فرمایا ہے: رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے: دشنام دینے والا مؤمن اس شخص کے مانند ہے جو ہلاکت کے دہانے پر پہنچا ہو۔

کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ‏2، ص 359، تهران، دار الکتب الإسلامیة، طبع چهارم، 1407ق.

لیکن ہم امام صادق(ع) کی ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:

«عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِي فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِيهِمْ وَ الْوَقِيعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِي الْفَسَادِ فِي الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِي الْآخِرَةِ»؛

اگر میرے بعد شک اور بدعت کرنے والوں کو پاؤ گے تو ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرو۔ ان میں سے اکثر کو (کلام حق سے) ذلیل و خوار کرو، ان کی بد گوئی کرو، اور انھیں برہان و دلیل سے خاموش کر دو ( تا کہ لوگوں کے دلوں میں شک و شبہہ پیدا نہ کر سکیں اور ) اسلام میں فساد پھیلانے کی لالچ نہ کر سکیں اور نتیجہ کے طور پر لوگ ان سے دوری اختیاری کریں اور ان کی بدعتوں سے آلودہ نہ ہو جائیں اور خداوند اس کام کے بدلے میں آپ کے لیے ثواب لکھے گا اور آخرت میں آپ کے درجات کو بلند کرے گا۔

الکافی، ج ‏2، ص 375.

اس روایت میں سبّ و شتم سے مراد وہ سخت رویہ ہے جو بدعت کرنے والے کو ذلیل و خوار کرے اور اس کے سامنے ایسا کلام کیا جائے کہ جو صحیح اور سچ ہو، نہ وہ کلام جو جھوٹا، دشنام اور گالی ہو۔

سروی مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی (الاصول و الروضة)، ج ‏10، ص 34، تهران، ‌المکتبة الإسلامیة، چاپ اول، 1382ق؛

مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ‏71، ص 204، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، طبع دوم، 1403ق.

قدرتی طور پر اگر کچھ افراد دین اسلام کے بر خلاف اقدام کرنا چاہیں اور اس راہ میں کسی اقدام سے فرو گذاشت نہ کریں اور ان کا مقابلہ صرف طبیعی طور پر ممکن نہ ہو تو ان کے ساتھ نفسیاتی جنگ کے اصول کے مطابق مقابلہ کرنا چاہیے اور یہ روایت بھی یہی چیز بیان کرتی ہے۔

اسلام کی نظر میں لعنت:

مسئلہ لعنت، سبّ و شتم سے مختلف ہے۔ لعنت کے معنی خوبی سے دور کرنا ہے۔

زهرى، محمد بن احمد، تهذیب اللغة، ج 2، ص 240، بیروت، دار احیاء التراث العربی‏، طبع اول؛

ابن فارس، أحمد، معجم مقاییس اللغة، ج 5، ص 352، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، طبع اول، 1404ق؛

مصطفوى، حسن‏، التحقیق فى کلمات القرآن الکریم، ج ‏10، ص 201، بیروت، قاهره، لندن‏، دار الکتب العلمیة، مرکز نشر آثار علامه مصطفوی،‏ طبع سوم.

اس سلسلہ میں راغب اصفہانی کہتے ہیں:

لعنت کے معنی غضب کے ذریعہ مسترد اور دور کرنا ہے۔ اگر لعنت خداوند متعال کی طرف سے ہو تو آخرت میں عذاب کے معنی میں اور دنیا میں قبول رحمت اور توفیق سے محروم ہونے کے معنی میں ہے، اور اگر انسان کی طرف سے ہو تو دوسرے کو نقصان اور ضرر پہنچانے کے سلسلہ میں دعا و نفرین کی درخواست کے معنی میں ہے۔

راغب اصفهانى، حسین بن محمد،  مفردات الفاظ قرآن‏، ص 741، بیروت، دار القلم‏، طبع اول.

اس بناء پر لعنت کسی شخص کے اعمال سے بیزاری کا اظہار اور اس کے رحمت خدا سے دور ہونے کے لیے دعا کے معنی میں جائز ہے۔

قرآن مجید میں لعنت:

خداوند متعال نے قرآن مجید میں کئی مواقع پر متعدد گرہوں پر لعنت و نفرین کی ہے، جیسے ابلیس پر:

اور تجھ پر قیامت تک میری لعنت ہے۔

سوره ص، آیت 78.

کافروں پر:

بیشک اللہ نے کفار پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے جہنم کا انتظام کیا ہے۔

سورہ احزاب، آیت 64۔

ظالموں پر:

آگاہ ہو جاؤ کہ ظالمین پر خدا کی لعنت ہے۔

سورہ ھود، آیت 18

اور پیغمبر اکرم (ص) کو اذیت و آزار پہنچانے والوں پر قطعاً جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

سورہ احزاب۔ آیت 57

پس یہ آیات لعنت کے جائز ہونے پر بنیادی دلیل ہیں۔

احادیث رسول خدا (ص) میں لعنت کا ذکر:

سنت نبوی پر غور و توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے " لعن " کی عبارت اور اس کے مشتقات کا بہت سے مواقع پر استعمال کیا ہے، حتی بعض خاص افراد کے بارے میں جو بعد میں مسلمان صحابیوں میں شمار ہوتے تھے۔

پیغمبر اسلام (ص) بعض اوقات کلی طور پر لعنت کرتے تھے، چنانچہ مختلف روایتوں میں آیا ہے کہ:

آنحضرت (ص) عورت کی شکل اختیار کرنے والے مرد، مرد کی شباہت اختیار کرنے والی عورت، غیر خدا کے نام سے حیوان کو ذبح کرنے والے شخص ، والدین پر لعنت کرنے والے ، قوم لوط کا عمل انجام دینے والے اور رشوت لینے والے کے مانند بد کار افراد پر لعنت کرتے تھے۔

ملاحظہ ھو: مسند احمد بن حنبل، ج 2، ص 212، ج 3، ص 443 و 457، ج 4، ص 123 و ج 5، ص 83.

اس کے علاوہ فرماتے تھے:

خدا شراب پلانے والے بیچنے والے اور خریدار پر لعنت کرے۔

مسند احمد بن حنبل،  ج 5، ص 74.  ۔

اس کے علاوہ فرمایا ہے: خدا لعنت کرے سود دینے، لینے، اس کی قرار داد لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر۔

مسند احمد بن حنبل، ج 2، ص 67.

بعض اوقات پیغمبر اکرم (ص) مشخص اور معین افراد پر بھی لعنت کرتے تھے:

شعبی کہتے ہیں: عبد اللہ ابن زبیر کعبہ سے ٹیک لگایا ہوا تھا۔ اس نے اسی حالت میں کہا: اس گھر کے پروردگار کی قسم، پیغمبر خدا (ص) نے فلانی اور اس کے صلب سے پیدا ہونے والے پر لعنت کی ہے۔

«حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَ هُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى الْكَعْبَةِ، وَ هُوَ يَقُولُ: وَ رَبِّ هَذِهِ الْكَعْبَةِ، لَقَدْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ(ص) فُلَانًا، وَ مَا وُلِدَ مِنْ صُلْبِهِ»؛

عبد اللہ ابن زبیر کے اشارہ کیے ہوئے شخص کے بارے میں حاکم نیشاپوری نے اپنی مستدرک کی ایک حدیث میں یہ شخص حکم ابن عاص اور اس کا بیٹا بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ:

رسول خدا (ص) نے حکم ابن عاص اور اس کے بیٹوں پر لعنت کی ہے۔

مسند احمد بن حنبل، ج 26، ص 51.

«حَدَّثَنَاهُ ابْنُ نُصَيْرٍ الْخَلَدِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَجَّاجِ بْنِ رِشْدِينَ الْمِصْرِيُّ بِمِصْرَ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَنْصُورٍ الْخُرَاسَانِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَوْقَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ(ص) لَعَنَ الْحَكَمَ وَ وَلَدَهُ» هَذَا الْحَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ»؛

اس کے علاوہ مروان اور اس کے باپ پر بھی رسول خدا (ص) لعنت کرتے تھے: پیغمبر خدا (ص) نے مروان کے باپ اور اس کے صلب میں موجود مروان پر لعنت کی ہے۔

نیشابوری،  محمد بن عبد الله، المستدرک على الصحیحین، ج 4، ص 528، بیروت، دار الکتب العلمیة، طبع اول، 1411ق.

«رَسُولُ اللَّهِ(ص) لَعَنَ أَبَا مَرْوَانَ وَ مَرْوَانُ فِي صُلْبِهِ»؛ 

ایضاً، ج 4، ص 528.

عبد اللہ ابن عمر نے کہا ہے کہ :

رسول خدا (ص) نے جنگ احد کے دن یوں نفرین کی تھی:

اللھم العن ابا سفیان۔ ۔ ۔

اللہ کی لعنت ہو ابو سفیان پر۔۔۔۔۔۔

ترمذی، محمد بن عیسى، سنن الترمذی، ج 5، ص 227، مصر، شرکة مکتبة و مطبعة مصطفى البابی الحلبی، طبع دوم، 1395ق.

ورأى النبـي (ص) أبـا سفيان مقبلاً ومعاوية يقوده ويزيد أخو معاوية يسوق به فقال‏:‏ ‏‏لعن الله القائد والراكب والسائق‏ ‏

روایت میں ہے کہ: ایک دن رسول خدا (ص) نے دیکھا کہ ابو سفیان سواری پر سوار ہو کر آ رہا ہے، یہ دیکھ کر انھوں نے فرمایا: خداوند کی لعنت ہو ، اس پر جو سواری کو آگے سے کھینچ رہا ہے (معاویہ) اور جو اس پر سوار ہے (ابو سفیان) اور اس سواری کو پیچھے سے ہانک رہا ہے (یزید معاویہ کا بھائی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاريخ أبي الفداء - أحداث سنة مئتين وثلاثة وثمانون - ( 30 من 87 )

مسند البزار - البحر الزخار - ما أسند سفينة

الهيثمي - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد – ج 1 ص 113

الطبري - تاريخ الطبري – ج 8 – ص 185

إبن مزاحم المنقري – وقعة صفين – ص 217

اس کے علاوہ شیعوں کی احادیث کی کتب میں اہل بیت (ع) کے دشمنوں پر لعنت کرنے کے ثواب کے بارے میں بکثرت روایتیں پائی جاتی ہیں۔

بعض صحابہ کے توسط سے بعض دوسرے صحابہ پر لعنت کرنا:

تاریخ میں جستجو کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ، بعض صحابی بھی دوسرے صحابیوں پر ان کے بُرے کاموں کی وجہ سے لعنت کیا کرتے تھے: جیسے:

محمد ابن ابی بکر، معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن میں، اس کو اور اس کے باپ کو ملعون اور نفرین شدہ جانتے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

تم ملعون اور نفرین شدہ اور نفرین شدہ کا بیٹا ہے ! تم نے اور تیرے باپ نے پیغمبر اکرم (ص) کے خلاف ہمیشہ بغاوت کی ہے اور نور خدا کو بجھانے کی کوشش کی ہے۔

مسعودی، ابو الحسن علی بن الحسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، ج ‏3، ص 11، قم، دار الهجرة، طبع دوم، 1409ق.

حَکَمیت کے واقعہ کے بعد، ابو موسی اشعری نے عمرو عاص سے مخاطب ہو کر کہا:

خداوند متعال تجھ پر لعنت کرے، تم ایک ایسے کتے کی مانند ہو کہ اگر دباؤ میں قرار پائے تو زبان کو منہ سے باہر نکالتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے ( پھر بھی) زبان کو منہ سے باہر نکالتا ہے۔ عمرو نے کہا: خدا تم پر لعنت کرے، تم ایک گدھے کی مانند ہو جو کتابیں حمل کرتا ہے۔

مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، ج ‏5، ص 228، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بی‌تا.

صحابہ کی لعنت کے سلسلے میں بعض اہل سنت کے دلائل:

اہل سنت، تمام صحابہ سے شریعت اور دین لینے کے قائل ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ قرآن مجید، سنت، اجماع و عقل کے ساتھ صحابہ سے بھی شریعت و دین کو لیا جا سکتا ہے، اور کبھی پیغمبر اکرم (ص) کی سنت کے ساتھ صحابیوں کے عمل کو بھی سنت صحابی کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر صحابی قابل تنقید ہوں یا ان پر لعنت کی جائے تو دین متزلزل ہوتا ہے، حالانکہ جس دین کی بنیاد پروردگار عالم نے اپنے پیغمبر (ص) کے ذریعہ ڈالی ہے اور وعدہ الہی کے مطابق قیامت کے دن تک باقی ہے، چند افراد پر تنقید سے ہرگز متزلزل نہیں ہو گا۔

اصل میں اہل سنت کا ہدف بعض اپنے خاص صحابہ و خلفاء کو لعنت سے بچانا ہے، اس لیے وہ تمام کے تمام صحابہ کو لعنت کرنے سے منع کرتے ہیں، حتی اگر ایک صحابی کو خداوند نے قرآن میں لعنت کی ہو اور اگر رسول خدا نے ایک صحابی کو اپنی زبان سے بھی لعنت کی ہو، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کو لعنت نہیں کرتے، یعنی اس مسئلے میں وہ خدا اور اسکے رسول سے بھی زیادہ سمجھ دار اور دین کا درد رکھنے والے ہیں !!!

اہل سنت اور وہابی ضد میں دین نہ لینے پر آئيں تو امیر المؤمنین علی (ع) جیسی شخصیت سے بھی دین نہیں لیتے اور اگر دین لینے پر آ جائیں تو یزید سے بھی دین و ایمان لے کر اسکو رسول خدا کا خلیفہ اور امیر المؤمنین کہہ دیتے ہیں !!!

کتاب شرح المقاصد میں علامہ تفتازانی نے اسی بارے میں کہا ہے کہ:

فإن قیل فمن علماء المذهب من لم یجوز اللعن على یزید مع علمهم بأنه یستحق ما یربوا على ذلک ویزید قلنا تحامیا عن أن یرتقی إلى الأعلى فالأعلى کما هو شعار الروافض على ما یروى فی أدعیتهم ویجری فی أندیتهم …

علماء میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو یزید پر لعنت کرنے کو جائز نہیں جانتے، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یزید لعنت کا حق دار ہے، انکی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم یزید کے مظالم کی وجہ سے اس پر لعنت کرنے کے دروازے کو کھول دیں تو، پھر یہ لعنت اسی طرح اوپر جاتی جاتی دوسروں کو بھی شامل ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سعد الدین تفتازانی ، شرح المقاصد ، با تحقیق دکتر عبد الرحمن عمیره ، ج 5 ، چاپ عالم الکتب ، ص 311

اسی طرح یہ کلام کہ صحابی بھی دین لینے کے لیے قرآن اور سنت کی طرح ایک منبع ہے، قابل قبول نہیں ہے،

غزالی اس بارے میں کہتے ہیں کہ:

جس سے خطا اور غلطی سرزد ہونا ممکن ہو اور خطا سے اس کی عصمت ثابت نہ ہو، اس کا کلام حجت نہیں ہے، پس اس کے کلام پر کیسے استناد کیا جا سکتا ہے، جبکہ ممکن ہے اس نے خطا کی ہو ؟ کسی متواتر دلیل کے بغیر کیسے ان کے لیے عصمت کا دعوی کیا جاتا ہے اور کیسے ایک ایسی قوم کے بارے میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ جن کے بارے میں اختلاف جائز ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ دو معصومین کے درمیان اختلاف پایا جائے ؟ حالانکہ تمام صحابی اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ صحابیوں کے ساتھ اختلاف نظر کیا جا سکتا ہے۔

ابو بکر اور عمر کیوں قبول نہیں کرتے کہ کوئی اجتہاد کی بنیاد پر ان کی مخالفت کرے، بلکہ اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد پر واجب جانتے ہیں کہ وہ اپنے اجتہاد کی پیروی کرے۔

غزالی، أبو حامد محمد بن محمد، المستصفى، ص 168، بیروت، دار الكتب العلمية، طبع اول، 1413ق.

شوکانی نے عنوان " منابع تشریع " پر بظاہر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حجت نہیں ہے، کیونکہ خداوند متعال نے حضرت محمد (ص) کے علاوہ کسی کو اس امت کے لیے منتخب نہیں کیا ہے اور ہمارے پاس ایک پیغمبر (ص) اور ایک آسمانی کتاب کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے اور ہم سب مامور ہیں کہ خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر (ص) کی سنت کی اطاعت کریں اور اس سلسلہ میں صحابیوں اور دوسرے افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام لوگ دینی تکالیف اور کتاب و سنت کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں۔ پس جو بھی یہ کہے کہ قرآن مجید اور سنت پیغمبر (ص) کے علاوہ کوئی اور چیز دین خدا میں حجت ہے ، تو اس نے خدا کے بارے میں غلط بات بتائی ہے۔

شوکانی، محمد بن علي، إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول، ج 2، ص 188، بیروت، دار الكتاب العربي، طبع اول، 1419ق.

بہرحال، جو کچھ حجت ہے، وہ قرآن مجید، سنت رسول خدا (ص) و اہل بیت (ع) ہے ، اور صحابہ کا کلام اگر پیغمبر خدا (ص) سے استناد نہ ہو تو قطعاً حجت نہیں ہے۔

نتیجہ گیری:

قرآن مجید، روایات اور مسلمانوں کی سیرت کے پیش نظر شرع مقدس اسلام کے مطابق سبّ و شتم حرام اور ممنوع ہے، لیکن لعنت، برا بھلا کہنے کے بر خلاف نہ صرف بعض مواقع پر جائز ہے بلکہ اجتماعی لحاظ سے ضروری بھی ہے۔

دوسروں پر ناحق لعنت بھیجنے اور تکفیر کا حکم اور اس کے نتائج کیا ہیں؟

مختصر جواب:

ہماری دینی تعلیمات میں دوسروں پر ناحق لعن و تکفیر کرنے کی ممانعت کے علاوہ ، دین اسلام نے کسی کو اس کی اجازت نہیں دی ہے، ہمارے دینی پیشواوں کی کچھ روایتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ:

اگر کوئی شخص کسی پر لعنت بھیجے اور وہ شخص لعنت کا مستحق نہ ہو، تو یہ لعنت خود لعنت کرنے والے کی طرف پلٹ جاتی ہے۔

تفصیلی جوابات:

1- دوسروں پر لعنت بھیجنا اور نفرین و تکفیر کرنا اور بُرا بھلا کہنا ، جبکہ طرف مقابل تکفیر و لعنت وغیرہ کا مستحق نہ ہو، قدرتی ہے ایسے کام کی شرع مقدس اسلام اور دینی تعلیمات میں ممانعت کی گئی ہے اور ایسے شخص کے لیے عذاب اخروی بھی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے، جس کے احکام حکمت و مصلحت کی بناء پر ہیں، بلکہ کوئی انسان اور غیر الہٰی قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ہے اور انسانوں کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ دوسرے باشندوں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کریں، بلکہ ایسا کام کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی جاتی ہے۔

2- اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ با ایمان انسان ، نہ صرف ان چیزوں کو زبان پر جاری نہیں کرتے ہیں، جو گناہ ہوں اور کسی کی حق تلفی ہوں، بلکہ ان باتوں کو بھی زبان پر جاری نہیں کرتے ہیں، جو گناہ اور منفی نہیں ہیں اور اصطلاح میں انہیں لغو کہتے ہیں۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:

یقیناً صاحب ایمان کامیاب ہو گئے اور لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں۔

سورہ مؤمنون آیت 1،2

حقیقت میں لغو ، بعض مفسرین کے بقول ہر وہ گفتار و عمل ہے کہ جس کا قابل ملاحظہ فائدہ نہ ہو۔

مکارم، ناصر، تفسير نمونه، ج‏14، ص 195، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1372ش.

یہ آیت فرما رہی ہے کہ درحقیقت مؤمنین ایسے تربیت یافتہ ہوتے ہیں کہ نہ صرف باطل تصورات اور بے بنیاد باتوں اور بیہودہ کام انجام نہیں دیتے ہیں، بلکہ قرآن مجید کی تعبیر میں ان سے پرہیز کرتے ہیں، دوسروں کو لعن و تکفیر کرنے کی بات ہی نہیں۔

3- ہماری دینی تعلیمات مین اس قسم کے کاموں کی ممانعت کے علاوہ ، دینی پیشواوں کی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ : اگر کوئی کسی پر لعنت بھیجے اور وہ شخص لعنت کا مستحق نہ ہو تو یہ لعنت، اسی لعنت کرنے والے کی طرف پلٹتی ہے:

وَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَجُلٌ الرِّيحَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَقَالَ لَا تَلْعَنِ الرِّيحَ فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ وَ إِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئاً لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ،

ایک شخص نے رسول خدا (ص) کے سامنے ہوا پر لعنت بھیجی، رسول خدا (ص) نے فرمایا: ہوا پر لعنت نہ بھیجو، کیونکہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہے اور بیشک جو کسی پر لعنت کرے اور وہ مستحق لعنت نہ ہو، تو وہ لعنت، لعنت کرنے والے کی طرف پلٹتی ہے۔

کلینی، کافی، ج 8، ص 69، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1368ش.

اس روایت سے واضح ہے کہ ہوا پر لعنت کی گئی ہے اور اس کے خلاف برا بھلا کہا گیا ہے، نہ کہ انسان پر کہ جس کا احترام خانہ کعبہ کے احترام کے مانند ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے کردار و گفتار کے بارے میں ہوشیار  رہنا چاہیے اور کسی دلیل اور شرعی حجت کے بغیر کسی کام کا اقدام نہ کریں۔

4- البتہ اس نکتہ کی طرف یاد دہانی کرنا ضروری ہے کہ اولیائے الہٰی کو اذیت پہنچانے والوں پر لعنت کرنا، نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کی ترجیح بھی ہے، لیکن جو کچھ بیان کیا گیا، مذکورہ سوال کے پیش نظر، ان افراد کے بارے میں ہے جو ناحق دوسروں پر لعنت بھیجتے ہیں اور تکفیر کرتے ہیں اور مختلف شخصیتوں کو چیلنج کرتے ہیں، نہ کہ ان لوگوں پر جنہوں نے انبیاء و اولیائے الہٰی کو اذیت پہنچائی ہے کہ ان پر خدا اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد الہٰی ہے:

جو لوگ ہمارے نازل کیے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کر دینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں اور ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔

سورہ بقره، آیت 159.

سوال:

کیا آئمہ اطہار (ع ) کی طرف سے کوئی ایسی روایت نقل کی گئی ہے، جس کے مطابق معلوم ہو جائے کہ اہل بیت (ع ) کے دشمنوں پر لعنت بھیجنے کا ثواب ہے ؟

مختصر جواب:

شیعوں کی احادیث کی کتب میں اہل بیت (ع) کے دشمنوں پر لعنت بھیجنے کے ثواب سے متعلق کثرت سے روایات ملتی ہیں۔ امام رضا (ع) نے شبیب بن ریان سے فرمایا:

اگر تم امام حسین (ع) کے ساتھ شہید ہونے والے اصحاب کا ثواب حاصل کرنا چاہتے ہو، اور بہشت میں پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ساکن ہونا چاہتے ہو، ۔ ۔ ۔ تو جب بھی امام حسین (ع) کو یاد کرو تو ، ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجا کرو۔

اس کے علاوہ داؤد ابن کثیر رقی کہتے ہیں کہ:

میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا، امام (ع) نے پانی مانگا اور جوں ہی پانی پی لیا تو رونے لگے اور ان کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوئے ۔ اس کے بعد فرمایا:

اے داؤد خدا قاتلان حسین (ع ) پر لعنت کرے۔

کتاب کامل الزیارات میں ایک باب ہے، جس کا نام " پانی پیتے ہوئے امام حسین (ع) کی یاد کرنے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجنے والے کے ثواب ہے۔"

تفصیلی جوابات:

شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں اہل بیت (ع) کے دشمنوں پر لعنت بھیجنے کے ثواب سے متعلق کثرت سے روایتیں ملتی ہیں۔ یہاں پر ہم ان روایتوں میں سے صرف دو نمونوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:

1- حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ الْكُوفِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ الْخَشَّابِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ: قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) إِذَا اسْتَسْقَى الْمَاءَ فَلَمَّا شَرِبَهُ رَأَيْتُهُ قَدِ اسْتَعْبَرَ وَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِدُمُوعِهِ ثُمَّ قَالَ لِي يَا دَاوُدُ لَعَنَ اللَّهُ قَاتِلَ الْحُسَيْنِ ع فَمَا مِنْ عَبْدٍ شَرِبَ الْمَاءَ فَذَكَرَ الْحُسَيْنَ ع وَ لَعَنَ قَاتِلَهُ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَ حَطَّ عَنْهُ مِائَةَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَ رَفَعَ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ دَرَجَةٍ وَ كَأَنَّمَا أَعْتَقَ مِائَةَ أَلْفِ نَسَمَةٍ وَ حَشَرَهُ اللَّهُ،

داؤد ابن کثیر کہتے ہیں کہ: میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا، امام (ع) نے پانی مانگا، جب پانی پی لیا، تو گریہ و زاری کی اور آپ (ع) کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوئے اور اس کے بعد فرمایا:

اے داؤد خدا حسین (ع) کے قاتلوں پر لعنت بھیجے ، کوئی ایسا بندہ نہیں ہے کہ جو پانی پیتے وقت حسین (ع) کو یاد نہ کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت نہ بھیجے، اس کے لیے خداوند متعال ایک لاکھ ثواب درج کرتا ہے، اور اس کے ایک لاکھ گناہ بخش دیتا ہے۔ اس کے لیے ایک لاکھ درجات بلند کرتا ہے، گویا اس نے ایک لاکھ بندے آزاد کیے ہیں اور قیامت کے دن نورانی چہرے کے ساتھ محشور ہو گا۔

قابل بیان ہے کہ کتاب کامل الزیارات میں ایک باب ہے، جس کا نام پانی پیتے ہوئے امام حسین (ع) کو یاد کرنے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجنے والے کے ثواب کے بارے میں ہے۔

ابن قولویه قمی، كامل الزيارات، ص 107، الباب الرابع و الثلاثون ثواب من شرب الماء و ذكر الحسين‏ (ع) و لعن قاتله، مرتضوی، طبع اول، نجف، 1356ق.

 2- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الرَّيَّانِ بْنِ شَبِيبٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا ع فِي أَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّمِ- فَقَالَ لِي يَا ابْنَ شَبِيبٍ أَ صَائِمٌ أَنْتَ فَقُلْتُ لَا فَقَالَ إِنَّ هَذَا الْيَوْمَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي دَعَا فِيهِ زَكَرِيَّا ع رَبَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعاءِ فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ وَ أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَنَادَتْ زَكَرِيَّا وَ هُوَ قائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى‏ فَمَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ ثُمَّ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ كَمَا اسْتَجَابَ لِزَكَرِيَّا ع ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنَّ الْمُحَرَّمَ هُوَ الشَّهْرُ الَّذِي كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ فِيمَا مَضَى يُحَرِّمُونَ فِيهِ الظُّلْمَ وَ الْقِتَالَ لِحُرْمَتِهِ فَمَا عَرَفَتْ هَذِهِ الْأُمَّةُ حُرْمَةَ شَهْرِهَا وَ لَا حُرْمَةَ نَبِيِّهَا ص لَقَدْ قَتَلُوا فِي هَذَا الشَّهْرِ ذُرِّيَّتَهُ وَ سَبَوْا نِسَاءَهُ وَ انْتَهَبُوا ثَقَلَهُ فَلَا غَفَرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ أَبَداً يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ وَ قُتِلَ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ شَبِيهُونَ وَ لَقَدْ بَكَتِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ لِقَتْلِهِ وَ لَقَدْ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ لِنَصْرِهِ فَوَجَدُوهُ قَدْ قُتِلَ فَهُمْ عِنْدَ قَبْرِهِ شُعْثٌ غُبْرٌ إِلَى أَنْ يَقُومَ الْقَائِمُ فَيَكُونُونَ مِنْ أَنْصَارِهِ وَ شِعَارُهُمْ يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ يَا ابْنَ شَبِيبٍ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ ع أَنَّهُ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ جَدِّي ص مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ تُرَاباً أَحْمَرَ يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ بَكَيْتَ عَلَى الْحُسَيْنِ ع حَتَّى تَصِيرَ دُمُوعُكَ عَلَى خَدَّيْكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ كُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتَهُ صَغِيراً كَانَ أَوْ كَبِيراً قَلِيلًا كَانَ أَوْ كَثِيراً يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا ذَنْبَ عَلَيْكَ فَزُرِ الْحُسَيْنَ عيَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَسْكُنَ الْغُرَفَ الْمَبْنِيَّةَ فِي الْجَنَّةِ مَعَ النَّبِيِّ وَ آلِهِ ص فَالْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَيْنِ يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْهِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ ع فَقُلْ مَتَى مَا ذَكَرْتَهُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَ افْرَحْ لِفَرَحِنَا وَ عَلَيْكَ بِوَلَايَتِنَا فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا تَوَلَّى حَجَراً لَحَشَرَهُ اللَّهُ مَعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَة،

ریان ابن شبیب کہتے ہیں: میں ماہ محرم کی پہلی تاریخ کو امام رضا (ع ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (ع ) نے مجھ سے فرمایا: اے ابن شبیب کیا روزے سے ہو ؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا: آج وہ دن ہے، جس دن حضرت زکریا (ع) نے اپنے پروردگار سے دعا مانگی اور کہا کہ مجھے ایک پاک نسل عطا کرنا، کیونکہ تو دعا کو سننے والا ہے۔ خداوند نے ان کی دعا قبول کی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ محراب عبادت میں مشغول زکریا کو کہدیں کہ: خداوند متعال تجھے یحیی کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص آج کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جیسے حضرت زکریا کی دعا کو قبول کیا۔ اس کے بعد فرمایا:

اے ابن شبیب بیشک محرم وہ مہینہ ہے، کہ ماضی میں دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ ہی پیغمبر اکرم (ص) کا احترام کیا۔ اس مہینے میں پیغمبر اکرم (ص) کی اولاد کو قتل کیا گیا اور ان کی خواتین کو اسیر بنایا گیا اور ان کے مال کو لوٹ لیا گیا۔ خدا ان کے اس گناہ کو ہرگز نہیں بخش دے گا۔

اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لیے گریہ و زاری کرنا چاہتے ہو، تو حسین (ع) کے لیے گریہ و زاری کرنا کیونکہ گوسفند کے مانند ان کے بدن سے سر کو جدا کیا گیا اور آپ (ع) کے خاندان کے اٹھارہ افراد کو شہید کیا گیا، جو زمین پر بے مثال تھے۔ سات آسمانوں اور زمین نے ان کے لیے گریہ کیا، آپ (ع ) کی مدد کے لیے چار ہزار فرشتے زمین پر اترے اور دیکھا کہ امام حسین (ع ) قتل کر دئیے گئے ہیں۔ یہ فرشتے آپ (ع) کی قبر پر پریشان اور خاک آلودہ ہیں اور قائم آل محمد (عج) کے ظہور تک اسی حالت میں رہیں گے۔ ۔ ۔ ان کا نعرہ " یا لثارات الحسین " ہے۔

اے شبیب کے بیٹے میرے باپ نے اپنے باپ سے اور انھوں نے اپنے جد امجد سے سنا ہے کہ:  جب میرے جد امام حسین (ع) قتل کیے گئے آسمان سے خون اور سرخ مٹی کی بارش ہوئی۔

اے شبیب کے بیٹے: اگر حسین (ع) پر گریہ و زاری کرو گے یہاں تک کہ آپ کی انکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں، خداوند متعال آپ کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں کو بخش دے گا۔

اے شبیب کے بیٹے، اگر تم خدا سے ملاقات کرنا چاہتے ہو اور گناہوں سے پاک ہونا چاہتے ہو تو حسین (ع) کی زیارت کرنا۔

اے شبیب کے بیٹے، اگر بہشت میں پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ حجرے میں ساکن ہونا چاہتے ہو، تو حسین (ع) کے قاتلوں پر لعنت بھیجا کرو۔

اے شبیب کے بیٹے، اگر امام حسین (ع) کے ساتھ شہید ہونے  والے اصحاب کا ثواب حاصل کرنا چاہتے ہو تو، جب بھی حسین (ع) کی یاد آئے، کہنا کہ کاش، میں بھی ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ پر فائز ہوتا۔

اے ابن شبیب، اگر ہمارے ساتھ بہشت کے بلند درجوں میں رہنا چاہتے ہو، تو ہمارے غم میں مغموم اور ہماری خوشی میں شاد و خوشحال ہوا کرو  اور ہماری ولایت سے ملحق ہو جاؤ ۔ ۔ ۔

ابن قولویه قمی، كامل الزيارات، ص 107، الباب الرابع و الثلاثون ثواب من شرب الماء و ذكر الحسين‏ (ع) و لعن قاتله، مرتضوی، طبع اول، نجف، 1356ق.

لعنت سے کیا مراد ہے ؟

لفظ لعنت عربی زبان کا اسم مؤنث ہے۔ جس کے معنی پھٹکار، نفرتیں، سرزش، دہتکار، سخت سست اور برا بھلا کے ہیں۔

فیروز الدین، فیروز اللغات : 115، فیروز سنز لاہور راولپنڈی۔ کراچی

لفظ لعنت اپنے مصدر و مشتقّات کے ساتھ 41 مقامات پر قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے اور ان میں سے بہت سے مقام پر لعنت کی نسبت خود خداوند کی طرف دی گئی ہے۔ لفظ لعن کے مقابلے پر لفظ سبّ (گالی دینا) ہے کہ جو فقط ایک مرتبہ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے اور سبّ دینے سے منع کیا گیا ہے۔

سبّ در قرآن:

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ،

اور جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں انہیں برا نہ کہو ورنہ وہ بے سمجھی میں زیادتی کر کے اللہ کو برا کہیں گے۔

سوره انعام آيت 108

قرآن کی نگاہ میں کن کن نے لعنت کی ہے:

قرآن کی نگاہ میں چند گرہوں نے لعنت کی ہے:

خداوند :

1- بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ،

اور یہودیوں نے کہا: ہمارے دلوں پر غلاف ہیں، (ایسا نہیں) بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے ،

سوره بقره آيه 88

2- فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ،

پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔

سوره بقره آيه89

3- إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ ...

بیشک جو لوگ ہماری نازل کردہ کھلی نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے (اپنی) کتاب میں واضح کردیا ہے تو انہی لوگوں پر ﷲ لعنت بھیجتا ہے (یعنی انہیں اپنی رحمت سے دور کرتا ہے) اور لعنت بھیجنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں،

سوره بقره آيه 159

4- إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ ...

بیشک جنہوں نے (حق کو چھپا کر) کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہی تھے ان پر ﷲ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے،

سوره بقره آيه 161

5- فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ،

پھر جو کوئی تجھ سے اس واقعہ میں جھگڑے بعد اس کے کہ تیرے پاس صحیح علم آچکا ہے تو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں، پھر سب التجا کریں اور اللہ کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں۔

سوره آل عمران آيه 61

6- وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ * أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ ...

اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔ ایسے لوگوں کی یہ سزا ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔

سوره آل عمران آيات86 و 87

7-  وَلَكِنْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ،

لیکن ان کے کفر کے سبب سے اللہ نے ان پر لعنت کی۔

سوره نساء آيه 46

8- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آَمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَى أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ،

اے کتاب والو! اس پر ایمان لے آؤ جو ہم نے نازل کیا ہے اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے اس سے پہلے کہ ہم بہت سے چہروں کو مٹا ڈالیں پھر انہیں پیٹھ کی طرف الٹ دیں یا ان پر لعنت کریں جس طرح ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی تھی، اور اللہ کا حکم تو نافذ ہو کر ہی رہتا ہے۔

سوره نساء آيه47

9- أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا،

یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے، اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کا تو کوئی مددگار نہیں پائے گا۔

سوره نساء آيه 52

10- وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا،

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔

سوره نساء آيه 93

11- ... وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا * لَعَنَهُ اللَّهُ ...

اور صرف شیطان سرکش کی عبادت کرتے ہیں۔ اس (شیطان) پر اللہ کی لعنت ہے،

سوره نساء آيه 117 و 118

12- فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ ...

ہر ان کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا،

سوره مائدة آيه 13

13- قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ...

کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے ہاں ان میں سے کس کی بری جزا ہے، وہی جس پر اللہ نے لعنت کی اور اس پر غضب نازل کیا اور بعضوں کو ان میں سے بندر بنایا اور بعضوں کو سور اور جنہوں نے شیطان کی بندگی کی، وہی لوگ درجہ میں بدتر ہیں اور راہ راست سے بھی بہت دور ہیں۔

سوره مائدة آيه 60

سوره مائده آيه 78

14- ... فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ،

پھر ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ان ظالمو ں پر اللہ کی لعنت ہے۔

سوره أعراف آيه44

15- وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ،

اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں کو دوزخ کی آگ کا وعدہ دیا ہے پڑے رہیں گے اس میں، وہی انہیں کافی ہے، اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے، اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔

سوره توبه آيه 68

16- ... أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ،

خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

سوره هود آيه 18

17- وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ۔

اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے۔

سوره نور آيه 7

18- وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُمْ مِنَ الْمَقْبُوحِينَ،

اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی، اور وہ قیامت کے دن بھی بدحالوں میں ہوں گے۔

سوره قصص آيه 42

19- إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا،

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کیا ہے۔

سوره أحزاب آيه57

20- إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا،

بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے دوزخ تیار کر رکھا ہے۔

سوره أحزاب آيه 64

21- وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا * رَبَّنَا آَتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا،

اور کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا سو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ اے ہمارے رب انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔

سوره أحزاب آيات 67 و 68

22- قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ * وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ،

فرمایا پھر تو یہاں سے نکل جا کیونکہ تو راندہ گیا ہے۔ اور تجھ پر قیامت تک میری لعنت ہے۔

سوره ص آيات 77 و 78

23- أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ،

یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے پھر انہیں بہرا اور اندھا بھی کر دیا ہے۔

سوره محمد آيات 22 و 23

24- وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا،

اور تاکہ منافق مردوں اور عورتوں کو اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب دے جو اللہ کے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں، انہیں پر بری گردش ہے، اور اللہ نے ان پر غضب نازل کیا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لیے دوزخ تیار کر رکھا ہے، اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔

سوره فتح آيه 6

ملائکہ :

1- إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ،

بے شک جنہوں نے انکار کیا اور انکار ہی کی حالت میں مر بھی گئے تو ان پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں اور سب لوگوں کی بھی۔

سوره بقره آيه 161

2- وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ * أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ،

اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔ ایسے لوگوں کی یہ سزا ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔

سوره آل عمران آيات86 و 87

تمام لوگوں (الناس اجمعين) :

1- إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ،

بے شک جنہوں نے انکار کیا اور انکار ہی کی حالت میں مر بھی گئے تو ان پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں اور سب لوگوں کی بھی۔

سوره بقره آيه 161

2- وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ * أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ،

اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔ ایسے لوگوں کی یہ سزا ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔

سوره آل عمران آيات86 و 87

پنج تن آل عبا  (ع):

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ،

پھر جو کوئی تجھ سے اس واقعہ میں جھگڑے بعد اس کے کہ تیرے پاس صحیح علم آچکا ہے تو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں، پھر سب التجا کریں اور اللہ کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں۔

سوره آل عمران آيه 61

حضرت داوود اور حضرت عيسی ابن مريم (ع) :

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ،

بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کی زبان سے لعنت کی گئی، یہ اس لیے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے۔

سوره مائده آيه 78

قیامت کے دن نداء دینے والے ( موذّن) :

... فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ،

پھر ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ان ظالمو ں پر اللہ کی لعنت ہے۔

سوره أعراف آيه44

مرد در لعان :

وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ،

اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے۔

سوره نور آيه 7

کافر امتیں قیامت کے دن جہنم میں ایک دوسرے پر لعنت کریں گی:

1- قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ فِي النَّارِ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَعَنَتْ أُخْتَهَا ...

فرمائے گا جنوں اور آدمیوں میں سے کہ جو امتیں تم سے پہلے ہو چکی ہیں ان کے ساتھ دوزخ میں داخل ہو جاؤ، جب ایک امت داخل ہوگی تو دوسری پر لعنت کرے گی۔

سوره أعراف آيه 38

2- وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ،

اور ابراہیم نے کہا کہ تم جو خدا کو چھوڑ کر بتوں کو لے بیٹھے ہو تو دنیا کی زندگی میں باہم دوستی کے لیے (مگر) پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے (کی دوستی) سے انکار کر دو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہو گا اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہو گا،

سوره عنكبوت آيه25

3- وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا * رَبَّنَا آَتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا،

اور کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا سو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ اے ہمارے رب انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔

سوره أحزاب آيات 67 و 68

لعنت کرنے والے (اللاعنون) :

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ،

بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا، یہی لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

سوره بقره آيه 159

سوره مائده آيه 64

سوره هود آيات 59 و60

سوره هود آيات 97 تا99

سوره رعد آيه 25

سوره حجر آيات 34 و 35

سوره إسراء آيه 60

سوره نور آيه 23

سوره أحزاب آيه60 و 61

سوره غافر آيه 52

قرآن کریم میں کن کن پر لعنت کی گئی ہے:

1- کفار و مشركين :

1- بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ،

سوره بقره آيه 88

2- فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ،

سوره بقره آيه89

3- إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ،

سوره بقره آيه 161

4- وَلَكِنْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ،

سوره نساء آيه 46

5- وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ،

سوره توبه آيه 68

6- إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا،

سوره أحزاب آيه 64

7- وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا،

سوره فتح آيه 6

2- نصارا کا وہ گروہ کہ جہنوں نے رسول خدا کے ساتھ مباہلہ کیا تھا:

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ،

سوره آل عمران آيه 61

3- اصحاب سبت :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آَمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَى أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ،

اے کتاب والو! اس پر ایمان لے آؤ جو ہم نے نازل کیا ہے اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے اس سے پہلے کہ ہم بہت سے چہروں کو مٹا ڈالیں پھر انہیں پیٹھ کی طرف الٹ دیں یا ان پر لعنت کریں جس طرح ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی تھی، اور اللہ کا حکم تو نافذ ہو کر ہی رہتا ہے۔

سوره نساء آيه47

4- وہ اہل کتاب کہ جہنوں نے رسول خدا  (ص)کے فرامین پر عمل نہ کیا اور کافر ہو گئے:

1- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آَمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَى أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ،

سوره نساء آيه47

2- لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ،

سوره مائده آيه 78

5- وہ جو جبت و طاغوت پر ایمان لائے اور کہتے تھے کہ کفار مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آَمَنُوا سَبِيلًا * أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا،

سوره نساء آيه 51 و 52

6- شيطان :

1- وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا * لَعَنَهُ اللَّهُ ...

سوره نساء آيه 117 و 118

2- قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ * قَالَ لَمْ أَكُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ * قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ * وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ،

سوره حجر آيات 32 تا 35

3- قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ * قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ * قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ *وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ،

سوره ص آيات 75 تا 78

7- وہ کہ جن پر خداوند نے غضب کیا اور انکو مسخ کیا:

قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ...

سوره مائدة آيه 60

8- وہ یہودی کہ جو کہتے تھے کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں:

وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ...

اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بند ہوگیا ہے، انہیں کے ہاتھ بند ہوں اور انہیں اس کہنے پر لعنت ہے، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں جس طرح چاہے خرچ کرتا ہے،

سوره مائده آيه 64

9- قوم عاد :

وَتِلْكَ عَادٌ جَحَدُوا بِآَيَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ *  وَأُتْبِعُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ،

سوره هود آيات 59 و60

10- فرعون ، اسکے لشکر اور اسکی قوم کے بزرگان پر جیسے ہامان:

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ * وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ * فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ * وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنْصَرُونَ * وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُمْ مِنَ الْمَقْبُوحِينَ،

اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا اور کوئی معبود ہے، پس اے ہامان! تو میرے لیے گارا پکوا پھر میرے لیے ایک بلند محل بنوا کہ میں موسٰی کے خدا کو جھانکوں، اور بے شک میں اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

اور اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین پر ناحق تکبر کیا اور خیال کیا کہ وہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

پھر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا، پھر انہیں دریا میں پھینک دیا سو دیکھ لو ظالموں کا کیا انجام ہوا۔

اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا وہ دوزخ کی طرف بلاتے تھے، اور قیامت کے دن انہیں مدد نہیں ملے گی۔

اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی، اور وہ قیامت کے دن بھی بدحالوں میں ہوں گے۔

سوره قصص آيات 38 تا 42

11- قوم فرعون :

... فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ * يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ * وَأُتْبِعُوا فِي هَذِهِ لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ،

سوره هود آيات 97 تا99

12- جہنمی امتوں پر:

1- قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ فِي النَّارِ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَعَنَتْ أُخْتَهَا ...

سوره أعراف آيه 38

2- وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ،

سوره عنكبوت آيه25

13- بنی اسرائیل کہ جہنوں نے عہد الہی کو توڑا:

وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ ... فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ ...

سوره مائدة آيه 12 و 13

14- منافقين:

1- وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ،

سوره توبه آيه 68

2- لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ... * مَلْعُونِينَ ...

سوره أحزاب آيه60 و 61

3- وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا،

سوره فتح آيه 6

15- وہ کہ جنکے دلوں میں مرض ہے اور وہ جو شہر مدینہ میں افواہیں پھیلاتے تھے:

لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ... * مَلْعُونِينَ ...

سوره أحزاب آيه60 و 61

16- جہنوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر خداوند سے سوئے ظن کیا تھا:

وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا،

سوره فتح آيه 6

17- جو خدا اور اسکے رسول کو اذیت کرتے ہیں:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا،

سوره أحزاب آيه57

18- وہ شخص جو لعان میں جھوٹ بولے:

1- وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ،

سوره نور آيه 7

لعان ایک حکم شرعی ہے کہ جو مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے۔

19- شجره ملعونہ :

... وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآَنِ ...

اور وہ خواب جو ہم نے تمہیں دکھایا اور وہ خبیث درخت جس کا ذکر قرآن میں ہے ان سب کو ان لوگوں کے لیے فتنہ بنا   دیا ہے۔

سوره إسراء آيه 60

شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے ؟

اہل سنت کے نامور و مشہور مفسر طبری نے کہا ہے کہ:

قوله (والشجرة الملعونة في القرآن ... ) ولا اختلاف بين أحد أنه أراد بها بنى أمية،

قرآن میں خداوند کے اس قول کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ ہیں۔

تاريخ الطبري ج5 ص622

20- وہ جو دینی حقائق کو لوگوں کے لیے بیان نہیں کرتے تھے:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ،

بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا، یہی لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

سوره بقره آيه 159

21- ظالمین :

1- وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ * أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ،

سوره آل عمران آيات86 و 87

2- ... فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ،

سوره أعراف آيه44

3- ... أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ،

سوره هود آيه 18

4- يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّار،

سوره غافر آيه 52

22- عہد توڑنے، زمین میں فساد پھیلانے اور قطع تعلق کرنے والوں پر:

1- وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ،

سوره رعد آيت 25

2- فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ * أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ،

سوره محمد آيات 22 و 23

23- جو پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں:

إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ،

جو لوگ پاک دامنوں بے خبر ایمان والیوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

 سوره نور آيه 23

24- جو جان بوجھ کر مسلمان کو قتل کرے:

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا،

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔

سوره نساء آيه 93

25- امتوں کے بزرگان کہ جو جہنم میں عذاب میں مبتلا ہوں گے:

وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا * رَبَّنَا آَتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا،

اور کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا سو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ اے ہمارے رب انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔

سوره أحزاب آيات 67 و 68

26- جھوٹ بولنے والے:

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔

سوره آل عمران آيه 61

خلاصہ:

گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ہوا کہ سبّ یعنی گالی دینے اور لعنت کرنے میں واضح فرق موجود ہے۔ گالی دینا ایک مذموم عمل ہے، جبکہ لعنت کرنا، ایک جائز عمل ہے۔ قرآن اور روایات میں گالی دینے سے منع کیا گیا ہے اور اسے ایک حرام عمل قرار دیا گیا ہے، لیکن لعنت کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ جیسا کہ ذکر ہوا خود خداوند اور رسول خدا (ص) نے متعدد مقامات پر مختلف گرہوں پر شدید لعنت کی ہے۔ البتہ یہ لعنت کبھی کلی طور پر اور کبھی اشخاص کا نام لے کر کی گئی ہے۔

آج مسلمان فقط اپنی بد نیتی اور فتنے فساد کے لیے جان بوجھ کر گالی اور لعنت کو ایک ہی شمار کرتے ہیں اور گالی کو لعنت اور لعنت کو گالی میں شمار کرتے ہیں۔ اہل بیت (ع) کی تعلیمات کی روشنی میں شیعہ کسی کو گالی نہیں دیتے، لیکن قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے، دشمنان اہل بیت پر لعنت کرتے ہیں، البتہ یہ لعنت بھی شرائط اور زمانے کے حالات کے مطابق ہونی چاہیے۔ آج مسلمانوں کو شیعوں کی لعنت گالی کی صورت میں نظر آتی ہے، لیکن معاویہ علیہ الھاویہ اور بنی امیہ کی اہل بیت (ع) کو اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (ع) کو گالیاں دینا، اجتہاد اور اعتراض نظر آتا ہے۔ حتی خود اہل سنت کی روایات میں ملتا ہے کہ معاویہ نہ فقط یہ کہ خود امیر المؤمنین علی (ع) کو گالیاں دیتا تھا، بلکہ دوسروں کو بھی یہ غلط کام کرنے کا حکم دیتا تھا۔

معاویہ علیہ الھاویہ اور بنی امیہ کے غصبی دور سلطنت میں 70 ہزار منبروں سے تقریبا 80 سال تک امیر المؤمنین علی (ع) کو گالیاں دی جاتیں تھیں۔ آج صحابہ کے احترام کے جھوٹے نعرے لگانے والوں کو کیا اپنے چوتھے خلیفہ علی (ع) کو گالیاں دینے والا معاویہ نظر آتا ہے یا نہیں !!! یا یہ لوگ علی (ع) کو صحابی ہی نہیں سمجھتے !!!

ان جیسے لوگوں کے لیے فقط یہی کہا جا سکتا ہے:

خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ،

فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ،

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ،

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ،

خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے

ان کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا۔

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔

دیکھو یہ بلاشبہ مفسد ہیں، لیکن خبر نہیں رکھتے۔

سورہ بقرہ آیات 7 _ 12

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات