2024 March 29
کیا جناب عبد الله اور جناب عبد المطلب مؤمن تھے یا نہیں ؟
مندرجات: ١٨١٣ تاریخ اشاعت: ٠٣ July ٢٠١٩ - ١٨:١٠ مشاہدات: 5116
سوال و جواب » نبوت
کیا جناب عبد الله اور جناب عبد المطلب مؤمن تھے یا نہیں ؟

 

سوال:

کیا جناب عبد الله اور جناب عبد المطلب مؤمن تھے یا نہیں ؟

جواب:

علمائے تفسیر نے اس بحث کو سورہ انعام کی آیت 74 اور سورہ شعراء کی آیت 219 اور بعض دوسری آیات کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔

سید جعفر مرتضی عاملی نے کتاب الصحيح من سيرة النبي الأعظم جلد 1 صفحہ 150 تا  154 اس بحث کو ذکر کیا ہے۔

تمام شیعہ علماء اور بعض سنی علماء کا اعتقاد ہے کہ رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد خدا پرست اور موحد تھے۔

أوائل المقالات - الشيخ المفيد - ص 45

كشف الخفاء ، ج1  ، ص 62

روح المعاني  ج 1   ص 371

بحار الأنوار ، ج 15 ص 118

اس نظرئیے پر دلائل:

الف: دلیل عقلی

صغری (پہلا مقدمہ) :

رسول خدا (ص) کو ہر اس چیز سے پاک اور دور ہونا چاہیے کہ جس سے لوگ نفرت کرتے ہوں اور اس سے دور بھاگتے ہوں۔ 

کبری (دوسرا مقدمہ) :

رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد کا مشرک ہونا، اس سے لوگ رسول خدا سے نفرت کرتے اور دور بھاگتے ہیں۔

نتیجہ:

پس رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد شرک سے پاک اور موحد ہیں۔

ب: آیات قرآن:

آیت اول:

اَلَّذى يَرَيكَ حينَ تَقُومُ وَتَقُلُّبَكَ فِى السّاجِدينَ،

جب تم کھڑے ہوتے ہو اور سجدہ کرنے والوں کے درمیان حرکت کرتے ہو تو وہ تمہیں دیکھتا ہے۔

سوره شعراء، آیت 218 و 219

شیخ مفید کہتے ہیں:

يريد به تنقله في أصلاب الموحدين،

اس سے مراد رسول خدا (ص) کو موحد افراد کے صلب میں منتقل کرنا ہے۔

تصحيح اعتقادات الإمامية - الشيخ المفيد - ص 139

فخر رازی نے اس آیت کے معنی میں لکھا ہے:

ومما يدل أيضاً على أن أحداً من آباء محمد عليه السلام ما كان من المشركين قوله عليه السلام لم أزل أنقل من أصلاب الطاهرين إلى أرحام الطاهرات وقال تعالى إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ وذلك يوجب أن يقال إن أحداً من أجداده ما كان من المشركين،

ان چیزوں میں سے کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد مشرک نہیں تھے، وہ رسول خدا (ص) کا کلام ہے کہ: میں پاک اصلاب سے پاک ارحام تک منتقل ہوتا رہا، کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے:

مشرک نجس ہے، پس یہ سبب ہوتا ہے کہ ہم کہیں کہ رسول خدا کے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہیں تھا۔

التفسير الكبير  ج 13   ص 33

شیخ طوسی نے کہا ہے:

آباء النبي صلى الله عليه وآله كلهم كانوا مسلمين إلى آدم ولم يكن فيهم من يعبد غير الله تعالى لقوله صلى الله عليه وآله لم يزل الله ينقلني من أصلاب الطاهرين إلى أرحام الطاهرات والكافر لا يوصف بالطهارة لقوله تعالى إنما المشركون نجس،

رسول خدا (ص) کے حضرت آدم تک آباء و اجداد تمام مسلمان تھے اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ جو غیر خدا کی عبادت کرتا ہو، کیونکہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:

خداوند ہمیشہ مجھے پاک و طاہر اصلاب سے پاک و طاہر ارحام میں منتقل کرتا رہا اور کافر پاک و طاہر نہیں ہو سکتا کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے:

 مشرک نجس ہوتے ہیں، (پس رسول خدا کے آباء و اجداد پاک و موحد و مسلمان تھے)۔

التبيان في تفسير القرآن - الشيخ الطوسي - ج 7 ص 129

آیت دوم:

وَإِذْ قالَ إِبْراهيمُ رَبِّ اجْعَلْ هذَا الْبَلَدَ آمِناً وَاجْنُبْنى وبَنِىَّ أَنْ نَعْبُدَ الاْصْنامَ،

اور ابراہیم نے کہا: اے میرے پروردگار اس سرزمین کو پر امن قرار دے اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت کرنے سے محفوظ فرما۔

سوره ابراهیم، آیت 35

اس آیت میں لفظ  هذا البلد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) کی بنی سے مراد، فرزندان اسماعیل اور رسول خدا (ص) کے آباء تھے اور یہ دعا صرف فرزندان اسماعیل (ع) کو شامل ہوتی ہے

ایک روایت میں آیا ہے:

قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنا دَعْوَةُ أبي إبراهيم قلنا يا رسول الله وكيف صِرْتَ دعوة أبيك إبراهيم قال أوحى الله عزَّ وجلَّ إلى إبراهيم إِنّي جاعِلُكَ لِلنّاسِ إِماماً فاستَخَفَّ إبراهيم الفَرَحُ قال يا رَبِّ ومِنْ ذُرِّيَّتِي أئمّة مِثْلي فأوحى الله إليه أن يا إبراهيم إني لا أُعطيك عهدا لا أفي لك به قال يا رب ما العهد الذي لا تفي لي به قال لا أعطيك لظالم من ذُرِّيَّتك قال إبراهيم عندها فَاجْنُبْنِي وبَنِيَّ أن نَعبُد الأصْنامَ رَبَّ إنَّهُنَّ أضْلَلْنَ كَثِيراً مِنَ النّاسِ قال النبيّ صلّى الله عليه وآله وسلّم فَانْتَهَتِ الدَّعوةُ إلَيَّ وإلى عَلِيّ لم يَسْجُدْ أحدٌ منّا لِصَنَم قطُّ فاتَّخَذني الله نَبيّاً واتَّخذ عَليّاً وَصِيّاً،

پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا: میں حضرت ابراہیم کی دعا کا معنی و مصداق ہوں، اصحاب نے عرض کیا: آپ کیسے حضرت ابراہیم کی دعا کا معنی و مصداق ہیں ؟ حضرت نے فرمایا:

خداوند نے ابراہیم کو خبر دی کہ میں نے تم کو لوگوں امام اور پیشوا قرار دیا ہے۔ ابراہیم نے خوش ہو کر کہا: خدایا میری اولاد میں سے بھی کسی کو امام قرار دے، خداوند نے فرمایا: می‍ں تم سے ایسا وعدہ نہیں کرتا کہ جس پر عمل نہ کروں، ابراہیم نے عرض کیا: کن موارد میں آپ میرے ساتھ وعدہ نہیں کرتے ؟ فرمایا: میں تیری اولاد میں سے ظالمین کی نسبت تم سے کوئی وعدہ نہیں کرتا، عرض کیا: میری اولاد میں سے کون سے ظالمین اس مقام پر فائز نہیں ہوں گے ؟

فرمایا: جو بھی بت پرستی کرے گا تو میں ہرگز اسے امام قرار نہیں دوں گا اور امامت کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ ابراہیم نے عرض کیا: خدایا مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے دور فرما، خدایا انھوں نے بہت زیادہ لوگوں کو گمراہ کیا ہے،

رسول خدا (ص) نے فرمایا: حضرت ابراہیم کی دعا میرے اور میرے بھائی علی (ع) کے لیے سنی گئی کہ ہم دونوں نے ایک لحظے کے لیے بھی بت کو سجدہ نہیں کیا، لہذا مجھے پیغمبر اور علی (ع) کو وصی قرار دیا۔

مناقب علي بن أبي طالب (ع) - ابن المغازلي - ص 224

رسول خدا (ص) نے اس روایت میں فرمایا ہے کہ:

حضرت ابراہیم کی دعا اسی طرح ہی جاری و ساری تھی، یہاں تک کہ وہ دعا مجھ اور میرے بھائی علی (ع) تک پہنچ گئی اور ہم ایک لحظے کے لیے بھی بت پرست نہیں بنے، جیسا کہ حضرت ابراہیم نے اسی چیز کو اپنی اولاد (فرزندان اسماعیل) کے لیے خداوند سے طلب کیا تھا۔

تفسیر عیاشی میں اسی آیت کے ذیل میں ایک روایت امام صادق (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ بنی ہاشم مسلمان تھے اور وہ بت پرست نہیں تھے۔

تفسير العياشي - محمد بن مسعود العياشي - ج 1 ص 61

کتاب فتح القدیر کے مصنف نے آیت کے ذیل میں کہا ہے:

وقيل أراد جميع ذريته ما تناسلوا ويؤيد ذلك ما قيل من أنه لم يعبد أحد من أولاد إبراهيم صنما،

اس آیت سے مراد حضرت ابراہیم کی پوری نسل ہے اور اسکی دلیل یہ ہے کہ فرزندان ابراہیم میں سے کوئی بھی بت پرست نہیں تھا۔

فتح القدير  ج 3   ص 112

آیت سوم:

خداوند نے سوره زخرف میں داستان حضرت ابراہیم (ع) کے بارے میں فرمایا ہے:

وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ،

اور اس نے اس (توحید) کو اپنی اولاد میں باقی رکھا تھا، تا کہ وہ خداوند کی طرف پلٹ جائیں۔

سوره زخرف آیت 28

طبری نے اپنی تفسیر میں آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے:

عن قتادة وجعلها كلمة باقية في عقبه قال التوحيد والاخلاص ولا يزال في ذريته من يوحد الله ويعبده،

قتادہ نے اس آیت کے بارے میں کہا ہے: آیت میں کلمہ سے مراد توحید و اخلاص ہے اور حضرت ابراہیم کی اولاد میں ہمیشہ کوئی ایسا رہا ہے کہ جو موحد تھا اور وہ خدا کی عبادت کیا کرتا تھا۔

جامع البيان عن تأويل آي القرآن - محمد بن جرير الطبري - ج 25 ص 81

شیخ طبرسی نے اپنی تفسیر میں آیت کے بارے میں کہا ہے:

وجعلها كلمة باقية في عقبه أي جعل كلمة التوحيد وهي قول لا إله إلا الله كلمة باقية في ذرية إبراهيم ونسله فلم يزل فيهم من يقولها،

آیت میں کلمہ سے مراد توحید ہے کہ وہ جملہ لا اله الا الله ہے کہ جو فرزندان اور نسل ابراہیم میں باقی رہا اور حضرت ابراہیم کی اولاد و نسل میں ہمیشہ کوئی ایسا رہا ہے کہ جو موحد تھا اور اس کلمے کو کہا کرتا تھا۔

تفسير مجمع البيان - الشيخ الطبرسي - ج 9 ص 76

ج:روایات:

اجداد رسول خدا (ص) کا پاک و طاہر ہونا:

بعض روایات رسول خدا (ص) کے آباء و امہات کے پاک و طاہر ہونے پر دلالت کرتی ہیں کہ اس بارے میں مختلف الفاظ مختلف کتب میں مذکور ہیں لیکن ان الفاظ کا معنی ایک ہی ہے:

کتاب المسترشد فی الامامۃ میں آیا ہے:

وقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لم يمسني سفاح أهل الجاهلية ولم أزل أنقلب من أصلاب الطاهرين إلى أرحام الطاهرات فليس لأحد أن يدعي الطهارة الا من جرى مع رسول الله إلى عبد المطلب الذي هو جده وجد أهل بيته،

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے: جاہلیت میں فحشاء سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا اور میں ہمیشہ پاک و طاہر اصلاب سے پاک و طاہر ارحام میں منتقل ہوتا رہا ہوں، پس کوئی بھی طہارت کا دعوی نہیں کر سکتا مگر یہ کہ وہ رسول خدا کی طرح نسل عبد المطلب سے ہو اور عبد المطلب، اسکا اور اسکے اہل بیت کا جدّ ہو۔

المسترشد - محمد بن جرير الطبري ( الشيعي ) - ص 581

الكافي - الشيخ الكليني - ج 1 ص 442

الأمالي - الشيخ الطوسي - ص 183

كفاية الأثر - الخزاز القمي - ص 71 و 72

أوائل المقالات - الشيخ المفيد - ص 46

مناقب آل أبي طالب - ابن شهر آشوب - ج 2 ص 24

إرشاد القلوب - الحسن بن محمد الديلمي - ج 2 ص 415

شیخ طوسی نے اس روایت کے صحیح ہونے کے بارے میں کہا ہے:

وهذا خبر لا خلاف في صحته،

یہ ایسی خبر ہے کہ جسکے صحیح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

التبيان في تفسير القرآن - الشيخ الطوسي - ج 4 ص 175

یہی روایت کتب اہل سنت میں بھی ذکر ہوئی ہے:

ومما يدل على أن آباء محمد صلى الله عليه وسلم ما كانوا مشركين قوله عليه الصلاة والسلام لم أزل أنقل من أصلاب الطاهرين إلى أرحام الطاهرات وقال تعالى إنما المشركون نجس فوجب أن لا يكون أحد من أجداده صلى الله عليه وسلم مشركا،

ان چیزوں میں سے کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ رسول خدا کے آباء و اجداد مشرک نہیں تھے، وہ رسول خدا کا کلام ہے کہ: میں پاک اصلاب سے پاک ارحام تک منتقل ہوتا رہا، کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے: مشرک نجس ہے، پس ضروری ہے کہ رسول خدا کے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہ ہو۔

سبل الهدى والرشاد - الصالحي الشامي - ج 1 ص 256

تفسير الرازي - فخر الدين الرازي - ج 13 ص 39

تفسير الآلوسي - الآلوسي - ج 7 ص 195

الدر المنثور في التفسير بالمأثور - جلال الدين السيوطي - ج 5 ص 98

جیسا کہ پہلی روایت میں ذکر ہوا تھا کہ ان احادیث میں لفظ طاہرین و طاہرات، اس بات کی علامت ہے کہ رسول خدا (ص) کے آباء و امہات موحد اور خدا پرست تھے، کیونکہ قرآن کے مطابق مشرک پاک و طاہر نہیں ہے:

إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ،

بے شک مشرک نجس ہیں۔

سوره توبه، آیت 28

پس رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد موحد تھے۔

رسول خدا (ص) کے والد گرامی کے لیے طلب مغفرت و شفاعت:

بعض روایات میں رسول خدا (ص) نے اپنے والد کے لیے مغفرت و بخشش طلب کی ہے:

عن أبي عبد الله عليه السلام قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله إني مستوهب من ربي أربعة وهو واهبهم لي إن شاء الله تعالى آمنة بنت وهب وعبد الله بن عبد المطلب وأبو طالب بن عبد المطلب ورجل من الأنصار جرت بيني وبينه ملحة،

رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں نے اپنے پروردگار سے چار بندوں کے لیے مغفرت طلب کی ہے اور خداوند انکو انشاء اللہ بخش بھی دے گا، آمنہ بنت وہب، عبد اللّه ابن عبد المطلب، ابو طالب ابن عبد المطلب اور ایک انصاری شخص کہ اسکے اور میرے درمیان بھائی چارے کا عقد و پیمان تھا۔ (یعنی صیغہ اخوت)۔

قرب الاسناد - الحميري القمي - ص 56

علامہ مجلسی نے اس روایت کے ذیل میں کہا ہے:

وهذا الخبر يدل على إيمان هؤلاء فإن النبي صلى الله عليه وآله لا يستوهب ولا يشفع لكافر ، وقد نهى الله عن موادة الكفار والشفاعة لهم والدعاء لهم كما دلت عليه الآيات الكثيرة،

یہ روایت ان چار افراد کے ایمان (مؤمن) پر دلالت کرتی ہے کیونکہ رسول خدا کسی کافر کے طلب مغفرت نہیں کرتے حالانکہ خداوند نے کفار سے محبت کرنے، انکی شفاعت کرنے اور انکے لیے دعا کرنے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ اس بارے میں بہت سی آیات بھی موجود ہیں۔

بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج 15 ص 108

خداوند نے سوره توبہ میں فرمایا ہے:

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آَمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ،

نبی خدا اور اہل ایمان کو مشرکین کے لیے طلب مغفرت نہیں کرنی چاہیے اگرچہ وہ مشرکین نزدیکی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں، جب انکے لیے واضح ہو جائے کہ وہ اہل جہنم ہیں۔

سوره توبه آیت 113

یہ جو رسول خدا (ص) فرما رہے ہیں کہ میں اپنے والد، والدہ اور چچا ابو طالب کی شفاعت کروں گا، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ موحد اور خدا پرست تھے۔

د:دلیل تاریخی:

کتب تاریخی سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد موحد اور خدا پرست تھے:

کتاب تاریخ یعقوبی میں آیا ہے کہ:

فكانت قريش تقول عبد المطلب إبراهيم الثاني،

رسول خدا (ص) کے دادا عبد المطلب دین ابراہیمی پر عمل کرنے کیوجہ سے ابراہیم ثانی کہلاتے تھے۔

تاريخ اليعقوبي - اليعقوبي - ج 2 ص 11

اسی طرح حضرت عبد المطلب سے شعر نقل ہوا ہے کہ جو انکے موحد ہونے پر دلالت کرتا ہے:

يا رب أنت الأحد الفرد الصمد

إن شئت ألهمت الصواب والرشد،

اے پروردگار آپ احد، فرد صمد ہیں، اگر آپ چاہیں تو حقیقت اور ہدایت کو الہام کرتے ہیں۔

تاريخ اليعقوبي - اليعقوبي - ج 1 ص 247

رسول خدا (ص) کے والد گرامی سے نقل ہوا ہے کہ ایک دن فاطمہ خثعمی نام کی عورت نے اپنے آپکو رسول خدا کے والد حضرت عبد اللہ کے لیے پیش کیا تو انھوں نے اس عورت کے لیے شعر کہا:

اما الحرام فالممات دونه

وألحل لا حل فاستبينه

فكيف بالامر الذي تبتغينه،

حرام کام کے لیے ہاں کرنے سے موت بہتر ہے، کیا کوئی حلال راستہ نہیں ہے کہ میں اپنے آپکو حرام کام سے آلودہ کر لوں۔

مناقب آل أبي طالب - ابن شهر آشوب - ج 1 ص 26

الطبقات الكبرى  ج 1   ص 96

أنساب الأشراف  ج 1   ص 34

تاريخ الطبري  ج 1   ص 500

ان مذکورہ مطالب سے واضح طور پر نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت عبد اللہ تک رسول خدا (ص) کے تمام کے تمام آباء و اجداد پاک و طاہر تھے اور ایک لمحے کے لیے بھی انھوں نے اپنے آپکو شرک، کفر اور بت پرستی کی نجاست سے آلودہ نہیں کیا۔

1400 سال کے بعد دین اسلام میں اسلام کا نام لے کر وجود میں آنے والا خونخوار وحشی فرقہ یعنی وہابی اپنے خلفاء کے آباء و اجداد کے کفر، شرک، زنا اور بت پرستی جیسے کارناموں کو جب چھپا نہ سکے اور نہ ہی انکار کر سکے تو کہنے لگے، رسول خدا بھی ہم جیسے ہیں، یعنی انکے بھی والدین اور آباء و اجداد ہمارے آباء و اجداد کی طرح کافر، مشرک اور بت پرست تھے۔

نقل کفر، کفر نباشد،

التماس دعا۔۔۔۔۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات