2024 March 29
حدیث منزلت اور مقام خلافت
مندرجات: ١٩٠١ تاریخ اشاعت: ٢٨ November ٢٠٢٢ - ٠١:١٠ مشاہدات: 3802
یاداشتیں » پبلک
حدیث منزلت اور مقام خلافت

حدیث منزلت اور مقام خلافت

(تحریر  رستمی نژاد ۔۔ ترجمہ سید محمد میثم زیدی

اعتراض:

شیعہ حدیث منزلت سے تمسک کرت ہوئے دعوا کرتے ہیں کہ جس حضرت ہارون علیہ السلام، جناب موسی علیہ السلام  کے جانشین تھے ، اسی طرح علی بن ابی طالب علیہما السلام  ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین ہیں، جبکہ جناب ہارون، حضرت موسی علیہما السلام سے پہلے وفات پاگئے اور حضرت موسی علیہ السلام کے جانشین نہ بن سکے۔

تحلیل اور جائزہ:

جواب میں چند نکات کی یاددہانی جا تی ہے:

پہلا نکتہ:  خوش نصیبی یہ ہے کہ حدیث منزلت  پر دونوں فرقوں کا اتفاق ہے۔ یہاں تک کہ محمد اسماعیل بخاری اور مسلم بن حجاج قشیری   دونوں نے صحیحین  میں یہ حدیث نقل کئے ہیں۔اس حدیث کے مطابق جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ تبوک کے لیے  تشریف لے جارہے تھے  تو حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کر کے گئے۔منافقین نے جب  اس منطر کا مشاہدہ کیا تو افواہ پھیلانا شروع کیا کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی علیہ السلام کا باہمی رابطہ خراب  ہوگیا ہے۔اور پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے ساتھ لے جانے پر راضی نہیں ہیں لہذا انہیں خود سے دور کر  کے مدینے میں چھوڑ دیا ہے۔جب حضرت علی علیہ السلام نے  یہ افواہ  سنی تو پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے پاس پہنچایا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو واقعہ سے آگاہ کیا  پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے فرمایا: «أما ترضی أن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ أنّه لا نبوّة بعدي؛ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی  نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد نبوت  نہیں ہے۔"


[1]

حیرت کی  بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایت میں «إلاّ انّک لستَ بنبيّ» کی جگہ "إلاّ أنّه لا نبوّة بعدي» کا جملہ آیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے بعد چونکہ نبوت کا سلسلہ منقطع ہوا لہذا حضرت علی اس مقام پر فائز نہ ہوسکے، نہ یہ کہ آپ اس مقام کے لیے شائستہ نہ تھے۔

دوسرا نکتہ

حدیث منزلت میں پیغمبر نے صرف مقام نبوت سے حضرت علی کو استثنا قرار دیا۔ اس جملے سے دو نکتوں کا استفادہ ہوتا ہے ۔

۱- اس حدیث میں"نبوت" ایک الہی منصب کے عنوان سے مستثنی ہوا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون سے حضرت علی کی تشبیہ معنوی مقام کے لحاظ سے ہے۔

۲-پیغمبر نے صرف ایک مقام(مقام نبوت) سے حضرت علی وک استثنا کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرت ہارون کے باقی مقامات کے حامل تھے۔ بعد کے نکتے میں بیان کریں گے کہ قرآنی نصوص کے مطابق ہارون ۶ الہی مقامات کے حامل تھے جن میں سے مقام نبوت سے امام علی کو استثنا قرار دیا گیا ہے۔

تیسرا نکتہ: قرآنی آیات سے استفادہ ہوت اہے کہ ہارون چند مقامات کے حامل تھے جنہیں ذیل میں بیان کریں گے:

۱-مقام نبوت  قرآن اس بارے میں فرماتا ہے : وَ وَهَبْنا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنا أَخاهُ هارُونَ نَبِیًا؛ اور ان کے بھائی ہارون کو ہم نے اپنی رحمت سے نبی بنا کر (بطور معاون) انہیں عطا کیا۔[2]

۲- مقام امامت: کیونکہ ہارون حضرت ابراہیم کے پوتے تھے وعدہ الہی اور دعائے ابراہیمی  کے مطابق  آپ کے تمام صالح ذریّہ  کومقام امامت عطا کی گئی تھی۔قرآن فرماتا ہے : وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِیمَ رَبُهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَهُنَ قَالَ إِنِي جَاعِلُكَ لِلنَاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِیتِي قَالَ لَا ینَالُ عَهْدِي الظَالِمِینَ؛ اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔[3]

مفسرین اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ " لَا ینَالُ عَهْدِي الظَالِمِینَ" کا مفہوم یہ ہے کہ امامت ایک عہد الہی ہے جو ابراہیمعلیہ السلام کے صالح فرزندوں کو ملے گی۔ ہارون کو کوئی بھی ناصالح افراد یں شمار نہیں کر سکتا لہذا ہارون مقام امامت پر فائزہیں کیونکہ  صالح بھی ہیں اورحضرت ابراہیم کے پوتوں میں سے ہیں۔

۳- امر رسالت  میں حضرت موسی کے شریک:  ہارون کا ایک اور مقام یہ ہے کہ آپ رسالت کے ماور میں حضرت موسی کے ساتھی ہیں۔ قرآنی آیت کے مطابقوَ أَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي؛ اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے۔خداوند نے موسی کی درخواست قبول کی  کیونکہ موسی کی درخواست کے بعد فرماتا ہے : قَدْ أُوتیتَ سُؤْلَكَ یا مُوسى؛  فرمایا: اے موسیٰ! یقینا آپ کو آپ کی مراد دے دی گئی"[4]

۴-مقام وزارت برائے موسی: حضرت موسی نے درخواستوں کی لسٹ میں اپنے بھائی کے لیے یہ درخواست بھی کی آپ بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں:"وَاجْعَلْ لِي وَزِیرًا مِنْ أَهْلِي هارون أخی؛ اور میرے کنبے  میں سے میرا ایک وزیر بنا دے۔[5]

 "اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي؛ اسے میرا پشت پناہ بنا دے[6]۔ جیسا کہ اوپر بیان کرچکے ہیں اللہ تعالی نے موسی کی ان تمام درخواستوں کو قبول کیا۔

۶-موسی کی غیبت میں جانشین : قرآن اس بارے میں "خلیفہ" کا لفظ استعمال کیا ہے :و قال مُوسَى لِأَخِیهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي؛  اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا"[7]  موسی کی جانشینی قرآنی آیت کی نص ہے جو "اخلفنی"  کے لفظ کے ساتھ قرآن میں بیان ہوا ہے لہذا ہارون کے لیے اس مقام سے انکار(بعض وہابیوں کے نظریے کے برخلاف) ناقابل قبول ہے۔ اگرچہ ہارون کی وفات کی وجہ سے  یہ مقام جاری نہ رہ سکا لیکن اصل مقام ناقابل انکار ہے۔ اور اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ہارون موسی کے بعد زندہ رہتے تو موسی کی حیات کی طرح ان کے جانیشن باقی رہتے۔ { دوسرے الفاظ میں یوں کہنا صحیح ہے کہ جب تک جناب ھارون علیہ السلام  زندہ تھے اس وقت تک آپ جناب موسی علیہ السلام  کے جانشین تھے ،اسی طرح جب تک حضرت امیر المومنین علیہ السلام زندہ رہے آپ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین ہیں۔۔۔}

لہذا واضح ہے کہ اگر حضرت علی بھی پیغمبر سے پہلے وفات پاتے تو ان کی جانشینی بھی جاری نہ رہتی لیکن امام علی پیغمبر کے بعد ۳۰ سال زندہ رہے لہذا یہ جانشینی جاری رہی۔

مزید یہ کہ اس حدیث میں وجہ شبہ الہی مقام و منصب ہے نہ بطعی امور جیسے زندگی اور موت۔ یہ واضح ہے کہ زندہ رہنا ان مناصب کی تحقق کے لیے ضروری ہے لیکن اصل مناصب میں اس کا کوئی عل دخل نہیں ہے۔

نتیجہ

خلفائے راشدین میں سے  صرف امام علی پیغمبر کے بعد نص قرآن اور حدیث منزلت  کی بنا پر مقام خلافت پر فائز ہوئے۔ آپ پیغمبر کے لیے ہارون کی طرح ہیں برائے موسی۔ قرآنی نص کے مطابق ہارون موسی کے خلیفہ و جانشین ہیں چاہے موسی سے پہلے وفات پائے یا بعد میں۔ حدیث منزلت معنوی مقامات کے بارے میں ہے اور طبعی اور ذاتی معاملات  جیسے موت و حیات میں تقدم  سے کوئی ربط نہیں رکھتی۔ لہذا  مقام نبوت کو چھوڑ کرامامت و جانشینی کا منصب امام علی کے لیے باقی ہے۔

مزید مطالعہ کے لئے کتب

الغدیر؛ علامه امینی؛

مکتب اھل بیت علیہم السلام ؛ سید شرف الدین عاملی؛

پھر میں ہدایت پاگیا؛ تیجانی؛

 



[1][1] ۔صحیح البخاری، ج ،5ص 129؛ صحیح مسلم، ج ،7ص .1۲۰-۱۲۱

[2] ۔مریم/۵۳

[3] ۔بقرہ/۱۲۴

[4] ۔ طہ/۳۶

[5]۔ طہ/۳۹

[6] ۔ طہ/۳۱

[7] اعراف/۱۴۲

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی