2024 April 24
زیارت شیعہ کلچر کا حصہ ہے۔
مندرجات: ٢٠٥٢ تاریخ اشاعت: ٢١ August ٢٠٢٢ - ٠٢:٠٦ مشاہدات: 2424
یاداشتیں » پبلک
زیارت شیعہ کلچر کا حصہ ہے۔

زیارت شیعہ کلچر کا حصہ ہے۔

مطالب کی فہرست ۔

 

زیارت کے سلسلے میں  شیعہ علما ء اور مجتہدین  کی قلمی خدمات:

 

معروف زیارت نامے :۔

زیارت  کی  اہمیت اور  حکمت

 

مقدمہ :    اسلامی فرقوں میں سے خاص کر شیعوں کے ہاں انبیاء علیہم السلام ،خاص کر ائمہ اہل بیت علیہم السلام  کے قبور کی زیارت  خاص اہمیت کا حامل ہے  ۔ ائمہ اہل بیتؑ کی تعلیمات اور سیرت کا ایک اہم حصہ زیارت کے  موضوع سے مرتبط ہے۔اسی لئے  زیارت شیعہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ شیعہ  علماء  نے  جس طرح ائمہ اہل بیت  سے  مختلف  دینی شعبوں میں علمی آثار کی حفاظت اور انہیں  بعد کی نسلوں  تک منتقل کرنے کا   بندبست ہے ، زیارت کے شعبے میں بھی عظیم علمی خدمات انجام دیے  ۔ہم  اس تحریر  کے پہلے حصے میں اس  کلچر کو زندہ رکھنے کے سلسلے میں   علماء   کے  علمی خدمات  کا تذکرہ کریں گے اور تحریر کے دوسرے حصے  میں  بعض معروف زیارت ناموں اور ان  میں  موجود  بعض بنیادی اور مشترک  نکات کی طرف اشارہ  کریں  گے ۔انشاء اللہ۔

زیارت کے سلسلے میں  شیعہ علما ء اور مجتہدین  کی قلمی خدمات:

جیساکہ اس  سلسلے میں ائمہ اہل بیت کے توسط سے ملا  ہوا علمی ورثہ  شیعوں کی متعدد  معتبر کتابوں میں موجود ہے  ۔ان کتابوں  میں سے بعض  مستقل اسی  موضوع سے  متعلق  ہیں اور بعض  کتابوں میں دوسرے  موضوعات کے ساتھ زیارت کے موضوع سے متعلق مطالب کو ذکر کیا ہے ۔ انہیں میں سے بعض درج ذیل  ہیں ۔  

۱ :۔    کامل الزیارات :  تالیف جعفر بن محمد بن قولویہ متوفی 367ق   ۔ ابن قولویہ جناب کلینی کے شاگرد تھے۔آپ کا شمار  قرن چہارم کے بزرگ علما میں ہوتا ہے ۔ اس  کتاب کے  108  ابواب  میں  843 احادیث  ، زیارت کی فضیلت اور زیارت ناموں کے سلسلے میں ہیں  اور یہ اس سلسلے کی  سب سے معتبر اور معروف کتاب ہے۔

۲:۔      المزار    : یہ شیخ مفید محمد بن محمد بن نعمان متوفی413  کی تالیف ہے ۔یہ کتاب کامل الزیارات کے بعد دوسری  مستقل زیارت  کی کتاب ہے ۔  ان کی یہ کتاب خاص  کر   امام علی اور امام حسین علیہما کی زیارت  کے بارے میں تالیف ہوئی ہے لیکن کتاب کا  دوسرا حصہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور دوسرے ائمہ علیہم السلام کی زیارت  کے سلسلے میں  ہے۔

۳:۔ المزار الکبیر  : محمد بن جعفر مشہدی  متوفی 610  کی تالیف ہے ۔ یہ بھی قدیمی کتابوں میں سے ایک ہے۔ مقدس مقامات کی زیارت  اور زیارت کے آداب اور دعاوں پر مشتمل ایک  معتبر کتاب ہے۔

۴:۔ المزار  فی  کیفیہ  زیارت  النبی و الائمہ  علیہم  السلام  ۔ محمد بن مکی عاملی  معروف  بہ شہید اول  متوفی 786 کی تالیف ہے ۔ان کی یہ کتاب دو باب پر مشتمل ہے ۔پہلا باب سول اللہصلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی زیارت  کے سلسلے میں ہے ۔دوسرا باب  مقدس  مقامات ،  مسجد کوفہ اور سہلہ وغیرہ  کے اعمال کے  بارے میں ہے۔

 مذکورہ بالا  کتابوں کے علاوہ بھی دوسری معتبر کتابوں  میں زیارت  موضوع   کو  خاص توجہ دی گئی ہے ۔مثلا

’’ تہذیب الاحکام  ‘‘میں  ، محمد بن الحسن‏ معروف بہ شیخ طوسى( متوفی  460  ‏) نے ’’کتاب المزار ‘‘  کے عنوان   کے ذیل میں    زیارت  کے موضوع  کے مطالب  کا ذکر کیا  ہے اسی طرح ان کی  کتاب ’’ مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد‘‘  میں   بھی  زیارت کے  لئے الگ باب مختص ہے ۔

’’اصول کافی‘‘ میں محمد بن يعقوب بن اسحاق معروف بہ شیخ کلینی (متوفی 329  )  نے کتاب حج، میں ’’ أَبْوَابُ الزِّيَارَات‏‘‘ کے عنوان سے  زیارت کے سلسلے کی  احادیث کو ذکر کیا ہے ۔

’’من لا يحضره الفقيه‘‘‏ میں  محمد بن على‏  معروف  بہ  شیخ صدوق( متوفی 381 )‏ نے کتاب حج  کے ضمن میں زیارت کے باب میں  اور  اسی طرح  ان کی کتاب  ’ثواب الأعمال و عقاب الأعمال‏‘‘ میں   زیارت کی فضیلت  اور  مختلف زیارت ناموں کو نقل کیا ہے ۔   

کتاب ’’ إقبال الأعمال ‘‘ میں  على بن موسى‏  معروف بہ سید ابن طاووس،(متوفی 664 )‏ نے  زیارت  کی فضیلت اور  زیارت ناموں کا ذکر کیا ہے ۔

کتاب ’’ المصباح  ‘‘ میں ابراهيم بن على عاملى(‏ متوفی  905 ) نے زیات کے لئے الگ باب قرار  دیا ہے ۔

کتاب ’’بحار الأنوار( ط- بيروت) جلد ۹۸ ‘‘ میں محمد باقر مجلسى ‏(متوفی: 1110 ) نے زیارت کی فضیلت اور زیارت ناموں کی جمع آوری کی ہے ۔

جیساکہ   اسی سلسلے کی ایک  اہم کتاب شیخ عباس  قمی( متوفی ۱۳۵۹  ) کی  معروف کتاب  ’’مفاتیح الجنان‘‘ ہے کہ اس  کا ایک اہم حصہ زیارت کے سلسلے میں ہے۔

مذکورہ کتابوں کے علاوہ بھی زیارت کے موضوع سے متعلق بہت سی کتابیں   شیعہ علماء نے تحریر کی ہے  ۔

معروف زیارت نامے :۔

 بحث کے اس دوسرے حصے میں ہم بعض معروف زیارت ناموں کا تذکرہ کریں گے تاکہ زائرین  ائمہ اہل بیت ؑ کی زیارت کے  وقت   انہیں  پڑھیں اور ان  میں موجود معارف  پر غور کریں اور یہ دیکھے کہ ائمہ ؑ نے ان زیارت ناموں کے  ذریعے اپنے زائرین کو   کیا پیغام دیا ہے۔

1زیارت امین اللہ :۔

یہ زیارت  نامہ معتبر  شیعہ کتب میں  موجود ہے  اور علامہ  مجلسی ؒ کے بقول یہ سند اور متن  کے اعتبار سے  سب سے معتبر زیارت نامہ ہے۔یہ  روضہ حضرت امیر المومنینؑ   کے زیارت ناموں  میں سے ہے۔ لیکن   دوسرے  اماموں کے روضے  پر بھی پڑھی جاسکتی ہے  ۔ دوسرے اماموں  کی زیارت  کے موقع پر   لفظ ’’ امیر  المومنین‘‘ کی جگہ  جس امام کے روضے پر ہو اس کا نام  لینا  ہوگا ۔ یہ زیارت امام سجاد ؑ  سے منقول ہے  ۔ امام   موسی الرضا ؑ  فرماتے ہیں : مجھے  میرے والد  نے اپنے والد   جعفرؑ   کے توسط سے نقل کیا ہے کہ  امام زین العابدینؑ  نے حضرت امیرالمومنینؑ کی قبر کی  زیارت  کی اور  قبر  کے سامنے  کھڑے   ہوئیں اور کچھ دیر رویں  پھر  مذکورہ  زیارت نامہ  پڑھنا شروع کیا ۔

2: ۔   زیارت  جامعہ الکبیرہ

یہ زیارت نامہ  دسویں امام   علی نقی   سے نقل ہوئی ہے  اور شیخ صدوق نے ’’ من لا یحضرہ الفقیہ  ‘‘میں اس کو’’ زيارة جامعة لجميع الأئمة‘‘ کے عنوان  سے  نقل کیا ہے۔ علامہ مجلسی ؒ نے   اس زیارت  کو  سند  کے اعتبار  سے صحیح ترین اور متن کے اعتبار سے فصیح و بلیغ زیارت قرار دیا ہے۔

 [بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 99 ص 144، ]

اس  زیارت نامہ کے راوی  موسی بن عبد اللہ النخعی کہتا ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام  سے تقاضا کیا کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم مجھے ایسی چیز کی تعلیم دے کہ جو  بلیغ اور کامل ہو اور جب بھی آپ میں  سے  کسی کی زیارت کروں  تو  میں  اسے  پڑھ لوں : امام نے   مخصوص آداب کے ساتھ اس زیارت کو پڑھنے کی تعلیم دی ۔لہذا یہ زیارت بھی ان زیارتوں میں سے ہے جو ہر امام  ؑ کے روضے پر پڑھی  جاسکتی ہے۔

3:۔ زیارت  وارث :۔

یہ زیارت بھی امام حسینؑ اور  شہدائ کربلا کی مخصوص زیارتوں میں سے ایک ہے ،اس زیارت سے پہلے  امام صادقؑ نے کچھ خاص آداب ذکر کیے ہیں  اور جو زیارت وارث   کے  عنوان سے جس کے شروع میں ’’ السلام علی وارث  آدم صفوۃ اللہ ‘‘  ہے وہ اسی زیارت کا ایک حصہ ہے۔     

4زیارت عاشورا ۔

امام حسینؑ سے مخصوص زیارت ناموں  میں سے ایک معروف زیارت نامہ  ، زیارت عاشوارا ہے اور معتبر  کتابوں میں  نقل ہے اور بزرگ  علماء  کی سیرت  اس کے پڑھنے پر قائم ہے۔یہ  زیارت  امام باقر اور امام صادق علیہما السلام دونوں  سے نقل ہوئی ہے  ۔امام باقرؑ  عاشورا کے دن امام حسینؑ کی زیارت کی فضیلت بیان کرنے کے بعد علقمہ کو  ’’زیارت عاشورا  ‘‘کی تعلیم دیتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں : اے علقمہ  اگر زندگی میں ہر روز  اس زیارت نامہ کے ساتھ ان کی زیارت کرسکے تو زیارت کرنا ۔ان شاء اللہ جتنے بھی  اس زیارت کا ثواب ہے تمہیں مل جائے گا ۔ 

  5زیارت اربعین ۔

ائمہ  اہل بیت علیہم السلام کی  احادیث  میں اربعین کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کو  مومن کی نشانیوں میں سے ایک  نشانی قرار دیا ہے۔جیساکہ  شیخ  طوسی کی  کتاب ’’  تہذیب الاحکام‘‘ میں  امام  حسن العسکری علیہ السلام سے  نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن کی پانچ علامتیں ہیں ۔1    شب و روز میں  51 رکعت نماز  کا پڑھنا( 17  واجب فریضہ  34 رکعت   نافلہ)     2:۔اربعین کے دن امام حسینؑ کی زیارت کرنا  ۔     3  دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا   ۔4   :۔ سجدہ  کرتے وقت پیشانی خاک  پر رکھنا ۔     5 :۔ نماز میں بسم اللہ  بلند آواز سے   پڑھنا ۔

  اربعین  کے دن  پڑھی جانے والی معروف  زیارت کو  صفوان بن مہران نے  امام صادقؑ  سے نقل کیا ہے۔ امام فرماتے ہیں  اس  زیارت  کو پڑھنے کے بعد دو رکعت نماز  پڑھے  اور  جو چاہئے اللہ سے دعا کرئے اور واپس پلٹے۔ 

طوسى، محمد بن الحسن، تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، 10جلد، دار الكتب الإسلاميه - تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.

 

6زیارت آل یسین ۔

یہ زیارت امام مہدیؑ کی مخصوص زیارتوں میں سے ہے۔یہ امام زمان ؑ کے نائب دوم محمد بن عثمان اور نائب سوم محمد بن عبد اللہ حمیری کے توسط سے نقل ہوئی ہے اور کتاب الاحتجاج اور ابن مشهدى کی  كتاب المزار الكبير میں یہ زیارت موجود ہے ۔

زیارت  کی  اہمیت اور  حکمت

اگر ہم  زیارت کے سلسلے میں ائمہ اہل بیتؑ کی تعلیمات ، سیرت ، ان کے اصحاب  اور شیعہ علماء کی اس  راہ میں خدمات   اور جانفشانی  پر نظر  کریں اور ساتھ ہی  خاص کر  ائمہ  اہل بیتؑ  سے منقول زیارت ناموں میں موجود  معارف پر غور کرئے تو  مندرجہ ذیل امور زیارت  کی اہمیت اور  حکمت کے سلسلے میں بیان کرسکتے ہیں ؛

1  زیارت،   گناہوں کی بخشش ، شفاعت  اور گناہوں کی آلودگی سے  پاک و صاف ہونے  اور جنت کے مستحق  قرار پانے کا  ایک وسیلہ ہے ۔

2:۔ زیارت،دعاوں اور مرادوں کے بر لانے  ،رزق و روزی  اور عمر میں برکت ، مشکلات اور پریشانیوں  سے  رہائی  کا زریعہ ہے ۔

3  زیارت، ائمہ اہل بیت ؑ سے اظہار عقیدت  و  ہمدردی، ان کے راستے کی حقانیت کا اعلان ہے  اور ان کے دشمنوں سے برائت کا  اظہار ہے۔دین کی حفاظت اور دین سے دفاع کے سلسلے میں  ائمہ علیہم السلام کی قربانیوں  پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ 

4 :۔زیارت ، اہل بیتؑ کی نسبت سے  ایک اہم دینی فریضے کی ادائگی، اور ان سے عہد  و پیمان  کی وفاء،  اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے حق کی ادائگی  اور ان کی رضایت اور خوشنودی  اور  خدا کی رحمت اور مغفرت  کے مستحق قرار پانے  کا  وسیلہ ہے۔

5 زیارت،  ائمہ  اہل بیت ؑکی سیرت اور تعلیمات کے مطابق چلنے کے عزم کا اظہار  اور  اللہ سے  ان کی جیسی طرز زندگی  اپنانے کی توفیق  کی التجاء ہے ۔

6 :۔ زیارت  ، ائمہ اہل  بیتؑ سے  تجدید بیعت ،ان  کی تعلیمات اور سیرت پر عمل پیرا ہونے ،دینی دستورات   کو زندگی کا نصب العین  بنانے اور ان کے مشن  کو آگے بڑھانے کے لئے ان کی نصرت  کا وعدہ ہے  ۔

7  زیارت ،  اللہ  کے ولی  اوراللہ کی طرف سے منتخب  دین کے پیشواوں  سے وابستگی  اور ان سے  ارتباط میں رہنے   کے سلسلے میں  دینی تدبیر  کا نام  ہے تاکہ دین کے حقیقی   پیشواوں  کی یادیں  زندہ رہیں،  لوگ  ہدایت کے چراغوں  کے نور کی روشنی میں   اللہ کے راستے پر قائم رہے اور گمراہی  سے نجات  پائے اور کمال و سعادت کے راستے پر  کامزن رہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ائمہ ؑ  کی زیارت میں ’’عارفا بحقہ‘‘  پر زیادہ تاکید ہوئی ہے اور  زیارت کے فضائل میں موجود احادیث  میں یہ  شرط  ایک بنیادی شرط کے طور پر آئی ہے ۔  بعید  نہیں ہے زیارت  کی  برکات  اور دنیوی اور اخروی  اثرات   سب اسی بنیادی شرط  سے مشروط ہو  اور  اس سلسلے میں اجر وثواب سے مربوط مختلف  روایات  کی جمع بندی  اور ان میں بیان شدہ اجر و ثواب میں اختلاف کا حل  بھی اسی میں مضمر ہو۔لہذا جس کی جتنی معرفت زیادہ ہوگی وہ اس  الٰہی دسترخوان سے  زیادہ  سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔یہاں ہر ایک کو معرفت کے حساب اور درجے کے مطابق صلہ ملتا ہے۔

    ائمہ ؑ  کی معرفت  کے بغیر  ان  کے حقیقی مقام  کی پہچان ممکن  نہیں  اور اگر  ان کی  شان اور مقام کی پہچان  نہ ہو  تو   گمراہی اور انحراف سے بچاو   ممکن نہیں ۔  روایت  میں  ان کی معرفت  کے بغیر مرنے کو  گمراہی  اور جھالت کے ساتھ مرنے سے تشبیہ دی ہے۔ لہذا  ائمہ معصومینؑ کی  روایت میں  اس دعا کے پڑھنے کی سفارش  ہوئی ہے’’  اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ‏ عَنْ‏ دِينِي‏

 كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏1 ؛ ص3378 ، دار الكتب الإسلامية - تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.

 یعنی اگر  حجت خدا اور امام کی معرفت نہ ہو تو وہ گمراہ ہوگا۔حقیقی دین اس کے ہاتھ نہیں آئے گا  کیونکہ  ائمہ، دین  کے  پیشوا ، دین  کے حقیقی محافظ اور مبلغ ہیں ۔اسی لئے  ان کی معرفت کے بغیر  انحراف اور دین میں بگاڑ  پیدا ہوتا ہے ۔دین کا اصلی چہرہ لوگوں سے مخفی رہتا  ہے۔

 

تحریر ۔۔ غلام محمد ملکوتی

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی