2024 March 29
فدک اگر حق زہرا (ع) تھا تو امیر المومنین (ع) نے فدک واپس کیوں نہیں لیا ؟
مندرجات: ٢١٨٥ تاریخ اشاعت: ٠٩ January ٢٠٢٢ - ١٦:٣٤ مشاہدات: 3071
مضامین و مقالات » پبلک
فدک اگر حق زہرا (ع) تھا تو امیر المومنین (ع) نے فدک واپس کیوں نہیں لیا ؟

 بسم الله الرحمن الرحیم

شبهه

فدک اگر حق زہرا (ع) تھا تو امیر المومنین (ع) نے فدک واپس کیوں نہیں لیا ؟

شبهه کی وضاحت :

  امیرالمومنین علیه السلام نے اپنی حکومت کے دور میں فدک کو غاصبوں سے واپس کیوں نہیں لیا؟   کیا آپ کی طرف سے فدک کو ان کے وارثوں کو واپس نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ فدک اهل بیت علیهم السلام کا مال اور حق نہیں تھا ؟

بنابریں یہ کہہ سکتا ہے کہ  حضرت زهرا سلام الله علیها  اور امیرالمومنین علیه السلام  کے ساتھ اختلاف میں حق ابوبکر کے ساتھ تھا.

     شبهے کا جواب :

اس شبھہ کا تین طریقے سے جواب دیا جاسکتا ہے ۔

الف: نواصب اور مخالفین کی طرف سے نکالا ہوا نتیجہ اور ادعا کو رد کرنا ۔

ب : وسیع ترمفادات اور حکومتی حکمت علمی 

ب : فدک کی واپسی کا قیام فاطمی کے ساتھ تضاد ۔۔

 پہلا جواب :

امیر المومنین (ع) کی حکومت کے دوران فدک واپس نہ لینے اور یہ ان کی ملکیت نہ ہونے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے ۔

 

  پہلا مقدمه  : 

 

 اهل بیت علیهم السلام کا فدک کا مالک ہونا ایک مسلم چیز ہے اس سلسلے میں قطعی روایات موجود ہیں اور یہ ۳۰ کے قریب اسناد پر مشتمل ہے ۔

رک: آیت الله وحید خراسانی، فدک نحله خاتم، ص 85، انتشارات مدرسه باقر العلوم علیه السلام، چاپ اول، 1399، یک جلد

  آیہ « وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّه‏...» (اسراء/26) کے ذیل میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں،اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیه و آله نے فدک اپنی زندگی میں ہی اللہ کے حکم سے حضرت زهرا سلام الله علیها کو بخش دیا تھا اور فدک کو ان کی ملکیت میں دیا تھا :

شیعہ کتابوں سے کچھ روایات :

1: تفسیر قمی میں ہے :

«...و قوله‏ وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَ الْمِسْكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ(روم/38)‏ يعني قرابة رسول الله صلی الله علیه و آله و أنزلت في فاطمة علیها السلام  فجعل لها فدك و المسكين من ولد فاطمة سلام الله علیها و ابن السبيل من آل محمد صلی الله علیه و آله و ولد فاطمة سلام الله علیها».

«آیه وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَ الْمِسْكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ» میں ذوی القربی سے مراد رسول الله صلی الله علیه و آله  کے رشتہ دار ہیں اور یہ والی آیت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں نازل ہوئی ہے اور  اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب فاطمہ (ع) اور ان کی اولاد میں سے مسکینوں اور آل محمد (ص)  اور اولاد جناب فاطمہ(ص) کے ابن سبیل( وہ سید کہ جو مسافرت میں تنگ دست ہوا ہو) کے لئے بخش دیا۔

قمى، على بن ابراهيم، تفسير القمي، ج‏2 ؛ ص18 قم، چاپ: سوم، 1404ق.

2:   تفسیر عیاشی:

  47 :  عن أبان بن تغلب قال‏ قلت لأبي عبد الله علیه السلام : كان رسول الله صلی الله علیه و آله أعطى فاطمة سلام الله علیها فدكا قال: كان وقفها، فأنزل الله: «وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ‏» فأعطاها رسول الله صلی الله علیه و آله حقها، قلت: رسول الله صلی الله علیه و آله أعطاها قال: بل الله أعطاها.

ابان بن تغلب نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیه السلام سے کہا : کیا رسول خدا صلی الله علیه و آله نے فدک حضرت فاطمه سلام الله علیها کو بخش دیا تھا ؟ جواب دیا : رسول اللہ صلی الله علیه و آله  نے فدک کو اپنے پاس رکھا تھا اور جب اللہ نے آیه «وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ‏» نازل فرمایا تو اس وقت آپ نے حضرت زهرا سلام الله علیها کا حق انہیں دیا۔ ابان کہتے ہیں : میں نے امام سے پوچھا کیا اللہ کے رسول صلی الله علیه و آله نے فدک حضرت فاطمه سلام الله علیها کو بخش دیا تھا ؟ جواب میں آپ نے فرمایا: اللہ نے حضرت زهرا سلام الله علیها  کو فدک سے نوازا ہے .

عياشى، محمد بن مسعود، تفسير العيّاشي، ج‏2 ؛ ص287 تهران، چاپ: اول، 1380 ق.

اہل سنت کی کتابوں سے چند نمونے :

ابويعلي موصلي کہ جو اہل سنت کے قدیمی علماﺀ میں سے ہیں انہوں نے ابو سعيد خدري سے نقل کیا ہے :

 

«قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ الطَّحَّانِ فَقَالَ: هُوَ مَا قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتِ الآيَةُ: وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ. دَعَى النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم فَاطِمَةَ وَأَعْطَاهَا فَدَكَ».

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے معروف صحابی ابو سیعد خدری نے کہا ہے کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی کہ "ذوی القربی کا حصہ انکو عطا کر دیں" تو رسول اللہ(ص) نے حضرت فاطمہ(ع)  کو اپنے پاس بلا کر فدک انکو عطا کر دیا۔

أبو يعلى الموصلي التميمي، أحمد بن علي بن المثنى (متوفاي307 هـ)، مسند أبي يعلى، ج 2، ص 334 و ج 2، ص 534، تحقيق: حسين سليم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 هـ – 1984م.

اسی طرح یہی روایت معمولی اختلاف کے ساتھ مسند ابویعلی میں ہی اس طرح نقل ہوئی ہے:

 

«قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ الطَّحَّانِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، عَنْ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: Gوَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُF دَعَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم فَاطِمَةَ وَأَعْطَاهَا فَدَكَ».

أبو يعلى الموصلي التميمي، أحمد بن علي بن المثنى (متوفاي307 هـ)، مسند أبي يعلى، ج 2، ص 534، تحقيق: حسين سليم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 هـ – 1984م.

 یہ روایت سند کے اعتبار سے بلکل صحیح روایت ہے اس کے ایک راوی جناب عطیہ عوفی کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن عطیہ عوفی ایک ثقہ راوی ہے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل ایڈرس پر مراجعہ کریں:

https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=2172

 دوسرا مقدمہ :

 اهل بیت علیهم السلام نے خلفاﺀ کے دور میں اس حق کا مطالبہ کیا ،حضرت زهرا سلام الله علیها  اور  حضرت علی علیه السلام نے اس حق کے غصب کرنے پر احتجاج کیا ،جیساکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور اہل سنت کی باقی کتابوں میں اس سلسلے میں معتبر روایات موجود ہیں۔

«حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ - عَلَيْهَا السَّلاَمُ - بِنْتَ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِى بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ ، وَمَا بَقِىَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ ...».

« . عایشہ نے کہا ہے کہ: فاطمہ سلام الله عليها  نے ایک بندے کو ابوبکر کے پاس بھیجا تا کہ وہ ابوبکر سے رسول خدا صلى الله عليه وآله  کی میراث، مال فئی و مدینہ کے صدقات، فدک اور جو کچھ خیبر کے خمس سے باقی بچا ہے، کا مطالبہ کرئے ۔

بخاري جعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج4، ص 1549، ح:3998، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987

قشيري نيشابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين، صحيح مسلم، ج3، ص1380، ح: 941،  ناشر: دار إحياء التراث العربي،  بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، 5جلد، به همراه تحقيقات محمد فؤاد عبد الباقي

بيهقي، أحمد بن الحسين بن علي، سنن البيهقي الكبرى، ج10، ص 142، ناشر: مكتبة دار الباز، مكة المكرمة ، 1414 – 1994، تحقيق: محمد عبد القادر عطا،10جلد

اہل سنت کی روایات کے مطابق حضرت امیر المومنین علیہ السلام فدک اور حق زہرا سلام اللہ علیہا پر قبضہ کرنے والوں کو جھوٹے ،دھوکہ باز ،خائن اور گناہ گار سمجھتے تھے:

«... فقال أبو بكر قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( ما نورث ما تركنا صدقة ) فرأيتماه كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق...» فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- « مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا .  

عمر نے اميرالمؤمنین (ع) اور  عباس سے مخاطب ہوکر کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہوئی تو ابوبکر نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین ہوں تو تم دونوں آئے اور عباس اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہا تھا اور علی اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہا تھا۔ اس پر ابوبکر نے کہا: رسول اللہ (ص)  نے فرمایا ہے : ہم انبیاء ارث چھوڑ کر نہیں جاتے ،جو چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔لیکن تم دونوں نے انہیں جھوٹا ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن سمجھا  اور جب ابوبکر فوت ہوا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اور ابوبکر کا جانشین بنا تو اے عباس آپ آئے اور اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے ہو۔۔۔۔

قشيري نيشابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين، صحيح مسلم، ج3، ص1376، ح: 941،  ناشر: دار إحياء التراث العربي،  بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، 5جلد، به همراه تحقيقات محمد فؤاد عبد الباقي

بخاري جعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 6، ص 2663، ح6875، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987

بيهقي، أحمد بن الحسين بن علي، سنن البيهقي الكبرى، ج6، ص 297، ناشر: مكتبة دار الباز، مكة المكرمة ، 1414 – 1994، تحقيق: محمد عبد القادر عطا،10جلد

 

  دوسرا مقدمہ : 

کسی حق کا مطالبہ نہ کرنا مالک نہ ہونے اور دسروں کی طرف سے مال میں تصرف پر راضی ہونے کی دلیل نہیں۔

دوسرے لفظوں میں کسی خاص وقت میں ایک مسلم حق کا مطالبہ نہ کرنے اور اس چیز کا مالک نہ ہونے میں کوئی شرعی ،عرفی اور عقلی ملازمہ موجود نہیں ہے۔ بہت مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ صاحب حق نے کسی خاص وجہ سے اپنے حق کا مطالبہ نہیں کیا ۔ اب کسی دور میں مطالبہ نہ کرنا پہلے کسی دور میں مطالبہ کے بطلان اور اس چیز کا مالک نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔

  نتیجه گیری: 

لہذا فدک کی مالکیت اور اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے اس کو چھینے والوں کے دور میں  اس حق کا مطالبہ کرنا اور بعد کے (جیسے حضرت علی علیہ السلام  کے) دور میں اس مطالبے کو نہ دہرانا اور اس حق کو لینے کی کوشش نہ کرنا، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ اہل بیت علیہم السلام کا حق نہیں تھا۔کیونکہ ممکن ہے کسی دور میں اس کا مطالبہ کرنا مناسب اور ضروری ہو  اور کسی دور میں ممکن ہے وسیع تر مفادات اور کسی بڑے ہدف کی خاطر  اور خاص حالات  کی وجہ سے اس حق کا مطالبہ نہ کرئے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرئے ۔  

دوسرا جواب :

رہبری اور حکومتی تقاضوں کی رعایت

  پہلا مقدمه: 

الٰہی رہبروں کی خصوصیات میں سے ایک معاشرے کے نظم و نسق اور کمیونٹی مینجمنٹ

کے لحاظ سے صحیح کردار اپنانا ہے ۔

وضاحت :

کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ معاشرے کا ذمہ دار شخص  دو  مصلحتوں میں سے ایک مصلحت کو قبول کرنے پر مجبور ہو اور ایسے دوراہے پر اہم ترین مصلحت کی تشخیص اور رعایت کرنے کی ضرورت پڑے، مثلا کوئی دیکھتا ہے کہ دو شخص غرق ہورہا ہے ان میں سے ایک مسلمان ہے اور ایک کافر اور وہ بھی صرف ایک کو ہی نجات دے سکتا ہے  ، ایسے موقعوں پر مسلمان کو نجات دینا کافر کو نجات سے زیادہ اہم ہے جیساکہ یہ مطلب اصول فقہ میں تزاحم کے باب میں، تزاحم سے اہم و مہم کے قانون کے ذریعے نکلنے کی بحث میں بیان ہوا ہے ۔

لہذا مندرجہ قانون کے مطابق ہم  اس شبھہ کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ  حضرت امیر المومنین علیہ السلام دو مصلحتوں میں سے ایک کو قبول کرنے پر مجبور تھے ،

 الف : فدک کی واپسی اور اس پر تسلط ؛

 ب : فتنہ گروں سے جنگ وہ بھی ایسے فتنوں سے کہ جس سے اسلام کا وجود ہی خطرے سے دو چار ہوا تھا  .

  اگر کوئی امیر المومنین علیہ السلام کے دور حکومت کے بارے میں ذرا بھی مطالعہ رکھتا ہو تو اسے معلوم ہوگا کہ امیر المومنین کے  دور میں بیعت شکن (اہل جمل) ظالمین ( اہل صفین ) اور ناحق خون بہانے والوں ( اہل نہروان ) کے انحرافات اور فتنوں سے مقابلہ کرنا آپ کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک تھی ۔

اب ان فتنوں سے مقابلہ کرنا ایک مضبوط حکومت کی تشکیل اور اپنے صفوں میں نظم و نسق اور اتحاد و یکجہتی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور ان فتنوں سے مقابلہ کرنا لوگوں کی ہدایت اور مسلمانوں کو انحرافات سے بچانے کے لئے ضروری تھا ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ آپ کو ان فتنوں کو ختم کرنے اور فتنوں کے سرداروں کو ٹھکانے لگانے کا حکم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا  ۔

اس سلسلے کی کچھ روایات ملاحظہ کریں :

روایت اول:

4675 - حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ بَالَوَيْهِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ الْقُرَشِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْخَطَّابِ، ثنا عَلِيُّ بْنُ غُرَابِ بْنِ أَبِي فَاطِمَةَ، عَنِ الْأَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: «تُقَاتِلُ النَّاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ، وَالْمَارِقِينَ بِالطُّرُقَاتِ، وَالنَّهْرَوَانَاتِ، وَبِالشَّعَفَاتِ» قَالَ أَبُو أَيُّوبَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَعَ مَنْ تُقَاتِلُ هَؤُلَاءِ الْأَقْوَامِ؟ قَالَ: «مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ»

 اصبغ بن نباته نے  ابوایوب انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله سے سنا ہے کہ علی بن ابی طالب علیهما السلام سے آپ نے فرمایا : « آپ  ناکثین، مارقین  اور قاسطین ۔۔» سے جنت کرو گے ! ابو ایوب نے عرض کیا : «اے اللہ! ہم کسی شخص کے ساتھ ان سے جنگ کریں؟ فرمایا : « علی بن ابی طالب علیه السلام کے ساتھ »

حاكم نیشابوری، محمد بن عبدالله أبو عبدالله، المستدرك على الصحيحين،ج3، ص 150، ناشر: دار الكتب العلمية، بيروت، چاپ اول، 1411 – 1990، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، 4جلد، به همراه: تعليقات الذهبي في التلخيص.

دوسری روایت :

 10054 - حدثنا الهيثم بن خالد الدوري ثنا محمد بن عبيد المحاربي ثنا الوليد بن حماد عن أبي عبد الرحمن الحارثي عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله قال : أمر علي بقتال الناكثين والقاسطين والمارقين

عبدالله بن عباس سے نقل ہوا ہے کہ امیرالمومنین علی علیه السلام کو ناکثین ، قاسطین  اور مارقین سے جنگ کا حکم دیا ہوا ہے .

طبراني، سليمان بن أحمد بن أيوب، المعجم الكبير، ج10، ص 91، ناشر: مكتبة العلوم والحكم، الموصل، چاپ اول، 1404 – 1983، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، 20 جلد

اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں۔۔

https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1984

دوسرا مقدمہ : 

کبھی کسی سربراہ اور ذمہ دار شخص کو مینجمنٹ اور معاشرے کو چلانے کے لئے اہم چیز کی خاطر اس سے کم درجے کی چیز کو قربانی کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور بنیادی ترین فتنوں کو ختم کرنے اور اہم ترین مصلحتوں کی حصول کے لئے اپنی تماتر طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے ، ایسے میں خاص کر داخلی افتراق اور انتشار پھلانے والی چیزوں سے اجتناب کر کے اصلی فتنہ اور خطرناک دشمن سے مقابلے کے لئے اپنی پوری طاقت کا استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے  ۔

لہذا اگر معاشرے کا حاکم اور ذمہ دار شخص اہم اور مہم کے قانوں کی رعایت نہ کرئے اور ایک کم اہمیت چیز کی خاطر بلند اہداف اور مقاصد کو قربان کرئے تو ایسے میں معاشرہ تباہی اور بربادی کی راہ پر گامزن ہوگا اور سعادت اور نجات کے راستے سے ہٹ جائے گا .

جیساکہ یہی حقیقت نماز تروایح کے مسئلے میں واضح ہوئی . اہل سقیفہ کی تبلیغات کے نتیجہ میں نماز تروایح اسلامی معاشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں عمر کی سنت  کے طور پر رائج ہوئی تھی جب امیر المومنین علیہ السلام نے اس سے روکنا چاہا تو  آپ کی بیعت کرنے والوں کے «وَا عُمَرَاهْ وَا عُمَرَاه‏» کی فریاد کا سامنا کرنا پڑا۔ لہذا آپ نے   «وحدت » اور داخلی انتشار سے بچنے اور  «بڑے فتنے اور خطرے سے نمٹنے کے لئے اپنی طاقت کو جمع رکھنے » کی مصلحت کو  «بعض کی طرف سے نماز تراویح کی بدعت»، پر ترجیح دی ۔ جیساکہ اس سلسلے میں نقل ہوا ہے ؛

227- 30- عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ الْمَدَائِنِيِّ عَنْ مُصَدِّقِ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ فِي الْمَسَاجِدِ قَالَ لَمَّا قَدِمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع الْكُوفَةَ أَمَرَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع أَنْ يُنَادِيَ فِي النَّاسِ لَا صَلَاةَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي الْمَسَاجِدِ جَمَاعَةً فَنَادَى فِي النَّاسِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ علیه السلام بِمَا أَمَرَهُ بِهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ مَقَالَةَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ صَاحُوا : وَا عُمَرَاهْ‏ وَا عُمَرَاهْ‏ فَلَمَّا رَجَعَ الْحَسَنُ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع قَالَ لَهُ: مَا هَذَا الصَّوْتُ؟ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ النَّاسُ يَصِيحُونَ وَا عُمَرَاهْ‏ وَا عُمَرَاهْ!‏ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیه السلام : قُلْ لَهُمْ صَلُّوا.

فَكَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیه السلام أَيْضاً لَمَّا أَنْكَرَ أَنْكَرَ الِاجْتِمَاعَ وَ لَمْ يُنْكِرْ نَفْسَ الصَّلَاةِ فَلَمَّا رَأَى أَنَّ الْأَمْرَ يَفْسُدُ عَلَيْهِ وَ يَفْتَتِنُ النَّاسُ أَجَازَ وَ أَمَرَهُمْ بِالصَّلَاةِ عَلَى عَادَتِهِمْ فَكُلُّ هَذَا وَاضِحٌ بِحَمْدِ اللَّهِ.

صدقة بن عمار نے امام صادق علیه السلام سے رمضان میں مساجد میں  پڑھی جانے والی نماز  [تراویح] کے بارے میں پوچھا تو امام نے جواب دیا: «جس وقت امیر المومنین علیه السلام  کوفه تشریف لائے تو آپ نے حسن بن علي علیهما السلام کو حکم دیا کہ مسجد میں لوگوں کو نماز(تراويح) جماعت کے ساتھ پڑھنے سے روکے ؛  امام حسن عليه السلام نے بھی بلکل اسی طرح سے لوگوں کو منع کیا اور لوگوں نے جب ان کی باتیں سنی تو «وا  عمر! وا  عمر!» کہا [کیونکہ یہ نماز جناب عمر کی بدعتوں میں سے تھی] جب امام حسن عليه السلام ،حضرت امیر علیه السلام  کے پاس واپس بلٹے تو امام نے پوچھا یہ کیا آوازیں آرہی ہیں؟ . امام حسن علیه السلام،نے جواب دیا: یا امیر المومنین (ع)  لوگ وَا عُمَرَاهْ‏ وَا عُمَرَاهْ!‏ » کہہ رہے ہیں، حضرت علی علیه السلام نے فرمایا: «لوگوں سے کہے نماز پڑھتے جائے ».

شیخ طوسی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے :

« امیرالمومنین علیه السلام نے نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا بلکہ اس نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے منع کیا اور جب آپ نے دیکھا کہ اس وجہ سے لوگ اختلاف اور فتنے کا شکار ہو رہے ہیں تو آپ نے لوگوں کو اپنی عادت کے مطابق پڑھنے دیا ۔ الحمد للہ یہ باتیں واضح اور روشن  ہیں۔

طوسى، محمد بن الحسن، تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏3 ؛ ص70، تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.

  نتیجه گیری: 

لہذا مندرجہ بالا مقدماتی باتوں کو سامنے رکھے تو امیر المومنین علیہ السلام کا اپنے دور میں فدک کو قبضے میں نہ لینے کی حکمت اور وجہ بلکل واضح ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیه السلام کے اس طریقہ کار کی تائید میں اہل سنت کی کتابوں میں بھی روایات موجود ہیں۔جیساکہ  امام شافعی اور امام بیهقی کہ جو اہل سنت کے بزرگ فقہا میں سے ہیں انہوں نے نقل کیا ہے کہ جب عبد اللہ بن عباس اور  حسنین کریمین نے خمس کا مطالعہ کیا تو آپ نے فرمایا وہ آپ لوگوں کا حق ہے چاہئے وہ حق لے لیں چاپئے تو اس حق سے ہاتھ اٹھا دیں ۔۔ کیونکہ ہم اس وقت معاویہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں ۔۔۔۔

13130 - قَالَ الشَّافِعِيُّ: أُخْبِرْنَا، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ حَسَنًا، وَحُسَيْنًا، وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ سَأَلُوا عَلِيًّا بِقِسْمٍ مِنَ الْخُمُسِ، قَالَ: «هُوَ لَكُمْ حَقٌّ، وَلَكِنِّي مُحَارِبُ مُعَاوِيَةَ، فَإِنْ شِئْتُمْ تَرَكْتُمْ حَقَّكُمْ مِنْهُ» .

معرفة السنن والآثار (9/ 271): المؤلف: أحمد بن الحسين ، أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458هـ)المحقق: عبد المعطي أمين قلعجي۔الناشرون: جامعة الدراسات الإسلامية (كراتشي - باكستان) ، دار قتيبة (دمشق -بيروت) ، دار الوعي (حلب - دمشق) ، دار الوفاء (المنصورة - القاهرة)الطبعة: الأولى، 1412هـ - 1991م

 لہذا اس روایت سے  :

 اولا: 

حضرت علی علیه السلام نے واضح انداز میں خمس کو اہل بیت علیهم السلام کا حق کہا لہذا خمس کے بارے میں خلفاﺀ کے بارے میں اختلاف اور نزاع میں، امیر المومین علیہ السلام خلفاﺀ کے اجتہاد کو قبول نہیں کرتے تھے۔

 ثانیا: 

امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے اس قسم کے بعض حقوق کو واپس نہ لینے کی ایک اہم وجہ معاویہ جیسے باغی سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے لشکر کے داخلی صفوف کو انتشار و افتراق سے بچانا تھا معاویہ آپ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے ہزاروں لوگوں کے قتل کا موجب بنا تھا اور امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے لئے بہت بڑا خطرہ تھا ؛

  بسر بن ارطاة جیسے درندہ صفت انسان نے  ایک ہجوم کے دوران ہی ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرایا اور بہت سے لوگوں کو زندہ جلایا اور بہت سے شہروں کو ویران کر دیا ۔

«... وَ رَجَعَ بُسْرٌ فَأَخَذَ عَلَى طَرِيقِ السَّمَاوَةِ حَتَّى أَتَى الشَّامَ فَقَدِمَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَحْمَدُ اللَّهَ فَإِنِّي سِرْتُ فِي هَذَا الْجَيْشِ أَقْتُلُ عَدُوَّكَ ذَاهِباً وَ رَاجِعاً لَمْ يُنْكَبْ رَجُلٌ مِنْهُمْ نَكْبَةً فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: اللَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ لَا أَنْتَ وَ كَانَ الَّذِي قَتَلَ بُسْرٌ فِي وَجْهِهِ ذَاهِباً وَ رَاجِعاً ثَلَاثِينَ أَلْفاً وَ حَرَقَ قَوْماً بِالنَّارِ وَ قَالَ الشَّاعِرُ وَ هُوَ ابْنُ مُفَرِّغٍ‏:

 إِلَى حَيْثُ سَارَ الْمَرْءُ بُسْرٌ ِجَيْشِهِ فَقَتَّلَ بُسْرٌ مَا اسْتَطَاعَ وَ حَرَّقَا

ثقفى، ابراهيم بن محمد بن سعيد بن هلال، الغارات (ط - القديمة)، ج2، 441، قم، چاپ: اول، 1410 ق.

«... بسر واپس پلٹا اور سماوه کے راستے شام گیا .جب معاویہ کے پاس پہنچا تو کہا : «اے امير المؤمنين اللہ کا شکر ہے کہ یہ جو لشکر ہمیں دیا  اس کے ذریعے سے آپ کے لشکر نے جاتے اور آتے وقت آپ کے دشمنوں کا قتل عام کیا لیکن لشکر کے ایک شخص کا بھی نقصان نہیں ہوا ۔ معاویہ نے اس سے کہا : «اس کام کو اللہ نے انجام دیا ہے نہ تم نے »!. اس راستے میں جن لوگوں کو اس نے قتل کیا وہ ۳۰ ہزار تھے بعض کو آگ میں جلا ڈالا ، ایک ابن مفرغ نامی شاعر نے اس سلسلے میں شعر کہا ہے: «بسر جہاں گیا جتنا ہوسکتا تھا اس نے قتل کیا اور آگ میں جلا ڈالا ۔

ثقفى، ابراهيم بن محمد بن سعيد بن هلال، الغارات / ترجمه آيتى ؛ ص232 - تهران، چاپ: دوم، 1374 ش.

اب یہ معاویہ کی جنایتوں میں سے ایک ہے اس قسم کے ہزاروں ظلم و بربیت معاویہ نے اپنے کمانڈروں کے توسط سے انجام ، اب امیر المومنین علیہ السلام اس فتنے کو جڑ سے اکھیڑنے کے لئے اور اس شرارت کے جرثیمے کو کاٹنے کے لئے اپنے صفوں میں اتحاد و اتفاق کو قائم رکھنا چاہتے تھے اور انتشار اور افتراق کے ذریعے اپنے لشکر کا شیرازہ بکھرنے سے اجتناب کرنا اس وقت کی ضرورت تھی۔

اب ایسی مشکلات اور مسائل  سے دوچار  معاشرے کا ہر ذمہ دار فرد بڑے خطرے سے نمٹنے کے لئے کم درجے کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہیں اور یہی تدبیر اور حکمت عملی سے کام لینے والوں کا شیوہ ہے 

جیساکہ انہیں وجوہات کی طرف شیعہ کتابوں میں بھی واضح اشارہ ہوا ہے

امام  نے ایک خطبے کے ضمن میں اس قسم کے شبہات کے جواب دیے۔۔۔

 امام اس میں واضح طور پر فرماتے ہیں: گزشتہ حکومتوں کے دور میں  ایسی بہت ساری بدعتیں انجام پائی ہیں۔

 قَدْ عَمِلَتِ‏ الْوُلَاةُ قَبْلِي أَعْمَالًا خَالَفُوا فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، مُتَعَمِّدِينَ لِخِلَافِهِ، نَاقِضِينَ لِعَهْدِهِ، مُغَيِّرِينَ لِسُنَّتِهِ، وَ لَوْ حَمَلْتُ النَّاسَ عَلَى تَرْكِهَا وَ حَوَّلْتُهَا إِلَى مَوَاضِعِهَا وَ إِلَى مَا كَانَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ۔

کہ اگر میں ان کی اصلاح کرنا چاہوں تو :

 لَتَفَرَّقَ عَنِّي جُنْدِي، حَتَّی أَبْقَی وَحْدِی أَوْ قَلِیلٌ مِنْ شِیعَتِی الَّذِینَ عَرَفُوا فَضْلِی وَ فَرْضَ إِمَامَتِی مِنْ کتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ »

میرے لشکر والے تتر بتر ہو جائیں گے اور میں تنہا رہ جاؤں گا یا میں اپنے ان تھوڑے سے شیعوں کے ساتھ  تنہا رہ جاؤں گا کہ جو میرِی فضیلت کو جانتے ہیں اور میری امامت کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مطابق اپنے اوپر فرض ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔

«أَ رَأَیتُمْ لَوْ أَمَرْتُ بِمَقَامِ إِبْرَاهِیمَ ع فَرَدَدْتُهُ إِلَی الْمَوْضِعِ الَّذِی وَضَعَهُ فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ »

اگر مقام ابراہیم کو  اسی جگہ قرار دوں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرار دیا تھا.

«وَ رَدَدْتُ فَدَکاً إِلَی وَرَثَةِ فَاطِمَةَ ع» 

   اگر میں فدک کو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی اولاد کو واپس پلٹا دوں۔

یا متعة النساء اور متعة الحج کو حلال کردوں اور لوگوں کو بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے پر مجبور کروں۔ یا نماز تروایح ۔….{گزشتہ خلفاء کے دور کے دسیوں مورد بدعتوں کو ذکر کرتے ہیں} اگر میں ان کو اصل حالت کی طرف پلٹا دوں تو

 «إِذاً لَتَفَرَّقُوا عَنِّی»

تو لوگ مجھ سے دور ہوجائیں گے.

«امام ایک شاہد پیش کرتے ہیں

وَ اللَّهِ لَقَدْ أَمَرْتُ النَّاسَ أَنْ لَا یجْتَمِعُوا فِی شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَّا فِی فَرِین مضَة»

اللہ کی قسم! میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ مسجد میں رمضان کے مہینے میں نماز تراویح نہ پڑھیں اور صرف فریضہ نمازوں کے علاوہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جمع نہ ہوجائیں۔ «فَتَنَادَی بَعْضُ أَهْلِ عَسْکرِی مِمَّنْ یقَاتِلُ مَعِی یا أَهْلَ الْإِسْلَامِ غُیرَتْ سُنَّةُ عُمَر ینْهَانَا عَنِ الصَّلَاةِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ تَطَوُّعا»

تو میرے لشکر میں سے بعض کہنے لگے : اے مسلمانو! عمر کی سنت کو تبدیل کیا ہے اور  ہمیں  رمضان میں {تروایح کی} نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔وَ لَقَدْ خِفْتُ أَنْ یثُورُوا فِی نَاحِیةِ جَانِبِ عَسْکرِی» مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ اب میرے ہی لشکر والے میرے خلاف اٹھ کھڑے ہو جائیں گے اور مجھ پر ہی حملہ کریں گے ۔

لہذا امام نے حکمت عملی اور تدبیر سے کام لیا ۔ معاویہ جیسے دشمن کے مقابلے میں اپنے لشکر کی صفحوں میں انتشار پھلانے سے دوری ،امام کے لئے فدک کی زمین واپس لینے سے زیادہ اھمیت رکھتی تھی ،دشمن کو  اپنے لشکر کا شیرازہ بکھیرنے کا موقع فراہم نہ کرنا ہی اس وقت کی ضرورت تھی ۔۔

 

كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏8 ؛ ص59، تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.

 

 

اصول کافی کے مشہور شارح جناب محمد صالح مازندروانی نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

«...(و رددت فدك الى ورثة فاطمه عليها السلام) دل على أنه عليه السلام‏ لم يرد فدك فى خلافته لافضائه الى الفساد و التفرقة فلا ترد ما أورده بعض العامة من أن أخذ فدك لو لم يكن حقا لرده عليه السلام فى خلافته‏...»

«فدک  (جس کو ابو بكر نے حضرت فاطمه عليها السّلام سے چھین لیا تھا ) اس کو فاطمه عليها السّلام کے وارثوں کو پلٹا دیتا»  یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت علی علیه السلام نے فدک اس لیے واپس نہیں لیا کیونکہ اس سے فتنہ و فساد ہوسکتا تھا لہذا اہل سنت کے اس اعتراض میں کوئی جان نہیں ہے  که «اگر فدک ان کا حق تھا تو اپنے دور حکومت میں اس کو واپس کیوں نہیں لیا »

مازندرانى، محمد صالح بن احمد، شرح الكافي-الأصول و الروضة (للمولى صالح المازندراني) ج‏11 ؛ ص372، - تهران، چاپ: اول، 1382 ق.

 

تیسرا جواب: 

فدک واپس لینے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اہل سقیفہ کے خلاف قیام میں تضاد کا ہونا : 

 

   پہلا مقدمہ : 

جناب صدیقه طاهره سلام الله علیها کی طرف سے فدک کا مطالبہ اور وقت کے حاکم سے غضبناک ہونا ایک قسم کا سیاسی حربہ اور خلافت کو غصب کرنے والے اہل سقیفہ کے چہرے سے نقاب اٹھانا اور اہل بیت علیہم السلام کی مظلومت  اور خلافت اور امامت کے مسئلے میں اہل بیت علیہم السلام کے اہل حق ہونے کو ثابت کرنے کے لئے تھا۔ لہذا یہ نزاع صرف زمین کے ایک ٹکڑے کو حاصل کرنے کے لئے نہیں تھا ۔

جیساکہ امام کاظم علیه السلام  اور هارون الرشید کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مشہور ہے کہ اس میں امام علیه السلام  نے فدک کی حدود کے بیان میں اسلامی حکومت کی ساری سرزمنین کو فدک کی حدود کے طور پر بیان فرمایا:

وَ فِي كِتَابِ أَخْبَارِ الْخُلَفَاءِ أَنَّ هَارُونَ الرَّشِيدَ كَانَ يَقُولُ لِمُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ علیه السلام خُذْ فَدَكاً حَتَّى أَرُدَّهَا إِلَيْكَ فَيَأْبَى حَتَّى أَلَحَّ عَلَيْهِ فَقَالَ علیه السلام لَا آخُذُهَا إِلَّا بِحُدُودِهَا قَالَ وَ مَا حُدُودُهَا قَالَ إِنْ حَدَدْتُهَا لَمْ تَرُدُّهَا قَالَ بِحَقِّ جَدِّكَ إِلَّا فَعَلْتَ قَالَ أَمَّا الْحَدُّ الْأَوَّلُ فَعَدَنُ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ الرَّشِيدِ وَ قَالَ إِيهاً قَالَ وَ الْحَدُّ الثَّانِي سَمَرْقَنْدُ فَارْبَدَّ وَجْهُهُ‏ وَ الْحَدُّ الثَّالِثُ إِفْرِيقِيَةُ فَاسْوَدَّ وَجْهُهُ وَ قَالَ هِيهِ قَالَ وَ الرَّابِعُ سِيفُ الْبَحْرِ مِمَّا يَلِي الْجُزُرَ وَ أَرْمِينِيَةَ قَالَ الرَّشِيدُ فَلَمْ يَبْقَ لَنَا شَيْ‏ءٌ فَتَحَوَّلْ إِلَى مَجْلِسِي قَالَ مُوسَى قَدْ أَعْلَمْتُكَ أَنَّنِي إِنْ حَدَدْتُهَا لَمْ تَرُدَّهَا فَعِنْدَ ذَلِكَ عَزَمَ عَلَى قَتْلِهِ‏ وَ فِي رِوَايَةِ ابْنِ أَسْبَاطٍ أَنَّهُ قَالَ: أَمَّا الْحَدُّ الْأَوَّلُ فَعَرِيشُ مِصْرَ وَ الثَّانِي دُومَةُ الْجَنْدَلِ وَ الثَّالِثُ أُحُدٌ وَ الرَّابِعُ سِيفُ الْبَحْرِ فَقَالَ هَذَا كُلُّهُ هَذِهِ الدُّنْيَا فَقَالَ هَذَا كَانَ فِي أَيْدِي الْيَهُودِ بَعْدَ مَوْتِ أَبِي هَالَةَ فَأَفَاءَهُ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ بِلَا خَيْلٍ وَ لا رِكابٍ‏ فَأَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى فَاطِمَةَ علیها السلام

کتاب اخبار الخلفاﺀ میں  نقل ہوا ہے : هارون الرشید نے امام کاظم علیه السلام سے کہا  «فدک کو لے لو میں اسے تم لوگوں کو واپس پلٹا دوں ».امام نے قبول نہیں فرمایا ، ہارون نے کہا : اپنے جدبزگوار کی قسم اس کے حدود اور سرحدیں بیان کریں ، جب اصرار بڑا تو امام نے فرمایا فدک کو اس کی تمام حدود کے ساتھ ہی قبول کروں گا ، ھارون نے کہا : اس کی حدود کیا ہیں ؟ امام علیہ السلام نے  فرمایا : اگر میں بتاوں تو قبول نہیں کرو گے  اور امام نے پہلی حد عدن کو قرار دیا ہارون کا چہرا بگڑا ، امام علیہ السلام نے  فرمایا :دوسری حد سمر قند ہے ،ہارون کے چہرے کا رنگ مٹی کی طرح ہوا ، فرمایا : تیسری حد افریقا ہے ،ہارون کے چہرے کا رنگ کالا ہوا اور کہا: آگے بتاو ؛ امام نے فرمایا : چوتھی حد سیف البحر ہے کہ جو جزائر اور ارمنیّه کے سرحد پر ہے ۔

ھارون رشید نے کہا ـ پھر ہمارے لئے کوئی چیز باقی نہیں بچے گی ۔ امام علیه السلام نے فرمایا : «میں نے کہا تھا : اگر میں بتاوں تو واپس نہیں کرو گے ». اسی وقت ھارون نے امام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا . ابن اسباط کی روایت کے مطابق امام نے فرمایا : «پہلی حد عَریش مصر ، دوسری حد دُومهْ الجَندل ، تیسری حد أحد ،  چوتھی سرحد سیف البحر ». ہارون نے کہا : «یہ تو پوری دنیا ہے ». امام علیه السلام نے فرمایا: «یہ زمینیں ابی­هاله کے مرنے کے بعد یہودیوں کے ہاتھ میں تھیں،اللہ نے  جنگ و جدال اور لشکرکشی کے بغیر  یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عطاﺀ فرمایا اور اللہ نے اسے فاطمه سلام الله علیها کو بخش دینے کا حکم دیا .

ابن شهر آشوب مازندرانى، محمد بن على، مناقب آل أبي طالب عليهم السلام ، ج4، ص 320، قم، چاپ: اول، 1379 ق.

 امام  در واقع   یہ بتانا چاہتے تھے کہ  حکومت  ہمارا حق ہے  اور یہ ہم سے غصب کیا ہوا ہے  اور فدک کا ہم سے چھن جانا سیاسی مسئلہ تھا ۔ جیساکہ  امیر المومنین علیہ السلام نے بھی  اسی مطلب  کی طرف اشارہ فرمایا :

بَلَى كَانَتْ فِي ايْدِينَا فَدَكٌ مِنْ كُلِّ مَا اظَلَّتْهُ السَّمَاءُ، فَشَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِينَ، ۔۔۔ 

نهج البلاغه (خط 45 ۔

خلیفہ دوم سے اس کام کی توجیہ میں نقل ہوا ہے  ۔فقال مماذا تنفق على المسلمين وقد حار بتك العرب كما ترى ثم احذ عمر الكتاب فشقه ۔ 

السيرة الحلبية (3/ 488)

اہل   سنت کا ایک  عالم ابن ابی الحدید معتزلی کہتا ہے : میں  نے اپنے    استاد  سے سوال کیا : کیا فاطمہ اپنے اس دعوے میں سچی تھی ؟ جواب  دیا: ہاں، تو میں نے کہا پھر کیوں انہیں واپس نہیں کی گئی۔ تو انہوں نے ہنس کر کہا : اگر ایسا کرتا تو دوسرے دن وہ خلافت کا مطالبہ کرنے آتی۔ 

شرح نهج البلاغة - ابن ابي الحديد (ص: 4686)

لہذا جناب سیدہ فاطمه زهرا سلام الله علیها نے اہل سقیفہ کو رسوا کرنے کے لئے ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا اور آپ نے حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد رونما ہونے والے انحرافات کو سمجھنے اور حقیقت لوگوں تک پہنچانے کے لئے چرغ راہ کا کام  انجام دیا ۔۔۔۔

  دوسرا مقدمه:

جیساکہ حضرت علی علیه السلام،کی حکومت کے دوران زیادہ تر لوگ شروع کے واقعات سے واقف نہیں تھے اسی لئے خلفاﺀ کی خلافت کو شرعی حیثیت سے قبول کرتے تھے اور یہ اہل سقیفہ کی طرف سے حقائق چھپانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی سنت اور اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت چھپانے کی سیاست کا نتیجہ تھا  .

  نتیجه گیری: 

اگر امیرالمومنین علیه السلام اپنی حکومت کے دوران ، فدک اور اس سلسلے کے دوسرے اموال کو اپنے قبضے میں لیتے تو اهل بیت علیهم السلام  اور اہل سقیفه کے درمیان موجود یہ نزاع ایک عام مالی نزاع میں تبدیل ہوتا ۔ لہذا یہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے مقصد قیام کے ساتھ ساز گار نہیں تھا ۔ ممکن ہے اس کو اپنے دور حکومت میں واپس نہ لینے کی ایک وجہ بنی امیہ کی طرف سے آپ پر مالی فسادات کی تہمت کے لئے بہانہ فراہم نہ کرنا بھی ہو ۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی