2024 March 29
ابن تیمیہ نیم ناصبیت گری کا بانی اہل سنت کی کتابیں علی مرتضی (ؑع) کی تعلیمات سے خالی کیوں ہیں؟
مندرجات: ٢٢١٠ تاریخ اشاعت: ١٥ January ٢٠٢٣ - ١٨:١٠ مشاہدات: 2404
وھابی فتنہ » پبلک
ابن تیمیہ نیم ناصبیت گری کا بانی اہل سنت کی کتابیں علی مرتضی (ؑع) کی تعلیمات سے خالی کیوں ہیں؟

 

  ابن تیمیہ ، نیم ناصبیت گری کا بانی۔

 

( ممتاز قریشی سے ہوئے ایک مناظرے  کے تناظر میں تیار کردہ  ایک مختصر تحریر)

کیوں اہل سنت کی کتابیں علی مرتضی ع) کی تعلیمات سے خالی ہیں؟

 

مقدمہ :

 اصخاب کے غلامی کے دعوے داروں کے چہرے سے نقاب اٹھانے کے لئے ابن تیمیہ کے بارے میں ان لوگوں کا طرز فکر اور طرز عمل کافی ہے۔     ابن تیمیہ کا مقام ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے ممتاز شاگرد  کے  مقام سے زیادہ  ہے ۔ شیعہ دشمنی میں یہ لوگ ابن تیمیہ کی طرح امیر المومنین علیہ السلام  کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ  ابن تیمیہ کا دفاع خود ان لوگوں کے اصحاب کے نام سے غلط فائدہ اٹھانے اور اصحاب کے بارے منافقت سے کام لینے  پر  زندہ گواہ  ہے۔

 

ابن تیمیہ کا خاص کر امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں توہین کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ابن تيميه کا خاندان رسول خدا (ص) کی شان میں گستاخیwww.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

 بعض اس کے سیاہ کارنامے پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی کتاب منہاج البدعۃ الامویۃ خود ایسے لوگوں کی کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔جیساکہ اس کی مذکورہ کتاب کا مطالعہ کرنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔

ابن حجر عسقلانی کا اعتراف۔۔

اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب صحیح بخاری کی سب سے معتبر شرح فتح الباری کے مصنف کا نظریہ قابل غور ہے وہ یہی اعتراف کرتا ہے : اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ابن تیمیہ نے شیعہ،رافضی (ابن مطہر ) کو جواب دینے میں اس حد تک زیادہ روی سے کام لیا ہے کہ وہ علی مرتضی علیہ السلام کی شان میں توہین اور تنقیص کے مرتکب ہوا ہے۔

ابن حجر عسقلامی  لکھتا ہے۔۔۔وقد طالعت الرد المذکور فوجدته کما قال السبکی فی الاستیفاء لکن وجدته کثیر التحامل إلى الغایة فی رد الأحادیث التی یوردها ابن المطهر... لکنه رد فی رده کثیرا من الأحادیث الجیاد التی لم یستحضر حالة تصنیفه مظانها...ولزم من مبالغته لتوهین کلام الرافضی الإفضاء أحیانا إلى تنقیص علی

 لسان المیزان.ج8 ص551.ط دار البشائر الاسلامیة.

اس کی کتاب منھاج السنہ کا میں نے مطالعہ کیا کہ جو شیعہ عالم ابن مطہر کے رد میں لکھی ہے اور ابن تیمیہ نے ابن مطہر کی طرف سے حضرت علی(ع) کی شان میں نقل شدہ احادیث کو رد کرنے کے لیے زیادہ روی سے کام لیا ہے اور بہت سی صحیح سند احادیث کو رد کیا ہے.. شیعوں کے خلاف اور ان کو رد کرتے کرتے وہ علی ابن ابی طالب کی شان کے خلاف تنقیص کے مرتکب ہوا ہے۔

ابن حجر عسقلاني اپنی کتاب "الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة ، ج 1 ، ص155 " میں لکھتا ہے  :

وقال ابن تيميّة في حقّ عليّ: أخطأ في سبعة عشر شيئاً، ثمّ خالف فيها نصّ الكتاب ...

علي (نستجير باللّه) نے 17 ایسی غلطیاں  کی ہیں کہ جن میں قرآنی نص کی مخالفت ہوئی ہے ۔

کیونکہ آج بہت سے شیعہ مخالف لوگوں کے خلاف تبلیغات کا منبع اور فکر مرکز ابن تیمیہ کی یہی کتاب منہاج السنہ  ۔۔۔ ہے ۔ لہذا اگرچہ اس کی ناصبیت سب پر عیان ہے لیکن شیعہ دشمنی میں اس کو شیخ الاسلام  اور اسلامی تاریخ کا بہت بڑا عالم سمجھتے ہیں اس کی باتوں کو اپنے لئے حجت ماننتے ہیں ۔ لہذا ہر ممکن طریقے سے اس کا دفاع کرتا ہے ۔

عجیب منطق :

  اہل سنت کے سلفی اور نیم ناصبی مناظر حضرات  کہتے ہیں ابن حجر کی باتیں ہمارے لئے حجت نہیں۔عجیب بات ہے کی جب ابن حجر کسی راوی کو ثقہ کہے یا کسی کی تضعیف کرئے تو اسی لسان المیزان میں موجود باتیں اہل سنت کے حجت بنتی ہیں لیکن  ابن تیمیہ کی کتاب کا مطالعہ کر کے اس کی گستاخانہ باتوں کا اعتراف اہل سنت کے لئے حجت نہیں ۔۔۔ چلو جی ۔

سوال : کیا ابن تیمیہ کی اپنی کتاب اور اس میں موجود باتیں بھی ابن تیمیہ کے نظریات اور آرا کا ترجمان اور اسی کے نظریات کے بیان میں حجت نہیں ہے ؟

     ہم ذیل میں ابن تیمیہ کے اس سلسلے میں موجود توہین آمیز نکات کے بعض نمونے پیش کرتے ہیں۔

کیوں اہل سنت کی کتابیں علی مرتضی ع) کی تعلیمات سے خالی ہیں؟

 ۱: علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کوئی علمی مقام نہیں تھا ۔

ابن تیمیہ علامہ حلی کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کا باقی اصحاب اور خاص کر اصحاب ثلاثہ پر علمی برتری اور دوسروں کا علمی میدان میں ان کی طرف محتاج ہونے کے ادعا کو رد کرنے کے لئے مختلف مثالیں دئے کر لکھتا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ دوسرے اصحاب کے قول اور نظریات قرآن و سنت کے ساتھ مطابقت رکھتے تھے ۔ دوسروں کے نظریات راجح اور حضرت علی (ع) کے نظریات مرجوح (کم اہمیت ) ہیں۔ ابن تیمیہ لکھتا ہے : وقد جمع الشافعيّ ومحمّد بن نصر المَرْوَزي كتاباً كبيراً فيما لم يأخذ به المسلمون من قول عليّ ؛ لكون قول غيره من الصحابة أتبع للكتاب والسنّة .

شافعي اور مَرْوَزي نے بہت بڑی کتابیں لکھی ہیں ،ان کتابوں میں میں مسلمانوں نے علی علیہ السلام سے کچھ نقل نہیں کیا ہے ۔کیونکہ ان کے علاوہ باقی اصحاب کی باتیں قرآن اور سنت کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی تھیں۔  (لہذا ان کی  احادیث اور تعلیمات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اہل سنت کے ان علماء نے نقل نہیں کیا ہے اور ان کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا ) .

منهاج السنة النبوية؛ اسم المؤلف:  أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس الوفاة: 728، دار النشر: مؤسسة قرطبة - 1406، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ج 8، ص 42

اہم نکتہ :

جیساکہ ہم تحریر کے آخری حصے میں اس کے  اسکین اور عربی متن پیش کریں گے ۔

 اگر اس فصل پر نگاہ ٖڈالے اور اس میں موجود مثالوں پر دقت کریں تو معلوم ہوگا کہ ابن تیمیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے ممتاز شاگرد اور آپ کے علوم و حکمتوں کے شہر کا دروازہ لقب پالنے والے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے علمی مقام اور لیبل کو دوسرے اصحاب سے گرا کر پیش کرنے کی کوشش میں ہے ۔۔ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ ان کا مقام اتنا بلند نہیں تھا کہ دوسرے ان سے رجوع کریں اور ان کے آرا اور نظریات کو دوسروں پر ترجیح دی جائے ۔۔۔۔۔

وہ یہاں تک کہتا ہےکہ اہل سنت کے علما کی طرف سے ان کے علمی آثار کو نقل نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اقوال اور نظریات قرآن و سنت کے ساتھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے تھے ، جبکہ دوسرے اصحاب کے نظریات اور آرا قرآن و سنت کے مطابق تھے لہذا اہل سنت کے علما نے دوسروں کے نظریات کو ان کے نظریات پر ترجیح دی۔

جیساکہ خود ابن تیمیہ آخری میں یہی لکھتا ہے  :فكيف أنهم كانوا يلتجئون إليه في أكثر الأحكام

یعنی علی ع کا علمی لیبل اور مقام اتنا نہیں تھا کہ خلفا کو ان کی طرف رجوع اور ان کے نظریات کی ضرورت پیش آئے ۔۔۔۔

بہانہ تراشی  یا بے جا دفاع

بعض سلفی اور نیم ناصبی یہاں آکر کہتے ہیں:

 کیا شیعہ اپنے ائمہ (ع) کی ایسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہو ؟ کہتے ہیں : ابن تیمیہ کی اس گفتگو کے پس منظر پر نگاہ ڈالو ،ابن تیمیہ یہاں ان کے علمی مقام کو گرا کر پیش نہیں کر رہا بلکہ ان سے منسوب اقوال اور آرا کا قرآن و سنت کے خلاف ہونے کی بات کر رہا ہے ۔۔۔ اور جیساکہ شیعہ اور اہل سنت کا نظریہ ہے کہ رسول اللہ (ص) اور ائمہ (ع) سے منسوب جو بھی حدیث قرآن و سنت کے خلاف ہو اس کو ٹھکرادیا جائے گا۔

 لہذا ابن تیمیہ نے حقیقت میں اس قانون کے مطابق بات کی ہے ۔۔۔

جواب :

ہمارے سابقہ بیان سے یہ واضح ہوا کہ اس گفتگو کا پس منظر خود ہی اس بات پر دلیل ہے کہ ابن تیمیہ ان سے منسوب اقوال اور احادیث کی اسناد کو ضعیف کرنے کے درپے نہیں ہے بلکہ وہ خود مسقتیم طور پر مولا علی علیہ السلام کے علمی مقام کو گرا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔

لہذا  یہ بہانہ تراشی  شیعہ اور اہل سنت کے ہاں موجود ایک مسلم قانون کا غلط  استعمال   ہے؛

مذکورہ قانون اور اس سلسلے کی احادیث ائمہ میں سے کسی کے علمی لیبل اور مقام کو ناپنے کا معیار نہیں ہے بلکہ ان سے منسوب اقوال اور احادیث کے جعلی ہونے یا کسی راوی کی طرف سے کسی بات کو غلطی سے ان کی طرف منسوب کرنے یا نہ کرنے کی تشخیص کا معیار ہے ۔۔

در حقیقت ائمہ ان احادیث کے ذریعے یہ فرمارہے ہیں کہ ہم قرآن و سنت کے خلاف بات نہیں کرتے لہذا کوئی بات ہم سے منسوب ہو اور وہ قرآن کے خلاف ہو تو ایسی بات کو ٹھکرا دو کیونکہ یہ بات ہماری بات نہیں ہوسکتی ۔ کسی نے جھوٹ بولا ہے یا راوی سے غلطی ہوئی ہے ۔۔۔۔

بنابرین ابن تیمیہ کی وکالت میں ایک مسلم قانون کا غلط استعمال دھوکہ بازی ، مغالطہ اور دونمبری کام ہے ۔۔۔

ابن تیمیہ یہ نہیں کہہ رہا ہے ان سے منسوب اقوال اور آراء کی سند ضعیف ہیں۔ ان سے منسوب آراء کی سند کمزور اور قرآن و سنت کے مخالف ہونے کی وجہ سے علماء نے ان کو اہمیت نہیں دی۔ یعنی  یہاں اعتراض  اسناد پر ہے خود حضرت علی علیہ السلام پر اعتراض نہیں ۔”

بلکہ ابن تیمیہ شیعوں کے مقابلے میں یہ کہہ رہا ہے: علی مرتضی (ع) کا علمی مقام اتنا نہیں تھا کہ ان کے آراء کو دوسرے اصحاب کے آراء پر ترجیح دی جائے،یہاں تک کہ خلفاکو ان کی طرف علمی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پیش آئے ۔حضرت علی (ع) قرآن اور سنت کے مخالف بات کرتے تھے اور نظریہ دیتے تھے.... یعنی  یہاں اعتراض  اسناد پر  نہیں ہے خود حضرت علی علیہ السلام پر اعتراض  ہو رہا ہے  ۔”

مزید وضاحت...

ابن تیمیہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ علی مرتضی (ع) یعنی رسول اللہ (ص) کے سب سے ممتاز شاگرد جو تقریبا(25 ) سال آپ کے حضور میں رہے ان کا علمی مقام اتنا نہیں تھا کہ ان کے اقوال کو نقل کیاجائے... باقی اصحاب کا علمی مقام بلند تھا   اور باقی اصحاب کے اقوال اور نظریات قرآن کے موافق تھے جبکہ علی مرتضی (ع) قرآن اور سنت کے خلاف راے دیتے تھے ....

 

ابن تیمیہ کی دوسری جسارتیں ۔۔۔

2:  بہت سے صحابہ  کا حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی اور آپ کو برا بلا کہنا ۔

 وَلَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ عَلِيٌّ، فَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ كَانُوا يُبْغِضُونَهُ  وَيَسُبُّونَهُ وَيُقَاتِلُونَهُ۔۔۔۔۔

باقی خلفاء کے برخلاف   بہت صحابہ اور تابعین  حضرت علی علیہ السلام  سے بغض رکھتے تھے ، انہیں برا بلا کہتے تھے ،ان سے جنگ کرتے تھے ۔

منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية (7/ 137):المؤلف:أحمد بن عبد الحليم ۔۔ ابن تيمية الحراني الحنبلي الدمشقي (المتوفى: 728هـ) المحقق: محمد رشاد سالم الناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية ،الطبعة: الأولى، 1406 هـ

اب ابن تیمیہ کی ان نسبتوں کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔

الف : یہ نسبتیں جھوٹی ہیں ۔ ب : یہ نسبتیں سچی ہیں ۔

دونوں صورتوں میں ابن تیمیہ کے پیروکار مشکل میں پڑتے ہیں ۔

  اب یہاں بھی ابن تیمیہ کے بعض مداح کہتے ہیں پس منظر کو دیکھو ۔

ہم کہتے ہیں : اگر یہ کہا جائے کہ ابن تیمیہ نے شیعہ نظریہ کو رد کرنے کے لئے ایسا کہا ہے تو ہم یہی کہیں گے:  کیا شیعوں کو جواب دینے کے لئے اصحاب کی طرف غلط نسبت دینا صحیح  اور جائز عمل ہے ؟

  3:  :  حضرت علی علیہ السلام نے بیوی کی خاطر ہجرت کی ۔

ابن تیمیہ انتہائی گستاخانہ انداز میں کہتا ہے کہ ابوبکر کی ہجرت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی راہ میں ہجرت تھی جبکہ حضرت علی علیہ السلام کی ہجرت اپنی بیوی کی راہ میں ہجرت تھی ۔

وأبو بكر كان من جنس من هاجر إلى الله ورسوله وهذا لا يشبه من كان مقصوده امرأة يتزوجها ۔۔

ابوبکر ان لوگوں میں سے ہے جس نے اللہ اور اللہ کے رسول کی راہ میں ہجرت کی ،یہ اس شخص{ حضرت علی علیہ السلام } کی طرح نہیں ہے جس نے ایک عورت کی خاطر ہجرت کی جس سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا ۔

۔منهاج السنة النبوية (4/ 255):

۴:    حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تکلیف پہنچانا

     ابن تیمیہ کہتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام دوسری شادی کرنے کے ذریعے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تکلیف دینا چاہتا تھا  :وعلي رضي الله عنه كان قصده ان يتزوج عليها ( علي فاطمة ) فله في أذاها غرض 

(منهاج السنة ، ج2 ، 171 )

علی علیہ السلام جناب فاطمہ سلام علیہا کی موجودگی میں ایک اور شادی کرنا چاہتے تھے اور اس شادی کے ذریعے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تکلیف پہنچانا مقصد تھا ۔

۵: علی علیہ السلام کی جنگیں دین کے لئے نہیں تھیں بلکہ اقتدار کی جنگیں تھیں

وعلي يقاتل ليطاع ويتصرف في النفوس والأموال فكيف يجعل هذا قتالا على الدين وأبو بكر يقاتل من ارتد عن الإسلام ومن ترك ما فرض الله ليطيع الله ورسوله فقط ولا يكون هذا قتالا على الدين

۔ منهاج السنة النبوية (4/ 252

  علي نے اس لئے جنگ کی تاکہ لوگ اس کی اطاعت کرئے اور لوگوں کی جان و مال پر کنڑول قائم کرسکے ،لہذا کیسے ان کی جنگ کو دین کی راہ میں جنگ قرار دیتے ہو ؟ابوبکر نے تو ان لوگوں سے جنگ کی جو مرتد ہوگئے تھے اور ان لوگوں سے جنگ کی جو اللہ کی طرف سے واجب شدہ چیز کا انکار کرتے تھے،جنگ کی تاکہ صرف اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت ہو ،لیکن علی کی یہ جنگیں دین کے لئے نہیں تھیں ۔

جیساکہ ابن حجر کے بقول ابن تیمیہ کی اسی جسارت کی وجہ سے اہل سنت کے علما نے ابن تیمیہ کو منافق کہا ہے ۔

۔وَمِنْهُم من ينْسبهُ إِلَى النِّفَاق لقَوْله فِي عَليّ مَا تقدم وَلقَوْله إِنَّه كَانَ مخذولا حَيْثُ مَا توجه وَأَنه حاول الْخلَافَة مرَارًا فَلم ينلها وَإِنَّمَا قَاتل للرئاسة لَا للديانة وَلقَوْله إِنَّه كَانَ يحب الرِّئَاسَة وَأَن عُثْمَان كَانَ يحب المَال وَلقَوْله أَبُو بكر أسلم شَيخا يدْرِي مَا يَقُول وَعلي أسلم صَبيا وَالصَّبِيّ لَا يَصح إِسْلَامه على قَول وبكلامه فِي قصَّة خطْبَة بنت أبي جهل وَمَات مَا نَسَبهَا من الثَّنَاء على ... وقصة أبي الْعَاصِ ابْن الرّبيع وَمَا يُؤْخَذ من مفهومها فَإِنَّهُ شنع فِي ذَلِك فألزموه بالنفاق لقَوْله صلّى الله عَلَيْهِ وسلّم وَلَا يبغضك إِلَّا مُنَافِقْ۔۔۔

..الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة ج1 ص179 و 180 و 181 المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)، المحقق: مراقبة / محمد عبد المعيد ضان، الناشر: مجلس دائرة المعارف العثمانية - صيدر اباد/ الهند، الطبعة: الثانية، 1392هـ/ 1972م، عدد الأجزاء:

پہلے مطلب  کا عربی متن ملاحظہ کریں

فصل

 قال الرافضي الثالث قصورهم في العلم والتجاؤهم في أكثر الأحوال إلى علي

والجواب أن هذا من أعظم البهتان۔

 أما أبو بكر فما عرف أنه استفاد من علي شيئا أصلا وعلي قد روى عنه واحتذى حذوه واقتدى بسيرته وأما عمر فقد استفاد علي منه أكثر مما استفاد عمر منه وأما عثمان فقد كان أقل علما من أبي بكر وعمر ومع هذا فما كان يحتاج إلى علي حتى أن بعض الناس شكا إلى علي بعض سعاة عمال عثمان فأرسل إليه بكتاب الصدقة فقال عثمان لا حاجة لنا به

۔۔۔۔۔۔وكان شريح قد تعلم من معاذ بن جبل وغيره من الصحابة وعبيدة تعلم من عمر وغيره وكانوا لا يشاورونه في عامة ما يقضون به استغناء بما عندهم من العلم فكيف يقال إن عمر وعثمان كانا يلتجئان إليه في أكثر الأحكام۔۔۔

۔۔۔۔فهذا قاضيه لا يرجع إلى رأيه في هذه المسألة مع أن أكثر الناس إنما منع بيعها تقليدا لعمر ليس فيها نص صريح صحيح فإذا كانوا لا يلتجئون إليه في هذه المسألة فكيف يلتجئون إليه في غيرها وفيها من النصوص ما يشفى ويكفى۔۔۔۔۔۔ وإنما كان يقضى ولا يشاور عليا وربما قضى بقضية أنكرها علي لمخالفتها قول جمهور الصحابة۔۔

۔۔۔وقد جمع الشافعي ومحمد بن نصر المروزي كتابا كثيرا فيما لم يأخذ به المسلمون من قول علي لكون قول غيره من الصحابة أتبع للكتاب والسنة وكان المرجوح من قوله أكثر من المرجوح من قول أبي بكر وعمر وعثمان والراجح من أقاويلهم أكثر فكيف أنهم كانوا يلتجئون إلي ه في أكثر الأحكام ۔

 

 ابن تیمیہ ، نیم ناصبیت گری کا بانی۔

 

 

 بن حجر کا اعتراف :

 

  

امام علی علیہ السلام کے علمی مقام کو گرانے کے  اسکین اور پس منظر

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات