2024 March 29
عید میلاد النبی (ص) کے تقاضے اور ہم
مندرجات: ٤٦١ تاریخ اشاعت: ١٧ December ٢٠١٦ - ٠٠:٣٧ مشاہدات: 4230
یاداشتیں » پبلک
عید میلاد النبی (ص) کے تقاضے اور ہم

 اے نبی! مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویوں، اپنے خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے کم ہونے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے گھر جو تمہیں پسند ہیں؛ اللہ، اس کے رسول (ص) اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا امر لے آئے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے جن رشتوں کا ذکر کیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔ اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالی واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول (ص) کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو، تب ہی ایمان کا دعوی صحیح ہو سکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین و جائیداد، تجارت اور پسندیدہ مال خدا اور رسول (ص) اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو "طبعی محبت" کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال و کمال یا احسان کی وجہ سے ہو تو "عقلی محبت" کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو"روحانی محبت" یا "ایمان کی محبت" کہلاتی ہے۔ رسول اللہ (ص) کے ساتھ "محبتِ طبعی" بھی ہے، عقلی بھی ہے اور روحانی  بھی۔

محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بھی، خواہ یہ ظاہری ہو یا باطنی۔ آپ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی۔ شکل و صورت میں بھی آپ سب سے حسین تھے، جیسا کہ حضرت جابر نے فرمایا ہے کہ:

کان مثل الشمس و القمر۔

آپ (ص) کا چہرہ آفتاب اور ماہتاب جیسا تھا۔

مسنداحمد ابن حنبل ج5  ص 104

ربیع بنت معوذ آپ کے بارے میں فرماتی ہے کہ:

لو رأیت الشمس طالعۃ۔

اگر تم رسول اللہ کو دیکھو گے تو تم کو ایسا لگے گا کہ جیسے سورج نکل رہا ہو۔

مجمع الزوائد: ج8 ص280

آپ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپ کو اللہ تعالٰی نے خاتم النّبیین، سید المرسلین، امام الاوّلین و الآخرین اور رحمتہ للعالمین بنا کر اس دنیا میں بھیجا ۔ آپ کے احسانات امت پر بے حد و حساب ہیں، بلکہ آپ محسن انسانیت ہیں۔ صاحبِ جمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

 جیسے، حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حکمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے۔ مگر آپ (ص) کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتی تمام انبیاء (ع) میں جو جو خوبیاں تھیں، وہ تمام کی تمام رسول خدا کی ذات مقدس میں تھیں۔

بقول شاعر:

حسن یوسف، دم عیسٰی، ید بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری!

رسول خدا (ص) کے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں، جن میں سے کچھ تو ایسے امور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اور کچھ ایسے ہیں کہ جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

یہاں پر ہم چند تقاضوں کو بیان کرتے ہیں:

ایمان کامل کے لئے رسول خدا کی صرف ظاہری اطاعت ہی نہیں بلکہ قلبی تسلیم و رضا بھی ضروری ہے۔

خداوند کا فرمان ہے کہ:

فَلاَ وَرَبِّک لاَ یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکمُوْک فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أنْفُسِہمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔

نہیں، تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں، بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کر لیں۔

سورہ نساء :65

صدر اسلام سے لیکر آج تک جن لوگوں نے کہیں بھی رسول خدا (ص) کے فیصلوں اور احکام کو نہیں مانا، چاہے اس وقت جب آپ قلم دوات مانگ رہے تھے یا آپ اعلان غدیر پر عمل درآمد کی بات کر رہے تھے۔ یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حب رسول (ص) کو محض میلاد کی محفل منعقد کرنے اور ذکر رسول (ص) بیان کرنے کی حد تک محدود سمجھ لیا ہے اور اطاعت و اتباع رسول (ص) سے بالکل بے فکر ہو گئے ہیں، اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم رسول خدا (ص) کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو غور سے پڑھیں، سیکھیں، اُسوۂ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو قرون اولی میں تھا۔ انہوں نے سچے جذبے، عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ رسول خدا کی پیروی کی تو قیصر و کسری کے خزانے ان کے قدموں میں تھے۔

حبِ رسول (ص) کے دعویداروں سے یہ بات پھر عرض کرنا ہے کہ اتباعِ سنت اور اطاعتِ رسول (ص) صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ اطاعتِ رسول (ص) ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے، اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت ہونی چاہئے، اسی طرح کاروبار اور باہمی لین دین میں بھی یہ مطلوب ہے۔ ایصال ثواب، زیارت قبور، شادی بیاہ، خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے۔ دشمن کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو، سنت رسول (ص) ہر جگہ جاری و ساری ہونی چاہئے۔

ہر سال ربیع الاول کا مہینہ رحمتوں، برکتوں اور روحانی نعمتوں کا تحفہ لے کر آتا ہے اور ذکرِ رسول اُمت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ہر لمحے سامنے رکھنا ضروری ہے کہ حب رسول (ص) کا تعلق نہ کسی خاص مہینے سے ہے، نہ کسی خاص مقام اور موسم سے۔ یہ تو وہ سدا بہار کیفیت ہے جو ایمان کے لمحے لمحے سے زندگی کے آخری سانس تک مومن کا سرمایہ زندگی ہے اور شرط ایمان بھی ہے۔

آج ہم مسلمان اگر پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت پر اپنی توجہ مرکوز کر لیں، اس کے بارے میں غور و فکر کریں، اس سے درس حاصل کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے دین و دنیا کے لئے یہی کافی ہو گا۔ اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے اس وجود پر نگاہوں کو مرکوز کرنا، اس سے درس لینا اور اس سے سیکھنے کی کوشش کرنا ہی کافی ہو گا۔ یہ شخصیت مظہر علم تھی، دیانتداری کا آئینہ تھی، اخلاق کا مجسمہ تھی، انصاف کا معیار تھی۔

انسان کو اور کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ انسانی ضرورتیں تو یہی چیزیں ہیں۔ یہ ایسی انسانی ضرورتیں ہیں جو پوری تاریخ بشر میں کبھی تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔ آغاز خلقت سے تا حال انسانوں کی زندگی میں بے شمار تبدیلیاں آئیں، جن سے زندگی کے حالات، زندگی کے امور بدل کر رہ گئے، لیکن بشر کے اصلی مطالبات اور احتیاجات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انسان روز اول سے ہی سکون اور ذہنی آسائش کی فکر میں تھا، انصاف کی تلاش میں تھا، اخلاق حسنہ کی جستجو میں تھا، خالق ہستی سے مستحکم رابطے کا متمنی تھا، یہی بشریت کی اصلی ضرورتیں ہیں، اور ان ضرورتوں کا سرچشمہ اس کی فطرت و ذات ہے۔ پیغمبر اکرم کی ذات ان تمام خصوصیات کی آئینہ دار ہے۔ ہم مسلم امہ کو آج ان تمام خصوصیات کی ضرورت ہے۔

امت اسلامیہ کو آج علمی پیشرفت کی ضرورت ہے، اللہ تعالی کی ذات پر مکمل اطمینان رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں صحت مند روابط اور اخلاق حسنہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپس میں برادرانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لینا چاہئے۔ ان تمام خصوصیات کا بھرپور آئینہ پیغمبر اکرم کی ذات ہے۔ آپ کا علم، آپ کا حلم، آپ کی چشم پوشی، آپ کی رحمدلی، کمزور طبقے کے لئے آپ کی شفقت، معاشرے کے تمام افراد کے حوالے سے آپ کا عدل و انصاف، ان تمام خصوصیات کا مجسمہ پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت ہے۔ ہمیں پیغمبر (ص) سے درس لینا چاہئے، ہمیں ان خصوصیات اور صفات کی ضرورت ہے۔

آج ہمیں خداوند پر اپنا یقین پختہ کرنے کی ضرورت ہے، اللہ پر اطمینان رکھنے کی ضرورت ہے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالٰی نے وعدہ کیا ہے، فرمایا ہے کہ اگر مجاہدت کرو گے، اگر محنت کرو گے، تو اللہ تعالٰی تمہیں منزل مقصود تک پہنچائے گا اور تم استقامت کے زیر سایہ اپنے اہداف حاصل کر لو گے۔ دنیاوی خواہشات کے مقابل ہماری قوت ارادی میں تزلزل نہیں پیدا ہونا چاہئے، مال و مقام کے معاملے میں اسی طرح دوسرے طرح طرح کے وسوسے ہماری بے نیازی میں کوئی کمزوری پیدا نہ کرنے پائیں۔ یہی چیزیں انسانیت کو کمالات کے مقام اوج پر پہنچاتی ہیں، کسی بھی قوم کو وقار کی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہیں، کسی بھی معاشرے کو حقیقی سعادت و کامرانی سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کی شدید احتیاج ہے اور ان صفات کا مرقع ہمارے پیغمبر کی ذات ہے۔

ہمارے نبی مکرم (ص) کی پوری زندگی ایسی ہے، آپ کا بچپن بھی دیدنی ہے، آپ کی نوجوانی کا دور بھی اور بعثت سے قبل کے سال بھی بے مثال ہیں۔ آپ کی دیانتداری کا یہ عالم ہے کہ پورا قبیلہ قریش اور آپ سے واقفیت رکھنے والا ہر عرب آپ کو امین کے لقب سے یاد کرتا تھا۔ لوگوں کے بارے میں آپ کا انصاف، آپ کی عادلانہ نگاہ ایسی ہے کہ جب حجر الاسود کو نصب کرنے کا موقعہ آتا ہے اور عرب قبائل اور گروہوں میں تصادم کی نوبت آ جاتی ہے، تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے تو فیصلے کے لئے آپ کا انتخاب کرتے ہیں، حالانکہ اس وقت آپ نوجوانی کے دور میں تھے۔ یہ آپ کی انصاف پسندی ہے، جس کے سب معترف تھے۔ آپ کو صادق و امین مانتے تھے۔ یہ آپ کی نوجوانی کا دور ہے۔

اس کے بعد بعثت کا دور آیا تو آپ کا ایثار، آپ کی مجاہدت اور آپ کی استقامت سامنے آئی۔ اس دور میں سارے لوگ آپ کے مخالف تھے، آپ کے خلاف محاذ آرائی کر رہے تھے، آپ کے برخلاف سمت میں حرکت کر رہے تھے، آپ کی دشمنی پر تلے ہوئے تھے، کتنی سختیاں پڑیں، مکہ کے تیرہ سال کتنی دشواریوں میں گزرے، لیکن پیغمبر (ص) کے پائے ثبات میں جنبش نہ آئی، آپ کی اسی استقامت کا نتیجہ تھا کہ مضبوط ارادے کے مالک مسلمان وجود میں آئے جو ہر دباؤ اور سختی کو مسکرا کر گلے لگاتے تھے۔ یہ سب ہمارے لئے درس ہیں۔ اس کے بعد مدنی معاشرہ تشکیل پایا۔ آپ نے دس سال سے زیادہ حکومت نہیں کی، لیکن ایسی عظیم عمارت تعمیر کر دی کہ صدیاں گزر گئیں مگر علم و دانش میں، تہذیب و تمدن میں، روحانی ارتقاء میں، اخلاقی کمالات میں اور دولت و ثروت میں انسانیت کا نقطہ عروج آج بھی وہی معاشرہ ہے۔ وہی معاشرہ جس کا خاکہ پیغمبر (ص) اسلام نے کھینچا اور جس کی داغ بیل آپ کے دست مبارک سے پڑی۔

البتہ بعد میں مسلمانوں نے غفلت برتی تو ان پر مشکلات آن پڑیں۔ ہم مسلمانوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی پسماندگی کا سامان مہیا کیا۔ اب اگر ہم پھر آنحضرت (ص) کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں تو ایک بار پھر ترقی کریں گے۔ آج امت اسلامیہ کو اتحاد کی ضرورت ہے، باہمی جذبہ ہمدردی کی ضرورت ہے، باہمی آشنائی کی ضرورت ہے۔ آج عرب اور اسلامی دنیا میں جو عوامی انقلابات آ رہے ہیں، قوموں کی رگوں میں بیداری خون کی مانند گردش کر رہی ہے، میدان عمل میں قومیں وارد ہو رہی ہیں، امریکہ اور استعماری نظام کو جو بار بار ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے، صیہونی حکومت پر روز بروز کمزوری طاری ہو رہی ہے، یہ سب مسلمانوں کو حاصل ہونے والے اہم ترین مواقع ہیں۔ یہ امت اسلامیہ کے لئے سنہری موقعہ ہے۔ ہمیں ہوش میں آنے کی ضرورت ہے، درس لینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امت اسلامیہ کی بلند ہمتی سے، روشن فکر حضرات، علمی شخصیات، سیاسی و مذہبی قائدین کی قوت ارادی کی برکت سے یہ تحریک آگے بڑھے گی اور عالم اسلام کے وقار کا دور ایک بار پھر پلٹ آئے گا۔ انشاء اللہ

خداوند سے دعا ہے کہ اس دن کو قریب سے قریب تر لائے اور ہم سب کو توفیق عنایت فرمائے کہ اس تحریک میں شریک ہوں اور اس کا جز قرار پائیں۔

ربیع الاوّل نبی برحق ختم رسل حبیب کبریا محمد مصطفی (ص) کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہونے کی وجہ سے پوری بشریت کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن حکیم میں آپ کو رحمۃ للعالمین اور نذیر للعالمین قرار دیا ہے۔ آپ اللہ کی طرف سے نوع انسانی کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا پیغام لے کر آئے۔ آپ خداوند کی طرف سے مخبر صادق بن کر آئے۔ آنحضرت کی زندگی کو اللہ تعالٰی نے اُسوۂ حسنہ قرار دیا۔ آپ انسانیت کی بلند ترین چوٹی پر جلوہ فرما ہیں۔ اسی لیے آپ ہی صاحبِ معراج قرار پائے۔ آپ کی لائی ہوئی کتاب آخری اور محفوظ ترین آسمانی کتاب قرار پائی۔ قرآن حکیم آپ کا جامع و کامل اور دائمی معجزہ بن کر آج بھی موجود ہے۔ دنیا میں موجود دیگر مقدس کتابوں میں بھی اگرچہ دانائی اور بصیرت کی بہت سی باتیں ابھی تک موجود ہیں، لیکن ان کی تاریخ کے اتار چڑھاؤ نے انھیں تحریف اور تبدیل کر دیا ہے۔

محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تورات و انجیل آج اپنے اصل متن کے ساتھ موجود نہیں۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ قرآن اپنی اصل زبان اور متن کے ساتھ آج تک محفوظ اور موجود ہے اور اس کا یہ دعوی ہے کہ اس میں ما قبل نازل ہونے والی کتابوں کی تعلیمات موجود ہیں اور وہ کچھ مزید معارف کا بھی حامل ہے۔ قرآن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں انسان کی ضرورت کی ہر چيز موجود ہے۔ اسکے علاوہ اس میں رسول اسلام کی زندگی کے اہم واقعات اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے اہم گوشے صراحت سے موجود ہیں۔ اور قرآن کا خطاب اور پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قرآن سارے انسانوں کے لیے ایک مقدس ترین اور محفوظ ترین الہی سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ نبی کریم کی زندگی اور تاریخ کے اہم پہلو جس انداز سے محفوظ اور واضح ہیں انسانیت کی دیگر عظیم شخصیتوں کی تاریخ اس طرح سے واضح اور محفوظ نہیں ہے، اگرچہ قرآن حکیم نے خود بھی رسول اسلام سے ما قبل کی تاریخ کا ایک حصہ درس و عبرت لیے بیان کر دیا ہے۔

رسول اسلام کی ابتدائی زندگی، خاندانی پس منظر، گھریلو زندگی، جدوجہد، انتہائی مشکلات کا زمانہ، ہجرت، جنگیں، دیگر اقوام سے معاہدے، عالمی دعوت، انفرادی اور اجتماعی اخلاق، سیاسی و معاشی تعلیمات کے اصول۔ غرض آپ کی زندگی کے تمام گوشے اور آپ کی رسالت کے تمام پہلو آج بھی روز روشن کی طرح تمام انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ کی زندگی اور سیرت پر جتنا تحریری کام موجود ہے، دنیا کے کسی اور بشر پر موجود نہیں ہے۔ آپ کی تعلیمات میں فطری سادگی ہے۔ یہی سادگی اور حسن آپ کی سیرت میں بھی جلوہ گر ہے۔ آپ کی تعلیمات کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ ایک نو عمر مسلمان بچے سے بھی ان کے بارے میں پوچھا جائے تو نہ فقط وہ اس کی بنیادی باتوں سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ وہ انھیں آسانی سے بیان بھی کر سکتا ہے۔ مثلاً توحید پرستی، آخرت پر ایمان، نیک لوگوں کا نیک انجام اور بروں کا برا انجام، ہمسائے کے دکھ سکھ میں شرکت، کمزور اور مظلوم کی مدد، غریب و محروم انسانوں کی دست گیری، سچائی، پاکبازی، حسن ظن، غیبت سے اجتناب، کوشش اور سعی کی اہمیت، خالص اللہ کی عبادت، تمام کام اللہ کی رضا کے لیے کرنا، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، ظالم سے نفرت، انسانی مساوات وغیرہ وغیرہ۔

ویسے بھی یہ تعلیمات اپنی فطری صداقت کی وجہ سے ایسی قوت رکھتی ہیں کہ تعصب کے پردے حائل نہ ہوں تو کسی صاف دل انسان کو ان کے سامنے سر جھکانے میں باک نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو دین فطرت کہا جاتا ہے۔ رسول اکرم کو اعلانِ رسالت کے بعد کی اپنی مختصر زندگی میں جتنی بڑی اور عظیم الشان کامیابیاں حاصل ہوئیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ نے انسانیت کو ایک ہمہ گیر عالمی انسانی تہذیب کا تحفہ دیا۔ دنیا میں پہلے سے موجود کھوکھلی تہذیبیں بہت جلد اسلامی تہذیب کی قوت کے سامنے ڈھیر ہو گئیں اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اسلام دنیا کا سب سے بڑا اور موثر ترین دین بن کر اُبھرا۔

آپ نے اپنی دعوت کی بنیاد عقل و فطرت پر رکھی۔ آپ نے ہر نظرئیے اور عقیدے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی دعوت دی۔ آپ جو کتاب لائے اس نے انسانوں کو جھنجھوڑ اور بیدار کر کے کہا کہ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ؟، تم تدبر سے کام کیوں نہیں لیتے ؟ ۔ اس نے عقل انسانی کو مخاطب کر کے پوچھا کہ کیا علم والے اور بے علم آپس میں برابر ہیں۔؟ کیا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا بھی کچھ ہے۔؟ کیا آنکھوں والے نابیناؤں کی طرح ہیں؟ اس نے جواب انسانی فطرت پر چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ اسے اپنے پیغام کی صداقت پر یقین تھا۔

آپ کو اپنوں اور دشمنوں نے سچا کہا، آپ کے پاس دشمنوں نے بھی اپنی امانتوں کو محفوظ جانا، آپ نے خون کے پیاسوں کے ساتھ عہد نبھائے، آپ نے جنگوں میں بھی انسانی اقدار کی پاسداری کی، آپ نے قانونی مساوات کا ایسا اہتمام کیا کہ واشگاف اعلان کر دیا کہ اگر محمد (ص) کی بیٹی بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ آپ نے وراثت کا حصہ بن جانے والی عورت کو شریک ورثہ کر دیا، آپ نے مسجد نبوی میں غیر مسلموں کو عبادت کرنے کی خوش دلی سے اجازت دی، آپ نے عورت اور بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کو باطل قرار دے دیا، آپ نے غلاموں کو آزادی کا پیغام دیا اور غلام آزاد کرنے کے عمل کو اللہ کی عبادت قرار دے دیا اور آپ نے اپنے ہاتھوں سے جوتوں کو سیا اور پیوند لگا لباس پہنا۔

تاریخ کا حسین اتفاق ہے کہ 17 ربیع الاول نبی پاک کے ایک فرزند امام جعفر ابن محمد (ع) کا بھی روز ولادت ہے، جنھیں اپنے جدّ بزرگوار کی طرح صادق قرار دیا گیا۔ وہ تاریخ کے اس موڑ پر جلوہ افروز ہوئے جب علم کلام نئے سانچے میں ڈھل رہا تھا، مشرق و مغرب کے قدیم فلسفوں کی بازگشت مسجد نبوی تک آ پہنچی تھی، حدیث کے بیان کی گرم بازاری تھی، اصول فقہ اور علم فقہ کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں، دنیا بھر سے مختلف مذاہب و افکار کے حامل اپنے نظریات بیان کر رہے تھے، جدید ایجادات مقام شہود پر آنے کو بے قرار تھیں، الحاد و زندقہ  کے نظریات کا شہرہ تھا اور ہند و یونان کے قدیم فلسفے، طب، ریاضی اور ہیئت کی کتب کے ترجمے ہو رہے تھے۔ ایسے میں اسلام کو ایک ایسے رہبر صادق کی ضرورت تھی جو دلیل و برہان سے لیس ہو، عصری زبان میں اسلام کی ترجمانی کرسکتا ہو، حدیث نبوی کی صداقت کے لیے مرجع بننے کی اہلیت رکھتا ہو، علم کلام کو اس کی صحیح نہج پر رکھ سکتا ہو، انسانیت کو وہم و انحراف سے بچا سکتا ہو، ہر رائج علم کے عالم کے سامنے اسلامی تعلیمات کی صداقت منوا سکتا ہو اور جس کی علمی عظمت کے سامنے علمائے اسلام اعتماد اور خوشی سے سر جھکا سکتے ہوں۔

خداوند نے رسول اسلام کی اولاد میں سے امام جعفر صادق (ع) کو یہی حیثیت اور مقام عطا کیا۔ ابو حنیفہ نے ان کے دستر خوان علم سے خوشہ چینی کی، اسلامی تعلیمات اور احکام و روایات پر مبنی سو کتابیں ان کے شاگردوں نے مرتب کیں، بابائے کیمیا جابر ابن حیان نے ان کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کیا، تمام علم کے ماہرین نے ان سے گفتگو کی اور ان کی عظمت علمی  اور صداقت قول کا اعتراف کیا۔ آج بھی دنیا کے فلسفی، سائنسدان، علمائے اصول و فقہ، حدیث شناس اور ماہرین معیشت و معاشرت امام صادق (ع) سے مسلسل کسب فیض کر رہے ہیں۔  امام صادق نے تاریخ کے ایک نہایت حساس موڑ پر دین اسلام کی حفاظت کا فریضہ بیک وقت چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کا مکتب قائم کر کے بحسن و خوبی انجام کیا۔ ان پر ان کے اجداد کرام اور اولادِ اطہار پر ہمارا لاکھوں درود و سلام ہو۔

یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ہے اور دل فگار بھی کہ رسول اکرم (ص) اور ان کے دین کے نام لیوا آج دنیا میں پس ماندگی، عقب نشینی اور ذلت و خواری کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ اس سلسلے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، البتہ کسی کو اس سے انکار نہیں کہ یہ سب کچھ رسول اسلام اور انکے اہل بیت کی تعلیمات سے دوری اور آپ کے اسوہ سے لا پر واہی کا نتیجہ ہے۔ عزت و سربلندی یہ کہہ کر ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے کہ :::

بمصطفی برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست

اگر باو نرسیدی تمام بو لہبی ست

یعنی اپنے آپ کو رسول خدا (ص) اور انکی تعلیمات کے نزدیک رکھو کہ اگر ان دونوں سے دور ہوئے تو تم خود بخود ابو لہب یعنی رسول خدا کے دشمنوں کے نزدیک ہو جاؤ گے، اور پھر تم محمدی نہیں بلکہ ابو لہبی کہلاؤ گے......

التماس دعا





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی