موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
موھوم حدیث[ کتاب اللہ و سنتی] کی تحقیق : رسول اللہ ص نے کتاب اللہ و عترتی فرمایا ہے یا سنتی ؟
مندرجات: 2067 تاریخ اشاعت: 22 آذر 2021 - 16:54 مشاہدات: 2418
وھابی فتنہ » پبلک
موھوم حدیث[ کتاب اللہ و سنتی] کی تحقیق : رسول اللہ ص نے کتاب اللہ و عترتی فرمایا ہے یا سنتی ؟

موھوم حدیث[ کتاب اللہ و سنتی] کی تحقیق :

جیساکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے دینی پیشوائی کےاہم دلائل میں سے ایک حدیث ثقلین ہیں،کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن و عترت اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کا حکم دیا ۔

لیکن جس طرح سے اہل بیت علیہم  السلام کے فضائل کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کیے گئے ، انہیں میں سے ایک ان کے فضائل کو بیان کرنے والی احادیث کا مقابلے کرنے کے لئےمشابہہ روایات جعل کرنا تھا ۔۔۔ ہم ذیل میں اسی روایت کی تحقیق کرتے ہیں کہ جس میں « عترتی اهل بيتي» کے جگہ «سنتي» کا لفظ آیا ہے ۔

مختصر یہ کہ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کو اموی فیکٹری میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل سے مقابلے لئے بنائی گئی ہے ۔

 اس حدیث کی تین اسناد کی ہم یہاں تحقیق کرتے ہیں ۔

ـ حاكم نيشابوري نے  مستدرك میں  مندرجہ ذیل سند اور متن کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا ہے :

«اسماعيل بن أبي اُويس»، عن «ابي اويس» عن «ثور بن زيد الديلمي»، عن «عكرمه»، عن «ابن عباس» قال رسول الله: «يا ايها الناس اني قد تركت فيكم، ان اعتصمتم به فلن تضلّوا ابدا كتاب الله و سنة نبيه!»(حاكم، مستدرك، ج 1، ص 93 )

اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت۔ اگر ان دونوں کو پکڑے رہوگے تو تم لوگ کبھی گمراہ نہیں ہوں گے ۔

اس سند کے راویوں میں سے ایک باپ بیٹا ہیں کہ جو دونوں ضعیف ہیں، ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے بلکہ ان دونوں کی طرف جھوٹ اور حدیث جعل کرنے کی نسبت دی گئی ہے ۔


اہل سنت کے علم رجال کے ماہرین کا ان دونوں کے بارے میں نظر

حافظ مزِّي نے كتاب تهذيب الكمال میں علم رجال کے ماہرین کے نظرئے کو اسماعیل اور اس کے باپ کے بارے میں یوں نقل کیا ہے ۔

 يحيي بن معين (علم رجال میں مہار ) کہتے ہیں : ابو اويس اور اس کا بیٹا ضعیف ہیں۔  اسی طرح يحيي بن معين سے نقل ہوا ہے : یہ دونوں حدیث چوری کرتے تھے . ابن معين نے اسماعیل کے بارئے میں کہا ہے: اس پر اعتماد نہیں کرسکتا .
نسائی نے اسماعیل کے بارے میں کہا ہے : وہ ضعیف ہے اور ثقہ نہیں ہے .
ابوالقاسم لالكائي نے اس کے بارئے کہا ہے : «نسائي» نے اس کے خلاف بہت باتیں کی ہیں اور کہا ہے کہ اس کی حدیث کو ترک کرنا چاہئے ۔
ابن عدي (کہ جو علم رجال کے بزرگوں میں سے ہیں ) کہتے ہیں: ابن ابي اويس نے اپنے مامو مالک سے ایسی عجیب و غریب روایتیں نقل کی ہیں کہ کوئی بھی اس کو قبول نہیں کرتا۔

(حافظ مزي، تهذيب الكمال، ج 3، ص 127 - 129 )
ابن حجر نے  فتح الباري کے مقدمه میں لکھا ہے : نسائی کی طرف اس سے مذمت اور قدح کی وجہ سے ابن ابي اويس کی نقل کردہ حدیث قابل اعتماد نہیں ہے [.

( ابن حجر عسقلاني، مقدمه فتح الباري، ص 391، چاپ دارالمعرفه ) و ( ص 388 - چاپ دار احياء التراث العربيه - بيروت 1408 )
حافظ سيد احمد بن صديق نے  كتاب فتح الملك العلي میں سلمة بن شيب سے نقل کیا ہے :  اسماعيل بن ابي اويس سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا : جب اھل مدینہ کسی موضوع میں اختلاف کرئے اور دو گروہ میں تقسیم ہوجائے تو میں حدیث جعل کرنے لگتا ہوں۔   

.(حافظ سيد احمد، فتح الملك العلي، ص 36 )

لہذا اسماعيل بن ابي اويس پر حدیث جعل کرنے کا الزام ہے ،ابن معین نے اس کی طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے اور صحیح مسلم ،بخاری اور باقی صحاح ستہ میں اس سے روایت نقل نہیں ہوئی ہے ۔

ابو اويس کے بارے میں ابوحاتم رازي کی کتاب «جرح و تعديل» میں موجود یہ قول کافی ہے : اس کی حدیث لکھی جائے گی لیکن یہ قابل استدلال اور احتجاج نہیں ہے ، اس کی حدیث قوي اور محكم  نہیں ہے .( ابوحاتم رازي، الجرح والتعديل، ج 5، ص 92 )
ابوحاتم نے ابن معين سے نقل کیا ہے کہ ابو اويس، قابل اعتماد نہیں ہے ۔
لہذا جس روایت میں یہ دونوں ہوں وہ قابل اعتماد اور صحیح نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ صحیح سند روایت سے ٹکراتی ہے ۔
قابل توجہ نکتہ : خود حاکم نیشاپوری کی نظر میں بھی یہ روایت صحیح نہیں ہے لہذا اپنے طریقے کے مطابق اس روایت کی تصحیح نہیں کی ہے ۔لیکن اس کے متن کو تقویت دینے کے لئے ایک اور حدیث کو نقل کیا ہے کہ جو خود سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لہذا تقویت کے بجائے ضعف کو ہی زیادہ کرتا ہے ۔


 «وسنتي» والی روایت کی دوسری سند

حاكم نيشابوري نے  ایک اور سند ابوهريره سے نقل کی ہے :
«اني قد تركت فيكم شيئين لن تضلّوا بعدهما: كتاب الله و سنتي ولن يفترقا حتي يردا عليَّ الحوض»

( حاكم، مستدرك، ج 1، ص 93 )
اس حدیث کی سند یہ ہے :
«الضبي»، عن: «صالح بن موسي الطلحي» عن «عبدالعزيز بن رفيع»، عن «أبي صالح» عن «أبي هريره».
یہ حدیث بھی پہلے والی حدیث کی طرح جعلی حدیث ہے ،اس کے راویوں میں سے ایک صالح بن موسي الطلحي ہے کہ جو سخت ضعیف ہے .

علم رجال اور علم حدیث کے بزرگ ماہرین کی راے :

قَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: لاَ يُكْتَبُ حَدِيْثُهُ.   اس کی حدیث  لکھی نہیں جاتی ۔

وَقَالَ البُخَارِيُّ: مُنْكَرُ الحَدِيْثِ.  ۔ وہ منکر حدیث ہے

وَقَالَ النَّسَائِيُّ: مَتْرُوكٌ.  وہ متروک ہے ۔

سير أعلام النبلاء ط الرسالة (8/ 181):

يحيي بن معين نے کہا ہے : صالح بن موسي قابل اعتماد نہیں ہے . ابوحاتم رازي نے کہا ہے : اس کی حدیث ضعيف اور منكر  ہے ، ۔۔۔

. نسائي نے کہا ہے : اس کی حدیث لکھی نہیں جاتی . ایک اور جگہ کہا ہے : اس کی حدیث متروك ہے ۔

.(حافظ مزي، تهذيب الكمال، ج 13، ص 96 - 97 )
ابن حجر نے  «تهذيب التهذيب « میں لکھا ہے : ابن حِبَّان کہتاہے : صالح بن موسي ، ثقہ افراد کی طرف چیزوں کی نست دیتا ہے کہ جو ثقہ افراد کی باتوں کی طرح نہیں ہے ۔ یہاں تک کہتا ہے کہ اس کی حديث حجت نہیں ہے ۔  ابو نعيم کہتا ہے : اس کی حدیث  متروك ہے  وہ ہمیشہ منکر حدیث ہی نقل کرتا ہے ۔

.( ابن حجر، تهذيب التهذيب، ج 4، ص 354- 355 )
ابن حجر ایک اور جگہ  تقريب التهذيب- ج1 - ترجمه شماره 2902 ) میں لکھتا ہے : اس کی حدیث متروک ہے ۔
  ذهبي نے  «ميزان الإعتدال» (ذهبي، ميزان الاعتدال، ج 2، ص 302 ) نے مندرجہ بالا حدیث کو اس سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ منکر حدیث ہے ۔

«وسنتي» والی روایت کی تیسری سند

ابن عبدالبرّ نے  كتاب «تمهيد» (التمهيد، ج 24، ص 331 ) میں  مندرجہ ذیل متن اور سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے ؛
«عبدالرحمان بن يحيي» عن «احمد بن سعيد» عن «محمد بن ابراهيم الدبيلي» عن«علي بن زيد الفرائضي» عن «الحنيني» عن «كثير بن عبداللّه بن عمرو بن عوف» عن «ابيه» عن «جده» قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه و سلم ۔

 التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (24/ 331):

اہل سنت کے علم رجال کے ماہرین نے ( كثير بن عبدالله ) کے میں کہا ہے :
امام شافعي نے كثير بن عبدالله کے بارے میں کہا ہے : وہ جھوٹ کے ارکان میں سے ایک ہے

.(ابن حجر، تهذيب التهذيب، ج 8، ص 377، ط دارالفكر تهذيب الكمال، ج 24، ص 138 )

 ابو داود نے اس کے بارے میں کہا ہے : وہ جھوٹے لوگوں میں سے ایک ہے۔

.(ابن حجر، تهذيب التهذيب، ج 8، ص 377، ط دارالفكر تهذيب الكمال، ج 24، ص 138 )
ابن حبان کہتا ہے : عبدالله بن كثير اپنے بابا اور جد سے کتاب حدیث نقل کرتا ہے وہ سب ہی جعلی ہے ،اس کتاب اور عبد اللہ حرام سے حدیث نقل نہیں کرنی مگر تعجب یا نقد کرنے کی خاطر ۔

.(ابن حبان، المجروحين، ج 2، ص 221 )
نسائي اور دارقطني کہتے ہیں : اس کی حدیث متروک ہے . امام احمد کہتے ہیں : وہ  منكر الحديث ہے اور قابل اعتماد نہیں ہے ، ابن معين کی بھی یہی راے ہے .
ابن حجر کا کام قابل تعجب ہے ،انہوں نے کتاب «التقريب» میں اس کی زندگی نامے میں اس کے لئے صرف «ضعيف» کا لفظ استعمال کیا ہے اور جن لوگوں نے اس کو جھوٹا کہا ہے انہیں زیادہ روی کرنے والے کہا ہے ۔ جبکہ علم رجال کے ماہرین  نے اس کو جعل ساز اور جھوٹا کہا ہے ،یہاں تک کہ ذھبی نے بھی اس کی بات کو سست اور واہی کہا ہے ۔

ميزان الاعتدال - الذهبي - ج 3 ص 406 - 408 )

سند کے بغیر  
مالك نے «الموطأ»میں کسی سند کے بغیر اس کو نقل کیا ہے ،لہذا مرسل روایت کا حکم معلوم ہے ،مرسل روایت قابل احتجاج اور استدلال نہیں ہے .(مالك، الموطأ، ص 889 - ح 3)

نتیجہ :

اس جعلی اور موھوم روایت کی سند کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جس روایت میں  «وعترتي اھل بیتی» کی جگہ «وسنتي» کا لفظ ایا ہے ، یہ جعلی اور جھوٹی حدیث ہے اس کو اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں اور بنی امیہ کے حدیث سازی کی فیکٹری میں کام کرنے والوں نے  «وعترتي اھل بیتی» والی حدیث کا مقابلہ کرنے کے لئے جعل کیا ہے اور یہ جھوٹی اور جعلی حدیث ہے ۔

------------------------------اب اس موھوم اور جعلی حدیث کے مقابلے میں دوسری حدیث ہیں جو سند کے اعتبار سے معتبر ہے اور بہت سے اھل سنت کے علما نے اس کی سند کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔۔۔۔  دیکھیں ۔۔۔نیچے کی لینگ پر کلیک کریں

www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

  اهل بيت کے بارے میں صحیح مسلم میں صحابی کا یہ قول موجود ہے ۔

 جیساکہ صحیح مسلم میں جناب زید سے نقل ہوا ہے « زيد بن أرقم  سے اہل بیت کے بارے سوال ہوا کہ اھل بیت سے کون لوگ مراد ہے ؟

وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يا زَيْدُ؟»«نِسَاؤُهُ ؟ قال لَا» «وأيم اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مع الرَّجُلِ الْعَصْرَ من الدَّهْرِ ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إلى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ»

حصین  نے کہا: اے زید! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواج بھی اہل بیت نہیں ہیں؟ زید نے کہا: نہیں ۔ کیونکہ بیوی ایک مدت تک ایک مرد کے ساتھ رہتی ہے اور جب طلاق ہو تو یہ اپنے باپ اور قوم کے پاس چلی جاتی ہے، آپ کی اھل بیت سے مراد آپ کی اصل اور نسل ہے ۔

مسلم بن الحجاج النيسابوري (المتوفى: 261هـ)صحیح مسلم ، کتاب فضائل ، بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: