موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
امام سجاد عليه السلام کے معجزات
مندرجات: 2235 تاریخ اشاعت: 24 آبان 2022 - 13:03 مشاہدات: 2920
مضامین و مقالات » پبلک
امام سجاد عليه السلام کے معجزات

امام سجاد عليه السلام کے معجزات  

شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں امام سجاد علیہ السلام کے بہت سے کرامات اور معجزے نقل ہوئے ہیں ۔

اہل سنت کی کتابوں سے چند نمونے ۔

امام کی اسیری کے وقت کے معجزات ۔۔۔۔

ابونعيم اصفهاني نے امام سجاد عليه السلام کے بارے میں نقل کیا ہے :

ابن شهاب الزهري قال شهدت علي بن الحسين يوم حمله عبدالملك بن مروان من المدينة إلى الشام فأثقله حديدا و وكل به حفاظا في عدة وجمع فاستأذنتهم في التسليم عليه والتوديع له فأذنوا لي فدخلت عليه وهو في قبة والأقياد في رجليه والغل في يديه فبكيت وقلت وددت أني مكانك وأنت سالم فقال يا زهري أتظن أن هذا مما ترى علي وفي عنقي يكربني أما لو شئت ما كان فانه وان بلغ منك وبأمثالك ليذكرني عذاب الله ثم أخرج يديه من الغل ورجليه من القيد ثم قال يا زهري لاجزت معهم على ذا منزلتين من المدينة قال فما لبثنا إلا أربع ليال حتى قدم الموكلون به يطلبونه بالمدينة فما وجدوه فكنت فيمن سألهم عنه فقال لي بعضهم إنا لنراه متبوعا انه لنازل ونحن حوله لا ننام نرصده إذ أصبحنا فما وجدنا بين محمله إلا حديدة قال الزهري فقدمت بعد ذلك على عبدالملك بن مروان فسألني عن علي بن الحسين فأخبرته فقال لي إنه قد جاءني في يوم فقده الأعوان فدخل عليفقال ما أنا وأنت فقلت أقم عندي فقال لا أحب ثم خرج فوالله لقد امتلأ ثوبي منه خيفة قال الزهري فقلت يا أمير المؤمنين ليس علي بن الحسين حيث تظن إنه مشغول بنفسه فقال حبذا شغل مثله فنعم ما شغل به.

ابن شهاب زهرى نے نقل کیا ہے ؛ جس وقت عبد الملك  نے على بن الحسين(ع) کو مدینہ سے شام لایا تو آپ کو زنجیروں سے باندھا ہوا تھا ۔میں نے ان سے ملاقات کا تقاضا کیا تو مجھے ملاقات کی اجازت دی ۔

میں نے دیکھا کہ امام کے ہاتھ اور پیر غل و زنجیر میں باندھے ہوئے تھے یہ حالت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آیا ۔ اور میں نے یہ کہا : کاش میں آپ کی جگہ پر ہوتا۔ اس وقت امام نے فرمایا :

 

 

   زهرى! کیا یہ سمجھتے ہو کہ یہ غل و زنجیر میرے لئے تکلیف کا باعث ہے ۔اگر میں چاہوں تو اس سے اپنے کو آزاد کر سکتا ہوں ۔ تم جیسے لوگ اس کو دیکھنے سے منقلب ہوتے ہو لیکن یہ غل و زنجیر مجھے آخرت کے عذاب کی یاد دلاتا ہے ۔  یہ کہہ کر اپنے کو غل و زنجیر سے آزاد کر دیا اور فرمایا : زھری میں مدینہ تک دو منزل سے زیادہ اس غل و زنجیر کے ساتھ نہیں رہوں گا ۔

زھری کہتا ہے کہ چار راتوں کے بعد نگہبان مدینہ واپس آئے اور امام کی تلاش میں لگ گئے لیکن انہیں نہیں پایا ، میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ ان کا کیا ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا : ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ جنات ہیں ،جب بھی ہم سواری سے نیچے اترتے تو ہم ان کو گھیرے میں لیتے اور مکمل ان کو نظر میں رکھتے ۔لیکن ایک دن صبح کے وقت صرف غل و زنجیر ہی  دیکھا انہیں نہیں پایا۔

 

زھری کہتا ہے اس واقعے کے بعد میں عبد المالک کے پاس گیا اور اس نے على بن الحسين [عليه السلام] کے بارے میں پوچھا  میں نے مذکورہ  واقعہ بیان کیا ۔ اسی دن وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا : مجھے تم سے کیا لینا دینا ہے ؟ میں نے کہا میرے پاس ہی رہو ۔ انہوں نے جواب دیا : مجھے یہاں رہنے کا کوئی شوق نہیں اور میرے پاس سے چلے گئے ، اللہ کی قسم یہ منظر دیکھ کر مجھ پر وحشت طاری ہوئی ۔ زھری کہتا ہے : میں نے اس سے کہا : علی ابن حسین علیہ السلام ایسا نہیں ہے جیسا تم سوچتے ہو وہ اپنے کاموں میں مشغول ہیں ۔ عبد المالک نے جواب دیا : جس کام میں وہ مشغول ہے وہ کتنا اچھا ہے ۔

 

 الأصبهاني، ابو نعيم أحمد بن عبد الله (متوفاى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3 ، ص 135، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ ؛ ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفاى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ، ص 372، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر، بيروت ۔ ۔      

  امام سجاد عليه السلام نے چڑیا کے رونے کی خبر دی

ابونعيم نے نقل کیا ہے :

حدثنا محمد بن أحمد الغطريفي ثنا محمد بن أحمد بن اسحاق بن خزيمة ثنا سعيد بن عبد الله بن عبدالحكم قال ثنا عبدالرحمن بن واقد ثنا يحيى بن ثعلبة الأنصاري ثنا أبو حمزة الثمالي قال كنت عند علي بن الحسينفاذا عصافير يطرن حوله يصرخن فقال يا أبا حمزة هل تدري ما يقول هؤلاء العصافير فقلت لا قال فإنها تقدس ربها عز وجل وتسأله قوت يومها

ابو حمزه ثمالى کہتا ہے : امام سجاد (عليه السلام) کے پاس تھا ، ایک چڑیا امام کے ارد گرد پرواز کر رہا تھا اور شور مچا رہا تھا ۔امام نے فرمایا ابے ابو حمزہ جانتے تو یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ۔ امام نے فرمایا : یہ اللہ کی حمد و ثنا کر رہا ہے اور اپنے دن کا کھانا اللہ سے طلب کر رہا ہے .

الأصبهاني، ابو نعيم أحمد بن عبد الله (متوفاى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3، ص 140،  ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ

  شيعه کتابوں میں ۔

شیعہ کتابوں میں ان کے بہت سے معجزے نقل ہوئے ہیں ۔

دو روٹیوں کے ذریعے فقیر کو مالدار بنانے کا واقعہ

شيخ صدوق (ره) نے ایک فقیر کا امام کی دعا سے امیر بننے کے  معجزه  کو یوں نقل کیا ہے :

حدثنا محمد بن القاسم الأسترآبادي قال حدثنا جعفر بن أحمد قال حدثنا أبو يحيى محمد بن عبد الله بن يزيد القمي قال حدثنا سفيان بن عيينة عن الزهري قال: كنت عند علي بن الحسين ع فجاءه رجل من أصحابه فقال له علي بن الحسين ع ما خبرك أيها الرجل فقال الرجل خبري يا ابن رسول الله أني أصبحت و علي أربعمائة دينار دين لا قضاء عندي لها و لي عيال ثقال ليس لي ما أعود عليهم به قال فبكى علي بن الحسين ع بكاء شديدا فقلت له ما يبكيك يا ابن رسول الله فقال و هل يعد البكاء إلا للمصائب و المحن الكبار قالوا كذلك يا ابن رسول الله قال فأية محنة و مصيبة أعظم على حر مؤمن من أن يرى بأخيه المؤمن خلة فلا يمكنه سدها و يشاهده على فاقة فلا يطيق رفعها قال فتفرقوا عن مجلسهم ذلك فقال بعض المخالفين و هو يطعن على علي بن الحسين عجبا لهؤلاء يدعون مرة أن السماء و الأرض و كل شي‏ء يطيعهم و أن الله لا يردهم عن شي‏ء من طلباتهم ثم يعترفون أخرى بالعجز عن إصلاح خواص إخوانهم فاتصل ذلك بالرجل صاحب القصة فجاء إلى علي بن الحسين ع فقال له يا ابن رسول الله بلغني عن فلان كذا و كذا و كان ذلك أغلظ علي من محنتي فقال علي بن الحسين ع فقد أذن الله في فرجك يا فلانة احملي سحوري و فطوري فحملت قرصتين فقال علي بن الحسين ع للرجل خذهما فليس عندنا غيرهما فإن الله يكشف عنك بهما و ينيلك خيرا واسعا منهما فأخذهما الرجل و دخل السوق لا يدري ما يصنع بهما يتفكر في ثقل دينه و سوء حال عياله و يوسوس إليه الشيطان أين مواقع هاتين من حاجتك فمر

بسماك قد بارت عليه سمكته قد أراحت فقال له سمكتك‏ هذه‏ بائرة عليك‏ و إحدى قرصتي هاتين بائرة علي فهل لك أن تعطيني سمكتك البائرة و تأخذ قرصتي هذه البائرة فقال نعم فأعطاه السمكة و أخذ القرصة ثم مر برجل معه ملح قليل مزهود فيه فقال له هل لك أن تعطيني ملحك هذا المزهود فيه بقرصتي هذه المزهود فيها قال نعم ففعل فجاء الرجل بالسمكة و الملح فقال أصلح هذا بهذا فلما شق بطن السمكة وجد فيه لؤلؤتين فاخرتين فحمد الله عليهما فبينما هو في سروره ذلك إذ قرع بابه فخرج ينظر من بالباب فإذا صاحب السمكة و صاحب الملح قد جاءا يقول كل واحد منهما له يا عبد الله جهدنا أن نأكل نحن أو أحد من عيالنا هذا القرص فلم تعمل فيه أسناننا و ما نظنك إلا و قد تناهيت في سوء الحال و مرنت على الشقاء قد رددنا إليك هذا الخبز و طيبنا لك ما أخذته منا فأخذ القرصتين منهما فلما استقر بعد انصرافهما عنه قرع بابه فإذا رسول علي بن الحسين ع فدخل فقال إنه يقول لك إن الله قد أتاك بالفرج فاردد إلينا طعامنا فإنه لا يأكله غيرنا و باع الرجل اللؤلؤتين بمال عظيم قضى منه دينه و حسنت بعد ذلك حاله فقال بعض المخالفين ما أشد هذا التفاوت بينا علي بن الحسين ع لا يقدر أن يسد منه فاقة إذ أغناه هذا الغناء العظيم كيف يكون هذا و كيف يعجز عن سد الفاقة من يقدر على هذا الغناء العظيم فقال علي بن الحسين ع هكذا قالت قريش للنبي ص كيف يمضي إلى بيت المقدس و يشاهد ما فيه‏ من آثار الأنبياء من مكة و يرجع إليها في ليلة واحدة من لا يقدر أن يبلغ من مكة إلى المدينة إلا في اثني عشر يوما و ذلك حين هاجر منها ثم قال علي بن الحسين ع جهلوا و الله أمر الله و أمر أوليائه معه إن المراتب الرفيعة لا تنال إلا بالتسليم لله جل ثناؤه و ترك الاقتراح عليه و الرضا بما يدبرهم به إن أولياء الله صبروا على المحن و المكاره صبرا لم يساوهم فيه غيرهم فجازاهم الله عز و جل عن ذلك بأن أوجب لهم نجح جميع طلباتهم لكنهم مع ذلك لا يريدون منه إلا ما يريده لهم

 زهرى کہتا ہے کہ میں امام زين العابدين (عليه السلام) کے پاس تھا ،ان کے اصحاب میں سے ایک وہاں آیا ، امام نے اس سے حال احوال پوچھا ،تو اس نے کہا : مولا آج ۴۰۰ دینار مری گردن پر قرض ہیں ،کھر میں کھانےوالے بہت ہیں لیکن گھر میں لے جانے کے لئے کچھ نہیں ہے ،امام  رونے لگے ۔ میں نے امام سے کہا : کیوں آپ رو رہے ہیں ؟ امام نے فرمایا : رونا مصیبت اور آلام کے لئے تو ہے ۔   

میں نے کہا : ہاں ایسا ہی ہے : امام نے فرمایا : مومن کے لئے اس سے بڑی مصیبت اور کیا  کہ اپنے مومن بھائی کو اس طرح مصیبت میں دیکھے  اور اس کی مدد نہ کرسکے ،اس کو فقیر دیکھے اور اس کا علاج نہ کرسکے ۔

زھری کہتا ہے : مجلس ختم ہوئی ،ایک مخالف نے طعنہ دیتے ہوئے کہا : تعجب ہے ان لوگوں پر کہ جو کبھی یہ ادعا کرتے ہیں کہ زمین و آسمان کی فرمانراوی ہمارے پاس ہیں اور اللہ ان کی ہر حاجت کو پوری کرتا ہے ،لیکن دوسری جگہ اپنے خاص افراد کی مشکلات کو دور کرنے سے بھی رہ جاتے ہیں اور جب یہ خبر اس فقیر شخص تک پہنچی تو وہ امام کے پاس آیا اور کہا یابن رسول اللہ (ص) سنا ہے فلان شخص اس طرح کہہ رہا تھا اور یہ طعنہ مجھے اپنے فقر سے زیادہ سخت اور گراں ہے ۔

امام نے اس سے کہا : اے فلان شخص (اس کا نام لیا ) اللہ نے تیری مشکل کو دور کرنے کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہماری افطاری اور سحری کا کھانا لے آو  ، دو روٹی لائی ۔امام نے فرمایا : ان دونوں کو لے لو میرے پاس ان دو کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، اللہ ان دونوں کے ذریعے سے تمہاری مشکل حل کرئے گا ۔ وہ یہ لے کر بازار کی طرف گیا ، شیطان اس کے دل میں وسوسہ کر رہا ہے اور اس سے یہ کہہ رہا تھا کہ اس سے کیا ہوگا اور تیری مشکل کیسے حل ہوگی  ؟

یہاں تک کہ وہ ایک مچھلی بھیجنے والے کے پاس پہنچا اس کے پاس ایک خشک مچھلی بچی تھی ۔ اس سے کہا یہ خشک مچھلی تجھ سے کوئی نہیں لے گا مجھ سے خشک روٹی لے لو اور مچھلی مجھے دو ،وہ راضی ہوا ،پھر نمک والے لے پاس پہنچا اس سے کوئی نمک نہیں لے رہا تھا ، اس سے کہا یہ روٹی لے لو اور نمک مجھے دو ۔ اس سے نمک لے کر گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے نکالا کہ نمک کے ذریعے مچھلی کی صفائی کروں گا ۔۔۔گھر پہنچ کر مچھلی کا پیٹ پھاڑا تو دیکھا اس میں دو قیمتی موتیاں ہیں ، اسے دیکھ کر اللہ کی مدح اور اللہ کا شکر ادا کیا اور بہت خوش ہوا ،اتنے میں کسی نےدروازہ کھٹکٹایا ۔  دیکھا مچھلی فروش اور نمک فروش باہر بھیٹھے ہوئے ہیں ، ان دونوں نے کہا : ہم نے بہت کوشش کی لیکن اس کو کھانہیں سکتے۔۔شاید تم فقر و فاقہ کی وجہ سے انہیں کھاتا ہے لہذا تمہیں واپس کرنے آئے ہیں اور جو تمہیں دیا ہے وہ تمہیں ہماری طرف سے حلال ہے ۔ اتنے میں امام کی طرف سے کوئی آیا اور دو روٹیوں کو یہ کہہ کر واپس کرنے کا کہا کہ اللہ نے تمہاری مشکل آسان کر دی ہے ہمارا کھانا ہمیں واپس کر دئے ۔ اس کو ہمارے علاوہ کوئی اور نہیں کھا سکتا ۔

اس شخص نے دو موتیوں کو بازار میں اچھی قیمت کے مقابلے میں فروخت کیا ،اپنا قرضہ ادا کیا اور اس کی زندگی کی حالت بہتر ہوگئ۔

آپ کے مخالفین میں سے ایک نے کہا :اتنا بڑا فرق کیسے ؟ علی ابن الحسین علیہ السلام کہ جو خود اپنے فقر کو دور نہیں کرسکتے وہ کیسے دوسرے کو اتنی بڑی ثروت کا مالک بناسکتا ہے ؟ جو اپنی مشکل دور نہیں کرسکتا وہ کیسے دوسرے کی مشکل حل کر سکتا ہے ؟

امام نے جواب میں فرمایا : قریش نے بھی ایسا ہی اعتراض پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بھی کیا اور کہا : کیسے ممکن ہے جو شخص مکہ سے مدینہ تک بارہ دنوں میں طے کرتا ہے وہ ایک رات میں مکہ سے بیت المقدس تک ہوکر آئے ؟پھر امام نے فرمایا ؟ یہ لوگ اللہ اور اللہ کے بندوں کے کاموں سے  غافل ہیں ۔ بلند مقام تک اس وقت تک نہیں پہنچتا جب تک اللہ کے سامنے تسلیم نہ ہو ، اللہ کے فیصلے گے آگے اظہار نظر نہ کرئے ۔ اللہ کی رضا پر راضی نہ ہو ۔ اللہ کے دوست مشکلات اور مصائب کے وقت صبر کرتے ہیں جبکہ دوسرے ان چیزوں پر صبر نہیں کرتے ،صبر کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں کی چاہتوں کو پورا کرتا ہے جبکہ یہ وہی چاہتے ہیں کہ جس کو اللہ ان کے لئےچاہتا ہے .

 ابن بابويه، محمد بن على، الأمالي ، ص 245، ناشر كتابچى - تهران، چاپ: ششم، 1376ش

امام کی کرامت کے ذریعے امام کے خادم کا ثروت مند ہونا

  مناقب ابن شهر آشوب میں امام باقر عليه السلام سے امام سجاد عليه السلام کے بارے میں اسطرح نقل ہوا ہے :

أبو جعفر ع‏ خدم أبو خالد الكابلي علي بن الحسين دهرا من عمره ثم إنه أراد أن ينصرف إلى أهله فأتى علي بن الحسين ع و شكا إليه شدة شوقه إلى والديه فقال يا أبا خالد يقدم غدا رجل من أهل الشام له قدر و مال كثير و قد أصاب بنتا له عارض من أهل الأرض و يريدون أن يطلبوا معالجا يعالجها فإذا أنت سمعت قدومه فأته و قل له أنا أعالجها لك على أن أشترط لك أني أعالجها على ديتها عشرة آلااف فلا تطمئن إليهم و سيعطونك ما تطلب منهم فلما أصبحوا قدم الرجل و من معه و كان من عظماء أهل الشام في المال و المقدرة فقال أما من معالج يعالج بنت هذا الرجل فقال له أبو خالد أنا أعالجها على عشرة آلاف درهم فإن أنتم وفيتم وفيت على أن لا يعود إليها أبدا فشرطوا أن يعطوه عشرة آلاف فأقبل إلى علي بن الحسين ع فأخبره الخبر فقال إني أعلم أنهم سيغدرون بك و لا يفون لك انطلق يا أبا خالد فخذ بأذن الجارية اليسرى ثم قل يا خبيث يقول لك علي بن الحسين اخرج من هذه الجارية و لا تعد ففعل أبو خالد ما أمره فخرج منها فأفاقت الجارية و طلب أبو خالد الذي شرطوا له فلم يعطوه فرجع مغتما كئيبا فقال له علي بن الحسين ما لي أراك كئيبا يا أبا خالد أ لم أقل لك إنهم يغدرون بك دعهم فإنهم سيعودون إليك فإذا لقوك فقل لست أعالجها حتى‏ تضعوا المال‏ على يدي علي بن الحسين فإنه لي و لكم ثقة و وضعوا المال على يدي علي بن الحسين فرجع أبو خالد إلى الجارية فأخذ بأذنها اليسرى ثم قال يا خبيث يقول لك علي بن الحسين اخرج من هذه الجارية و لا تعرض لها إلا بسبيل خير فإنك إن عدت أحرقتك بنار الله الموقدة التي تطلع على الأفئدة فخرج منها و دفع المال إلى أبي خالد فخرج إلى بلاده

 

ابو خالد كابلى ایک دور میں امام زين العابدين عليه اسلام کے خادم تھے ۔اس نے ایک عرصے کے بعد اپنے گھر واپس جانے کا ارادہ کیا ، وہ امام کے پاس آیا اور اپنے والدین سے محبت کی وجہ سے رونے لگا ۔ امام نے فرمایا : اے ابوخالد کل شام کا رہنا والا ایک شخص آئے گا اور وہ بہت مقام و منزلت اور مال کا مالک ہے ، اہل زمین سے کسی سے اس کی بیٹی کو کوئی مشکل پیش آئی ہے وہ طبیب کی تلاش میں ہے تاکہ اس کی بیٹی کا علاج کرسکے ۔جب وہ آئے تو اس کے پاس جاو اور اس سے کہو میں اس کو دس ہزار درھم کے بدلے علاج کر دیتا ہوں۔۔۔ اور تم جن کے پیچھے ہو ان سے اس علاج کی امید نہ رکھو ۔ اگلے دن وہ اہل شام اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا اور پوچھنے لگے ؛ کوئی طبیب ہے کہ جو اس کا علاج کرئے ؟ ابوخالد آگے گیا اور کہا اگر دس ہزار درھم مجھے دئے تو میں اس کا علاج کرتا ہوں اور ضمانت دیتاہوں کہ دوبارہ اس درد میں بتلا نہیں ہوگا ۔۔۔

اس نے دس ہزار درھم دینے کا وعدہ کیا ،ابوخالد امام کے پاس آیا اور اس چیز کی خبر دی ۔ امام نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ یہ لوگ تمہیں دھوکہ دیں گے ۔ اور تہمارے حق کو ادا نہیں کرئے گا ۔

امام نے فرمایا : جاو اور اس بچی کے کان میں کہو ،اے خبیث! علی بن الحسین (ع) تم سے کہہ رہا ہے کہ اس کے بدن سے نکلو اور پھر اس کے بدن میں واپس مت آو ۔

 

ابوخالد نے ایسا ہی کیا وہ اس کے بدن سے دور ہوا اور وہ بیچی زمین پر بے ہوش ہوکر گری اور پھر وہ ہوش میں آئی ۔ ابوخالد نے رقم کا مطالبہ کیا ۔لیکن ان لوگوں نے نہیں دیا  پھر وہ غمگین حالت میں واپس لوٹا ۔ امام نے فرمایا : کیوں پریشان ہو ؟ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ یہ لوگ تمہیں دھوکہ دیں گے ؟ ان لوگوں کو چھوڑ دو وہ پھر تمہاری طرف پلٹ کر آئیں گے ۔ لیکن اس دفعہ کہو میں اس کا علاج نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ رقم  على بن الحسين عليه السلام کے پاس پہلے رکھے۔ وہ لوگ واپس آئے تو ابوخالد نے کہا میں اس کا علاج نہیں کروں گا یہاں تک کہ وہ رقم علی ابن الحسین کے پاس رکھے کیونکہ وہ میرے نذدیک بھی اور تم لوگوں کے نذدیک بھی قابل اعتماد شخصیت ہیں ۔ ان لوگوں نے اس شرط پر عمل کیا ،ابوخالد نے اس لڑکی کے بائیں کان میں جاکر کہا: اے خبیث! علی ابن الحسین علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ اس کے بدن سے باہر نکلو ، اس کے ساتھ نیکی سے پیش آو اور اگر دوبارہ واپس آیا تو تجھے ایسی آگ میں جلا دیں گے جو سلگائی ہوئی آگ ہوگی جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی۔ وہ (جن ) اس کے بدن سے نکل گیا ۔

امام نے وہ درھم ابوخالد کو دیا اور ابوخالد اپنے گھر چلے گئے ۔

ابن شهر آشوب مازندرانى، محمد بن على، مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب) ؛ ج‏4 ؛ ص145، علامه - قم، چاپ: اول، 1379 ق.

ایک درھم اور ایک روٹی سے چالس سال ارتزاق۔

طبري نے اس سلسلے میں نقل کیا ہے :

 قال أبو جعفر: حدثنا أحمد بن سليمان بن أيوب الهاشمي، قال: حدثنا محمد بن كثير، قال: أخبرنا سليمان بن عيسى، قال:لقيت علي بن الحسين (عليه السلام) فقلت له: يا بن رسول الله، إني معدم، فأعطاني درهما و رغيفا، فأكلت أنا و عيالي من الرغيف و الدرهم أربعين سنة.

سليمان کہتا ہے : امام سجاد عليه السلام سے میری ملاقات ہوئی ،میں نے ان سے کہا : اے فرزند رسول اللہ (ص) میں مسکین ہوں ، امام نے ایک روٹی اور ایک درھم دی ،میں اور میرے اہل و عیال نے ۴۰ سال تک اسی سے کھایا ۔

طبرى آملى صغير، محمد بن جرير بن رستم، دلائل الإمامة (ط - الحديثة) ص200، بعثت - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1413ق.

عبد المالک کے سامنے امام کے ردا کا موتیوں سے بھر جانا ۔

علامه مجلسي نے ایک معجزہ اس طرح نقل کیا ہے :

الخرائج و الجرائح روي عن الباقر ع أنه قال: كان عبد الملك يطوف بالبيت و علي بن الحسين يطوف بين يديه و لا يلتفت إليه و لم يكن عبد الملك يعرفه بوجهه فقال من هذا الذي يطوف بين أيدينا و لا يلتفت إلينا فقيل هذا علي بن الحسين‏ ع فجلس مكانه و قال ردوه إلي فردوه فقال له يا علي بن الحسين إني لست قاتل أبيك فما يمنعك من المصير إلي فقال علي بن الحسين ع إن قاتل أبي أفسد بما فعله دنياه عليه و أفسد أبي عليه بذلك آخرته فإن أحببت أن تكون كهو فكن فقال كلا و لكن صر إلينا لتنال من دنيانا فجلس زين العابدين و بسط رداه و قال اللهم أره حرمة أوليائك عندك فإذا إزاره مملوة دررا يكاد شعاعها يخطف‏ الأبصار فقال له من يكون هذا حرمته عند ربه يحتاج إلى دنياك ثم قال اللهم خذها فلا حاجة لي فيها

امام باقر عليه السلام فرماتے ہیں: ایک دن عبد الملك بن مروان اللہ کے گھر کا طواف کر رہا تھا اور میرے والد بھی اس کی طرف توجہ دئے بغیر اللہ کے گھر کا طواف کر رہے تھے  ۔عبد المالک بھی آپ کو نہیں پہچانتا تھا عبد المالک نے پوچھا : یہ کون ہے کہ جو ہماری طرف توجہ نہیں دئے رہا ہے اور ہم سے آگے طوف کر رہا ہے : لوگوں نے کہا :  یہ علی ابن حسین علیہ السلام ہیں  .  عبد الملك اپنی مخصوص جگہ پر جاکر بیٹھ گیا اور امام کو اپنے  پاس بلایا .عبد الملك نے امام سے کہا: اے  على بن حسين! میں آپ کے والد کا قاتل تو نہیں ہوں کیوں میرے پاس نہیں آتے ہو؟

امام نے فرمایا : میرے والد کے قاتل نے ان سے ان کی دنیا چھین لی لیکن میرے والد نے اس کی آخرت خراب کر دی۔ اگر تم بھی ایسا بننا چاہتا ہے تو بن جاو ۔ عبد المالک نے کہا : نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوگا لیکن ہمارے پاس آو تاکہ ہماری دنیا سے کچھ لے سکو ۔ امام بیٹھ گئے اور اپنی ردا کو پھلا کر دعا کہ ، اے اللہ !جو احترام آپ کے دوستوں کے لئے آپ کے پاس ہے، اس احترام اور عزت کو ظاہر کر دو  ۔اس وقت امام کی ردا درخشان موتیوں سے بھر گئی اور  لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں ۔ امام نے عبد المالک سے خطاب میں فرمایا : جس کا اللہ کے نذدیک اتنا مقام اور احترام ہو اس کے لئے تمہاری دنیا کی کیا ضرورت ہے ؟

  پھر فرمایا : اے اللہ ! ان چیزوں کو مجھ سے لے لو مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں

 مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏46 ؛ ص120 ، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

ہرنی سے ہمکلام ہونا ۔

محمد بن حسن صفار نے  امام باقر عليه السلام سے یوں نقل کیا ہے :

حدثنا عبد الله بن محمد عن محمد بن إبراهيم قال حدثني بشير و إبراهيم بن محمد عن أبيه عن حمران بن أعين قال: كان أبو محمد علي بن الحسين ع قاعدا في جماعة من أصحابه إذ جاءته ظبية فتبصبصت و ضربت بيديها فقال أبو محمد أتدرون ما تقول الظبية قالوا لا قال تزعم أن فلان بن فلان رجلا من قريش اصطاد خشفا لها في هذا اليوم و إنما جاءت إلي تسألني أن أسأله أن تضع [يضع‏] الخشف بين يديها فترضعه فقال علي بن الحسين لأصحابه قوموا إليه فقاموا بأجمعهم فأتوه فخرج إليهم قال فداك أبي و أمي ما حاجتك فقال أسألك بحقي عليك إلا أخرجت إلي هذه الخشف التي اصطدتها اليوم فأخرجها فوضعها بين يدي أمها فأرضعتها ثم قال علي بن الحسين ع أسألك يا فلان لما وهبت لي هذه الخشف قال قد فعلت قال فأرسل الخشف مع الظبية فمضت الظبية فتبصبصت و حركت ذنبها فقال علي بن الحسين ع أتدرون ما تقول الظبية قالوا لا قال إنها تقول رد الله عليكم كل غائب و غفر لعلي‏ بن‏ الحسين‏ كما رد علي ولدي

  حمران نقل کرتا ہے کہ بعض لوگ امام سجاد عليه السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ہرنی وہاں آئی ،دم ہلا کر پیروں کو زمین پر مارنا شروع کیا ۔ امام نے فرمایا : جانتے ہو یہ کہا کہہ رہی ہے ؟کہا : نہیں ۔ وہ کہہ رہی ہے کہ اس کے خیال میں قریش کے فلان فلان شخص نے اس کے بچے کا شکار کیا ہے ،مجھے سے یہ چاہتی ہے کہ میں اس کے بچے کو اس کے پاس لے آوں تاکہ یہ اسے دودھ پلائے ۔ امام نے سب سے کہا سب اٹھے ،وہ سب امام کے ساتھ اٹھ کر اس قریش کے شکاری پاس گئیں ۔

شکاری باہر آیا ،امام کو سلام کیا اور کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ،کیوں تشریف لائے ؟ امام نے فرمایا : میرے حق کے واسطے ،جو ہرنی کا بچہ آج شکار کر کے لایا ہے اس کو باہر لے آو ۔اس نے باہر لایا ،بچے نے ماں کا دودھ پیا ، امام نے اس شخص سے فرمایا : اسے ہمارے  لئے بخش دو ۔ اس نے ایسا کیا ۔ امام نے اس کی مان کے ساتھ اس کو چھوڑ دیا ۔ ہرنی دم ہلا کر چلی گئی ۔  امام نے فرمایا : جانتے ہو یہ کیا کہہ رہی ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہمیں علم نہیں ہے ۔ اس وقت امام نے فرمایا : یہ دعا کر رہی ہے کہ اے اللہ ہر غائب کو واپس پلٹا دئے اور علی بن الحسین (ع) کو بخش دئے ،جیساکہ انہوں نے میرے  بچے کو مجھےواپس کیا  

صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات في فضائل آل محمد صلى الله عليهم ؛ ج‏1 ؛ ص352، مكتبة آية الله المرعشي النجفي - ايران ؛ قم، چاپ: دوم، 1404 ق.

یہ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں موجود امام سجاد علیہ السلام کے معجزات  کے کچھ نمونے ہیں ۔۔

 

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم

  تحقيقاتي ادارہ حضرت ولي عصر (عجل الله فرجه الشريف)





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: