موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
کیوں امیر المؤمنین علی (ع) کو قسيم النار و الجنّۃ کہا جاتا ہے ؟
مندرجات: 526 تاریخ اشاعت: 14 فروردين 2017 - 10:33 مشاہدات: 6329
سوال و جواب » امام علی (ع)
جدید
کیوں امیر المؤمنین علی (ع) کو قسيم النار و الجنّۃ کہا جاتا ہے ؟

جواب:

سب سے بڑی شرافت و بزرگی جس کا تاج رسول اسلام نے باب مدینۃ العلم کے سر پر رکھا وہ یہ ہے کہ امام جنت و جہنم کی تقسیم کر نے والے ہے کیونکہ جنت و جہنم برحق ہیں اور علی (ع) امام بر حق ہیں، اس لیے جب رسول اکرم (ص) نے حجۃ الوداع سے فارغ  ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں ؟ اور جنت و جہنم برحق ہیں اور موت بھی برحق ہے اور موت کے بعد کی زندگی بھی برحق ہے اور بلاشبہ قیامت آنے والی ہے اور خدا لوگوں کو قبروں سے نکالنے والا ہے؟ سب نے عرض کیا کہ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں  ! فرمایا خدایا تو بھی گواہ رہنا۔

 

یہ روایت رسول خدا (ص) سے حضرت علی (ع) کی شان میں نقل ہوئی ہے۔

کتب شیعہ میں یہ حدیث نبوی:

 

عن عبد الله بن عباس قال : قال رسول الله (ص): معاشر الناس، إن عليا قسيم النار ، لا يدخل النار ولی له ، و لا ينجو منها عدو له، إنه قسيم الجنة، لا يدخلها عدو له ، و لا يزحزح عنها ولی له۔

عبد اللہ ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا کہ: رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ: اے لوگو ! بے شک علی (ع) جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں، جو علی (ع) کا دوست و مدد کرنے والا ہو گا، وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا اور جو انکا دشمن ہو گا، جہنم سے اسکو نجات نہیں ملے گی، کیونکہ وہ جنت کو تقسیم کرنے والے ہیں، جو ان کا دشمن ہو گا، وہ اس میں داخل نہیں ہو گا اور جو بھی انکا دوست و چاہنے والا ہو گا، وہ جنت سے محروم نہیں ہو گا۔

امالی شيخ صدوق ص 83

خصال ، شيخ صدوق ، ص 496

قال (علی ابن موسی الرضا) قال رسول الله (ص) يا علی انّک قسيم الجنة و النار۔

حضرت علی بن موسی الرضا (ع) نے فرمایا کہ: رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ:

اے علی ! بے شک آپ جنت اور جہنم کے تقسیم کرنے والے ہو۔

عيون اخبار الرضا ج 1 ص 30

 عن سليمان بن خالد ، عن أبی عبد الله جعفر بن محمد الصادق، عن آبائه عليهم السلام قال : قال رسول الله صلی الله عليه و آله لعلی عليه السلام : ... يا علی أنت قسيم الجنة و النار ، لا يدخل الجنة إلا من عرفک و عرفته ، و لا يدخل النار إلا من أنكرک و أنكرته۔

سليمان بن خالد نے امام صادق (ع) اور انھوں نے اپنے آباء سے اور انھوں نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے فرمایا کہ: اے علی تم جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والے ہو، کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ وہ آپ کو اور آپ اسکو پہنچانتے ہو گے، یعنی وہ آپ کا شیعہ ہو گا، اور دوزخ میں کوئی داخل نہیں ہو گا، مگر یہ کہ آپ اسکا اور وہ آپ کا انکار کرے۔

 وَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَا عَلِيُّ إِنَّكَ قَسِيمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ إِنَّكَ لَتَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ وَ تَدْخُلُهَا بِلَا حِسَاب۔
اسی اسناد سے رسول اکرم (ص) سے روایت ہوئی  ہے کہ آپ نے فرمایا:
اے علی (ع)  تم جنت اور جہنم کے تقیسم کرنے والے ہو اور تم جنت کے دروازے پر دستک دو گے اور حساب کے بغیر جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

امالی شيخ مفيد ص 213

عيون أخبار الرضا (ع) ج2 ؛ ص27

تفسير آيہ و القيا فی جہنم میں بھی یہ مطلب بیان ہوا ہے کہ:

قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ الْفَحَّامُ: وَ فِی هَذَا الْمَعْنَى حَدَّثَنِی أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرْحَانِ الدُّورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ فُرَاتٍ الدَّهَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ ابْنِ الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِي، عَنْ أَبِی سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ): يَقُولُ اللَّهُ (تَعَالَى) يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِی وَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: أَدْخِلَا الْجَنَّةَ مَنْ أَحَبَّكُمَا، وَ أَدْخِلَا النَّارَ مَنْ أَبْغَضَكُما، وَ ذَلِكَ قَوْلُهُ 
(تَعَالَى): «أَلْقِيا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ»

سورة ق آیت 24

سورہ ق آیت 24 کی تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ:

......... رسول خدا نے فرمایا کہ: خداوند قیامت کے دن مجھ سے اور علی سے فرمائے گا کہ جو تم سے محبت کرتا ہے تم دونوں اسکو جنت میں داخل کرو اور جو تم سے بغض و دشمنی کرتا ہے تم دونوں اسکو جہنم میں داخل کرو......،

 أمالی للطوسی ص290

 

 

 

 یہ روایت کئی عبارات، جیسے قسيم النار و الجنه، قسيم النار ، قسيم الجنه و النار ، السلام عليک يا قسيم النار و الجنه، کے ساتھ مندرجہ ذیل شیعہ کتب میں ذکر ہوئی ہے:

الكافی كلينی ج 4 ص 570،

 معانی الاخبار شيخ صدوق ص 206،

 تهذيب الاحكام شيخ طوسی ج 6 ص 29،

 روضه الواعظين فتال نيشاپوری ص 100و 118،

 المسترشد طبری شيعی ص 264،

 امالی شيخ مفيد ص 213،

امالی شيخ طوسی ص 305 و 629،

احتجاج طبرسی ج 1 ص 209و 341،

مناقب ابن شهر آشوب ج 2 ص 8 و ج 3 ص 28،

 الطرائف سيد بن طاووس ص 76،

مدينه المعاجز ج 1 ص 280

کتب اہل سنت میں یہ حدیث نبوی:

 

یہ روایت اہل سنت کی بہت سی کتب میں نقل ہوئی ہے اور اگرچے بعض متعصب علماء نے اس روایت کو تضعیف کرنے کی بہت ناکام کوششیں کیں ہیں، لیکنکیونکہ یہ روایت لغت کی کتب میں بھی ذکر ہو چکی ہے اور یہی روایت مختلف اسناد کے ساتھ اہل سنت کی معتبر کتب میں بھی نقل ہوئی ہے، اسلیے اب مختلف بہانوں سے اس روایت کو ضعیف کرنے اور اشکال کرنا فقط یہ تعصّب کی وجہ سے ہے کیونکہ اس روایت پر یہ اشکالات علمی نہیں ہیں۔

اب ہم اہل سنت کی بعض معتبر کتب کو ذکر کرتے ہیں کہ جن میں یہ اہم روایت ذکر ہوئی ہے:

عن علی رضی الله تعالی عنه أنا قسيم النار۔

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ: میں جہنم کو تقسیم کرنے والا ہوں۔

الفايق فی غريب الحديث جار الله زمخشری ج 3 ص 97

 و روی أيضا عن الأعمش عن موسی بن طريف عن عباية، قال سمعت عليا ( ع ) ، و هو يقول : أنا قسيم النار۔

اور اسی طرح روایت ہوئی ہے اعمش سے اور اس نے موسی ابن ظریف اور اس نے عبایہ سے کہ اس نے کہا ہے کہ: میں نے علی (ع) کو یہ ہمیشہ فرماتے ہوئے سنتا تھا کہ: میں جہنم کو تقسیم کرنے والا ہوں۔

شرح نهج البلاغه ابن ابی الحديد ج 2 ص 260 و ج 19 ص 140.

عن عباية عن علی قال : أنا قسيم النار ، إذا كان يوم القيامة قلت هذا لک و هذا لی۔

حضرت علی (ع) سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: میں جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں، جب قیامت کا دن ہو گا، میں جہنم سے کہوں گا کہ یہ بندہ تیرے لیے ہے اور وہ بندہ میرے لیے ہے۔

البدايه و النهايه ج 7 ص 392

اسی طرح یہی روایت مندرجہ ذیل اہل سنت کی کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے:

غريب الحديث ، ج 1 ، ص 377 ،

النهايه فی غريب الحديث ، ج 4 ، ص 61

 المناقب، خوارزمی ، ص 41

 كنز العمّال متقی هندی ج 13 ص 152

تاريخ مدينہ دمشق ج 42 ص 298

علی (ع) کو قسیم النار و الجنّۃ کہنے کی دلیل:

 

بعض روایات میں اس نام کی دلیل و علت کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم ان میں سے دو روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

حدثنا أحمد بن الحسن القطان قال : حدثنا أحمد بن يحيی بن زكريا أبو العباس القطان قال : حدثنا محمد بن إسماعيل البرمكی قال : حدثنا عبد الله بن داهر قال : حدثنا أبی ، عن محمد بن سنان عن المفضل بن عمر قال : قلت لأبی عبد الله جعفر بن محمد الصادق " ع " لم صار أمير المؤمنين علی بن أبی طالب قسيم الجنة و النار ؟ قال : لان حبه إيمان و بغضه كفر ، و إنما خلقت الجنة لأهل الايمان، و خلقت النار لأهل الكفر ، فهو عليه السلام قسيم الجنة و النار لهذه العلة فالجنة لا يدخلها إلا أهل محبته، و النار لا يدخلها إلا أهل بغضه .

مفضل ابن عمر سے نقل ہوا ہے کہ: میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ امير المومنين علی بن ابی طالب (ع) کو کیوں قسيم الجنّۃ و النار کہا جاتا ہے ؟ امام نے فرمایا کیونکہ علی (ع) سے محبت کرنا، ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض و نفاق رکھنا، کفر کی علامت ہے، اور جنت کو اہل ایمان کے لیے خلق کیا گیا ہے اور جہنم کو اہل کفر کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ پس علی (ع) کو اس علت کی وجہ سے قسیم الجنۃ و النار کہا گیا ہے۔ پس جنت میں کوئی داخل نہیں ہو گا، مگر جو ان سے محبت کرتا ہو گا اور جہنم میں داخل نہیں ہو گا، مگر جو ان سے بغض و دشمنی رکھتا ہو گا۔

علل الشرايع ج 1 ص 162

پس علی (ع) سے محبت اور ان سے نفرت کرنا، یہ قسیم الجنۃ و النار ہو گی، اور یہ بات اور عقیدہ کسی بھی طرح سے عقیدہ توحید اور خداوند کے قادر و مختار ہونے کے منافی نہیں ہے۔

اسی طرح ایک دوسری روایت ہے کہ جو امام رضا (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ:

حدثنا تميم بن عبد الله بن تميم القرشی قال : حدثنی أبی عن أحمد بن علی الأنصاری عن أبی الصلت الهروی قال : قال المأمون يوما للرضا عليه السلام يا أبا الحسن أخبرنی عن جدك أمير المؤمنين بأيّ وجه هو قسيم الجنة و النار و بأيّ معنی فقد كثر فكری فی ذلک ؟ فقال له الرضا عليه السلام : يا أمير المؤمنين أ لم ترو عن أبيک عن آبائه عن عبد الله بن عباس أنه قال : سمعت رسول الله ( ص ) يقول: حبّ علی إيمان و بغضه كفر ؟ فقال: بلی فقال الرضا عليه السلام : فقسمة الجنة و النار إذا كانت علی حبه و بغضه فهو قسيم الجنة و النار۔

ابا صلت ہروی نے نقل کیا ہے کہ: ایک دن مامون نے امام رضا (ع) سے کہا کہ: اے ابو الحسن، ایک بات میرے ذہن میں کہ آپ ہمیں بتائیں کہ آپکے جدّ امیر المؤمنین علی (ع) کو کیوں قسیم الجنۃ و النار کہا جاتا ہے ؟

اس پر امام رضا (ع) نے اس سے فرمایا کہ: اے مامون کیا تم نے اپنے باپ اور اس نے اپنے آباء و اجداد سے اور انھوں نے ابن عباس سے اور اس نے رسول خدا (ع) سے نقل نہیں کیا کہ: رسول خدا نے فرمایا کہ: علی (ع) سے محبت کرنا، ایمان کی اور ان سے دشمنی کرنا، کفر کی علامت ہے ؟ مامون نے جواب دیا: ہاں، اس پر امام رضا (ع) نے فرمایا کہ: انکی محبت اور دشمنی، جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والی ہے، پس اسی وجہ سے علی (ع) کو قسیم الجنۃ و النار کہا جاتا ہے۔

عيون اخبار الرضا ج 1 ص 92.

شعراء کے اشعار میں  علی (ع) کا قسيم الجنّۃ و النار ہونا:

 

طول زمان میں بہت سے شعراء نے اس روایت کو اپنے اشعار میں مختلف انداز میں بیان کیا ہے کہ ہم بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

قسيم النار ذو خير و خير يخلصنا الغداة من السعير

فكان محمد فی الدين شمسا علی بعد كالبدر المنير

علی (ع) اہل خیر ہیں کہ جو جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں اور کتنا اچھا ہے کہ کل قیامت والے دن ہم جہنم سے نجات پا لیں گے، پس رسول خدا دین خدا میں، خورشید کی طرح اور انکے بعد علی چمکتے چاند کی طرح ہیں۔

خاتمه المستدرک ميرزا نوری ج 3 ص 80،

قال البشنوی:

فمدينة العلم التی هو بابها أضحی قسيم النار يوم مآبه

فعدوه أشقی البرية فی لضی و وليه المحبوب يوم حسابه

پس علم کا شہر کہ وہ اسکا دروازہ ہیں، واضح ہے کہ قیامت والے دن وہی جہنم کو تقسیم کرنے والا ہو گا۔ پس اس کا دشمن قیامت والے دن بد بخت ترین انسان ہو گا، اور اس سے محبت کرنے والے انسان سے قیامت والے دن محبت کی جائے گی۔

مناقب ابن شهر آشوب ج 1 ص 314،

قال عمار بن تغلبة :

علی حبه جنة قسيم النار و الجنة

وصی المصطفی حقا إمام الانس و الجنة .

علی ابن ابی طالب (ع) کی محبت جہنم کی آگ سے ڈھال ہے، اور وہ جہنم و جنت کو تقسیم کرنے والا ہے۔ وہ رسول خدا (ص) کا وصی و جانشین بر حق ہے، وہ جنّ و انس کا امام و پیشوا ہے۔

مدينه المعاجز علامه بحرانی ج 1 ص 260

 التماس دعا.....

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: