2024 March 29
آداب عزاداری فرزند رسول خدا (ص)، سیّد الشہداء امام حسین (ع)
مندرجات: ١٠٣٠ تاریخ اشاعت: ٢١ September ٢٠١٧ - ١٦:٣٢ مشاہدات: 11688
یاداشتیں » پبلک
جدید
آداب عزاداری فرزند رسول خدا (ص)، سیّد الشہداء امام حسین (ع)

ہم عزاداروں کی خدمت میں چند آداب عزاداری امام حسین (ع) کو ذکر کرتے ہیں۔ امید ہے تمام مؤمنین عزاداری کی مجالس میں ان آداب کا خیال رکھیں گے انشاء اللہ تعالی:

عزاداری کے اصول و آداب:

کسی بھی عمل سے اس کے مطلوب اور مقررہ نتائج حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ اس عمل کو اس کے متعین قواعد و آداب کے ساتھ انجام دیا جائے۔

ظاہر ہے کہ عزاداری سید الشہداء بھی جب تمام اعمال سے افضل ہے تو، اسکو بھی اس اصول و قانون سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا عزاداری سے بھی اس کے مطلوب نتائج حاصل کرنے کے لیے اس کے دوران بعض اصول و آداب کی پابندی لازم ہے۔ یہ اصول و آداب کیا ہیں ؟ انہیں کہاں سے اخذ کیا جائے ؟ اس مسئلے پر غور و فکر کہ بعد ہم تین ایسے مصادر کا تعین کر پائے ہیں جن سے عزاداری منانے کے اصول و قواعد اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تین مصادر ہمیں عزاداری کے ذریعے پیش کیے جانے والے مضمون ، اس کے منانے کے انداز و کیفیت اور اس کے مراسم کی درستگی کی حدود سے روشناس کرتے ہیں۔ یہ مصادر درج ذیل ہیں۔

 حسین ابن علی (ع) کی تحریک کے مقاصد ،

 عزاداری کے بارے مین آئمہ اطہار (ع) کی ہدایات ،

 عزاداری کے مراسم کے بارے میں علماء کرام کی ہدایات و نصائح۔

آئیے اس حوالے سے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔

1۔ حسین ابن علی (ع) کی تحریک کے مقاصد:

سید الشہداء کے فرض منصبی کو ملحوظ رکھا جائے ، آپ کی تحریک کا واقعاتی جائزہ لیا جائے اور اس تحریک کے دوران آپ کے فرامین، مکتوبات اور اقدامات کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام حسین کی تحریک امت کے سیاسی و اجتماعی نظام کی اصلاح کے لیے تھی۔

امام حسین بنی امیہ کے غصبی و مکارانہ اقتدار کے نتیجے میں شریعت کی پامالی ، حدود الہی کے تعطل اور عوام کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ آپ (ع) دیکھ رہے تھے کہ امت کا اقتدار یزید جیسے فاسق ، فاجر ، شرابی اور زانی شخص کے حوالے کر دیا گیا ہے، امت کے امور ایک ایسے شخص کے سپرد کر دیئے گئے ہیں کہ جو کسی بھی طرح سے اس عہدے کا اہل نہیں اور بیعت کے ذریعے اس کے اقتدار کی تصدیق در اصل اسلام کی موت کے پروانے پر دستخط کے مترادف ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس صورتحال پر خاموشی بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ لہذا امام حسین نے یزید کے خلاف تحریک شروع کی اور اپنی حکمت عملی سے اسلام کو نابودی کے خطرے سے نجات دلائی۔

2۔ عزاداری کے بارے میں آئمہ اطہار (ع) کی ہدایات:

روایات سے ظاہر ہے آئمہ معصومین اپنے اصحاب اور ماننے والوں کو عاشورہ محرم غم و اندوہ ، حزن و ملال کے ساتھ گزارنے کی ہدایت کرتے تھے ، مصائب کربلا کے بیان اور انہیں سن کر اشک فشانی کی تاکید کرتے تھے ، ان ایام میں ابا عبد اللہ الحسین کے مصائب کے بیان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ آئمہ اطہار اپنے گھروں میں ان مصائب کو سننے، سنانے کا اہتمام کرتے، یہ مصائب سن کر آنسو بہاتے اور اس اشک فشانی پر انتہائی اجر و ثواب اور آخرت میں نجات کی نوید بھی دیتے تھے۔

3۔ عزاداری کے مراسم کے بارے میں علماء کرام کی ہدایات و نصائح:

علمائے امامیہ ایام عزا کے خصوصی اہتمام کے ساتھ ساتھ عزاداری کی رسوم کو غیر شرعی امور اور نامناسب اخراجات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں۔ لہذا ان علماء نے عزاداری میں صرف ان امور کی شمولیت کو جائز قرار دیا ہے کہ جن سے کسی قسم کے ضرر اور نقصان کا خوف نہ ہو، یعنی وہ مذہب کے لیے نقصان دہ نہ ہوں اور جن پر عزاداری کا عنوان صادق آتا ہو، یعنی وہ اظہار غم و اندوہ کے منافی نہ ہو۔ اسی طرح یہ امور مذہب کے تمسخر کا موجب بھی نہ ہوں، یعنی انہیں دیکھ کر لوگوں کو مذہب کا مذاق اڑانے کا موقع نہ ملے ، نیز مسلمانوں کے درمیان نفرت و عداوت کا سبب نہ ہوں۔

حتی علماء نے ایسے مباح امور کو انجام دینے سے بھی اجتناب کی تاکید کی ہے جنہیں دیکھ کر مخالفوں کو خوامخواہ سوال و اعتراض اٹھانے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا موقع ملے۔

اس تین مصادر کی روشنی میں جو اصول وضع کیے جا سکتے ہیں ، وہ یہ ہیں اور ان پر شدید توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے:

1- عزاداری پر رنج و الم اور سوگواری کی فضا طاری ہو۔ اس کے اجتماعات اور رسومات دیکھنے والے پر غم و اندوہ کا تاثر پیدا کریں۔ تا کہ ایک طرف اس کے ذریعے اسلام کی خاطر اٹھائی جانے والی اہل بیت (ع) کی مصیبت اجاگر ہو اور دوسری طرف اس فضا میں بیان کیا جانے والا پیغام سننے والوں کے دل کی گہرائی میں اتر جائے۔

2- عزاداری محض غم کی داستان کا بیان نہیں بلکہ اس کا پیغام مسلمانوں کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں دین کی حکمرانی کا قیام ہے۔ لہذا اس کے دوران ، خطیبوں و ذاکرین کی تقاریر اور شعراء کے کلام میں حسین ابن علی (ع) ان کے اصحاب ، اہل حرم کے مصائب کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی ترویج اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات و مسائل کے بارے میں بھی گفتگو ہو۔

تقاریر اور اشعار ایسے مواد پر مشتمل ہوں جو عزاداروں کو وقت کے حسین اور دور حاضر کے یزید کی پہچان کرائیں، نہ صرف پہچان کرائیں، بلکہ انہیں اس حسین کی مدد نصرت اور اس یزید کی مخالفت پر کمر بستہ بھی کریں۔ عزاداری کا بنیادی اور اصل مقصد بھی یہی ہے۔ حسین ابن علی (ع) اپنی تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے کہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کے  امور و معاملات سے کسی طور غافل اور لا تعلق نہ ہوں، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے رحجانات اور ان کے خلاف ہونے والے اقدامات سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ انہیں ناکام بنانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کریں۔

3- عزاداری کے اجتماعات اور رسموں میں شرعی اصول اور دینی اقدار پیش نظر رہیں۔ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو احکام دینی کے خلاف اور ان سے متصادم ہو، دین کو کمزور کرنے والا ہو، مسلمانوں میں انتشار و افتراق پھیلانے کا موجب ہو، اور ہمارے مذہب کو تماشا بناتا ہو۔

1- اہل بیت(ع) کی ثقافت کو زندہ رکھنا:

محرم الحرام کی مجالس اور جلوسوں میں کچھ اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے:

الف: معصوم کی حدیث ہے کہ عزاداری کی مجالس میں اہلبیت کی تعلیمات اجاگر کیا جائے:

قال جعفر بن محمد الصادق (ع)‏ تلاقوا و تحادثوا و تذاكروا فإن في المذاكرة إحياء أمرنا رحم‏ الله‏ امرأ أحيا أمرنا.

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ: آپس میں ملاقات کرو، اور آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرو، پس جو باتوں باتوں میں ہماے امر (ولایت و امامت) کو زندہ کرے گا تو خداوند اس شخص پر اپنی خاص رحمت نازل کرے گا۔

بحار الانوار ، ج 1 ، ص 200

خطیب کے منبر پر جانے سے یا ایک نوحہ خواں کے نوحہ پڑھنے سے سامعین کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آنی چاہیے۔ اگر خطیب کی تقریر سے لوگوں کے علم میں اضافہ ہوتا ہو اور لوگوں کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آتی ہو اور لوگوں کے اخلاق ، کردار اور گفتار میں مثبت تبدیلی آتی ہے، تو اس خطیب اور نوحہ خواں نے اہلبیت کے امر کو زندہ کیا ہے۔ اسی طرح سامعین کو بھی چاہیے کہ خطیب کے نصائح پر عمل کر کے اہلبیت کے امر کو زندہ کریں۔

ب: معرفت و بصیرت:

مجالس عزاداری میں جو افراد شرکت کرتے ہیں وہ وہاں سے کوئی نئی بات ، علمی ، تاریخی ، فقہی معلومات یا دور جدید کے حوالے سے کچھ حاصل کر کے جائیں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جو خطیب مجلس پڑھ رہا ہے، وہ اپنے مطالعات کو وسعت دے اور ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ گفتگو کرے تا کہ لوگوں کی معرفت و بصیرت میں اضافہ کر سکے۔

ج:  احکام کی تعلیم :

ہر خطیب کو چاہیے کہ وہ اپنی مجالس میں فقہی احکام بھی بیان کرے اور سامعین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فقہی احکام پر عمل کریں خصوصا مجالس عزاداری میں عزاداری کے احکام پر عمل ہونا چاہیے۔

د: اعترضات کا جواب دینا:

معاشرے میں ، لوگوں کے ذہن میں بعض اوقات کچھ سوالات پیش آتے ہیں یا مخالفین کی طرف سے کچھ اعتراضات کیے جاتے ہیں، لہذا خطیب کو چاہیے کہ ان کا منطقی ، عقلی و نقلی دلائل سے جواب دے ۔ البتہ سامعین کو بھی چاہیے کہ ان کے ذہنوں میں موجود شبہات اور اعتراضات علماء کے حضور پیش کریں تا کہ ان کے اذہان باطل چیزوں سے پاک و خالی ہو جائیں۔

2- عزاداری میں شرعی مسائل کا خیال رکھنا :

امام حسین جب کربلاء پہنچے تو سب سے پہلے فقہی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے کربلا کی زمین کو خریدا، کیونکہ امام حسین نہیں چاہتے تھے کہ غصبی زمین پر شہید ہوں اور امام حسین چاہتے تھے کہ ان کا مقدس خون غصبی زمین پر نہ گرے۔ امام حسین کی سیرت سے درس لیتے ہوئے ہمیں بھی عزاداری میں شرعی مسائل کا خیال رکھنا چاہیے۔ خصوصاً خواتین کو پردے کا خیال رکھنا چاہیے اور تمام عزاداروں کو عزاداری کی مجالس میں جھوٹ ، تہمت ، بد اخلاقی اور دیگر غیر اخلاقی کاموں سے دوری اور اجتناب کرنا چاہیے۔

3-  ایک دوسرے کو تعزیت پیش کرنا :

کسی انسان کو پیش آنے والی مصیبت کے وقت تعزیت پیش کرنا اسلام میں مستحب ہے۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ:

ہر شخص مصیبت میں مبتلاء انسان کو تعزیت پیش کرے تو اس کا اجر و ثواب اس مصیبت میں مبتلاء انسان کے برابر ہو گا۔

سفینةالبحار، ج2، ص188

یہ سنت شیعیان اہلبیت میں رائج ہے، جیسے ماہ محرم اور عزاداری کے دنوں میں عظم اللہ اجورکم کہہ کر ایک دوسرے کو تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ : جب شیعہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ابا عبد اللہ الحسین کی مصیبت میں یوں تسلیت عرض کریں: 

اعظم اللہ اجورنا بمصابنا الحسین و جعلنا و ایاکم من الطالبین بثارہ مع ولیہ الامام المہدی من آل محمد علیہم السلام،

یعنی خداوند متعال امام حسین کی سوگواری اور عزاداری کی برکت سے ہمارے اجر میں اضافہ فرمائے اور ہم اور آپ کو امام مہدی (عج) کے ہمراہ امام حسین کے خون کا بدلہ لینے والوں میں سے قرار دے۔

مستدرک الوسایل،ج2،ص216

4- کالے کپڑے پہننا :

فقہی اعتبار سے کالے کپڑے پہننا مکروہ ہے، لیکن امام حسین اور آئمہ معصومین کی عزاداری میں اس لباس کو کراہت سے مستثنی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ لباس حزن و اندوہ اور غم و الم کی نشانی اور عظیم شعائر میں سے ہے۔

(اسی سایٹ میں اہل بیت کے غم میں کالے کپڑے پہننے کے بارے میں  ایک علمی و تحقیقی مقالہ موجود ہے۔)

5- زیارت امام حسین(ع) کا پڑھنا :

علقمہ ابن حضرمی نے حضرت امام محمد باقر سے درخواست کی کہ : یا بن رسول اللہ مجھے ایسی دعا تعلیم فرمائیں کہ عاشورا کے دن دور اور نزدیک سے یا اپنے گھر سے پڑھ لیا کروں۔

امام باقر نے فرمایا : اے علقمہ ! جب بھی دعا پڑھنا چاہو تو اٹھ کھڑے ہو کر دو رکعت نماز بجا لاؤ اور اس کے بعد زیارت عاشورا پڑھ لیا کرو۔ پس اگر زیارت پڑھ لو گے تو گویا تم نے ان کلمات و الفاظ سے دعا کی ہے جو ملائکہ ، امام حسین کے زائر کے لیے دعا کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں اور خداوند متعال تمہارے لیے سو ہزار ہزار ( دس کروڑ) درجات لکھے گا یا بلند کرے گا ، اور تم اس شخص کے مانند ہو گے جو امام حسین کے ہمراہ شہادت پا چکا ہو ، تا کہ امام حسین کے اصحاب و انصار کے درجات میں شریک ہو جائیں اور تم صرف اور صرف ان شہیدوں کے زمرے میں قرار پاؤ گے اور انہی شہیدوں کے عنوان سے پہچانے جاؤ گے جو امام حسین کے ہمراہ شہید ہوئے ہیں ، تمہارے لیے ہر نبی اور ہر رسول کی زیارت کا ثواب لکھا جائے گا اور ان تمام لوگوں کا ثواب آپ کے لیے لکھا جائے گا جنہوں نے امام حسین کی شہادت کے دن سے اب تک آپ کی زیارت کی ہے۔

(مصباح المتهجد ، ص714)

اگر ممکن ہو تو زیارت عاشورا معروفہ سو لعن و سو سلام کے ساتھ ہونی چاہیے اور اگر انسان کے پاس فرصت نہ ہو تو زیارت عاشورا غیر معروفہ کو ہر روز پڑھا لیا کرے جو اس کا اجر و ثواب زیارت عاشورا معروفہ کے برابر ہے۔ ( زیارت عاشورا معروفہ و غیر معروفہ دونوں کتاب مفاتیح الجنان میں نقل ہوئیں ہیں )

6-  عاشورا کے دن دنیاوی کاموں سے پرہیز کرنا:

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے : جو شخص عاشورا کے دن دنیاوی کاموں سے پرہیز کرے یعنی پیسوں اور تجارت یا کسب و کار کے لیے اور اپنی روزانہ کی معیشت کے لیے بھی کوشش نہ کرے، کیونکہ یہ کام بنی امیہ نے کیا ہے جو عاشورا کے دن کو با برکت سمجھتے تھے، تو خداوند متعال اس کی دنیاوی و اخروی حوائج پوری کرے گا ، عاشورا کے دن جو شخص مصیبت و الم و عزاء کرے گا تو قیامت کے روز اس کا چہرہ خوشحال ہو گا ، جس دن تمام لوگوں کے اوپر وحشت اور خوف طاری ہو گا۔

امالی شیخ صدوق ، ص129

7- گریہ و عزاداری کا افضل ترین رکن:

حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ خداوند متعال نے حضرت موسی سے ارشاد فرمایا :

اے موسیٰ ! جو بھی عاشورا کے دن میرے حبیب مصطفی کے فرزند کے لیے گریہ کرے یا رونے کی شکل بنائے اور سبط مصطفی کی مصیبت پر تعزیت پیش کرے ، وہ ہمیشہ کے لیے جنت میں ہو گا۔

(مستدرک سفینة البحار، ج7، ص235)

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم لابنته السیدة فاطمه سلام الله علیها: يا فاطمة إن نساء امتي يبكون على نساء أهل بيتي، ورجالهم يبكون على رجال أهل بيتي، ويجددون العزاء جيلا بعد جيل، في كل سنة فإذا كان القيامة تشفعين أنت للنساء وأنا أشفع للرجال وكل من بكى منهم على مصاب الحسين أخذنا بيده وأدخلناه الجنة؛ يا فاطمة ! كل عين باكية يوم القيامة، إلا عين بكت على مصاب الحسين (ع).

رسول اکرم اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء (س) سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹی فاطمہ (س) ! بے شک میری امت کی خواتین میرے خاندان کی خواتین کے مصائب پر روتی ہیں اور ان کے مرد میرے خاندان کے مردوں کے مصائب پر روتے ہیں اور نسل در نسل ہر سال ہماری عزاداری کی تجدید کرتے ہیں اور جب قیامت ہو گی تو آپ (س) اہلبیت کی خواتین کے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والی خواتین کی شفاعت کریں گی اور میں اہلبیت کے مردوں پر گزرنے والے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والے مردوں کی شفاعت کروں گا اور ان میں سے جس نے بھی امام حسین کے مصائب پر گریہ و بکاء کیا ہو گا ، ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیں گے اور اس کو جنت میں داخل کریں گے ۔ یا فاطمہ (س) ! قیامت کے دن تمام آنکھیں رو رہی ہونگی سوائے ان آنکھوں کے جو امام حسین کے مصائب پر اشکبار ہوئی ہیں۔

بحار الانوار ـ علامه محمد باقر مجلسی ج 44 ص 293

8- عزاداری پیغام زینب (س) :

ہم جانتے ہیں کہ حضرت زینب (س) پہلی عزادار ہیں جنہوں نے کربلاء میں ہی امام حسین کے جسم مبارک کے قریب آ کر فرمایا : اے میرے جد امجد رسول اللہ آسمان کے ملائکہ آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں, جبکہ آپ کا بیٹا حسین خون میں لت پت ، ریت اور مٹی پر پڑا ہوا ہے جبکہ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ہیں ، یا اللہ ہماری یہ قربانی اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔

عوالم العلوم والمعارف ، ج 11 ، ص 125

حضرت زینب (س) نے اس طرح عزاداری کی تہذیب کی بنیاد ڈالی اور حضرت زینب (س) نے بنی امیہ کی ایک عظیم سازش کو یہیں ناکام بنا دیا جو عاشورا کا پیغام کہیں بھی نہیں پہنچنے دینا چاہتے تھے۔ سیدہ نے یہ سلسلہ شام تک اسیری کی حالت میں بھی جاری رکھا اور عزاداری کو پیغام حق کا بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ ثابت کر کے دکھایا۔ چنانچہ ہمیں بھی عاشورا کے دن اور عزاداری کے دوسرے ایام میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر عزادار کے کندھے پر نئی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے، کیونکہ عزاداری احیائے دین کا نام ہے، جس طرح انقلاب عاشورا اور تحریک حسینی اور واقعہ کربلاء دین اسلام کے احیاء کے نام ہیں۔

9- اخلاص کا خیال رکھنا :

ہمیں عزاداری کو عادت اور رسم کے طور پر نہیں منانا چاہیے بلکہ اس عمل کو خالص نیت اور خدا کی رضا و خوشنودی اور اپنا ایک فریضہ سمجھ کے انجام دینا چاہیے اور ساتھ ہی خلوص میں بھی ہمیں صادق و سچا ہونا چاہیے۔ حتی ایک چھوٹا سا عمل بھی اگر خلوص نیت کے ساتھ انجام پائے تو یہ ان کثیر اعمال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جن میں خلوص اور صداقت کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو ، خواہ وہ اعمال کئی ہزار گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ یہ بات حضرت آدم اور شیطان کی عبادات سے بخوبی سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ شیطان کی کئی ہزار سالہ غیر مخلصانہ عبادت اسے دوزخ کی آگ سے نجات نہیں دے سکی۔ جبکہ حضرت آدم کی عبادت شیطان کی نسبت بہت کم تھی مگر چونکہ ان عبادات میں اخلاص کا عنصر شامل تھا ، خداوند متعال نے حضرت آدم کا ترک اولیٰ بخش دیا اور آپ کو نبوت عطاء فرمائی۔ اس کے علاوہ اعمال کی انجام دہی میں بھی خیال رہے کہ کہیں ریا اور لوگوں کی تعریف و تمجید کی خواہش و تمنا ہماری نیت میں رسوخ نہ کرے۔

10- نماز اور امام حسین (ع):

سید الشہداء اور آپ کے با وفا اصحاب سب کے سب اس نماز کی راہ میں شہید ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم امام حسین کی زیارت مطلقہ میں امام کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

اشہد انک قد اقمت الصلوۃ و آتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر،

یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی ، زکات ادا کی ، بھلائیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے منع کیا۔

سوگنامه عاشورا ، ص 80- 67

ہم سب جانتے ہیں کہ نو محرم الحرام کو محاصرہ شدید ہوا اور لشکر یزید نے جب حملے کا منصوبہ بنا لیا، تو امام حسین نے اپنے بھائی عباس سے فرمایا :

یزیدی لشکر کے پاس جائیں اور اگر ممکن ہو تو ان سے آج کی رات کی مہلت لیں اور جنگ کو کل تک ملتوی کرائیں تا کہ ہم آج کی رات نماز ، استغفار اور اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات اور راز و نیاز میں گزاریں ۔ خدا جانتا ہے کہ میں نماز ، تلاوت قرآن اور دعا و استغفار کو بہت پسند کرتا ہوں۔

امام سجاد فرماتے ہیں : میرے والد گرامی ہر رات ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ روز عاشورا امام حسین نے نماز ظہر و عصر کا خاص طور پر اہتمام کیا اور یزیدی دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ میں بھی نماز عشق کی داستان رقم کی۔ یقینا امام اپنے پیروکاروں سے بھی توبہ و استغفار اور دعا و عبادت کی توقع رکھتے ہیں، چنانچہ اگر نماز کا وقت ہو جائے تو عزاداری کے دوران بھی نماز بجا لانا ضروری ہے اور تعزیت و تسلیت پیش کرتے وقت اور مجالس کے انعقاد کے دوران اس طرح شیڈول بنانا چاہیے کہ یہ تمام عناصر شامل رہیں، کیونکہ بہترین عزاداری کی توقع صرف بہترین عزادار سے ہی کی جا سکتی ہے۔

ضحاک بن عبداللہ سے روایت ہے کہ شب عاشورا امام حسین علیہ السلام اور آپ (ع) کے انصار و افراد خاندان نے نماز و استغفار اور دعا میں گذار دی۔

11- عزاداری کی مجالس بپا کرنا:

امام صادق (ع) فرماتے ہیں: آپ کی طرف سے بپا کی ہوئی مجالس کو میں دوست رکھتا ہوں اور ان سے محبت کرتا ہوں۔ اپنی مجالس میں ہمارے امر کو زندہ رکھو۔ خدا رحمت نازل فرمائے اس پر جو ہمارے امر کا احیاء کرے۔

وسایل الشیعه، ج10، ص235

ہمیں چاہیے کہ عزاداری کی مجالس میں ان آداب کا خیال رکھتے ہوئے مجالس و عزاداری کو مزید بہتر اور اچھے انداز میں قائم کریں تا کہ امام حسین اور دیگر معصومین کے بتائے ہوئے راستے پہ چلتے ہوئے حقیقی مؤمن اور عزادار ہونے کا ثبوت دیں۔

12- لذتیں ترک کرنا:

ضروری ہے کہ زندگی کی لذتیں جو کھانے، پینے، نیز سونے اور بولنے سے حاصل ہوتی ہیں، محرم کے ایام میں ترک کی جائیں۔ (مگر یہ کہ ان کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہو)، نیز دینی برادران سے ملاقات تک ترک کی جائے اور اس روز کو گریہ و بکاء اور غم و اندوہ کا روز قرار دیا جائے اور عزاداران اس شخص کی طرح ہوں کہ جسکا والد یا بھائی دنیا سے چلا گیا ہو۔

امام صادق (ع) نے فرمایا: اس روز (عاشورا کو) لذت بخش امور سے اجتناب کیا جائے اور سوگواری کے آداب و مراسم بجا لائے جائیں اور سورج کے زوال تک کھانے پینے سے پرہیز کیا جائے اور پھر اسی غذا میں سے کھایا جائے جو سوگوار افراد کھایا کرتے ہیں۔

(میزان الحکمه ، ج8 ، ص3783)

ایک عالم دین نے فرمایا ہے کہ: سات محرم الحرام سے امام حسین (ع) پر پانی بند کیا گیا تھا، لہذا روز عاشورا تک آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پانی پینے سے پرہیز کریں بے شک دوسری حلال مشروبات سے استفادہ کریں لیکن آقا و سید و سرور اور آپ (ع) کے خاندان و اصحاب احترام میں پانی پینے سے اجتناب کریں۔  

13۔ روز عاشورا تسلیت و تعزیت کا دن:

روز عاشورا زیارت تسلیت پڑھ لینی چاہیے اور روز عاشورا توسل کر کے اصلاح احوال، عزاداری و عبادات کی قبولیت اور اپنی کوتاہیوں اور کم عملیوں یا گناہوں بحق امام حسین کا واسطہ دے کر اپنی اور تمام مؤمنین کے لیے مغفرت طلب کرنی چاہیے۔

ترجمه المراقبات ، ص53 – 47

محرم کی عزاداری سے مراد وہ مراسم ہیں جنہیں شیعہ اور چہ بسا غیر شیعہ حضرات محرم الحرام میں شہدائے کربلا کی یاد میں منعقد کرتے ہیں۔ عزاداری کی ان محافل میں عموما مرثیوں، نوحوں اور کربلا کے واقعے میں پیش آنے والے واقعات اور مصائب کو ذکر کرنے کے ذریعے امام حسین (ع) پر گریہ و زاری کی جاتی ہے۔ محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کو ان مراسم میں شدت آتی ہے اور دنیا کے شیعہ اکثریتی ممالک یا مناطق میں ان دو ایام میں سرکاری طور پر تمام ادارے اور دکانیں بند ہوتی ہیں اور لوگ گلیوں اور سڑکوں پر نکل کر جلوس اور ماتمی دستے برآمد کرتے ہیں، جس میں علم حضرت عباس، حضرت امام حسین (ع) کا تابوت، حضرت علی اصغر کے جھولے اور حضرت عباس کے مشکیزے وغیرہ کی شبیہ بنا کر ماتم کرتے ہیں۔ ماتمی دستوں کو سیراب کرنے کیلئے پانی کی سبیل اور نذر و نیاز کے مختلف سفرہ جات بھی ان مراسم کا حصہ ہے جن میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

بنی ہاشم کی عزاداری:

منقول ہے کہ واقعہ عاشورا کے بعد امام حسین (ع) پر گریہ و زاری کرنے والوں میں سب سے پہلے آپ (ع) کے فرزند امام زین العابدین (ع)، آپ (ع) کی بہن زینب بنت علی (س) اور ام کلثوم تھیں۔ مقاتل کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ:

حضرت زینب (س) جب اسیری کے وقت اپنے بھائی کی لاش کے قریب سے گزری تو بھائی کی لاش پر ایسے الفاظ و انداز سے نوحہ کیا کہ جس نے دوست اور دشمن سب کو رلا کر رکھ دیا:

اے میرے نانا محمد (ص) ! تجھ پر آسمان کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں یہ صحرا کی گرم ریت پر پڑا ہوا لاشہ تیرے حسین (ع) کا ہے۔ اے نانا تیری بیٹیاں اسیر ہو کر شام جا رہی ہیں اور ان کے چہروں پر مصیبت کا گرد و غبار آن پڑا ہے۔

ان کے علاوہ آپ (ع) کی بیٹیاں اور زوجہ مکرمہ رباب بنت امرؤ القیس وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کربلا میں شہداء کے لاشوں پر اور بعد ازاں کوفہ اور پھر شام میں عزاداری اور مرثیہ سرائی کا اہتمام کیا۔

سیدبن طاؤس، الملہوف، ص180

ابن نماحلی، مثیر الاحزان، ص77

مقتل الحسین للخوارزمی، ج2، ص39

شیخ مفید، الامالی، ص321

مطالب السؤول، ص76

سیدبن طاؤس، الملہوف، ص198

سیدبن طاؤس، الملہوف، ص213

و ابن نماحلی، مثیر الاحزان، ص100

طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص122

طبری،تاریخ، ج5، ص462

چنانچہ امام حسین (ع) کے لیے عزاداری اور سوگواری کی تاریخ، عاشورا سن 61 ہجری قمری کے دن، اور عاشورا کے بعد کے ابتدائی دنوں تک پہنچتی ہے۔ امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:

واقعہ عاشورا کے بعد بنی ہاشم کی کسی خاتون نے سرمہ استعمال نہیں کیا، خضاب نہیں لگایا اور کسی ہاشمی کے گھر سے کھانا پکانے کی علامت کے طور پر دھواں نہیں اٹھا، یہاں تک کہ ابن زیاد ہلاک ہوا۔ ہم اہل بیت عاشورا کے المیے کے بعد مسلسل آنسو بہاتے رہے ہیں۔

عزاداری آل بویہ کے دور میں:

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری آپ (ع) کی شہادت کے زمانے سے جاری تھی، لیکن آل بویہ کے زمانے (سن 352 ہجری قمری) تک اور چوتھی صدی ہجری سے قبل، یہ عزاداری خفیہ ہوتی تھی۔

عام اسلامی مؤرخین خاص طور پر ابن الجوزی نے کتاب المنتظم میں، ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ میں، ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں، یافعی نے مرآۃ الجنان میں اور ذہبی سمیت واقعات کو برسوں کی ترتیب سے لکھنے والے دیگر مؤرخین نے اپنی کتابوں میں سن 352 ہجری قمری اور بعد کے برسوں کے واقعات کے ضمن میں شیعیان اہل بیت (ع) کی عزاداری کی کیفیت بیان کی ہے۔

بغداد میں شیعہ سلسلۂ سلطنت (سن 321 تا 447 ہجری قمری/ 932 تا 1055 عیسوی) کے بادشاہ معز الدولہ دیلمی کی سلطنت میں عاشورا کے مراسمات کی دقیق رعایت کی جاتی تھی۔

جواد محدثی، فرہنگ عاشورا، ص339، بحوالہ حسن مشحون، موسیقی مذہبی ایران، ص4۔

بازار بند ہو جایا کرتے تھے اور لوگ شہر میں گھومتے تھے جو گریہ کر رہے ہوتے تھے، آہ و نالہ کرتے تھے اور اپنا سر پیٹتے تھے جب کہ وہ سیاہ لباس زیب تن کیے ہوتے تھے۔ خواتین کی حالت بھی بے ترتیب اور غیر منظم ہوتی تھی۔

ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، قاہرہ 1977، ج2، ص243۔

عزاداری صفویہ کے دور میں:

صفوی خاندان نے اقتدار سنبھالا تو تشیع کی ترویج کے باعث عزاداری زیادہ عام اور اعلانیہ ہوئی۔ چنانچہ شیعہ اسلام دسویں صدی ہجری / سولہویں صدی عیسوی میں قومی اور سرکاری مذہب میں تبدیل ہوا جس کے بعد شیعہ عقائد کو پورے ملک میں فروغ ملا اور یوں ایران میں عزاداری زيادہ آشکار انداز سے رائج ہوئی۔

عاشورا کے بہت سے مراسم ابھی تک بھی شیعہ حلقوں میں ترقی و ترویج پا رہے ہیں، اگرچہ یہ مراسم ظاہری طور پر مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن ان میں شرکت اور پرجوش موجودگی عالمی حیثیت رکھتی ہے۔

عاشورا کے آداب و اعمال اور فقہ (فہم) عاشورا:

فکر اور احساس انسانی حیات کے دو دو بنیادی عناصر ہیں۔ فکر حرکت کا سبب بنتی ہے اور جذبات و احساسات کی نسیم حرکت سے آنے والی حرارت اور فرسودگی کا ازالہ کرتی ہے۔ اگر افکار کے محکم و متقن اصول اپنی تمام تر استواری اور استحکام کے باوجود، پاک احساسات کی فضا میں سانس نہ لیں تو کبھی بھی کھِلنے اور شگفتہ ہونے کے مرحلہ تک نہ پہنچ سکیں گے، فکر کے بغیر جذبہ و احساس گزرنے والی ہوا ہے جو شاید انسان کے چہرے کو تھپکی دے لیکن بہت زود گزرتی ہے اور انسان کو افکار کے خلا میں چھوڑ دیتی ہے۔

بعض لوگ فکر کو اہمیت دیتے ہیں اور فکر ہی کی روشنی میں انسانی کی تعریف کرتے ہیں اور بعض دوسرے اپنا دل احساس اور جذبے کے سپرد کرتے ہیں اور احساس کو ہی انسان کی تعریف و تعارف کی بنیاد سمجھتے ہیں، جبکہ بعض لوگ دونوں کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن تجربے کے ترازو پر کبھی بھی تعادل و توازن تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔

شیعہ نے دوسرے معاشروں سے کہیں زیادہ افکار اور جذبات کو اکٹھا کر لیا ہے۔

یہ قوم جانفشانی کے وقت اپنے پورے احساس پوری آگہی اور ہوشیار عقل کے ساتھ جام شہادت نوش کرتی ہے۔

شیعہ کے پاس جو کچھ بھی ہے فکر سے لے کر حماسوں، شہادتوں اور کارناموں تک، سب امام حسین (ع) اور کربلا سے ہے۔ ہم نے عاشورا سے حیات پائی ہے۔ عاشورا ہماری تاریخ کا دھڑکنے والا دل و نبض ہے۔ اگر ہم نے اس اور عقل کے رابطے کا بہتر ادراک کیا ہے اور ان کے درمیان معجزانہ پیوند برقرار کیا ہے، اس لیے کہ ہم عاشورا کے صریح پیغامات کے ساتھ صدیاں جیے ہیں اور حماسہ حسینی میں صدیاں بالیدگی کی مشق کرتے رہے ہیں۔ لوگ اپنی جان سے موت کی پذیرائی کرتے تھے تا کہ ان کی فکر کا روشن راستہ باقی رہے۔

ہماری فکر ہمارے جذبے کی خدمت میں اور ہمارا جذبہ ہماری فکر کی خدمت میں ہے اور یہی ہے عاشورا کا روشن پیغام۔

کہاں جذبے اور عقل کی سازگاری کا اس طرح مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ؟

کہاں فکر کی نہر رواں میں جذبے کا جوش اس طرح دیکھا جا سکتا ہے ؟

عاشورا فقہ کی نگاہ میں:

فقہ، شرعی احکام کا مجموعہ ہے۔ کہے اور ان کہے پیغامات پر مشتمل ہے۔ کبھی ہدف تک پہنچنے کی بات کرتی ہے اور کبھی بغیر کچھ کہے ہدف کو تاریخ کے اوراق میں تلاش کرتی ہے۔ عاشورا ایک طوفان ہے جو اٹھا اور اپنے عصر کے بحر کو درہم برہم کیا، لیکن جو چیز اس طوفان کی صداؤں کو معاشروں کے کان میں آہستگی سے بیان کرتی ہے، وہ فقہ ہی ہے۔

فقہ عاشورا کی طرف ہماری نگاہوں کو ابدیت بخشتی ہے اور ہمارے دل کے سوز و گداز کو دائمی بقاء عطا کرتی ہے۔ فقہ عاشورا اس عظیم واقعے کے بہت سے زاویوں کو واضح کر دیتی ہے۔ خاندانی تعلقات، ایثار کا عروج، اپنے اندر خدا کی راہ میں فنا ہونے کے لمحات اور رمز و راز بھری نگاہیں۔

آج فقہ دنیا کی طرف ہماری نگاہ کا دریچہ ہے۔ اگر فقہ نہ ہوتی تو عاشورا جذبات کو ابھارتی اور مشتعل کرتی اور افکار کو بھی سیراب کرتی مگر کیا پائیدار بھی رہتی ؟ اور کیا تاریخ کی پر نشیب و فراز شاہراہ پر جذبات کی گہرائی اور فکر کے اعماق کو بھی فتح کر سکتی ؟

مختصر یہ کہ فقہ نے عاشورا کے نور کی تابش کو تاریخ کی وسعتوں تک پہنچایا اور عاشورائی فقہ وہ سانچہ ہے جو عاشورا کے سلسلے میں ہمارے تصورات کو تاریخ کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔

اور آج،

آج بھی عاشورائی فقہ اس عظیم کارنامے کے دور تر آفاق کو ہمارے سامنے روشن اور واضح کرتی ہے۔ عاشورائیوں نے بہر صورت فقہ عاشورا سے اسباق اور دروس سیکھ لیے ہیں۔

اس کے باوجود بہت سے لوگ عاشورا کی فقہ سے نا آشنا ہیں۔ کیونکہ فقہ زمانے کے ساتھ بالیدگی اور شگفتگی پاتی ہے اور عاشورائی فقہ ہماری آج کی ضروریات کو عاشورا کے دل سے برآمد کر کے پوری کرتی ہے۔

جو کچھ یہاں پیش خدمت ہے، عمومی تصورات سے مطابقت رکھتا ہے، ورنہ اس کا تخصصی اور ماہرانہ مباحث سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔ فقہ عاشورا کی بحث ایک بڑی بحث ہے، جس کے لیے زيادہ تحقیق کی ضرورت ہے اور یقیناً ان نظریات پر بحث بہت زیادہ مفید اور کار آمد ہو گی۔

1۔ زيارات حسینی:

امام حسین (ع) کے نام پر بہت سی زیارتیں وارد ہوئی ہیں۔ یہ زیارات خاص وقت کے لیے ہیں اور ان کے تنوع نے خالص عرفانی فرصتوں اور مواقع کو ان افکار کی توسیع کے لیے مقرر کیا ہے، جو دینداری اور حق طلبی کا محور ہیں۔

شب ہائے قدر سے جو کہ عالم وجود کے لیے عرفان الہی تک پہنچنے کے بے مثل مواقع ہیں، سے لے کر کمترین زمانی اور وقتی بہانوں تک، کو سردار کربلا کی زیارتوں سے مزین کیا گیا ہے۔ دین ہر طرف اور ہر روش سے ایسے لمحوں کی تلاش میں رہتا ہے تا کہ زمان کی اتہاہ سے دینداروں کی روح میں رسوخ کرے اور ان کے خون میں حسینی افکار کو جاری و ساری کرے۔

یہاں ہم جو فہرست پیش کر رہے ہیں یہ ان مواقع اور اوقات کی فہرست ہے کہ جن میں سے ہر ایک نے ایک خاص زیارت کو اپنے لیے مختص کر رکھا ہے۔ ان کی تفصیل کو آپ مفاتیح الجنان یا دعاؤں کی دوسری کتابوں میں پا سکتے ہیں:

۔ یکم رجب۔

۔ پندرہ رجب۔

۔ پندرہ شعبان۔

۔ یکم رمضان۔

۔ تئیس رمضان کی شب (ليلۃ القدر)

۔ عید سعید فطر۔

۔ عید سعید ضحی۔

۔ عرفہ کی شب۔

۔ روز عرفہ۔

۔ روز عاشورا۔

۔ روز اربعين۔

اور یہ زیارت ان متعدد اور متنوع زیارت کے علاوہ ہیں کہ جو حرم حسینی (ع) کے زائر کے لیے وارد ہوئی ہیں۔

یعنی ہر دینی مناسبت پر مستحب ہے کہ انسان امام حسین (ع) کی زیارت کی تلاوت کرے۔

2۔ قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت:

جب تاریخ کے پروں پر بیٹھ کر گزرِ زمانہ کا نظارہ دیکھیں تو ہمیں دو واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں بہت سے پیوند اور شباہتیں پائی جاتی ہیں۔ جن کا جائزہ لینے کے لیے مستقل تحقیق کی ضرورت ہے، ان دو واقعات کا تعلق کعبہ اور فرزندان کربلا سے ہے۔ ان دو واقعات کو طاہرانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو گویا دونوں کا منصوبہ ایک ہے ہے۔ دونوں فکر کو احساس کی زبان سے تمہارے لیے بیان کرتے ہیں۔

مسجد الحرام کا احاطہ بہت سی علامتی جلوہ گاہوں اور بہت سی یادوں سے بھرا ہوا ہے۔ مروہ اور صفا سے صبر و استقامت کا ایک روحانی منظر انسان کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہو جاتا ہے۔ زمزم اپنی بات کرتا ہے اور حجر الاسود کا اپنا پیغام ہے۔

حرم حسینی کا گوشہ گوشہ بھی زائرین کے ساتھ بات چیت کرتا ہے، خیام کا مقام، تل زینبیہ سے خیام تک کا فاصلہ، علقمہ، قتلگاہ وغیرہ سب کے سب استقامت اور مظلومیت کے مناظر کی تصویر کشی کرتے ہیں۔

کعبہ اور کربلا اور ابراہیم (ع) اور حسین (ع) کے واقعات کی وسعت اور بقاء کو دونوں واقعات کے علامتی مناسک اور اعمال میں ڈھونڈنا پڑے گا۔ حج کے اعمال ابراہیم کے توحیدی ماجرا کو اپنے خاص ڈھنگ سے از سر نو تخلیق کرتے ہیں اور حرم حسینی کے مناسک و اعمال بھی اپنی حسینی خصوصیات و پیغامات کو اپنے زائرین کے لیے مکرر در مکرر تخلیق کرتے ہیں۔

آئمہ معصومین (ع) اپنے وصایا اور نصائح میں امام حسین (ع) کی زیارت پر کم مثل اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے بے مثل اصرار کرتے ہیں، یہاں تک کہ بعض کو تو وجوب تک کا شبہہ ہوا ہے، جنہوں نے کہا ہے کہ امام حسین (ع) کی زیارت سال میں ایک مرتبہ واجب ہے۔ بعض احادیث میں اس زیارت کو ایک ہزار قبول حجوں اور ایک ہزار قبول عمروں کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

سفينة البحار، ج 2، ص 564

یہاں ہم حرم حسینی کے بعض مناسک و اعمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جن میں سے بعض زیارت بیت اللہ کے مناسک سے شباہت رکھتے ہیں۔

1۔ مرقد حسینی کی طرف پائے پیادہ سفر کرنا،

مکہ کی طرف پیدل چلنا فقہ حج کی عظیم تعلیمات میں سے ہے۔ مناسک حسینی میں بھی کربلا کے مرقد انور کی طرف زائرین کے پائے پیادہ سفر کا تذکرہ ہے۔

جس روایت نے اس عمل کو مستحب کردیا ہے وہ امام صادق (ع) سے منقول ہے۔

مفاتيح الجنان، ص 754

کیونکہ خداوند متعال نے چاہا ہے کہ یہ دونوں شہر (مکہ اور کربلا) مؤمنین کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ فرماتا رہے۔

امام صادق(ع) نے بارگاہ ربانی میں التجا کی:

يا من ۔۔۔ جعل افئدة الناس تهوي الينا اغفر لي و لاخواني وزوار قبر ابي الحسين بن علي صلوات الله عليهما۔۔۔

خداوندا لوگوں کے دلوں کو ہماری طرف مائل فرما دے اور امام حسین کی قبر کی زیارت کرنے والے میرے بھائیوں کی مغفرت فرما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سفينۃ البحار، ج 2، ص 564

قلبوں کا پرندہ کانٹوں اور راستے کی تھکاوٹ کو جان کی قیمت ادا کر کے خریدتا ہے۔

2۔ سرمہ نہ لگانا۔

3۔ فرات کی طرف تکبیر (اللہ اکبر) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) کے ذکر کے ساتھ اور غسل اور وضو کرنا۔

4۔ پاکیزہ لباس زیب تن کرنا۔

5۔ جدال اور نزاع سے اجتناب کرنا۔

6۔ قسم نہ اٹھانا۔

7۔ حرم کی طرف ننگے پاؤں چلنا۔

8۔ انکسار اور تواضع کے اور شکستہ دل کے ساتھ راہ چلنا۔

9۔ کم بولنا۔

10۔ حرم کے زائرین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا۔

11۔ لبوں پر ذکر درود و صلوات کا ہونا۔

12۔ حرم کے مشرقی دروازے سے داخل ہونا۔

13۔ عاشورا کے دن سقائی کرنا اور لوگوں کو پانی پلانا۔

14۔ سادہ سی غذا تناول کرنا۔

15۔ احادیث میں وارد ہونے والے سلام، زیارتیں اور نمازیں پڑھنا۔

کربلا کے لیے وارد ہونے والی زیارات انقلابی اور عرفانی افکار اور مفاہیم سے بار ور ہیں۔ آئمہ (ع) نے زائرین کو ہدایت کی ہے کہ امام کی معرفت کاملہ کے ساتھ زيارت پڑھیں تا کہ احساسات اور افکار ساتھ ساتھ بالیدگی کی منزل طے کریں۔

16۔ حاجتیں مانگنا۔

17۔ مظلوم کا ظالم پر نفرین کرنا جس کے سلسلے میں ایک دعائے مخصوصہ بھی وارد ہوئی ہے۔

بہتر ہے کہ زیادہ تفصیلات کے لیے مفاتیح الجنان، سفینۃ البحار، اقبال الاعمال سید بن طاؤس وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

3۔ تربت حسینی:

پتھر اور مٹی کی اپنی حیثیت مقدس نہيں ہے۔ مگر عنایت الہی کی کیمیا خاک و سنگ کو ایک اعلی تشخص تک پہنچا دیتی ہے اور انہیں اعلی ترین شعائر الہی میں جگہ دیتی ہے۔ حجر الاسود ایک سیاہ رنگ کا پتھر ہے، جس کی روحانی و معنوی عظمت نے عالم اور آدم کو اپنا شیدائی بنا لیا ہے۔ تربت حسینی نے بھی تاریخ کو اپنے نظارے پر بٹھا دیا ہے۔ وہ پتھر لبوں کا بوسہ لینے کے لیے بلاتا ہے اور یہ مٹی جبینوں کو سجدے کے لیے۔

5۔ سفينۃ البحار، ج 1، ص 121۔

شیعہ نماز کے سجدے میں تربت حسینی پر جبین رکھ کر اپنا دل ایسے مرد کے خالق کے سپرد کرتا ہے جس نے ایک توحیدی حماسہ اور کارنامہ سر انجام دیا۔ ہاں ! اللہ کا راستہ حسین (ع) کے محلے سے گذرتا ہے اور عرفان الہی مدرسۂ حسین (ع) سے درس لے کر حاصل ہوتا ہے۔

تربت حسینی کے سجدے کے علاوہ دوسرے احکام بھی ہیں، منجملہ:

1۔ اولاد کی پیدائش کے بعد تربت حسینی کی تھوڑی سی مقدار بچے کے منہ میں رکھنا۔

وسائل الشيعه

2۔ مریض، شفاء کے لیے تھوڑی سی مقدار تناول کرے۔

سفينۃ البحار، ج 1، ص 121

امام كاظم (ع) نے فرمایا ہے کہ:

ان الله عزوجل جعلها شفاء لشيعتنا و اوليائنا،

خداوند نے خاک شفا میں ہمارے شیعوں کے لیے شفا کو قرار دیا ہے۔

چنانچہ رسول اللہ (ص) نے اس کو خاک شفاء قرار دیا ہے۔

مستدرک الوسائل، ج 10، ص ۔335۔

3۔ تربت کی بنی ہوئی تسبیح کے ساتھ ذکر کرنا۔

مستدرک الوسائل، ج 10، ص ۔335۔

4۔ اس سے برکت حاصل کرنا (تبرک جوئی)

مستدرک الوسائل، ج 10، ص ۔335

5۔ اس کی تھوڑی سی مقدار قبر میں میت کے ساتھ رکھنا۔

مستدرک الوسائل، ج 10، ص ۔335

4۔ گریہ و بکاء:

محبت حسینی کے آسمان سے گریہ و بکاء کی بارش شیعہ کے دشت پر ہی برستی ہے اور اس کی تعلیمات کی ہری بھری کھیتی کو ہر دم نئی حیات و طراوت عطا کرتی ہے۔

کربلا کے واقعات کا استماع اگرچہ بے اختیار اشکوں کو آنکھوں سے جاری کرتا ہے لیکن جس چیز نے گریہ کے تفکر کو تاریخ میں جاری و ساری رکھا ہے وہ فقہ عاشورا ہے۔

آئمہ آل البیت علیہم السلام نے حسین (ع) پر گریہ و بکاء کو فقہی منزلت عطا کی ہے اور اس کو مستحبات مؤکدہ میں شمار کیا ہے۔ دلسوز اور سانس روکنے والے مصائب بھی عاشورا کے سامنے اپنا رنگ کھو دیتے ہیں اور وادی نسیان میں دفن ہو جاتے ہیں۔

عاشورا کا سائبان تمام غموں کی وسعتوں کے برابر ہے۔ جو بھی غم انسان پر وارد ہوتا ہے در حقیقت عاشورا کے مصائب کو دہرانے کے لیے ایک نئی دستاویز فراہم کرتا ہے۔ آئمہ طاہرین (ع) ہر غم و ماتم میں غم حسین (ع) کو یاد کرتے تھے اور ہر مصیبت کو حسین (ع) پر گریہ و بکاء کا لباس پہناتے تھے۔

امام رضا (ع) نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: اگر کسی چیز پر رونا چاہتے ہو تو حسین (ع) پر گریہ کرو۔

بحار، ج، 44، ص‏283

نیز فرمایا:

فعلى مثل الحسين فليبك الباكون،

پس حسین (ع) جیسوں پر رونے والوں کو رونا چاہیے۔

وسائل، ج 14، ص 504

5۔ نماز:

دین ہر موضوع کو نماز کا موضوع آگے بڑھانے اور نماز کو خدا کے تقرب کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔

حسین (ع) نماز کے بطن سے اٹھے اور ہم مسلمانوں کی نماز حسین (ع) کی تحریک کے بطن سے اٹھی ہے۔

«اشهد انك قد اقمت الصلاه‏»

محرم اور کربلا وہ زمان و مکان ہیں کہ جن کے چہرے پر حسین (ع) کا دلنشین رنگ دکھائی دیتا ہے۔ دین نے ان دو میں نماز کا بیج بویا ہے۔ اس داستان کی شرح کے لیے طویل مدت کی ضرورت ہے۔ یہاں صرف اس کی طرف ایک ہی زاوئیے سے نظر ڈالتے ہیں:

1۔ واجب نمازوں کے بارے میں:

الف۔ حرم امام حسین (ع) میں نماز واجب کا مرتبہ بہت بلند اور اہمیت بہت زیادہ ہے۔ روایت میں اس کا ثواب حج کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

مفاتيح الجنان، ص 760

ب۔ مسافر کو اختیار ہے کہ حرم حسینی میں نماز پوری ادا کرے یا پھر نماز قصر کرے (یعنی نماز ظہر و عصر اور نماز عشاء کو چار رکعت کی بجائے دو رکعت کر کے پڑھے۔

رساله‏ ہائے عمليه۔

2۔ نوافل نمازوں کے بارے میں:

الف۔ مستحب نمازیں یا نوافل کا اجر و ثواب حرم حسینی میں زیادہ ہی اجر و اعتبار کا سبب ہیں۔ روایات میں حرم حسینی میں نافلہ عمرہ کے برابر قرار دی گئی ہے۔

 مفاتيح الجنان، ص 760

ب۔ محرم اور کربلا کے سلسلے میں خاص مستحب نمازیں بھی وارد ہوئی ہیں:

1۔ شب عاشورا کی نمازیں:

یکم۔ سو رکعتی نماز۔

دوئم: آخر شب چار رکعتی نماز۔

سوئم۔ ایک چار رکعتی نماز اور۔

2۔ روز عاشورا کی چار رکعتی نماز۔

3۔ حرم امام حسین (ع) کی نمازیں۔

اس سلسلے میں بکثرت نمازیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے نمونے کے طور پر صرف دو نمازوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

یکم۔ بالائے سر مقدس دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے۔

دوئم۔ ایک چار رکعتی نماز جو حصول حاجت کے لیے پڑھی جاتی ہے۔

مفاتيح الجنان

6۔ مقتل خوانی:

مقتل خوانی اور عاشورا کے واقعات کا ذکر روز عاشورا کے آداب اور مستحبات میں سے ہے۔ جان لینا چاہیے کہ مقتل کو اسی طرح پڑھنا چاہیے، جس طرح کہ یہ ہے۔ کیونکہ زيادت گوئی اور واقعہ سازی انسان کے خطا کار ہاتھ کو معصوم علیہ السلام کے شفاف فعل میں داخل کر دیتی ہے اور تشنہ دلوں اور ذہنوں کو عاشورا کے خالص مفاہیم سے محروم کر کے انہیں ایسا گدلا پانی نوش کروا دیتی ہے جس میں عاشورائی تہذیب کے شفاف چشمے کا پانی بھی ملا ہوتا ہے۔ وہ جو سوز دل یا دلوں کو جلانے کے بہانے لوگوں کو جعلی واقعات کے میدان میں اتار دیتے ہیں، انہیں اپنے عمل اور اپنے محرکات پر نظر ثانی کر لینی چاہیے۔ کیا وہ اپنے جعل کردہ واقعات کو ان واقعات سے زيادہ مفید اور مؤثر و کار آمد سمجھتے ہیں کہ جو امام معصوم (ع) نے تخلیق کیے ہیں ؟ !

عاشورا کے واقعات بیان کرنے میں کام چوری کی برائی، زيادہ گوئی کی برائی سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ ہمیں عاشورا کی تاریخ کے بعض قطعات کو چھوڑ کر بعض قطعات پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ بعض اوقات اس بے مثل تحریک کے بعض مسائل کو نظر انداز کر کے ہم نہ صرف اس کے عظیم اہداف کو برباد کر دیتے ہیں بلکہ ان کے بجائے ناقص اور نادرست اہداف کو اس تحریک کے لیے متعین کر دیتے ہیں۔ مقتل خوانی عاشورا کے واقعات کو ایک بار دیکھنے اور پڑھنے اور سننے اور سنانے کا نام ہے جس طرح کہ وہ عاشورا کے دن رونما ہوئے ہیں۔

7۔ اشعار پڑھنا:

شیعہ شاعری حماسی خوشبو پھیلاتی ہے، اس سے شہیدوں کے خون کی بو آتی ہے اور سننے والے کی روح کو جوش دلاتی ہے۔

شیعہ شاعری کے پس منظر کو دیکھیں تو چلتے چلتے عاشورا تک پہنچ جائیں گے۔ شیعہ کا غم عاشورا کو پھٹ پڑتا ہے اور اشک و خون مصرع بہ مصرع تاریخ کے صفحات پر ٹپکتا ہے۔ عاشورائی شاعری شعار، جوش و جذبے اور ظلم کے خلاف قیام پر استوار ہے، اور شیعہ فکر و احساس کا سنگم ہے۔ عاشورا کی شاعری جانبازی اور جانگدازی کے عینی تجسم کا اظہار ہے۔ عاشورائی قلم اور زبانیں وقت کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں۔

یہ قلم اور یہ قلم کار اور وہ شعر خواں عاشورا کو ماضی میں نہیں دیکھتے، وہ ہر دن کو عاشورا میں پاتے ہیں اور عاشورا کو ہر دن میں۔ عاشورا کی شاعری شیعہ کو انتقام کے لیے مورچہ بند کرتی ہے۔ آئمہ آل رسول (ص) عاشورا کے لیے شعر کہنے کو بہت عظیم سمجھتے ہیں اور اس کی قدردانی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ آئمہ آل نبی (ص) کے مہربان ہاتھوں نے اپنے مکتب میں بہت سے عاشورائی شاعروں کو پروان چڑھایا ہے۔

آئمہ (ع) نے شعر سرائی کو فقہی منزلت عطا کی اور اس کو استحباب کا لباس پہنایا۔

وسائل الشيعه، ج 14، ص‏593

عاشورائی شاعری سوز کے ساتھ ہونی چاہیے اور اس کو سوز کے ساتھ پڑھنا بھی چاہیے۔

امام جعفر صادق (ع) نے شاعر ابو ہارون سے فرمایا:

حسین (ع) کے بارے میں کچھ اشعار پڑھو۔ انھوں نے اشعار پڑھ لیے تو امام (ع) نے فرمایا: اشعار اس طرح سے پڑھو کہ جس طرح کے اپنے اجتماعات میں پڑھتے ہو۔ ابو ہارون نے اس بار ایک قصیدہ سوز و گداز کے ساتھ پڑھا، امام (‏ع) بلند آواز سے روئے اور پردہ نشینوں کے رونے کی آواز بھی سنائی دی۔

وسائل الشيعه، ج 14، ص‏593

8۔ دنیاوی امور کا اہتمام نہ کرنا:

یوم عاشور کو قلب و ذہن حسینی واقعے سے دور کر کے کسی اور چيز کی طرف متوجہ نہیں کرنا چاہیے۔ دنیاوی امور کا اہتمام اس توجہ کو کم کر دیتا ہے اور تحریک حسینی کو فراموشی سے دوچـار کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیاوی امور اور معاملات کو ترک کرنا، روز عاشور کے آداب کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔

سفينه البحار، ج 2، ص‏196

9۔ مجالس عزا اور ماتم کی برپائی:

سوگواری کی مجالس کا اہتمام و انعقاد بطور خاص عاشورا کے دن فقہ عاشورا کا ایک نمایاں اقتباس ہے۔ آئمہ آل رسول (ص) نے اس موضوع کی طرف خاص توجہ مبذول فرمائی ہے۔ کبھی وہ خود مردوں اور خواتین کی شاندار مجالس عزا بپا کرتے تھے اور امام حسین (ع) کے لیے بہت زیادہ آنسو بہاتے تھے۔

بحار الانوار، ج 45، ص‏257

الغدير، ج 2، ص 192

ایک دن امام صادق (ع) نے مجلس عزا کا اہتمام کیا، ایک شیر خوار بچہ بھی مجلس میں لایا گیا اور امام (ع) کی گود میں دیا گیا۔ امام (ع) نے یہ حالت دیکھی تو آپ (ع) کی بکاء شدید تر ہو گئی اور مجلس زيادہ پر ولولہ اور پرجوش ہوئی۔

ماساه الحسين، الخطيب الكاشى، ص 151،

12۔ پاکیزہ لباس پہننا:

روز عاشورا کے آداب میں سے ایک پاکیزہ لباس زیب تن کرنا ہے۔

 مفاتیح الجنان ص‏526

13۔ قاتلوں پر لعن کرنا:

عاشورا کے آداب میں سے ایک امام حسین (ع) کے قاتلین پر لعن کرنا ہے۔ اس روز یہ جملہ ایک ہزار بار پڑھنا مستحب ہے:

اللهم العن قتلة الحسین علیه السلام۔

 مفاتيح الجنان، ص‏527

14۔ ہنسی خوشی ترک کرنا:

ہنسی اور خوشی کو ترک کرنا، روز عاشورا کے آداب میں سے شمار کیا گیا ہے۔

مفاتيح الجنان، ص‏527

15۔ لہو و لعب ترک کرنا:

لہور و لعب ایک ناپسندیدہ امر ہے اور عاشورا کے دن یہ زیادہ ہی ناپسندیدہ ہو جاتا ہے۔ لہو و لعب کو ترک کرنا روز عاشورا کے آداب میں شمار کیا گیا ہے۔

مفاتيح الجنان، ص‏527

امام حسین (ع) کی عزاداری کے موجودہ کیفیت کے مراسم کہاں سے شروع ہوئے ہیں ؟

پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت حمزہ کے سوگ میں گریہ و زاری کی ہے اور اس سلسلہ میں گریہ و زاری کرنے کے لیے دوسروں کی ہمت افزائی بھی کی ہے۔ شیعوں کے آئمہ اطہار (ع) نے بھی کربلا کے واقعہ کو مختلف صورتوں میں زندہ رکھنے کے لیے ہمت افزائی کی ہے، مثال کے طور پر:

الف: عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنے کی ہمت افزائی۔

ب: رونے اور رولانے کی ہمت افزائی۔

ج: مرثیہ کہنے کے سلسلہ میں شاعروں کی ہمت افزائی۔

د: امام حسین (ع) کی زیارت کرنے کی تاکید و ترغیب۔

مجموعی طور پر دینی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کی تاکید کی گئی ہے، وہ بنیادی طور پر عزاداری قائم کرنا ہے، لیکن عزاداری کی کیفیت کو ہر شہر اور علاقے کے رسومات پر چھوڑا گیا ہے اور جب تک شارع مقدس کی طرف سے کسی خاص قسم کی عزاداری کی ممانعت نہ کی گئی ہو یا کسی خاص قسم کی عزاداری قائم کرنا اسلام اور مکتب اہل بیت (ع) کی قدروں اور اصول کے منافی نہ ہو تو ہم اس قسم کی عزاداری کے جائز ہونے کے قائل ہو سکتے ہیں۔

تفصیلی جوابات:

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

1- تمہید کے طور پر قابل بیان ہے کہ، تاریخ انسان کی برجستہ اور عظیم شخصیتوں کی یاد کو زندہ رکھنا چاہیے اور ان کی قابل پسند صفات اور حالات کی طرف خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے، اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) اور آئمہ معصومین (ع) شہیدوں اور خاص طور پر سرور شہیدان حضرت امام حسین (ع) کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف طریقوں سے استفادہ فرماتے تھے۔

اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عزاداری کی مجلسوں کا انعقاد اور شہدائے کربلا کی شجاعتوں، جاں نثاریوں اور قربانیوں کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے تقریروں کے جلسات منعقد کرنا، ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے معنی میں ہے اور اس طرح ان قربانیوں کی قدر دانی کے علاوہ  یہ مجلسیں ، ان کے پیغام و مفاہیم کو انسانوں تک پہنچانے کے لیے درس کی کلاس شمار ہوتی ہیں۔

2- شہداء پر گریہ و زاری کرنا اور ان کے لیے عزاداری کرنا:

ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ:

الف: جب حضرت حمزہ شہد کیے گئے، تو ان کی بہن، صفیہ بنت عبد المطلب ان کو ڈھونڈنے نکلیں، انصار، ان کے اور حضرت حمزہ کے جنازہ کے درمیان حائل ہو گئے، پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

انھیں آزاد چھوڑ دو، صفیہ آ گئیں اور حضرت حمزہ کے جنازے کے پاس بیٹھ گئیں، چونکہ وہ بلند آواز میں رو رہی تھیں، اس لیے پیغمبر اسلام (ص) بھی رو رہے تھے اور جب وہ آہستہ رو رہی تھیں، تو پیغمبر اکرم (ص) بھی آہستہ روتے تھے۔ فاطمہ بنت محمد (ص) بھی رو رہی تھیں اور آنحضرت (ص) بھی ان کے ساتھ رو رہے تھے اور فرماتے تھے:

تیری مصیبت کے برابر ہرگز مجھے کوئی بڑی مصیبت سے دوچار نہیں ہونا پڑا ہے، اس کے بعد جناب صفیہ اور حضرت فاطمہ (س) سے مخاطب ہو کر فرمایا: بشارت دیجئے کہ ابھی جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ سات آسمانوں پر حمزہ کے لیے لکھا گیا ہے کہ وہ شیر خدا اور شیر رسول خدا (ص) ہیں۔

ب: جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرم (ص) مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، اس دوران  آنحضرت (ص) ایک انصار کے گھر کے نزدیک سے گزرے، آپ نے سنا کہ اس گھر کے ساکن اپنے مقتولین پر گریہ و زاری کر رہے تھے، آنحضرت (ص) کی آنکھیں پر نم ہو گئیں اور روتے ہوئے فرمایا: لیکن حمزہ پر کوئی نہیں رو رہا ہے اور جب سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر، محلہ بنی عبد اللہ شہل کی طرف لوٹے تو اپنے قبیلہ کی خواتین سے کہا: اپنے کام کو چھوڑ دو اور جا کر پیغمبر اکرم (ص) کے چچا پر گریہ و زاری کرو۔

طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ، ، ج 3، ص1039 اور 1040،

ج: پیغمبر اسلام (ص) نے ہجرت کے آٹھویں سال، جناب جعفر بن ابیطالب، زید بن حارثہ اور عبد اللہ بن رواحہ کو لشکر کے ساتھ رومیوں سے لڑنے کے لیے شام بھیج دیا، یہ لشکر شام میں بلقاء کے علاقہ میں " موتہ " نامی ایک سر زمین پر پہنچا، زید نے پرچم کو بلند کیا اور جنگ لڑی، یہاں تک کہ شہید ہوئے، اس کے بعد جعفر ابن ابیطالب نے پرچم کو بلند کیا، ان کے دائیں بازو کو تن سے جدا کیا گیا، پھر انھوں نے پرچم کو بائیں بازو سے بلند کیا اور شجاعت کے ساتھ لڑتے رہے، اس کے بعد ان کے بائیں بازو کو بھی تن سے جدا کیا گیا اور ان کے بدن کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ رسول خدا نے ان کی شہادت کے بعد فرمایا:

علی مثل جعفر فلتبک البواکی،

جعفر جیسوں پر عورتوں کو نوحہ اور گریہ و زاری کرنی چاہیے،

جناب جعفر کی شریک حیات اسماء بنت عمیس نے کہا:

جب میں نے رسول خدا (ص) سے جعفر کی شہادت کی خبر سنی، میں نے آواز بلند کی: واجعفراہ، اور رسول خدا (ص) کی بیٹی فاطمہ (س) نے بھی میری آواز سن کر فریاد بلند کی: وا ابن عماہ، وائے، میرے چچا زاد بھائی، اس کے بعد رسول خدا (ص) اپنی عبا کو کھینچ رہے تھے اور بے اختیار آنسو بہا رہے تھے اور باہر جا کر فرمایا کہ:

علی جعفر فلتبک البواکی،

رونے والی عورتوں کو جعفر پر رونا چاہیے۔

اس کے بعد فرمایا:

یا فاطمہ اصنعی لعیال جعفر طعاما فانھم فی شغل،

اے فاطمہ! جعفر کے اہل و عیال کے لیے کھانے کا اہتمام کرنا، کیونکہ وہ مصیبت میں ہیں۔

اسی لیے فاطمہ (س) نے تین دن تک ان کے لیے کھانے کا اہتمام کیا اور اس کے بعد بنی ہاشم میں یہ رسم جاری رہی۔

د: رسول خدا (ص) پر حضرت فاطمہ (س) کا گریہ کرنا:

سعید ابن سلمان نے عباد ابن عوام سے، اور انھوں نے ہلال ابن خباب سے، انھوں نے عکرمہ سے، انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ:

جب سورہ نصر نازل ہوئی، پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت فاطمہ (س) کو بلا کر فرمایا:

مجھے میری موت کی خبر دی گئی ہے، فاطمہ (س) کہتی ہیں کہ: میں نے رویا، پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: نہ رونا، تم میرے اہل بیت

میں سے پہلی ہو گی، جو مجھ سے ملحق ہو گی، اور میں نے ہنسا شروع کر دیا۔

ھ: شیعوں کے آئمہ معصومین (ع) کے توسط سے امام حسین (ع) کی عزاداری منعقد کرنے کے مختلف طریقے:

عزاداری کی مجالس منعقد کرنا:

آئمہ اطہار (ع) نے امام حسین (ع) کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے جس طریقہ کار سے استفادہ کیا ہے، ان میں سے کربلا کی مصیبت پر عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنا، رونا، رلانا اور مناسب زمانوں میں اس حادثہ کی یاد تازہ رکھنا ہے۔

امام سجاد (ع) اپنی پوری امامت کے دوران عاشورا کے لیے مسلسل عزادار رہتے تھے، انھوں نے اس مصیبت کے سلسلہ میں اس قدر گریہ کیا کہ انھیں " بکائین " یعنی بہت زیادہ گریہ کرنے والے کا لقب دیا گیا تھا۔

وسائل الشیعة، ص 2، ص 922.

علقمہ حضرمی نقل کرتے ہیں کہ:

امام باقر (ع) عاشور کے دن اپنے گھر میں امام حسین (ع) کے لیے عزاداری کی مجلس منعقد کرتے تھے اور آپ (ع) خود بھی اپنے جد امجد امام حسین پر روتے تھے۔ اس سلسلہ میں تقیہ سے کام نہیں لیتے تھے، اور گھر میں موجود افراد سے فرماتے تھے:

حضرت امام حسین (ع) کے لیے سوگ منائیں اور حضرت کی مصیبت پر ایک دوسرے کو تسلیت بھی کہیں۔

وسائل الشیعة، جلد 10، صفحہ 398.

امام صادق (ع) نے داود زقی سے فرمایا:

میں نے جب بھی ٹھنڈا پانی پیا مجھے امام حسین (ع) کی یاد آئی۔

امالی صدوق، ص 142.

حضرت امام رضا (ع) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ:

جب محرم کا مہینہ پہنچتا تھا تو کوئی بھی میرے والد گرامی امام کاظم (ع) کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھتا تھا اور ان پر عاشور کے دن تک غم و اندوہ طاری رہتا تھا، وہ دن ان کے لیے مصیبت اور حزن کا دن ہوتا تھا اور گریہ و زاری کرتے ہوئے فرماتے تھے:

آج وہ دن ہے، جب امام حسین (ع) کو شہید کیا گیا تھا۔

محرم کے مہینے کے اعمال پر مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی.

آئمہ اطہار (ع) امام حسین (ع) کے سوگ میں نہ صرف خود روتے تھے، بلکہ ہمیشہ لوگوں کو حضرت (ع) پر رونے کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ ایک روایت میں آیا ہے:

جو شخص امام حسین پر روئے، یا حتی ایک شخص کو رلائے، اس کا صلہ بہشت ہے اور جو بھی غم و آلام کی حالت پیدا کرے، اس کا اجر بھی بہشت ہے۔

بحارالانوار، ج 24، ص 284.

جو شعراء، کربلا کی مصیبت کو اپنے اشعار میں بیان کرتے تھے اور ان کو محفلوں میں پڑھتے تھے، آئمہ معصومین (ع) کی طرف سے ان کے حق میں لطف و مہربان کی جاتی تھی اور انھیں انعامات دئیے جاتے تھے۔ ایسے افراد میں کمیت اسدی، دعبل خزاعی اور سید حمیری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ، پیغمبر اسلام اور آئمہ اطہار (ع) کی طرف سے گریہ و زاری اور عزاداری کی مجلسیں منعقد کرنے کی نہ صرف ممانعت نہیں کی گئی ہے، بلکہ آنحضرت (ص) اور معصومین (ع) کی طرف سے گریہ و زاری اور عزاداری کی مذکورہ مثالوں کے پیش نظر، کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے کہ عزاداری و گریہ و زاری ، پیغمبر اور آئمہ اطہار (ع) کی سیرت رہی ہے، اور حتی آج بھی اس زمانے میں ہمارے زمانے کے زندہ و حاضر امام، امام زمان (ع) صبح و شام اپنے جدّ امجد امام حسین (ع) پر خون کے آنسو بہاتے ہیں۔

لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ عزاداری کی کیفیت تمام زمان و مکان میں یکسان ہو ؟ اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ دینی تعلیمات سے مجموعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر ہم سے گریہ و زاری اور عزاداری کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن عزاداری کی کیفیت کو ہر شہر اور علاقہ کے عرف پر چھوڑ دیا گیا ہے اور جب تک شارع مقدس، عزاداری کی کسی خاص قسم کے بارے میں ممانعت نہ کرے۔ یا عزاداری کی کوئی خاص کیفیت اسلام اور مکتب اہل بیت (ع) کے بنیادی اصولوں اور قدروں سے منافات نہ رکھتی ہو، تو ہم عزاداری کی اس خاص کیفیت کے جائز ہونے کے قائل ہو سکتے ہیں۔

اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لیے، ہم ذیل میں، صحیح عزاداری کے طریقہ کار کے بارے میں  ملتا ہے کہ:

اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ امام حسین (ع) کی عزاداری منعقد کرنا شیعوں کا ایک عظیم شعائر شمار ہوتا ہے، جس نے پوری تاریخ میں مکتب تشیع کی قدروں کی حفاظت کی ہے اور اسے نسل بہ نسل منتقل کیا  ہے۔

جیسا کہ روایت میں آیا ہےکہ، امام حسین (ع) اسلام کی بقا کے عامل تھے اور بہ الفاظ دیگر نقل کیا گیا ہے کہ:

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:

حسین منی و انا من حسین،

کہ اس عبارت کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ حسین (ع) خاتم الانبیاء (ص) کے فرزند اور نواسے ہیں اور رسول اکرم نے اگر فرمایا ہے کہ: و انا من حسین، وہ اس لیے ہے کہ مکتب اہل بیت (ع) جو اسلام کی حقیقت ہے اور حقیقی اسلام اس میں متجلی ہوا ہے، امام حسین (ع) کے ذریعہ باقی و زندہ رہا ہے۔ اس مکتب کی بقاء ان ہی عزاداری کی مجلسوں اور امام حسین کی طرف توجہ کرنے کے سبب سے ہے، لیکن ان مجلسوں کو منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ، جو موقع فراہم ہوتا ہے، اس سے عام طور پر امام حسین (ع) کے مکتب کی معرفت حاصل کرنے اور خاص کرامات سے متعلق مسائل کی طرف توجہ کرنے کا استفادہ کرنا چاہیے۔ قابل توجہ بات ہے کہ اس قسم کی مجالس کے ثقافتی مسائل اس طرح ہونے چاہیے جو امام حسین (ع) کے نصب العین اور قدروں کے متناسب ہوں اور کسی صورت میں اسلامی قدروں اور معیاروں کے منافی نہیں ہونے چاہیے۔ سب سے اہم مسئلہ جس کی طرف ان مجلسوں میں خاص توجہ کی جانی چاہیے، محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔ امام حسین (ع) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی راہ پر شہید ہوئے ہیں، امر بالمعروف، یعنی لوگوں کو نیکیوں کی طرف دعوت دینا اور نہی عن المنکر، یعنی لوگوں کو برائیوں اور جن امور کی دین کی طرف سے ممانعت کی گئی ہے، سے روکنا ہے۔ اس بناء پر امام حسین (ع) کی مجلسیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مصداق ہونی چاہیے۔ یعنی ان مجلسوں میں شرکت کرنے والوں کو نیکی اور خیر اور جن امور کا خداوند متعال سے امر کیا گیا ہے، کی دعوت دینی چاہیے اور با الفاظ دیگر ان امور کی نہی کی جانی چاہیے، جن کے بارے میں خداوند متعال نے منع کیا ہے اور اگر خدانخواستہ ان مجلسوں میں کسی قسم کا منکر متحقق ہو جائے اور یا کسی معروف کے بارے میں غفلت برتی جائے، مثال کے طور پر نماز کے بارے میں بے اعتنائی کی جائے اور دوسرے مقدسات کی طرف توجہ نہ کی جائے، تو بیشک یہ امام حسین (ع) کے نصب العین کے متناسب نہیں ہے۔

اس قسم کی مجالس میں شرکت کرنے والے، ان مجلسوں کو منعقد کرنے والے اور سامعین اور خطاب کرنے والوں پر ایک مسئولیت ہے۔ ہم سب مسئول ہیں کہ امام حسین کے نصب العین کی حفاظت کریں اور ہر ایک کو اپنی حیثیت کے مطابق اس ذمہ داری کو نبھانا ہے، ان مجلسوں میں خطاب کرنے والوں کے مطالب ایسے ہونے چاہیے کہ، دین کے بارے میں لوگوں کے علم و دانش میں اضافہ کر سکیں اور ان کے دینی اعتقادات قوی تر ہو جائیں۔ اسلام میں دینی حقائق ، قدروں اور معیاروں پر مبنی ہیں۔ اسلام، عقل، دانائی، معرفت اور بصیرت کا دین ہے، نہ جہل و خرافات و افسانوں کا دین۔ اس بناء پر ان مجلسوں میں خطاب کرنے والوں کو سامعین کے سامنے وہ معلومات پیش کرنی چاہیے، جو اسلام کے بارے میں صحیح ہوں۔ اگر خدا نخواستہ اسلام کے بارے میں غلط مطالب بیان کیے جائیں اور لوگوں کے سامنے غلط معلومات رکھی جائیں، تو یہ کام بذات خود ایک قسم کا منکر پھیلانے کے مترادف ہو گا اور امام حسین (ع) کے نصب العین کے خلاف ہو گا۔

اگر یہ جلسات اس طرح ہوں کہ خرافات اور باطل مطالب کے ذریعے لوگوں کے ایمان کو متزلزل کیا جائے اور ہماری مفکر اور عقلمند نسل کو اس قسم کی مجالس کے بارے میں متنفر بنائیں، تو یہ امام حسین (ع) کے نصب العین اور اسلامی قدروں کے متناسب نہیں ہے۔ امام حسین (ع) کی عزاداری کی مجلسیں دینی حقائق، معارف اور امام حسین (ع) سے عشق و محبت پر مبنی ہونی چاہیے۔ اگر ان مجلسوں میں کوئی ذاکر امام حسین کی مصیبت بیان کرے، تو اسے لوگوں میں وہ مطالب بیان کرنے چاہیے، جو تاریخی لحاظ سے مستند اور امام حسین (ع) کی شان کے متناسب ہوں۔ ان کو تاریخی حقائق اور امام حسین (ع) اور ان کے خاندان، با وفا اصحاب اور اولاد کے مصائب کو مناسب اور خوبصورت انداز میں بیان کرنا چاہیے اس سلسلہ میں یہ مطالب شعر کی زبان میں بیان کرنا زیادہ مناسب ہے۔ لیکن تاریخی لحاظ سے جو مطالب مستند نہ ہوں یا اسلامی مفاہیم کے متناسب نہ ہوں، انہیں امام حسین (ع) کے معارف کے عنوان سے یا امام حسین (ع) کے عشق کے عنوان سے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام میں جو عشق قابل قدر ہے، وہ عقل و خرد پر مبنی عشق ہے، جو حقیقت میں عقل کو نورانیت بخشتا ہے، دین کی معرفت حقیقت میں تجلی بخش ہونی چاہیے اور اسے ایمان اور اعتقاد کے روپ میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ نہ یہ کہ ہم لوگوں کے سامنے دین کے بارے میں، تاریخ اور عقل کے خلاف مطالب بیان کریں اور بہانہ یہ ہو کہ ہم امام حسین (ع) کے عشق، مقصد و ہدف کو معاشرے میں پھیلانا چاہتے ہیں۔

چند مفید تجاویز:

مذکورہ اصولوں کی روشنی میں اپنے یہاں عزاداری کے بارے میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

1- سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک مسلمانوں کو اموی اقتدار سے نجات دلانے ، شریعت کی بالا دستی ، اسلامی احکام کے نفاذ اور اپنے حق کی بازیابی کے لیے تھی۔ لہذا ہماری مجالس ، ہمارے نوحے اور مرثیے ایسے مضامین پر مشتمل ہوں جو لوگوں میں ان مقاصد کا شعور پیدا کریں ، ان مقاصد کی اہمیت ان کے اذہان میں بٹھائیں ، اور ان اہداف سے وابستہ کر کے انہیں ان کے حصول کے لیے متحرک کریں۔ یقین جانیے کہ اگر ہماری عزاداری ان خطوط پر منعقد ہو تو اس کے ذریعے بڑی تعداد میں ایسے افراد کی تربیت کی جا سکتی ہے کہ جو اسلام اور مسلمانوں اور خود ہماری ملت کو موجودہ زوال و انحطاط کی اس کیفیت سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر انجام دیں گے۔ یہی نہیں بلکہ پہلے سے ان مقاصد کے لیے متحرک قوتیں بھی عزاداری کے اجتماعات کو ستائش و تحسین کی نظر سے دیکھ کر اس میں شمولیت پر آمادہ ہوں گی۔

2- عزاداری کی رسوم اور ان کے اجتماعات سے رنج و الم اور سوگواری ظاہر ہو۔ سیاہ لباس کے ساتھ ساتھ ہمارے چہروں سے بھی غم و اندوہ کا اظہار ہو۔ ہم جہاں سے گزریں دیکھنے والوں کو محسوس ہو کہ اپنی کسی عزیز ترین ہستی کے غم میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں، لیکن اگر کے برعکس ہم شور و غل مچاتے ، ہنستے مسکراتے ہوئے گزریں گے تو لوگوں پر یہ تاثر نہیں پڑے گا۔

3- عزاداری کے دوران شرعی اصولوں کی پابندی کا سنجیدہ اہتمام ہونا چاہیے، تا کہ اس کے اجتماعات پر مذہبی رنگ غالب رہے۔ مثلا مشاہدہ ہے کہ بہت سی مجالس کا وقت مقرر کرتے ہوئے اوقات نماز کا خیال نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے بعض مجالس عین نماز کے وقت شروع ہوتی ہیں اور بسا اوقات مجالس اور جلوس کے درمیان نماز کا وقت آ جاتا ہے، بلکہ کچھ جلوس تو عین اس وقت برآمد ہو رہے ہوتے ہیں جب مسجد سے اذان کی آواز بلند ہو رہی ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھنے والے غیروں پر عزاداروں کی دینی احکام سے بے توجہی کا تاثر پڑتا ہے اور اپنے لوگوں میں نماز سے تساہل کا رحجان تقویت پاتا ہے۔ جبکہ آئمہ اطہار نے نماز میں سستی کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔

4- جلوس عزا کے دوران ہر قسم کے غیر شرعی اور غیر مہذب اعمال سے اجتناب کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ جلوس مقصد حسین کی تشہیر کے لیے نکالے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر لوگوں میں امام حسین سے محبت اور ان کے مکتب سے لگاؤ پیدا ہونا چاہیے، لیکن اگر ان کے دوران غیر شرعی ، غیر مہذب اور لوگوں کے لیے باعث اذیت و آزار کام ہوں تو لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

5- اسی طرح جلوسوں کے دوران غیر ضروری طور پر راستے نہیں بلاک کرنے چاہیں۔ ایسے مقامات سے جلوسوں کو مقررہ وقت اور ہر ممکن سرعت کے ساتھ گزارنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

6- لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں بھی ضرورت اور لوگوں کے آرام و آسائش کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ بالخصوص ایسے اوقات میں ضرور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جن میں لوگ عام طور پر آرام کرتے ہیں، کیونکہ عام طور پر گھروں میں بوڑھے اور مریض لوگ ہوتے ہیں۔

7- عزاداری، حسینی پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ ہے۔ لہذا اس کے دوران ہمارا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں رکاوٹ بنے۔ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا کر کسی طور انہیں اپنا ہمنوا نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا دوسروں کو اذیت کرنے والی گفتگو خواہ وہ خفیف اشاروں کنایوں کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو، حسینی پیغام کو عام کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ایسی گفتگو سے پرہیز دینی تقاضا بھی ہے اور تبلیغ کی حکمت بھی۔

اَلسَّلامُ عَلَى الْحُسَیْنِ وَ عَلى عَلِىِّ بْنِ الْحُسَیْنِ

وَ عَلى اَوْلادِ الْحُسَیْنِ و عَلى اَصْحابِ الْحُسَیْنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 





Share
1 | احمد | | ١١:٣٢ - ٢٣ July ٢٠٢٠ |
بس عزاداری کو ایرانی سیاست کے لے الہ کار بناو اور جو ایرنی ہٹلر اور سقیفہ ایرن کے خلیفہ خامنی کو نہ مانے اس پر لعنت کرو اور دشمن اسلام عمر کو رمز اسلام نناو لعنت لعنت ہزار لعنت

جواب:
 جناب مطلب کے مطابق کمینٹ کیا کریں ،اپ کا کمنٹ آپ کی شخصیت کی نمائندگی کرتا  ہے ۔
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی