2024 March 19
شریکۃ الحسین، ام المصائب حضرت زینب بنت علی (س) کی وفات
مندرجات: ١٤٣٦ تاریخ اشاعت: ٠١ April ٢٠١٨ - ١٧:٠٧ مشاہدات: 17489
یاداشتیں » پبلک
شریکۃ الحسین، ام المصائب حضرت زینب بنت علی (س) کی وفات

حضرت زینب (س) کی سیرت و کردار:

میدان کربلا میں 10 محرم الحرام، 61 ہجری کے دن اگر کڑیل جوانوں، بوڑھوں، بچوں، شیرخواروں، مہمانوں، اصحاب محترم اور خاندان رسول اللہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر تاریخ رقم کی ہے تو اس معرکہ حق و باطل میں خواتین جنہیں عام طور سے صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے، نے بھی ایسا کردار ادا کیا ہے کہ اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، ان خواتین میں بنت علی (ع) سیدہ زینب سلام اللہ کا نام تو تاریخ کربلا میں انمٹ نقوش رکھتا ہے۔ حضرت امام حسین (ع) بے حد محبت رکھنے والی سیدہ زینب سلام اللہ نے کربلا کی داستان کا وہ باب رقم کیا، جسے امام حسین (ع) نے ادھورا چھوڑا تھا۔ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد بہت زیادہ سخت وقت تھا، جب آپ کا کردار شروع ہوا۔ حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کے وقت اور اس کے بعد سیدہ زینب سلام اللہ پر کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں، جنہیں آپ نے بہت خوبصورتی کیساتھ ادا کیا، یہ بات تو تاریخ کے ورق ورق پر لکھی واضح دکھائی دیتی ہے کہ دین اسلام کو بقاء امام حسین اور ان کے اصحاب کی شہادت سے نصیب ہوئی اور اس مقصد کی تکمیل سیدہ زینب سلام اللہ کی اسیری اور کوفہ و شام کی راہوں اور درباروں میں بلیغ خطبات دینے سے ممکن ہوئی۔ امام حسین (ع) کے اہداف کو مختلف مقام پر خاص طور سے دربار یزید میں اسلامی ملکوں کے نمائندوں کے درمیان ضمیر کو جگا دینے والے بے نظیر خطبے کے ذریعہ بیان کرنا، اور بنی امیہ کی حکومت اور اس کے افکار کو زمانہ بھر کے سامنے رسوا کر دینا، یقیناً یہ دلیری اور شجاعت فقط اور فقط عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب سلام اللہ کی ہے۔

کہتے ہیں کہ سیدہ زینب سلام اللہ کو بچپن ہی سے امام حسین (ع) سے اتنی محبت اور الفت تھی کہ ایک رات بھی بغیر بھائی حسین (ع) کے سکون نہیں ملتا تھا، جس کی دلیل حضرت علی (ع) کا عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی پیش کش پر دو شرطوں کا رکھنا ہے، ان دو شرطوں کو تاریخ کی کتب نے اس طرح ذکر کیا ہے۔

1۔ میری بیٹی (زینب کبری ) حسین (ع) سے بے حد محبت رکھتی ہے، لہذا میں اس شرط پر تمہارے عقد میں دوں گا کہ تم اسے 24 گھنٹے میں ایک بار ضرور حسین (ع) سے ملاقات کی اجازت دو گے، چونکہ زینب حسین (ع) کو دیکھے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتی۔

2۔ جب بھی امام حسین (ع) سفر کریں اور زینب کو ساتھ لے جانا چاہیں تم زینب کو نہیں روکو گے اور حسین کے ساتھ جانے کی اجازت دو گے۔

اس قدر بہن بھائیوں کا پیار اور محبت، اور عصرِ عاشور بھائی کی لاش سامنے رکھی ہے اور سیدہ کا امتحان و آزمائش شروع ہو گیا، کتنا حوصلہ چاہیے اس امتحان سے گذرنے کیلئے اگر یہاں پر سیدہ ہمت ہار جاتیں تو کربلا کے بیابان صحرا میں لکھی گئی داستان شجاعت و حریت کا علم کسی کو بھی نہ ہوتا، یقیناً امام حسین (ع) اور ان کے جانثار ساتھیوں کی بے مثال قربانیاں رائیگاں چلی جاتیں اور آج ہر سو یزیدیت کا راج ہوتا۔ سیدہ زینب سلام اللہ نے اس موقع پر سب سے پہلے مخدرات عصمت و طہارت پاک بیبیوں اور شہداء کی بیوگان و بچوں کی ہمت نہیں ٹوٹنے دی، ان کے حوصلے بلند رکھے اور انہیں جلتے خیام اور یزیدیوں کی لوٹ مار سے بچایا، اس موقعہ پر سب سے اہم ترین کام امام زین العابدین جو حالت بیماری میں خیمے میں موجود تھے، ان کو شمر کے مظالم سے بچایا اور شمر کے سامنے ڈٹ گئیں اور یہ کہا کہ تمھیں میری لاش سے گزر کر جانا ہو گا۔ اس طرح جلتے خیام سے امام زین العابدین کو اٹھا لائیں اور امامت کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا۔

تقوی اور دین داری کی یہ حالت تھی کہ اتنے سخت حالات میں بھی اپنی نماز شب کو نہیں بھولیں اور حالت اسیری میں جب ہاتھ بندھے ہوئے تھے تو اونٹوں پر سوار تھیں تو نماز کی ادائیگی ترک نہ کی اس طرح سب پر اہمیت نماز بھی واضح کر دی اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ جنہیں باغی قرار دیکر شہید کیا گیا وہ اسلام کے اصل وارث اور اس نماز کو بچانے والے تھے۔ اس کے بعد بازاروں اور درباروں میں دیئے گئے خطبات بھی تاریخ کے سنہرے ابواب ہیں، ان خطبات نے ہی اس صورت حال کو تبدیل کر دیا جو یزیدیوں نے اپنے حق میں بنائی تھی۔ یہ خطبات کیا تھے ؟

حضرت زینب سلام اللہ کے خطبات سے چند اقتباس:

حضرت زینب سلام اللہ عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں یوں گویا ہوئیں، خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے رسول (ص) کے ذریعہ ہمیں عزت بخشی اور گناہ سے دور رکھا، رسوا تو صرف فاسق ہوتے ہیں، جھوٹ تو صرف (تجھ جیسے ابن زیاد کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اپنی دلیری کا یوں مظاہرہ کیا) بدکار بولتے ہیں، الحمد للہ کہ ہم بدکار نہیں ہیں۔

بازار کوفہ میں کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
اے مکار، غدار، خائن کوفیو! خدا کبھی تمہارے آنسوؤں کو خشک نہ کرے، تمہاری قسمت میں سوائے خدا کی ناراضگی اور عذاب دوزخ کے سوا کچھ نہیں، رؤو اور خوب رؤو چونکہ تمہارے نصیب میں صرف رونا ہی لکھا ہے، ذلت و خواری تمہارا مقدر بن چکی ہے، تم نے کام ہی ایسا کیا ہے کہ قریب ہے آسمان زمین پر آ جائے، زمین پھٹ جائے، پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، اگر خدا کا عذاب ابھی تم پر نہیں آیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم محفوظ ہو، خدا عذاب کو (ہمیشہ) فورا نہیں بھیجتا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ مظلوموں کو انصاف نہ دلائے۔ سیدہ کی فصاحت و بلاغت اور لب و لہجہ کا یہ حال تھا کہ ہر کوفی حیران تھا کہ کیا علی پھر دوبارہ آ گئے ہیں۔ باپ اور بیٹی کے درمیان ایسی فکری اور لسانی شباہت تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

خطبہ حضرت زینب یزید کے دربار میں خطاب کیا کہ:

خدا نے سچ فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے برے اور گھناؤنے کام کیے ان کی سزا ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے الٰہی آیات کی تکذیب کی، اور اس کا مذاق اڑایا۔ اے یزید کیا تو الٰہی فرمان کو بھول گیا (کہ خدا نے فرمایا) کافر خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں، اگر ہم نے مہلت دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان کی بھلائی چاہتے ہیں ؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ ہم نے اس لیے انہیں مہلت دی ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ گناہ کر سکیں (اور آخر کار) سخت ترین عذاب میں گرفتار ہوں (اور ان کی بخشش کا کوئی راستہ نہ رہ جائے) اے اس آدمی کے بیٹے، جسے میرے جد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسیر کرنے کے بعد آزاد کر دیا، کیا یہی عدل و انصاف ہے کہ تو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو پس پردہ بٹھائے اور رسول کی بیٹیوں کو اسیر کر کے دیار بدیار پھرائے۔ اے یزید، تو نے ابھی اپنے آباؤ اجداد کو یاد کیا ہے (چونکہ ہمارے جوانوں کو شہید کر دیا ہے) گھبراؤ نہیں تم بھی جلد انہیں کے پاس پہنچنے والے ہو اور پھر تمنا کرو گے، اے کاش تمہاری زبان گونگی ہو گئی ہوتی ( اور اہل بیت (ع) کو برا بھلا نہ کہتے ) اے کاش تمہارا ہاتھ شل ہو گیا ہوتا (چونکہ تم نے میرے بھائی حسین (ع) کے دندان مبارک کی چھڑی سے بے حرمتی کی) جو لوگ راہ خدا میں قتل کر دیئے گئے ہیں انہیں ہر گز مردہ نہ سمجھنا (بلکہ) وہ زندہ ہیں، اور اللہ کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔ (ہمارے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ خدا حاکم ہے اور محمد ص تمہارے  دشمن، اور جبرئیل مددگار)۔ یزید تیری حیثیت میری نگاہ میں نہایت پست و حقیر ہے اور میں بے پناہ تیری ملامت کرتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل اور خوار سمجھتی ہوں۔ یزید تمہیں ہرگز یہ گمان نہ ہو کہ تمہاری حشمت و جلالت اور حکومت سے میں مرعوب ہو جاؤں گی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لشکر خدا طلقاء (آزاد کردہ غلام اور غلام زادوں) اور لشکر شیطان کے ہاتھوں تہ تیغ کر دیا جائے، اور ہمارے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کر لے۔ خدا اپنے بندوں پر ظلم روا نہیں کرتا، ہم تو بس اسی سے شکوہ کرتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں۔ لہذا جو فریب و حیلہ چاہے کر لے اور جتنی طاقت ہے آزما لے اور کوشش کر کے دیکھ لے، خدا کی قسم ہمیں اور ہماری یادوں کو (مومنین کے دل سے) نہ مٹا سکے گا، اور ہمارے (گھر میں) نزول وحی کو کبھی جھٹلا نہ سکے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمارے بزرگوں کو سعادت و مغفرت کے ساتھ اس دنیا سے اٹھایا اور ان کے بعد والوں کو مقام شہادت اور حجت پر فائز کیا۔

سیدہ کے ان خطبات نے انقلاب کا آغاز کر دیا خصوصی طور پر جب آپ نے یزید کے دربار میں اسے آئینہ دکھایا اس حال میں کہ آپ اسیر تھیں آپ کے بھائی کا سر مبارک اس کے سامنے تشت میں رکھا تھا اور وہ نواسہ رسول (ع) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر توہین کر رہا تھا، مختلف ممالک کے سفراء کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ تماشا دیکھیں مگر تماشا دکھانے کے خواہش مند خود ان کے سامنے تماشا بن گئے۔ شاعر نے اسی لیے کہا ہے کہ:

کربلا دو باب است کربلا و دمشق

یکے حسین رقم کرد دیگرے زینب

امام حسین (ع) نے اگر لق و دق صحرا میں کربلا کے نام سے اسلام کی بنیادوں کو قائم و دائم کیا تو، بہن نے اس بنیاد پر کوفہ شام کے درباروں و بازاروں میں خطبات دیکر اسلام کی ایسی پختہ عمارت بنا دی کہ پھر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اس انداز میں اسلام پر وار کرے۔ امام (ع) نے اگر شہر کربلا کو آباد کیا، امام (ع) نے اگر کربلا کے گمنام گوشہ و صحرا میں عالم انسانیت کیلئے اپنا لہو بہایا تو ان کی شریکہ و سوگوار بہن نے ان خون کے قطروں کی سرخیوں کو کربلا سے کوفہ، کوفہ سے دمشق تک پہنچایا۔ نواسہ رسول، سید الشہداء کی اسیر بہن نے حالت اسیری میں رہ کر بھائی کی آواز استغاثہ کو شہر بہ شہر یعنی عالم انسانیت کی بستی بستی میں پہنچا دیا۔ سیدہ زینب سلام اللہ کی تبلیغ کا اثر کوفہ و شام کے ان چلتے پھرتے لاشوں اور مردہ ضمیر انسانوں پر ضرور ہوا۔ انہی میں سے بعد ازاں توّابین پیدا ہوئے اور انتقام کا نعرہ لگاتے ہوئے اس وقت کی حکومت کے مقابلے میں سامنے آ گئے ۔

وہ کس قدر مبارک و مسعود گھڑی تھی، جب پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ رہی تھی ۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں ان کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیا تھا ۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر میں تھے، علی ابن ابی طالب (ع) نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کہی اور دیر تک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے سب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ دیکھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی نواسی کے لیے کیا نام منتخب کرتے ہیں۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر سلام کر کے رخصت ہوئے اور جب بھی کہیں سے واپس آتے تو سب سے پہلے در سیدہ پر آ کر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور جاتے تھے۔ آج سب، جیسے ہی سفر سے پلٹے سب سے پہلے فاطمہ سلام اللہ کے گھر میں داخل ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ کر سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا۔

روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامّل کے بعد فرمایا: خدا نے اس بچی کا نام " زینب " منتخب کیا ہے۔

فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی (ع) و فاطمہ (س) کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگي بسر کرنے والی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا وجود تاریخ بشریت کا ایک ‏غیر معمولی کردار بن گيا ہے کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمۂ ‏غیر معلمہ اور فہیمۂ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات کی درخشاں قندیل بن گئیں۔

جب بھی ہم جناب زینب سلام اللہ علیہا کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے معنوی کمالات کی تجلیاں، جو زندگی کے مختلف حصول پر محیط نظر آتی ہیں، آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں چاہے وہ اپنی ماں کی آغوش میں مہکتی اور مسکراتی تین چار کی ایک معصوم بچی ہو چاہے وہ کوفہ میں خلیفۂ وقت کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و معرفت کے موتی نچھاور کرنے والی " عقیلۂ قریش " ہو یا کربلا کے خون آشام معرکے میں اپنے بھائی حسین غریب کی شریک و پشت پناہ فاتح کوفہ و شام ہو ہرجگہ اور ہر منزل میں اپنے وجود اور اپنے زریں کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد اور لاثانی نظر آتی ہیں۔

روایت کے مطابق ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ علی ابن ابی طالب (ع) ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے اپنے مہمان کے لیے کھانے کی فرمائش کی، معصومۂ عالم نے عرض کی یا ابا الحسن ! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے صرف مختصر سی غذا ہے جو میں نے زینب کے لیے رکھی ہے، یہ سن کر علی و فاطمہ کی عقیلہ و فہیمہ بیٹی دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اور مسکراتے ہوئے کہا :

مادر گرامی، میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے، میں بعد میں کھا لوں گی اور ماں نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور باپ کی آنکھوں میں مسرت و فرحت کی کرنیں بکھر گئیں:  تم واقعا زینب ہو ، سچ ہے کہ حادثے کسی سے کہہ کر نہیں آیا کرتے مگر بعض افراد حادثوں سے متاثر ہو کر اپنا وجود کھو دیتے ہیں مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گھرانہ، حادثوں کے ہجوم میں بھی اپنے فرائض اور اپنے نورانی وجود کو حالات کی نذر ہونے نہیں دیتا۔ جناب زینب کو بھی بچپن میں ہی نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سایۂ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی درد و مصا‏ئب میں مبتلا مظلوم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا، لیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لیے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کر دیا تھا۔

اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد علی ابن ابی طالب (ع) کے تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو " ثانی زہرا " اور " عقیلۂ بنی ہاشم " جیسے خطاب عطا کرنے پر مجبور ہو گئی۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت کے پھول اس طرح سے اپنے دامن میں سمیٹ لیے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور تفسیر قرآن کے لیے مدینہ اور اس کے بعد علی ابن ابی طالب (ع) کے دور خلافت میں کوفہ کے اندر، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھا تھا، جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی ۔ جناب زینب نے اپنے زمانے کی عورتوں کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا، جہاں بہت سی خواتین آئیں اور اعلی علمی و معنوی مراتب پر فائز ہوئیں۔

حضرت علی (ع) نے اپنی بیٹی جناب زینب کبری کی شادی اپنے  بھائی کے بیٹے جناب عبد اللہ ابن جعفر سے کی تھی، جن کی کفالت و تربیت، جناب جعفر طیار کی شہادت کے بعد خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ذمے لے لی تھی اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد علی بن ابی طالب (ع) نے ہی ان کی بھی پرورش کی تھی اس کے باوجود روایت میں ہے کہ حضرت علی (ع) نے عبد اللہ ابن جعفر سے شادی سے قبل یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جناب زینب کبری کے اعلی مقاصد کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے، اگر وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سفر کریں تو وہ اپنے اس فعل میں مختار ہوں گی۔ چنانچہ جناب عبد اللہ ابن جعفر نے بھی اپنے وعدے پر عمل کیا اور حضرت علی (ع) کے زمانے سے لے کر امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے تک ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور امام وقت کی پشت پناہی کے عمل میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کی حمایت اور نصرت و مدد کی حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد جناب زینب کو اپنے شوہر کے گھر میں بھی آرام و آسایش کی زندگی میسر تھی، جناب عبد اللہ اقتصادی اعتبار سے موفق تھے انہوں نے ہر طرح کی مادی و معنوی سہولیات حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے لیے مہیا کر رکھی تھیں۔ وہ جانتے تھے جناب زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے بھائیوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت ہے اور ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں لہذا وہ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے۔ خاص طور پر جناب زینب امام حسین علیہ السلام سے بہت زیادہ قریب تھیں اور یہ محبت و قربت بچپن سے ہی دونوں میں پرورش پا رہی تھی۔

چنانچہ روایت میں ہے کہ جب آپ بہت چھوٹی تھیں ایک دن معصومۂ عالم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ بابا ! مجھے زینب اور حسین کی محبت دیکھ کر کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے یہ لڑکی اگر حسین کو ایک لمحے کے لیے نہیں دیکھتی تو بے چین ہو جاتی ہے، اس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا : بیٹی ! وہ مستقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں اور سختیوں میں شریک ہو گی " اسی لیے جناب زینب عظیم مقاصد کے تحت آرام و آسائش کی زندگی ترک کر دی اور جب امام حسین نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی حفاظت اور ملت اسلامیہ کی اصلاح کے لیے کربلا کا سفر اختیار کیا تو جناب زینب بھی بھائی کے ساتھ ہو گئیں۔

جناب زینب نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرے میں رونما ہونے والے طرح طرح کے تغیرات بہت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر یہ دیکھ کر کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھا ہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کر رہے ہیں، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہو گئی ظاہر ہے جناب زینب، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لیے امام حسین علیہ السلام سے ساتھ ہوئی تھیں کیونکہ آپ کا پورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا۔

جناب زینب نے واقعۂ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سر بلندی کے لیے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سر فروشی کے سب سے بڑے معرکے کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لیےجاوداں بنا دیا۔ جناب زینب سلام اللہ کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس دوران جناب زینب کبری کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ خداوند کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوشنود رہنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔صبر، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز میں استفادے نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے۔ جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کیے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا ہے جن لوگوں نے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کر کے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی، سر دربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کر کے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کیے ہیں۔ اور اس کے بوجود کہ ظاہری طور پر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے، لیکن جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کر دیا۔

آپ فرماتی ہیں کہ:

خداوند متعال کو تم پر جو قوت و اقتدار حاصل ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور وہ تم سے کس قدر قریب ہے، اس کو پیش نظر رکھ کر گناہ کرنے سے شرم کرو۔

 علم و معرفت حضرت  زینب (س):

 زہد و عبادت:

عبادت کے لحاظ سے اس قدر خدا کے ہاں عظمت والی تھیں کہ سانحہ کربلا کے بعد اسیری کی حالت میں جسمانی اور روحی طور پر سخت ترین حالات میں بھی نماز شب ترک نہ ہوئی۔ جبکہ عام لوگوں کیلئے معمولی مصیبت یا حادثہ دیکھنے پر زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، اور آپ کی زہد کی انتہا یہ تھی کہ اپنا کھانا بھی یتیموں کو دیتی اور خود بھوکی رہتی۔ جس کی وجہ سے بدن میں اتنا ضعف پیدا ہو گیا کہ نماز شب اٹھ کر پڑھنے سے عاجز آ گئی۔

زہد کا معنی یہی ہے کہ خدا کی رضا کی خاطر دنیا کی لذتوں کو ترک کرے۔

بعض نے کہا ہے کہ لفظ ز،ھ،د یعنی زینت، ہوا و ہوس اور دنیا کا ترک کرنے کا نام زہد ہے۔ زہد کا مقام قناعت سے بھی بالا تر ہے، اور زہد کا بہت بڑا فائدہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:

وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَثْبَتَ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَ أَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَ الدُّنْيَا دَاءَهَا وَ دَوَاءَهَا وَ أَخْرَجَهُ مِنَ الدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ السَّلَامِ۔

یعنی جو بھی ارادہ کرے کہ خدا اسے علم دے بغیر سیکھے اور ہدایت دئیے بغیر کسی ہدایت کرنے والے کے تو اسے چاہیے کہ وہ دنیا میں زہد کو اپنا پیشہ قرار دے، اور جو بھی دنیا میں زہد اختیار کرے گا، خداوند اس کے دل میں حکمت ڈال دے گا، اور اس حکمت کے ذریعے اس کی زبان کھول دے گا، اور دنیا کی بیماریوں اور اس کی دواؤں کو دکھائے گا، اور اس دنیا سے اسے صحیح و سالم وادی سلام کی طرف اٹھائے گا۔

من ‏لايحضره ‏الفقيه ، ج 4، ص410

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْراً زَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا وَ فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَهَا وَ مَنْ أُوتِيَهُنَّ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة-

یعنی جب خدا تعالی کسی کو دنیا و آخر ت کی نیکی دینا چاہتا ہے تو اسے دنیا میں زاہد اور دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور اپنے عیوب کو اسے دکھا دیتا ہے ۔ اور جس کو بھی یہ نصیب ہو جائے، اسے دنیا و آخرت کی خیر و خوبی عطا ہوئی ہے۔

الكافي ،ج2 ، ص130 ، باب ذم الدنيا و الزهد فيها۔

حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ :

أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي بَعْضِ كُتُبِهِ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا حَيٌّ لَا أَمُوتُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ حَتَّى أَجْعَلَكَ حَيّاً لَا تَمُوتُ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ تَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ۔

اے فرزند آدم !میں زندہ ہوں جس کیلئے موت نہیں ، جن چیزوں کا میں تجھے حکم دوں گا ان میں تو میری اطاعت کرو تاکہ میں تجھے بھی اپنی طرح ایسی زندگی دوں کہ تو نہ مرے ، اے فرزند آدم جو کچھ کہتا ہوں ہوجاؤ تو ہوجاتا ہے ۔ اگر تو چاہے کہ تو جو کچھ کہے ہوجائے ؛ تو میں جوکچھ تجھے حکم دونگا اس پر عمل کرو۔

 مستدرك ‏الوسائل ،ج 11 ، ص 258

زینب کبری (س) بھی اپنی عبادت اور بندہ گی ،زہد و تقوی اور اطاعت خداوند کی وجہ سے ان تمام روایتوں کا مصدا ق اتّم اور ولایت تکوینی کی مالکہ تھیں۔

چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ دربار شام میں خطبہ دینے سے پہلے بہت شور و غل تھا، انھیں خاموش کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ لیکن جب آپ نے حکم دیا کہ خاموش ہو جاؤ، تو لوگوں کے سینے میں سانسیں رک کر رہ گئیں اور بات کرنے کی جرات نہ کر سکے۔

معاشرے کی اصلاح کیلئے امام حسین (ع) نے ایک انوکھا اور نیا باب کھولا وہ یہ تھا کہ اپنے اس قیام اور نہضت کو دو مرحلے میں تقسیم کیا :

حدیث عشق دو باب است کربلا تا شام

یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب

پہلا مرحلہ: خون، جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا۔

دوسرا مرحلہ: پیغام رسانی، بیدار گری، یادوں کو زندہ رکھنے کا مرحلہ،

پہلے مرحلے کے لیے جان نثار اور با وفا اصحاب کو انتخاب کیا۔ اس طرح یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی۔ جنہوں نے جس انداز میں اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھایا، تاریخ انسانیت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ سب درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔

اب رہا دوسرا مرحلہ، کہ جسے زینب کبری (س) کی قیادت میں خواتین اور بچوں کے حوالے کیا گیا، جسے خواتین نے جناب سیدہ زینب (س) کی نگرانی و قیادت میں اپنے انجام تک پہنچانا تھا۔ اس عہدے کو سنبھالنے میں حضرت زینب (س) نے بھی کوئی کسر نہیں رکھی۔

جناب محسن نقوی شہید نے یوں اس کردار کی تصویر کشی کی ہے کہ:

قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علی کی بیٹی

یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی

کہیں بھی ایوان ظلم تعمیر ہو سکے گا نہ اب جہاں میں 
ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی کی بیٹی

نہ کوئی لشکر نہ سر پہ چادر مگر نہ جانے ہوا میں کیونکر
غرور و ظلم و ستم کے پرزے اڑا گئی ہے علی کی بیٹی

پہن کے خاک شفاء کا احرام سر برہنہ طواف کر کے
حسین! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی کی بیٹی

یقین نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا
یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی کی بیٹی

ابد تلک اب نہ سر اٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ
غرور شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی 
 محسن نقوی،موج ادراک، ص 142

زینب کبری (س) کو اس عظیم و دشوار ذمہ داری کے لیے تیار کرنا:
اگرچہ زینب کبری (س) روحی اعتبار سے تحمل اور برداشت کی قدرت رکھتی تھیں، لیکن پھر بھی یہ حادثہ اتنا درد ناک اور ذمہ داری اتنی سنگین تھی کہ آپ جیسی شیر دل خاتون کو بھی پہلے سے تیار ہونا پڑا۔ اسی لیے بچپن ہی سے ایسے عظیم سانحے کے لیے معصوم کی آغوش میں رہ کر اپنے آپ کو تیار کر رہی تھیں۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) کی رحلت کے ایام نزدیک تھے، آپ اپنے جد بزرگوار کی خدمت میں گئیں اور عرض کیا:

اے رسول خدا (ص) کل رات میں نے خواب دیکھا کہ تند ہوا چلی جس کی وجہ سے پوری دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ یہ تند و تیز ہوا مجھے ایک طرف سے دوسری طرف پہنچا دیتی ہے، اچانک میری نظریں ایک تناور درخت پر پڑتی ہے، تو میں اس درخت کے تلے پناہ لیتی ہوں، لیکن ہوا اس قدر تیز چلتی ہے کہ وہ درخت بھی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے، اور زمین پر گرتا ہے تو میں ایک مضبوط شاخ سے لپٹ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن ہوا اس شاخ کو بھی توڑ دیتی ہے، میں دوسری شاخ پکڑ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں، ہوا اسے بھی توڑ دیتی ہے۔ سر انجام دو شاخیں ملی ہوئی ملتی ہے تو میں ان کا سہارا لیتی ہوں، لیکن ہوا ان دو شاخوں کو بھی توڑ دیتی ہے۔ اسوقت میں نیند سے بیدار ہو جاتی ہوں۔!

زینب کبری (س) کی باتوں کو سن کر پیامبر گرامی اسلام (ص) کے آنسو جاری ہو گئے، پھر فرمایا: اے نور نظر! وہ درخت آپ کے جد گرامی ہیں، بہت جلد تند اور تیز ہوا اسے اجل کی طرف لے جائیگی، اور پہلی شاخ آپ کے بابا اور دوسری شاخ آپ کی ماں زہرا (س) اور دو شاخیں جو ساتھ ملی ہوئی تھیں وہ آپ کے بھائی حسن اور حسین (ع) تھے، جن کے غم و سوگ میں دنیا تاریک ہو جائے گی اور آپ کالا لباس زیب تن کریں گی۔

ریاحین الشریعہ ،ج 3، ص 15

چھ سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ جد گرامی (ص) کی رحلت کے سوگ برداشت کرنا پڑا، پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد مادر گرامی (س) کی مصیبت ، پھر اپنے والد گرامی کی شہادت کا غم اور اس کے بعد امام حسن مجتبی اور امام حسین مظلوم کربلا (ع) کی مصیبت برداشت کرنی پڑی۔

جب مدینے سے مکہ، مکہ سے عراق، عراق سے شام کی مسافرت کی تفصیلات بیان کی گئیں تو بغیر کسی چون و چرا کے اپنے بھائی کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں، اور اپنے بھائی کے ساتھ اس سفر پر نکلتی ہیں۔ گویا ایسا لگتا ہے کہ کئی سال پہلے اس سفر کے لیے پیشن گوئی کی گئی ہو۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے عقد نکاح میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ سفر پر جانے کو مشروط قرار دیا تھا۔

اور جب قافلہ حسینی (ع) مدینے سے نکل رہا تھا، عبد اللہ بن جعفر الوداع کرنے آیا ، تو زینب کبری (س) نے کہا : اے عمو زادے عبد اللہ! آپ میرے آقا ہو۔ اگر آپ اجازت نہ دیں، تو میں نہیں جاؤں گی، لیکن یہ یاد رکھنا کہ میں بھائی سے بچھڑ کر زندہ نہیں رہ سکونگی۔ تو جناب عبد اللہ نے بھی اجازت دے دی اور آپ بھائی کے ساتھ سفر پر روانہ ہو گئیں۔

عفت و حیا کی پیکر:

حضرت زینب سلام اللہ علیہا امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اور سیدہ کونین فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہیں۔ آپ نے 5 جمادی الاولی، ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال مدینہ منورہ میں دنیا میں قدم رکھا۔

اگرچے پانچ سال کی عمر میں ماں کی عطوفت سے محروم ہو گئیں لیکن شرافت و طہارت کے گرانبہا گوہر اسی مختصر مدت میں آغوش مادری سے حاصل کر لیے تھے۔ آپ نے اپنی بابرکت زندگی میں بے انتہائی مشکلات اور مصائب کیے تحمل کیے تھے۔ واقعہ کربلا میں آپ پر ٹوٹنے والے مصائب اور مشکلات کے طوفان اس بات کے واضح ثبوت ہیں۔ ان تمام سخت اور تلخ مراحل میں آپ نے تمام خواتین عالم کو صبر و بردباری کے ساتھ ساتھ حیا اور عفت کا درس دیا۔

شيخ ذبيح اللّه‏ محلاتی، رياحين الشريعه، ، ج3، ص46

حضرت زینب (س) کے القاب:

تاریخی کتب میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں:

1- عالمہ غیر معلمہ،

2- نائبۃ الزھراء،

3- عقیلہ بنی ہاشم،

4- نائبۃ الحسین،

5- صدیقہ صغری،

6- محدثہ،

7- زاہدہ،

 8- فاضلہ،

9- شریکۃ الحسین،

 10- راضیہ بالقدر والقضاء،

11- صدیقہ صغری،

12- ثانی زہرا،

آپ ایک عابدہ، زاہدہ، عارفہ، خطیبہ اور عفیفہ خاتون تھیں۔ نبوی نسب اور علوی و فاطمی تربیت نے آپ کی شخصیت کو کمال کی اس منزل پر پہنچا دیا تھا کہ آپ عقیلہ بنی ہاشم کے نام سے معروف ہو گئیں تھیں۔

نامگذاری کے مراسم:

عام طور پر یہی مرسوم ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کے نام انتخاب کرتے ہیں، لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے بعد آپ کے والدین نے نامگذاری کی ذمہ داری کو آپ کے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر چھوڑ دیا تھا۔ پیغمبر اکرم (ص) ان دنوں میں سفر پر تھے۔ سفر سے لوٹنے کے بعد ولادت کی خبر سنتے ہی اپنی لخت جگر فاطمہ زہرا (س) کے گھر تشریف لائے۔ نو مولود کو اپنی آغوش میں لیا بوسہ دیا کہ اتنے میں جبرئیل نازل ہو گئے اور زینب (زین+اب) نام کو اس نو مولود کے لیے انتخاب کیا۔ اس لیے کہ زينب کے معنی ہيں، باپ کی زينت جس طرح عربی زبان ميں " زين " معنی زينت اور " اب " معنی باپ کے ہيں، يعنی باپ کی زينت ہيں۔

ریاحین الشریعہ ، ج3، ص39

اس عظیم خاتون نے ایک بے مثال زندگی گزارنے کے بعد 15 رجب سن 62 ہجری کو اس دار فانی سے دار ابدی کی طرف سفر کیا، لیکن دنیا والوں کو ایسے ایسے الہی معارف سے روشناس کرا گئیں کہ جن سے ایک معمولی خاتون پردہ نہیں اٹھا سکتی ہے۔

ہم یہاں پر صرف آپ کے عفت، پاکدامنی ، حیا اور شرافت کے صرف چند گوشوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان خواتین کے لیے تربیت کے میدان میں بے بہا گوہر ہیں، کہ جو آپ کی غلامی کا دم بھرتی ہیں اور آپ کے پیروکار ہونے پر فخر محسوس کرتی ہیں:

حیا سے متعلق گفتگو کی ضرورت:

عصر حاضر میں پوری دنیا میں مخصوصا اسلامی ممالک اور خاص طور پر شیعہ معاشرے میں عالمی ثقافتی استعمار کی ہر آن کوشش یہ رہی تھی اور رہی ہے کہ خواتین کی عفت اور پاکدامنی کو نشانہ بنایا جائے اور اسلامی معاشرے کو بے دینی، بے پردگی، اور بے حیائی کی طرف موڑا جائے تا کہ وہ اپنے شیطانی مقاصد کو پہنچ سکیں اس لیے کہ انہوں نے بخوبی یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر دین اور مذہب تشیع کو نابود کیا جا سکتا ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شیعہ معاشرے کے اندر حیا، عفت اور پاکدامنی جیسی قیمتی چیزوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

جب ایک معاشرے سے حیا، عفت اور پاکدامنی جیسے گوہر، نایاب ہو جائیں گے تو دین کی خود بخود ختم و نابود ہو جائے گا۔ اس کی جگہ شیطنت اور یزیدیت اپنا ڈیرا ڈال دے گی، اسی وجہ سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَحْسَنُ مَلابِسِ الدّينِ اَلْحَياءُ،

 دین کا بہترین لباس حیا ہے۔

محمدی ری ‏شہری، ميزان الحكمه ج2، ص716، روايت 4544.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

 لا ايمانَ لِمَنْ لا حَياءَ لَهُ،

 جس کے پاس حیا نہیں، اس کے پاس ایمان نام کی بھی کوئی چیز نہیں ہے۔

میزان الحکمۃ، ص717، روايت 4570

اور امام باقر علیہ السلام کا فرمان ہے کہ:

اَلْحَياءُ وَ الايمانُ مَقْرُونانِ في قَرْنٍ فَاِذا ذَهَبَ اَحَدُهُما تَبَعهُ صاحِبُهُ،

حیا اور ایمان دونوں ایک ہی شاخ پر ساتھ ساتھ رہتے ہیں، جب ان میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اس کے ساتھ چلا جائے گا۔

میزان الحکمۃ، روايت 4565،

بحارالانوار، ج78، ص309.

اور سب سے زیادہ خوبصورت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جن کے خصوصی مکتب میں حضرت زینب (س) نے حیا کی تعلیم حاصل کی تھی:

لا حَياءَ لِمَنْ لا دينَ لَهُ،

جو شخص حیاء نہیں رکھتا، اس کے پاس دین بھی نہیں موجود نہیں ہوتا،

بحار الانوار، ج78، ص111، حديث6

ميزان الحكمة، ج2، ص717، روايت 4569.

مذکورہ روایات سے بخوبی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں دین اسی وقت تک باقی رہے گا، جب تک حیاء و پاکدامنی باقی ہے، جس دن حیاء نے معاشرے سے ہجرت کر لی، تو اس دن دین بھی رخت سفر باندھ لے گا۔ شیعہ دشمنوں نے ان دونوں کے درمیان رابطے کو خوب درک کر لیا ہے۔

اسلامی ثقافت میں حیا کا مقام:

اسلامی اور قرآنی تعلیمات میں متعدد جگہوں پر حیا اور عفت کے مقام کی طرف اشارہ ہوا ہے، ذیل میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف: جناب شعیب کی بیٹیوں کا با حیاء ہونا:

قرآن کریم میں اس کے باوجود کہ عام طور پر مسائل کو کلی انداز میں بیان کیا گیا ہے، لیکن حیا اور عفت کے مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اس مسئلہ کی جزئیات کو بھی قرآن میں بیان کیا گيا ہے۔ مثال کے طور جناب موسی اور ان کی جناب شعیب کی بیٹیوں سے ملاقات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ:

اور جب مدین کے چشمہ میں داخل ہوئے تو لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو جانوروں کو پانی پلا رہی تھی اور ان سے الگ دو عورتیں تھیں، جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں۔ حضرت موسی نے پوچھا کہ تم لوگوں کا کیا مسئلہ ہے ان دونوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے ہیں جب تک ساری قوم ہٹ نہ جائے اور ہم اس لیے آتیں ہیں کہ ہمارے بابا ایک ضعیف العمر آدمی ہیں۔

 جناب موسی نے دونوں کے جانوروں کو پانی پلا دیا اور پھر ایک سائے میں آ کر پناہ لے لی عرض کی پروردگارا یقینا میں ہر اس خیر کا محتاج ہوں، جو بھی تو میری طرف بھیج دے۔

فَجاءَتْهُ اِحْداهُما تَمْشي عَلَي اسْتِحْياءٍ قالَتْ اِنَّ اَبي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ ما سَقَيْتَ لَنا...

اتنے میں دونوں میں سے ایک لڑکی کمال شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور اس نے کہا کہ میرے بابا آپ کو بلا رہے ہیں کہ آپ کے پانی پلانے کی اجرت دے دیں، پھر جو موسی ان کے پاس آئے اور اپنا قصّہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈرو نہیں اب تم ظالم قوم سے نجات پا گئے ہو۔

سورہ قصص، آیت 23 - 25

اس واقعے سے حیا اور پاکدامنی کو بخوبی درک کیا جا سکتا ہے چونکہ:

1- جب تک مرد چشمہ کے پاس سے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر دور نہیں ہو جاتے تھے، تب تک جناب شیعب کی بیٹیاں چشمہ کے پاس نہیں جاتی تھیں۔

2- اس وقت اپنی بھیڑوں کو پانی پلاتی تھیں جب تمام مرد دور ہو جاتے تھے۔

3- سراپا حیا کے ساتھ جناب موسی کے پاس آئیں اور نہیں کہا آئیے ہم آپ کے کام کی اجرت ادا کریں گی، بلکہ کہا ہمارے باپ نے آپ کو دعوت دی ہے تا کہ آپ کے کام کی اجرت آپکو دیں۔

پروردگار عالم نے پوری جزئیات کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کر کے بتایا ہے کہ ایک خاتون میں حیا اور پاکدامنی کس حد تک ہونا چاہیے۔

ب: حیا مکمل دین ہے:

علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

الْحَياءُ هُوَ الدّينُ كُلُّه،

 حیا ہی مکمل دین ہے۔

ميزان الحكمة، ج2، ص717، روايت 4567.

 ج: حیا برائیوں سے روکتی ہے:

علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ:

اَلْحَياءُ يَصُدُّ عَنْ فِعْلِ الْقَبيحِ،

حیا انسان کو برائیوں سے روکتی ہے۔

میزان الحکمۃ، ص717، روايت 4556

 امالی طوسی، ص301.

امام کاظم (ع) کا ارشاد گرامی ہے کہ:

ما بَقيَ مِنْ اَمْثالِ الاْنْبياءِ عليهم ‏السلام اِلاّ كَلِمَةً؛ اِذا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاعْمَلْ ما شِئْتَ.....،

انبیاء علیہم السلام کے کلمات قصار میں سے صرف ایک جملہ باقی بچا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس حیا نہیں تو جو چاہو وہ کرو۔۔۔

امالی طوسی ،ص718

خصال صدوق، ص20.

د: بے حیائی کا انجام:

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

«...مَنْ قَلَّ حَياؤُهُ، قَلَّ وَرَعُهُ وَ مَنْ قَلَّ وَرَعُهُ، ماتَ قَلْبُهُ، وَ مَنْ ماتَ قَلْبُهُ، دَخَلَ النّارَ..........،

جس کی شرم و حیا کم ہو جائے اس کا تقوی اور پرہیز گاری بھی کم ہو جاتی ہے اور جس کا تقوی کم ہو جائے اس کا دل مر جاتا ہے اور جس کا دل مر جائے وہ جہنم میں داخل ہو گا۔

نهج البلاغه، محمد دشتی، ص712، حكمت349.

  ہ : حیا عیوب کا پردہ:

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

مَنْ كَساهُ الحَياءُ ثَوْبَهُ، لَمْ يَرَ النّاسُ عَيْبَهُ،

جس شخص کو حیا کے لباس نے چھپا لیا تو اس کے عیب کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔

نہج البلاغہ، ص676، حكمت223.

و: حیا  خوبیوں کا سر چشمہ:

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

مَنْ لا حَياءَ لَهُ، لاَ خَيْرَ فيهِ،

جو شخص حیا نہیں رکھتا، اس میں کوئی خیر و خوبی نہیں پائی جاتی۔

عبد الواحد آمدي، غرر الحكم، ترجمه علي انصاري،ص646.

جناب زینب سلام اللہ علیہا کے حیا اور عفت کے چند نمونے:

وراثت اور خاندان کی تاثیر انسان کے قول و فعل میں ناقابل تردید ہے۔ آج یہ چیز واضح طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ بعض اچھی اور بری صفات نسل در نسل انسان کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ خاندان جن میں پیغمبروں اور آئمہ معصومین (ع) کا وجود رہا ہے، عام طور پر وہ پاک اور برائیوں سے دور ہیں۔ اسی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں ان خوبصورت عورتوں کے ساتھ شادی کرنے سے منع کیا ہے، جو ناپاک خاندان کی ہوتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں وراثت کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بیان ہوئی ہے، یعنی بہت سی صفات تربیت کے ذریعے انسان اپنے وجود میں پیدا کر سکتا ہے۔

جناب زینب سلام اللہ علیہا کی زندگی میں یہ دونوں عامل (وارثت اور تربیت) اعلی ترین منزل پر موجود تھے، جیسا کہ آپ کے زیارت نامے میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ:

اَلسَّلامُ عَلی مَنْ رَضَعَتْ بِلُبانِ الاْيمانِ،

سلام ہو اس پر کہ جس نے ایمان کے پستانوں سے دودھ پیا ہے۔

جی ہاں، جناب زینب سلام اللہ علیہا خانہ وحی میں معصوم ماں، باپ سے دنیا میں آئیں اور نبوت کی آغوش میں اور امامت و ولایت کے گہوارے میں نشوونما پائی، اور ایسی ماں کا دودھ پیا جو کائنات میں بے مثل و نظیر ہے۔ تو ایسی بیٹی جس نے ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی ہو جس نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہو اس کی شرافت و کرامت اور عفت و حیا کا کیا مقام ہو گا ؟

یحیی مازنی: ایک بزرگ عالم دین اور راوی حدیث نقل کرتے ہیں کہ: کئی سال میں نے مدینہ میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمسائیگی میں ایک ہی محلے میں زندگی گزاری۔ میرا گھر اس گھر کے قریب تھا، جہاں حضرت زینب بن علی علیہما السلام رہتے تھے حتی ایک بار بھی کسی نے حضرت زینب کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی نے ان کی آواز سنی۔ وہ جب اپنے نانا کی زیارت کو جاتی تھیں تو رات کا انتخاب کرتی تھیں، رات کے عالم میں نانا کی قبر پر بھی جایا کرتی تھیں اور اپنے بابا علی اور بھائی حسن و حسین علیہم السلام کے حصار میں گھر سے نکلتی تھیں۔ جب آپ رسول خدا (ص) کی قبر مبارک کے پاس پہنچتی تھیں تو امیر المؤمنین علی علیہ السلام قبر کے اطرف میں جلنے والے چراغوں کو گل کر دیا کرتے تھے۔

ایک دن امام حسن علیہ السلام نے اس کام کی وجہ پوچھ لی تو حضرت نے فرمایا:

اَخْشي اَنْ يَنْظُرَ اَحَدٌ اِلي شَخْصِ اُخْتِكَ زَيْنَبَ،

میں ڈرتا ہوں کہ تیری بہن زینب پر کسی کی نگاہ نہ پڑ جائے۔

شيخ جعفر نقدی، كتاب زينب كبری، ص22،

 رياحين الشريعه، ج3، ص60.

شیخ جعفر نقدی کے بقول: جناب زینب سلام اللہ علیہا نے پنجتن آل عبا کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے:

فَالخمسة اَصْحابُ الْعَباءِ هُمُ الَّذينَ قامُوا بِتربيتِها وَ تثْقيفِها و تهذيبِها وَ كَفاكَ بِهِمْ مُؤَدِّبينَ وَ مُعَلِّمينَ،

پنجتن آل عبا نے زینب کو تربیت و تہذیب اور تثقیف عطا کی اور یہی کافی ہے کہ وہ (آل عبا) ان کی تربیت کرنے والے اورانہیں تعلیم دینے والے ہیں۔

زينب كبري، ص20.

جوانی کی ابتدا میں حیا:

ڈاکٹر عائشہ بنت الشاطی اہلسنت کی ایک محققہ یوں لکھتی ہیں کہ: زینب (س) ابتدائے جوانی میں کیسی رہی ہیں ؟ تمام تاریخی منابع ان لمحات کی تعریف کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے کہ اس دور میں انہوں نے چار دیواری کے اندر زندگی گزاری ہے، لہذا ہم آپ کے اس دور کو صرف پشت پردہ سے دیکھ سکتے ہیں، لیکن اس تاریخ کے دسیوں سال گزرنے کے بعد زینب (س) گھر سے باہر آتی ہیں اور کربلا کی جگر سوز مصیبت انہیں پہچنواتی ہے۔

عائشه بنت الشاطي، بانوي كربلا، مترجم: سيد رضا صدر، ص58 ـ 59.

 تاریخ نے آپ کو نہیں دیکھا اس لیے کہ حیا اس میں مانع تھا اور ماں فاطمہ (س) یہ نصیحت کر چکی تھیں کہ:

خَيْرٌ للنِّساءِ اَنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَلا يَراهُنَّ الرِّجالُ،

عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد بھی انہیں نہ دیکھیں۔

وسائل الشيعه، ج14، ص43، حديث 7.

 اور اگر حکم الہی نہ ہوتا، اگر رضائے خداوندی نہ ہوتی کہ:

'انَّ اللّه‏ شاءَ اَنْ يَراهُنَّ سَبايا،

بتحقیق خدا یہ چاہتا ہے کہ انہیں اسیر دیکھے،

تو امام حسین (ع) ہرگز یہ اجازت نہ دیتے کہ آپ کی بہن کربلا کا سفر کرے۔

مدینہ سے حرکت کے وقت حیا کا جلوہ:

مدینہ اس رات کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا کہ جس رات حیا اور شرافت کا کاروان کس شان و شوکت کے ساتھ مکہ کی طرف رخصت ہوا۔ وہ رات رجب کی راتوں میں سے ایک تھی کہ ایک کاروان عفت و شرافت نے مدینہ سے حرکت کی اس حال میں کہ حیا و عفت کی پیکر دو بیبیوں کو بنی ہاشم کے جوانوں اور خصوصا جوانان جنت کے سردار نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔

روای کہتا ہے کہ:

میں نے ایک عماری کو دیکھا کہ جسے حریر اور دیباج کے کپڑوں سے مزین کیا ہوا تھا، اس وقت امام حسین علیہ السلام نے حکم دیا کہ بنی ہاشم کے جوان اپنی محرم خواتین کو محملوں پر سوار کریں۔ میں یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک جوان امام علیہ السلام کے گھر سے باہر نکلا جو بلند قد و قامت والا تھا، اور اس کے رخسار پر ایک علامت تھی اور اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور کہہ رہا تھا:

بنی ہاشم راستہ چھوڑ دو۔ اس کے بعد دو بیبیاں امام علیہ السلام کے گھر سے برآمد ہوئیں جن کی چادریں زمین پر گھسٹ رہی تھیں اور کنیزوں نے انہیں اطراف سے گھیر رکھا تھا، پس وہ جوان ایک عماری کے پاس گیا اور اپنے زانو کی سیڑھی بنا کر ایک بی بی کا بازو تھام کر انہیں محمل میں سوار کیا۔ میں نے اپنے اطراف والوں سے پوچھا کہ: یہ بیبیاں کون ہیں ؟ کہا: ان میں سے ایک زینب اور دوسری ام کلثوم ہیں کہ یہ علی علیہ السلام کی بیٹیاں ہیں۔ پھر میں نے پوچھا: یہ جوان کون ہے ؟ کہا: یہ قمر بنی ہاشم عباس بن علی علیہما السلام ہیں۔ اس کے بعد دو چھوٹی بیبیاں گھر سے باہر نکلیں جن کی مثال کائنات میں نہیں تھیں۔ ان میں سے ایک کو جناب زینب کے ساتھ اور دوسری کو ام کلثوم کے ساتھ سوار کیا۔ اس کے بعد میں نے ان دو بیبیوں کے بارے میں سوال کیا: تو کہا: یہ امام حسین علیہ السلام کی بیٹیاں ایک سکینہ ہیں اور دوسری فاطمہ صغری (سلام اللہ علیہما) ہیں۔

اس کے بعد دیگر خواتین بھی اسی عظمت و شرافت کے ساتھ سوار ہوئیں اور امام حسین علیہ السلام نے آواز دی: عباس کہاں ہیں؟ جناب عباس نے کہا: لبیک لبیک اے مولا، فرمایا: میری سواری لاؤ۔ امام کی سواری حاضر کی۔ اس کے بعد آنحضرت اس پر سوار ہوئے۔ اس حیا، عفت اور متانت کے ساتھ اس کاروان نے مدینہ چھوڑا۔

موسوعة كلمات الامام حسين عليه ‏السلام، معهد تحقيقات باقر العلوم، قم، مؤسسه الهادي، ص297 298.

 زیورات، حیا و عفت پر قربان:

کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یزیدی لشکر نے خیام حسینی (ع) پر حملہ کیا۔ جناب زینب (س) کے لیے سب سے زیادہ سخت منزل یہی تھی اس لیے کہ ایک طرف سے بچوں بھائیوں کا دل میں غم اور دوسری طرف سے خیموں کا تاراج، چونکہ آپ ایک جانب سے خیموں کی پاسبان تھیں اور دوسری جانب سے امام حسین علیہ السلام کی محافظ۔ علی علیہ السلام کی بیٹی کوفیوں کے مزاج سے آشنا تھیں، خواتین کی حیا اور عفت کو باقی رکھنے کی غرض سے آپ نے بیبیوں کے تمام زیورات پہلے سے جمع کر کے عمر سعد سے کہا: اے عمر سعد! اپنے سپاہیوں کو خیموں پر حملہ کرنے سے روک دے، بیبیوں کے تمام زیورات میں خود تیرے حوالے کر دیتی ہوں۔ اس لیے کہ میں نہیں چاہتی کہ نامحرموں کے ہاتھ خاندان رسول خدا (ص) کی خواتین کی طرف دراز ہوں۔

تمام بیبیوں نے زیورات ایک جگہ جمع کر دیئے، اس کے بعد کہا انہیں اٹھا لے جاؤ لیکن خیموں کے نزدیک نہ آنا۔ یزیدیوں نے تمام زیورات اٹھا لیے، لیکن اس کے بعد بھی ان کی حوس کی پیاس نہیں بجھی اور ننھی بچی جناب سکینہ کے کانوں میں باقی ماندہ گوشواروں کو کھینچنے کے لیے بھی ہاتھ بڑھا دئیے اور خاندان عصمت و طہارت کی لاج نہ رکھی۔

احمد بن يحيي البلاذري، انساب الاشراف، بيروت، مؤسسة الاعلمي، ج3، ص204.

بے حیائی پر بی بی کی فریاد:

خاندان رسالت کو اسیر بنا کر جب عبید اللہ بن زیاد ملعون کے دربار میں لے جایا گیا اور اسیروں کا تماشا کرنے کے لیے چاروں طرف مجمع لگ گیا تو ایک مرتبہ حیا و عفت کی پیکر بنت حیدر نے آواز بلند کہا:

يا اَهْلَ الْكُوفَةِ، اَما تَسْتَحْيُونَ مِنَ اللّه‏ و َرَسُولِهِ اَنْ تَنْظُرُوا اِلي حَرمِ النَّبيِّ صلي‏ الله ‏عليه ‏و ‏آله،

 اے کوفیو! تمہیں خدا اور اس کے رسول سے شرم نہیں آتی کہ خاندان رسالت کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہو ؟

سيد عبد الرزاق الموسوي المقرم، مقتل الحسين (ع) ، ص310.

کوفہ کے دار الخلافہ میں حیا کی تجلّی:

جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کو جب اسیر کر کے دار الخلافہ لے جایا گیا تو غصہ سے آپ کا گلہ بند ہو گیا تھا، اس لیے کہ یہ وہی دار الخلافہ تھا جس میں جناب زینب اپنے والد گرامی امیر المؤمنین علی (ع) کے دور خلافت میں ملکہ بن کر آیا کرتی تھیں۔ آپ کی آنکھوں میں آنسوں نے حلقہ ڈال دیا لیکن آپ نے خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و ضبط سے کام لیا کہ کہیں آنکھوں سے آنسو کا کوئی قطرہ نکلنے نہ پائے۔ اس کے بعد اس بڑے دربار میں داخل ہوئیں جہاں عبید اللہ ملعون بیٹھا ہوا تھا۔ جب دیکھا کہ عبید اللہ اسی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے جہاں کل بابا امیر المومنین علی علیہ السلام بیٹھا کرتے تھے اور مہمانوں کی پذیرائی کیا کرتے تھے تو آپ کی غیرت آگ بگولہ ہو گئی۔

جناب زینب کو جن کے سر پر چادر بھی نہ تھی اور کنیزوں نے اطراف سے گھیر رکھا تھا ایک مرتبہ دربار میں داخل کیا ، آپ امیر کی طرف بغیر کوئی توجہ کیے ایک نامعلوم شخص کی طرح بیٹھ گئیں، جبکہ آپ کا سارا وجود سراپا حیا و شرم تھا۔

بانوي كربلا حضرت زينب، صص 138 ـ 139.

ابن زیاد نے پوچھا : یہ عورت کون ہے ؟ کسی نے اس کا جواب نہ دیا۔ تین بار اس نے سوال تکرار کیا۔ جناب زینب کی حیا اور عفت نے ابن زیاد کو تحقیر کرنے کے ارادے سے اجازت نہیں دی کہ جناب زینب اس کا جواب دیں۔ یہاں تک کہ ابن زیاد ملعون نے جناب زینب کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا :

کيْفَ رَاَيْتِ صُنْعَ اللّه‏ بِاَخيكِ وَاَهْلِ بَيْتِكِ،

تم نے کیسا دیکھا ہے کہ جو اللہ نے تمہارے بھائی اور اہلبیت کے ساتھ انجام دیا ہے ؟

بحار الانوار، ج45، ص179.

جناب زینب نے مکمل آرام و سکون اور کمال تامل کے ساتھ ایک مختصر اور نہایت خوبصورت جواب دیتے ہوئے کہا :

ما رَأيْتُ اِلاّ جَميلاً،

میں نے جو بھی دیکھا وہ خوبصورتی اور زیبائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

بحار الانوار، ج45، ص 116

جناب زینب نے ابن زیاد ملعون کا منہ توڑ جواب دے کر کفر و استبداد کے منہ پر ایسا طمانچہ مارا جسے قیامت تک تاریخ چاہتے ہوئے بھی فراموش نہیں کر سکے گی۔

عفت اور پاکدامنی جناب زینب (س) کا ذاتی کمال:

عفت اور پاکدامنی خواتین کے لیے سب سے زیادہ قیمتی گوہر ہے۔ جناب زینب (س) نے درس عفت کو مکتب علوی (ع) اور فاطمی (س) سے حاصل کیا کہ فرمایا :

مَا الْمُجاهِدُ الشَّهيدُ في سَبيلِ اللّه‏، بِاَعْظَمَ اَجْرا مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ يَكادُ الْعَفيفُ اَنْ يَكُونَ مَلَكا مِنَ الْمَلائِكَةِ ،

راہ خدا میں شہید مجاہد کا ثواب اس شخص سے زیادہ نہیں ہے جو قادر ہونے کے بعد عفت اور حیا سے کام لیتا ہے، قریب ہے کہ عفت دار شخص فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو جائے۔

نهج البلاغه، فيض الاسلام، حكمت 466.

اور اسکے علاوہ خود جناب زینب (س) کی ذاتی شرم و حیا اس بات کی متقاضی تھی کہ آپ عفت اور پاکدامنی کے بلند ترین مقام پر فائز ہوں۔ اس لیے کہ حیا کا بہترین ثمرہ عفت اور پاکدامنی ہے۔ جیسا کہ علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :

سَبَبُ العِفَّةِ اَلْحَياء

عفت اور پاکدامنی کا سبب حیا ہے۔

ميزان الحكمة، ج2، ص717، روايت 4557.

اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ :

عَلي قَدْرِ الحَياءِ تَكُونُ العفَّة ،

جتنی انسان میں حیا ہو گی اتنی اس میں عفت اور پاکدامنی ہو گی۔

ميزان الحكمة، ج2، ص717، روايت 4559.  

جناب زینب (س) کی خاندانی تربیت اور ذاتی حیا اس بات کا باعث بنی کہ آپ نے سخت ترین حالات میں بھی عفت اور پاکدامنی کا دامن نہیں چھوڑا۔ کربلا سے شام تک کا سفر کہ جو آپ کے لیے سب سے زیادہ سخت مرحلہ تھا، آپ نے عفت و پاکدامنی کی ایسی جلوہ نمائی کی کہ تاریخ دھنگ رہ گئی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ :

وَهِيَ تَسْتُرُ وَجْهَها بِكَفِّها لاِنَّ قِناعَها اُخِذَ مِنْها،

آپ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپایا کرتی تھیں چونکہ آپ کے مقنے (حجاب) کو چھین لیا گیا تھا۔

جزائري، الخصائص الزينبيه، ص345.

یہ آپ کی شرم و حیاء کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کے قاتل شمر جیسے ملعون کو بلا کر یہ کہنا گوارا کر لیا کہ اگر ممکن ہو تو ہمیں اس دروازے سے شام میں داخل کرنا کہ جہاں پر لوگوں کا ہجوم کم ہو اور شہداء کے سروں کو خواتین سے دور آگے لے جاؤ تا کہ لوگ انہیں دیکھنے میں مشغول رہیں اور ہمارے اوپر ان کی نگاہیں نہ پڑیں، لیکن اس ملعون نے ایک بھی نہ سنی اور سب سے زیادہ ہجوم والے دروازے سے لے کر گیا۔

 صبر و استقامت: 

ثانی زہرا حضرت زینب کبریٰ (س) کی شخصیت کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر جس نے پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) جیسی الہی و آسمانی شخصیات کے دامان فضيلت میں تربیت پائی ہو تو یقینی طور پر اس کی ذات اعلیٰ ترین اور گرانقدر خصوصیات سے آراستہ ہو گی۔ قطعی طور پر ہم جانتے ہیں کہ حضرت زینب (س) کی حیات طیبہ کی زندگی کا ایک اہم باب کربلا کی جاودانہ تحریک اور قیام عاشورا سے مربوط ہے۔ اموی حکام کے فسق و فجور ، ظلم و نا انصافی اور بد عنوانیوں کے خلاف تحریک کے تمام مراحل میں حضرت زینب (س) اپنے بھائی امام حسین (ع) کے ساتھ ساتھ رہیں۔ اپنے بھائی امام حسین (ع) سے حضرت زینب (س) کی محبت اور قلبی لگاؤ کی مثال تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔

روایات میں ملتا ہے کہ جب تک آپ روزانہ اپنے بھائی کا دیدار نہ کر لتیں انہیں سکون میسر نہیں ہوتا تھا، لیکن خداوند وحدہ لاشریک سے حضرت زینب (س) کا عشق الہی ناقابل توصیف ہے۔ ایسا عشق الہی جو آپ کو فرامین الہی پر عمل اور اس کے نفاذ کے لیے سعی و کوشش کی دعوت دیتا تھا۔ اسی لیے حضرت زينب (س) نے آرام و آسائش کی زندگی اور راحت دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور اپنے بچوں کے ہمراہ ظلم و جہالت کے خلاف جدوجہد کی راہ میں در پیش مصائب و آلام کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیا تھا۔ اسی لیے جب سرزمین کربلا میں طوفان حوادث و بلا کا مقابلہ کیا تو خدا کے حضور تسلیم و رضا کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے عزیزوں کی قربانیوں اور بچوں کو راہ خدا میں قربان کر دینے والے انتہائی مشکل حالات میں خداوند عالم کے لطف و رحمت کے سایہ میں پناہ لی اور یوں خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے درد و غم کا مداوا کرتیں۔ آپ نماز و دعا کے ذریعے سے دوبارہ ہمت و حوصلہ پاتیں اور انوار الہی اس طرح آپ کے قلب مطہر میں جلوہ افروز ہوئے کہ دنیا کے مصائب و آلام ان انوار الہیہ کے مقابلے میں ناچیز ہو جایا کرتے تھے۔

امام حسین علیہ السلام اپنی بہن زینب (س) کے اخلاص و بندگی کے اس درجہ تک قائل تھے کہ جب آپ عصر عاشورا رخصت آخر کے لیے بہن کے پاس تشریف لائے تو فرمایا میری بہن زینب نماز شب میں مجھے فراموش نہ کرنا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی صبر و شکیبائی کا مرقع ہے۔ حضرت زینب (س) نے کربلا کے میدان میں اپنے بھائی بھتیجوں ، بچوں اور عزیزوں کی شہادت کے بعد صبر کا سہارا لیا البتہ یہ اپنی تسکین کے لیے نہیں بلکہ صبر کا سہارا اس لیے لیا کہ اپنے اعلیٰ مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ان کا صبر با مقصد تھا ، چنانچہ تیر و تلوار سے لیس دشمنوں کا ظاہری رعب و دبدبہ خاک میں مل گيا۔ حضرت زینب (س) اس قدر فصیح و بلیغ خطبہ بیان فرماتیں کہ آپ کے ایک ایک جملے لوگوں کے دلوں میں اتر جاتے۔ آپ گھر میں، مسجد میں اور جہاں بھی ممکن ہوتا لوگوں کے درمیان خطبہ دیتیں تا کہ امام حسین (ع) کا مشن بھلایا نہ جا سکے اور ان کی تحریک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جائے۔ اسیری کے بعد جب حضرت زينب (س) دیگر اسیران اہل حرم کے ہمراہ دربار یزید ملعون میں لائی گئیں تو آپ نے اپنے بے مثال خطبے سے شجاعت کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے، سب کو ششدر کر کے رکھ دیا۔ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا : اے یزيد اگرچہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم ، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی۔ اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کر سکتا ہے، کر لے۔ ہم اہل بیت پیغمبر (ص) سے دشمنی کے لیے تو جتنی بھی سازشیں کر سکتا ہے، کر لے، لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہيں مٹا سکتا اور چراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھو سکتا ، خدا کی نفرین و لعنت ہو ظالموں اور ستمگروں پر۔

حضرت زینب (س) واقعہ کربلا کے بعد زیادہ عرصہ حیات تک زندہ نہیں رہیں، لیکن اسی مختصر سے عرصے میں کوشش کی کہ لوگوں کے ذہنوں پر پڑے جہالت و گمراہی کے پردوں کو ہٹا دیں اور انہیں غفلت سے نجات دلا دیں اور اسی طرح معاشرے میں اہل بیت پیغمبر (ص) کے محوری کردار کو اجاگر کریں۔ آپ (س) لوگوں کو پیغمبر (ص) کی تعلیمات کے تناظر میں اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ فرماتیں۔ حضرت زینب (س) نے ایک مضبوط مبلغہ و مدبّرہ کی حیثیت سے اپنی ٹھوس اور سنجیدہ تدبیروں کے ذریعے امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد کے واقعات اور حالات کو اس طرح سے سنبھالا کہ پوری کائنات کے لیے امام حسین (ع) اور ان کے مشن کی حقانیت واضح کر دی۔ حضرت زینب (س) اپنے بھائی امام حسین (ع) کی شہادت کے تقریبا ڈیڑھ سال بعد 15 رجب المرجب 62 ہجری کو درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔

ایک معروف اسلامی مؤرخ ابن جاحظ نے حضرت زينب (س) کے بارے میں کتاب البیان و التبیین میں لکھا ہے کہ:

زینب (س) لطف و مہربانی کے اعتبار سے اپنی مادر گرامی ، اور علم و تقویٰ کے لحاظ سے اپنے پدر بزرگوار کی تصویر تھیں۔ آپ کا بیت الشرف درس و تدریس کا ایک اہم مرکز تھا جو خواتین علم یا فقہ حاصل کرنا چاہتیں، وہ حضرت زينب (س) کے حضور زانوئے تلمّذ تہ کرتیں تھیں۔

عالمہ غیر معلمہ:

قال علي ابن الحسين عليهما السلام: انت بحمد الله عالمة غير معلمة فهمة غير مفهمة،

امام زين العابدين عليہ السلام فرماتے ہيں کہ بحمد اللہ ميری پھوپھی (زينب سلام عليہا) عالمہ غير معلمہ ہيں اور ايسی دانا کہ آپ کو کسي نے پڑھايا نہيں ہے۔

خصائص زينبيہ ص 79

وزينب زينب ہے ص 50

سفينة البحار ج 1 ص 558

زينب سلام عليہا کی حشمت و عظمت کے لیے يہی کافی تھا کہ انہيں خالق حکيم نے علم لدنی و دانش وہبی سے سرفراز فرمايا تھا۔ زينب کہ جو اپنے وجود ميں ايک عظيم کائنات سميٹے ہوئے ہیں، جس کی مثال عام خواتين ميں نہيں مل سکتی اور يہ بات ايک مسلّم حقيقت بن چکی ہے کہ انسانی صفات کو جس زاويے پر پرکھا جائے، زينب کا نام اپنی امتيازی خصوصيت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ جس ميں وجود انسانی کے ممکنہ پہلوؤں کی خوبصورت تصوير اپنی معنوی قدروں کے ساتھ نماياں دکھائی ديتی ہے۔

جناب زينب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کی عظيم دولت و نعمت سے بھی بہرہ مند تھیں۔ زينب بنت علی تاريخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفريں کردار کا دوسرا نام ہے، صنف نازک کی فطری ذمہ داريوں کو پورا کرنے اور بنی نوع آدم کو حقيقت کی پاکيزہ راہ دکھانے ميں جہاں مريم و آسيہ و ہاجرہ و خديجہ اور طيب و طاہر صديقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہم کی بے مثال شخصيت اپنے مقدس کردار کی روشنی ميں ہميشہ جبين تاريخ کی زينت بن کر نمونہ عمل ثابت ہوئی ہيں، وہاں زينب بھی اپنے عظيم باپ کی زينت بن کر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل سچ و جھوٹ ايمان و کفر اور عدل و ظلم کے درميان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہيں۔ زينب نے اپنے عظيم کردار سے آمريت کو بے نقاب کيا ظلم و استبداد کی قلعی کھول دی۔ دنيا کے زوال پذير حسن و جمال پر قربان ہونے والوں کو آخرت کی ابديت نواز حقيقت کا پاکيزہ چہرہ ديکھايا، صبر و استقامت کا کوہ گراں بن کر علی عليہ السلام کی بيٹی نے ايسا کردار پيش کيا کہ جس سے ارباب ظلم و جور کو شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا۔ زينب کو علی و فاطمہ عليہما السلام کے معصوم کردار ورثے ميں ملے۔ امام حسن عليہ السلام کا حسن و تدبير جہاں زينب کے احساس عظمت کی بنياد بنا، وہاں امام حسين عليہ السلام کا عزم و استقلال علی عليہ السلام کی بيٹی کے صبر و استقامت کی روح بن گيا ، تاريخ اسلام ميں زينب نے ايک منفرد مقام پايا اور ايسا عظيم کارنامہ سر انجام ديا جو رہتی دنيا تک دنيائے انسانيت کے لیے مشعل راہ و اسوہ حسنہ بن گيا۔

زينب بنت علی (ع) تاريخ اسلام ميں اپنی مخصوص انفراديت کی حامل ہے اور واقعہ کربلا ميں آپ کے صبر شجاعانہ جہاد نے امام حسين عليہ السلام کے مقدس مشن کی تکميل يقينی بنا‏ئی۔ آپ نے دين اسلام کی پاکيزہ تعليمات کا تحفظ و پاسداری ميں اپنا کردار اس طرح ادا کيا کہ جيسے حضرت ابو طالب (ع) رسول اللہ (ص) کی پرورش ميں اپنے بھتيجے کے تحفظ کے لیے اپنی اولاد کو نچھاور کرنا پسند کرتے تھے، کيونکہ ايک ہی ہدف تھا کہ محمد بچ جائے، وارث اسلام بچ جائے۔ بالکل اسی طرح زينب کا حال ہے کہ اسلام بچ جائے دين بچ جائے چاہے کوئی بھی قربانی دينی پڑے۔ اسی لیے تاريخ ميں زينب کی قربانی کی مثال نہيں ملتی۔ يہ شجاع کی بيٹی ہے جسکی شجاعت کا لوہا بڑے بڑوں نے مانا تھا، اس شجاعت کے پيکر کی ولادت با سعادت کے موقع پر جب اسم مبارک کی بات آئی تو تاريخ گواہ ہے کہ سيدہ زينب کی ولادت ہجرت کے پانچويں سال ميں جمادی الاولی کی پانچ تاريخ کو ہوئی اور آپ اپنے بھائی حسين عليہ السلام کے ايک سال بعد متولد ہوئيں، جس وقت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا اس گوہر ناياب کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے دل کے اندر اس کی آنے والی زندگی کے چمن کو سجائے رسول اللہ (ص) کی خدمت ميں حاضر ہوئيں اور عرض کی کہ اے بابا اس بچی کا نام تجويز فرمائيں ۔

 روايت کی گئی ہے کہ جس وقت جناب زينب بنت علی ابن ابيطالب عليہم السلام کی ولادت با سعادت ہوئی تو رسول اللہ (ص) کو ولادت کی خبر دی گئی آپ بہ نفس نفيس فاطمہ الزہرا عليہا السلام کے گھر تشريف لائے اور فاطمہ زہرا سے فرمايا اے ميری بيٹی ، اپنی تازہ مولودہ بچی کو مجھے دو پس جب کہ شہزادی نے زينب بنت علی عليہما السلام کو رسول اکرم (ص) کے سامنے پيش کيا تو رسول اللہ (ص) نے زينب کو اپنی آغوش ميں ليکر بحکم خدا اس بچی کا نام زينب رکھا۔ اس لیے کہ زينب کے معنی ہيں، باپ کی زينت جس طرح عربی زبان ميں " زين " معنی زينت اور " اب " معنی باپ کے ہيں، يعنی باپ کی زينت ہيں۔ اپنے سينہٴ اقدس سے لگا ليا اور اپنا رخسار مبارک زينب بنت علی (ع) کے رخسار مبارک پر رکھ کر بلند آواز سے اتنا گريہ کيا کہ آپ کے آنسوں آپ کی ريش مبارک پر جاری ہو گئے۔ فاطمۃ زہرا نے فرمايا اے بابا جان آپ کے رونے کا کيا سبب ہے، اے بابا آپ کی دونوں آنکھوں کو اللہ نے اتنا رلايا نہيں ہے ؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمايا:

اے ميری بيٹی فاطمہ آگاہ ہو جاؤ کہ يہ بچی تمہارے اور ميرے بعد بلاؤں ميں مبتلا ہو گی اور اس پر طرح طرح کے مصائب پڑيں گے، پس يہ سن کر فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا نے بھی گريہ کيا اور پھر فرمايا اے بابا جان جو شخص ميری اس بيٹی اور اس کے مصائب پر گریہ کرے گا تو اس کو کيا ثواب ملے گا ؟ تو رسول اللہ نے فرمايا:

اے ميرے جگر کے ٹکڑے اور اے ميری آنکھوں کی ٹھنڈک ، جو شخص زينب کے مصائب پر گريہ کنا ہو گا تو اس کے گريہ کا ثواب اس شخص کے ثواب کے مانند ہو گا، جو زينب کے دونوں بھائيوں پر گريہ کرنے کا ہے۔

خصائص زينبيہ :ص 52

زينب زينب ہے، 73

زينب اس با عظمت خاتون کا نام ہے جن کا طفوليت فضيلتوں کے ايسے پاکيزہ ماحول ميں گزرا ہے کہ جو اپنی تمام جہات سے کمالات ميں گھیرا ہوا تھا۔ جس کی طفوليت پر نبوت و امامت کا سايہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محيط تھيں۔ رسول اسلام (ص) نے انھيں اپنی روحانی عنايتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کريمہ سے زينب کی فکری تربيت کی بنياديں مضبوط و مستحکم کيں نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھيں علم و حکمت کی غذا سے سير کيا۔ عصمت کبری فاطمہ زہرا نے انھيں فضيلتوں اور کمالات کی ايسی گھٹی پلائی کہ جس سے زينب کی تطہير و تزکيہ نفس کا سامان فراہم ہو گيا۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنين شريفين نے انھيں بچپن ہی سے اپنی شفقت آميز ہمراہی کا شرف بخشا۔ يہ تھی زينب کی پاکيزہ تربيت کی وہ پختہ بنياديں کہ جن سے اس مخدومہ اعلی کا عہد طفوليت تکامل انسانی کی ايک مثال بن گيا۔

صحيفہ وفا :ص 113

وہ زينب جو قرة العين المرتضی، جو علی مرتضی کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، جو علی مرتضی کی آنکھوں کا نور ہو، وہ زينب جو علی مرتضی کی قربانيوں کو منزل تکميل تک پہنچانے والی ہو، وہ زينب جو " عقيلۃ القريش " ہو، جو قريش کی عقيلہ و فاضلہ ہو، وہ زينب جو امين اللہ کی امانتدار ہو، گھر لٹ جائے سر سے چادر چھن جائے، بے گھر ہو جائے ليکن اللہ کی امانت اسلام پر حرف نہ آئے، قرآن پر حرف نہ آئے، انسانيت بچ جائے، خدا کی تسبيح و تہليل کی امانتداری ميں خيانتداری نہ پيدا ہو، وہ ہے زينب جو " آيۃ من آيات اللہ " آيات خدا ميں ہم اہلبيت خدا ہيں ہم اللہ کی نشانيوں ميں سے ہم اللہ کی ايک نشانی ہيں۔ وہ زينب جو مظلومہ وحيدہ بے مثل مظلومہ جسکی وضاحت آپ کے مصائب ميں ہو گی، جو مظلوموں ميں سے ايک مظلومہ " مليکة الدنيا " وہ زينب جو جہان کی ملکہ ہے، جو ہماری عبادتوں کی ضامن ہے، وہ زینب کہ جسکو جبرائيل نے لورياں سنائی ہيں کيونکہ يہ بی بی زينب ثانی زہرا سلام اللہ عليہا ہے اور زہرا کا حترام وہ کرتا تھا، جس کا احترام ايک لاکھ چوبيس ہزار انبياء کرتے تھے۔ عيسی نے انجيل ميں نام محمد ديکھا، احترام رحمۃ للعالمين ميں کھڑے ہو گئے، موسی نے توريت ميں ديکھا تو اس نبی پر درود پڑھنے لگے تو مدد کے لیے پکارا، احترام محمد ميں سفينہ ساحل پہ جا کے کھڑا ہو گيا (يعنی رک گيا )۔

اب تاريخ بتاتی ہے کہ جب بھی فاطمہ سلام اللہ عليہا محمد (ص) کے پاس آئيں محمد کھڑے ہو جاتے، تو يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ استاد کھڑا ہو اور شاگرد بيٹھا رہے سردار کھڑا ہو سپاہی بيٹھے رہيں۔ تو اب بات واضح ہو گئی کہ محمد (ص) اکيلے نہيں فاطمہ کے احترام ميں کھڑے ہوتے تھے بلکہ ايک لاکھ چوبيس ہزار انبياء کا کارواں احترام فاطمة الزہرا سلام اللہ عليہا ميں کھڑا ہوتا تھا۔ اب زينب ہيں ثانی زہرا اگر ان کے تابوت اور ان کے حرم کے سامنے احترام ميں اگر شيعہ کھڑا ہو جائے تو سمجھ لنيا کہ وہ سنت پيغمبر ادا کر رہا ہے۔
کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصيتوں کے درميان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس ہو گی، اس کا علم و تقوی کتنا بلند و بالا ہو گا۔ يہی وجہ ہے کہ روايت میں ہے کہ آپ عالمہ غير معلمہ ہيں آپ جب تک مدينہ ميں رہيں آپ کے علم کا چرچہ ہوتا رہا اور جب آپ مدينہ سے کوفہ تشريف لائيں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علی سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعليم و تربيت کے لیے کافی ہيں ليکن ہماری عورتوں نے يہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر ہو سکے تو آپ اپنی بيٹی زينب سے کہہ ديں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ سکيں۔ ايک دن کوفہ کی اہل ايمان خواتين رسول زادی کی خدمت ميں جمع ہو گئيں اور ان سے درخواست کی کہ انہيں معارف الٰہيہ سے مستفيض فرمائيں۔ زينب نے مستورات کوفہ کے لیے درس تفسير قرآن شروع کيا اور چند دنوں ميں ہي خواتين کی کثير تعداد علوم الٰہی سے فيضياب ہونے لگی۔ آپ روز بہ روز قرآن مجيد کی تفسير بيان کرتی تھيں اور روز بہ روز تفسير قرآن کے درس ميں خواتين کی تعداد ميں کثرت ہو رہی تھی۔ درس تفسير قرآن عروج پر پہنچ رہا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ  کوفہ ميں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مرد و زن کی زبان پر تھا اور ہر گھر ميں آپ کے علم کی تعريفيں ہو رہی تھيں اور لوگ علی (ع) کی خدمت ميں حاضر ہو کر آپ کی بيٹی کے علم کی تعريفيں کيا کرتے تھے۔ يہ اس کی بيٹی کی تعريفيں ہو رہی ہیں کہ جس کا باپ " راسخون في العلم " جس کا باپ، باب شہر علم ہے، جس کا باپ استاد ملائکہ ہے۔

یہ تھی عظمت صدیقہ طاہرہ زینب کبریٰ ، لیکن وہ وقت بھی قریب آیا کہ جب زمانے نے رخ موڑ لیا ، جس در سے لوگ نجات حاصل کیا کرتے تھے، اسی در کو مسمار کرنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ حسین مظلوم نے ایک چھوٹا سا کارواں بنایا اور بحکم الٰہی نانا کے مدینہ کو خیر باد کہہ کر راہ کربلا اختیار کیا۔

ایک دن راستے میں زینب نے دیکھا کہ دنیائے انسانیت کو منزل سعادت پہنچانے کا ذمہ دار امام محراب عبادت میں اپنے معبود کے ساتھ راز و نیاز کرنے میں مصروف ہے، با معرفت بہن بھائی کے قریب بیٹھ گئی جب امام اپنے وظیفہ عبادت سے فارغ ہوئے تو زینب نے کہا بھیا میں نے آج شب میں ایک صدائے غیبی کو سنا ہے گویا کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ:

الا یا عین فاحتفظی علی قوم تسوم قہم امنایا۔

ومن یبکیٰ اعلیٰ الشہد اء بعدی بمقدار الیٰ انجاز وعدی،

ترجمہ:

اشکبار دل حزیں ہے ، میرا ساتھی یہاں کوئی نہیں ہے،

میرا عہد وفا پورا ہوا ہے ، مصیبت میں مصیبت آفریں ہو،

شہیدوں پر نہیں روئے گا کوئی، یہی احساس دل میں آتشیں ہے،

غم و کرب و بلا اور درد پیہم ، یہ سب اور ایک جسم نازنیں ہے،

شاعر نے زینب کے خطبوں کی حقیقت پر یوں روشنی ڈالی ہے کہ:

ایمان کی منزل کف پا چوم رہی ہے

ملت کی جبیں نقش وفا چوم رہی ہے

اے بنت علی عارفہ لہجہ قرآں

خطبوں کو تیرے وحی خدا چوم رہی ہے

ایک روایت میں ہے کہ جس وقت قیدیوں کو دمشق میں لایا گیا تھا تو اس وقت ایک عورت یزید کی بیوی ہند کے پاس آئی اور اس سے کہا کہ اے ہند ابھی ابھی کچھ قیدی آئے ہیں انہیں دیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے۔ آؤ چلیں وہیں دل بہلائیں ہند اٹھی اور اس نے عمدہ لباس زیب تن کیا اور اپنی سر تا پا چادر اوڑھی اور دوپٹہ سر کر کے اس مقام پر آئی اور اس نے خادمہ کو حکم دیا کہ ایک کرسی لائی جائے۔ جب وہ کرسی پر بیٹھ گئی تو زینب کی نظر اس پر پڑی آپ نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو اسے پہچان لیا اور اپنی بہن ام کلثوم سے کہا بہن کیا آپ نے اس عورت کو پہچان لیا ہے ؟ کلثوم نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے اسے نہیں پہچانا۔ زینب نے فرمایا یہ ہماری کنیر ہند بنت عبد اللہ ہے جو ہمارے گھر میں کام کاج کرتی تھی۔ زینب کی بات سن کر ام کلثوم نے اپنا سرے نیچے کر لیا اور اسی طرح زینب نے بھی اپنا سر نیچے کر لیا تا کہ ہند ان کی طرف متوجہ نہ ہو، لیکن ہند ان دونوں بیبیوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر پوچھا آپ نے آپس میں کیا گفتگو کر کے پر اسرار طور پر اور خاص انداز میں اپنے سر جھکا لیے ہیں کیا کوئی خاص بات ہے ؟ زینب نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش کھڑی رہیں ہند نے پھر پوچھا بہن آپ کس علاقے سے ہیں ؟

اب زینب خاموش نہ رہ سکیں اور فرمایا ، ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں، ہند نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو اپنی کرسی چھوڑ دی اور احترام سے کھڑی ہو گئی اور پوچھنے لگی بہن کیا آپ مدینے والوں کو جانتی ہیں ؟ زینب نے فرمایا ، آپ کن مدینہ والوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتی ہیں۔ ہند نے کہا ، میں اپنے آقا امام علی کے گھرانے کے متعلق پوچھنا چاہتی ہوں ، علی کے گھرانے کا نام لے کر ہند کی آنکھوں سے محبت کے آنسوں جاری ہو گئے اور خود کہنے لگی میں اس گھرانے کی خادمہ تھی اور وہاں کام کیا کرتی تھی مجھے اس گھرانے سے بہت محبت ہے۔ زینب نے پوچھا تو اس گھرانے کے کن افراد کو جانتی ہے اور کن کے متعلق دریافت کرنا چاہتی ہے ؟ ہند نے کہا کہ امام علی کی اولاد کا حال معلوم کرنا چاہتی ہوں، میں آقا حسین (ع) اور اولاد حسین (ع) اور علی (ع) کی پاکباز بیٹیوں کا حال معلوم کرنا چاہتی ہوں، خاص طور پر میں اپنی آقا زادیوں زینب و کلثوم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہوں اور اسی طرح فاطمہ زہرا کی دوسری اولاد کے متعلق معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ زینب نے ہند کی بات سن کر اشکبار آنکھوں کے ساتھ جواب دیا ، تو نے جو کچھ پوچھا ہے، میں تفصیل سے تجھے بتاتی ہوں، تو نے علی (ع) کے گھر کے متعلق پوچھا ہے تو ہم اس گھر کو خالی چھوڑ کر آئے تھے ، تو حسین (ع) کے متعلق دریافت کرتی ہے تو یہ دیکھو تمہارے آقا حسین (ع) کا سر تمہارے شوہر یزید کے سامنے رکھا ہے۔ تو نے اولاد علی علیہ السلام کے متعلق دریافت کیا ہے۔ تو ہم ابو الفضل العباس سمیت سب جوانوں کو کربلا کے ریگزار پر بے غسل و کفن چھوڑ آئے ہیں۔ تو نے اولاد حسین (ع) کے متعلق پوچھا ہے تو ان کے سب جوان مارے گئے ہیں۔ صرف ایک علی ابن الحسین (ع) باقی ہیں جو تیرے سامنے ہیں اور بیماری کی وجہ سے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے اور جو تو نے زینب کے متعلق دریافت کیا ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر سن کہ میں زینب ہوں اور یہ میری بہن ام کلثوم ہے۔ زینب کا درد ناک جواب سن کر ہند کی چیخ نکل گئی اور منہ پیٹ کر کہنے لگی ہائے میری آقا زادی یہ کیا ہو گیا ہے ہائے میرے مولا کا حال کیسا ہے، ہائے میرے مظلوم آقا حسین کاش میں اس سے پہلے اندھی ہو جاتی اور فاطمہ کی بیٹیوں کو اس حال میں نہ دیکھتی ، روتے روتے ہند بے قابو ہو گئی اور ایک پتھر اٹھا کر اپنے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سارا بدن خون خون ہو گیا اور وہ گریہ کر کے بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش میں آئی تو زینب اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگیں اے ہند تم کھڑی ہو جاؤ اور اب اپنے گھر چلی جاؤ کیونکہ تمہارا شوہر یزید ، بڑا ظالم شخص ہے ممکن ہے تمہیں اذیت و آزار پہنچائے۔ ہم اپنی مصیبت کا وقت گزار لیں گے ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے تمہارا سکون تباہ ہو جائے۔ ہند نے جواب دیا کہ خدا مجھے اپنے آقا و مولا حسین سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے، میری زندگی کا سکون ختم ہو چکا ہے اور اب میں اپنی زندگی کے باقی لمحات اسی طرح روتے ہوئے گزاروں گی اور اے میری آقا زادیوں میں آپ سے درخواست کرتی ہوں آپ سب میرے گھر آئیں ورنہ میں بھی آپ کے ساتھ یہیں بیٹھی رہوں گی اور قطعاً اپنے گھر نہیں جاؤں گی۔ یہ کہہ کر ہند اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی چادر اتار کر منہ پیٹتی ہوئی سر برہنہ یزید کے پاس آ گئی۔ یزید اس وقت سات سو کرسی نشین بیرون ملک کے سفیروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اپنی تعریف میں محو تھا ہند نے یزید سے کہا:

اے یزید کیا تو نے حکم دیا ہے کہ میرے آقا زادے حسین (ع) کا سر نوک نیزہ پر بلند کر کے دروازے پر لٹکایا جائے، نواسہ رسول کا سر میرے گھر کے دروازے پر ، یزید نے اپنی زوجہ کو اس حالت میں دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور بھرے دربار میں اسے سربرہنہ دیکھ کر برداشت نہ کر سکا اسے چادر پنہائی اور کہنے لگا ہاں یہ حکم میں نے دیا ہے، اب تو نواسہ رسول پر گریہ و ماتم کرنا چاہتی ہے۔ تو بے شک کر لے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن زیاد نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے حسین کو قتل کر ڈالا ہے۔ جب یزید نے یہ چاپلوسی و مکر فریب سے بھرے ہوئے جملے کہہ چکا تو اس وقت اس نے ہند کو چادر اوڑھائی تو ہند نے کہا : اے یزید خدا تجھے تباہ و برباد کرے اپنی زوجہ کو بھرے مجمع میں سربرہنہ دیکھ کر تیری غیرت جاگ اٹھی ہے، مگر تو رسول زادیوں کو کھلے عام سربرہنہ کر کے بازاروں اور درباروں میں لایا ہے اور ان کی چادریں چھین کر انھیں نا محرموں کے سامنے لاتے وقت تیری غیرت کہاں گئی تھی وائے ہو اے یزید۔

شہادت:

حضرت زینب (س) علی (ع) و فاطمہ (س) کی بیٹی اور پیغمبر اکرم (ص) کی نواسی ہیں۔ آپ نہایت ہی بافضیلت خاتون تھیں۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام علی زین العابدین (ع) آپ کو عالمہ غیر معلمہ [ایسی عالمہ کہ جس نے کسی سے اکتساب علم نہیں کیا] کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آپ کے کمالات صرف علم تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے مختلف حصوں میں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو منظر عام پر آئے۔ جیسا کہ ہم کربلا اور اس کے بعد والے واقعات میں آپ کی شجاعت اور فن خطابت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

حضرت زینب (س) کی شادی:

آپ کی شادی 17 ہجری میں اپنے چچا کے بیٹے عبد اللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبد اللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند تھے اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے جنکے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔

حضرت زینب (س) واقعہ کربلا کے بعد:

کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ لہذا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں نے ایک مقدس اور اعلی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی، لیکن اگر حضرت زینب (س) اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام زحمتیں ضائع ہو جاتیں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم آج شہدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب حضرت زینب (س) کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے انہیں " شریکۃ الحسین  " کا لقب دیا گیا ہے۔

اگر امام حسین (ع) اور انکے ساتھیوں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کے راستے میں جہاد کیا تو حضرت زینب (س) نے اپنے کلام کے ذریعے اس جہاد کو اپنی آخری منزل تک پہنچایا۔

کربلا میں سید الشہداء امام حسین (ع) اور انکے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سوچ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اسکے مخالفین کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو گیا ہے۔ لیکن حضرت زینب (س) کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہو گیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اسکی اور اسکی نسل بنی امیہ کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہوا ہے۔

حضرت زینب (س) کے خطبات:

حضرت زینب (س) کے خطبات میں ان کے والد گرامی امام علی (ع) کی فصاحت اور بلاغت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لہذا جس طرح امیر المؤمنین علی (ع) کے کلام کو بزرگ علماء نے قیمتی موتیوں کی طرح جمع کیا ہے، اسی طرح حضرت زینب (س) کے خطبات کو بھی بڑے بڑے محققین اور تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ ان میں مرحوم محمد باقر مجلسی کی کتاب " بحار الانوار "، مرحوم ابو منصور احمد ابن علی طبرسی کی کتاب " احتجاج "، شیخ مفید کی کتاب " امالی " اور احمد ابن ابی طاہر کی کتاب " بلاغات النساء " شامل ہیں۔

1- بازار کوفہ میں حضرت زینب (س) کا خطبہ:

کوفہ کے زن و مرد جو ہزاروں کی تعداد میں یہ نظارہ دیکھنے کے لیے وہاں جمع تھے۔ آلِ رسول (ص) کو اس تباہ حالت میں دیکھ کر زار و قطار رونے لگے۔ امام زین العابدین نے نحیف آواز کے ساتھ فرمایا:

تنوحون وتبکون من ذا الذی قتلنا،

اے کوفہ والو ! یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا ہے ؟

اسی اثناء میں ایک کوفی عورت نے چھت سے جھانک کر دیکھا اور پوچھا کہ تم کس قوم اور قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو ؟ آپ نے فرمایا :

نحن اساری آلِ محمد ص"

ہم خاندانِ نبوت کے اسیر ہیں۔

یہ سن کر وہ نیک بخت عورت نیچے اتری اور کچھ برقعے اور چادریں اکٹھی کر کے ان کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب (س) نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ لوگوں کی آہ و زاری اور شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، لیکن راوی بتاتے ہیں کہ جونہی شیر خدا کی بیٹی نے لوگوں کو ارشاد کیا کہ " انصتوا " [خاموش ہو جاؤ]، تو کیفیت یہ تھی کہ:

ارتدت الانفاس و سکنت الاجراس،

آتے ہوئے سانس رک گئے اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ہو گئیں۔

اس کے بعد دختر علی (ع) نے خطبہ شروع کیا تو لوگوں کو حضرت علی (ع) کا لب و لہجہ یاد آ گیا۔

جب ہر طرف مکمل خاموشی چھا گئی تو امّ المصائب نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

سب تعریفیں خدا وند ذوالجلال و الاکرام کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو میرے نانا محمد (ص) پر اور ان کی طیب و طاہر اور نیک و پاک اولاد پر۔ اما بعد ! اے اہلِ کوفہ ! اے اہل فریب و مکر ! کیا اب تم روتے ہو ؟ خدا کرے تمہارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو۔ تمہاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے محکم ڈوری بانٹی اور پھر خود ہی اسے اپنے ہاتھوں سے کھول دیا ہو اور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا ہو۔ تم منافقانہ طور پر ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ہو جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو، بڑی بڑی بھڑکیں  مارنے والے ، پیکر فسق و فجور اور فسادی، کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کے غماز ہو۔ تمہاری مثال کثافت (گندگی) پر اگنے والے سبزے یا اس چاندی جیسی ہے کہ جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔

آگاہ رہو ! تم نے بہت ہی برے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خداوند عالم تم پر غضب ناک ہے۔ اس لیے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ہو گئے۔ اب کیوں گریہ و زاری کرتے ہو ؟ ہاں بخدا البتہ تم اس کے سزاوار ہو کہ زیادہ گریہ کرو اور کم ہنسو۔ تم اپنے امام علیہ السلام کے قتل میں ملوث ہو چکے ہو اور تم اس داغ کو کبھی دھو نہیں سکتے اور بھلا تم کیسے خاتم نبوت اور معدن رسالت کے فرزند اور جوانان جنت کے سردار کے قتل کے الزام سے کیونکر بری ہو سکتے ہو۔ لعنت ہو تم پر اور ہلاکت ہے تمہارے لیے۔ تم نے بہت ہی برے کام کا ارتکاب کیا ہے اور آخرت کے لیے بہت برا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تمہاری کوشش رائیگاں ہو گئی اور تم برباد ہو گئے۔ تمہاری تجارت خسارے میں رہی اور تم خدا کے غضب کا شکار ہو گئے ہو۔ تم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے ہو۔ افسوس ہے اے اہل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم نے رسول خدا (ص) کے کس جگر گوشہ کو پارہ پارہ کر دیا ہے ؟ اور ان کا کون سا خون بہایا ہے ؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی ؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا ہے ؟ تم نے ایسے پست اعمال کا ارتکاب کیا ہے کہ آسمان گر پڑیں، زمین پھٹ جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم نے قتلِ امام (ع) کا سنگین جرم کیا ہے، جو وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔ اگر اس قدر بڑے گناہ پر آسمان سے خون برسے تو تعجب نہ کرو۔ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ سخت اور رسوا کن ہو گا اور اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو کیونکہ خداوندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا اور اسے انتقام کے فوت ہو جانے کا خدشہ نہیں ہے۔ یقیناً تمہارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے۔

2- دربار یزید میں حضرت زینب (س) کا خطبہ:

بسم اللہ الرحمن الرحیم،

سب تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت (ع) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا۔ اے یزید ! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئیے ہیں اور کیا آلِ رسول (ص) کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز اور ہم رسوا ہوئے ہیں ؟ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے ؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے ؟ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے اور ناک بھوں چڑھاتا ہوا مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے اور زمامداری [خلافت] کے ہمارے مسلّمہ حق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔

اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ذرا دم لے۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لیے بہتر ہے، بلکہ ہم نے انہیں اس لیے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں اور ان کے لیے خوفناک عذاب معین و مقرر کیا جا چکا ہے۔

اے طلقاء کے بیٹے ( آزاد کردہ غلاموں کی اولاد ) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ہے۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول (ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے اور لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بیبیوں کے ننگے سروں پر جمی ہوئی ہیں۔ آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں کہ جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد (ص) کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔

اس شخص سے بھلائی کی توقع ہی کیا ہو سکتی ہے کہ جو اس خاندان کا چشم و چراغ ہو جس کی بزرگ خاتون (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر چبا کر تھوک دیا ہو اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے کہ جس کا گوشت پوست شہیدوں کے خون سے بنا ہو۔

وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہو۔

اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔

اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (ع) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے۔

اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔

تو نے اولاد رسول (ص) کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کیے ہیں۔

تو نے عبد المطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے کہ جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔

آج تو آلِ رسول (ص) کو قتل کر کے اپنے بد نہاد اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔

تو عنقریب اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اُس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے میں باز رہتا۔

اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی !

اے ہمارے کردگارِ حق، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے۔ اے پروردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا۔

اے یزید ! تو نے جو ظلم کیا ہے اپنے ساتھ کیا ہے۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے۔ تو رسولِ خدا (ص) کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناؤنے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول (ص) کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول (ص) کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالا مال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر مٹ چکے ہیں، بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد  پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا (ص) عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے، پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعے تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا اور یہی بات تیرے برے انجام کے لیے کافی ہے۔

عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لیے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔

اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بد نہاد اور برے انسان سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں توُ ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے۔ میری اس جرأت سخن پر توُ مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بد سلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنواؤں اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑئیے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔

اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے۔

اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔

تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔

تو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔

تیری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن کے لیے حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لیے خدا کی لعنت ہے۔

ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور ہمارے آخر ( امام حسین علیہ السلام) کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لیے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے۔

خطبے کے فوری اثرات:

حضرت زینب(س) کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیت(ع) کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا۔

مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135؛

سید ابن طاؤوس، اللہوف، ص221.

دربار میں حضرت زینب(س) کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسین(ع) کی قتل کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا۔

شیخ مفید، الارشاد، ص358؛

حسن الہی، زینب كبری عقیلہ بنی ہاشم، ص244۔

 

یزید نے اطرافیوں سے اسرائے آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لیکن نعمان بن بشیر نے اہل بیت(ع) کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا۔  اسی تناظر میں یزید نے اسراء اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ ہند یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اہل بیت(ع) سے ملاقات کیلئے گئیں اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری شریک ہوئیں۔ تین دن تک شام کے خرابے میں حضرت زینب(س) نے اپنے بھائی کی عزاداری برگزار کی۔

مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135

سید ابن طاؤوس، اللہوف، ص221.

 ابومخنف، وقعۃالطف، ص311

شیخ عبّاس قمی، نفس المہموم، ص265۔

آخرکار اسرائے اہل بیت(ع) کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچایا گیا۔

 ابن عساکر، اعلام النسا، ص191

حضرت زینب (س) کا زیارت نامہ:

اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا بِنْتَ رَسُولِ اللهِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا بِنْتَ فاطِمَةَ وَخَدیجَةَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا بِنْتَ اَمیرِ الْمُؤْمِنینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا اُخْتَ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یابِنْتَ وَلِیِّ اللهِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا اُخْتَ وَلِیِّ اللهِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا عَمَّةَ وَلِیِّ اللهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکاتُهُ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ عَرَّفَ اللهُ بَیْنَنا وَبَیْنَکُمْ فِی الْجَنَّةِ،وَحَشَرَنا فی زُمْرَتِکُمْ، وَاَوْرَدَنا حَوْضَ نَبیِّکُمْ، وَسَقانا بِکَاْسِ جَدِّکُمْ مِنْ یَدِ عَلِیِّ بْنِ اَبی طالِب،صَلَواتُ اللهِ عَلَیْکُمْ، اَسْئَلُ اللهَ اَنْ یُرِیَنا فیکُمُ السُّرُورَ وَالْفَرَجَ، وَاَنْ یَجْمَعَنا وَاِیّاکُمْ فی زُمْرَةِ جَدِّکُمْ مُحَمَّد صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ، وَاَنْ لا یَسْلُبَنا مَعْرِفَتَکُمْ، اِنَّهُ وَلِیٌّ قَدیرٌ، اَتَقَرَّبُ اِلَی اللهِ بِحُبِّکُمْ، وَالْبَرائَةِ مِنْ اَعْدائِکُمْ، وَالتَّسْلیمِ اِلَی اللهِ راضِیاً بِهِ غَیْرَ مُنْکِروَلا مُسْتَکْبِر وَعَلی یَقینِ ما اَتی بِهِ مُحَمَّدٌ، وَبِهِ راض نَطْلُبُ بِذلِکَ وَجْهَکَ یا سَیِّدی، اَللّهُمَّ وَرِضاکَ وَالدّارَ الآخِرَةَ، یا سَیِّدَتی یا زَیْنَبُ،  اِشْفَعی لی فِی الْجَنَّةِ، فَاِنَّ لَکِ عِنْدَ اللهِ شَاْناً مِنَ الشَّاْنِ، اَللّهمَّ اِنّی اَسْئَلُکَ اَنْ تَخْتِمَ لی بِالسَّعادَةِ، فَلا تَسْلُبْ مِنّی ما اَنَا فیهِ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ اِلاّ بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظیمِ، اَللّهمَّ اسْتَجِبْ لَنا وَتَقَبَّلْهُ بِکَرَمِکَ وَعِزَّتِکَ، وَبِرَحْمَتِکَ وَعافِیَتِکَ، وَصَلَّی اللهُ عَلی مُحَمَّد وَآلِهِ اَجْمَعینَ، وَسَلَّمَ تَسْلیماً یا اَرْحَمَ الرّاحِمینَ.

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی