2024 March 29
عاشورہ کے دن روزہ رکھنا سنت محمدی یا بدعت اموی
مندرجات: ١٧٤٨ تاریخ اشاعت: ١٩ September ٢٠١٨ - ١٦:١٩ مشاہدات: 17108
مضامین و مقالات » پبلک
عاشورہ کے دن روزہ رکھنا سنت محمدی یا بدعت اموی

عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا کیا شرعی حکم ہے ؟

اس دن روزہ رکھنا مکروہ ہے، شیعہ فقہاء نے بھی اس دن روزہ رکھنے کے مکروہ ہونے کا فتوا دیا ہے، رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ حتی بعض فقہاء جیسے بحرانى اور مجلسى نے اس دن روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔

مکروہ ہونے پر دلائل:

1- عاشورا کے دن روزہ رکھنا دشمنان دین اور دشمنان اہل بیت کی سنت (بدعت) تھی کہ مسلمانوں کو اس دن انکی غلط سنت کو زندہ نہیں کرنا چاہیے۔

2- وہ روایات جو عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے جائز یا واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں، ان روایات سے غم کی حالت میں فقط کھانے پینے کے ترک کرنے کو سمجھا جائے گا، نہ روزہ رکھنے کو، یا کہا جائے گا کہ اہل بیت نے تقیے کی حالت میں ان روایات کو بیان کیا تھا۔ اب جبکہ حالات ٹھیک ہیں اور تقیہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اب اس حالت میں عاشورا کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہو گا۔

3- خود رسول خدا، انکے اہل بیت اور اصحاب نے عاشورا کے دن روزہ نہیں رکھا تھا، پس جب انکی سنت نہیں تھی تو اب اس دن روزہ رکھنا، سنت نہیں بلکہ بدعت ہو گا۔

شیعہ فقہاء کی ایک بہت بڑی تعداد نے عاشورا کے دن صبح سے عصر کے وقت تک امساک کرنے کا فتوا دیا ہے نہ روزے کی نیت سے کھانے پینے کے ترک کرنے کا فتوا دیا ہے۔ وہ فقہاء جیسے:

شہید ثانى، محقق کرکى، علامہ حلّى، محقق اردبیلى، شہید اول، شیخ بہائى، سبزوارى، فیض کاشانى، حرّ عاملى، علامہ مجلسى، کاشف الغطأ، نراقى، محقق قمى و....

آئمہ معصومین (ع) اور روزہ عاشورا :

محمد ابن مسلم اور زراره ابن أعین نے امام باقر علیہ السلام سے عاشورا کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو امام (ع) نے فرمایا:

کان صومه قبل شهر رمضان، فلما نزل شهر رمضان ترک.

اس دن کا روزہ رکھنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنے سے پہلے واجب تھا، لیکن جب ماہ رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہو گیا تو عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو ترک کر دیا گیا۔

من لا یحضره الفقیه، ج 2، ص 51، ح 224.

ایک دوسری روایت میں یہی سوال امام باقر (ع) سے کیا گیا تو امام نے فرمایا:

صوم متروک بنزول شهر رمضان، والمتروک بدعة.

اس دن کا روزہ ماہ رمضان کے روزے کے واجب ہونے کے بعد ترک کر دیا گیا اور ترک شدہ دن میں روزہ رکھنا بدعت ہوتی ہے، (نہ سنت)۔

امام صادق (ع) کی نظر میں نو اور دس محرم کو روزہ رکھنا:

الكافی عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبَانٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ صَوْمِ تَاسُوعَا وَ عَاشُورَاءَ مِنْ شَهْرِ الْمُحَرَّمِ فَقَالَ تَاسُوعَا یَوْمٌ حُوصِرَ فِیهِ الْحُسَیْنُ وَ أَصْحَابُهُ بِكَرْبَلَاءَ وَ اجْتَمَعَ عَلَیْهِ خَیْلُ أَهْلِ الشَّامِ وَ أَنَاخُوا عَلَیْهِ وَ فَرِحَ ابْنُ مَرْجَانَةَ وَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ بِتَوَافُرِ الْخَیْلِ وَ كَثْرَتِهَا وَ اسْتَضْعَفُوا فِیهِ الْحُسَیْنَ ع وَ أَصْحَابَهُ وَ أَیْقَنُوا أَنَّهُ لَا یَأْتِی الْحُسَیْنَ نَاصِرٌ وَ لَا یُمِدُّهُ أَهْلُ الْعِرَاقِ بِأَبِی الْمُسْتَضْعَفَ الْغَرِیبَ ثُمَّ قَالَ وَ أَمَّا یَوْمُ عَاشُورَاءَ فَیَوْمٌ أُصِیبَ فِیهِ الْحُسَیْنُ ع صَرِیعاً بَیْنَ أَصْحَابِهِ وَ أَصْحَابُهُ حَوْلَهُ صَرْعَى عُرَاةً أَ فَصَوْمٌ یَكُونُ فِی ذَلِكَ الْیَوْمِ كَلَّا وَ رَبِّ الْبَیْتِ الْحَرَامِ مَا هُوَ یَوْمَ صَوْمٍ وَ مَا هُوَ إِلَّا یَوْمُ حُزْنٍ وَ مُصِیبَةٍ دَخَلَتْ عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ وَ أَهْلِ الْأَرْضِ وَ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَ یَوْمُ فَرَحٍ وَ سُرُورٍ لِابْنِ مَرْجَانَةَ وَ آلِ زِیَادٍ وَ أَهْلِ الشَّامِ غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَ عَلَى ذُرِّیَّاتِهِمْ وَ ذَلِكَ یَوْمٌ بَكَتْ جَمِیعُ بِقَاعِ الْأَرْضِ خَلَا بُقْعَةِ الشَّامِ فَمَنْ صَامَهُ أَوْ تَبَرَّكَ بِهِ حَشَرَهُ اللَّهُ مَعَ آلِ زِیَادٍ مَمْسُوخَ الْقَلْبِ مَسْخُوطاً عَلَیْهِ وَ مَنِ اذَّخَرَ إِلَى مَنْزِلِهِ ذَخِیرَةً أَعْقَبَهُ اللَّهُ تَعَالَى نِفَاقاً فِی قَلْبِهِ إِلَى یَوْمِ یَلْقَاهُ وَ انْتَزَعَ الْبَرَكَةَ عَنْهُ وَ عَنْ أَهْلِ بَیْتِهِ وَ وُلْدِهِ وَ شَارَكَهُ الشَّیْطَانُ فِی جَمِیعِ ذَلِكَ‏.

عبد الملک نے امام صادق (ع) سے نو اور دس محرم کو روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان دو دنوں میں روزہ رکھا جا سکتا ہے ؟

امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: نو محرم کا دن وہ دن ہے کہ جب میدان کربلا میں امام حسین اور انکے اصحاب کا اہل شام نے محاصرہ کیا تھا۔ ابن مرجانہ عبید اللہ ابن زیاد ملعون اور ابن سعد ملعون اپنے لشکر کی زیادہ تعداد دیکھ کر بہت خوش تھے اور انھوں نے اس دن امام حسین اور انکے اصحاب کو کمزور شمار کیا تھا اور اس دن انکو یقین ہو گیا تھا کہ اب کوئی بھی حسین کی مدد کرنے کے لیے نہیں آئے گا، پھر امام صادق نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:

میرے ماں باپ اس حسین پر قربان ہو جائیں کہ جسکو کمزور شمار کیا گیا اور وہ پردیس میں تھے !!

پھر فرمایا و اما روز عاشورا:

محمد بن یعقوب عن الحسین بن علی الهاشمی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان (عن أبان عن عبد الملک) قال: سألت أبا عبد الله علیه السلام عن صوم تاسوعاء وعاشوراء من شهر المحرم؟ فقال:... ما هو یوم صوم. وما هو إلا یوم حزن ومصیبة دخلت على أهل السماء وأهل الأرض وجمیع المؤمنین. ویوم فرح وسرور لابن مرجانة وآل زیاد وأهل الشام. غضب الله علیهم وعلى ذریاتهم...

یہ وہ دن ہے کہ جب امام غم و مصیبت میں مبتلا ہوئے اور زخمی حالت میں اپنے اصحاب کے درمیان زین سے زمین پر آ پڑے اور اس دن انکے اصحاب کے اجساد بھی برھنہ حالت میں انکے ارد گرد گرے ہوئے تھے، کیا اس حالت والے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے،

خانہ کعبہ کے خدا کی قسم بالکل نہیں رکھا جا سکتا، یہ دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے، بلکہ یہ دن حزن و غم و مصیبت کا دن ہے کہ اس دن تمام اہل آسمان و زمین اور تمام مؤمنین غم و مصیبت سے دوچار ہوئے تھے۔

روز عاشورا، ابن مرجانہ، آل زیاد اور اہل شام کے لیے خوشی و شادی کا دن ہو سکتا ہے، خداوند کا غضب و غصہ ہو ان پر اور انکی اولاد پر، عاشورا وہی دن ہے کہ جب سرزمین شام کے علاوہ تمام زمینوں نے گریہ کیا۔

جو بھی اس دن روزہ رکھے یا اس دن کو با برکت شمار کرے تو خداوند اسکو اس حال میں آل زیاد کے ساتھ محشور کرے گا کہ انکے دل مسخ ہو چکے ہوں گے اور ان پر خداوند کا غضب و عذاب ہوا ہو گا۔

جو بھی اس دن اپنے گھر میں خوشی کی حالت میں کوئی چیز ذخیرہ کرے تو خداوند اسکے دل کو نفاق میں مبتلا کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں خدا سے ملاقات کرے گا اور برکت کو اس سے اور اسکی اولاد سے دور کر دے گا اور شیطان کو ان سب کے ساتھ شریک قرار دے دے گا۔

بحار الأنوار (ط - بیروت)  ج‏45  ص95

وسائل الشیعه (آل البیت)، شیخ حر عاملی، ج 10، ص 460.ح 13847

 

 

شہادت امام حسین (ع) اور روزه عاشورا سنت بنی امیہ:

بنى امیہ لعنت اللہ علیہم نہ فقط یہ کہ امام حسین (ع) اور انکے اہل بیت و اصحاب کی شہادت پر عزاداری کرنے کی مخالفت کرتے تھے بلکہ عملی طور پر بھی مقابلہ کرنے کی غرض سے انھوں نے روز عاشورا کو جشن و خوشی و عید کا دن قرار دیا ہوا تھا۔

بنی امیہ روز عاشورا کو مبارک دن جانتے تھے اور اس دن جشن کی محافل برپا کیا کرتے تھے اور اس دن پورے سال کا راشن گھروں میں ذخیرہ کیا کرتے تھے اور وہ یہ سارے کام ہر سال انجام دیا کرتے تھے۔

اسی وجہ سے آئمہ معصومین اور انہی کی راہ پر چلنے والے فقہاء نے بھی اس دن روزہ رکھنے سے منع کرتے ہوئے، اس دن کے روزے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

امام صادق علیہ السلام سے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:

ذاک یوم قتل فیه الحسین علیه السلام، فإن کنت شامتا فصم. ثم قال: إن آل أمیة علیهم لعنة الله ومن أعانهم على قتل الحسین من أهل الشام، نذروا نذرا إن قتل الحسین علیه السلام وسلم من خرج إلى الحسین علیه السلام وصارت الخلافة فی آل أبی سفیان، أن یتخذوا ذلک الیوم عیدا لهم، وأن یصوموا فیه شکرا، ویفرحون أولادهم، فصارت فی آل أبی سفیان سنّة إلى الیوم فی الناس، واقتدى بهم الناس جمیعا، فلذلک یصومونه ویدخلون على عیالاتهم وأهالیهم الفرح ذلک الیوم. ثم قال: إن الصوم لا یکون للمصیبة، ولا یکون إلا شکرا للسلامة، وإن الحسین علیه السلام أصیب، فإن کنت ممن أصبت به فلا تصم، وإن کنت شامتا ممن سرک سلامة بنی أمیة فصم شکرا لله تعالى.

یہ دن امام حسین کی شہادت کا دن ہے، اگر تم اس دن امام حسین پر ہونے والے مصائب سے راضی و خوش ہو تو اس دن روزہ رکھو۔

بنی امیہ لعنت اللہ علیہم اور اہل شام، کہ جہنوں نے امام حسین کو شہید کیا تھا، نے نذر مانی ہوئی تھی کہ اگر حسین قتل ہو جائے اور ہمارا شامی لشکر سلامتی کے ساتھ واپس آ جائے اور مقام خلافت آل ابو سفیان کو مل جائے تو عاشورا کے دن کو خوشی کے ساتھ اپنے لیے عید کا دن قرار دیں گے اور شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امالی شیخ طوسی، ص 667، رقم‏1397 / 4.

امام رضا علیہ السلام سے اسی بارے میں حدیث نقل ہوئی ہے کہ:

یہ دن وہ دن ہے کہ بنی امیہ اس دن روزہ رکھتے تھے، حالانکہ اس دن اسلام اور مسلمین عزادار ہوئے تھے، پس آج کے دن روزہ نہ رکھو، جو بھی اس دن روزہ رکھے گا تو آل امیہ کی طرح اسکے نصیب میں بھی جہنم کی آگ لکھی جائے گی۔

اصول کافی، ج 4، ص147، شماره حدیث 6

تهذیب الاحکام ، ج4، ص301، شماره حدیث 912

الإستبصار، ج2، ص135، شماره حدیث 443

بحارالأنوار، ج61، ص291.

شفاءالصدور، طهرانی ، ص 259،

وافی، جزء7، ص ‏14به ‏نقل ‏از امالی ‏صدوق و علل‏الشرائع صدوق.

کراجکی، التعجب، ص 45، ضمیمه کنز الفوائد.

جامع احادیث الشیعة، ج 9، ص 477

حسن ثقفی تهرانی، شرح زیارت عاشورا، ص 420

اقوال علمائے شیعہ اور روزہ عاشورا:

بعض شیعہ علماء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا ہے، جیسے مرحوم خوانساری کتاب جامع المدارک میں ہے کہ:

وجزم بعض متأخری المتأخرین بالحرمة ترجیحا للنصوص الناهیة وحملا لما دل على الاستحباب على التقیة. والظاهر أن هذا أقرب،

بعض شیعہ علماء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے سے منع کرنے والی روایات پر عمل کیا ہے اور روزے کے جائز ہونے والی روایات کو تقیے کی حالت میں صادر ہونے والی روایات قرار دیا ہے، پس نتیجے کے طور پر اس دن روزہ رکھنے کے حرام ہونے کو یقینی قرار دیا ہے، اور یہی قول صحیح ہے۔

جامع المدارک، مرحوم خوانساری، ج 2، ص 226

مرحوم محدث بحرانی نے کتاب حدائق میں لکھا ہے کہ:

و بالجملة فإن دلالة هذه الأخبار على التحریم مطلقا أظهر ظاهر.

۔۔۔۔۔ اور خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایات عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

الحدائق الناضره، محقق بحرانی، ج 13، ص 376

مرحوم نراقی نے کتاب مستند الشیعۃ میں لکھا ہے کہ:

فالحق: حرمة صومه من هذه الجهة. فإنه بدعة عند آل محمد متروکة،

صحیح رائے و فتوا یہ ہے کہ عاشورا کے دن روزہ رکھنا حرام ہے، کیونکہ اس دن روزہ رکھنا آل محمد کے نزدیک ایک تری شدہ بدعت شمار ہوتی ہے۔

مستند الشیعه، محقق نراقی، ج 10، ص 493

اگرچہ بعض شیعہ علماء جیسے سید یزدی صاحب عروه و مرحوم بروجردی و حکیم و امام خمینی نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

العروه الوثقى، سید یزدی، ج 3، ص 657

اور بعض شیعہ علماء نے حزن و غم کی نیت سے روزہ رکھنے کو، نہ کہ بنی امیہ کی طرح اس دن کو عید شمار کرتے ہوئے روزہ رکھے، صبح سے عصر کے وقت تک مستحب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بہتر ہے کہ خاک شفاء امام حسین (ع) سے افطار کرنا مستحب ہے۔

استبصار، شیخ طوسی، ج2، ص 136

عبد الله بن سنان عن الصادق علیه السلام قال: دخلت علیه یوم عاشورا فألفیته کاسف اللون ظاهر الحزن و دموعه تنحدر کاللؤلؤ المتساقط، فقلت: یا ابن رسول الله مم بکاؤک لا أبکى الله عینیک فقال لی: أو فی غفلة أنت؛ اما علمت أن الحسین علیه السلام أصیب فی مثل هذا الیوم فقلت: یا سیدی فما قولک فی صومه قال لی: صمه من غیر تبییت وأفطره من غیر تشمیت ولا تجعل صوم یوم کملا ولیکن إفطارک بعد صلاة العصر بساعة على شربة من ماء فإنه فی ذلک الوقت من ذلک الیوم تجلت الهیجاء عن آل رسول الله صلى الله علیه وآله وانکشفت الملحمة عنهم ،

عبد الله ابن سنان نے امام صادق علیہ ‌السلام سے روایت کی ہے کہ:

میں روز عاشورا امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام بہت ہی غم و حزن کی حالت میں مسلسل اشک بہا رہے ہیں۔ میں نے پریشان ہو کر عرض کیا: یا ابن رسول اللہ ! خداوند کبھی بھی آپکی آنکھوں کو نہ رلائے، آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟

حضرت نے فرمایا: کیا تم غافل ہو اور نہیں جانتے کہ امام  حسین آج کے دن مصائب میں مبتلا ہوئے تھے ؟ ابن سنان نے عرض کیا: اے میرے آقا و سردار ! آج کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے ؟ امام نے فرمایا:

آج کے دن روزہ رکھو لیکن مغرب کے وقت تک روزہ مکمل نہ کرو بلکہ مغرب سے پہلے پہلے افطار کر دو اور بغیر اسکے کہ اس روزے سے خدا کی رحمت کی امید رکھو، اس دن کے روزے کو مکمل روزے کی طرح قرار نہ دو اور نماز عصر کے تھوڑی دیر بعد پانی کے ایک گھونٹ سے اسے افطار کر دو۔۔۔۔۔

مصباح المتهجد، شیخ طوسی، ص 547

امام رضا (ع) نے ایک روایت میں فرمایا ہے کہ:

من کان یوم عاشوراء یوم مصیبته وحزنه وبکائه یجعل الله عز وجل یوم القیامة یوم فرحه وسروره وقرت بنا فی الجنان عینه.

جس شخص کا روز عاشورا غم ، حزن اور گرئیے کا دن ہو تو خداوند قیامت کے دن کو اسکے لیے خوشی اور سرور کا دن قرار دے گا اور اسکی آنکھوں کو جنت میں ہماری زیارت سے سکون عطا فرمائے گا۔

علل الشرائع، شیخ صدوق، ج 1، ص 227

روزہ عاشورا اہل سنت اور انکے علماء کے نزدیک:

اکثر علمائے اہل سنت عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو مستحب اور ایک طرح کی سنت جانتے ہیں اور انھوں نے اس بارے میں روایات کو بھی نقل کیا ہے:

ابن اثیر نے کتاب کامل فی تاریخ میں لکھا ہے کہ:

رسول خدا جب مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ یہودیوں نے عاشورا کے دن روزہ رکھا ہوا ہے، لیکن اسکے باوجود ان حضرت نے یہودیوں کو اس کام سے منع نہیں کیا تھا۔

الکامل فی التاریخ ترجمه، ج‏7، ص130.

اسکے علاوہ اہل سنت کی کتب صحاح ستہ میں عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں، کچھ ایسی متضاد روایات موجود ہیں کہ ان سے ایک اور صحیح معنی سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

رسول خدا (ص) اور قریش کا اسلام سے پہلے عاشورا کے دن روزہ رکھنا:

اہل سنت کی کتاب صحیح بخاری میں ایک روایات ذکر ہوئی ہے کہ جسکی بناء پر اہل سنت کے بعض علماء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے مستحب ہونے کا فتوا دیا ہے:

عَنْ عَائِشَةَ رضى الله عنها قَالَتْ: کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَکَهُ.

عائشہ کہتی ہے کہ: زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول خدا بھی اس دن روزہ رکھتے تھے اور جب رسول خدا مدینہ آئے تو بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے اور وہ دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، یہاں تک کہ ماہ رمضان کا روزہ واجب ہو گیا کہ اسکے بعد رسول خدا نے عاشورا کے دن روزہ رکھنا ترک کر دیا اور حکم دیا کہ جس کا دل چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا دل نہ چاہے وہ اس دن روزہ نہ رکھے۔

صحیح البخاری، ج 2، ص 250، ح 2002، کتاب الصوم، ب 69. باب صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ.

اس روایت پر تحقیقی نگاہ:

اولا:

اس روایت کے سلسلہ سند میں ہشام ابن عروہ راوی کی وجہ سے، اس روایت کی سند میں اشکال و اعتراض ہے، کیونکہ ابن قطان نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

أنّه اختلط و تغیّر ،

وہ تبدیل ہو گیا ہے اور وہ صحیح و غلط مطالب کو آپس میں ملا کر نقل کرتا تھا۔

ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

أنّه نسی بعض محفوظه أو وهم ،

وہ اپنی بعض علمی معلومات کو بھول چکا تھا یا ان میں شک کیا کرتا تھا۔

ابن خرّاش نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

کان مالک لا یرضاه نقم علیه حدیثه لأهل العراق،

مالک اس سے راضی نہ تھا اور جب وہ اسکی احادیث کو اہل عراق کے لیے نقل کرتا تھا تو اس پر اعتراض کیا جاتا تھا۔

میزان الاعتدال، ج 4، ص 301

و ثانیا:

یہ روایت مندرجہ ذیل ذکر ہونے والی روایات سے تضاد رکھتی ہے:

ہجرت تک رسول خدا (ص) اور قریش کو روزہ عاشورا کا علم نہ ہونا:

یہ روایت کہ جو کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہوئی ہے، یہ مندرجہ بالا صحیح بخاری کی روایت سے مکمل طور پر تضاد رکھتی ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ أَبِیهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رضى الله عنهما - قَالَ قَدِمَ النَّبِىُّ - صلى الله علیه وسلم - الْمَدِینَةَ. فَرَأَى الْیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ «مَا هَذَا». قَالُوا هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ. هَذَا یَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِى إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ. فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْکُمْ». فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ.

نبی اکرم صلى الله علیہ وآلہ وسلم مدینہ آئے اور انھوں نے دیکھا کہ یہودیوں نے عاشورا کے دن روزہ رکھا ہوا ہے، حضرت نے فرمایا: یہ روزہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے جواب دیا:

یہ خوشی کا دن ہے کہ اس دن خداوند نے بنی اسرائیل کو انکے دشمنوں سے نجات دلائی تھی، لہذا موسی اور انکے پیروکار آج کے دن روزہ رکھتے ہیں، رسول خدا نے فرمایا: میں سب سے زیادہ موسی کی اتباع کرنے والا ہوں، اسی وجہ سے ان حضرت نے اس دن کو روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

صحیح بخاری، ج 2، ص 251، شماره حدیث 2004

قابل توجہ ہے کہ پہلی روایت کہتی تھی کہ رسول خدا اور قریش زمانہ جاہلیت میں اس دن میں روزہ رکھتے تھے اور 13 سال مکہ میں بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے اور ماہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد بھی لوگوں کو حق انتخاب تھا کہ وہ اس دن روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔

لیکن یہ دوسری روایت کہتی ہے کہ رسول خدا نے جب مدینہ ہجرت کی تو نہ یہ کہ وہ حضرت اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس دن روزہ رکھنے کا انکو علم تک نہ تھا اور جب یہودیوں کو دیکھا کہ انھوں نے اس دن روزہ رکھا ہوا ہے تو تعجب سے ان سے سوال کیا تو جواب سنا کہ ہم حضرت موسی کو نجات ملنے کی خوشی میں آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو میں بھی کفار مکہ کے ہاتھوں نجات ملنے کی خوشی میں اس دن روزہ رکھنے کا موسی سے زیادہ اہل ہوں، اسکے بعد نہ صرف یہ کہ رسول خدا نے خود اس دن روزہ رکھنا شروع کر دیا بلکہ وہ دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔

روزہ عاشورا کو ماہ رمضان کے روزے کی وجہ سے ترک کرنا:

اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک ایسی روایت کو ذکر کیا ہے کہ جو اوپر والی ایک روایت کے موافق اور دوسری روایت سے تضاد رکھتی ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ: صَامَ النَّبِیُّ صلى الله علیه وسلم عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِکَ. وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ لاَ یَصُومُهُ، إِلاَّ أَنْ یُوَافِقَ صَوْمَهُ.

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، یہاں تک کہ ماہ رمضان واجب ہو گیا اور اسکے بعد اس دن کا روزہ رکھنا ترک ہو گیا اور عبد اللہ ابن عمر اس دن کو روزہ نہیں رکھتا تھا، مگر یہ کہ عاشورا کا دن اس دن ہوتا کہ جس دن عام طور پر وہ روزہ رکھتا تھا تو اس دن کو وہ روزہ رکھ لیتا تھا (مثلا روز جمعہ)،

صحیح البخاری، ج 2، ص 226، ح 1892،کتاب الصوم، باب وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ

پس یہ روایت، دوسری روایت کے موافق ہے کہ جو ماہ رمضان سے پہلے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں تھی، اور یہ اسی روایت کے مخالف ہے کہ جو عاشورا کے دن روزہ رکھنے ضروری ہونے یا ضروری نہ ہونے کے بارے میں تھی۔

رسول خدا (ص) کا اپنے ہی حکم کے خلاف عمل کرنا: (نعوذ باللہ)

ان روایات میں ایک دوسرا اشکال وہ ہے کہ جو ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں ذکر کیا ہے:

ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں ابو سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ:

انّ رسول الله صلى الله علیه وسلم أمر بصوم عاشوراء وکان لا یصومه.

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم عاشورا کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، حالانکہ وہ خود اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔

مجمع الزوائد، هیثمی، ج 3، ص 186

ہیثمی کی روایت کے مطابق عاشورا کے دن روزہ رکھنے والی روایت واضح اشکال یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا دوسروں کو تو ایک کام کرنے کا حکم دیں، لیکن خود وہ اس عمل کو انجام نہ دیں ؟ !

رسول خدا (ص)  کا اہل کتاب کے دین کے ساتھ موافق ہونا !

کتاب صحیح بخاری میں ایک ایسی روایت ذکر ہوئی ہے کہ جو مکمل طور پر اوپر والی روایات سے تضاد رکھتی ہے کہ جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول خدا ان امور میں کہ جنکے بارے میں خداوند نے کوئی حکم ذکر نہیں کیا تھا، وہ حضرت ان امور میں یہود کے دین کے تابع اور پیروکار تھے !

بخاری نے کتاب صحیح بخاری میں ابن عباس سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْکِتَابِ فِیمَا لَمْ یُؤْمَرْ فِیهِ بِشَىْ‏ءٍ....

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم پسند کرتے تھے کہ جن امور میں خداوند کی طرف سے کوئی حکم صادر نہیں ہوا، ان امور میں اہل کتاب (یہود و نصارا) کی پیروی کریں !!!!!

صحیح البخاری، ج 4، ص 269، ح 3558، کتاب المناقب، ب 23، باب صِفَه النَّبِیِّ صلى الله علیه وسلم‏

یہ اہل سنت کا دین و ایمان ہے !

اہل سنت کے بزرگ عالم ابن حجر عسقلانی نے بھی کہا ہے کہ:

و قد کان (ص) یحبّ موافقة أهل الکتاب فیما لم یؤمر فیه بشی‏ء و لا سیّما إذا کان فیما یخالف فیه أهل الأوثان.

رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم جن امور میں خداوند کی طرف سے کوئی حکم صادر نہیں ہوا، ان امور میں اہل کتاب کی پیروی کرنے کو پسند کرتے تھے،خاص طور پر اگر اس کام میں بت پرستوں کی مخالفت ہی کیوں نہ ہوتی تھی۔ 

فتح الباری، ابن حجر، ج 4، ص 213

زین الدین حنبلی، لطائف المعارف، ص 102

حرام اور مکروہ روزے:

موجودہ دور کے تمام شیعہ فقہاء نے بھی اپنی اپنی کتب میں روزے کے شرعی احکام کو بیان کیا ہے، لیکن کسی بھی شیعہ مجتہد نے نہیں لکھا کہ عاشورا کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے، بلکہ سب نے لکھا ہے کہ آج کے دن روزہ رکھنا سنت نہیں بلکہ بنی امیہ کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔

٭ عید فطر اور عید قربان کے دن روزہ رکھنا حرام ہے نیز جس دن کے بارے میں انسان کو یہ علم نہ ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان المبارک کی پہلی تو اگر وہ اس دن پہلی رمضان المبارک کی نیت سے روزہ رکھے تو حرام ہے۔

٭ اگر عورت کے مستحب (نفلی) روزہ رکھنے سے شوہر کی حق تلفی ہوتی ہو تو عورت کا روزہ رکھنا حرام ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خواہ شوہر کی حق تلفی نہ بھی ہوتی ہو اس کی اجازت کے بغیر مستحب (نفلی) روزہ نہ رکھے۔

٭ اگر اولاد کا مستحب روزہ ماں باپ کی اولاد سے شفقت کی وجہ سے ماں باپ کے لیے اذیت کا موجب ہو تو اولاد کے لیے مستحب روزہ رکھنا حرام ہے۔

٭ اگر بیٹا باپ کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ رکھ لے اور دن کے دوران باپ اسے (روزہ رکھنے سے) منع کرے تو اگر بیٹے کا باپ کی بات نہ ماننا فطری شفقت کی وجہ سے اذیت کا موجب ہو تو بیٹے کو چاہیے کہ روزہ توڑ دے۔

٭ عاشور کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے اور اس دن کا روزہ بھی مکروہ ہے جس کے بارے میں شک ہو کہ عرفہ کا دن ہے یا عید قربان کا دن۔

مستحب روزے:

٭ بجز حرام اور مکروہ روزوں کے جن کا ذکر کیا گیا ہے سال کے تمام دنوں کے روزے مستحب ہیں اور بعض دنوں کے روزے رکھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے جن میں سے چند یہ ہیں :

1- ہر مہینے کی پہلی اور آخری جمعرات اور پہلا بدھ جو مہینے کی دسویں تاریخ کے بعد آئے۔

2- ہر مہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ۔

3- رجب اور شعبان کے پورے مہینے کے روزے یا ان دو مہینوں میں جتنے روزے رکھ سکیں خواہ وہ ایک دن ہی کیوں نہ ہو۔

4- عید نوروز کا دن

5- شوال کی چوتھی سے نویں تاریخ تک

6- ذی قعدہ کی پچیسویں اور اکتیسویں تاریخ

7- ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ (یوم عرفہ) تک لیکن اگر انسان روزے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوری کی بناء پر یوم عرفہ کی دعائیں نہ پڑھ سکے تو اس دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔

8- عید سعید غدیر کا دن (18 ذی الحجہ)

9- روز مباہلہ (24 ذی الحجہ)

10- محرم الحرام کی پہلی، تیسری اور ساتویں تاریخ

11- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی ولادت کا دن (17 ربیع الاول)

12- جمادی الاول کی پندرہ تاریخ۔

ان مستحب روزوں کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عاشورا کے دن کا روزہ رکھنا، مستحب روزوں میں شمار نہیں ہوتا، بلکہ مکروہ اور بدعتی روزوں میں شمار ہوتا ہے۔

کیوں عاشور کے دن روزہ رکھنا اہل تشیع کے نزدیک مکروہ جبکہ اہل سنت کے نزدیک مستحب ہے ؟ اور کیوں اہل تشیع اس دن فاقہ کرتے ہیں ؟

جیسا کہ سب کے نزدیک عیاں ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے یہاں فقہی احکام کے استنباط کرنے کے منابع و مآخذ مختلف ہیں۔

اہم ترین اختلاف یہاں ہے کہ اہل سنت پیغمبر اکرم (ع) کے بعد صحابہ کے قول و فعل کو حجت سمجھتے ہیں لیکن اہل تشیع پیغمبر اکرم (ص) کے بعد بارہ اماموں کے اقوال اور ان کی سیرت کو حجت اور کتاب الہی کے بعد سنت رسول (ع) کے برابر کا درجہ دیتے ہیں۔ اہل تشیع ائمہ طاہرین کو اہل بیت (ع) رسول کا حقیقی مصداق قرار دیتے ہوئے انہیں معصوم جانتے اور اس بات کے معتقد ہیں کہ علم پیغمبر (ص) ان کے بعد ائمہ طاہرین کی طرف منتقل ہوا اور وہ سب سے زیادہ دین الہی کے بارے میں جانتے ہیں چونکہ:

اھل البیت ادری بما فی البیت،

گھر والے گھر میں کیا ہے کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔

تاریخ اس بات کی گواہ بھی ہے کہ طول تاریخ میں کوئی ایک بھی شخص ائمہ طاہرین کو علمی میدان میں شکست نہیں دے سکا۔

بہر حال، عاشور کا روزہ فقہی مسائل میں سے ایک ہے لہذا ہر فرقہ اپنے فقہی منابع سے استناد کرتے ہوئے اس کا حکم بیان کرتا ہے۔

لیکن اگر ان روایات کی چھان بین کی جائے جو عاشور کے روزے کے بارے میں منقول ہیں یا رسول اسلام کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور اہل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں تو ان میں واضح تعارض نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر کتاب صحیح مسلم میں کتاب الصوم میں عاشورا کے روزے کے بارے میں ابن مسعود سے نقل کیا گیا ہے:

ماہ رمضان کے روزے کے حکم سے پہلے عاشورا کا روزہ واجب تھا، لیکن جب رمضان کے روزے واجب ہو گئے تو عاشورا کے روزہ کا وجوب منسوخ ہو گیا۔

کتاب صحیح بخاری میں اسی باب میں عاشورا کے روزے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عصر جاہلیت میں عاشورا کو روزہ رکھا جاتا تھا اور پیغمبر نے بھی عصر جاہلیت کی پیروی کرتے ہوئے عاشورا کو روزہ رکھا تھا۔

صحیح بخاری، کتاب الصوم، ح 1794.

دوسری روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) عاشورا کے روزے کی فضیلت نہیں جانتے تھے لیکن جب انہوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور وہاں یہودیوں کو عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو خود بھی رکھنے لگے۔

صحیح بخاری، کتاب الصوم، ح 1794.

پہلی بات یہ ہے کہ خود ان روایات کے اندر تعارض پایا جاتا ہے کیونکہ ایک روایت کہتی ہے کہ پیغمبر عصر جاہلیت کی پیروری کرتے ہوئے روزہ رکھتے تھے، جبکہ دوسری روایت کا کہنا ہے کہ جب تک پیغمبر نے ہجرت نہیں کی تھی تب تک وہ عاشورا کی فضیلت سے آشنا ہی نہیں تھے اور یہودیوں کی پیروری میں انہوں نے روزہ رکھا تیسری روایت رمضان کے روزوں سے پہلے عاشورا کے روزے کو واجب قرار دیتی ہے۔

تھوڑا سا غور کرنے سے ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام عصر جاہلیت یا یہودی طور طریقے کا تابع تھا کہ جو رسومات عصر جاہلیت یا یہودیت و عیسائیت کی پیغمبر کو اچھی لگتی رہیں، وہ ان پر عمل کرتے رہے ؟ (نعوذ باللہ)

یا اگر ماہ رمضان سے پہلے عاشورا کا روزہ واجب تھا اور بعد میں منسوخ ہو گیا تو پھر قرآن میں ناسخ و منسوخ موجود ہوتے، جب خداوند نے ماہ رمضان کے روزے واجب کیے تو ساتھ میں یہ بھی حکم دیتا کہ اب اس کے بعد عاشورا کا روزہ تم پر سے ساقط کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن میں عاشورا کا کوئی تذکرہ ہی نہیں۔

حقیقت امر یہ ہے کہ سن 61 ہجری میں نواسہ رسول کو شہید کرنے کے بعد یزید لعین نے اس دن اپنی فتح کا اعلان کیا اور اس دن کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن قرار دیا اور اس میں روزہ رکھنے کی فضیلت کے بارے میں حدیثیں جعل کروائیں جیسا کہ زیارت عاشورا میں عاشور کو بنی امیہ کی طرف سے عید قرار دینے کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ:

اللھم ان ھذا یوم تبرکت بہ بنی امیہ، ھذا یوم فرحت بہ آل زیاد و آل مروان بقتلھم الحسین صلوات اللہ علیہ،

یعنی خدایا یہ وہ دن ہے جسے بنی امیہ نے بابرکت قرار دیا، یہ وہ دن ہے جس دن آل زیاد اور آل مروان نے حسین علیہ السلام کے قتل کی وجہ سے عید منائی۔

اس کے برخلاف اہل تشیع جو اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں، کے نزدیک اس کی دلیل ائمہ طاہرین سے مروی احادیث ہیں بعنوان مثال امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

عاشورا کا دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے بلکہ غم و مصیبت کا دن ہے، ایسی مصیبت جو اہل آسمان، زمین اور تمام مومنین پر پڑی۔ یہ دن مرجانہ کے بیٹے، آل زیاد اور اہل جہنم کے نزدیک خوشی کا دن ہے۔

لہذا عاشورا مصیبت اور غم کا دن ہے، عید کا دن نہیں کہ روزہ رکھنا مستحب ہو، جبکہ اس کے برخلاف بنی امیہ اس دن عید منا کر روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزے کی تشویق کرتے تھے۔

رہی بات عاشورا کو فاقہ کرنے کی تو فاقہ کرنا شرعی حکم نہیں ہے اور نہ ہی فقہی کتابوں میں موجود ہے بلکہ دعاؤں کی کتابوں میں عاشورا کے دن کے حوالے سے وارد ہوئے اعمال میں کہا گیا ہے جیسا کہ شیخ عباس قمی نے کتاب مفاتیح الجنان میں بیان کیا ہے اور واضح ہے کہ مفاتیح الجنان میں وارد شدہ اعمال فقہی اور شرعی اعمال کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا ماخذ اخلاقی روایات ہیں انہوں نے اعمال عاشورا کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزاوار ہے شیعوں کے لیے کہ وہ عاشورا کو روزہ کی نیت کیے بغیر فاقہ کریں اور عصر کے وقت کسی ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔

اور اس کا فلسفہ شاید یہ ہو کہ مولا امام حسین (ع) عصر عاشورا تک جو ان کی شہادت کا وقت ہے بھوکے پیاسے لاشوں پر لاشے اٹھاتے رہے لہذا ان کے چاہنے والے بھی اس وقت تک کچھ نہ کھائیں پئیں تو بہتر ہیں۔

یومِ عاشورا کی تاریخی اہمیت:

بنی امیہ اور خاص طور پر معاویہ ملعون نے امام حسین (ع) کی شہادت ، واقعہ کربلا کو کم رنگ کرنے اور آخر کار تمام انسانوں کی توجہ اس درد ناک واقعے سے ہٹانے کے لیے حرام مال کے درہم و دینار سے، خیانت کار تاریخ نگاروں سے عاشورا کو ایک با برکت دن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، اور بد قسمتی سے آج بھی 1400 سال گزرنے کے بعد بھی مسلمانوں کی بعض کتب میں معاویہ اینڈ کمپنی کی جعلی اور جھوٹی روایات کو ذکر کیا گیا ہے اور اس سے بھی زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ اہل سنت اور وہابیوں کے بعض نادان علماء امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا کے بارے میں رسول خدا، اہل بیت اور اصحاب کی صحیح و معتبر احادیث کو نہیں دیکھتے اور بنی امیہ کی غلط گھڑی ہوئی احادیث کی طرف توجہ کرتے ہیں اور انکو بڑی آب و تاب کے ساتھ بیان کرتے ہیں:

بنی امیہ کی روز عاشورا کے بارے میں جعلی اور جھوٹی روایات کے چند نمونے مندرجہ ذیل ذکر کیے جا رہے ہیں:

1- یوم عاشورا میں ہی آسمان و زمین، قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔

2- اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا و علیہ الصلاة و السلام کی توبہ قبول ہوئی۔

3- اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

4- اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہو کر کوہِ جودی پر لنگر انداز ہوئی۔

5- اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

6- اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

7- اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

8- اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

9- اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

10- اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

11- اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

12- اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔

13- اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

14- اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

15- اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلا کر آسمان پر اٹھایا گیا۔

16- اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔

17- اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔

18- اسی دن حضور اکرم  (ص) نے حضرت خدیجة الکبری سے نکاح فرمایا۔

اہل سنت کے ایک با بصیرت عالم مناوی نے روز عاشورا کے بارے میں کہا ہے کہ:

ما یروى فی فضل صوم یوم عاشوراء والصلاه فیه والانفاق والخضاب والادهان والاکتحال، بدعه ابتدعها قتله الحسین (رضی اللَّه عنه) وعلامه لبغض اهل البیت، وجب ترکه.

جو کچھ عاشورا کے دن کے روزے کی فضیلت، نماز، انفاق، خضاب کرنے، بالوں میں تیل لگانے اور آنکھوں میں سرمہ لگانے وغیرہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، وہ سب بدعت ہے کہ جسکو امام حسین کے قاتلوں نے ذکر کیا ہے اور یہی باتیں انکی اہل بیت کے ساتھ دشمنی کی بھی علامت ہے کہ ان سب بدعتوں کو ترک کرنا واجب ہے۔

فیض القدیر ج 6 ص 306

پس جیسا کہ مناوی نے بھی کہا ہے کہ عاشورا کے دن کا روزہ رکھنا نہ یہ کہ سنت نہیں ہے بلکہ بنی امیہ کی ایجاد کردہ بدعتوں میں سے ایک بدعت ہے۔

ناگفته هایى از حقایق عاشوراء، ص 33

 نتیجہ تحقیق:

فریقین شیعہ اور اہل سنت کی معتبر کتب میں موجود عاشورا کے روزے کے بارے میں روایات کی روشنی میں ثابت ہوا کہ اس دن کے روزے کے سنت ہونے کے بارے میں رسول خدا سے کوئی بھی صحیح اور معتبر روایت نقل نہیں ہوئی۔

ان روایات کی سند کا سلسلہ اور ان روایات میں مذکور مطالب بتاتے ہیں کہ ان روایات کو بنی امیہ نے جعلی طور پر گھڑا ہے، کیونکہ یہی منحوس خاندان واقعہ عاشورا کو وجود میں لانے والا تھا، لہذا اس نے غلط روایات کے ذریعے سے ناکام کوشیشں کیں ہیں کہ شاید کسی طریقے سے امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا کو کم رنگ کیا جا سکے اور انسانیت کے اذہان کو اس درد ناک دن میں دوسری چیزوں کی طرف توجہ دلائی جائے تا کہ کوئی واقعہ کربلا کا ذکر نہ کرے اور نتیجے کے طور پر بنی امیہ اور خاص طور پر معاویہ ملعون اور یزید لعین کے دامنوں پر بھی شہادت امام حسین (ع) کا کوئی دھبہ نہ لگ سکے،

لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ خود کو اہل سنت کہنے والوں نے کتنے آرام سے اپنی کتب میں لکھ دیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے عاشورا کے دن کا روزہ رکھنا یہودیوں سے سیکھا تھا۔

پس معلوم ہو گیا کہ عاشورا کا روزہ یہودی رکھتے تھے نہ مسلمان، اس دور میں یہودی رکھتے تھے اور آج وہابی رکھتے ہیں۔

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔۔۔۔۔

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
1 | ابن آدم | | ١٢:٣٦ - ٠٩ August ٢٠٢٢ |
یہ کہنا کہ عید سمجھ کر روزہ رکھتے تھے۔۔۔ سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ کسی عید پر روزہ نہ یہود میں ہے نہ نصاریٰ میں نہ اسلام میں۔
پھر یہ مسئلہ بھی ہے کہ تقیہ کی وجہ سے روایات ہی کیا شخصیات ہی مشکوک ہیں کہ کب وہ تقیہ فرما رہی ہوں کیا معلوم؟
تقیہ ایک اوور ایگزیجیریٹڈ کنسپٹ ہے۔ اور یہ خود آئمہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کی شان کے خلاف ہے کہ امام ہی جھوٹ بول دے تو کردار حسینی کہاں گیا؟

جواب:
 سلام علیکم۔۔۔۔۔۔
محترم مقالے کا مکمل مطالعہ کر کے علمی انداز میں نقد و اعتراض کریں ۔۔۔۔شکریہ
باقی تقیہ کا معنی جھوٹ نہیں ۔تقیہ کا جواز قرآن میں ہے ۔۔۔ جناب عمار یاسر کے خاندان کا واقعہ مسلمانوں کی تاریخی مسلمات میں سے ہے۔
اصحاب ،تابعین اور اہل سنت کے مشہور علماء تقیہ کرتے تھے  اور اس کو جائز سمجھتے تھے ۔۔۔
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی