2024 March 28
فلسطین کا پرچم اٹھائے یمنی مائیں اور بچے سڑکوں پر
مندرجات: ١٩٦٩ تاریخ اشاعت: ١٠ June ٢٠٢١ - ١٩:٣٢ مشاہدات: 1447
خبریں » پبلک
فلسطین کا پرچم اٹھائے یمنی مائیں اور بچے سڑکوں پر

یہ یمن کے با شرف اور با غیرت عوام ہیں کہ جو فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست کے حملوں کے بعد لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اپنی اور اپنے بچوں کی جان کی پرواہ نہیں کی۔ فلسطین کا پرچم اٹھائے یمنی مائیں اور بچے سڑکوں پرنکل آئے۔ اب ذرا دیکھئے ان عوام کی قیادت کرنے والوں کو۔
 
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاونڈیشن پاکستان
بشکریہ: اسلام ٹائمز

گذشتہ ماہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین پر گیارہ روزہ جنگ کے خاتمہ کے بعد یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ فلسطینی مزاحمت پہلے سے زیادہ طاقتور ہوچکی ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے میں اہم کردا ر ادا کر رہی ہے۔ جب بات فلسطینی مزاحمت کی ہو تو اس سے مراد فلسطین کی وہ تمام مزاحمتی جماعتیں بشمول حماس، اسلامی جہاد اور ان کے جہادی و عسکری ونگ ہیں، جن میں القسام بریگیڈ، الصابرین، القدس بریگیڈ اور دیگر شامل ہیں۔ جب مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کی پٹی پر مسلسل گولہ باری کی جا رہی تھی اور اسرائیل نے جارحیت کی تمام حدود پار کر دی تھیں، اس موقع پر دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے۔

گذشتہ ماہ فلسطین پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کی جانے والی گیارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف جہاں دنیا کی دیگر اقوام نے احتجاج کیا، وہاں دنیا میں ایک ایسی قوم بھی موجود ہے کہ جو خود بھی فلسطینی عوام کی طرح ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی ہے۔ البتہ فلسطین مزاحمت کی طرح اس قوم نے بھی مزاحمت کا دامن تھام رکھا ہے اور ظالم و جابر دشمن کے سامنے سر جھکانے کی بجائے سر اٹھا کر مقابلہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ جی ہاں یہ قوم اہل یمن ہیں۔ یمن میں بسنے والی یہ قوم مسلمان اقوام سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ اس پر عرب صہیونیوں نے یلغار کر رکھی ہے۔ یمن مسلسل پانچ سال سے ایک برادر اسلامی ملک کے ہاتھوں حملوں کا نشانہ بنتا چلا آرہا ہے۔ یہاں قحط کی صورتحال ہے۔ یمن پر مسلسل بمباری اور خطرناک بارودی مواد کے مہلک اثرات میں جہاں انسانی زندگیاں موت کی نیند سو رہی ہیں، وہاں دنیا میں آنے والی نئی زندگیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد اقسام کی وبائیں جنم لے چکی ہے۔ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی بدترین قحط کا سامنا ہے۔

غزہ جس طرح پندرہ سال سے بدترین محاصرے میں ہے، اسی طرح یمن بھی عربی صہیونی محاصرے کا شکار ہے۔ غزہ میں بیس ملین عوام کو زندہ جیل بنا دیا گیا ہے۔ یہاں بھی دسیوں ہزار یمنیوں کو محصور کر دیا گیا ہے۔ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ سمندری یا زمینی راستہ سے یمن کے مظلوم عوام تک کوئی مدد پہنچائے۔ غرض یہ کہ یمن کے عوام پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے نعرے لگانے والی مغربی حکومتیں اور عالمی ادارے بھی خاموش ہیں۔ عالمی برادری کی بے حسی کا لگ بھگ یہ حال مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال پر بھی ہے کہ جس کی ذمہ دار بھارت کی جارح ریاست اور حکومت ہے۔

یمن پر جاری جارحیت کی قیادت یمن کا پڑوسی اور مسلمان ممالک کا برادر ترین اسلامی ملک سعودی عرب کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ اتحاد میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک ہیں کہ جو اپنا اسلحہ سعودی حکومت کو فروخت کرنے کی غرض سے اس جنگ میں یمن کے عوام کے خلاف کھڑے ہیں، کیونکہ انہیں اپنے اسلحہ کی فروخت اور معاشی فوائد نظر آرہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس نے دو سال قبل ہی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بن سلمان کے ساتھ بیٹھ کر ایک بہت بڑی اسلحہ فروخت کرنے کی ڈیل کی تھی۔

بہرحال یہ تو بات ہے امریکہ، اسرائیل اور ان کے عرب اتحادیوں کی کہ جو یمن میں جنگ مسلط کئے ہوئے ہیں اور یمن کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں۔ اب یمن کے عوام کو دیکھئے کہ جو زندگی کی بے پناہ مشکل دور سے گزر رہے ہیں، لیکن عزت و شرافت پر کسی قسم کی سودے بازی کرنے کو تیار نہیں۔ یہ یمن کے با شرف اور با غیرت عوام ہیں کہ جو فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست کے حملوں کے بعد لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اپنی اور اپنے بچوں کی جان کی پرواہ نہیں کی۔ فلسطین کا پرچم اٹھائے یمنی مائیں اور بچے سڑکوں پرنکل آئے۔ اب ذرا دیکھئے ان عوام کی قیادت کرنے والوں کو۔

یمن کی سب سے بڑی جماعت انصار اللہ کے قائد عبد الملک حوثی نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کے لئے جمع ہونے والے لاکھوں افراد سے خطاب کرتے ہوئے تاریخی جملے ادا کئے اور کہا کہ ’’اگر یمن کے پاس ایک روٹی ہو تو ہم وہ بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ تقسیم کرنے کو تیار ہیں۔‘‘ عبد الملک حوثی کا یہ جملہ واضح طور پر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ عبد الملک دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگرچہ پوری دنیا نے ہمارے محاصرے پر چپ سادھ رکھی ہے، لیکن ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور حالانکہ ان حالات میں کہ جب خود یمن کے ان مظلوموں پاس کھانے پینے کی اشیاء کا قحط ہے، ایسے حالات میں یہ کہنا کہ ایک روٹی بھی ہو تو ہم اس کو بھی فلسطینی بھائیوں کے ساتھ تقسیم کریں گے۔ یہ بات یمن کے عوام اور قیادت کی مسئلہ فلسطین کے ساتھ لگائو اور وابستگی سمیت عقیدت کو ظاہر کر رہی ہے۔

عبد الملک حوثی کا یہ جملہ دنیا پر عیاں کر رہا ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کی خاطر ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے۔ یمن کے اس پرعزم اور باوقار قائد کا یہ جملہ جہاں مظلوم فلسطینیوں کے لئے قوت بخش ہے، وہاں پوری دنیا کے ہر اس بے ضمیر انسان، حکومت اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے بڑے بڑے عالمی اداروں کے چہروں پر ایک زور دار تھپڑ کی مانند ہے کہ جس کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔ یہ یمن کے باشرف لوگوں کا افتخار ہے کہ وہ اپنی ایک روٹی کو بھی فلسطینیوں کے ساتھ تقسیم کرنے کو باعث فخر سمجھ رہے ہیں۔ افسوس ہے ان عرب دنیا کے حکمرانوں اور ارب و کھرب پتی لوگوں پر کہ جن کے پاس ملکوں سے زیادہ دولت موجود ہے، لیکن وہ اس بات کا اظہار کرنے سے بھی قاصر ہیں، چہ جائیکہ وہ فلسطینی عوام کی عملی مدد کرتے۔ یمن کے اس باوقار قائد نے فلسطینی مزاحمت کو اپنی ہر طرح کی مدد کی پیشکش کی اور کہا کہ یمن کے مجاہدین تیار ہیں کہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ہمراہ مزاحمت میں شریک ہوں۔
حالیہ دنوں فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے یمن میں موجود ترجمان نے یمن کی سب سے بڑی جماعت انصار اللہ کے رہنماوں سے ایک ملاقات کی ہے اور یمن کے قائد اور عوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت اور فلسطینیوں سے محبت کے جذبات پر شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطین کے عوام بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور فلسطینی عوام آپ کی شکر گزار ہیں۔ یقیناً حماس اور انصار اللہ کے مابین ہونے والی اس ملاقات اور جذبات نے دونوں مظلوم اقوام کو ایک نیا جوش اور ولولہ عطا کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کی ہر اس بے ضمیر ظالم و جابر حکومت اور حکمرانوں کے منہ پر ایک اور زور دار تھپڑ رسید کر دیا ہے۔ آج فلسطینی عوام یمن کے عوام کے شکر گزار ہیں، حالانکہ یمن کے عوام خود فلسطینی عوام کی طرح عربی صہیونزم کے ظلم اور بربریت کا شکار ہیں۔




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات