2024 March 28
امام صادق(ع) کا ابوبکر سے اپنی نسبت پر فخر کرنا۔
مندرجات: ٢٠٠٥ تاریخ اشاعت: ٠٨ July ٢٠٢١ - ٢٠:١٣ مشاہدات: 2547
یاداشتیں » پبلک
امام صادق(ع) کا ابوبکر سے اپنی نسبت پر فخر کرنا۔

 

اعتراض :باوجود اسکے کہ امام  جعفر صادق علیہ السلام    خود اپنے کو  ابوبکر کے نواسوں میں  سے ہونے پر فخر کرتے تھے اور فرماتے تھے :’’ولدني ابوبكر مرتين ‘‘ ۔ میری نسبت دو طریقوں سے ابوبکر تک پہونچتی ہے ، لیکن  شیعہ ابوبکر کی اس فضیلت سے چشم پوشی کرتےہیں اور اس کو چھپاتےہیں ۔علماء شیعہ جبکہ اس  روایت کو اپنے حدیثی منابع میں دیکھتے ہیں لیکن کبھی اسے اپنے پیروکاروں  کے سامنے  بیان نہیں کرتے ۔

 

تحلیل و جائزہ :

 

 اس اعتراض کا جواب  چند نکات    کے ضمن میں  واضح  ہوجائے گا :

پہلا نکتہ :

امام جعفر صادق علیہ السلام کا نسب کس تک پہونچتا ہے یہ امر اتنا اہم نہیں ہے  لیکن یہ امر کہ امام صادقؑ نے اس نسبت پر فخر کیا ہو  اور فرمایا ہو :’’ ولدني ابوبكر مرتين ‘‘ ۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے  کہ جس پر بحث کی گنجائش ہے ۔ شیعہ منابع  میں سب سے پہلے یہ روایت ابن عنبہ( متوفی ۸۲۸ ہجری) کے ذریعہ کتاب عمد الطالب میں بغیر کسی سند اور مدرک کے امام صادقؑ سے نقل کی گئی ہے ۔(


[1]) اسی طرح یہ روایت مرحوم اربلی(متوفی ۶۹۳ ہجری) نے اپنی کتاب کشف الغمۃ میں  ، ایک اہل سنت عالم  جناب عبدالعزیز بن الاخضر جنابذی سے نقل کی ہے ۔چنانچہ مرحوم اربلی  رقم طراز ہیں:حافظ عبد العزیز جنابذی روایت کرتے ہیں کہ ابوعبد اللہ جعفر بن محمد (ع) کی والدہ ، ام فروہ ایک طرف سے قاسم بن محمد بن ابی بکر کی بیٹی ہیں  اور دوسری طرف سے  خود  ان(ام فروہ) کی ماں اسماء ،عبدالرحمٰن بن ابی بکر کی بیٹی ہیں ۔ اسی سبب امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا : کہ ابوبکر مجھے دو بار دنیا میں لانے کا سبب بنے ہیں یعنی دو طرف سے میرا نسب ابوبکر سے جاکر ملتا ہے ۔([2])

لیکن  اس طرف بھی توجہ رہے کہ یہ روایت نہ تو شیعہ مبانی  کی رو سے قابل قبول ہے اور نہ ہی اہل سنت کے مبانی  و اصول کی  رو سے ۔

چونکہ عبدالعزیز جنابذی نے   سن ۶۱۱ ہجری میں  انتقال کیا  اور انہوں نے بغیر کسی سند اور دستاویز کے اس روایت کے موجود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ اور خود جنابذی اور امام جعفر صادقؑ کے درمیان، تقریباً ۵ صدیوں کا فاصلہ ہے ۔ اس بنا پر شیعہ معیار حدیث کے مطابق یہ روایت مرسل ہے  اور اہل سنت رجالی معیارات کے مطابق یہ روایت ’’  منقطع  ‘‘  شمار کی جاتی ہے ۔بہر کیف ! دونوں ہی مکاتب رجالی کی رو سے  اس روایت کی کوئی علمی اور سندی قدر و قیمت نہیں ہے ۔اس امر سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہ خود عبدالعزیز جنابذی  اہل سنت کے عالم ہیں اور ان کا قول شیعوں کے نزدیک معتبر اور حجت  نہیں ہے۔

اور دوسرا نکتہ یہ بھی کہ عبدالعزیز جنابذی نے اس روایت کے نقل میں ابوبکر کے  لقب ’’ صدیق‘‘ کا استعمال کیا ہے جس سے یہ حقیقت    مزید واضح  ہوجاتی ہے کہ ان کا تعلق ،  اہل سنت کے کسی ایک مکتب سے تھا ۔

دوسرا نکتہ : 

خود اہل سنت کے روائی منابع  میں اس روایت کو قابل ملاحظہ  مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے چونکہ  یہ روایت اہل سنت کے منابع میں بھی دو  ایسے طریقوں سے نقل ہوکر پہونچی ہے  کہ جو  دونوں ان کے یہاں بھی   معتبر نہیں ہیں ۔

اس روایت کے نقل کی ایک سند تو یہ ہے  کہ جسے دارقطنی نے عبدالعزیز بن محمد ازدی  سے اور انہوں نے حفص بن غیاث کے ذریعہ امام صادق سے نقل  کیا ہے ۔([3])  اور اس میں عبد العزیز بن محمد ازدی  اہل  سنت کی رجالی کتابوں  میں ایک مجہول اور غیر معروف شخص ہیں  ۔اور اس روایت کے نقل کی دوسری سند یہ ہے جسے  ابن عساکر دمشقی  نے محمد بن اسماعیل بن فضل اور انہوں نے یحیٰ  بن سعد سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے ۔([4]) لیکن سیر اعلام النبلاء میں ذہبی کے نقل کے مطابق ، ابن عساکر  نے اس وقت محمد بن اسماعیل سے ملاقات کی جب  بوڑھے ہوچکے تھے  اور ان کا حافظہ خراب ہوچکا تھا ۔([5]) اس بنا پر  خود اہل سنت کے منابع میں بھی یہ روایت معتبر نہیں سمجھی جاتی اور لائق  وثوق نہیں ہے ۔

تیسرا نکتہ :

  اس جملے میں موجود  لفظیں : ’’ ولدني ابوبكر مرتين ‘‘  کو دیکھ کر   ایسے  چیزیں  نظروں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں ہیں جو اس روایت کے جعلی ہونے کا پتہ دیتی ہیں ۔  مثال کے طور پر دارقطنی کی   نقل کردہ روایت میں  اس طرح وارد ہوا ہے : ’’ما أرجو من شفاعة علي شيئا إلا وأنا أرجو من شفاعة أبي بكر مثله و لقد ولدني مرتين‘‘ ۔ ([6]) میں قیامت  کے دن  اپنے حق میں  علی کی شفاعت کی جیسی  امید  رکھتا ہوں  بالکل اسی  طرح میں  ابوبکر کی شفاعت کا بھی امیدوار ہوں  چونکہ وہ(ابوبکر) میرے دوبار دنیا میں آنے کا سبب بنے ہیں ۔

یہ اس طرح کی تعبیر  خود بتلاتی ہے کہ یہ کلام امام جعفر صادق علیہ السلام جیسی شخصیت سے صادر ہو ہی  نہیں سکتا ۔اور شہید قاضی نور اللہ شوشتری کی تعبیر کے مطابق ۔ اس روایت کے جھوٹی ہونے کے لئے بس یہی کافی ہے کہ اس کو اس ذات سے نسبت دی گئی ہے کہ جس کے جد رسول اللہ ﷺ صاحب شفاعت کبریٰ ہیں ۔یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ (امام صادقؑ) اپنے جد امجد کی شفاعت کو بھول کر دوسروں کی شفاعت سے لو لگائیں  چنانچہ  شہید ثالث رقمطراز ہیں :’’  یدل علی کذب هذا الخبر انّ صاحب الشفاعة العظمی هو جدّه(ص) فلا یلیق به نسیان شفاعة جدّه(ص) و اظهار رجاء شفاعة غیره ‘‘ ۔([7])

بھلا کیسے ممکن ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام  اس شخص سے شفاعت کی امید لگائے کہ جس کی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا   جس  کی بیعت کرنے کےلئے تیار نہ ہوئیں اور اس سے ناراض گی کے عالم میں ہی اس دنیا سے رحلت  فرما گئیں  ۔ چنانچہ بخاری اپنی کتاب ’’ الصحیح ‘‘ میں اس کے متعلق  تحریر کرتے ہیں : ’’ فغضبت فاطمة بنت رسول الله (ص) فهجرت ابابکر فلم تزل مهاجرته حتّی توفیت‘‘ ۔([8])۔ (خلیفہ کی طرف سے فدک  کے  انکار کے بعد ) فاطمہ زہرا (س)  ابوبکر سے ناراض ہوگئیں   اور  یہ ناراضگی اسی طرح  جاری  رہی یہاں تک کہ فاطمہ(س) اس دنیا سے کوچ کرگئیں ۔

اور اسی طرح   بھلا کیا یہ  ممکن ہے کہ امام صادق علیہ السلام  ایسے شخص سے امید شفاعت رکھیں   کہ جس کے  جد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ،   حکومت کے عوض بھی جس کی سیرت سے راضی ہونے کے لئے تیار نہ ہوئے ؟ ۔([9])

 نتیجہ :

ابوبکر سے امام جعفر صادق علیہ السلام    کی نسبت کو بیان کرنے والی یہ روایت اہل سنت اور شیعہ دونوں کے رجالی  معیار  کے مطابق ضعیف اور  غیر معتبر ہے ۔اسی طرح  دلالت کے اعتبار سے بھی یہ روایت آئمہ اطہار علیہم السلام کی عملی سیرت  کے منافی ہے ۔ اس بنا پر  وہابی ، اس   طرح کی غیر  معتبر سند والی صعیف روایات کو بنیاد بنا کر   اس مورد میں بھی اپنے مقاصد تک نہیں پہونچ سکتے ۔

مزید مطالعہ کے لئے کتاب :

پاسخ جوان شیعی بہ پرسش ھای وہابیان ؛ محمد طبری

 

[1] ۔ عمدۃ الطالب ، ص ۱۹۵ ۔

[2] ۔ کشف الغمۃ ، ج۲ ، ص ۳۷۴ ۔

[3] ۔ فضائل الصحابہ ، ج۱ ، ص ۵۷ ۔ ۵۸ ۔

[4] ۔ تاریخ مدینۃ دمشق ، ج۴۴ ، ص ۴۵۴ ۔

[5] ۔ سیر اعلام النبلاء ، ج۲۰ ، ص ۸۶ ۔

[6] ۔ فضائل الصحابۃ ، ج۱ ، ص ۵۷ ۔ ۵۸ ۔

[7] ۔ الصورم المھرقۃ فی جواب الصواعق المحرقۃ، ص ۲۴۱ ۔ ۲۴۲ ۔

[8] ۔ صحیح البخاری ، ج۴ ، ص ۴۴ ۔

[9] ۔ تاریخ الیعقوبی ، ج۲ ، ص ۱۶۲ ؛ البدء و التاریخ ، ج۵ ، ص ۱۹۲ ؛ البدایۃ  و النھایۃ ، ج۷ ، ص ۱۴۶ ۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی