2024 March 29
اہل بیت سے کون لوگ مراد ہے ؟کیا احادیث میں اہل بیت کا مصداق معین ہوا ہے؟
مندرجات: ٢٠٣١ تاریخ اشاعت: ١١ January ٢٠٢٣ - ٠٨:٣٦ مشاہدات: 8305
مضامین و مقالات » پبلک
اہل بیت سے کون لوگ مراد ہے ؟کیا احادیث میں اہل بیت کا مصداق معین ہوا ہے؟

 اہل بیت سے کون لوگ مراد ہے ؟

                                       کیا احادیث میں اہل بیت کا مصداق معین ہوا ہے؟

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے جو فضائل خاص کر "اہل بیت " اور عترتی" کے عنوان سے بیاں ہوئے ہیں، کیا ان فضائل میں ازواج بھی شریک ہیں ؟  کیا  وحی کی زبان میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے "اہل بیت " سے خاص لوگ مراد ہیں اور یہ ازواج کو شامل نہیں ؟ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "میرے اھل بیت " کہتے تو لوگ اس سے کیا  مراد لیتے تھے ؟ محدثین اور مفسرین کی راے اس سلسلے میں کیا ہے ؟

 جواب :

ہم اس بحث  کو تین حصوں میں بیان کریں گے ۔

الف :  حضور پاک {ص} کی  احادیث کی روشنی میں

دو نمونے

الف : حدیث کساء

جیساکہ «صحیح مسلم» کتاب فضائل "باب فضائل اھل بیت النبی " میں یہ واقعہ ذکر ہوا ہے کہ جناب عائشہ بیان کرتی ہے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صبح کو کالے بالوں کی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں « فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا »

اور جس وقت امام حسن، امام حسین، حضرت صدیقه و حضرت امیر  علیہم اسلام  تشریف لائے اور ان کو آپ نے عباء میں داخل فرمایا تو اس وقت  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :

(إنما يُرِيدُ الله لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا)

صحيح مسلم؛ کتاب فضائل باب فضائل اھل بیت ، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري الوفاة: 261، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ج4، ص1883، ح 2424

لہذا یہاں صاف ظاہر ہے کہ شان نزول کے مطابق اس آیت کا مصداق یہی ہستیاں ہیں اور مصداق کے اعتبار سے لفظ اہل بیت انہیں لوگوں کے لئے استعمال ہوا ہے جیساکہ  بعد میں اس سلسلے کی اور بھی احادیث نقل ہوگی ۔

ب : حدیث ثقلین ۔

صحیح ترمذی کتاب مناقب ، باب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم-میں نقل ہوا ہے ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه و آلہ وسلم- فِى حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ ۔۔ يَقُولُ « يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِى أَهْلَ بَيْتِى ». رسول الله نے حجة الوداع کے موقع پر ، روز عرفه ایک  خطبه دیا اور فرمایا. : اے لوگو!، میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ان دونوں کو لے اور ان کی اطاعت کرئے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے  اور وہ دو چیزیں ،اللہ کی کتاب اور میری عترت اھل بیت ہیں.

محمد بن عيسي أبو عيسي الترمذي السلمي، الوفاة: 279 ، الجامع الصحيح سنن الترمذي ، ج 5 ص 662، دار النشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت ، تحقيق : أحمد محمد شاكر وآخرون

  أن رسول الله  قال في خطبة بغدير خم: إن تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي وإنهما لم يفترقا حتي يردا علي الحوض...

   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غديرخم کے خطبه فرمایا : میں دو قیمتی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ،اللہ کی کتاب اور میری عترت یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرئے .

إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي أبو الفداء، الوفاة: 77،تفسيرالقرآن العظيم ، اسم المؤلف: ، ج 4 ص 114 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1401

«صحیح مسلم»  میں ہی  نقل ہوا ہے ۔

قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ " فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خم کے مقام پر ایک خطبہ دیا ، اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف بیان کی اور وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: بعد اس کے اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہآئے اور میں قبول کروں، میں تم میں دو بڑی بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، پہلے تو اللہ کی کتاب اس میں ہدایت ہے اور نور ہے، تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔“ غرض آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی ، پھر فرمایا: ”دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ  و آلہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی۔

مسلم بن الحجاج النيسابوري (المتوفى: 261هـ)صحیح مسلم ، کتاب فضائل ، بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ :الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت

"جیساکہ اس سلسلے کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں ازواج مراد نہیں ہے ۔ بلکہ آپ کی نسل سے آئمہ اھل بیت ہی مراد ہیں۔

 کیونکہ اس سلسلے کی احادیث میں  آپ کے بعد امت کی ہدایت کے لئے دینی پیشوائی اور امت کے لئے ھادی کا تعین مقصود ہے۔  اسی لئے  یہاں ازواج داخل ہونے یا نہ ہونے کی بحث کی گنجائش ہی نہیں ،اس قسم کی بحث ان احادیث کے سیاق اور مضمون سے یہ ٹکراتی ہے ۔

جیساکہ "عترتی ،عترتی اھل بیتی " کی تعبیر بھی اسی مطلب کو بیان کرتی ہے ۔ " عترت " کا لفظ اھل بیت کی تفسیر اور اس سے مقصود کو بیان کرتا ہے ، عترت نسل اور ذریہ کو کہا جاتا ہے ، یہ ازواج کو شامل ہی نہیں ،لہذا اس قسم کی احادیث کے الفاظ اور مضمون دونوں کو سامنے رکھے تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں اھل بیت النبی سے مراد ازواج نہیں ہے " 

 اصحاب اور اھل سنت کے علماء کے آراء :

جیساکہ صحیح مسلم میں سابقہ روایت کے ذیل میں جناب زید سے نقل ہوا ہے  « وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يا زَيْدُ؟»«نِسَاؤُهُ ؟ قال لَا» «وأيم اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مع الرَّجُلِ الْعَصْرَ من الدَّهْرِ ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إلى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ»

حصین  نے کہا: اے زید! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواج بھی اہل بیت نہیں ہیں؟ زید نے کہا: نہیں ۔ کیونکہ بیوی ایک مدت تک ایک مرد کے ساتھ رہتی ہے اور جب طلاق ہو تو یہ اپنے باپ اور قوم کے پاس چلی جاتی ہے، آپ کی اھل بیت سے مراد آپ کی اصل اور نسل ہے

مسلم بن الحجاج النيسابوري (المتوفى: 261هـ)صحیح مسلم ، کتاب فضائل ، بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

اب ہم ذلیل میں بعض اقوال نقل کرتے ہیں کہ جن میں اہل سنت کے علماء نے اصحاب کا بھی یہی نظریہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔

۱:     کتاب «الأربعین» ،«ابن عساکر» کی ایک اہم کتاب ہے اس میں بعض خوبصورت نکات بھی ہیں ۔ اس میں «ابو سعید خدری»  نے «ام سلمه»  سے نقل کیا ہے : عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي بَيْتِي {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرا} قلت يارسول اللَّهِ أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ قَالَ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ إِنَّكِ مِنْ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ

«ام سلمه»  کہتی ہیں : یہ والی آیت میرے گھر میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :  کیا میں بھی اہل بیت میں سے نہیں ہوں ؟ آپ نے جواب میں فرمایا: تم نیکی پر ہو  تم اللہ کے رسول کی ازواج میں سے ہو اہل میں سے  نہیں ہو۔

 اس کے بعد ام سلمہ کہتی ہے  : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھل بیت ، حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام ہیں ۔

   «ابن عساکر» آگے لکھتا ہے : «هذا حديث صحيح»  یہ حدیث صحیح ہے ۔

  «ابن عساکرمزید آگے لکھتا ہے :

وَالْآيَةُ نَزَلَتْ خَاصَّةً فِي هَؤُلَاءِ الْمَذْكُورِينَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين رحمة الله عليهن أجمعين؛ اسم المؤلف: أبو منصور عبد الرحمن بن محمد بن هبة الله بن عساكر الوفاة: 620، دار النشر: دار الفكر - دمشق - 1406، الطبعة: الأولى، تحقيق: محمد مطيع الحافظ ,‏غزوة بدير، ج 1، ص 106

«ام سلمه» حضرت خدیجه (سلام الله علیها) کے بعد بہترین امھات مومنین میں سے ہیں ، اس روایت میں واضح طور پر اس بات کو بیان کرتی ہے اہل بیت سے مراد ازواج نہیں ہے۔

اب یہ حدیث بہت ہی واضح ہے اور یہ ایسے لوگوں کے لئے منہ توڑ جواب بھی ہے کہ جو  «ازواج النبی» کو بھی اهل‌بیت میں سے سمجھتے ہیں .

۲ :   «ابو حیان اندلسی» نے اس روایت کو  «تفسیر بحر المحیط» جلد 7، صفحه 224 میں «ابو سعید خدری» سے نقل کیا ہے اور کہا ہے

«هو خاص برسول الله وعلي وفاطمة والحسن والحسين وروي نحوه عن أنس و عائشة و أم سلمة»

تفسير البحر المحيط؛ اسم المؤلف: محمد بن يوسف الشهير بأبي حيان الأندلسي الوفاة: 745هـ، دار النشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت - 1422هـ -2001م، الطبعة: الأولى، تحقيق: الشيخ عادل أحمد عبد الموجود - الشيخ علي محمد معوض، شارك في التحقيق 1) د.زكريا عبد المجيد النوقي 2) د.أحمد النجولي الجمل، ج7، ص224

یہ  رسول اللہ اور علی ، فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے اور  اور اسی طرح کی روایت  «انس»، «عایشه»، «ام السلمه»؛ سے  نقل ہوئی ہے۔

لہذا «ابو سعید خدری»،  سمیت یہ چار نفر اس میں اس آیت کو پجتن پاک کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں ۔

۳ : «ماوردی شافعی» که جو اہل سنت کے بڑے فقیہ اور متکلم شمار ہوتے ہیں انہوں نے اپنی کتاب «النكت والعیون» ج 4، ص 401  پر چند اقوال نقل کیا ہے اور کہتا ہے :

«أحدها: أنه عنى علياً وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم» «قاله أبو سعيد الخدري وأنس بن مالك وعائشة وأم سلمة رضي الله عنهم»

ایک قول یہ ہے اس سے مراد حضرت علی ،حضرت فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام ہیں اور اس کو کہنے والے مذکورہ چار نفر ہیں۔

دوسرا قول نقل کرتا ہے :

«أنه عنى أزواج النبي خاصة»  «قاله ابن عباس وعكرمة» اس سے مراد صرف ازواج ہی ہیں  اور یہ ابن عباس  اور عکرمہ کا قول ہے۔

النكت والعيون (تفسير الماوردي)؛ اسم المؤلف: أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب الماوردي البصري الوفاة: 450هـ، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - لا يوجد، الطبعة: لا يوجد، تحقيق: السيد ابن عبد المقصود بن عبد الرحيم، ج4، ص401

۴:   «ابو محمد مکّی نے کتاب «الهدایه الی بلوغ النهایه» میں لکھا ہے :

«عنى باهل البیت هنا النبی وعلي وفاطمة والحسن والحسين رواه الخدري ابوسعید نزلت الآية في خمس فيّ وفي عليّ وحسن وحسين وفاطمة وهو قول جماعة من الصحابة»

الهداية إلى بلوغ النهاية؛ المؤلف: أبو محمد ،حَمّوش بن محمد القرطبي المالكي (المتوفى: 437هـ)؛ المحقق: مجموعة رسائل جامعية بكلية الدراسات العليا والبحث العلمي جامعة الشارقة، بإشراف أ. د: الشاهد البوشيخي؛ الناشر: مجموعة بحوث الكتاب والسنة - كلية الشريعة والدراسات الإسلامية - جامعة الشارقة؛ الطبعة: الأولى، 1429 هـ، 2008 م؛ ج 9، ص 5834

یعنی اس میں اہل بیت سے مراد پنجن پاک علیہم السلام ہیں اور ابوسعید نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت  میرے بارے میں اور علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

آگے لکھتا ہے : وهو قول جماعة من الصحابة» یہ اصحاب کی ایک جماعت کا نظریہ بھی ہے ۔  «قال عكرمة عنی بذلك ازواج النبی» عکرمہ کا قول یہ ہے کہ یہ آیت ازواج کے ساتھ ہی مخصوص ہے ۔

لہذا معلوم ہوا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واضح طور پر فرماتے ہیں کہ

«نزلت الآية فيّ وفي عليّ وحسن وحسين وفاطمة» یعنی یہ ہم پنجتن کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے ۔

۵:   «تفسیر بغوی» کہ جو اہل سنت کے ہاں ایک معتبر تفسیر ہے اور وہابی فکر رکھنے والے بھی اس کو اہمیت دیتے ہیں ،اس میں نقل ہوا ہے :

«وذهب أبو سعيد الخدري وجماعة من التابعين منهم مجاهد وقتادة وغيرهما إلى انهم علي وفاطمة والحسن والحسين»

ابوسعید خذری اور تابعین میں سے مجاہد اور قتادہ وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ اہل بیت سے مراد حضرت علی ،فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔

تفسير البغوي؛ اسم المؤلف: البغوي الوفاة: 516، دار النشر: دار المعرفة - بيروت، تحقيق: خالد عبد الرحمن العك، ج 3، ص 529

۶:     «ابن جوزی» نے اپنی کتاب «کشف المشکل من حدیث الصحیحین» میں یہی بات کہی ہے : ایک قول :«نساء النبي، قاله ابن عباس وعكرمة»

اس سے مراد ازواج النبی ہی ہے اس کو  «ابن عباس»  اور «عکرمه» نے کہا ہے ۔{یاد رکھنا ابن عباس کا قول عکرمہ سے ہی نقل ہوا ہے ۔}

«والثاني: رسول الله وعلي وفاطمة والحسن والحسين. قاله أنس وعائشة وأم سلمة»

دوسرا قول :اس سے مراد پنجتن پاک ہیں اور یہ آنس ،عائشہ اور ام سلمہ کا قول ہے

كشف المشكل من حديث الصحيحين؛ أبو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزي الوفاة: 597هـ، دار النشر: دار الوطن  - الرياض - 1418هـ - 1997م.، تحقيق: علي حسين البواب، ج4، ص418

۷:   «ابو المحاسن حنفی» نے «المعتصر من المختصر » میں لکھا ہے :

«والكلام لخطاب أزواج النبي صلى الله عليه وسلم تم عند قوله: {وَأَقِمْنَ الصَّلاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ} وقوله تعالى: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ} استئناف تشريعا لأهل البيت وترفيعا لمقدارهم ألا ترى أنه جاء على خطاب المذكر»

المعتصر من المختصر من مشكل الآثار؛ المؤلف: يوسف بن موسى بن محمد، أبو المحاسن جمال الدين المَلَطي الحنفي (المتوفى: 803هـ)؛ الناشر: عالم الكتب – بيروت؛ ج2، ص 267

ازواج النبی کے بارے میں بات  {وَأَقِمْنَ الصَّلاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ} تک ختم ہوئی اور پھر {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ۔۔۔ ایک نیا جملہ ہے اور یہ اہل البیت کے لئے الک  حکم ہے اور یہ ان کے مقام کی بلندی کے بیان کے لئے ہے۔ کیا نہیں دیکھتے اس میں مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے ؟

 آگے لکھتا ہے : (إِنَّمَا يرِيدُ اللَّهُ لِيذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيتِ وَيطَهِّرَكُمْ) فقال عنكم ولم يقل عنكن فلا حجة لأحد في إدخال الأزواج في هذه الآية يدل عليه ما روي أن رسول الله كان إذا أصبح أتى باب فاطمة فقال: "السلام عليكم أهل البيت {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً}»

اس آیت میں عنکم کہا ، عنکن نہیں کہا ۔لہذا اس میں ازواج کو شامل کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور اس بات پر وہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں کہ جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : "السلام عليكم أهل البيت {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ۔۔۔۔۔۔۔

المعتصر من المختصر من مشكل الآثار؛ المؤلف: يوسف بن موسى بن محمد، أبو المحاسن جمال الدين المَلَطي الحنفي (المتوفى: 803هـ)؛ الناشر: عالم الكتب – بيروت؛ ج2، ص 267

بعض قول کے مطابق چھے مہینے تک اور بعض قول کے مطابق نو مہینے تک آپ ان کے دروازے پر جاکر : «السلام علیکم اهل‌ البیت إِنَّمَا يرِيدُ اللَّهُ لِيذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيتِ وَيطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا»؛ کہتے رہے ۔ جبکہ ازواج کے دروازے پر جاکر اس کو فرمانے پر ایک ضعیف روایت بھی نہیں ہے  ۔.

۸:     «ابوبکر آجری متوفی 360» کہ اهل سنت کے بزرگ علماء میں سے ہے اور «طبرانی» جس سال دنیا سے چلا گیا یہ بھی گیا ، انہوں نے بھی اس سلسلے میں اقوال کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے :

« إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا وهم علي وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم»

اس سے مراد حضرت علی ،فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام مراد ہے ۔

الشريعة؛ اسم المؤلف: أبي بكر محمد بن الحسين الآجري الوفاة: 360هـ ، دار النشر: دار الوطن - الرياض / السعودية - 1420 هـ - 1999 م، الطبعة: الثانية، تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، الشريعة، ج 5، ص 2200

 اور آگے لکھتا ہے : «هم الأربعة الذين حووا جميع الشرف، وهم علي بن أبي طالب وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم»

وہ  چار ہستیاں جو جو تمام شرف کا مالک ہیں وہ حضرت علی،فاطمہ،حسن اور حسین علیہم السلام ہیں

الشريعة؛ اسم المؤلف: أبي بكر محمد بن الحسين الآجري الوفاة: 360هـ ، دار النشر: دار الوطن - الرياض / السعودية - 1420 هـ - 1999 م، الطبعة: الثانية، تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، الشريعة، ج 5، ص 2205

۹:    «آلوسی» کی ایک خوبصورت تعبیر  :

«وأخبار إدخاله عليا وفاطمة وإبنيهما رضي الله تعالى عنهم تحت الكساء وقوله عليه الصلاة والسلام اللهم هؤلاء أهل بيتي ودعائه لهم وعدم إدخال أم سلمة أكثر من أن تحصى وهي مخصصة لعموم أهل البيت بأي معنى كان البيت ولا يدخل فيهم أزواجه »

روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني؛ اسم المؤلف:  العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود الألوسي البغدادي الوفاة: 1270هـ ، دار النشر : دار إحياء التراث العربي – بيروت، ج 22، ص 14

آلوسی کہتے ہیں: «بیت» کا جو بھی معنی ہو ،اس میں ازواج داخل ہو یا نہ ہو ،لیکن وہ روایتیں کہ جو کساء کے نیچے ان حضرات کو داخل کرنے اور دعا کرنے اور ام سلمہ کو اس میں داخل نہ کرنے کے بیان میں ہیں یہ روایات بہت زیادہ ہیں، گنتی سے باہر ہیں ،یہ روایتیں اھل بیت کے عمومی معنی کو تخصیص دیتی ہیں لہذا  یہاں ازواج، اہل بیت میں داخل نہیں ہے :

«أن النساء المطهرات غير داخلات في أهل البيت الذين هم أحد الثقلين لأن عترة الرجل كما في الصحاح نسله و رهطه الأدنون»

ازواج مطہرات ، اهل البیت میں داخل نہیں ہیں ،وہ اہل بیت کہ جو دو گرانقدر چیزوں میں سے ایک ہیں کیونکہ عترت قریبی رشتہ دار اور نسل کو کہا جاتا ہے ۔

روح المعاني في تفسير القرآن العظيم ؛:  العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود الألوسي البغدادي الوفاة: 1270هـ ، دار النشر : دار إحياء التراث العربي – بيروت، ج 22، ص 16

۱۰:    «حکم نیشابوری» نے «مستدرک» میں نقل کیا ہے  :

 قَالَ: «ادْعُوا لِي، ادْعُوا لِي» فَقَالَتْ صَفِيَّةُ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَهْلَ بَيْتِي عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ» فَجِيءَ بِهِمْ فَأَلْقَى عَلَيْهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِسَاءَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ آلِي فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ» ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33]

آپ نے فرمایا : بلا کر لاو ،بلا کر لاو، صفیہ نے کہا : یا رسول اللہ {ص} کن کو ؟ فرمایا : میرے اہل بیت کو ،علی، فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام کو ۔ اور جب یہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے ایک عباء ان پر ڈال دی اور یہ دعا کی : اے اللہ یہی میرے اہل بیت ہیں پس محمد اور آل محمد پر درود بھیج دئے ۔اور یہ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ۔۔۔} نازل ہوئی

آگے حاکم لکھتا ہے :

«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» وَقَدْ صَحَّتِ الرِّوَايَةُ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ أَنَّهُ عَلَّمَهُمُ الصَّلَاةَ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا عَلَّمَهُمُ الصَّلَاةَ عَلَى آلِهِ"

یہ حدیث شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کو  اپنے اہل بیت  پر درود بھیجنے کے طریقے کی تعلیم دی ،جس طرح آپ نے آل پر درود بھیجنے کی تعلیم دی۔ یعنی آل اور اہل بیت ایک ہی ہیں۔

آگے لکھتا ہے : «وإنما خرجته ليعلم المستفيد أن أهل البيت والآل جميعا هم»

میں نے اس کو نقل کیا تاکہ یہ جان سکے کہ اهل‌بیت  اور آل پیغمبر یہی لوگ ہی ہیں ان کے علاوہ کوئی اور نہیں !

المستدرك على الصحيحين، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوري الوفاة: 405 هـ، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1411هـ - 1990م، الطبعة: الأولى، تحقيق : مصطفى عبد القادر عطا، ج 3، ص 159 و 160، ح 4709 و 4710

۱۱:   «طحاوی» کہ جو اهل‌سنت کے بزرگ علماء میں سے ہیں اور بہت سی کتابوں کے لکھنے والے بھی ،ان کی بعض کتابیں اہل سنت کے دینی مدرسوں کے کورس میں شامل ہیں ،انہوں نے «شرح مشکل الآثار» میں لکھا ہے :

«وَأَنَّ الْمُرَادِينَ بِمَا فيها هُمْ رسول اللهِ»«رسول اللهِ وَعَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ عليهم السلام دُونَ من سِوَاهُمْ»

ان لوگوں سے مراد ،صرف رسول اللہ ،علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام ہی ہیں ،ان کے علاوہ کوئی مراد نہیں ہے ۔{ دقت کریں یہ روایت سے ہٹ کے اس کی اپنی نظر کو بیان کر رہا ہے }

شرح مشكل الآثار؛ اسم المؤلف: أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوي الوفاة: 321هـ، دار النشر: مؤسسة الرسالة - لبنان/ بيروت - 1408هـ - 1987م، الطبعة : الأولى، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ج 2، ص 245

۱۲:    «مقریزی» نے «امتاع الأسماع» جلد 5، صفحه 388 میں لکھا ہے :

« فلأن الأمة اتفقت على أن لفظ أهل البيت إذا أطلق إنما ينصرف إلى من ذكرناه دون النساء، ولو لم يكن إلا شهرته فيهم كفى»

امت کا اس پر اتفاق ہے کہ جب اہل البیت کا استعمال ہو تو اس سے مراد وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے ذکر کیا ہے ،ازواج یہاں مراد نہیں ہے ، اور اس سلسلے میں موجود شہرت ہی اس کے لئے کافی ہے ۔

«وإذا ثبت بما ذكرناه من النص والإجماع أن أهل البيت عليّ وزوجته وولداه، فما استدللتم به من سياق الآية ونظمه على خلافه لا يعارضه»

ہم نے جو کہا وہ نص اور اجماع سے ثابت ہے کہ اہل بیت سے مراد علی ، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹے ہیں اب یہ جو استدلال کرتے ہیں کہ آیت کا سیاق اور نظم اس بات ہر دلالت کرتی ہیں کہ یہاں مراد ازواج پیغمبر ہی ہیں تو یہ استدلال نص اور اجماع سے مقابلہ نہیں کرسکتا ۔

إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع؛ المؤلف: أحمد بن علي بن عبد القادر، أبو العباس الحسيني العبيدي، تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845هـ)؛ المحقق: محمد عبد الحميد النميسي؛ الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت؛ الطبعة: الأولى، 1420 هـ - 1999 م؛ ج5، ص 388

محدثین کی راے 

 

اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اہل سنت کے بہت سے محدثین نے خاص کر آیت تطہیر  اور حدیث ثقلین کو ذکر کرتے وقت "اہل بیت النبی کے عنوان سے الگ باب اور عنوان قرار دیا ہے اور اس میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان کیے ہیں اور ازواج کے فضائل کو الگ سے باب اور عنوان کے ساتھ ذکر کیے ہیں ۔۔ لہذا یہ خود ان محدثین کے فھم اور راے کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے ۔۔ یہ حضرات   اہل بیت النبی میں ازواج کو شامل نہیں کرتے تھے ۔۔۔

 

 ( 285 باب بيان أهل بيته الذين هم آله

السنن الكبرى ت :محمد عبد القادر عطا (2/ 148):

ومن مناقب أهل رسول الله صلى الله عليه وسلم

المستدرك على الصحيحين للحاكم (11/ 11، بترقيم الشاملة آليا) :

بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

سنن الترمذى (12/ 255):

باب مناقب أهل الرسول - صلى الله عليه وسلم –

شرح السنة للبغوي (7/ 112):

9 - باب فَضَائِلِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم-. (55)

صحيح مسلم (7/ 130):

مناقب أهل البيت

غاية المقصد فى زوائد المسند للهيثمي (2/ 1403):

كِتَابٌ جَامِعِ فَضَائِلِ أَهْلِ الْبَيْتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ

الشريعة للآجري (5/ 2200):

 

نتیجہ اور خلاصہ

جیساکہ نقل ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب کی نظر میں خاص کر آیت تطہیر میں مذکور { اہل بیت } بیت سے مراد ازواج نہیں ہے۔ بلکہ یہاں مراد امیر المومنین ،جناب صدیقہ اور حسنین علیہم السلام مراد ہی جیساکہ حدیث ثقلین اور اس سلسلے کی دوسری احادیث میں بھی ازواج مراد نہیں ہے کیونکہ یہ ان احادیث کے مضمون اور سیاق کے خلاف ہے  اور جیساکہ نقل ہوا کہ اہل سنت کے ہی بزرگ علماء نے اسی استعمال کو قبول کیا ہے اور لفظ "اہل بیت" کے مفہوم اور معنی میں موجود وسعت کے بہانے اس سے ازواج مراد ہونے یا ازواج بھی شامل ہونے کا انکار کیا ہے۔

لہذا اب بعض لوگوں کی طرف سے یہ اصرار کرنا کہ کیونکہ اس لفظ کا معنی عام ہے اور اس کے مفہوم میں وسعت موجود ہے لہذا اس سے مراد ازواج ہے تو یہ در حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے نظریے کے مقابلے میں اپنی نظر دینا اور اہل بیت علیہم السلام کے فضائل کے خلاف مہم کا حصہ ہے ۔

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی