2024 March 28
کیا کربلا کے شہداء میں شیعوں کے علاوہ بھی کوئی شہید ہیں؟
مندرجات: ٢٠٤٦ تاریخ اشاعت: ٢٩ August ٢٠٢١ - ١٩:٠٧ مشاہدات: 2569
سوال و جواب » امام حسین (ع)
کیا کربلا کے شہداء میں شیعوں کے علاوہ بھی کوئی شہید ہیں؟

 

 

کیا کربلا کے شہداء میں شیعوں کے علاوہ بھی کوئی شہید ہیں؟

سوال کی وضاحت

سؤال کرنے والا : محمد سبحان

سلام علیک کوئی کہہ رہا تھا کربلا کے شہداء سارے شیعہ نہیں تھے بلکہ عثمانی بھی ان میں شامل تھے ؛ مثلا زهير بن قين، حر بن يزيد، يزيد بن زياد بن مُهاصر کِندي، سعد بن حارث، ابوالحَتوف بن حارث، عبدالله بن عمير کلبي. لہذا اگر ہوسکے تو ان افراد کے شیعہ ہونے کے دلائل پیش کریں ۔

مختصر جواب

اس میں شک نہیں ہے کہ اهل بيت عليهم السلام کی محبت ان کے عاشقوں اور ان سے محبت کرنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لیتی ہے ۔لیکن محبوب کی راہ میں جان کا نذرانہ ادا کرنے کے لئے صرف محبت کافی نہیں ہے ۔ جان قربان کرنے کے لئے محبت سے بھی بڑی چیز کی ضرورت ہے اور وہ حقیقت میں وہی ولایت ہے، یہ چیز محبت کو محب کے دل میں شعلہ ور کرتی ہے۔ لہذا محبت کے ساتھ ولایت بھی ہو تو نتیجے میں ان بزرگوں کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کے فرامین کے آگے سرتسلیم خم ہوجاتے ہیں اور ان کی راہ میں جانثاری کرتے ہیں ۔

 کربلا کے واقعے میں امام حسين عليه السلام نے مکہ سے کربلا تک کے سفر کے دوران منزل اور پڑاو کے وقت بعض افراد سے ملاقاتیں کیں اور اپنی نصرت اور یزید کےخلاف جہاد میں شرکت کی دعوت دی ۔ان میں سے بہت سے لوگ آپ کو پہچانتے اور اہل بیت علیہم السلام سے محبت بھی کرتے تھے لیکن جو لوگ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا آئے صرف ان سے محبت، انہیں قربان گاہ کربلا کی طرف لے کر نہیں آئی تھی ۔ بلکہ محبت سے بھی بڑی چیز ولایت الہی تھی کہ جس نے ان کے دلوں میں اتنا شوق و جذبہ ایجاد کیا ،یہاں تک کہ ان لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ نہایت اخلاص کے ساتھ پیش کیا اور دین اور اپنے زمانے کے امام کے ہدف کے لئے جانیں فدا کر دئے۔

 

دوسرا نکتہ :  لفظ «شيعه» ان لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ جب وہ کسی شخص کی پیروی اور اطاعت کرئے ،صرف محبت کی وجہ سے کسی کو کسی کا شیعہ نہیں کہا جاتا ۔

ان دو نکات کی روشنی میں اگر دیکھے تو کربلا کے واقعے سے پہلے بعض جو عثمانی یا دوسرے ادیان والے تھے {مثلا وھب نصرانی تھا} جب یہ لوگ کربلا میں امام سے آملے اور آپ کے کاروان میں شامل ہوئے تو یہ لوگ آپ کے گروہ کے ہوگئے تھے امام کی ولایت اور امامت کو قبول کرچکے تھے اور مکمل {ایمان اور عمل کے ساتھ }آپ کی اطاعت کر رہے تھے اور سابقہ ذھنت سے رہا ہوکر امام سے آملے تھے، ان لوگوں نے جانثاری ، فداکاری اور آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے دفاع کے ذریعے اپنے شیعہ اور اہل بیت علیہم السلام کے پیرو ہونے کو ثابت کیا ۔

لہذا شہداء کربلا سب کے سب شیعہ تھے اور جو امام سے آملے تھے وہ شیعہ ہوچکے تھے۔

تفصيلي جواب :

1. زهير بن قين:

جن افراد کا نام لیا گیا ان میں سے صرف زھير بن قين کہ جنہیں شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں عثماني کہا گیا ہے ۔انہوں نے کربلا کے راستے میں امام سے ملاقات کے بعد سب کچھ {مال و دولت اور سابقہ نظریات }چھوڑ کرامام سے آملے۔

بلاذري نے انساب الاشراف میں زهير کے بارے میں لکھا ہے :

«قالوا: وكان زهير بن القين البجلي بمكة، وكان عثمانياً»

«لوگوں نے کہا ہے کہ : زهير بن قين بجلي مكه میں تھا اور وہ عثماني  تھا.»

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر _متوفاى279 ق_، أنساب الأشراف، ج 1، ص 413، طبق برنامه الجامع الكبير.

وكان زهير بن القين البجلي قد حج وكان عثمانيا

                    الكامل في التاريخ (3/ 403):

 تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ زہیر نے امام حسين عليه السلام سے ملاقات اور ان کے کاروان میں شامل ہونے کے بعد «عثماني ہونے » کی زنجیر کو اپنی گردن سے اتار دی اور اب یہ امام حسین علیہ السلام کے شیعہ بن گے اور اسی عقیدے کے ساتھ شہید ہوئے ۔  

بلاذري نے ایک گفتگو نقل کی ہے کہ جو زهير کا عمر بن سعد کے لشکر سے عزره بن قيس سے ہوئی، یہی عزره بن قيس، امام حسین علیہ السلام کو خط لکھنے والوں میں سے ایک تھا۔

زہر نے اس پر واضح کیا کہ میں حسینی ہوا ہوں اور حسینی مروں گا۔

«وقال عزرة لزهير بن القين: كنت عندنا عثمانياً فما بالك ؟ فقال: والله ما كتبت إلى الحسين ولا أرسلت إليه رسولاً ولكن الطريق جمعني وإياه فلما رأيته ذكرت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وعرفت ما تقدم عليه من غدركم ونكثكم وميلكم إلى الدنيا، فرأيت أن أنصره وأكون في حزبه حفظاً لما ضيعتم من حق رسول الله.»

«عزره نے زهير بن قين سے  کہا : تم تو عثمانی تھا کیا ہوا اب تم حسین علیہ السلام کے ساتھی بن گئے ؟ زهير نے جواب دیا : اللہ کی قسم میں نے نہ انہیں خط لکھا اور نہ ہی کسی کو پیغام دئے کر ان کے پاس بھیجا۔بلکہ راستے میں ایسا اتفاق ہوا میں نے انہیں دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یاد تازہ ہوگئ اور میں نے ان کے ساتھ تم لوگوں کی مکاری ،عہد شکنی اور دنیا کی طرف تم لوگوں کے جکاو کو جاننا اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کی نصرت کروں اور حسینی بنوں تاکہ تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جو حق ضائع کیا تھا اس حق کی رعایت اور حفاظت کروں۔

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر _متوفاى279 ق_، أنساب الأشراف، ج 1، ص 418، طبق برنامه الجامع الكبير.

طبري نے عزرة بن قيس اور زهير کی گفتگو کو اس طرح نقل کیا ہے :

يا زهير ما كنت عندنا من شيعة أهل هذا البيت إنما كنت عثمانيا.

اے زهير تمہیں ہم اهل بیت کے شیعہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ عثمانی سمجھتے تھے { کیا ہوا اب تو تم اہل بیت کے شیعہ بن گئے اور اپنے عثمانی ہونے کو چھوڑ دیا ؟}

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبري، ج 3، ص 314، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

 اب عزرة بن قيس کی باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسين عليه السلام کے مقابل کھڑے آپ کے دشمن لشکر والوں کو بھی معلوم تھا کہ جو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہیں وہ آپ کے شیعہ ہیں ۔اسی لئے عزرۃبن قیس نے جناب زھیر کو دیکھ کر کہا : تم تو ان کے شیعہ نہیں تھے اب کیسے ان کے شیعہ بن گئے ؟ 

طبري نے جناب زھیر کے جواب کو یوں نقل کیا ہے :

«فرأيت أن أنصره وأن أكون في حزبه وأن أجعل نفسي دون نفسه حفظا لما ضيعتم من حق الله وحق رسوله عليه السلام. ...»

«میں نے ان کی نصرت کا ارادہ کیا ہے اور ان کے گروہ سے ہونے کو انتخاب کیا ہے اور چاہتا ہوں اپنی جان ان پر نثار کردوں تاکہ اللہ اور اللہ کے رسول ص کا جو حق تم لوگوں نے ضائع کیا ہے اس حق کی حفاظت کروں۔

 الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبري، ج 3، ص 314، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

 زهير نے اس جواب کے ذریعے چند مطلب کو بیان کیا ،   

الف : امام حسين عليه السلام کے دشمنوں کی مذمت کی کہ تم لوگ فریب کار ، مکار  اور عہد شکن ہوں۔ اب اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی امیہ میں بھی ایسے لوگ تھے کہ جنہوں نے امام کو دعوت دی اور بعد میں آپ کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور آپ کے خلاف  تلوار اٹھائی۔

 ب : یہ «واكون في حزبه» ، «وان اجعل نفسي دون نفسه»، جیسے کلمات کے استعمال سے صاف ظاہر ہے کہ اب زھیر حسینی بن گئے تھے اور عثمان کے شیعہ ہونے کو خیر باد کہہ کر علی اور حسین علیہما السلام کے شیعہ ہوگئے تھے ۔اور اپنے«عثماني ہونے » کو ختم کیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زھیر عثمانی ہی باقی رہتے تو کبھی امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں شامل نہ ہوتا۔

ج  : یہ گفتگو امام حسین علیہ السلام کے مد مقابل لشکر کی حقیقت کو بھی بتاتی ہے ،اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کو شہید کرنے والے عثمانی فکر والے تھے ۔

 

اس بات کی ایک اور شاہد : وہ جذباتی رجز جو انہوں نے میدان کربلا میں دشمن سے جنگ کے وقت پڑھا وہ بھی اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔

ان اشعار میں زھیر امام حسین علیہ السلام کو ہدایت کا پیشوا قرار دیتا ہے اور ان کے ہاتھوں ہدایت پانے پر فخر کرتا ہے ۔

  نويري نے ان کے رجز کو اس طرح نقل کیا ہے :

وقاتل زهير بن القين قتالاً شديداً وجعل يقول :

أنا زهير وأنا ابن القين                       أذودهم بالسيف عن حسين

و جعل يضرب على منكب الحسين ويقول:

أقدم هديت هادياً مهدياً                     فاليوم تلقى جدك النبيا

و حسناً والمرتضى عليا                     و ذا الجناحين الفتى الكميا

                              و أسد الله الشهيد الحيا

«زهير بن قين نے دشمن سے سخت جنگ کی اور آپ یہ رجز پڑھ رہے تھے: میں قين کا بیٹا زهير ہوں، میں دشمن کے مقابلے میں اپنی تلوار سے حسین کی حفاظت کرتا ہوں۔

زھیر نے اپنا ہاتھ امام حسین علیہ سلام کے بازو پر رکھ کر کہا

 آپ آگے بڑھیں اور میرا پیشوا رہیں ،میری ہدایت ہوئی ،اے ہدایت کرنے والے اور ہدایت یافتہ  ،آج اپ کے نانا نبی اور علی مرتضی،حسن اور  دو پر والے جواب {جناب جعفر طیار }اللہ کا شیر اور شہید زندہ { جناب حمزہ} سے ملاقات کروں گا ۔

 

النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب _متوفاى733 ق_، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 20، ص 283، تحقيق: مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.

أنساب الأشراف (1/ 421،  تاريخ الطبري (3/ البدا والنهاية (8/ 199):

 

2. حر بن يزيد رياحي:

ان کے عثمانی ہونے کے بارے میں کوئی تاریخی شاہد ہمارے پاس نہیں ہے لہذا ان کے عثماني ہونے کے ادعا پر دلیل نہیں ہے ؛ بلكه  تاریخی کتابوں میں ایسے مطالب موجود ہیں کہ جو اس کے عثمانی نہ ہونے کو بیان کرتے ہیں۔

پہلا مطلب: امام حسين عليه السلام کی اقتدا میں نماز

کوفہ سے آئے پہلا لشکر حر بن زياد رياحي کا لشکر ہے ۔ اسی لشکر نے امام حسين عليه السلام کا راستہ روکا اور امام کو كربلا میں اترنے پر مجبور کیا۔ حر اسی لشکر کا کمانڈر تھا اسی نے امام حسین علیہ السلام سے کہا کہ یزید کی بیعت کرنے تک آپ کو نہیں چھوڑیں گے ۔

لیکن اس کے باوجود جب نماز ظہر و عصر کا وقت ہوا اس وقت امام کی اقتدا میں نماز ادا کی ،جیساکہ طبری نے نقل کیا ہے :

«فقال الحسين عليه السلام للحر أتريد أن تصلي بأصحابك قال لا بل تصلي أنت ونصلي بصلاتك قال فصلى بهم الحسين ثم إنه دخل واجتمع إليه أصحابه وانصرف الحر إلى مكانه الذي كان به.»

«حسين عليه السلام نے حر سے کہا : کیا اپنے لشکر والوں کے ساتھ نماز پڑھو گے ؟ حر نے کہا : نہیں؛ بلکہ آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں. رواي کہتا ہے : حسين [عليه السلام] نے ان کے ساتھ نماز پڑھی،پھر امام اپنے خیمے میں دوستوں کے ساتھ چلے گئے اور حر بھی اپنی جگہ چلا گیا ۔

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبري، ج 3، ص 306، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

ابن كثير دمشقي نے نقل کیا ہے ، حر بن يزيد رياحي نے عصر کی نماز امام حسين عليه السلام کی اقتدا میں نماز ادا کی ۔

«... فلما كان وقت العصر صلى بهم الحسين ثم انصرف فخطبهم وحثهم على السمع والطاعة له وخلع من عاداهم من الادعياء السائرين فيكم بالجور.»

«نماز عصر کا وقت پہنچا، حسين [عليه السلام] نے ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھرامام نے لشکر کا رخ کیا اور آپ کی اطاعت ،پیروی اور آپ سے دشمنی سے ہاتھ اٹھانے  کی طرف ترغیب دلائی۔  

ابن كثير الدمشقي، إسماعيل بن عمر القرشي _متوفاى774 ق_، البداية والنهاية، ج 8، ص 172، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

مرحوم شيخ صدوق کی روایت کے مطابق ،حر بن يزيد نے نماز کے بعد اپنا تعارف کرایا اور ایسی باتیں کہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امام سے محبت رکھتا تھا :

«فَلَمَّا سَلَّمَ وَثَبَ الْحُرُّ بْنُ يَزِيدَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ فَقَالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام وَ عَلَيْكَ السَّلَامُ مَنْ أَنْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَنَا الْحُرُّ بْنُ يَزِيدَ فَقَالَ يَا حُرُّ أَ عَلَيْنَا أَمْ لَنَا فَقَالَ الْحُرُّ وَ اللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ لَقَدْ بُعِثْتُ لِقِتَالِكَ وَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أُحْشَرَ مِنْ قَبْرِي وَ نَاصِيَتِي مَشْدُودَةٌ إِلَى رِجْلِي وَ يَدَيَّ مَغْلُولَةٌ إِلَى عُنُقِي وَ أُكَبَّ عَلَى حُرِّ وَجْهِي فِي النَّارِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَيْنَ تَذْهَبُ ارْجِعْ إِلَى حَرَمِ جَدِّكَ فَإِنَّكَ مَقْتُولٌ.»

«جب امام عليه السلام نے نماز ختم کی اور  سلام کہا تو حر بن يزيد اٹھا اور  کہا : اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکات آپ پر ہو۔

امام حسین علیہ السلام نے جواب میں فرمایا : اور تم پر بھی سلام ہو،اے بندے خدا تم کون ہو؟اس نے کہا : میں حر بن یزید ریاحی ہوں۔

امام نے فرمایا : ہمارے ہمارے خلاف ہو یا ہمارے ساتھ؟ حر نے کہا : فرزند رسول ص اللہ کی قسم مجھے آپ سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا ہے اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں قبر سے اس حالت میں محشور ہوں کہ میرے پاوں میرے سر کے بالوں سے باندھے ہوئے ہوں اور میرے ہاتھوں کو گردن سے باندھے ہوئے ہوں ۔اور مجھے منہ کے بل آگ میں ڈال دیا جائے۔

اے فرزند رسول اللہ ص کہاں کا ارادہ رکھتے ہو؟ اپنےنانا کے حرم میں واپس جائیں ،ورنہ یہ لوگ آپ کو قتل کر دیں گے ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين _متوفاى381 ق_، الأمالي، ص 219، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة - قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ.

دوسرا مطلب: حر بن يزيد نے توبہ کیا .

اگر فرض کیا جائے ،حر عثمانی تھا لیکن اس نے اس وقت توبہ کیا ،جب اس نے دیکھا کہ عمر سعد امام سے اب جنگ کرئے گا ۔ جب یہ حالت دیکھی تو اس وہ یزیدی لشکر سے جدا ہوا اور امام کے پاس آیا اور اپنے سابقہ کردار سے توبہ کیا

دينوري نے الاخبار الطوال، میں نقل کیا ہے :

«وانحاز الحر بن يزيد الذي كان جعجع بالحسين إلى الحسين، فقال له: قد كان مني الذي كان، وقد أتيتك مواسيا لك بنفسي، أفترى ذلك لي توبة مما كان مني؟. قال الحسين: نعم، إنها لك توبة، فأبشر، فأنت الحر في الدنيا، وأنت الحر في الآخرة، إن شاء الله.»

«حر بن يزيد کہ جس نے حسين علیہ السلام کو [سرزمين كربلا] میں قیام کرنے پر مجبور کیا ۔وہ لشکرسے نکل کر امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں آیا اور امام سے کہا : جو ہوا سو ہوا ،لیکن میں اب آپ کے رکاب میں جان قربان کرنا اور آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ اب کیا میری توبہ قبول ہوگی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ توبہ ہے اور میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ تم دنیا میں آزاد ہو ،آخرت میں بھی ہوگا۔ انشاء اللہ ۔

 

الدينوري، أحمد بن داود _متوفاي 282ق_، الأخبار الطوال، ج 1، ص 378، تحقيق : د.عصام محمد الحاج علي، دار النشر : دار الكتب العلمية  - بيروت/لبنان، الطبعة : الأولى، 1421هـ-2001م

شيخ صدوق رحمة الله عليه نے نقل کیا ہے کہ حر نے اپنے ہاتھوں کو سر پر رکھ کر فریاد بلند کیا : اے اللہ! میں تیری طرف پلٹ کر آیا ہوں اور توبہ کرتا ہوں تو میرا توبہ قبول کرئے :

«قال: فضرب الحر بن يزيد فرسه، وجاز عسكر عمر بن سعد (لعنه الله) إلى عسكر الحسين (عليه السلام)، واضعا يده على رأسه، وهو يقول: اللهم إليك أنيب فتب علي، فقد أرعبت قلوب أوليائك وأولاد نبيك. يا بن رسول الله، هل لي من توبة؟ قال: نعم تاب الله عليك. قال: يا بن رسول الله، أتأذن لي فأقاتل عنك؟ فأذن له، فبرز وهو يقول :

 أضرب في أعناقكم بالسيف   * *  عن خير من حل بلاد الخيف

 فقتل منهم ثمانية عشر رجلا، ثم قتل، فأتاه الحسين (عليه السلام) ودمه يشخب، فقال: بخ بخ يا حر، أنت حر كما سميت في الدنيا والآخرة.»

«راوي کہتا ہے : حر بن يزيد نے کوڑے کا رخ موڑا ،عمر سعد کے لشکر سے نکلا اور امام حسين عليه السلام کے لشکر میں آیا ،وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہاتھوں کو سر پر رکھا ہوا تھا اور کہتا تھا: اے اللہ ! توبہ کرتا ہوں میری توبہ قبول فرما۔میں نے پیغمبر ص کے فرزندوں اور دوستوں کو گھبرایا ہے ۔ اے فرزند رسول اللہ ص ! کیا توبہ کا راستہ میرے لئے کھلا ہوا ہے ؟ امام نے فرمایا : اللہ نے تیری توبہ قبول کیا ہے ۔

پھر امام سے کہا : یابن رسول اللہ ص کیا مجھے دشنوں سے جنگ کی اجازت ہے ؟

امام سے اجازت لے کر میدان میں جنگ کرنے گیا اور وہ یہ رجز پڑھتا تھا:

میں تلوا سے تم لوگوں کی گردنیں اڑھا دوں گا اور خیف کی زمین میں موجود سب سے بافضیلت شخص سے دفاع کروں گا ۔پھر دشمن کے لشکر سے ۱۸ لوگوں کو واصل جہنم کیا اور خود بھی شہید ہوئے ،اس وقت امام اس کےسرانے پہنچے جبکہ اس کے بدن سے خون نکل رہا تھا آپ نے حر سے مخاطب ہو کر فرمایا: شہادت مبارک ہو جس طرح تمہیں حر نام دیا تم دنیا اور آخرت میں آزاد ہو۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين _متوفاى381 ق_، الأمالي، ص 224، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة - قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ.

3. يزيد بن زياد كندي:

اس شخص کا نام تاریخ میں يزيد بن زياد بن مهاجر، مصاهر، يا يزيد بن مهاجر، ذکر ہوا ہے. یہ بھی امام حسين عليه السلام کے یار و انصار میں سے تھا اور عاشورا کے دن شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔

اب ان کے بارے میں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عمر بن سعد کے لشكر سے نکل کر امام کے لشکر میں آیا تھا یا کوفہ سے ہی سیدھا امام کے لشکر میں شامل ہونے آیا تھا ،یہ دونوں احتمال موجود ہے جیساکہ طبری نے لکھا ہے :

«قال لهم الحر هذا كتاب الأمير عبيدالله بن زياد يأمرني فيه أن أجعجع بكم في المكان الذي يأتيني فيه كتابه وهذا رسوله وقد أمره ألا يفارقني حتى أنفذ رأيه وأمره فنظر إلى رسول عبيدالله يزيد بن زياد بن المهاصر أبو الشعثاء الكندي ثم البهدلي فعن له فقال أمالك بن النسير البدي قال نعم وكان أحد كندة فقال له يزيد بن زياد ثكلتك أمك ماذا جئت فيه قال وما جئت فيه أطعت إمامي ووفيت ببيعتي فقال له أبو الشعثاء عصيت ربك وأطعت إمامك في هلاك نفسك كسبت العار والنار قال الله عز وجل (وجعلناهم أئمة يدعون إلى النار ويوم القيامة لا ينصرون) فهو إمامك.»

«حر نے امام کے لشکر سے کہا : یہ امير عبيد الله بن زياد کا خط ہے اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ جہاں یہ خط ملے وہاں پر آپ کو روکے رکھوں اور یہ ابن زیاد کا قاصد ہے اسے یہ حکم ملا ہے کہ وہ مجھ سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ میں ابن زیاد کے حکم اور دستور پر عمل کروں ۔

يزيد بن زياد بن مهاصر (ابو الشعثاء كندي) نے عبيد الله کے قاصد کو دیکھا اور کہا: کیا تم مالك بن نسير بدي ہو؟ اس نے کہا:‌ ہاں، اور یہ قبیلہ كنده کے افراد میں سے تھا. يزيد بن زياد  نے اس سے کہا : تیری ماں تیرے غم میں روئے، یہ کیا لے کر آئے ہو ؟ اس نے کہا: میں نے اپنے امام کی اطاعت کی ہے اور اس سے کی ہوئی بیعت کی وفاء کی ہے۔ابو الشعثاء نے اس سے کہا: تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے ،اپنے امام کی اطاعت کر کے اپنے کو ہلاکت میں ڈال دی ہے اور ذلت و پستی اور جہنم کی آگ میں گرنے کو تو نے انتخاب کیا ہے ۔اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کی « ہم نے ان کو جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیشوا قرار دیا اور اس دن ان کی نصرت نہیں کیجائے گی.»  پھر کہا تیرا امام یہ ہے کہ جو جہنم کی طرف دعوت دیتا ہے»

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبري، ج 3، ص 309، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یزید بن زیاد ،حر سے پہلے امام کے ساتھ تھے اور امام کے یار و انصار میں سے تھے۔

طبری نے عاشورا کے دن امام حسين عليه السلام کے لشکر سے یزید بن زیاد کی تیر اندازی کا ذکر کیا ہے ۔

«وكان يزيد بن زياد بن المهاصر ممن خرج مع عمر بن سعد إلى الحسين فلما ردوا الشروط على الحسين مال إليه فقاتل معه حتى قتل.»

«يزيد بن زياد بن مهاصر ان لوگوں میں سے تھا جو عمر بن سعد کے ساتھ امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے آیا تھا اور جس وقت عمر بن سعد نے امام حسين علیہ السلام کی طرف سے پیش کردہ شرائط کو رد کیا تو امام حسين کے لشکر میں شامل ہوا اور عمر سعد کے لشکر سے جنگ کی اور شہید ہوئے.

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبري، ج 3، ص 330، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

ابو مخنف، کے نقل کے مطابق ابو الشعشاء نے عاشورا کے دن امام حسين عليه السلام کے سامنے زانوں پر بیٹھ کر دو سو تیر دشمن کی طرف پھینکا۔اس وقت امام حسین علیہ السلام نے اس کے حق میں یوں دعا کی ۔

«اللهم سدد رميته، واجعل ثوابه الجنة، فلما رمى بها قام فقال: ما سقط منها الا خمسة أسهم. ولقد تبين لي اني قد قتلت خمسة نفر وكان في أول من قتل وكان رجزه يومئذ:

 انَا يزيدُ وابِي مُهاصر                         اشْجَعُ مِنْ ليثٍ بِغَيلٍ خادِرْ

يا رَبِّ انّي لِلْحُسين ناصر                    وَلِابْنِ سَعْدٍ تارِكٌ و هاجر.»

«اے اللہ!اس کے تیروں کو نشانے پر لگا اور اس کے اجر میں انہیں ہہشت عطا فرما ) تیروں کو پھینکنے کے بعد اٹھا اور کہا ،پانچ تیر کے علاوہ سب نشانے پر لگ گیے۔اور کہا مجھے پتہ چلا کہ پانچ لوگ مارے گئے ہیں۔

اور وہ پہلے شہید ہونے والے شہداء میں سے ہے،عاشور کے دن وہ یہ رجز پڑھتا تھا ۔

 میں یزید ہوں میرا باپ مہاجر ہے، شیر سے زیادہ دلیر ہوں۔اے اللہ میں حسین علیہ السلام کی مدد کرنے والا ہوں اور میں ابن سعد سے دور ہوا ہوں۔

 

الأزدي، أبو مخنف _متوفاي157 ق_، مقتل الحسين (ع)، ص 158، چاپخانه : مطبعة العلمية – قم، بر اساس مكتبه اهل البيت.

4 و 5 . سعد بن الحارث وابو الحتوف:

یہ دو شهداي كربلا میں سے ہیں. مرحوم نمازي، کے کہنے کے مطابق یہ دو پہلے خوارج میں سے تھے ۔لیکن کربلا میں امام حسين عليه السلام کے صف میں شامل ہوئے اور اپنے زمانے کے امام کی مدد کی۔

6107 - سعد بن الحارث بن سلمة الأنصاري:

 هو وأخوه أبو الحتوف العجلاني خرجا من الكوفة مع عمرو بن سعد وكانا من الخوارج فلما كان يوم عاشوراء سمعا استنصار مولانا الحسين عليه السلام و بكاء اهل بيته ، أدركتهما السعادة ولحقا بالحسين عليه السلام وقاتلا مع أعدائه و فازا بسعادة الشهادة .

«سعد بن حارث بن سلمه انصاري اور اس کا بھائی ابو الحتوف عجلاني كوفه سے عمر بن سعد کے ساتھ نکلے ،جبکہ یہ دونوں خوارج میں سے تھے. عاشور کا دن آیا اور امام حسين عليه السلام کی صدای استغاثہ اور اهل بيت کے رونے کی آواز سنی تو راہ سعادت کا انتخاب کیا اور امام حسين عليه السلام سے آملے اور ان کے دشمنوں سے جنگ کی اور سعادت و شہادت کے درجے پر فائز ہوئے.»

الشاهرودي، الشيخ علي النمازي _متوفاي1405ق_، مستدركات علم رجال الحديث، ج 4 ص 27، ناشر: ابن المؤلف، چاپخانه: شفق – طهران، الأولى1412هـ

6 . عبد الله بن عمير كلبي

ابو مخنف نے «مقتل الحسين» اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ عبد الله بن عمير كلبي كوفه سے حضرت سيد الشهدا عليه السلام کی مدد کے لئے اپنی بیوی ام وهب، کے ساتھ كربلا آیا:

«قال أبو مخنف - حدثني أبو جناب قال : كان منا رجل يدعى عبد الله بن عمير من بني عليم كان قد نزل الكوفة واتخذ عنه بئر الجعد من همدان دارا ، وكانت معه امرأة له من النمر بن قاسط يقال لها أم وهب بنت عبد ، فرأى القوم بالنخيلة يعرضون ليسرحوا إلى الحسين ، قال فسأل عنهم فقيل له : يسرحون إلى حسين بن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وآله فقال : والله لو قد كنت على جهاد أهل الشرك حريصا واني لأرجو الا يكون جهاد هؤلاء الذين يغزون ابن بنت نبيهم أيسر ثوابا عند الله من ثوابه إياي في جهاد المشركين . فدخل إلى امرأته فأخبرها بما سمع وأعلمها بما يريد فقالت : أصبت أصاب الله بك ، أرشد أمورك ، افعل وأخرجني معك ، قال : فخرج بها ليلا حتى أتى حسينا فأقام معه.»

«ابو جناب کہتا ہے: عبد الله بن عمير نامی ایک شخص کہ جو قبيله‌ بني عليم کا تھا،جب کوفہ میں آیا تو (بئر الجعد) کے نذدیک اپنے لئے ایک گھر بنایا ،اس کے ساتھ اس کی بیوی،ام وهب بنت عبد بھی تھی۔ اس نے نخلیہ میں لوگوں کو جنگ کے لئے تیار ہوتے دیکھا،علت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ فرزند فاطمه دختر رسول خدا صلي الله عليه و آلہ وسلم  سے جنگ کرنے جارہے ہیں . اس نے کہا : اللہ کی قسم میں مشرکوں سے جنگ کرنا چاہتا تھا۔امید ہے پیغمبر کی بیٹی کے فرزند سے جنگ کرنے والوں کا ثواب مشرکین سے جنگ کرنے والوں سے کم نہیں ہے ۔ یہ کہا اور اپنی بیوی کو اپنے عزم و ارادہ کے بارے میں بتایا ،اس کی بیوی نے بھی کہا : بہت ہی اچھا فیصلہ کیا ہے ۔انشاء اللہ ،اللہ تیرے وسیلے سے بعض لوگوں کی اصلاح کرئے گا اور تیرے امور کو ٹھیک کرئے گا۔ ضرور یہ کام انجام دینا اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے جانا۔ لہذا یہ دونوں راتوں رات وہاں سے نکلے اور امام حسين عليه السلام سے آملے اور آپ کے ساتھ دشمنوں سے جنگ کی۔

الأزدي، أبو مخنف _متوفاي157 ق_، مقتل الحسين (ع)، ص 123، چاپخانه : مطبعة العلمية – قم، بر اساس مكتبه اهل البيت.

اس روایت کے مطابق یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ بھی امام حسين بن علي عليهما السلام کے شیعوں میں سے تھا اور جہاد کا عقیدہ رکھتا تھا اور اپنے زمانے کے امام کے رکاب میں ان کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوا۔

نتيجه:

مندجہ بالا مذکور افراد میں سے صرف زهير بن قين کا عثماني ہونا ثابت ہے اور یہ بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہونے کے بعد اپنے سابقہ عثمانی عقیدے سے ہاتھ اٹھا اور حسینی شیعہ بن گئے۔

اسی طرح سعد بن الحارث اور اس کا بھائی ابو العطوف کہ جو خوارج میں سے تھے، امام کے ساتھ ملحق ہوئے اور اپنے سابقہ نظریات سے ہاتھ اٹھائے اور امام کے شیعوں میں سے ہوگئے اور حسینی فکر اور جذبے کے ساتھ ، امام کی ولایت کو قبول کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔

 

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم

تحقیقاتی ادارہ حضرت ولي عصر (عجل الله تعالي فرجه الشريف)

 

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی