2024 March 29
کیا نہج البلاغہ میں حضرت امیر (ع) نے خلیفہ دوم کی تعریف کی ہے ؟
مندرجات: ٢١٠٥ تاریخ اشاعت: ١٦ October ٢٠٢١ - ١٣:٥٣ مشاہدات: 3320
سوال و جواب » شیعہ
کیا نہج البلاغہ میں حضرت امیر (ع) نے خلیفہ دوم کی تعریف کی ہے ؟

کیا نہج البلاغہ میں حضرت امیر (ع) نے خلیفہ دوم کی تعریف کی ہے ؟

بعض نے نہج البلاغہ خطبہ نمبر 228  کے بارے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ خطبہ خلیفہ دوم کے بارے میں ہے اور اس میں امیر المومنین ع نے خلیفہ دوم کی تعریف کی ہے ۔

 خطبہ نمبر 228 نہج البلاغہ:

لِلَّهِ بِلَاد فُلَانٍ (بلاء فلان) فَقَدْ قَوَّمَ الْأَوَدَ وَدَاوَي الْعَمَدَ وَأَقَامَ السُّنَّةَ وَخَلَّفَ الْفِتْنَةَ. ذَهَبَ نَقِيَّ الثَّوْبِ قَلِيلَ الْعَيْبِ أَصَابَ خَيْرَهَا وَسَبَقَ شَرَّهَا أَدَّي إِلَي اللَّهِ طَاعَتَهُ وَاتَّقَاهُ بِحَقِّهِ. رَحَلَ وَتَرَكَهُمْ فِي طُرُقٍ مُتَشَعِّبَةٍ لَا يَهْتَدِي فِيهَا الضَّالُّ وَلَا يَسْتَيْقِنُ الْمُهْتَدِي.[1]

خداوند فلاں کے شہروں کو برکت دے اور حفظ کرے کہ اس نے غلط رسوم کو صحیح ، بیماریوں کا علاج ، سنت رسول خدا کو قائم اور فتنوں کو ختم کیا۔ وہ پاک دامن اور کم عیوب کے ساتھ دنیا سے چلا گیا، اس نے دنیا کی نیکیوں کو پا لیا اور اسکی برائیوں سے آزاد ہو گیا ہے، خداوند کی نسبت اپنے فرائض کو اس نے انجام دیا ہے کیونکہ وہ عذاب الہی سے ڈرتا تھا۔

وہ خود تو چلا گیا اور لوگوں کو گروہ گروہ چھوڑ کر گیا ہے نہ کہ گمراہ، اس نے اپنی راہ کو پہچان لیا تھا نہ یہ کہ وہ پہلے سے ہی ہدایت شدہ تھا۔

مخالفین نے کہا ہے کہ حضرت علی (ع) نے اس خطبے میں عمر یا ابوبکر کی بہت تعریف کی ہے، پس وہ حضرت ان دونوں کو خلیفہ بننے کے قابل سمجھتے تھے اور انھوں نے انکی بیعت اپنی رضایت سے کی تھی۔

ابن ابی الحديد نے کہا ہے:

إذا اعترف أمير المؤمنين بأنه أقام السنة، وذهب نقي الثوب، قليل العيب، وأنه أدي إلي الله طاعته، واتقاه بحقه، فهذا غاية ما يكون من المدح.[2]

اگر امير المؤمنین اعتراف کریں کہ (عمر) نے سنت کو قائم کیا ہے اور پاک دامن و کم عیوب کے ساتھ دنیا سے گیا ہے اور پروردگار کی عبادت انجام دی ہے اور وہ بہت متقی تھا، تو یہ انتہائی مدح و تعریف شمار ہو گی۔

محمد عبده نے بھی بیان کیا ہے کہ «فلان» سے کیا مراد ہے:

أي عمر علي الارجح.[3]

یہاں پر بہت زیادہ احتمال ہے کہ «فلان» سے مراد عمر ہے۔

اس شبھہ کا جواب :

یہ خطبہ اس کی سند اور سند کے صحیح ہونے کے بعد ہی یہ قابل استدلال ہے کیونکہ نہج البلاغہ کے خطبوں اور خطوط کے بارے میں کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ نہج البلاغہ سب کے سب مسند اور صحیح سند  ہیں۔

 ہم ذیل میں سند سے قطع نظر ،مخالفین کے ادعا کے باطل ہونے کو ثابت کریں گے ۔

 

1- جو نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے، وہ لفظ «فلان» ہے، لیکن اس «فلان» سے کیا مراد ہے، ہہ خود نہج البلاغہ سے سمجھا نہیں جا سکتا۔ کتاب نہج البلاغہ کے شارحین نے بھی اس بارے میں متعدد رائے کا اظہار کیا ہے، بہرحال اس لفظ کی تفسیر میں چار احتمال پائے جاتے ہیں:

1- مراد عمر ہے،

2- عثمان اور اسکی مذمت کی طرف اشارہ ہے،

3- مراد عمر ہے اور تقیہ کی وجہ سے اسکے بارے میں ایسا کہا گیا ہے،

4- حضرت علی (ع) کے بعض اصحاب مراد ہیں،

2- لفظ «فلان» سے مراد عمر يا ابوبكر نہیں ہیں،

اہل سنت اور خاص طور پر ابن ابی الحديد معتزلی معتقد ہے کہ اس لفظ «فلان» سے مراد خليفہ دوم عمر ابن خطاب ہے۔

بلا شک ابن ابی الحدید اور محمد عبدہ کہ جو ہر دو سنی ہیں، کی بات ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور کسی چیز کو ثابت نہیں کرتی، خاص طور پر کہ یہی روایت اہل سنت کی کتب میں مغيرة ابن شعبہ سے نقل ہوئی ہے۔

واضح ہے کہ ان دونوں نے اپنے عقیدے کے مطابق لفظ «فلان» کی عمر ابن خطاب سے تفسیر کی ہے۔

اہل سنت اگر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ امیر المؤمنین علی (ع) کے جملات، عمر کے بارے میں ہیں تو انکو تین مقدمات کو ثابت کرنا پڑے گا:

1. ان کلمات کا کہنے والا حضرت امیر ع ہے،

2. لفظ «فلان» سے مراد عمر ہے،

3. حضرت امیر (ع) کی مراد ان کلمات سے عمر کی تعریف کرنا تھا،

حالانکہ سب نے اس بارے میں دلیل ابن ابی الحدید کا قول ذکر کیا ہے اور یہ قول بھی شیعہ اور حتی اہل سنت کو بھی علمی لحاظ سے قانع نہیں کر سکتا۔

ابن ابی الحدید کی رائے پر اشکال:

ابن ابی الحديد نے اس خطبے کی شرح میں لکھا ہے:

وقد وجدت النسخة التي بخط الرضي أبي الحسن جامع نهج البلاغة وتحت فلان عمر، حدثني بذلك فخار بن معد الموسوي الأودي الشاعر، وسألت عنه النقيب أبا جعفر يحيي بن أبي زيد العلوي، فقال لي: هو عمر، فقلت له: أيثني عليه أمير المؤمنين رضي الله عنه هذا الثناء؟ فقال: نعم... فإذا اعترف أمير المؤمنين بأنه أقام السنة، وذهب نقي الثوب، قليل العيب، وأنه أدي إلي الله طاعته، واتقاه بحقه، فهذا غاية ما يكون من المدح.

نہج البلاغہ کے مؤلف سید رضی کا ایک جمع کردہ نسخہ دیکھا گیا ہے کہ اس میں لفظ «فلان» کے نیچے، عمر لکھا ہوا تھا۔ اس بات کو میرے لیے فخار ابن معد الموسوی شاعر نے نقل کیا ہے۔ میں نے ابو جعفر نقیب سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: اس لفظ سے مراد، عمر ہے، میں نے کہا: کیا امیر المؤمنین نے عمر کی ایسے تعریف کی ہے ؟ اس نے کہا: ہاں،

جب امير المؤمنین اعتراف کریں کہ (عمر) نے سنت کو قائم کیا ہے اور پاک دامن و کم عیوب کے ساتھ دنیا سے گیا ہے اور پروردگار کی عبادت انجام دی ہے اور وہ بہت متقی تھا، تو یہ بالا ترین درجے کی مدح و تعریف شمار ہو گی۔

الف: ابن ابی الحديد نے مکمل چالاکی سے اپنے کلام کی ابتداء میں ایسے ظاہر کروایا ہے کہ ہر پڑھنے والا فورا یہ یقین کر لے کہ اس نے خود سید رضی کا لکھا ہوا نسخہ دیکھا ہے کہ اس (سید رضی) نے لفظ «فلان» کے ساتھ عمر لکھا ہوا ہے اور اگر کوئی ابن ابی الحدید کی عبادت کا دوسرا جملہ نہ پڑھے تو وہ گمان کرے گا کہ عبارت ایسے ہے: «وَجَدتُ» يعنی میں نے خود دیکھا ہے، لیکن جب اسکی عبارت میں اچھی طرح سے غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے لفظ «وُجِدَت» کہا ہے یعنی اس نسخے میں دیکھا گیا ہے، (یعنی میں نے خود نہیں دیکھا کسی دوسرے نے دیکھا ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے)۔

ب: سيد رضی (ره) اپنے رائے کو عبارت کی لائن کے اندر امام (ع) کے کلام کی تشریح کے عنوان سے لکھتا ہے نہ کہ عبارت کے نیچے۔

اگر کوئی اہل علم شخص پرانی کتب کے خطی نسخوں سے آشنائی رکھتا ہو تو جانتا ہے کہ معمولا ان کتب کے صفحات پر جو اضافی طور پر لکھا جاتا ہے، یہ انکی طرف سے ہوتا ہے کہ جنکے پاس وہ کتاب موجود ہوتی ہے اور نہج البلاغہ کا یہ نسخہ جسکے اختیار میں تھا، اس نے گمان کیا ہے کہ لفظ «فلان» سے مراد عمر ابن خطاب ہے، لہذا اس نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے، عمر لکھ دیا ہے، پس ایسے مطالب کا خود مؤلف کی طرف نسبت دینا، دلیل و ثبوت کا محتاج ہے۔

3- اگر لفظ «فلان» سے مراد عمر ہو تو اسکے بارے میں ایسی بات کرنے کا سبب واضح نہیں ہے کیونکہ شاید یہ بات تقیہ یا کنائے (اشارہ) کے طور پر کسی دوسرے شخص کے لیے یہ بات کی گئی ہو جیسے عثمان کہ اس بارے میں تفصیل ذیل میں ذکر ہو گی۔

4- حضرت امیر (ع) کی یہ بات، خود ان حضرت کے خلفاء کے بارے میں دوسرے کلمات کے ساتھ منافات و تضاد رکھتی ہے۔ چند موارد کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

الف: مسلم نيشاپوری نے کتاب صحيح مسلم میں امير المؤمنین علی (ع) کی ابوبکر و عمر کے بارے میں صحیح و درست رائے بیان کی ہے، عمر نے امير المؤمنين (ع) اور عباس عموی پيغمبر (ص) سے کہا:

ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا.[4]

ابوبکر کی وفات کے بعد میں رسول خدا اور ابوبکر کا جانشین بن گیا، تم دونوں نے مجھے خائن، جھوٹا، مکار اور گناہکار کہا۔

ب: عبد الرزاق صنعانی نے بھی صحيح سند کے ساتھ عمر سے نقل کیا ہے کہ عمر نے عباس اور امير المؤمنین علی (ع) سے کہا کہ تم دونوں مجھے ظالم اور فاجر کہتے ہو:

ثم وليتها بعد أبي بكر سنتين من إمارتي فعملت فيها بما عمل رسول الله (ص) وأبو بكر وأنتما تزعمان أني فيها ظالم فاجر... .[5]

میں نے ابوبکر کے بعد دو سال حکومت کی اور رسول خدا و ابوبکر کی سیرت و سنت کو جاری رکھا، لیکن تم دونوں مجھے ظالم اور فاجر کہتے ہو۔

ج: امير المؤمنين علی (ع) عمر کا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے:

بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے کہ علی (ع) نے حضرت زہرا (س) کی شہادت کے بعد کسی کو ابوبکر کو اپنے پاس بلانے کے لیے بھیجا اور خاص طور اسے کہا کہ عمر کو اپنے ساتھ لے کر نہ آئے کیونکہ وہ حضرت عمر کا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے:

«فَأَرْسَلَ إِلَي أَبِي بَكْر أَنِ ائْتِنَا، وَلاَ يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ، كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ».[6]

د: امير المؤمنين علی (ع) کو بد اخلاق، تند خو اور بہت غلطیاں کرنے والا جانتے تھے:

خطبہ شقشقيہ میں عمر کے بارے میں فرمایا:

فَصَيَّرَهَا فِي حَوْزَةٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُهَا وَ يَخْشُنُ مَسُّهَا وَ يَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا وَ الِاعْتِذَارُ مِنْهَا. فَصَاحِبُهَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ إِنْ أَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ إِنْ أَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ. فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّهِ بِخَبْطٍ وَ شِمَاسٍ وَ تَلَوُّنٍ وَ اعْتِرَاضٍ.

سر انجام پہلے (ابوبکر) نے حکومت کو ایسے شخص کے حوالے کیا کہ جو غصے، سختگیری، غلطیوں اور بار بار معذرت کرنے والی چیزوں کا مجموعہ تھا،

جیسے ایسا سوار کہ جو ایک سرکش اونٹ پر سوار ہو، اگر اسکی لگام کو زور سے کھینچے تو اس حیوان کی ناک زخمی ہو جاتی ہے اور اگر لگام کو ڈھیلا چھوڑ دے تو وہ حیوان اسے زمین پر پٹخ دے گا۔

خدا کی قسم لوگ (عوام) عمر کے دور حکومت میں عجیب قسم کی زحمت و مصیبت میں مبتلا تھے، لوگ منافقت اور اعتراض کا شکار تھے۔

ه: امير المؤمنين علی (ع) شیخین (ابوبکر و عمر) کی سیرت کو قابل عمل نہیں جانتے تھے:

اگر امیر المؤمنین علی (ع) کا اعتقاد تھا کہ عمر نے سنت کو قائم کیا تھا تو پھر جب چھ افراد پر مشتمل شورا میں عبد الرحمن ابن عوف نے خلافت قبول کرنے کی ایک شرط سیرت شیخین پر عمل کرنے کو قرار دیا تو ان حضرت نے اس شرط پر عمل کرنے کا سختی سے انکار کر دیا اور شیخین کی سیرت پر عمل نہ کرنے کیوجہ سے دوبارہ پورے 12 سال خلافت سے محروم رہے !

يعقوبی نے لکھا ہے:

وخلا بعلي بن أبي طالب، فقال: لنا الله عليك، إن وليت هذا الامر، أن تسير فينا بكتاب الله وسنة نبيه وسيرة أبي بكر وعمر. فقال: أسير فيكم بكتاب الله وسنة نبيه ما استطعت. فخلا بعثمان فقال له: لنا الله عليك، إن وليت هذا الامر، أن تسير فينا بكتاب الله وسنة نبيه وسيرة أبي بكر وعمر. فقال: لكم أن أسير فيكم بكتاب الله وسنة نبيه وسيرة أبي بكر وعمر، ثم خلا بعلي فقال له مثل مقالته الأولي، فأجابه مثل الجواب الأول، ثم خلا بعثمان فقال له مثل المقالة الأولي، فأجابه مثل ما كان أجابه، ثم خلا بعلي فقال له مثل المقالة الأولي، فقال: إن كتاب الله وسنة نبيه لا يحتاج معهما إلي إجيري أحد. أنت مجتهد أن تزوي هذا الامر عني. فخلا بعثمان فأعاد عليه القول، فأجابه بذلك الجواب، وصفق علي يده.[7]

عبد الرحمن ابن عوف نے علی ابن ابی طالب (ع) سے کہا: ہم تمہاری بیعت کرتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ کتاب خدا، سنت مصطفی اور سنت ابوبکر و عمر کے مطابق عمل کرو تو، اس پر امام علی (ع) نے فرمایا: جتنا میرے لیے ممکن ہو سکا میں صرف اور صرف کتاب خدا اور سنت مصطفی کے مطابق عمل کروں گا۔

عبد الرحمن ابن عوف نے بالکل یہی بات عثمان سے کہی: ہم تمہاری بیعت کرتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ کتاب خدا، سنت مصطفی اور سنت ابوبکر و عمر کے مطابق عمل کرو تو، اس پر عثمان نے خلافت حاصل کرنے کے لیے جواب دیا:

میں کتاب خدا، سنت رسول اور سنت ابوبکر و عمر کے مطابق تم لوگوں میں عمل کروں گا،

عبد الرحمن دوباره امام علی (ع) کے پاس گیا اور وہی شرط دوہرائی اور ان حضرت سے وہی پہلے والا جواب سنا، پھر وہ دوبارہ عثمان کے پاس گیا اور اس سے وہی شرط دوبارہ کہی تو اس نے پھر فورا قبول کر لیا، پھر عبد الرحمن تیسری مرتبہ امام علی (ع) کے پاس گیا اور وہی بات کہی، اس پر امام (ع) نے فرمایا:

جب کتاب خدا اور سنت مصطفی ہمارے پاس ہے تو پھر ہمیں کسی دوسرے کی سنت و روش کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تم اصل میں خلافت کو مجھ سے دور کرنا چاہتے ہو۔

عبد الرحمن پھر تیسری مرتبہ عثمان کے پاس گیا اور پہلے والی بات کا تکرار کیا اور عثمان نے وہی جواب دیا۔ یہ سن کر عبد الرحمن نے عثمان کا ہاتھ پکڑ کر اسکی بیعت کر کے اسے عمر کے بعد خلیفہ انتخاب کر لیا۔

احمد ابن حنبل نے بھی اپنی کتاب مسند میں عبد الرحمن ابن عوف کی زبان سے ایسے نقل کیا ہے:

عن أبي وائل قال قلت لعبد الرحمن بن عوف كيف بايعتم عثمان وتركتم عليا رضي الله عنه قال ما ذنبي قد بدأت بعلي فقلت أبايعك علي كتاب الله وسنة رسوله وسيرة أبي بكر وعمر رضي الله عنهما قال فقال فيما استطعت قال ثم عرضتها علي عثمان رضي الله عنه فقبلها.[8]

ابو وائل کہتا ہے میں نے عبد الرحمن ابن عوف سے کہا: کیا ہوا ہے کہ عثمان کی بیعت ہو گئی ہے اور علی کی بیعت نہیں ہوئی ؟

عبد الرحمن نے کہا: اس میں میرا کیا قصور ہے، میں نے تو علی (ع) سے کہا تھا کہ میں تمہاری بیعت کرتا ہوں، اس شرط کے ساتھ کہ تم کتاب خدا، سنت رسول اور سنت ابوبکر و عمر پر عمل کرو، علی (ع) نے فرمایا: جو میں کر سکا اس حد تک کروں گا، یہی بات و شرط میں نے عثمان کو بتائی تو اس نے فورا قبول کر لیا۔

امام علی (ع) کی بات کا یہ معنی ہے کہ کتاب خدا اور سنت مصطفی میں کوئی کمی و نقص نہیں ہے کہ جو دوسروں کی سیرت کو بھی انکے ساتھ ملایا جائے، یعنی میں ابوبکر و عمر کی سیرت کو شرعی نہیں سمجھتا کہ اسے اسلام کا حصہ بناؤں !

و: حضرت امیر (ع) نے اپنی ظاہری حکومت کے دور میں جب ربيعۃ ابن ابو شداد خثعمی نے کہا کہ میں اس صورت میں تمہاری بیعت کروں گا کہ تم ابوبکر و عمر کی سنت پر عمل کرو، ان حضرت نے صاف انکار کرتے ہوئے فرمایا:

ويلك لو أن أبا بكر وعمر عملا بغير كتاب الله وسنة رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يكونا علي شئ من الحق فبايعه... .[9]

افسوس ہے تم پر ! اگر ابوبکر و عمر نے کتاب خدا اور سنت رسول خدا کے بر خلاف عمل کیا ہو تو اس صورت میں انکی سنت کی اہمیت ہی کیا ہے کہ میں اس پر عمل کروں یا عمل نہ کروں ؟!

اس طرح کی بہت سی مثالیں شیعہ اور سنی کتب میں مذکور ہیں لیکن ہم صرف ان چند نمونوں پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔

اب ان مذکورہ مطالب کی روشنی میں با ضمیر اور علمی بصیرت رکھنے والے افراد سے سوال ہے کہ: یہ کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ لفظ «فلان» سے مراد، عمر ہے، حالانکہ امیر المؤمنین علی (ع) عمر کی سنت پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے، وہ حضرت تو اسکی سیرت کو شرعی و دینی ہی نہیں سمجھتے اور حتی وہ تو عمر کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے ؟!

کیسے تعریف کے یہ الفاظ « قوم الأود، داوي العمد، أقام السنة، خلفه الفتنة، نقي الثوب، قليل العيب و... » صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور عمر کے بارے میں الفاظ : جھوٹا، مکار، خیانت کار، گناہ گار، ظالم، ستمگر، فاجر، سختگیر و۔۔۔۔ کے ساتھ جمع ہو سکتے ہیں ؟

کیا ممکن ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) جیسا فصیح و بلیغ انسان ایک ہی شخص کے بارے میں ایسی متضاد و مخالف صفات کو ذکر کرے ؟!

5- شايد امام علی (ع) کا کلام عثمان اور اسکی مذمت کے بارے میں تھا:

ابن ابی الحديد نے نقيب ابو جعفر يحيي بن ابي زيد کا کلام نقل کرتے ہوئے کہا ہے:

واما الجارودية من الزيدية فيقولون: انه كلام قاله في أمر عثمان أخرجه مخرج الذم له، والتنقص لأعماله، كما يمدح الآن الأمير الميت في أيام الأمير الحي بعده، فيكون ذلك تعريضا به.[10]

«جاروديہ» كہ جو «زيديہ» کا ایک گروہ ہے، یہ معتقد ہیں كہ امام علی (ع) کا یہ کلام عثمان کے بارے میں ہے اور انھوں نے عثمان کی مذمت کرتے ہوئے اسکے غلط کاموں پر اعتراض کیا ہے، جیسے دنیا سے جانے والے حاکم کے بعد اسکی زندہ حاکم کے زمانے میں تعریف کی جاتی ہے، پس یہ کلام عثمان کی طرف اشارہ ہے۔

ایسے کنائے اور اشارے لوگ آج کل اپنے محاورات میں بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، جیسے اس دور میں اہل عراق کہتے ہیں: خدا صدام پر رحمت کرے، تو انکی ان الفاظ سے مراد امریکی فوج کی مذمت کرنا ہوتا ہے کہ جو عراق میں قتل و غارت کر رہے ہیں۔

اس رائے کے بھی بعض افراد قائل ہیں لیکن کیونکہ یہ کوئی زیادہ پختہ دلیل نہیں ہے، اس لیے اسے یقین و اطمینان کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا۔

اسکے علاوہ یہ رائے، امیر المؤمنین علی (ع) کی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور عمر کے بارے میں رائے سے تضاد رکھتی ہے کیونکہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ حتی عثمان کی مذمت کی حاطر، امیر المؤمنین علی (ع) عمر کی ان الفاظ میں مدح و تعریف کریں۔

5- لفظ «فلان» سے مقصود، امام علی (ع) کے اپنے اصحاب و انصار ہیں:

کتاب نہج البلاغہ کے بعض شارحین اور بعض شیعہ و سنی علماء نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ لفظ «فلان» سے مراد، حضرت علی (ع) کا اپنا ایک صحابی ہے۔

سنی عالم صبحی صالح نے اس خطبے کے عنوان کے بارے میں کہا ہے:

من كلامه عليه السلام: ما يريد به بعض أصحابه.[11]

کلام علی (ع) کہ اس میں انھوں نے اپنے ایک صحابی کی مدح کی ہے۔

شیعہ عالم قطب الدين راوندی بھی قائل ہے کہ لفظ «فلان» سے مراد ان حضرت کے بعض صحابی ہیں:

وروي «بلاء فلان» أي صنيعه وفعله الحسن، مدح بعض أصحابه بحسن السيرة وأنه مات قبل الفتنة التي وقعت بعد رسول اللّه صلي اللّه عليه و آله من الاختيار و الايثار.[12]

«بلاء فلان» يعنی وہ کام کہ جو اس نے انجام دیئے ہیں، وہ اچھے و نیک کام ہیں، امیر المؤمنین علی (ع) نے ان الفاظ سے اپنے بعض نیک سیرت اصحاب کی تعریف ہے اور یہ شخص رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد ہونے والے فتنے سے پہلے ہی دنیا سے چلا گیا تھا۔

قطب راوندی نے نہج البلاغہ کو شيخ عبد الرحيم بغدادی المعروف «ابن الاخوة» سے اور اس نے اسے  سيد مرتضی کی بیٹی سے اور اس نے اسے اپنے چچا «شريف رضی» سے نقل کیا ہے، اس وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ قطب راوندی دوسروں کی نسبت نہج البلاغہ کے مفاہیم سے زیادہ آشنائی رکھتا ہے۔

6- ممكن ہے لفظ «فلان» سے مراد مالک اشتر ہو:

شارح نہج البلاغہ ميرزا حبيب الله خوئی نے قطب راوندی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

و عليه فلا يبعد أن يكون مراده عليه السّلام هو مالك بن الحرث الأشتر، فلقد بالغ في مدحه و ثنائه في غير واحد من كلماته. مثل ما كتبه إلي أهل مصر حين ولي عليهم مالك حسبما يأتي ذكره في باب الكتب تفصيلا إنشاء اللّه.

و مثل قوله عليه السّلام فيه لما بلغ إليه خبر موته: مالك و ما مالك لو كان من جبل لكان فندا، و لو كان من حجر لكان صلدا، عقمت النساء أن يأتين بمثل مالك.

بل صرّح في بعض كلماته بأنّه كان له كما كان هو لرسول اللّه صلّي اللّه عليه و آله و سلّم و من هذا شأنه فالبتّة يكون أهل لأن يتّصف بالأوصاف الاتية بل بما فوقها.[13]

بعيد نہیں ہے کہ امام علی (ع) کی مراد مالک اشتر ہو کیونکہ ان حضرت نے متعدد مقامات پر اسکی بہت زیادہ تعریف کی ہے، جیسے مالک اشتر کو اہل مصر پر والی بناتے وقت وہاں کے لوگوں کے نام خط لکھا۔

یا جیسے ان حضرت نے مالک اشتر کی وفات کی خبر سننے پر فرمایا:

 مالک، ہاں وہ ایسا مالک تھا کہ خدا کی قسم اگر وہ پہاڑ ہوتا تو بہت بلند و بالا ہوتا اور اگر پتھر ہوتا تو سخت و محکم ہوتا، اب عورتیں اس جیسے بیٹے کو جنم دینے سے عاجز ہیں۔

یا ان حضرت نے واضح فرمایا ہے کہ وہ میرے لیے ایسا ہی تھا کہ جیسے میں، رسول خدا کے لیے تھا۔

لفظ «فلان» کے بارے میں متعدد آراء میں سے یہ رائے عقل اور تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے کیونکہ امیر المؤمنین علی (ع) کی رائے عمر کے بارے میں تو ذکر ہوئی، لہذا وہ تو مراد نہیں ہو سکتا، اسکے علاوہ ممکن ہے کہ مراد ان حضرت کا ایک صحابی مالک اشتر ہو۔

صبحی صالح کا واضح کلام بھی اس رائے کی تائید و تصدیق کرتا ہے۔

7- شايد یہ تعریف تقيہ کے عنوان سے کی گئی ہو:

ابن ابی الحديد نے خطبے کے ذیل میں لکھا ہے:

اما الامامية فيقولون: إن ذلك من التقية واستصلاح أصحابه... .[14]

شيعيان کہتے ہیں: علی (ع) نے یہ کلام تقیہ کی خاطر اور اپنے اصحاب کی خیر خواہی کے لیے فرمایا ہے۔

اس رائے کے بھی قائل افراد ہیں اور یہ رائے نہج البلاغہ کے دوسرے جملات کے ساتھ بھی قابل جمع ہے، خطبہ 73 نہج البلاغہ میں فرمایا ہے:

لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَحَقُّ بِهَا مِنْ غَيْرِي. وَ وَ اللَّهِ لَأُسَلِّمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ. وَ لَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً. الْتِمَاساً لِأَجْرِ ذَلِكَ وَ فَضْلِهِ. وَ زُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوهُ مِنْ زُخْرُفِهِ وَ زِبْرِجِهِ.

بے شک تم جانتے ہو کہ میں دوسروں کی نسبت خلافت کے لیے زیادہ اہل و مناسب ہوں، خدا کی قسم جو کچھ تم لوگوں نے کر دیا ہے، وہ مجھے بھی اسلام اور مسلمین کی بہتری کے لیے قبول ہے، اسی لیے میں اپنے پر ظلم و ستم ہونا برداشت کر لیتا ہوں، اس صبر و سکوت کا اجر مجھے خداوند سے ملے گا۔۔۔۔۔۔

ميرزا حبيب الله خوئی نے ابن ابی الحديد کے اس کلام کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

و الحاصل أنّه علي كون المكنّي عنه عمر لا بدّ من تأويل كلامه و جعله من باب الايهام و التّورية علي ما جرت عليها عادة أهل البيت عليهم السّلام في أغلب المقامات فانّهم... .[15]

خلاصہ یہ کہ: لفظ «فلان» سے مراد اگر عمر ہو تو ار حضرت کے کلام کی تاویل کرنا ہو گی اور اس کلام کو کنایہ و اشارہ شمار کرنا ہو گا، جیسا کہ اہل بیت کی سیرت و عادت، متعدد مقامات پر ایسے ہی تھی۔

لہذا اگر فرض بھی کر لیں کہ لفظ «فلان» سے مراد عمر ہے تو کہنا پڑے گا کہ یہ کلام تقیہ کی وجہ سے بیان کیا گیا تھا، جیسا کہ رسول خدا (ص) عائشہ کی قوم سے تقیہ کرتے تھے۔

محمد ابن اسماعيل بخاری نے اپنی کتاب صحيح بخاری میں لکھا ہے:

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنهم زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوُا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ. فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ تَرُدُّهَا عَلَي قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ. قَالَ: « لَوْلاَ حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ».[16]

رسول خدا (ص) کی بیوی عائشہ نے روایت کی ہے کہ ان حضرت نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتی کہ تمہاری قوم نے جب کعبہ کی تعمیر کی تھی تو انھوں نے اسکے ستونوں کو حضرت ابراہیم کے بنائے گئے ستونوں سے چھوٹا بنایا تھا ؟ عائشہ نے کہا: آپ اسکو اسکی پہلی والی حالت میں واپس کیوں نہیں پلٹا دیتے ؟

حضرت (ص) نے فرمایا: اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو ایسا کر دیتا۔

8- شايد یہ کلام حضرت علی (ع) کا نہ ہو:

اہل سنت کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام ایک «إبنۃ ابو حنتمۃ» نامی عورت کا ہے:

حدثني عمر قال حدثنا علي قال حدثنا ابن دأب وسعيد بن خالد عن صالح بن كيسان عن المغيرة بن شعبة قال لما مات عمر رضي الله عنه بكته ابنة أبي حَنْتَمَة فقالت واعمراه، أقام الأود وأبرأ العمد أمات الفتن وأحيا السنن خرج نقي الثوب بريئا من العيب.

قال: وقال المغيرة بن شعبة: لما دفن عمر أتيت علياً وأنا أحب أن أسمع منه في عمر شيئا فخرج ينفض رأسه ولحيته وقد اغتسل وهو ملتحف بثوب لا يشكّ أنّ الأمر يصير إليه، فقال: يرحم الله ابن الخطاب لقد صدقت ابنة أبي حنتمة لقد ذهب بخيرها ونجا من شرها، أما والله ما قالت ولكن قوّلت.[17]

مغيره سے نقل ہوا ہے کہ جب عمر مر گیا تو ابر حنتمہ کی بیٹی نے اس پر گریہ کیا اور کہا: ہائے عمر نے غلط رسوم کو صحیح کیا، بیماریوں کا علاج کیا، فتنوں کو ختم کیا اور سنتوں کو زندہ کیا، وہ پاک لباس اور کم گناہوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا۔

مغیرہ کہتا ہے جب عمر کو دفن کر دیا گیا تو میں علی (ع) کے پاس آیا اور میں چاہتا تھا کہ حضرت کی زبان سے عمر کے بارے میں کوئی بات سنوں۔ ان حضرت نے غسل کیا ہوا تھا اور وہ مطمئن تھے کہ عمر کے بعد خلافت انھیں ہی ملے گی، اس حالت میں علی نے کہا: خداوند ابن خطاب پر رحمت کرے، ابو حنتمہ کی بیٹی نے صحیح ہی کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ رائے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی کیونکہ مشکل ہے کہ کہا جائے کہ شریف رضی نے توجہ کیے بغیر اس کلام کی علی (ع) کی طرف نسبت دے دی ہے، حالانکہ وہ پابند تھا کہ کتاب نہج البلاغہ میں صرف امام علی (ع) کے کلمات کو جمع کرے، نہ کہ دوسروں کے اقوال کو یا ان کلمات کو کہ جو ان حضرت نے دوسروں سے سنے ہیں اور نقل کیے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ سید رضی نے اس کتاب میں حضرت کے صرف فصیح و بلیغ کلمات کو جمع کیا ہے، لہذا یہ رائے کتاب نہج البلاغہ کے اصل جمع کرنے کے سبب سے ہی تضاد رکھتی ہے۔

اسکے علاوہ سید رضی اس بارے میں اتنا پابند ہے کہ اگر امیر المؤمنین علی (ع) کسی عرب شاعر کا شعر یا ضرب المثل ذکر کرتے ہیں تو، سید رضی نقل قول کو مکمل طور پر ذکر کرتے ہیں کہ یہ کس کا قول ہے اور اگر کبھی ان حضرت کے خطبات میں سے ایک خطبے یا کسی کلمے کی دوسرے شخص کی طرف نسبت دی گئی ہو تو، وہ اسکو بھی ذکر کرتے ہیں، جیسے خطبہ 32 میں صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ اس خطبے کی معاویہ کی طرف نسبت دی گئی ہے، لہذا مورد بحث خطبہ اگر کسی دوسرے شخص کا ہوتا تو سید رضی نے اس بات کو ضرور ذکر کرنا تھا۔

علامہ شوشتری نے اس بارے میں کہا ہے:

و أمّا ما نقله عن (الطبري) فمع أنّ رواية المخالف لنفسه غير مقبولة، لا يفهم منه سوي أنّه عليه السّلام صدق من قول ابنة أبي خيثمة (حنتمة) جملة (ذهب بخيرها و نجا من شرّها)، حتي إنّه عليه السّلام قال: ما قالته و لكن قوّلته. يعني ما قالته من نفسها، و لكن حملت علي قوله، و ليس تحته شي ء، لأن معناه أنّ في الخلافة و السلطنة خيرا و شرّا، و لكنّ عمر ذهب بخيرها و نجا من شرّها بحبسه مثل طلحة و الزبير عن الخروج عن المدينة، حتّي إلي الجهاد لئلّا يخرجا عليه، و أحدث شوري موجبة لنقض الامور عليه عليه السّلام و ليس قوله عليه السّلام: (ذهب بخيرها و نجا من شرّها)إلّا نظير قوله عليه السّلام فيه و في صاحبه في الشقشقية: لشدّ ما تشطّرا ضرعيها.

و أمّا باقي العنوان فإمّا افتراء تعمّدا - و الافتراء عليه عليه السّلام كالنبيّ عليه السّلام كثير فالخصم يضع لنفسه علي حسب هواه - و إمّا توهما من قوله عليه السّلام: لقد صدقت ابنة أبي خيثمة (حنتمة)، أنّه راجع إلي جميع ما قالته، مع أنّه عليه السّلام قيّده في قولها: ذهب بخيرها و نجا من شرّها. مع أنّ ما في (الطبري) تحريف، فعن ابن عساكر قال عليه السّلام: (أصدقت) لا (لقد صدقت).

و ممّا ذكرنا يظهر لك ما في قول ابن أبي الحديد، علي أنّ الطبري صرّح أو كاد أن يصرّح بأنّ المراد بهذا الكلام عمر، فإنّ الطبري إنّما روي وصف بنت أبي خيثمة (حنتمة) بما روي، و أنّ المغيرة كان يعلم أنّ عليّا عليه السّلام يكتم ما في قلبه علي عمر كصاحبه، فأراد المغيرة أن يستخرج ما في قلبه ذاك الوقت فأجابه عليه السّلام بحكمته بذم و شكوي في صورة الثناء.[18]

جو طبری نے نقل کیا ہے، ہمارے غیر قابل قبول ہونے کے علاوہ، کیونکہ ایک سنی سے نقل ہوا ہے، اس لیے یہ کلام خنتمہ کی بیٹی کے ہونے کا استفادہ نہیں ہوتا اور وہ کہ جملہ ہے:

وہ خلافت کی خوبیوں کو ساتھ لے گیا اور اسکی بدیوں سے نجات پا گیا، یہاں تک کہ ان حضرت نے فرمایا: بنت خنتمہ نے یہ بات نہیں کہی بلکہ انھوں نے اسکی زبان پر جاری کیا تھا، اور اس جملے کا یہ معنی ہے کہ حکومت میں خیر و شر ہوتا ہے اور عمر خیر کو اپنے ساتھ لے گیا اور شر کو اس دنیا میں ہی چھوڑ گیا کہ اس سے مقصود طلحہ و زبیر کا شہر مدینہ سے باہر جانا ممنوع تھا، یہاں تک کہ شورا تشکیل پا گئی کہ جسکا نتیجہ امام علی (ع) کے خلاف نکلا اور در اصل یہ جملہ:

ذهب بخيرها و نجا من شرّها،

ان حضرت کے خطبہ شقشقیہ میں عمر اور اسکے دوست ابوبکر کے بارے میں ہے کہ جو تمام کا تمام ان دونوں کی مذمت ہے۔

شہيد مطہری نے طبری کا کلام نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

لیکن عصر حاضر کے بعض محققین نے طبری کے علاوہ اس واقعے کو ایک دوسری صورت میں نقل کیا ہے اور وہ یہ کہ علی (ع) جب باہر آئے تو انھوں نے مغیرہ کو دیکھا اور سوال کے انداز میں اس سے پوچھا: کیا ابی خیثمہ کی بیٹی نے جو عمر کی تعریف کی تھی، وہ صحیح تھی ؟ لہذا مذکورہ بالا جملات علی (ع) کا کلام نہیں ہے بلکہ متکلم ایک عورت ہے کہ جسکا نام خیثمہ ہے اور سید رضی نے ان جملات کو نہج البلاغہ کے کلمات کے ساتھ ذکر کر کے غلطی کی ہے۔ [19]

نتيجہ بحث و تحقیق:

یہ رائے کہ لفظ «فلان» سے مراد عمر ہے، ہرگز اسکو قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ

اولاً: اس رائے پر کوئی دلیل نہیں اور ابن ابی الحدید و محمد عبدہ کے کلام کی شیعیان کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ثانياً: یہ رائے تاریخ اور شیعہ و سنی کی کتب میں موجود امیر المؤمنین علی (ع) کے دوسرے کلمات کے ساتھ تضاد رکھتی ہے۔

صرف وہ رائے کہ جو شیعہ کی مورد تائید ہے، وہ مرحوم قطب راوندی کی رائے ہے کیونکہ وہ ایک شیعہ کا کلام ہے اور خود انکی اپنی کتاب میں ذکر ہوا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ رائے شیعہ سے منسوب ہو اور اسے ایک سنی نے نقل کیا ہو۔

اور جیسا کہ کہا گیا وہ (قطب راوندی) دوسروں کی نسبت سید رضی کی آراء سے زیادہ آشنائی رکھتا تھا، مخصوصا بعض علمائے اہل سنت نے بھی اس رائے کو قبول کیا ہے۔

حوالہ جات:

[1] . نهج البلاغه، صبحي صالح، خطبه: 228؛ فيض الإسلام، خطبه 219، محمد عبدة، خطبه: 222؛ ابن أبي الحديد، خطبه: 223.

[2] . إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 12، ص 3، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1418هـ - 1998م.

[3] . نهج البلاغه، شرح محمد عبده، ص 430.

[4] . النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1378، ح 1757، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

[5] . إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 5، ص 469، ح9772، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ

[6] . البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب غَزْوَةِ خَيْبَرَ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987؛

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1380، ح1759، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

[7] . اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفي292هـ)، تاريخ اليعقوبي، ج 2، ص 162، ناشر: دار صادر - بيروت.

[8] . الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 1، ص 75 ، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر؛

الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفي807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 5، ص 185، ناشر: دار الريان للتراث / دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.؛

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 4، ص 32، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996 م

[9] . الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 3، ص 116، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 3، ص 215، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ

[10] . إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 12، ص 3، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1418هـ - 1998م.

[11] . نهج البلاغه، صبحي صالح، خطبه 228، ص 350.

[12] . الراوندي، قطب الدين سعيد بن هبة الله (متوفي573هـ)، منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة، ج 2، ص 402، مصحح: سيد عبد اللطيف كوهكمري، ناشر: كتابخانه آيت الله مرعشي ـ قم، 1364هـ ش.

[13] . هاشمي خوئي، ميرزا حبيب الله، منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة،ج14، ص375، مصحح: سيد ابراهيم ميانجي، ناشر: مكتبة الإسلامية ـ تهران، 1358هـ ش.

[14] . إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 12، ص 3، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1418هـ - 1998م.

[15] . هاشمي خوئي، ميرزا حبيب الله، منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة،ج14، ص375، مصحح: سيد ابراهيم ميانجي، ناشر: مكتبة الإسلامية ـ تهران، 1358هـ ش.

[16] . البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 2، ص 573 ح 1506 و ج 3، ص 1232، ح 3188 و ج 4، ص1630، ح4214، ( ج 2 ص 156 و ج 4، ص 118 طبق برنامه مكتبه اهل البيت عليهم السلام) تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

[17] . الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفي310)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 575، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 456، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

[18] . شوشتري، محمد تقي (معاصر) بهج الصباغة في شرح نهج البلاغة، ج 9، ص 483، ناشر: مؤسسه انتشارات امير كبير ـ تهران، 1376هـ ش.

[19] . مطهري، مرتضي، سيري در نهج البلاغه، ص 164، ناشر: انتشارات صدرا ـ قم.

التماس دعا۔۔۔۔۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات