2024 March 28
کیا سارے اصحاب«اشداء علي الكفار» «رحماء بينهم» تھے ؟ کیا اس آیت سے بیت فاطمہ س پر ہجوم کی نفی ہوسکتی ہے؟
مندرجات: ٢١٤٤ تاریخ اشاعت: ٠٨ December ٢٠٢٢ - ٠١:١٢ مشاہدات: 2929
مضامین و مقالات » پبلک
کیا سارے اصحاب«اشداء علي الكفار» «رحماء بينهم» تھے ؟ کیا اس آیت سے بیت فاطمہ س پر ہجوم کی نفی ہوسکتی ہے؟

 

 مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ۔۔

 والی آیت اور بیت الزہرا پر ھجوم کی نفی۔

 

مطالب کی فہرست :

شبھے کی وضاحت :

یہ آیت سارے اصحاب کو شامل نہیں ہے :

سارے اصحاب «اشداء علي الكفار» نہیں تھے :

سارے اصحاب «رحماء بينهم» نہیں تھے :

کیا خلفاء «اشداء علي الكفار»  تھے ؟:

کیا  «رحماء بينهم» عمر کو بھی شامل ہوسکتا ہے ؟:

 

شبھے کی وضاحت :

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ،اںحضرت (ص) کے اصحاب کی تعریف میں فرمایا ہے کہ یہ آپس میں مہربان تھے :

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللَّهِ وَ رِضْواناً سيماهُمْ في وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوي عَلي سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظيماً. الفتح / 29.

   محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ان کے یہی اوصاف ہیں، جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میںسے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔٭

سوال :

کیا یہ آیت رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے تمام اصحاب اور خلفا ثلاثہ کو شامل نہیں ہے ؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتی ہے کہ یہ سب کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں مہربان اور رحم دل تھے ؟

اب جب ایسا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ان اصحاب نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے حق کو غصب کیا ہوا اور ان کے گھر پر حملہ کر کے بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مارا ہوا، یہاں تک کہ ان کا بچہ اسی وجہ سے سقط ہوا ہو؟

اب یہ تہمتیں کہ جو خلفا پر لگائی جاتی ہے کیا یہ قرآن کے واضح نص کے خلاف نہیں ہے ؟

اس آیت کی مختصر تفسیر [ شیعہ مفسر شیخ محسن علی نجفی کی تفسیر الکوثر سے ]

۔ اس آیت میں رسول اسلامؐ کے ساتھیوں کے پانچ اہم ایسے اوصاف بیان ہوئے ہیں جن کی مثال دوسری آسمانی کتابوں میں بھی ہے۔ رسول اللہؐ کے ہم عصر مسلمانوں میں سے جن ہستیوں میں یہ اوصاف موجود ہوں، ان کے لیے یہ بہت بڑی فضلیت ہے۔ یہ ایسی فضلیت ہے جس کے لیے خود اللہ اجر عظیم کا صریح وعدہ فرما رہا ہے۔ یہ وعدہ ان لوگوں کے لیے ہے جو رسول اللہؐ کی معیّت میں ہیں ۔ معیّت اور صحبت میں فرق ہے ۔ صحبت ایک جگہ ساتھ پائے جانے کو کہتے ہیں، جبکہ معیّت ایک مشن ایک تحریک میں ہر قدم پر ساتھ دینے کو کہتے ہیں۔ چنانچہ ان ربی یصاحبنی نہیں کہتے بلکہ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ کہتے ہیں، اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کہتے ہیں، چونکہ اللہ ہر قدم پر ساتھ ہوتا ہے اور وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ (مزمل:20) اور ایک جماعت جو آپ کے ساتھ ہے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ سورہ توبہ آیت 40 میں فرمایا: اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۔ اس میں ساتھی کے لیے صاحبہ اور اللہ کے لیے مَعَنَا کہا۔ یعنی رسول اللہؐ کو ایک ساتھی کی صحبت اور اللہ کی معیّت حاصل تھی۔ وہ لوگ جو ہر میدان میں رسولؐ کے ساتھ نہیں رہے اور جنہوں نے میدان جنگ میں ایک کافر کو بھی نہیں مارا نیز جو آپس میں نہایت تند مزاجی سے پیش آئے ہوں، وہ لوگ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں۔ اس آیت مبارکہ سے وہ موضوعاً خارج ہیں، جن پر یہ آیت صادق آتی ہے، ان پر طعن، قرآن کی نص صریح کے خلاف ہے۔ اس کا کوئی مسلمان مرتکب نہیں ہو سکتا اور جن پر یہ آیت صادق نہیں آتی ان کو آیت سے خارج سمجھنا طعن نہیں ہے۔ چنانچہ اَصۡحابُ افک میں بدری بھی شامل ہیں، جن کی سورہ نور آیت 23 میں بھرپور مذمت ہے۔ ولید بن عتبہ بھی صحابی ہے۔ سورہ حجرات آیت 6 میں اسے فاسق کہا ہے۔ اس بنا پر وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ میں معیّت مراد لینا ہو گا، صحبت نہیں۔ اسی لیے اول تو مِّنَ برائے تبعیض ہے، چونکہ مِّنَ بیانیہ ضمیر پر داخل نہیں ہوتا، ثانیاً اس مِّنَ سے ہٹ کر خود قرآنی دیگر آیات اور تاریخی شواہد اس استثنا پر قطعی شاہد ہیں۔

 لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ : تاکہ ان کی نشو و نما کفار کو جلائے۔ جن پر کفار جلتے ہیں ان کی رسول سے معیت ثابت ہوتی ہے۔ نہ مطلق جلنا، بلکہ رسولؐ کی ہر قدم میں معیت کی وجہ سے جلنا۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی لوگ ان پر جلتے ہوں، وہ کافر ثابت ہو جائیں۔ اصحاب ایک دوسرے پر نہ صرف جلتے تھے، مقاتلہ تک کی نوبت آتی تھی۔ اگر کسی صحابی پر جلنے والا کافر ہوتا ہے تو اس کی زد میں عصر معاویہ سے عصر عمر بن عبد العزیز تک ساری امت آجاتی ہے۔ اس نکتے کی طرف متوجہ ہو کر مفسر تھانوی نے لکھا ہے: صحابہ پر کافروں کے ذی غیظ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو بھی صحابہ پر ذی غیظ ہو وہ کافر ہے۔

یہ آیت سارے اصحاب کو شامل نہیں ہے :

جن آیات کے ذریعے تمام اصحاب اور خاص کر خلفا کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے استدلال کرتے ہیں ان میں سے ایک یہی مذکورہ آیت ہے۔ یہاں پر یہ ادعا کرتے ہیں کہ اس آیت میں تمام اصحاب  کو «اشداء علي الكفار» اور «رحماء بينهم»  کہا ہے اور سب کو معاف کیا ہے اور سب کے لئے نیک جزا کا وعدہ دیا ہے ۔

ہم اس قسم کے استدلال کے جواب میں کہتے ہیں :

یہ آیت کسی صورت میں بھی تمام اصحاب کی عدالت کو ثابت نہیں کرتی کیونکہ یہاں معیت سے مراد صرف جسمی معیت  مراد نہیں ہے بلکہ روحی ، فکری اور ایمانی معیت مراد ہے اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو ان اوصاف کے مالک ہوں ۔

اللہ نے اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی خصوصیات بیان کی ہیں ،

آیت یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ جو بھی آپ کے اصحاب کے نام سے مشہور ہو وہ سب ایسی خصوصیات اور صفات کے مالک ہیں ، بلکہ آیت قرآن کی نظر میں آُپ کے حقیقی اصحاب کی خصوصیات اور تعریف بیان کر رہا ہے ۔لہذا جو بھی ان خصوصیات کے مالک ہو وہ قرآن کی نگاہ میں صحابی کہنے کے لائق ہیں اور جن میں یہ خصوصیات نہیں وہ قرآن کی نگاہ میں آپ کے حقیقی صحابی نہیں ہے ۔

دوسرے الفاظ میں یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ آیت قرآن کی نظر میں صحابہ کا مفہوم اور معنی بیان کر رہی ہے ۔ اسی لئے صحابہ کہے جانے والے جن جن میں یہ خصوصیات موجود ہوں وہ قرآن کی نگاہ میں صحابہ ہیں۔

اگر ہم  اصحاب کے نام سے معروف لوگوں کی زندگی کے بارے میں تحقیق کرئے تو بہت سے اصحاب ان خصوصیات سے عاری تھے ۔

 لہذا ان خصوصیات سے عاری لوگوں کو یہ آیت شامل نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ آیت انہیں لوگوں کے لئے ہے کہ جن میں یہ قرآنی خصوصیات موجود ہوں۔

ایک اہم تفسیری نکتہ : جیساکہ شیعہ عالم دین مرحوم مظفر نے اصول فقہ کی کتاب میں مجمل کی بحث میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آیت کا پہلا حصہ مجمل ہے ظاہر آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سارے اصحاب عادل ہیں لیکن آیت کا آخری حصہ بتاتا ہے کہ یہ سب آصحاب کی خصوصیات نہیں ہیں ۔ جیساکہ ’’وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظيماً. ’’  اہل ایمان میں سے نیک عمل انجام دینے والوں کے لئے یہ فضیلتیں اور وعدے ہیں۔۔

جو نیک عمل صالح کا مالک نہ ہو  اور برے کاموں کے مرکب ہوئے ہوں وہ اس آیت سے خارج ہیں ۔۔۔

سارے اصحاب «اشداء علي الكفار» نہیں تھے :

 اس آیت کے مطابق رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھیوں کی خصوصیات، «اشداء علي الكفار؛ یعنی کفار کے مقابلے میں سرسخت ہونا اور سخت رویہ رکھنا» ہے .

اب اصحاب کی زندگی پر نظر کرئے اور صدر اسلام کی جنگوں سے ان میں سے بعض کے گریزاں ہونے اور دور بھاگنے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سارے اصحاب اس خصوصیت کے حامل نہیں تھے ، جیساکہ بعض اصحاب کا جنگ احد، جنگ خيبر  اور جنگ حنين  سے بھاگنا اور رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کو تھوڑے اصحاب کے ساتھ تنہا رہنا اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔

اللہ تعالی نے جنگ احد کے بارے میں اصحاب کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے :

إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الجَْمْعَانِ إِنَّمَا اسْتزََلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَ لَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنهُْمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيم‏. آل عمران / 155.

جو  لوگ تم میں سے (اُحد کے دن) جبکہ (مومنوں اور کافروں کی) دو جماعتیں ایک دوسرے سے گتھ گئیں (جنگ سے) بھاگ گئے تو ان کے بعض افعال کے سبب شیطان نے ان کو پھسلا دیا مگر خدا نے ان کا قصور معاف کر دیا بےشک خدا بخشنے والا اور بردبار ہے

 سوره توبه آيه 25 میں ارشاد ہوا ہے :

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ في‏ مَواطِنَ كَثيرَةٍ وَ يَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئاً وَ ضاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرين‏. التوبة / 25.

اللہ نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور جنگ حنین کے دن جب کہ تم کو اپنی جماعت کی کثرت پر غرہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی فراخی کے تم پر تنگ ہو گئ۔ پھر تم پیٹھ پھیر گئے۔

یہ دو آیت بتاتی ہیں کہ اصحاب جنگ احد اور جنگ حنین میں بھاگ گئے تھے جبکہ جنگ حنین میں بارہ ہزار اصحاب شریک تھے۔ لیکن جنگ کے وقت سواے بعض کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آؒلہ وسلم کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ۔ جبکہ بیعت بیعت رضوان کے وقت جنگ سے فرار نہ کرنے کا عہد لیا تھا۔

اب ان حقائق کے باجود کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کے تمام اصحاب «اشداء علي الكفار»  تھے ؟

لہذا یہ آیت سارے اصحاب کو شامل نہیں ہے بلکہ صرف ان اصحاب کو شامل ہے کہ جو دشمن کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے اور استقامت سے کام لیتے تھے .

سارے اصحاب «رحماء بينهم» نہیں تھے :

اس آیت کی رو سے رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے اصحاب کی دوسری خصوصیت ایک دوسرے کے ساتھ مہربان اور رحم دل ہونا ہے، صدر اسلام کے واقعات اور اصحاب کی زندگی کا مطالعہ کرئے تو معلوم ہوتا ہے کہ سارے اصحاب ایسے نہیں تھے ۔

اصحاب کے درمیان جنگ اور خونریزی کے واقعات اس خصوصیت کے بلکل برعکس ہے ، اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں سے اصحاب کا مدینہ میں جمع ہونا اور جناب عثمان کو قتل کرنے والے گروہ کی سرپرستی اور لیڈری کرنا ،اسی طرح اصحاب کے درمیان ہونے والی جنگیں خاص کر جنگ جمل ،جنگ صفین اور نہروان وغیرہ اسی مطلب پر بہترین گواہ ہے ۔

ہم نے ایک مقالہ «آيه السابقون الأولون کی تحقیق » کے ضمن میں ان اصحاب میں سے بعض کے ناموں کا ذکر کیا ہے  کہ جنہوں نے جناب عثمان کے قتل میں کردار ادا کیا اور اس میں شریک رہے ۔

کیا خلفاء «اشداء علي الكفار»  تھے ؟:

کیونکہ اھل سنت کا اس آیت سے استدلال کی بنیادی وجہ خلفا ثلاثہ سے دفاع اور خلفا کی طرف سے  حضرت زهرا سلام الله عليها کے گھر پر حملہ اور ان کی شہادت کا انکار ہے۔ لہذا ہم یہاں خاص طور سے خلفا کی سیرت اور ان کی زندگی کے سلسلے میں بحث کریں گے اور  یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا خلفا ان خصوصیات کے حامل تھے یا نہیں؟،  

 اصل بحث کو شروع کرنے سے پہلے مختصر طور پر جنگ سے گریز اور بھاگنے کے حکم بیان کرتے ہیں ؛

جنگ سے بھاگنے کا حکم :

یقینی طور پر میدان جنگ سے بھاگنا ایک گناہ کبیرہ ہے کہ جو عقل اور شرع دونوں کی نظر میں ایک ناپسند عمل ہے ۔

کیونکہ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جنگ سے بھاگنے والا اللہ کے وعدہ پر ایمان نہیں رکھتا اور اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرنے سے دور بھاگتا ہے ۔

اور اگر اس فرار کی وجہ سے رسول اللہ صلی میدان جنگ میں تنہا ہ جائے  اور کفار آپ کو شہید کر دئے تو اس کا گناہ اور زیادہ شدید ہوجاتا ہے ۔

اللہ تعالی نے جنگ احد میں فرار کرنے والوں کے بارے میں فرمایا :

يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفًا فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَار. وَ مَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئذٍ دُبُرَهُ إِلا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيزًِّا إِلىَ‏ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَ مَأْوَئهُ جَهَنَّمُ وَ بِئْسَ المْصِير. الأنفال / 15 و 16.

اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا

اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناه لینے آتا ہو وه مستثنیٰ ہے*۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وه اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا وه بہت ہی بری جگہ ہے!.

اھل سنت کی معتبر کتابوں میں بھی ایسی بہت سی روایات موجود ہیں کہ کے مطابق جنگ سے بھاگنا حرام ہے ۔

محمد بن اسماعيل بخارى نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے  :

عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ قالوا يا رَسُولَ اللَّهِ وما هُنَّ قال الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ التي حَرَّمَ الله إلا بِالْحَقِّ وَأَكْلُ الرِّبَا وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلِّي يوم الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلاتِ.

ابوهريره نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں، بچتے رہو۔صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ‘ جادو کرنا ‘ کسی کی ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ جنگ سے بھاگ جانا ‘ پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1017، ح 2615، كتاب الوصايا، ب 23، باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ( إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ... و ج 6، ص 2515، ح 6465، كتاب الحدود، ب 44، باب رَمْىِ الُْمحْصَنَاتِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 1، ص 92، ح89، كتاب الإيمان، بَاب بَيَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

شوكاني، نے اس حدیث کے ذیل میں نقل کیا ہے :

( وفي الحديث ) دَلِيلٌ على أَنَّ هذه السَّبْعَ الْمَذْكُورَةَ من كَبَائِرِ الذُّنُوبِ وَالْمَقْصُودُ من إيرَادِ الحديث ها هنا هو قَوْلُهُ فيه وَالتَّوَلِّي يوم الزَّحْفِ فإن ذلك يَدُلُّ على أَنَّ الْفِرَارَ من الْكَبَائِرِ الْمُحَرَّمَةِ وقد ذَهَبَ جَمَاعَةٌ من أَهْلِ الْعِلْمِ إلَى أَنَّ الْفِرَارَ من مُوجِبَاتِ الْفِسْقِ.

اس حدیث میں موجود یہ سات چیزیں بڑے گناہوں میں سے ہیں اور ہمارا مقصد ان میں سے چھٹا ہے یعنی جنگ سے فرار کرنا ہے، اس کو بڑے گناہوں میں سے شمار کیا ہے اور بعض علما نے اس کو فسق کا موجب قرار دیا ہے یعنی ایسا آدمی فاسق ہوگا ۔

الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقى الأخبار، ج 8، ص 78 – 80، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.

ابن حزم اندلسى نے جنگ سے فرار کے حکم کے بیان میں کہا ہے :

مسألة، ولا يحل لمسلم أن يفرّ عن مشرك ولاعن مشركين ولو كثر عددهم أصلاً لكن ينوى في رجوعه التحيز إلى جماعة المسلمين ان رجا البلوغ، إليهم أو ينوى الكر إلى القتال فإن لمن ينو الا تولية دبره هاربا فهو فاسق ما لم يتب، قال الله عز وجل: (يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفًا فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَار. وَ مَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئذٍ دُبُرَهُ إِلا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيزًِّا إِلىَ‏ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَ مَأْوَئهُ جَهَنَّمُ ).

مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکوں سے جنگ سے فرار اختیار کرئے اگرچہ دشمنوں کی تعداد زیادہ بھی ہو اور اگر جنگ سے پیچھے ہٹے تو بھی اس نیت سے ہٹے کہ دوسروں مسلمانوں سے ملکر دوبارہ جنگ جاری رکھے گا اگر یہ نیت نہ ہو تو یہ فاسق شمار ہوگا مگر یہ کہ وہ توبہ کرئے ،اللہ فرماتا ہے :

اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا

اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناه لینے آتا ہو وه مستثنیٰ ہے*۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وه اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا وه بہت ہی بری جگہ ہے!.

إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعيد أبو محمد (متوفاي456هـ)، المحلى، ج 7، ص 292، المسألة 923 لا يحل لمسلم ان يفر عن مشرك ولا عن مشركين ولو كثر عددهم أصلا...، تحقيق: لجنة إحياء التراث العربي، ناشر: دار الآفاق الجديدة - بيروت.

 

خليفه اول  اور  دوم، مشرکین سے جنگ کے مخالف تھے :

جنگ بدر، تاریخ اسلام کی پہلی اور اہم ترین جنگوں میں سے ہے ۔یہ جنگ مدینہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد مضبوط کرنے میں اہم جنگ تھی ، رسول اللہ صلی اللہ عیہ و آلہ وسلم نے شروع میں اصحاب سے جنگ کرنے یا واپس مدینہ پلٹنے کے بارے  مشورہ لیا، اھل سنت کے علما نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ جب آُپ نے مشورہ لیا تو ابوبکر اور عمر جنگ کے مخالف تھے اور مدینہ واپس پلٹنے کا مشورہ دئے رہے تھے .

عَنْ أَنَس، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَاوَرَ حِينَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ قَالَ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْر فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقَالَ إِيَّانَا تُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لأَخَضْنَاهَا وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا - قَالَ - فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم النَّاسَ فَانْطَلَقُوا حَتَّى نَزَلُوا بَدْرًا۔۔۔

جناب انس  سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم نے مشورہ کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوسفیان کے آنے کی خبر پہنچی تو ابوبکر  نے گفتگو کی۔ آپ نے جواب نہ دیا، پھر عمر نے کی تب بھی آپ مخاطب نہ ہوئے۔ آخر سعد بن عبادہ (انصار کی رئیس اٹھے) اور انہوں نے کہا: آپ ہم سے پوچھتے ہیں یا رسول اللہ! قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آپ ہم کو حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں تو ہم ضرور ڈال دیں اور اگر آپ حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو برک الغماد تک بھگا دیں۔

 تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور وہ چلے۔ یہاں تک کہ بدر میں اترے۔

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 5، ص 170، ح4513، كتاب الجهاد والسير (المغازى )، باب غَزْوَةِ بَدْر، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوبکر اور عمر سے روگردانی کی اور انہیں جواب نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں نے ایسے کلمات زبان پر لائے تھے جو کفار کی عزت اور قدرت کو بیان کرنے  اور مسلمانوں کے جذبے اور قلوب کو کمزور کرنے والے کلمات تھے جیساکہ نقل ہوا ہے:  

فقال عمر بن الخطاب: يا رسول الله إنها قريش وعزها، والله ما ذلت منذ عزت ولا آمنت منذ كفرت....

عمر بن الخطاب نے کہا : یا رسول اللہ ! قريش عزت والے ہیں ،اللہ کی قسم جس دن سے عزت کا مالک ہوئے ہیں انہوں نے ذلت نہیں دیکھی ہے، جس وقت کافر  ہوئے اس وقت سے ایمان نہیں لائے ہیں  ....

 البيهقي، أبي بكر أحمد بن الحسين بن علي (متوفاي458هـ)، دلائل النبوة ج 3، ص 107.

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 2، ص 106، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.

السيوطي، عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين (متوفاي911هـ)، الدر المنثور، ج 4، ص 20، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1993.

الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفاي942هـ)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج 4، ص 26، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ.

الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 2، ص 386، ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1400.

 

اب بنیادی سوال یہ ہے کہ جو کفار کے بارے میں ایسی سوچ اور جذبہ رکھتا ہو تو کیا ،مذکورہ آیت میں موجود  «اشداء علي الكفار» کی تعبیر ایسے بندے کو بھی شامل ہوگا؟

ابوبكر  کا جنگ احد سے  فرار ہونا :

اس میں شک نہیں ہے کہ  «اشداء علي الكفار» کا جملہ کفار سے جنگ کرنے سے بھاگنے والوں کے لئے مناسب نہیں ہے ۔جبکہ خلفائ ثلاثہ جنگ احد ،جنگ خیبر اور جنگ حنین میں میدان سے بھاگ نکلے تھے ۔

جنگ احد میں ابوبکر کے فرار کے دلائل میں سے ایک خود جناب ابوبکر کا اعتراف ہے کہ جس کو جناب عائشہ نے نقل کیا ہے ؛

كان أبو بكر رضي الله عنه إذا ذكر يوم أحد بكى ثم قال ذاك كله يوم طلحة ثم أنشأ يحدث قال كنت أول من فاء يوم أحد فرأيت رجلا يقاتل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم دونه وأراه قال يحميه قال فقلت كن طلحة حيث فاتني ما فاتني فقلت يكون رجلا من قومي أحب إلي وبيني وبين المشرق رجل لا أعرفه وأنا أقرب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منه وهو يخطف المشي خطفا لا أخطفه فإذا هو أبو عبيدة بن الجراح فانتهينا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد كسرت رباعيته وشج في وجهه وقد دخل في وجنته حلقتان من حلق المغفر.

عائشه کہتی ہے : ابوبکر جب بھی احد کو یاد کرتا وہ روتا اور کہتا: وہ طلحہ کا دن تھا ،بھاگنے والوں میں سے سب سے پہلے پہنچا ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کسی کفار سے جنگ کر رہے تھے ۔۔

الطيالسي البصري، سليمان بن داود أبو داود الفارسي (متوفاي204هـ)، مسند أبي داود الطيالسي، ج 1، ص 3، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبد الله (متوفاي241هـ)، فضائل الصحابة، ج 1، ص 222، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ – 1983م.

الأصبهاني، أبو نعيم أحمد بن عبد الله (متوفاي430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 1، ص 87، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ.

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 13، ص 417، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 2، ص 191، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.

الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 16، ص 273، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 4، ص 29، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

حاكم نيشابورى نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کو صحیح قرار دیا ہے:

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.

النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 3، ص 298، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م.

عمر ابن خطاب کا جنگ سے بھاگنے کا اعتراف:

ابوبکر اور عمر کے فرار کے دلائل میں سے ایک خود جناب عمر کا اعتراف ہے کہ جس کو

 ابومظفر كنانى نے  لباب الآداب  میں اور  ابن عبد البر قرطبى نے  الإستذكار  میں نقل کیا ہے :

عن إسماعيل بن عمر رضي الله عنه قال: لما فرض عمر رضوان الله عليه الدواوين جاء طلحة بن عُبيد الله رحمه الله بنفرٍ من بني تميم يستفرض لهم، وجاء رجلٌ من الأنصار بغلامٍ مصفرٍّ سقيمٍ، فقال: من هذا الغلام؟ قال: هذا ابن أخيك البراء بن النضر، فقال عمر رضي الله عنه: مرحباً وأهلاً، وضمَّه إليه، وفرض له في أربعة آلاف، فقال طلحة: يا أمير المؤمنين، انظر في أصحابي هؤلاء، قال: نعم، ففرض لهم في ستمائة ستمائة، فقال طلحة: ما رأيت كاليوم شيئاً أبعد من شيء أي شيء هذا؟ فقال عمر رحمه الله عليه: أنت يا طلحة تظن أنني منزلٌ هؤلاء بمنزلة هذا؟ إني رأيت أبا هذا جاء يوم أُحدٍ وأنا وأبو بكر قد تحدثنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قُتل، فقال: يا أبا بكر، ويا عمر، ما لي أراكما جالسين؟ إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قُتل فإن الله حي لا يموت، ثم ولّى بسيفه، فضُرب عشرين ضربة، أعدها في وجهه وصدره، ثم قُتِل رحمه الله.

اسماعيل بن عمر کہتا ہے : جس وقت عمر نے حکم دیا کہ لوگ بیت المال سے اپنے حقوق لینے کے لئے اپنا اپنا نام لکھوائے تو طلحہ بن عبد اللہ یک تمیمی شخص کے ساتھ آیا

اور اپنا نام لکھنے کے لئے کہا ۔ ایک انصاری کمزور جوان بھی آیا اور اپنا لکھنے کے لئے کہا۔

عمر نے کہا :  ہے کون ہے ؟ جواب دیا : آپ کے بھائی براء بن نضر کا بیٹا ہے ،عمر نے اس کو خوش آمدید کہا اور اس کو گلے ملایا اور پھر چار ہزار درھم اس کے لئے معین کیا ۔

طلحہ نے کہا : بھایو ہمارا بھی خیال رکھنا ، ان کے لئے بھی چھے سو چھے سو مقرر ہوا ۔طلحہ نے کہا : آج کی طرح حقوق تعین کرنے میں اتار و چڑاو نہیں دیکھا ہوں ۔ عمر نے کہا :

کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں تم اور تیرے دوستوں کو میرے بھائی کے بیٹے کے ساتھ ایک ہی سطح پر تم لوگوں کے برابر رکھوں؟ احد کے دن اس کا باپ میرے اور ابوبکر کے پاس آٰیا اور ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے شہید ہونے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ۔

 اس نے آکر کہا : کیوں بیٹھے ہو ؟ اگر رسول اللہ (ص) شہید ہو بھی جائے تو بھی ان کا اللہ تو ہے ، آُپ ان کے پاس زندہ ہیں اور مرئے نہیں ہیں ،یہ کہا اور تلوار ہاتھ میں کر کفار پر حملہ ور ہوئے اور انہوں نے کفار سے اپنے سینہ اور چہرے پر بیس رخم کھائے اور آخر کار شہید ہوئے۔

  الكناني، أسامة بن منقذ أبو المظفر (متوفاى584هـ)، لباب الآداب، ج 1، ص 54؛

النمري القرطبي، يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفاي463هـ)، الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار، ج 3، ص 248، تحقيق: سالم محمد عطا، محمد علي معوض، ناشر: دار الكتب العلمية، بيروت، ، 2000 م .

عمر کا احد کی جنگ سے فرار :

خليفه دوم نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک خطبہ دیا اور خطبے میں جنگ احد سے اپنے بھاگنے کا اعتراف کیا ۔

 محمد بن جرير طبرى نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:

خَطَبَ عُمَرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَرَأَ آلَ عِمْرَانَ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلى قَوْلِهِ: «إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ»، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ هَزَمْنَاهُمْ فَفَرَرْتُ حَتَّى صَعِدْتُ الْجَبَلَ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي أَنْزُو كَأَنَّنِي أَرْوَى، وَالنَّاسُ يَقُولُونَ: قُتِلَ مُحَمَّدٌ، فَقُلْتُ: لاَ أَجِدُ أَحَدَاً يَقُولُ قُتِلَ مُحَمَّدٌ إِلاَّ قَتَلْتُهُ، حَتَّى اجْتَمَعْنَا عَلى الْجَبَلِ، فَنَزَلَتْ: ) إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ.

عمر نے جمعہ کے دن ایک خطبہ دیا اور سوره آل عمران کی تلاوت کی یہاں تک کہ اس آیت تک پہنچا : «وہ لوگ کہ جنہوں نے دو لشکر کے آمنا سامنے ہوتے وقت آپ کو تنہا چھوڑا  »  اس کے بعد کہا : اُحُد میں جب ہم نے شکست کھائی تو میں بھاگا اور پہاڑی پر چڑھا اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ گویا میں پہاڑی بکرے کی طرح اچھل گود رہا ہوں اور بہت پیاس بھی لگی تھی۔

لوگ کہہ رہے تھے : محمد قتل ہوگئے ۔میں نے کہا : جو بھی کہے کہ محمد قتل ہوئے ہیں میں اس کو قتل کر دوں گا ، یہاں تک کہ ہم پہاڑی پر جمع ہوگئے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔

 

الطبري، محمد بن جرير، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ج 4، ص 144، ناشر: دار الفكر، بيروت – 1405هـ؛

الأندلسي، أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطية، المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز، ج 1، ص 529، تحقيق: عبد السلام عبد الشافي محمد، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان، الطبعة: الاولى، 1413هـ- 1993م؛

السيوطي، الحافظ جلال الدين، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 529 و....

فخر رازى کہ جو اھل سنت کے بڑئے مفسرین میں سے  ہیں وہ لکھتے ہیں :

ومن المنهزمين عمر، الا أنه لم يكن في أوائل المنهزمين ولم يبعد، بل ثبت على الجبل إلى أن صعد النبي صلى الله عليه وسلم.

جنگ سے فرار ہونے والوں میں سے عمر بھی تھا ، البتہ شروع میں فرار کرنے والوں میں سے تو نہیں تھا ،یہ لوگ پہاڑی پر رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان سے  آملے ۔

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاي604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب، ج 9، ص 42، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

عثمان کا جنگ احد سے فرار :

ابن عبد البر کہ جو اہل سنت کے بزرگ علما میں سے ہے وہ لکھتا ہے :

وفر عثمان بن عفان وعقبة بن عثمان وسعد بن عثمان رجلان من الأنصار ثم من بني زريق حتى بلغوا الجلعب جبلا بناحية المدينة فأقاموا به ثلاثا ثم رجعوا إلى رسول الله عليه السلام....

عثمان بن عفان اورانصار میں سے دو نفر ، عقبة بن عثمان اور سعد بن عثمان اور  بنى زريق کے بعض لوگ جنگ سے بھاگ گئے اور جلعب کی پہاڑی پر کہ جو مدینہ کے اطراف میں تھی، یہ لوگ تین دن رات وہیں رہے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس واپس پلٹے  ....

إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3، ص 1074، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.

الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 20، ص 61، تحقيق: أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 4، ص 28 29،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

فخر رازى نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے :

ومنهم [المنهزمين] أيضا عثمان انهزم مع رجلين من الأنصار يقال لهما سعد وعقبة، انهزموا حتى بلغوا موضعا بعيدا ثم رجعوا بعد ثلاثة أيام.

عثمان  اور انصار میں سے دو لوگ ، سعد اور عقبه بھاگ گئے اور دور کسی جگہ چلے گئے اور تین دن کے بعد واپس آئے  .

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاي604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب، ج 9، ص 42، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

بہت سے اہل سنت کے علما نے لکھا ہے کہ عثمان اور انصار کے دو نفر جنگ سے بھاگے اور تین دن کے بعد واپس آئے ۔

فر عثمان بن عفان وعقبة بن عثمان وسعد بن عثمان رجلان من الأنصار حتى بلغوا الجلعب جبل بناحية المدينة مما يلي الأعوص فأقاموا به ثلاثا ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لهم لقد ذهبتم فيها عريضة.

عثمان بن عفان، عقبة بن عثمان  اور  سعد بن عثمان (دو انصاری) اتنے دور بھاگے یہاں تک کہ مدینہ کے نذدیک موجود جلعب کی پہاڑی کے نذدیک پہنچے اور تین دن تک وہیں رہنے کے بعد واپس آگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کتنے دور نگل گئے تھے ؟! »

الطبري، محمد بن جرير (متوفاي 310هـ)، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ج 4، ص 145، ناشر: دار الفكر، بيروت – 1405هـ

الطبري، محمد بن جرير (متوفاي 310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 69، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 4، ص 63، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ) السيرة النبوية، ج 3، ص 55 ؛

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، ج 17، ص 347، تحقيق: د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشتري، ناشر: دار العاصمة/ دار الغيث، الطبعة: الأولى، السعودية - 1419هـ .

ابوبکر اور عمر کا جنگ خیبر سے بھاگنا :

سيوطى اور اھل سنت کے بہت سے بزرگان نے نقل کیا ہے :

عَنْ عَلِيَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَارَ رَسُولُ اللَّهِ إِلى خَيْبَرَ، فَلَمَّا أَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ بَعَثَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَمَعَهُ النَّاسُ إِلى مَدِينَتِهِمْ وَإِلى قَصْرِهِمْ فَقَاتَلُوهُمْ، فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ هَزَمُوا عُمَرَ وَأَصْحَابَهُ، فَجَاءَ يَجْبُنُهُمْ وَيَجْبُنُونَهُ، فَسَاءَ ذالِكَ رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ: لأبُعَثَنَّ عَلَيْهِمْ رَجُلاً يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولُهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، يُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ لَهُ، لَيْسَ بِفَرَّارٍ، فَتَطَاوَلَ النَّاسُ لَهَا، وَمَدُّوا أَعْنَاقَهُمْ يَرُونَهُ أَنْفُسَهُمْ رَجَاءَ مَا قَالَ، فَمَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ سَاعَةً فَقَال: أَيْنَ عَلِيٌّ؟ فَقَالُوا: هُوَ أَرْمَدُ، قَالَ: ادْعُوهُ لِي، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ فَتَحَ عَيْنِي، ثُمَّ تَفَلَ فِيهَا، ثُمَّ أَعْطَانِي اللوَاءَ فَانْطَلَقْتُ بِهِ سَعْيَاً خَشْيَةَ أَنْ يُحْدِثَ رَسُولُ اللَّهِ فِيهَا حَدَثَاً أَوْ فِيَّ، حَتَّى أَتَيْتُهُمْ فَقَاتَلْتُهُمْ، فَبَرَزَ مَرْحَبٌ يَرْتَجِزُ، وَبَرَزْتُ لَهُ أَرْتَجِزُ كَمَا يَرْتَجِزُ حَتَّى الْتَقَيْنَا، فَقَتَلَهُ اللَّهُ بِيَدِي، وَانْهَزَمَ أَصْحَابُهُ، فَتَحَصَّنُوا وَأَغْلَقُوا الْبَابَ، فَأَتَيْنَا الْبَابَ، فَلَمْ أَزَلْ أُعَالِجُهُ حَتَّى فَتَحَهُ اللَّهُ ). ( ش، والْبزار، وسندُهُ حَسَنٌ ).

علي عليه السلام نے فرمایا : رسول خدا (ص) خيبر  کی طرف جنگ کرنے گئے ،زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ عمر اور ان کے ساتھی بھاگ گئے اور پھر واپس آئے ،عمر ساتھیوں پر ڈرپوک ہونے کا الزام لگا رہا تھا اور ان کے ساتھی ان پر ڈرپوک ہونے کا الزام لگا رہے تھے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: میں اس شخص کو جنگ کے لئے بھیج رہا ہوں کہ جو اللہ اور اللہ کے رسول ص سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اللہ کے رسول ان سے محبت کرتے ہیں وہ اہل خیبر سے جنگ کریں گے یہاں تک کہ فاتح واپس پلٹیں گے ۔

 لوگوں نے گردنیں موڑ موڑ کر دیکھنا شروع کیا تاکہ یہ دیکھ سکے کہ سعادت کس کو نصیب ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ دیر کے بعد فرمایا : علی کہاں ہیں ؟جواب دیا : آپ کی آنکھوں میں تکلیف ہے ،فرمایا : انہیں بلا لائے ۔ اور جب حضرت علی علیہ السلام ان کے پاس پہنچے تو آُپ نے ان کی آنکھوں پر لعاب دھن لگایا اور پرچم ان کے ہاتھ میں دیا ۔

علی علیہ السلام سے نقل ہے : میں نے بھی جلدی حرکت کی ۔۔ اور دشمن سے جنگ کرنا شروع کیا مرحب میدان میں آیا میں نے اس نے رجز پڑھنا شروع کیا میں بھی میدان میں گیا اور رجز پڑھا اور اس سے جنگ کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ اللہ نے یہدیوں کے اس مشہور پہلوان کو میرے ہاتھوں اس کے انجام کو پہنچایا ،اس کے دوست و احباب متفرق ہوئے اور  قلعے کی طرف بھاگ نکلے اور قلعے کے دروازوں کو بند کیا ، میں قلعے کے پیچھے گیا اور اتنا زور دیا کہ اللہ نے دروازہ کھولا ۔

اس روایت کی سند بھی حسن ہے ۔

إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 7، ص 396، ح 36894، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

البزار، أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق (متوفاي292هـ)، البحر الزخار، ج 11، ص 327، ح5140، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر: مؤسسة علوم القرآن، مكتبة العلوم والحكم - بيروت، المدينة، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، الحافظ جلال الدين السيوطي، ج 16، ص 135، ح 7406 و كتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ابن أبي شيبة الكوفي، و البحر الزخار (مسند بزار) أحمد بن عمرو البزار (متوفاي 292هـ)، و...

حاكم نيشابوري، نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه.

النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 3، ص 40، ح 4340، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م

هيثمى نے مجمع الزوائد میں لکھا ہے :

رواه البزار وفيه نعيم بن حكيم وثقه ابن حبان وغيره وفيه لين.

الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفاي807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 6، ص 151، ناشر: دار الريان للتراث /‏ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت – 1407هـ.

نعيم بن حكيم  بخاری کے راویوں میں سے ہے اور يحيى بن معين نے اس کی توثیق کی ہے ۔

مزى نے تهذيب الكمال میں لکھا ہے :

وقال عبد الخالق بن منصور، عن يحيى بن معين: ثقة. وكذلك قال العجلي... روى له البخاري في كتاب " رفع اليدين في الصلاة "، وأبو داود النسائي في " خصائص علي "، وفي " مسنده ".

عبد الخالق بن منصور نے  يحيى بن معين سے نقل کیا ہے کہ نعيم بن حكيم ثقہ ہے ، عجلى نے بھی یہی کہا ہے ، بخارى نے اپنی كتاب رفع اليدين فى الصلاة میں، ابوداود اور نسائى نے  خصائص علي  اور اپنی مسند میں اس سے  روایت نقل کیا  ہے .

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 29، ص 465، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ذهبى نے اس کے بارے میں کہا ہے :

نعيم بن حكيم المدائني، عن أبي مريم الثقفي، وعنه القطان، وشبابة، ثقة، مات 148.

نعيم بن حكيم نے ابومريم ثقفى سے روایت نقل کیا ہے اور قطان  اور شبابه نے اس سے روایت نقل کیا ہے اور (نعيم بن حكيم) قابل اعتماد ہے اور  148 ہجری کو دنیا سے چلا گیا ہے .

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج 2، ص 323، شماره: 5855، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.

لہذا اس روایت کی سند بلکل صحیح ہے .

ذهبى نے اپنی کتاب تاريخ الإسلام میں لکھا ہے :

عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: كان علي يلبس في الحر والشتاء القباء المحشو الثخين وما يبالي الحر، فأتاني أصحابي فقالوا: إنا قد رأينا من أمير المؤمنين شيئاً فهل رأيته فقلت: وما هو قالوا: رأيناه يخرج علينا في الحر الشديد في القباء المحشو وما يبالي الحر، ويخرج علينا في البرد الشديد في الثوبين الخفيفين وما يبالي البرد، فهل سمعت في ذلك شيئاً فقلت: لا.

فقالوا: سل لنا أباك فإنه يسمر معه. فسألته فقال: ما سمعت في ذلك شيئاً. فدخل عليه فسمر معه فسأله فقال علي: أوما شهدت معنا خيبر قال: بلى. قال: فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين دعا أبا بكر فعقد له وبعثه إلى القوم، فانطلق فلقي القوم، ثم جاء بالناس وقد هزموا فقال: بلى. قال: ثم بعث إلى عمر فعقد له وبعثه إلى القوم، فانطلق فلقي القوم فقاتلهم ثم رجع وقد هزم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: لأعطين الراية رجلاً يحبه الله ورسوله ويحب الله ورسوله يفتح الله عليه غير فرار فدعاني فأعطاني الراية، ثم قال: اللهم اكفه الحر والبرد، فما وجدت بعد ذلك حراً ولا برداً.

عبد الرحمن بن‌أبى ليلى کہتا ہے کہ : علي (عليه السلام) گردمیوں اور سردی کے موسم میں بھی موٹا کپڑا پھنتے تھے اور گرمی کی پروا نہیں کرتے تھے ،میرے دوست آئے اور مجھ سے کہا : ہم امیر المومنین علیہ السلام میں  ایک عجیب چیز دیکھ رہے ہیں کہ آپ گرمیوں میں موٹا لباس پھنتے ہیں اور سردیوں میں نازک لباس ، ان لوگوں نے مجھ سے کہا : کیا آپ نے اس بارے میں کچھ سنا ہے ؟

میں نے کہا : نہیں ۔ ان لوگوں نے کہا : آپ کے والد کیونکہ ان کے ساتھ رہتے تھے ،ان سے پوچھنا ۔میں نے اپنے والد سے پوچھا ،انہوں نے بھی کہا: مجھے معلوم نہیں ۔

لیکن میرے والد خود حضرت علی علیہ السلام کے پاس گئےاور ان سے  پوچھا ،انہوں نے جواب دیا : کیا خیبر میں ہمارے ساتھ نہیں تھے ؟ کہا : جی ہاں میں بھی تھا ۔ پھر فرمایا : کیا خیبر میں نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوبکر کو کچھ لوگوں کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ،لیکن شکست کھا کر واپس پلٹے ،پھر آپ نے عمر کو روانہ کیا وہ بھی اسی طرح واپس پلٹا ؟ میں نے کہا : جی میں نے یہ دیکھا ہے ۔

اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے فرمایا :

کل میں علم اس شخص کو دوں گا  جو اللہ اور اللہ کے رسول ص سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اللہ کے رسول ان سے محبت کرتے ہیں  اور خیبر ان کے ہاتھ سے فتح ہوگا ۔پھر مجھے آواز دی اور علم میرے ہاتھ میں دیا اور میرے لئے یوں دعا کی ؛ اے اللہ انہیں سردی اور گردمی سے بچائے ۔اس دعا کے بعد سے آج تک سردی اور گرمی کا مجھ پر اثر نہیں ہوتا اور سردی اور گرمی میرے لئے نقصان دہ نہیں ہے ۔

 

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 2، ص 412، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.

إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص 367، ح 32080، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

سيوطى  اور متقى هندى نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

( ش، حم، ه، والبزار وابن جرير وصَحَّحَهُ، طس، ك، ق فِي الدَّلائل، ض ).

السيوطي، الحافظ جلال الدين، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 16، ص 243؛

الهندي، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين (متوفاي975هـ)، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج 13، ص 53، تحقيق: محمود عمر الدمياطي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.

حاكم نيشابورى نے المستدرك، میں اس کو امیر المومنین ع سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

عن أبي ليلى عن علي أنه قال يا أبا ليلى أما كنت معنا بخيبر قال بلى والله كنت معكم قال فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث أبا بكر إلى خيبر فسار بالناس وانهزم حتى رجع.

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه

علي (عليه السلام)  نے  ابوليلى سے فرمایا : کیا تم خیبر میں نہیں تھا؟  کہا: جی میں بھی تھا اللہ کی قسم آپ کے ساتھ تھا ، علي (عليه السلام) نے فرمایا : رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے بعض کو ابوبكر کی کمانڈری میں خیبر فتح کرنے کے لئے روانہ فرمایا، لیکن یہ لوگ شکست کھا کر واپس پلٹے ۔

اس روایت کی سند صحیح ہے لیکن بخاری اور مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔

النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 3، ص 39، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م

  رسول اللہ  (ص) ابوبكر اور  عمر کے بھاگنے سے ناراض ہوئے :

إيجى نے المواقف میں نقل کیا ہے :

روي أنه صلى الله عليه وسلم بعث أبا بكر أولا فرجع منهزما وبعث عمر فرجع كذلك فغضب النبي صلى الله عليه وسلم لذلك فلما أصبح خرج إلى الناس ومعه راية فقال ( لأعطين.. ) إلى آخره.

نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے پہلے ابوبکر کو خیبر فتح کرنے کے لئے روانہ فرمایا ،وہ شکست کھا کر واپس پلٹے ،پحر عمر کو بھیجا وہ بھی شکست کھا کر واپس پلٹے  ، پیغمبر  (ص) ناراض ہوئے ،اگلے دن صبح کے وقت آپ کے ہاتھ میں پرچم تھا اور آپ نے فرمایا ۔۔۔۔... »

الإيجي، عضد الدين (متوفاي756هـ)، كتاب المواقف، ج 3، ص 634، تحقيق: عبد الرحمن عميرة، ناشر: دار الجيل، لبنان، بيروت، الطبعة: الأولى، 1417هـ، 1997م.

القاضى الجرجانى، علي بن محمد (متوفاي 816هـ)، شرح المواقف، ج 8، ص 369. ناشر: مطبعة السعادة - مصر، الطبعة الأولى، 1325هـ - 1907 م.

عمر کا جنگ حنین سے بھاگنا :

محمد بن اسماعيل بخارى نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے :

عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضى الله عنه قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَامَ حُنَيْن، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَة ٌ، فَرَأَيْتُ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِكِينَ عَلاَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاسْتَدَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ حَتَّى ضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَىَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ مَا بَالُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا....

 ابوقتادہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو (ابتداء میںاسلامی لشکر ہارنے لگا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ مشرکین کے لشکر کا ایک شخص ایک مسلمان کے اوپر چڑھا ہوا ہے۔ اس لیے میں فوراً ہی گھوم پڑا اور اس کے پیچھے سے آ کر تلوار اس کی گردن پر ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا، اور مجھے اتنی زور سے دبایا کہ میری روح قبض ہونے کو تھی۔ آخر جب وہ مر گیا ، تب کہیں جا کر اس نے مجھے چھوڑا۔ اس کے بعد مجھے عمر بن خطاب ملے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4 ص 58، ح3142، كتاب فرض الخمس، ب 18، باب مَنْ لَمْ يُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ و ج 5 ص 100، كتاب المغازى، ب 54، باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ( وَيَوْمَ حُنَيْن...، ح 4321، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ – 1987م.

صالحى شامى نے  سبل الهدى  میں لکھا ہے :

وكان المسلمون بلغ أقصى هزيمتهم مكة، ثم كروا بعد وتراجعوا، فاسهم لهم رسول الله، صلى الله عليه وسلم، جميعا، وكانت أم الحارث الانصارية آخذة بخطام جمل الحارث زوجها، وكان يسمى المجسار فقالت: يا حار أتترك رسول الله، صلى الله عليه وسلم، والناس يولون منهزمين؟ وهي لا تفارقه، قالت: فمر علي عمر بن الخطاب فقلت: يا عمر ما هذا؟ قال: أمر الله تعالى.

الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفاي942هـ)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج 5، ص 331، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ.

 جنگ حنین میں بعض مسلمان بھاگ نکلے ،یہاں تک کہ بعض مدینہ پہنچ گئے اور پھر واپس پلٹے ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک حصہ دیا ، ام‌ّحارث انصارى نے اپنے شوہر کی سواری کہ جس کا نام مجسار تھا ،اس کا مہار پکڑا اور کہا : اے حارث!  کیا تو نے  رسول  اللہ ص کو تنہا چھوڑا ؟ سب لوگ بھاگ رہے تھے لیکن یہ عورت اپنے شوہر کو نہیں چھوڑ رہی تھی ، خود وہ کہتی ہے ،عمر ہمارے سامنے سے بھاگ رہا تھا میں نے کہا : اے عمر یہ کیا کام ہے جو تم کر رہے ہو ؟ عمر نے کہا : یہ اللہ کا فرمان ہے ۔

ابن حجر عسقلانى نے فتح الباري میں ، عينى  نے  عمدة القاري میں ، شوكانى نے  نيل الأوطار میں اور  عظيم آبادى نے عون المعبود میں ، عمر کے اس قول کی وجیہ میں لکھا ہے :

قوله ( أمر الله ) أي حكم الله وما قضى به.

«امر الله» کا معنی یہ ہے کہ اس وقت قضا و قدر الهى یہ ہے کہ ہم بھاگیں ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 8، ص 29، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 17، ص 299، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

العظيم آبادي، محمد شمس الحق (متوفاي1329هـ)، عون المعبود شرح سنن أبي داود، ج 7 ص 275، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1995م.

اگر عمر کی اس بات کو قبول کرئے ، تو دنیا میں کوئی بھی گناہ گار دنیا میں باقی نہیں رہے گا کیونکہ سب اپنے گناہوں کی اس طرح توجیہ کر سکتا ہے ۔ البتہ ممکن ہے عمر کا مقصود یہ ہو کہ اس وقت اللہ کا حکم یہ ہے کہ ہم جنگ سے بھاگ نکلے ،جیساکہ عینی نے عمدة‌ القارى میں ایک اور جگہ پر لکھا ہے :

( قال: أمر الله )، أي: قال عمر: جاء أمر الله تعالى.

العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 15، ص 68، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

اگر یہی معنی ہو تو اس سے مسئلہ اور زیادہ خراب ہوگا کیونکہ نہ صرف جنگ سے بھاگ رہا ہے بلکہ اپنے اس کام کو اللہ کا حکم کہہ کر اس کام کو اللہ کی طرف نسبت دئے رہا ہے،

اب اولا: یہ بات اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے ، جنگ سے بھاگ نکلا تو اس پر اللہ ناراض ہوگا اور وہ اللہ غیض و غضب کا شکار ہوگا ۔:

يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفًا فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَار.

 وَ مَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئذٍ دُبُرَهُ إِلا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيزًِّا إِلىَ‏ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَ مَأْوَئهُ

اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا

اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناه لینے آتا ہو وه مستثنیٰ ہے*۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وه اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا وه بہت ہی بری جگہ ہے!.!.

ثانياً:  یہ وہی جاہلانہ اور مشرکوں کا طرز فکر ہے جہاں یہ لوگ اپنے ایمان نہ لانے کو مشیت الہی قرار دیتے ہیں :

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِنْ شَيْء كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْم فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلاَّ تَخْرُصُون. َ الانعام: 6/148.

جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھیراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ ہمارے عذاب کا مزہ چکھ کر رہے کہدو کیا تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے لاؤ۔ تم لوگ تو بس گمان کے پیچھے چلتے اور اٹکل کے تیر چلاتے ہو۔

عمر بن خطاب کفار سے ڈرتا تھا  : 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عمر ابن خطاب کو کفار مکہ کی طرف بھیجنا چاہا تو عمر نے یہ کہہ کر جاننے سے انکار کیا : مجھے قریش سے اپنی جان کا خطرہ ہے۔

فَدَعَا عُمَرَ لِيَبْعَثَهُ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَخَافُ قُرَيْشًا عَلَى نَفْسِي وَلَيْسَ بِهَا مِنْ بَنِي عَدِيٍّ أَحَدٌ يَمْنَعُنِي وَقَدْ عَرَفَتْ قُرَيْشٌ عَدَاوَتِي إِيَّاهَا وَغِلْظَتِي عَلَيْهَا وَلَكِنْ أَدُلُّكَ عَلَى رَجُلٍ هُوَ أَعَزُّ مِنِّي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَهُ إِلَى قُرَيْشٍ يُخْبِرُهُمْ أَنَّهُ لَمْ يَأْتِ لِحَرْبٍ۔۔۔۔۔

مسند أحمد (4/ 324): المؤلف : أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني(المتوفى : 241هـ) الناشر : عالم الكتب – بيروت الطبعة : الأولى ، 1419هـ ـ 1998 م عدد الأجزاء : 6

استاد عبد الكريم مصري نے ابوبکر اور عثمان کی شجاعت کا انکار کیا ہے :

استاد عبد الكريم الخطيب مصري، کہ جو  رياض میں 1973  سے  1975 تک علوم تفسير یونورسٹی کا استاد تھا ،وہ ابوبکر کی شجاعت کے بارے لکھتا ہے :

فأبو بكر لم يعرف عنه أنه كان ذا مكانة معروفة في مواقع القتال.

یہ کہ ابوبکر جنگوں میں کوئی خاص حیثیت رکھتا تھا ،ایسی چیز ہے جو معلوم نہیں ہے .

الخطيب، عبد الكريم، عمر بن الخطاب، ص 186، ط مصر،1961م

 اسی طرح اپنی ایک اور کتاب میں لکھتا ہے :

فحسان ابن ثابت ( رضي الله عنه ) لم يكن من المحاربين المعدودين في ميادين الحرب والنضال، ومثله غير واحد من صحابة الرسول كأبي بكر، وعثمان....

حسان بن ثابت، اور دوسرے بہت سے اصحاب جیسے  ابوبكر و عثمان وغیرہ میدان جنگ کے شہسوار نہیں تھے ۔

الخطيب، عبد الكريم‌، علي بن أبي طالب بقية النبوة وخاتم الخلافة، ص 130 ـ 133، ناشر: مطبعة السنة المحمدية، ط مصر، الطبعة الأولى، 1386هـ .

ابوبكر نے کسی جنگ میں کوئی خاص کار نامہ انجام نہیں دیا ہے :

اس سلسلے کے آخری بحث میں مناسب ہے کہ أبي‌الحديد کی وہ بات نقل کیجائے جو انہوں نے اپنے استاد ابوجعفر اسكافى سے نقل کیا ہے :

وهو أضعف المسلمين جناناً، وأقلهم عند العرب ترةً، لم يرم قط بسهم، ولا سل سيفاً، ولا أراق دماً.

أبو بكر عقل کے لحاض سے سب سے ضعیف تھا اور شجاعت کے لحاظ سے بھی نچلے درجے کا تھا ،نہ تلور چلائی نہ کسی کا خون بہایا ۔

إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 13، ص 170، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.

الجاحظ، أبى عثمان عمرو بن بحر (متوفاي255هـ)، العثمانية، ص230، ناشر: دار الكتب العربي ـ مصر.

ابن تيميه کی نگاہ میں شجاعت کا معنی :

جب ابن تیمیہ یہ دیکھتا ہے کہ ابوبکر نے کسی جنگ میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا ہے اور رسول اللہ ص کے زمانے کی کسی جنگ میں بھی کسی کافر کو قتل نہیں کیا ہے تو اس کی توجیہ میں لکھتا ہے :

 والقتال يكون بالدعاء كما يكون باليد قال النبي صلى الله عليه وسلم هل ترزقون وتنصرون إلا بضعفائكم بدعائهم وصلاتهم وإخلاصهم.

جنگ جس طرح سے ہاتھ ہوتی ہے ،کبھی دعا سے بھی ہوتی ہے جیساکہ  رسول خدا صلى الله عليه ( وآله ) نے فرمایا : کیا ایسا نہیں ہے کہ لوگ دعا اور اخلاص کے ساتھ راز و نیاز سے اپنے ضعیفوں کو رزق و روزی دیتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ؟.

الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، منهاج السنة النبوية، ج4، ص 482، تحقيق د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ.

  ایک اور جگے پر  «شجاعت » کے معنی  میں تحریف کرتے ہوئے لکھتا ہے :

 إذا كانت الشجاعة المطلوبة من الأئمة شجاعة القلب، فلا ريب أن أبا بكر كان أشجع من عمر، وعمر أشجع من عثمان وعلي وطلحة والزبير، وكان يوم بدر مع النبي في العريش.

الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 8، ص 79، تحقيق د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ.

اگر لیڈروں کی شجاعت سے مراد قلبی شجاعت ہو تو ابوبکر  ،عمر سے زیادہ شجاع تھا اور عمر عثمان ،علی اور طلحہ و زبیر سے زیادہ شجاع تھا ،بدر کے دن وہ رسول اللہ ص کے ساتھ ان کے خیمے میں بیھٹا ہوا تھا ۔

لہذا شجاعت کی دو قسم ہے : 1. شجاعت کو وہی رائج معنی جو سب سمجھتے اور جانتے ہیں ؛ 2. شجاعت کا وہ معنی جو ابن تیمیہ نے پیش کیا ہے یعنی ، جنگ سے دور بیٹھ کر جنگ کا نظارہ کرنا ۔

کیا  «رحماء بينهم» عمر کو بھی شامل ہوسکتا ہے ؟:

دوسری صفت کہ جو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ عليه وآله وسلم کے اصحاب کے لئے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ اصحاب آپس میں ایک دوسرے کی نسبت سے مہربان ہیں۔

یعنی مومنوں کے درمیان جنگ و جدال اور دشمنی نہیں ہونی چاہئے ،حقیقت میں اسلامی معاشرے کے اصول و قوانین میں سے ایک لوگوں کے آپس میں الفت ،ہمدلی اور پیار و محبت ہونا ہے ۔

اب اس صفت کی تناظر میں ہم خلیفہ دوم کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خلیفہ دوم میں مذکورہ صفت موجود تھی یا نہیں۔

بحث کے شروع میں ہم رسول اللہ صلى الله عليه وآله کی اخلاقی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور پھر ان کو خلیفہ دوم ، جناب عمر بن خطاب کی صفات کے ساتھ موازنہ کریں گے ۔

تاکہ خلیفہ دوم  کہ جن کا ادعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین ہونے کا ہے، ہم یہ ثابت کریں گے کہ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اخلاقی اعتبار سے کوئی شباھت موجود نہیں ہے ۔

  بلکہ خلیفہ دوم جبلی اور فطری طور پر متشدد ،سخت مزاج اور خشن تھا ۔لہذا قرآن مجید کی اس آیت میں موجود « ایک دوسرے کے ساتھ مہربان اور رحم دل » ہونے کی صفت جناب خلیفہ دوم کو شامل نہیں ہے ۔ اسی لئے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے خلیفہ دوم کی طرف سے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کے گھر پر حملے کی توجیہ صحیح نہیں ہے ۔

پيامبر اكرم (ص) کی اخلاقی خصوصیات :

قرآن كريم نے رسول اكرم صلى الله عليه وآله وسلم، کی سب سے اہم صفت ،آپ  کے خوش اخلاق ہونے کو قرار دیا ہے :

وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُق عَظِيم. القلم /4.

 بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں ‏.

اسی طرح  رسول اللہ صلى الله عليه وآله کی صفات میں سے  مہربان اور نرم  دل  ہونے کو قرار دیا ہے  کہ جو تشدد ،سخت اور تند مزاج ہونے کی آپ سے نفی کی ہے ۔

فَبِمَا رَحْمَة مِنْ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظّاً غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَآل عمران، / 159.

اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔

قرآن کریم کے علاوہ آنحضرت کے اصحاب اور تاریخ اور سیرہ نگاروں نے بہت ہی خوبصورت انداز میں آپ کی اخلاقی خصوصیات کا ذکر کیا ہے ؛

متقى هندى لکھتا ہے :

كان دائم البُشر، سهل الخلق، لين الجانب ليس بفظّ ولا غليظ ولا ضخّاب ولا فحّاش ولا عيّاب.

آپ ہمیشہ خوش رو ،خوش رفتار اور نرم مزاج تھے اور آپ متشدد ،سخت ، تند مزاج ، چیخ و پکار کرنے والے ، برا بلا کہنے والے اور لوگوں کے عیب تلاش کرنے والے نہیں تھے۔

الهندي، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين (متوفاي975هـ)، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج 7، ص 166، تحقيق: محمود عمر الدمياطي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.

طبرانى لکھتا ہے ‌:

كان رسول الله رحيماً رقيقاً حليماً.

رسول اللہ  (صلى الله عليه وآله) وسلم مهربان، دلسوز  اور  بردبار تھے .

الطبراني، سليمان بن أحمد بن أيوب أبو القاسم (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج 19، ص 288، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ – 1983م.

پیغمبر ص کا اپنے خادم کے ساتھ رویہ

انس بن مالك کہتے ہیں :

خدمتُ رسولَ الله صلي الله عليه وآله وسلم عشر سنين، لا والله ما سبّني بسبّة قطّ، ولا قال لي: أفّ قطّ، ولا قال لشيء فعلتُه لِمَ فعلتَه؟ ولا لشيء لم أفعله لِمَ لا فعلتَه.

میں دس سال تک رسول خدا صلى الله عليه وآله کی خدمت کے فراٗئض انجام دیتا رہا ،اللہ کی قسم آُپ نے کبھی مجھے برا بلا نہیں کہا ، کبھی أفّ تک مجھے نہیں کہا اور جو بھی کام انجم  دیتا تو مجھ سے یہ نہیں کہتا کہ کیوں ایسا کیا ؟ اور اگر کوئی کام انجام نہیں دیتا تو یہ نہیں فرماتے کیوں انجام نہیں دیا ؟

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 3، ص 197 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 9، ص 443، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 1، ص 29، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م

 

جو اخلاقی صفات قرآن مجید اور تاریخ نگاروں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہو آلہ وسلم کی صفات کے طور پر نقل کیا ہے ،اھل سنت کے علماء نے اس کے برعکس اور الٹی صفات کو خلیفہ کی صفات کے طور پر نقل کیا ہے  اورخلیفہ دوم کو متشدد ، سخت مزاج اور بد اخلاق انسان کے طور پر پیش کیا ہے کہ جنکے مطابق خلیفہ دوم مسلمانوں کے ساتھ سختی سے پیش آتا اور اصحاب ان کے بدزبان اور سخت مزاج ہونے پر شاکی رہتے ۔  

 یہاں ہم اھل سنت کی ہی کتابوں سے خلیفہ دوم کی طرف سے اصحاب اور مسلمانوں کے ساتھ بد رفتاری اور  تشدد کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں۔

 

خلیفہ دوم ذاتی طور پر سخت مزاج تھا:

متشدد ہونا اور سخت مزاجی خلیفہ دوم کی طبیعت اور ذات کا حصہ تھا یہاں تک کہ نرم مزاجی کو وہ اپنے لئے عیب سمجھتا تھا ۔

ابن ابى الحديد معتزلى نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

كان عمر شديدَ الغِلْظَة، وَعْرَ الجانب، خَشِنَ المَلْمَس، دائم العبوس، كان يعتقد أنّ ذلك هو الفضيلة وأنّ خلافه نقص.

 

عمر بہت ہی سخت گیر ، سخت دل آدمی اور بداخلاق تھا ،تیوری چڑھا کر منہ بگاڑئے رہتا اور یہ خیال کرتا تھا کہ ترش روئی اور منہ بگاڑے رہنا ایک فضیلت ہے اور اس کے برخلاف رویہ اپنانا عیب ہے .

إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 6، ص 372، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.

محمد بن سعد  نے  الطبقات الكبرى میں لکھا ہے :

كان أوّل كلام تكلم به عمر حين صعد المنبر أنّ قال: «اللّهم إنّى شديد ] غليظ[ فليّنى، وإنّى ضعيف فقوّني، وإنّى بخيل فسخّني.

  عمر بن الخطاب جب ممبر پر چڑھتا تو سب سے پہلے لوگوں سے کہتا :

اے اللہ میں سخت مزاج ہوں ،مجھے نرم مزاج قرار دئے ، میں ضعیف ہوں مجھے طاقتور بنا دئے ،میں بخیل ہوں مجھے سخی بنادئے

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 274، ناشر: دار صادر - بيروت.

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 3، ص 392، .

إبن جوزي، عبد الرحمن بن علي بن محمد أبو الفرج (متوفاي597هـ)، صفة الصفوة، ج 1، ص 280، تحقيق: محمود فاخوري - د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م.

السيوطي، عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، تاريخ الخلفاء، ج 1، ص 139، تحقيق: محمد محي الدين عبد الحميد، ناشر: مطبعة السعادة - مصر، الطبعة: الأولى، 1371هـ - 1952م.

الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 1، ص 256، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.

امير المومنین علي عليه السلام نے بھی  خطبه شقشقيّه (خطبه سوّم نهج البلاغه) میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے :

فَصَيَّرَهَا فِي حَوْزَةٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُهَا وَ يَخْشُنُ مَسُّهَا وَ يَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا وَ الِاعْتِذَارُ مِنْهَا.۔۔۔۔۔۔

ابوبكر نے خلافت کو ایک ایسی درشت اور سخت منزل میں رکھ دیا ہے جس کے زخم کاری ہیں اورجس کو چھونے سے بھی درشتی کا احساس ہوتا ہے۔لغزشوں کی کثرت ہے اورمعذرتوں کی بہتات! اس کو برداشت کرنے والا ایس ہی ہے جیسے سر کش اونٹنی کا سوار کہ مہار کھنیچ لے تو ناک زخمی ہو جائے اور ڈھیل دیدے تو ہلاکتوں میں کود پڑے۔تو خدا کی قسم لوگ ایک کجروی ' سر کشی ' تلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔

 

عمر کا اسلام قبول کرنے سے پہلے تشدد آمیز رویہ :

تاریخ کی صفحات میں عمر کے تشدد آمیز رفتار کے بہت سے ایسے نمونے موجود ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت مزاجی اور تند خوئی عمر کی طبیعت کا حصہ تھی :

مسلمان کنیز کو شکنجہ دینا :

 

بلاذرى نے انساب الأشراف میں، ابن اثير  نے  الكامل میں اور صالحى شامى نے  سبل الهدي، میں مسلمان ہونے کے جرم میں کفار قریش کی طرف سے شکنجہ کا شکار ہونے والوں کا ذکر کیا ہے انہیں میں سے ایک  «لبيبه» کنیز کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو جناب عمر کی کنیز تھی ، ان کے بارے میں لکھا ہے ؛

أسلمَتْ قبل إسلام عمر بن الخطّاب، وكان يعذّبها حتى تفتن، ثم يدعها ويقول: إنّى لم ارعك إلاّ سآمة.

 وہ کنیز  عمر بن خطّاب سے پہلے مسلمان ہوگی ،عمر انہیں شکنجہ دیتا تھا تاکہ وہ دین کو چھوڑ دئے اور جب سزا اور شکنجہ دے دے کر تھک جاتا تو اسے چھوڑ دیتا اور یہ کہتا کہ میں تجھے سزا دئے دئے کر تھک گیا ہوں.

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 1، ص 84 ؛

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 1، ص 591، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛

الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفاي942هـ)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج 2، ص 361، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ؛

كامل ابن اثير، ج 2، ص 69 و إمتاع الأسماع، ج 9، ص 113 و سبل الهدى والرشاد، ج 2، ص 361، فضائل الصحابة، أحمد بن حنبل، ج 1، ص 120.

ابن هشام  نے  السيرة النبوية میں ، احمد بن حنبل نے  فضائل الصحابة مین اور اسی طرح اھل سنت کے بہت سے علما نے نقل کیا ہے :

ومر أبو بكر بجارية بني مؤمل حي من بني عدي بن كعب وكانت مسلمة وعمر بن الخطاب يعذبها لتترك الإسلام وهو يومئذ مشرك وهو يضربها حتى إذا مل قال إني أعتذر إليك أني لم أتركك إلا ملالة فعل الله بك فتقول كذلك فعل الله بك...

ابوبكر، مسلمان ہونے والی ایک کنیز کے پاس سے گزرا  یہ  بنو مؤمل  سے اور عدى بن كعب،کے خاندان سے تھی ،دیکھا عمر انہیں مار رہا ہے تاکہ وہ اسلام سے ہاتھ اٹھائے، اتنا مارا کہ وہ خود تھک گیا اور پھر کہا ابھی تجھے مارنا چھوڑا ہے تو یہ اس لئے ہے کہ تجھے مار مار کر اب میں خود ہی تھگ گیا ہوں لہذا اس لئے مجھے معاف کرنا [کیونکہ میں اب تجھے مار نہیں رہا ہوں ]

کنیز نے جواب میں کہا : اللہ بھی تیرے ساتھ ایسا رفتار کرئے گا ۔

الحميري المعافري، عبد الملك بن هشام بن أيوب أبو محمد (متوفاي213هـ)، السيرة النبوية، ج 2، ص 161، تحقيق طه عبد الرءوف سعد، ناشر: دار الجيل، الطبعة: الأولى، بيروت – 1411هـ؛

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبد الله (متوفاي241هـ)، فضائل الصحابة، ج 1، ص 120، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ – 1983م؛

الكلاعي الأندلسي، أبو الربيع سليمان بن موسى (متوفاي634هـ)، الإكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله والثلاثة الخلفاء، ج 1، ص 238، تحقيق د. محمد كمال الدين عز الدين علي، ناشر: عالم الكتب - بيروت، الطبعة: الأولى، 1417هـ؛

الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 244؛

الطبري، أحمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفر (متوفاي694هـ)، الرياض النضرة في مناقب العشرة، ج 2، ص 24، تحقيق عيسى عبد الله محمد مانع الحميري، ناشر: دار الغرب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م؛

النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 16، ص 162، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.

عمر کا مسلمانوں کے ساتھ سخت رویہ :

بلاذرى نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

فكانت فيه غلظة على المسلمين.

عمر مسلمانوں کے ساتھ غلظ اور سخت مزاج تھا .

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 10، ص 301.

عمر نے اپنی بہن کو مارا :

عمر بن خطّاب نے اپنی بہن فاطمه اور ان کے شوہر سعيد بن زيد مطّلع سے کہا کہ سنا ہے کہ تم دونوں محمد ص کے دین کے پیرو ہوئے ہوں ،یہ کہ  اور پھر اپنے بہنوی پر حملہ کیا ۔

فقامت فاطمة لتكفّه عنه فضربها فشجّها...

ان کی بہن  فاطمه نے شوہر سے دفاع کیا تو عمر نے انہیں اتنا مارا کہ وہ زخمی ہوگی اور ان کے بدن سے خون جاری ہوا ۔

الحميري المعافري، عبد الملك بن هشام بن أيوب أبو محمد (متوفاي213هـ)، السيرة النبوية، ج 2، ص 189، تحقيق طه عبد الرءوف سعد، ناشر: دار الجيل، الطبعة: الأولى، بيروت – 1411هـ؛

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبد الله (متوفاي241هـ)، فضائل الصحابة، ج 1، ص 280، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ – 1983م؛

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 385؛

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، الثقات، ج 1، ص 74، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م؛

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 1، ص 603، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛

الأنصاري القرطبي، أبو عبد الله محمد بن أحمد (متوفاي671، الجامع لأحكام القرآن، ج 11، ص 164، ناشر: دار الشعب – القاهرة؛

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 3، ص 80،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

مسلمان ہونے کے بعد مسلمانوں سے سخت مزاجی اور بدرفتاری :

رسول خدا (ص) کے ساتھ عمر کی تند مزاجی :

عمر کا سخت گیرانہ رویہ اور خشونت صرف عام بیچارہ مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں تھی بلکہ  رسول خدا صلى الله عليه وآله کے ساتھ بھی اسی رویہ سے پیش آتا تھا .

ابوهريره پر حملہ اور رسول خدا (ص) پر اعتراض :

مسلم نے پیغمبر صلى الله عليه وآله سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ نے ابوهريره سے فرمایا :

فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ.

جاو اور جو بھی لا الہ الا اللہ کی گواہی دئے اور دل و جان سے اس کو قبول کرئے تو اس کو جنت کی بشات دو  ۔

ابوهريره کہتا ہے : سب سے پہلے عمر سے میری ملاقات ہوئی ، پيامبر صلى الله عليه وآله کے پیغام کو اس کے سامنے بیان کیا ۔

فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَىَّ فَخَرَرْتُ لاِسْتِي.

یہ سن کر عمر نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا ۔

ابوہریرہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لوٹا ور رونے والا ہی تھا ۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا۔میں نے کہا: میں عمر سے ملا اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا پہنچایا۔ انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سے کہا: ”تو نے ایسا کیوں کیا؟عمر نے کہا ن: ”یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابوہریرہ کو آپ نے اپنے جوتے دے کر بھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھے تو اس کو جنت کی خوشخبری دو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔

قَالَ فَلاَ تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ.

عمر نے کہا: آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ایسا نہ کیجئیے کیونکہ میں ڈرتا ہوں، لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے ان کو عمل کرنے دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ان کو عمل کرنے دو۔

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 1، ص 44، ح 54، (باب من لقى الله بالايمان و هو غير شاك)، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

 

پيامبراكرم (ص) کو تکلیف پہنچانا :

بخارى نے نقل کیا ہے :

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى الله عنهم أَنَّهُ قَالَ لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَثَبْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَىّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ. فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ. إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ فَغُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا... قَالَ فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.

عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں نے آپ کی طرف بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ سن کر مسکرا دئیے اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔ لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے ‘ میں نے نماز پڑھانی پسند کی اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔ عمر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سورۃ براۃ کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔ کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ آپ ہرگز نہ پڑھائیے۔آیت «وهم فاسقون‏» تک اور اس کی قبر پر بھی مت کھڑے ہوں ‘ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیں مانا اور مرے بھی تو نافرمان رہ کر۔ عمر نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور اپنی اسی دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول (ہر مصلحت کو) زیادہ جانتے ہیں۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص 459، 1300، كتاب الجنائز، ب 85، باب مَا يُكْرَهُ مِنَ الصَّلاَةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ وَالاِسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .

بخارى نے دوسری روایت میں نقل کیا ہے :

فَقَالَ (رسول اللّه لابن عبد اللّه بن أبي) آذِنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ. فَآذَنَهُ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَذَبَهُ عُمَرُ رضى الله عنه فَقَالَ: أَلَيْسَ اللَّهُ نَهَاكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ؟.

رسول خدا (ص) نے  عبد الله بن أبى کے بیٹے سے فرمایا : مجھے اجازت دو میں تیرے بابا پر نماز بڑوں ۔اس نے بھی اجازت دی ،جس وقت نماز پڑھنے لگے اس وقت عمر نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھنچا اور کہا : کیا اللہ نے آپ کو منافقوں پر ناز پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے ؟

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص 427، ح 1210، كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب الْكَفَنِ في الْقَمِيصِ الذي يُكَفُّ أو لَا يُكَفُّ وَمَنْ كُفِّنَ بِغَيْرِ قَمِيصٍ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .

تیسری روایت میں نقل ہے :

ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي عَلَيْهِ، فَأَخَذَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِثَوْبِهِ فَقَالَ تُصَلِّي عَلَيْهِ وَهْوَ مُنَافِقٌ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لَهُمْ.

پيامبر جنازہ پڑھنے کے لئے گھڑے ہوئے ، عمر  ابن خطاب نے آپ کا لباس کھینچا اور کہا : اس پر نماز پڑھ رہے ہو جبکہ یہ منافق ہے ،جبکہ اللہ نے آپ کو منافقوں کے لئے استغفار کرنے سے منع کیا ہے .

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1716، ح4395، كتاب التفسير، باب ولا تُصَلِّ على أَحَدٍ منهم مَاتَ أَبَدًا ولا تَقُمْ على قَبْرِهِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .

اب کیا یہ رسول خدا صلى الله عليه وآله کے ساتھ غلط رویہ اور غلط طریقہ نہیں ہے ؟ کیا عمر بن خطاب شریعت کے بانی سے زیادہ شرعی احکام سے واقف تھا ؟ کیا عمر  رسول خدا صلى الله عليه و آلہ وآله کے لئے ذمہ داری اور شرعی حکم کا تعین کرسکتا ہے ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شرعی حکم کا علم نہیں تھا ؟

کیا ایسا ممکن ہے کہ اللہ کے رسول ص کی مخالفت میں اور عمر بن خطاب کی موافقت میں آیت نازل ہو اور اللہ عمر بن خطاب کے عمل کی تائید کرئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کرئے ؟

واضح سی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اللہ کے اذن کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتے اور آپ کا ہر عمل وحی الہی کا ترجمان ہے ۔

قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَىَّ مِنْ رَبِّي هَذَا بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدىً وَرَحْمَةٌ لِقَوْم يُؤْمِنُونَ. الاعراف /203.

آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں ۔

قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کو آپ کے کردار ، رفتار اور گفتار پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِن وَلاَ مُؤْمِنَة إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلا مُّبِيناً. احزاب / 36 .

اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کسی چیز کا فیصلہ کرنے کے بعد اپنے کسی قسم کا  کوئی اختیار باقی نہیں رہتا*، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا ۔

یہ اللہ کا حکم ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفہ دوم بہت سے موارد میں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے کاموں پر شدید اعتراض کرتا ہے اور آپ کے فرامین کے آگے سر تسلیم خم نہیں ہوتا ۔

پيامبراكرم (ص) کی شان کے خلاف آپ کی طرف غلط نسبت :

اسلامی تاریخ کے تلخ واقعات میں سے ایک رسول خدا صلى الله عليه وآله اور عمر کے درمیان پیش آنے والا وہ مشہور واقعہ ہے کہ جو آپ کی زندگی کے آخری لمحات میں پیش آیا ۔ آپ بیمای کی حالت میں تھے ،آپ نے پاس بیٹھے ہوئے  اصحاب سے خطاب میں فرمایا : 

میرے لئے کاغذ لاکردو ،میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم لوگ گمراہ نہ ہوں۔ 

خليفه دوم اور اس کے ساتھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے دل کو تکلیف پہنچایا ،یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو اپنے پاس سے اٹھ کر چلے جانے کا حکم دیا :

جیساکہ ابن عباس سے بخاری نے اس واقعے کو یوں نقل کیا ہے ؛

عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضى الله عنهما أَنَّهُ قَالَ يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى خَضَبَ دَمْعُهُ الْحَصْبَاءَ فَقَالَ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَجَعُهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ فَقَالَ " ائْتُونِي بِكِتَاب أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا ". فَتَنَازَعُوا وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا هَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.

 

بن عباس نے بیان کیا کہ جمعرات کے دن ‘ اور معلوم ہے جمعرات کا دن کیا ہے؟ پھر آپ اتنا روئے کہ کنکریاں تک بھیگ گئیں۔ آخر آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری میں شدت اسی جمعرات کے دن ہوئی تھی۔ تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ ‘ تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھوا جاؤں کہ تم لوگ اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو سکو ۔

 اس پر صحابہ میں اختلاف ہو گیا۔ جبکہ نبی کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں ہے۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہزیان گوئی اور بے ربط گفتگو کر رہے ہیں ۔

 

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  اب مجھے میری حالت پر چھوڑ دو ‘ میں جس حال میں اس وقت ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم کرانا چاہتے ہو۔ ۔۔۔۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1111، ح2888، كتاب الجهاد والسير، بَاب جَوَائِزِ الْوَفْدِ هل يُسْتَشْفَعُ إلى أَهْلِ الذِّمَّةِ وَمُعَامَلَتِهِمْ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .

ابن اثير نے  النهاية میں لکھا ہے :

أهْجَر في منطقه يُهجِر إهجارا: إذا أفحش، وكذلك إذا أكثر الكلام فيما لا ينبغي... والقائل كان عمر.

أهَجَرَ، يعنى ناشائستہ گفتگو ، اسی طرح جہاں مناسب نہیں ہے وہاں زیادہ گفتگو کرنا اور یہ کہنا والا عمر ۔

الجزري، أبو السعادات المبارك بن محمد (متوفاي606هـ)، النهاية في غريب الحديث والأثر، ج 5، ص 244، تحقيق طاهر أحمد الزاوى - محمود محمد الطناحي، ناشر: المكتبة العلمية - بيروت - 1399هـ - 1979م.

الأفريقي المصري، محمد بن مكرم بن منظور (متوفاي711هـ)، لسان العرب، ج 5، ص 254، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى.

عينى نے صحيح بخارى کی شرح میں لکھا ہے :

هذه العبارات كلها فيها ترك الأدب والذكر بما لا يليق بحق النبي صلى الله عليه وسلم، ولقد أفحش من أتى بهذه العبارة.

یہ الفاظ اور تعبیرات سب پیغمبر [ص] کی نسبت سے ادب کے خلاف باتیں ہیں۔ پیغمبر خدا [ص] سے اس طرح گفتگو کرنا مناسب نہیں تھا اور جس نے یہ نسبت آپ کی طرف دی ہے اس نے نازیبا کلمات ادا کیے ہیں ۔

العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص 298، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

عمر کا  رسول خدا (ص) کی مخالفت :

احمد بن حنبل لکھتا ہے :

عن جابر ان النبي صلى الله عليه وسلم دعا عند موته بصحيفة ليكتب فيها كتابا لا يضلون بعده قال فخالف عليها عمر بن الخطاب حتى رفضها.

  جابر بن عبد الله سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله نے اپنی وفات کے وقت کاغذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسی نوتشتہ لکھ دئے کہ لوگ اس کے بعد گمراہ نہ ہوں ،لیکن عمر نے مخالفت کی اور کام انجام نہیں دیا  ْ

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 3، ص 346، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

هيثمى نے مجمع الزوائد میں لکھا ہے :

عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا عند موته بصحيفة ليكتب فيها كتابا لا يضلون بعده ولا يضلون وكان في البيت لغط فتكلم عمر بن الخطاب فرفضها رسول الله صلى الله عليه وسلم رواه أبو يعلي وعنده في رواية يكتب فيها كتابا لأمته قال لا يظلمون ولا يظلمون ورجال الجميع رجال الصحيح.

جابر بن عبد الله سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله نے اپنی وفات کے وقت کاغذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسا نوتشتہ لکھ دئے کہ لوگ اس کے بعد نہ کوئی گمراہ ہو نہ کسی کو گمراہ کر سکے ، عمر نے ایسی بات کہہ دی کہ آپ لکھنے سے منصرف ہوگے ، اس روایت کو  ابويعلي نے نقل کیا ہے ان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ اس کے مطابق امت کو ایک نسخہ لکھنا چاہتے تھے ، تاکہ نہ کسی پر ظلم ہو نہ تم پر کوئی ظلم کرئے ۔اس روایات کے سارے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں ۔  

الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفاي807هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 4، ص 214 ـ215، باب وصية رسول الله، ناشر: دار الريان للتراث /‏ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت – 1407.

غزالى نے كتاب سر العالمين میں لکھا ہے :

ولما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قبل وفاته ائتوا بدواة وبيضاء لأزيل لكم إشكال الأمر واذكر لكم من المستحق لها بعدي. قال عمر رضي الله عنه دعوا الرجل فإنه ليهجر.

رسول خدا (ص) نے وفات سے پہلے فرمایا : مجھے قلم اور دوات لا کر دو تاکہ خلافت کے بارے میں نزاع اور جھگڑے ختم ہو اور ایسے شخص کو جانشین کے طور پر متعارف کرا لوں کہ جو اس مقام کے لئے زیادہ مناسب ہو ۔ عمر نے کہا : انہیں چھوڑو دو یہ شخص ہزیان گوئی کر رہا ہے۔ 

الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد (متوفاي505هـ)، سر العالمين وكشف ما في الدارين، ج 1، ص 18، تحقيق: محمد حسن محمد حسن إسماعيل وأحمد فريد المزيدي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1424هـ 2003م.

پیغمبر  (ص) کی رحلت کے بعد عمر کا شدت پسندانہ رویہ :

الف  سعد بن عباده کے قتل کا حکم :

سقیفہ کا واقعہ اور سقیفہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی خود ایک تفصیلی بحث ہے ۔

بخاری نے سقیفہ کے ماجرا کے بارے میں جناب عمر  کا یہ قول نقل کیا ہے :

جس وقت لوگ ابوبکر کی بیعت کر رہے تھےاس وقت ہجوم کی وجہ سے جناب سعد پیروں کے نیچے دب رہے تھے تو کسی نے کہا : !

فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ. فَقُلْتُ قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ.

تم لوگوں نے سعد بن عبادہ کو مار دیا تو میں نے کہا : اللہ سعد کو مار ڈالے ۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 6، ص 2506، ح6442، كتاب الحدود، بَاب رَجْمِ الْحُبْلَى في الزِّنَا إذا أَحْصَنَتْ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

محمد بن جرير طبرى لکھتا ہے : عمر نے کہا :

اقتلوه قتله اللّه ثم قام على رأسه فقال لقد هممت أن أطأك حتّى تندر عضدك، فأخذ سعد بلحية عمر، فقال: واللّه لو حصصت منه شعرة ما رجعت وفى فيك واضحة.

مارو اس کو اللہ اس کو قتل کرئے ،پھر عمر، سعد کے پاس کھڑا ہوا اور کہا :میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس قدر ٹھوکر لگائے یہاں تک کہ تمہاری ہڈیاں ٹوٹے ۔ سعد نے عمر سے کہا : اللہ کی قسم اگر میرے سر کے ایک بال بھی گرے تو تیرے ایک دانت بھی منہ میں صحیح و سالم نہیں رہے گا !.

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 244، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

ب: سعد بن عباده  پر نفاق کی تہمت :

طبرى نے نقل کیا ہے :

وقال قائل حين أوطىء سعد، قتلتم سعداً، فقال عمر: قتله اللّه إنّه منافق.

جس وقت سعد لوگوں کے پیروں کے درمیان میں تھے اس وقت کسی نے کہا :  سعد کو قتل کر دیا ، عمر نے کہا : اللہ اس کو مار دئے یہ منافق ہے ۔

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 244، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

ج  حضرت علي (ع) کا عمر کو دیکھنا بھی پسند نہ کرنا   :

حضرت فاطمه سلام الله عليها کی رحلت کے بعد لوگوں کی طرف سے منہ موڑنے کی وجہ سے حضرت علي عليه السلام نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا تاکہ ان سے گفتگو کرئے ،بخاری کے نقل کے مطابق :

فأرسل إلى أبي بكر ان ائتنا ولا يأتنا أحد معك، كراهيّةً لمحضر عمر.

فرمایا : اکیلا آںا کسی کو ساتھ لے کر نہیں آنا ، کیونکہ آپ عمر کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے .

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ – 1987م.

یقینا حضرت علي عليه السلام کا یہ رویہ عمر کی طرف سے انجام پانے والے شدت پسندانہ سلوک کا نتیجہ تھا ۔ اسی لئے امیر المومنین علیہ السلام عمر کو اپنے گھر میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے ۔

  طبرى اور ابن كثير نے واضح طور پر اس کو نقل کیا ہے :

وكره أن يأتيه عمر، لما علم من شدّة عمر.

علي عليه السلام نے ابوکر سے کہا: اکیلے آئے ،آپ عمر کو ساتھ لے کر آنے کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ عمر کی شدت پسندی کو آپ جانتے تھے ۔.

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 236، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 5، ص 286،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

الحميدي، محمد بن فتوح (متوفاي488هـ)، الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم، ج 1، ص 86، تحقيق د. علي حسين البواب، ناشر: دار ابن حزم - لبنان/ بيروت، الطبعة: الثانية، 1423هـ - 2002م.

د: ابوبکر کے ساتھ عمر کا شدت پسندانہ رویہ :

ابن حجر عسقلانى نے  الإصابة میں عيينة بن حصن کے زندگی نامے میں ایک دلچسپ بات نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہےکہ عمر اپنے قدمی اور وفادار دوست کے ساتھ بھی اچھے انداز میں پیش نہیں آتا تھا اور ان کے ساتھ بھی شدت پسندانہ رویہ رکھتا تھا ۔

جاء عيينة بن حصن والأقرع بن حابس إلى أبي بكر فقالا يا خليفة رسول اللّه إن عندنا أرضا سبخة ليس فيها نخلا ولا منفعة فإن رأيت أن تقطعناها لعلنا نحرثها ونزرعها فلعل اللّه ينفع بها بعد اليوم. فأقطعهم إيّاها وكتب لهما كتاباً وأشهد وعمر ليس في القوم، فانطلقا إلى عمر ليشهداه فوجداه يصلح بعيراً له... فلما سمع ما في الكتاب تناوله من أيديهما ثمّ تفل فيه فمحاه فتذمّراه وقالا مقالة شتم... فاقبلا إلى أبي بكر وهما يتذمران فقالا: واللّه ما ندري أنت الخليفة أم عمر؟ فقال: بل هو لو كان شيئا.

فجاء عمر مغضباً حتى وقف على أبي بكر فقال: أخبرني عن هذه الأرض التي أقطعتها هذين الرجلين أرض لك خاصة أم هي بين المسلمين عامّة، قال: فما حملك على أن تخصّ هذين بها دون جماعة المسلمين. قال: استشرت هؤلاء الذين حولي فأشاروا عليّ بذلك.

قال: فإذا استشرت هؤلاء الذين حولك أكل المسلمين أوسعت مشورة ورضى؟ فقال أبو بكر: قد كنت قلت لك إنّك أقوى على هذا الأمر منّي ولكنّك غلبتني.

عيينه بن حصن  اور  اقرع بن حابس ، ابوبكر کے پاس آئے اور کہا : اے رسول اللہ ص کے جانشین ؛ ہمارے نذدیک ایسی زمین ہے کہ جو شور زار  ہے اور کسی قسم کی کھیتی باڑی اس میں نہیں ہوئی ہے، اگر آپ وہ ہمیں دیں تو شاید ہم اس کو آباد کرئے اور اس کو کھیتی باڑی کے قابل بنا سکے ۔   

ابوبکر نے زمین انہیں دی اور ایک نوشتہ  پر دستخط کر کے دیا ۔ دونوں اس کو عمر کے پاس لے کر گئے ۔ دیکھا وہ اپنے اونٹ کی دیکھ بھال کر رہا ہے ،اس نوشتہ کو پڑھا اور اس پر تھوکا اور اس کو پھاڑ دیا ۔ یہ دونوں ناراض ہوا اور عمر کو برا بلا کہا ۔۔۔۔۔۔

اور پھر ناراضگی اور غصے کی حالت میں ابوبکر کے پاس گئے اور کہنے لگے : ہمیں پتہ نہیں چلا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر ؟

ابوبکر نے پوچھا : کیا ہوا ؟ اس وقت عمر غصے کی حالت میں ابوبکر کے پاس آیا اور  کہا: بولو کیوں زمین  کے اس قطعہ کو ان دونوں کے لئے دیا ؟ کیا زمین آپ کی ہے یا سارے مسلمانوں کی ہے ؟

ابوبکر نے جواب میں کہا : یہی جو لوگ دیکھ رہے ہو ان لوگوں سے میں نے مشورہ کیا اور یہ لوگ راضی ہوگئے ۔ عمر نے کہا : کیا ان لوگوں سے مشورہ سارے مسلمانوں کی رضایت کے ساتھ ہوئی ہے ؟ ابوبکر نے کہا : میں نے تم سے کہا تو تھا کہ خلافت کے لئے تم مجھ سے زیادہ مناسب ہو لیکن تم نے میرے گلے ڈالی ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 4، ص 769، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ – 1992م.

الآلوسي البغدادي، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج 10، ص 122، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

اصحاب کی طرف سے عمر کی خلافت پر شدید اعتراض :

ابن أبي شيبه نے  المصنف میں لکھا ہے :

عن وكيع، وابن إدريس، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن زُبيد بن الحارث، أن أبا بكر حين حضره الموت أرسل إلى عمر يستخلفه فقال الناس: تستخلف علينا فظاً غليظاً، ولو قد ولينا كان أفظ وأغلظ، فما تقول لربك إذا لقيته وقد استخلفت علينا عمر.

ابوبکر کی موت کا وقت قریب آیا تو عمر کو بلایا تاکہ انہیں جانشین بنائے  ،  اس وقت لوگوں [یعنی ایک دو کی بات نہیں] نے کہا : آپ نے بد زبان اور سخت دل اور سخت مزاج شخص کو ہمارے لئے اپنا جانشین بنایا ،اب یہ اگر ہمارے حاکم بنے تو اور زیادہ بدزبانی اور سختی سے ہمارے ساتھ پیش آئے گا ۔

اب اپنے پروردگار سے ملاقات کرو تو کیا جواب دو گے جبکہ آپ نے عمر کو ہمارے لئے اپنا جانشین بنایا ہے  ؟!

ابوبکر نے جواب میں کہا : کیا مجھے میرے پروردگار سے ڈرا رہے ہو؟ میں کہوں گا : اے اللہ میں نے آپ کے بہترین بندے کو جانشین بنایا ہے۔

 إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 7، ص 434، ح37056، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

اس روایت کی سند صحیح ہے ۔

وكيع بن الجراح:

ابن حجر نے ان کو: ثقه  اور حافظ کہا ہے .

تقريب التهذيب، ج2، ص283

إسماعيل بن ابوخالد:

 ابن حجر  کہتا ہے : وہ ثقہ اور قابل اعتماد ہے .

 تقريب التهذيب، ج1، ص93.

زُبيد بن الحارث:

ابن حجر کہتا ہے : وہ قابل اعتماد اور اھل عبادت ہے ان کی احادیث قابل استدلال اور احتجاج ہیں.

تقريب التهذيب، ج1، ص308.

 طلحه  اور  علي (عليه السلام) کا اعتراض :

محمد بن سعد نے طبقات میں صحیح سند نقل کیا ہے :

عن عائشة قالت لما حضرت أبا بكر (متوفاي استخلف عمر فدخل عليه علي وطلحة فقالا من استخلفت؟ قال: عمر. قالا: فماذا أنت قائل لربك؟۔۔۔۔

جناب عائشہ نقل کرتی ہے کہ جب ابوبکر کی وفات کا وقت قریب ہوا تو عمر کو اپنا جانشین بنایا،

حضرت علی علیہ السلام اور طلحه ،ابوبکر کے پاس گئے اور کہا : کس کو جانشین بنا رہے ہو؟ کہا : عمر کو ۔ ان دونوں نے کہا: اپنے پروردگار کو کیا جواب دو گے ؟ ابوبکر نے کہا :

کیا اللہ کی مجھے پہچان کرانا چاہتے ہو؟ میں تم دونوں سے زیادہ اللہ کو پہچانتا ہوں ۔

 الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 274، ناشر: دار صادر - بيروت؛

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 391،

اس روایت کی سند بھی قابل قبول ہے : 

ضحاك بن مخلد:

ابن معين  اور عجلى نے ان کو ثقہ کہا ہے .

تهذيب التهذيب، ج4، ص397. 

عبيد اللّه بن ابوزياد:

عجلى  اور حاكم نيشابورى نے ان کو ثقہ کہا ہے .

تهذيب التهذيب، ج 7، ص 14. 

يوسف بن ماهك:

 ابن معين اور نسائى  نے ان کو ثقہ کہا ہے ۔

تهذيب التهذيب، ج11، ص371.

 ابوبکر کی طرف سے عمر کو جانشین بنانے پر اعتراض کرنے والے ایک دو نہیں تھے بلکہ بہت سے اصحاب اس میں شامل تھے ، جیساکہ ابن عساکر کی روایت میں ہے ۔

طلحة، زبير، عثمان، سعد، عبد الرحمن  اور علي بن ابوطالب نيز وغیرہ کا نام خاص طور پر ذکر کیا ہے ؛

دخل على ابى بكر طلحة والزبير وعثمان وسعد وعبد الرحمن وعلى بن أبي طالب (عليه السلام) فقالوا: ماذا تقول لربك وقد استخلفت علينا عمر....

طلحه،‌ زبير، عثمان،‌ سعد، عبد الرحمن  اور علي بن ابوطالب، ابوبكر کے پاس گئے اور اس انتخاب پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : اللہ کو کیا جواب دو گے جبکہ عمر کو ہمارے لئے اپنا جانشین بنایا ہے ؟.

 ابن عساكر الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفاي571هـ)،‌ تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 44، ص 249، تحقيق محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1995م.

 

جیساکہ بیان ہوا مخالفت کرنے والے صرف چند لوگ نہیں تھے؛

دخل عليه المهاجرون والأنصار... فقالوا: نراك استخلفت علينا عمر، وقد عرفته، وعلمت بوائقه فينا وأنت بين أظهرنا، فكيف إذا وليّت عنا وأنت لاق الله عزوجل فسائلك، فما أنت قائل؟....

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 22، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م، با تحقيق شيري، ج1، ص37، و با تحقيق، زيني، ج1، ص24.

جب ابوبکر کی طرف سے عمر کو خلیفہ انتخاب کرنے کی خبر ملی تو مهاجرین اور انصار، ابوبکر کے پاس آئے اور کہا :ہمیں معلوم ہوا ہے کہ عمر کو ہمارے لئے خلیفہ بنایا ہے ۔

 جبکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہمارے ساتھ برتاو کرتا تھا ۔ اب جب انہیں ہمارے اوپر مسلط کیا اور حاکم بنایا ہے تو ہمارے ساتھ کیا کرئے گا؟ اور آپ جب اللہ سے ملاقات کرئے اور آپ سے اس بارے میں پوچھے تو کیا جواب دو گے ؟

 ابن تيميه نيز اعتراف مى‌كند:

وقد تكلّموا مع الصديق في ولاية عمر وقالوا ماذا تقول لربك وقد وليت علينا فظا غليظا؟...

 اصحابه نے ابوبكر کی طرف سے عمر کو جانشین بنانے کے بارے میں اعتراض کیا اور کہا : اللہ کو کیا جواب دو گے کہ جبکہ آپ نے ایک بدزبان اور سخت مزاج انسان کو ہمارے لئے اپنا جانشین اور ہمارا حاکم بنایا ہے ؟

الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 6، ص 155، تحقيق د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ.

 ابن تیمیہ ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

لما استخلفه أبو بكر كره خلافته طائفة حتى قال طلحة ماذا تقول لربك إذا وليت علينا فظا غليظا.

 ابوبکر نے عمر کو اپنا جانشین بنایا، اصحاب کی ایک جماعت اس پر ناراض ہوا ،یہاں تک کہ طلحہ نے کہا : اللہ کو کیا جواب دو گے جبکہ ایک بدزنان اور سخت دل انسان کو ہمارے اوپر مسلط کیا ہے ۔

 الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، منهاج السنة النبوية، ج7، ص 461، تحقيق د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ.

صحابہ کا عمر سے تقیہ :

تاریخی نقلوں کے مطابق بعض اصحاب عمر سے ڈر کی وجہ سے اپنی راے کا اظہار نہیں کرتے تھے اور حقیقت کو بیان نہیں کرتے تھے ۔

1. ابو هريره کا  عمر سے خوف:

ابو هريره عمر بن خطاب کی موت کے بعد کہتا تھا :

إنّى لأحدّث أحاديث لو تكلّمت بها فى زمن عمر أو عند عمر، لشجّ رأسي.

 میں ایسی احادیث نقل کر رہا ہوں کہ اگر ان کو عمر کے دور میں یا عمر کے اس نقل کرتا تو میرا سر پھوڑتا !.

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص 601، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 8، ص 107،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

ابن عبد البر لکھتا ہے :

وقال أبو هريرة: لقد حدثتكم بأحاديث لو حدثت بها زمن عمر، لضربني عمر بالدِرّة.

ابو هريره کہتا تھا : میں ابھی ایسی احادیث نقل کر رہا ہوں کہ اگر عمر کے دور میں ، انہیں نقل کرتا تو مجھے تازیانہ مارتا ۔

النمري، يوسف بن عبد البر (متوفاي463هـ، جامع بيان العلم وفضله، ج 2، ص 121، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت – 1398هـ.

ذهبى نے لکھا ہے ‌:

قال أبو سلمة: سألت أبا هريرة: أ كنت تحدث في زمان عمر هكذا؟ قال أبو هريرة: لو كنت أحدث في زمان عمر، مثل ما أحدثكم، لضربني بمخفقته.

ابوسلمه  نے  ابوهريره سے پوچھا : کیا عمر کا دور ہوتا تو ابھی کی طرح حدیث نقل کرتے ؟ کہا : اگر ابھی کی طرح عمر کے دور میں حدیث نقل کرتا تو مجھے تازیانہ مارتا.

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تذكرة الحفاظ، ج 1، ص 7، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى.

ابن كثير دمشقى نے ابوهريره سے نقل کیا ہے :

وقال: ما كنّا نستطيع أن نقول قال رسول الله (ص) حتّى قبض عمر.

تا جس وقت عمر زندہ تھا اس وقت ہم میں حدیث نقل کرنے کی جرات نہیں تھی .

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص 602، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 8، ص 107،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

2. ابن عباس عمر سے ڈرتا تھا :

بخارى نے نقل کیا ہے :

عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْن، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاس رضى الله عنهما يُحَدِّثُ أَنَّهُ قَالَ مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَة، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ. حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعْتُ وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الأَرَاكِ لِحَاجَة لَهُ قَالَ: فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ. قَالَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَة، فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ.

  ابن عباس نے بیان کیا کہ میں نے عمر سے ان عورتوں کے متعلق سوال کرنا چاہا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوپر زور کیا تھا۔ ایک سال اسی فکر میں رہا اور مجھے کوئی موقع نہیں ملتا تھا آخر ان کے ساتھ حج کے لیے نکلا (واپسی میں) جب ہم مقام ظہران میں تھے تو عمر رفع حاجت کے لیے گئے۔ پھر کہا کہ میرے لیے وضو کا پانی لاؤ، میں ایک برتن میں پانی لایا اور ان کو وضو کرانے لگا اس وقت مجھ کو موقع ملا۔ میں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل ایسا کیا تھا؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری نہ کی تھی انہوں نے کہا کہ وہ عائشہ اور حفصہ تھیں۔

 البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1866، ح4629، كتاب التفسير، بَاب تَبْتَغِي مرضات أَزْوَاجِكَ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 هـ – 1987م

طبرى اور ابن اثير  نے  ابن عباس سے نقل کیا ہے :

ایک دن عمر نے مجھ سے پوچھا : کیا جانتے ہو کہ حضرت محمّد (ص) کی وفات کے بعد آپ کی قوم [قریش ] نے کیوں خلافت کو (بنى هاشم) سے دور رکھی ؟

 ابن عباس کہتے ہیں کہ میں جواب نہیں دینا چاہتا تھا ، میں نے گہا اگ اس کی علت سے میں واقف نہ ہو تو امیر المومنین مجھے اس سے آگاہ کریں گے ۔ کہا کیونکہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ نبوت اور خلافت ایک ہی گھر میں جمع ہوجائے ،اگر ایسا ہوتا تو تم لوگ ،فخر کرتے  اسی لئے قریش نے خود ہی خلیفہ کا انتخاب کیا اور وہ لوگ اس انتخاب میں کامیاب بھی ہوئے ۔

میں نے جواب میں کہا :

إن تأذن لى فى الكلام وتمط عنّى الغضب تكلّمتُ.

کیا اجازت دو گے کہ میں بھی بات کروں ،آپ ناراض نہ ہو میں اس کی علت بتا دیتا ہوں ؟

 عمر نے مجھے اجازت دی اور میں نے بنى هاشم کو خلافت سے دور رکھنے کی وجہ بتائی  (طبرى نے ابن عباس کی باتوں کو نقل کیا ہے ، اب خلیفہ دوم ابن عباس کی باتوں کی وجہ سے سخت ناراض ہوا اور کہا :

أبت والله قلوبكم يا بني هاشم إلاّ حسداً ما يحول، وضِغناً وغَشّاً ما يزول

 اللہ کی قسم !   تم بنی ہاشم کے دلوں میں حسد ہے جو ختم نہیں ہوگا اور تمہارے کینہ توزی اور دشمنی ختم نہیں ہوگی ۔

 میں نے جواب میں کہا :

مهلاً يا أميرالمؤمنين! لا تَصِفْ قلوب قوم أذهب الله عنهم الرّجس وطهّرهم تطهيراً.

اميرالمؤمنين! سنبھل کر بولنا؛ ان کے دلوں کو کینہ توزی اور حسد کے ساتھ توصیف نہ کرئے کہ جن کو اللہ نے ہر قسم کی پلیدگی سے دور رکھا ہے کیونکہ پيامبر (ص) کا قلب نھی بنى هاشم کا ہی قلب تو ہے .

ابن عباس نے  سوره احزاب کی آیت نمبر 33 کی طرف اشارہ کیا ہے :

إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً). بالحسد والغشّ.

عمر کو غصہ آیا اور کہا :

إليك عنّي يا ابن عبّاس.

ارے ابن عباس مجھ سے دور ہوجاو!.

میں اٹھا تو مجھے پھر بٹھا یا اور میری دلجوئی کے لئے کچھ باتیں کی ۔

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 578، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 458، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

3. عمر یاسر کا عمر سے ڈرنا :

أَنَّ رَجُلاً، أَتَى عُمَرَ فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ مَاءً. فَقَالَ: لاَ تُصَلِّ. فَقَالَ عَمَّارٌ: أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّة فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدْ مَاءً فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ وَصَلَّيْتُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: «إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَضْرِبَ بِيَدَيْكَ الأَرْضَ ثُمَّ تَنْفُخَ ثُمَّ تَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَكَ وَكَفَّيْكَ». فَقَالَ عُمَرُ: اتَّقِ اللَّهَ يَا عَمَّارُ. قَالَ: إِنْ شِئْتَ لَمْ أُحَدِّثْ بِهِ.

عبدالرحمٰن بن ابزی انے نقل کیا ہے  ایک شخص عمر کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے جنابت ہوئی اور پانی نہ ملا، عمر نے جواب دیا : نماز نہ پڑھنا۔ عمار  نے کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ کو یاد نہیں، جب میں اور آپ لشکر کے ایک گروہ  میں تھے پھر ہم کو جنابت ہوئی اور پانی نہ ملا، آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں مٹی میں لوٹا اور نماز پڑھ لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کافی تھا اپنی دونوں ہاتھ زمین پر مارنا پھر ان کو پھونکنا پھر مسح کرنا منہ اور دونوں پہنچوں پر۔عمر نے کہا: اللہ سے ڈر اے عمار! (یعنی سوچ سمجھ کر حدیث بیان کر) عمار نے کہا: اگر آپ کہیں تو میں یہ حدیث بیان نہیں کروں گا ۔۔

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 1، ص 280، ح 368، باب التيمّم، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے تیمم کے حکم کو واضح طور پر بیان کیا ہے :

وَإِنْ كُنتُمْ مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَر أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً. النساء / 43.

ور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منھ اور اپنے ہاتھ مل لو۔

کیسے ہوسکتا ہے کہ جناب خلیفہ کو اس قرآنی واضح حکم کا علم نہ ہو؟!

اب عجیب بات یہ ہے کہ جناب عمار کو منع کرتا ہے کہ خلیفہ کی نظر کے خلاف حدیث نقل کرنے سے ڈرو !!

4.   قَرَظَة بن كعب کا  عمر سے ڈرنا :

طحاوى نے شرح مشكل الآثار میں، ابن عبد البر نے  جامع بيان العلم میں اور ذهبى نے تذكرة الحفاظ میں لکھا ہے :

فلمّا قدم قَرَظَة (أي العراق) قالوا: حدثنا، قال: نهانا عمر.

قَرَظَه بن كعب عراق گیا اور لوگوں نے ان سے حدیث نقل کرنے کے لئے کہا تو اس نے جواب دیا : عمر نے حدیث نقل کرنے سے مجھے منع کیا ہے ۔

الطحاوي، أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة (متوفاي321هـ)، شرح مشكل الآثار، ج 15، ص 317، تحقيق شعيب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1408هـ - 1987م.

النمري، يوسف بن عبد البر (متوفاي463هـ، جامع بيان العلم وفضله، ج 2، ص 121، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت – 1398هـ.

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تذكرة الحفاظ، ج 1، ص 7، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى.

حاكم نيشابورى نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

هذا حديث صحيح الإسناد له طرق تجمع ويذاكر بها.

یہ حدیث کئی طرق سے نقل ہوئی ہیں اور یہ صحیح ہے علمی محفلوں میں سے اسے بحث ہوتی ہے ۔

النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 1، ص 183، تحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م

5. صحابہ کو قید میں رکھنا تاکہ احادیث نقل نہ کرسکے  ۔

ذهبى نے تذكرة الحفاظ میں نقل کیا ہے :

إنّ عمر حبس ثلاثة: ابن مسعود أبا الدرداء وأبامسعود الأنصارى فقال: لقد أكثرتم الحديث عن رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم.

عمر، نے تین اصحاب کو یعنی ابن مسعود، ابودرداء، اور ابومسعود انصارى کو زندان میں ڈالا اور ان سے کہا اس لئے تم لوگوں کو زندان میں ڈالا ہوں کیونکہ تم لوگ  رسول اللہ(ص) سے بہت زیادہ احادیث نقل کرتے ہو ۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تذكرة الحفاظ، ج 1، ص 7، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى.

سير اعلام النبلاء میں نقل ہوا ہے :

شعبة عن سعد بن إبراهيم عن أبيه أن عمر قال لابن مسعود وأبي ذر وأبي الدرداء ما هذا الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وأحسبه حبسهم بالمدينة حتى أصيب.

سعد بن ابراهيم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے : خليفه دوم نے ابن مسعود، ابوالدرداء  اور  ابوذر سے کہا : کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتنی زیادہ روایتیں نقل کرتے ہو ؟ میرے خیال میں اسی وجہ سے ان لوگوں کو مدينه  سے نکلنے پر پابندی لگائی اور یہ پابندی عمر کے مرنے تک باقی رہی ۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص 345، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

6. عمر اور اصحاب کو تکلیف دینا :

حدیث نقل کرنے کے بارے میں خلیفہ دوم اور ابوموسی اشعری کے بارے میں ایک بحث ہوئی اس وقت ابی بن کعب بھی وہاں موجود تھا ،ابی نے عمر کے سخت رویے کو دیکھ کر کہا:

يا ابن الخطّاب فلا تكوننّ عذاباً على أصحاب رسول الله.

اے خطّاب  کے بیٹے رسول خدا (ص) کے اصحاب کے لئے عذاب کا سبب مت بنو !.

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1696، ح 5526، كتاب الاستئذان (الآداب)، باب الاِسْتِئْذَانِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

7. عثمان بن حنيف کا چہرہ زخمی کرنا :

ذهبى نے تاريخ الإسلام میں نقل کیا ہے :

... عن حريث بن نوفل بن مساحق قال: انتجى عمر وعثمان بن حنيف في المسجد والناس محيطون بهما، فلم يزالا يتجادلان في الرأي حتى أغضب عثمان عمر، فقبض من حصباء المسجد قبضة ضرب بها وجه عثمان، فشج الحصى بجبهته آثاراً من شجاج، فلما رأى عمر كثرة تسرب الدم على لحيته قال: إمسح عنك الدم، فقال: يا أمير المؤمنين لا يهولنك، فوالله إني لأُنْتُهِك ممن وليتني أمره من رعيتك أكثر مما انتهكت مني...

حريث بن نوفل کہتا ہے : ایک دن عمر بن خطّاب اور عثمان بن حنيف نے مسجد میں ایک دوسرے سے بحث کی اور ایک دوسرے سے جگھڑنے لگے ،لوگ بھی ان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے ،اچانک عمر غضبناک ہوا اور مسجد سے ایک مشت  کنکریاں اٹھا کر عثمان کے چہرے پر مارا اس سے عثمان کی پیشانی زخمی ہوئی اور جب عمر نے دیکھا کہ اس سے زیادہ خون نکل رہا ہے تو کہنے لگا اپنے خون کو پاک کرو ۔

عثمان نے کہا : اے اميرالمؤمنين! نہ ڈرے ! اللہ کی قسم ،جن لوگوں کی طرف مجھے آپ نے بھیجا تھا ،ان کی طرف سے آپ کی طرف سے کی ہوئی بے احترامی سے زیادہ بے احترامی دیکھی ہے ۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 81، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.

الباغندي، الإمام الحافظ أبو بكر محمد بن محمد بن سليمان (متوفاي312هـ)، مسند عمر بن عبد العزيز، ج 1، ص 102، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: مؤسسة علوم القرآن - دمشق، 1404هـ.

8. معاویہ کا مار کھانا :

ذهبى نے سير أعلام النبلاء میں، ابن كثير دمشقى نے  البداية والنهاية میں اور  ابن حجر نے  الإصابة میں لکھا ہے :

دخل معاوية على عمر وعليه حلة خضراء فنظر إليها الصحابة فلما رأى ذلك عمر وثب إليه بالدرة فجعل يضربه بها وجعل معاوية يقول يا أمير المؤمنين الله الله فى فرجع عمر إلى مجلسه فقال له القوم لم ضربته يا أمير المؤمنين وما فى قومك مثله فقال والله ما رأيت إلا خيرا وما بلغنى إلا خير ولو بلغنى غير ذلك لكان منى إليه غير ما رأيتم ولكن رأيته وأشار بيده فأحببت أن أضع منه ما شمخ....

معاويه سبز رنگ کا ایک نیا لباس پہن کر عمر کے پاس پہنچا ، اصحاب اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔عمر اپنی جگہ سے اٹھا اور معاویہ کو تازیانہ مارنا شروع کیا ، معاویہ نے کہا :کیوں مجھے مار رہے ہو ؟ عمر نے کچھ نہیں کہا اور اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔

 اصحاب نے پوچھا : کیوں اس جوان کو آپ نے مارا ۔ یہ تو آپ کے پارٹی کے اچھے لوگوں میں سے ہے ؟ کہا : میں نے معاویہ  سے جو دیکھا اچھا ہی دیکھا اور جو سنا اچھا ہی سنا ۔لیکن مجھے ایسا لگا کہ اس لباس کو پہنے سے وہ مغرور ہوا ہے لہذا اس کو سبق دینا چاہا اور غرور کو اس سے دور کرنا چاہا ۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 135، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 8، ص 125،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 6، ص 154، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ – 1992م.

9. عورتوں کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کی پٹائی :

نووى نے المجموع میں لکھا ہے :

أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَهَى الرِّجَالَ أَنْ يَطُوفُوا مَعَ النِّسَاءِ فَرَأَى رَجُلًا يُصَلِّي مَعَ النِّسَاءِ فَضَرَبَهُ بِالدِّرَّةِ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: وَاَللَّهِ لَئِنْ كُنْت أَحْسَنْت لَقَدْ ظَلَمْتَنِي، وَلَئِنْ كُنْت أَسَأْت فَمَا أَعْلَمْتنِي فَقَالَ عُمَرُ أَمَّا شَهِدْت عَزِيمَتِي قَالَ مَا شَهِدْت لَك عَزْمَةً فَأَلْقَى إلَيْهِ الدِّرَّةَ، وَقَالَ اقْتَصَّ قَالَ لَا أَقْتَصُّ الْيَوْمَ قَالَ فَاعْفُ قَالَ لَا أَعْفُو فَافْتَرَقَا عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ لَقِيَهُ مِنْ الْغَدِ فَتَغَيَّرَ لَوْنُ عُمَرَ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ كَأَنِّي أَرَى مَا كَانَ مِنِّي قَدْ أَسْرَعَ فِيك، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: فَاشْهَدْ أَنِّي قَدْ عَفَوْت عَنْك.

عمر بن خطاب،مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ طواف کرنے سے منع کرتا تھا ،ایک دن دیکھا کہ ایک شخص عورتوں کے درمیان نماز پڑھ رہا ہے ، عمر نے اس پر تازیانہ مارا تو اس شخص نے کہا اللہ کی قسم اگر میں نے اچھا کام کیا ہے تو آپ نے میرے اوپر ظلم کیا ہے اور آگر میں نے  برا کام انجام دیا ہے تو تعلیم دینے کا یہ اچھا طریقہ نہیں ہے ۔ !

عمر نے کہا: قصاص کرو ، اس شخص نے کہا : قصاص نہیں کروں گا ، عمر نے کہا : پس مجھے بخش دئے ،اس شخص نے کہا : نہیں بخشتا ہوں ۔

دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے دوسرے دن عمر نے اس شخص کو دیکھا تو چہرے کا رنگ تبدیل ہوا اس شخص نے کہا: یا امیر المومنین ،مجھے سے پہلے آپ نے رد عمل دکھایا ؟ عمر نے کہا : ہاں ۔ اس شخص نے کہا : میں نے آپ کو بخش دیا ۔

الماوردي البصري الشافعي، علي بن محمد بن حبيب (متوفاي450هـ)، الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي وهو شرح مختصر المزني، ج 17، ص 29، تحقيق الشيخ علي محمد معوض - الشيخ عادل أحمد عبد الموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان، الطبعة: الأولى، 1419 هـ -1999 م؛

النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 20، ص 236، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية؛

ضياء الدين القرشي، محمد بن محمد بن أحمد بن أبي زيد بن الأخوة، معالم القربة، ج 1، ص 34، (متوفاى729هـ).

10حجاج کی تلوار سے زیادہ عمر کا تازیانہ خوفناک تھا:

عمر کے تازیانہ کا اتنا خوف لوگوں کے دلوں میں بٹھایا ہوا تھا کہ اھل سنت کے بعض بزرگوں نے اس تازیانہ کو حجاج جیسے سفاک شخص کی تلوار سے زیادہ خوفناک کہا ہے ۔

ثعالبى نے  الإعجاز و الإيجاز میں ، زمخشرى نے ربيع الأبرار میں ، ابن خلكان نے وفات الأعيان میں ، شربينى نے  مغنى المحتاج میں اور بہت سے اہل سنت کے علما نے نقل کیا ہے:

قال الشعبي: كانت دِرَّة عمر أهيب من سيف الحجاج.

شعبى کہتا تھا: عمر کا تازیانہ حجاج کی تلوار سے زیادہ خوفناک تھا۔.

الثعالبي، أبو منصور عبد الملك عبد الملك بن محمد بن إسماعيل (متوفاي429هـ)، الإعجاز والإيجاز، ج 1، ص 37، ناشر: دار الغصون - بيروت / لبنان - 1405هـ - 1985م، الطبعة: الثالثة؛

و ثمار القلوب في المضاف والمنسوب، ج 1، ص 85، پيشين، ناشر: دار المعارف – القاهرة؛

الزمخشري، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 309؛

إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 3، ص 14، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان؛

الشربيني، محمد الخطيب (متوفاي977هـ)، مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج، ج 4، ص 390، ناشر: دار الفكر – بيروت؛

الفزاري القلقشندي، أحمد بن علي بن أحمد (متوفاي821هـ)، صبح الأعشى في كتابة الإنشا، ج 14، ص 143، تحقيق عبد القادر زكار ناشر: وزارة الثقافة - دمشق - 1981؛

الشرواني، عبد الحميد، حواشي الشرواني على تحفة المحتاج بشرح المنهاج، ج 10، ص 134، ناشر: دار الفكر – بيروت.

قابل توجہ بات یہ ہے کہ شعبى عامر بن شرحبيل متوفاى105هـ، عمر بن عبد العزير اور کوفہ کا مفتی تھا ۔

طبرى لکھتا ہے :

هو أوّل من حمل الدرّة وضرب بها.

عمر وہ پہلا شخص ہے جو تازیانہ اٹھاتا اور لوگوں کو تازیانے مارتا ۔

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 570، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 454، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛

أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص 113؛

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 133،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

بلاذرى  اور طبرى کے نقل کے مطابق ، عمر کے پاس لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے ایک مال آیا ،لوگ جمع ہوئے ،اس وقت سعد بن أبى وقّاص (صحابى معروف) لوگوں کو ہٹاتے ہوئے عمر کے پاس پہنچا۔

فَعَلاَهُ عُمَرُ بِالدُّرَّةِ وَقَالَ: إِنَّكَ أَقْبَلْتَ لاَ تَهابُ سُلْطَانَ اللَّهِ فِي الأَرْضِ.

عمر نے تازیانہ اٹھا کر سعد کو مارا اور اس سے کہا :تم اس طرح میری طرف آہا گویا تم زمین پر اللہ کے سلطان اور حاکم سے نہیں ڈرتا۔ ؟

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 287، ناشر: دار صادر - بيروت؛

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 403؛

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 571، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

بلاذرى نے ایک شخص کے بارے میں نقل کیا ہے :

وأتى عمر بن الخطاب، فحمل عليه بالدِّرة فهرب من بين يديه.

ابومطر عمر کے پاس آیا ، عمر نے تازیانہ اٹھا کر اس پر حملہ کیا تو وہ شخص بھاگ نکلا، اس سے لوگوں نے پوچھا کہ تم بھاگے کیوں؟ اس نے جواب میں کہا:

وكيف لا أهرب من بين يَدَىْ يضربنى ولا أضربه

میں ایسے شخص کےہاتھوں سے کیوں نہ بھاگوں کہ جو مجھے مرتا ہے لیکن میں اس کو نہیں مارسکتا ۔

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 4، ص 214،

 قابل توجہ بات یہ ہے کہ بلاذری نے اس واقعے کو نقل تو کیا ہے لیکن اس کو مارنے کی علت بیان نہیں کیا ہے ۔

11 : نماز کی صف میں آگے یا پیچھے گھڑے ہونے والوں کو تازیانہ مارنا  

بلاذرى نے  أنساب الاشراف میں ، ابن سعد نے  طبقات میں اور اسی طرح دوسرے بعض مورخین نے عمرو بن ميمون سے نقل کیا ہے :   

وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لاَ يُكَبرُ حَتَّى يَسْتَقْبِلَ الصَّفَّ المُقَدَّمَ بِوَجْهِهِ، فَإِنْ رَأَى رَجُلاً مُتَقَدمَاً مِنَ الصَّف أَوْ مُتَأَخرَاً ضَرَبَهُ بِالدرَّةِ.

  تكبيرة الاحرام  سے پہلے عمر کا طریقہ کار یہ تھا وہ پہلی صف پر نظر ڈالتا اور اگر یہ دیکھتا کہ کوئی صف سے آگے یا پیچھے ہیں تو تازیانہ اٹھا کر اس کو مارتا ۔

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 340 ـ 341، ناشر: دار صادر - بيروت.

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 23، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 433،

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 7، ص 62،، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

12. بچے کو نیا لباس پہنے کی وجہ سے  پٹائی:

عبد الرزاق صنعانى نے نقل کیا ہے :

عن عكرمة بن خالد قال: دخل ابن لعمر بن الخطاب عليه وقد ترجل ولبس ثيابا حسانا، فضربه عمر بالدرة حتى أبكاه، فقالت له حفصة: لم يكن فاحشا، لم ضربته؟ فقال: رأيته قد أعجبته نفسه، فأحببت أن أُصَغِّرُها إليه.

  عكرمة بن خالد سے نقل ہوا ہے کہ عمر بن خطاب کے بیٹوں میں سے ایک نے نیا لباس پہنا اور اپنے باپ کے پاس گیا تو اس کو اتنا مارا کہ اس نے رونا شروع کیا ،حفصه  نے کہا : اس نے غلط کام انجام نہیں دیا ہے کیوں اس کو مارا ؟ عمر نے کہا : میں نے یہ احساس کیا کہ نیا لباس پہنے کی وجہ سے وہ کچھ مغرور ہوا ہے لہذا اس کے غرور کو ختم کرنا چاہا ۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 10، ص 416، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

السيوطي، عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، تاريخ الخلفاء، ج 1، ص 142، تحقيق: محمد محي الدين عبد الحميد، ناشر: مطبعة السعادة - مصر، الطبعة: الأولى، 1371هـ - 1952م.

13. جارود عامري کی پٹائی :

نميرى نے  تاريخ المدينة میں ، ابن أبي الدنيا  نے  الصمت وآداب اللسان میں اور  غزالى نے  احياء علوم الدين میں نقل کیا ہے :

كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَاعِدَاً وَمَعَهُ الدرَّةُ وَالنَّاسُ حَوْلَهُ، إِذْ أَقْبَلَ الْجَارُودُ، فَقَالَ رَجُلٌ: هاذَا سَيدُ رَبِيعَةَ، فَسَمِعَهُ عُمَرُ وَمَنْ حَوْلَهُ وَسَمِعَهُ الْجَارُودُ، فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ خَفَقَهُ بِالدرَّةِ، فَقَالَ: مَا لِي وَلَكَ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ؟ فَقَالَ: مَا لِي وَلَكَ؟ أَمَا لَقَدْ سَمِعْتَهَا، قَالَ: سَمِعْتُهَا فَمَهْ؟ قَالَ: خَشِيتُ أَنْ يُخَالِطَ قَلْبَكَ مِنْهَا شَيْءٌ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُطَأْطِىءَ مِنْكَ.

عمر تازيانه لے کر لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، جارود عامرى وہاں پہنچ گیا ، ایک آدمی نے کہا : یہ قبيله ربيعه کا سردار ہے ، سب نے یہ بات سنی .

جس وقت جارود عمر کے نذدیک پہنچا  اس کو تازیانہ مارا ، اس نے کہا : یہ کونسا طریقہ ہے کیوں میرے ساتھ ایسا کر رہے ہو ،میرا جرم کیا ہے ؟ عمر نے کہا : کیا تو نے اس شخص کی بات نہیں سنی جو یہ کہہ رہا تھا کہ تو قبیلے کا سردار ہے ؟

اس نے کہا : ہاں اس کی بات میں نے سنی ہے ؟

عمر نے : مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں  اس کی باتوں کی وجہ سے تم مغرور نہ ہو لہذا غرور کو تیرے دماغ سے نکالنے کے لئے ایسا کیا ہوں ۔

النميري البصري، أبو زيد عمر بن شبة (متوفاي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج 1، ص 366، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1417هـ-1996م؛

ابن أبي الدنيا القرشي البغدادي، أبو بكر عبد الله بن محمد بن عبيد (متوفاي281هـ)، الصمت وآداب اللسان، ج 1، ص 273، تحقيق أبو إسحاق الحويني، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1410هـ ؛

الغزالي، محمد بن محمد أبو حامد (متوفاي505هـ، إحياء علوم الدين، ج 3، ص 160، ناشر: دار االمعرفة – بيروت.

14. كتك زدن زائران بيت المقدّس

فاكهى نے اخبار مكه  میں جلال الدين سيوطى نے جامع احاديث میں نقل کیا ہے :

اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عُمَرَ بنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ في إِتْيَانِ بَيْتِ المَقْدِسِ، فَقَالَ لَهُ: اذْهَبْ فَتَجَهَّزْ، فَإِذَا تَجَهَّزْتَ فَأَعْلِمْنِي، فَلَمَّا تَجَهَّزَ جَاءَهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اجْعَلْهَا عُمْرَةً. قَالَ: وَمَرَّ بِهِ رَجُلاَنِ وَهُوَ يَعْرِضُ إِبِلَ الصَّدَقَةِ فَقَالَ لَهُمَا: مِنْ أَيْنَ جِئْتُمَا؟ قَالاَ: مِنْ بَيْتِ المَقْدِسِ، فَعَلاَهُمَا بِالدرَّةِ وَقَالَ: أَحَجٌّ كَحَج الْبَيْتِ؟ قَالَ: إِنَّمَا كُنَّا مُجْتَازِينَ.

ایک شخص نے عمر سے بيت المقدس سفر کرنے کی اجازت لی ، عمر نے کہا : جاو اور تیاری کرو اور جانے سے پہلے مجھے اطلاع دو وہ شخص جانے سے پہلے عمر کے پاس آیا ۔ عمر نے کہا : اپنے سفر کو عمرہ قرار دو ۔

راوی کہتا ہے کہ عمر اس وقت اونٹوں کے زکات کا حساب و کتاب کر رہا تھا اس وقت دو لوگ سفر سے واپس آئے اور عمر نے کہا کہاں سے آرہے ہو ؟ ان دونوں نے کہا : بیت المقدس سے آرہے ہیں ۔

عمر نے تازیانہ اٹھا کر انہیں مارنا شروع کیا اور کہا کیا اس کو اللہ کے گھر کی زیارت یی طرح قرار دیا ؟ ان دونوں نے کہا :  ہم وہاں سے گزر رہے تھے ۔

الأزرقي، أبو الوليد محمد بن عبد الله بن أحمد (متوفاي250 هـ)، أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار، ج 2، ص 63، تحقيق رشدي الصالح ملحس، ناشر: دار الأندلس للنشر - بيروت - 1996م- 1416هـ؛

الفاكهي، محمد بن إسحاق بن العباس أبو عبد الله (متوفاي275هـ، أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه، ج 2، ص 99، تحقيق د. عبد الملك عبد الله دهيش، ناشر: دار خضر - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ؛

السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 258.

14. صحابہ کا عمر سے خوف کی وجہ سے چھپ چھپ کر نماز پڑھنا :

رسول خدا صلى الله عليه وآله کی سنتوں میں سے ایک یہ تھی کہ  عصر کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے ۔ اصحاب نے بھی رسول اللہ صلی الہہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں عمر کے دور تک یہ نماز پڑھی ۔لیکن جب عمر کا دور آیا تو عمر نے لوگوں کو اس سنت سے منع کیا ۔ بہت سے موقعوں پر طاقت کا استعمال کرتا تھا اور لوگوں کی پٹائی کرتا تھا ۔  

مسلم نيشابورى نے صحيح میں حذيفه سے نقل کیا ہے :

قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ «أَحْصُوا لِي كَمْ يَلْفِظُ الإِسْلاَمَ». قَالَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَتَخَافُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ مَا بَيْنَ السِّتِّمِائَةِ إِلَى السَّبْعِمِائَةِ؟ قَالَ: «إِنَّكُمْ لاَ تَدْرُونَ لَعَلَّكُمْ أَنْ تُبْتَلَوْا». قَالَ فَابْتُلِينَا حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا لاَ يُصَلِّي إِلاَّ سِرًّا.

   ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے آنے فرمایا: ”گنو کتنے آدمی اسلام کے قائل ہیں۔ہم نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ ڈرتے ہیں ہم پر اور ہم چھ سو آدمیوں سے سات سو تک ہیں،  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نہیں جانتے شاید بلا میں پڑ جاوَ۔حذیفہ نے کہا: پھر ایسا ہی ہوا ہم بلا میں پڑ گئے، یہاں تک کہ ہم میں سے بعض نماز بھی چپکے سے پڑھتے۔

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 1، ص 131، ح149، كتاب الإيمان، باب جَوَازِ الاِسْتِسْرَارِ لِلْخَائِفِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

15. عمر نے نماز عصر پڑھنے کے بعد لوگوں کی پٹائی کی :

عبد الرزاق صنعانى نے  زرّ بن حبيش سے نقل کیا :

رأيت عمر بن الخطاب يضرب على الصلاة بعد العصر.

زرّ بن حبيش کہتا ہے : میں نے دیکھا کہ عمر نے عصر کے بعد نماز پڑھنے کی وجہ سے لوگوں کی پٹائی کی ۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 2، ص 429، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، التاريخ الكبير، ج 5، ص 85، تحقيق: السيد هاشم الندوي، ناشر: دار الفكر؛

أبو يعلى الموصلي التميمي، أحمد بن علي بن المثنى (متوفاي307 هـ)، مسند أبي يعلى، ج 7، ص 43، تحقيق: حسين سليم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 هـ – 1984م؛

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج 2، ص 23، تحقيق السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: - المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م.

احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے :

هِشَامٌ عن أبيه قال خَرَجَ عُمَرُ على الناس يَضْرِبُهُمْ على السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ

  عروة بن زبير سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے: عمر گھر سے باہر نکلا اور لوگوں کی پٹائی شروع کی ۔

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 4، ص 102 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 282،، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

هيثمى بے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

وقد رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح في الكبير والأوسط عن عروة.

اس روایت کو  طبرانى نے معجم كبير  اور  معجم اوسط میں عروه سے نقل کیا ہے  اور اس کے سارے راوی صحیح کے راوی ہیں ۔

الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفاي807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 2، ص 222، ناشر: دار الريان للتراث /‏ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت – 1407هـ.

عبد الرزاق نے  المصنف  اور احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے :

عن زَيْدِ بن خَالِدٍ انه رَآهُ عُمَرُ بن الْخَطَّابِ وهو خَلِيفَةٌ رَكَعَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ فَمَشَى إليه فَضَرَبَهُ بِالدِّرَّةِ وَهُو يصلي كما هو فلما انْصَرَفَ قال زَيْدٌ يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَوَاللَّهِ لاَ أَدَعَهُمَا أَبَداً بَعْدَ ان رأيت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّيهِمَا....

زيد بن خالد جهنى کہتا ہے : عمر بن خطاب نے اپنے دور حکومت میں ،نماز عصر کے بعد مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی وجہ سے تازیانہ مارا ۔  

نماز پڑھنے کے بعد میں نے عمر سے کہا : اللہ کی قسم میں کبھی اس کو نہیں چھوڑوں گا ؛ کیونکہ میں نے  رسول اللہ (ص) کو دیکھا کہ آپ اس نماز کو پڑھتے تھے ....

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 2، ص 431، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 4، ص 115 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 2، ص 65،، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

هيثمى نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

 رواه أحمد والطبراني في الكبير وإسناده حسن.

اس حدیث کو احمد بن حنبل اور  طبرانى نے نقل کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے ۔

الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفاي807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 2 ص 223، ناشر: دار الريان للتراث /‏ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت – 1407هـ.

عبد الرزاق صنعانى لکھتا ہے :

عن الزهري عن السائب بن يزيد قال: ضرب عمر المنكدر إذ رآه سبّح بعد العصر.

سائب بن يزيد کہتے تھے : عمر نے منكدر کو نماز عصر کے بعد تسبیح کہنے کی وجہ سے مارا ۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج2، ص429، ح 3964، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ. 

امام مالك نے لکھا ہے :

عن السائب بن يزيد أنّه رأى عمر بن الخطاب يضرب المنكدر في الصلاة بعد العصر.

سائب بن يزيد نے دیکھا ، عمر بن خطاب منكدر کو نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے کی وجہ سے مار رہا تھا ۔  

ماالك بن أنس أبو عبدالله الأصبحي (متوفاي179، موطأ الإمام مالك، ج1، ص221، كتاب القرآن، باب النهي عن الصلاة فعد الصبح وبعد العصر، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - مصر.

 عصر کی نماز کے بعد نماز پڑھنا  رسول خدا (ص) کی سنت تھی :

اہل سنت کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ کا یہ کام بھی رسول اللہ  صلى الله عليه وآله کی سنت کے خلاف تھا ۔

بخارى نے نقل کیا ہے :

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ صَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ.

  امّ‌سلمه سے نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ (ص) نماز عصر کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے تھے .

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج1، ص146، ح قبل از 565، كتاب مواقيت الصلاة، باب مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987.

عائشه سے نقل ہوا ہے :

قَالَتْ: رَكْعَتَانِ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدَعُهُمَا سِرًّا وَلاَ عَلاَنِيَةً رَكْعَتَانِ قَبْلَ صَلاَةِ الصُّبْحِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ الْعَصْرِ.

عائشه کہتی تھی : دو رکعت نماز ہے جس کو رسول اللہ (ص) آشکار اور چھپا کر انجام دیتے تھے اور اس کو کبھی ترک نہیں فرمایا ۔ان میں سے ایک صبح کی نماز سے پہلے اور ایک عصر کی نماز کے بعد ۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج1، ص147، ح 567 كتاب مواقيت الصلاة، باب مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .

مسلم نيشابورى نے نقل کیا ہے :

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِي قَطُّ.

عائشه کہتی ہے کہ رسول اللہ جب بھی میرے پاس ہوتے تھے آپ نے کبھی بھی نماز عصر کے بعد دو رکعت نماز کو ترک نہیں فرمایا ۔

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 1، ص 572، ح835، بَاب مَعْرِفَةِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كان يُصَلِّيهِمَا النبي، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

 بخارى نے عائشہ سے ہی نقل کیا ہے :

قَالَتْ: مَا كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَأْتِينِي فِي يَوْم بَعْدَ الْعَصْرِ إِلاَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ.

عائشہ کہتی ہے : رسول اللہ (ص) جب بھی میرے پاس ہوتے، آپ عصر کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کو ترک نہیں کرتے ۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج1، ص147، ح 568 كتاب مواقيت الصلاة، باب مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .

مسلم نے نقل کیا ہے :

عن عَائِشَةَ أنها قَالَتْ: مَا كَانَ يَوْمُهُ الَّذِي كَانَ يَكُونُ عِنْدِي إِلاَّ صَلاَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِي. تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ.

جناب عائشہ سے نقل ہوا ہے : رسول اللہ (ص) جب بھی میرے پاس ہوتے عصر کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کو ترک نہیں فرماتے ۔

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 1، ص 572، ح835 بَاب مَعْرِفَةِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كان يُصَلِّيهِمَا النبي، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ابوایوب انصاری کا عمر سے عصر کے بعد والی نماز کے بارے تقیہ :

عبد الرزاق صنعانى نے نقل کیا ہے :

أَنَّ أَبَا أَيُّوبٍ الأَنصَارِي كَانَ يُصَلي قَبْلَ خِلاَفَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ تَرَكَهُمَا، فَلَمَّا تُوُفيَ عُمَرُ رَكَعَهُما، فَقِيلَ لَهُ: مَا هاذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ عُمَرَ كَانَ يَضْرِبُ عَلَيْهِمَا.

ابو ايوب انصاري، عمر کی خلافت سے پہلے عصر کی نماز کے بعد دو کعت نماز پڑھتے تھےلیکن عمر کے دور خلافت میں اس کو ترک کیا اور عمر کے مرنے کے بعد پھر دوبارہ ان دو رکعتوں کو پڑھنا شروع کیا، ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب میں کہا : جو بھی اس نماز کو پڑھتا عمر اس کی پٹائی کرتا ۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 2، ص 433، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛

إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعيد أبو محمد (متوفاي456هـ)، المحلى، ج 3، ص 3، تحقيق: لجنة إحياء التراث العربي، ناشر: دار الآفاق الجديدة - بيروت.

عمر کا اپنے گھر والوں کے ساتھ شدت پسندی سےکام لینا :

عمر کا اپنے گھر والوں سے سخت اور شدت پسندانہ رویہ مشہور تھا، سب اس کو جانتے تھے اسی لئے عمر کسی عورت اور لڑکی سے رشتہ مانگتا تو عورتیں عمر کے ساتھ شادی کرنے سے کرتاتی تھیں اور ان سے شادی کو پسند نہیں کرتی تھیں ۔ ذیل میں اس کے دو نمونے۔

 عتبه کی بیٹی کا عمر سے شادی سے اجتناب:

بلاذری ،طبری ، ابن اثیر اور ابن کثیر کے نقل کے مطابق جس وقت یزید بن ابوسفیان دنیا سے چلا گیا تو عمر نے اس کی بیوی ام ابان  کہ جو عتیبہ کی بیٹی تھی ،سے شادی کرنا چاہا تو اس نے قبول نہیں کیا اور کہا :

لأنّه يدخل عابساً، ويخرج عابساً، يغلق أبوابه، ويقلّ خيره.

عمر بن خطاب منہ بنا کر چہرہ بگاڑ کر گھر میں داخل ہوتا اور گھر سے نکلتا ہے ،گھر کا دوروازہ بند کرتا ہے اور اپنی بیوی کو گھر سے نکلنے نہیں دیتا اور گھر والوں کے لئے اس کی نیکی اور دیکھ بال کم ہے  ۔ .

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 260؛

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، عيون الأخبار، ج 1، ص 379؛

الطبري، أبي جعفر محمد (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 451، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 139،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

ابوبکر کی بیٹی کا عمر سے شادی سے اجتناب

عمر بن خطاب نے ابوبکر کی وفات کے بعد ان کی بیٹی امّ‌كلثوم کا رشتہ مانگا ۔لیکن ام کلثوم نے اس کو قبول نہیں کیا ،عائشہ نے کہا : خلیفہ کی درخواست کو کیوں ٹھکراتی ہو ؟

جواب دیا :  نعم، إنّه خشن العيش، شديد على النساء.

جی ،کیونکہ وہ زندگی میں سخت گیری کرتا ہے عورتوں کی نسبت سے شدت پسندانہ رویہ رکھتا ہے .

عايشه نے عمروعاص سے چاہا کہ عمر کو کسی طریقے سے اس کام سے منصرف کرئے، عمرو عاص عمر کے پاس گیا اور عمر سے گفتگو کی تو عمر نے جواب میں کہا :

امّ‌كلثوم ناز و نعمت  کے ساتھ امّ‌المؤمنين عايشه کے زیر سائیہ پرورش پائی اور ۔

... وفيك غلظة ونحن نهابك وما نقدر أن نردّك عن خلق من اخلاقك، فكيف بها إن خالفتك في شىء فسطوت بها.

عمرو عاص نے کہا : آپ شدت پسند ہو اور ہم آپ سے ڈرتے ہیں ،ہم آپ کے اخلاق کو تبدیل نہیں کرسکتے ، اگر وہ کسی چیز میں آپ کی مخالفت کرئے اورآپ اس پر حملہ کرئے تو کیا ہوگا ؟

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛

الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي: 328هـ)، العقد الفريد، ج 6، ص 98، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م؛

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 139، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

ابن عبدالبر کے نقل کے مطابق ، امّ‌كلثوم بنت ابوبكر نے عائشہ سے کہا :

کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میں اس سے شادی کروں کہ جو سخت مزاج اور زندگی میں شدت پسندانہ رویہ رکھتا ہے ؟!

پھر کہنے لگی :

والله لئن فعلتِ لأخرجنّ إلى قبر رسول الله ولأصيحنّ به

 اللہ کی قسم اگر مجھے اس کام پر مجبور کیا تو میں ، رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی قبر کے پاس جا کر بلند آواز سے فریاد کروں گا .

إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1807، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.

ملاحظہ کریں کہ ایک کم عمر کی لڑکی ،ام کلثوم بن ابوبکر بھی عمر سے شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ جو اپنے والد ابوبکر کا دوست اور مسلمانوں کا خلیفہ ہے ۔

عمر اپنی بیوی کی پٹائی کرتا تھا :

  اشعث بن قيس نے نقل کیا ہے :

ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً فلما كان في جَوْفِ اللَّيْلِ قام إلى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا.

ایک رات عمر کے گھر مہمان کے طور پر تھا ،آدھی رات کو دیکھا عمر اپنی بیوی کو مار رہا ہے،میں نے اس کام سے منع کیا اور جب عمر اپنے بستر پر واپس آیا تو کہا :

فلما أَوَى إلى فِرَاشِهِ قال لي يا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي شيئا سَمِعْتُهُ عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ.

اے  اشعث! رسول اللہ ص سے ایک جملہ سنا ہوں اس جملے کو یاد رکھو ؛ کوئی حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی مرد سے یہ کہے کہ اپنی بیوی کو کیوں مارتے ہو ؟

القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 639 ح1986، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت؛

المقدسي الحنبلي، أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن أحمد (متوفاي643هـ)، الأحاديث المختارة، ج 1، ص 189، تحقيق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش، ناشر: مكتبة النهضة الحديثة - مكة المكرمة، الطبعة: الأولى، 1410هـ؛

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 18، ص 31، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م؛

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج 1، ص 493، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1401هـ.

اس قسم کا کی بات مسند احمد بن حنبل میں بھی نقل ہوئی ہے :

الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 1، ص 20 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اھل سنت کے بعض علما نے عمر سے دفاع کے لئے بیوی کی پٹائی والے الفاظ کو ہٹا دیا ہے:

ضفت عمر بن الخطاب رضي الله عنه فقال لي يا أشعث احفظ عني ثلاثا حفظتهن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تسأل الرجل فيم ضرب امرأته.

اشعث کہتا ہے : میں ایک رات عمر کے ہاں مہمان کے طو پر تھا تو عمر نے کہا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے تین باتیں مجھے یاد ہے تم بھی انہیں یاد رکھنا : ۔اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو مارے تو تم اس سے یہ سوال مت کرو کہ کیوں اس کو مارتے ہو ؟

البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 305، تحقيق محمد عبد القادر عطا، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة - 1414 هـ – 1994م؛

المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، المغني في فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيباني، ج 7، ص 243، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ.

چچا کی بیٹی کا عمر سے مشروط شادی :

عاتكه بنت زيد کہ جو عمر بن خطّاب کے چچا کی بیٹی تھی یہ بہت خوبصورت عورت تھی ،اس کا پہلا شوہر ،عبدالله بن ابوبكر تھا . اس کے مرنے کے بعد عمر نے ۱۲ هجرى کو اس سے شادی کیا اور اس کی شادی پر ولیمہ بھی دیا ابن اثیر نے اس کو یوں نقل کیا ہے ؛

فلمّا خطبها عمر، شرطتْ عليه أنّه لايمنعها عن المسجد ولايضربها، فأجابها على كره منه.

عمر نے جس وقت اسے کا رشتہ مانگا تو اس نے، عمر کی سخت مزاجی اور شدت پسندانہ رویے کی وجہ سے یہ شرط رکھی کہ وہ اسے مسجد جانے سے نہیں روکے گا ،اس کی پٹائی نہیں کرئے گا ،عمر نے بھی نہ چاہتے ہوئے اس کی شرط قبول کی ۔

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 201، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م.

 

ابن حجر عسقلانى نے اسی مطلب کو یوں نقل کیا ہے :

شرطتْ عليه ألاّ يضربها، ولايمنعها من الحقّ، ولا من الصّلاة فى المسجد النبويّ.

عمر اسے نہیں مارے گا ، حق کو انجام دینے سے نہیں روکے گا ، مسجد میں نماز ادا کرنے سے منع نہیں کرئے گا ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 12، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ – 1992م؛

الزرقاني، محمد بن عبد الباقي بن يوسف (متوفاي1122هـ) شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك، ج 2، ص 9،، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ.

عمر کو رشتہ دینے سے انکار اور مغیرہ کو  رشتہ دینا :

ابن اثير لکھتا ہے :

إنّ عمر بن الخطّاب خطب إلى قوم من قريش بالمدينة فردّوه، وخطب إليهم المغيرة بن شعبة فزوّجوه.

عمر بن خطّاب نے مدینہ میں قریش کے ایک خاندان سے رشتہ طلب کیا ،ان لوگوں نے عمر کو رشتہ نہیں دیا ۔لیکن جب مغيرة بن شعبه نے رشتہ مانگا تو اس کو رشتہ دیا .

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 4، ص 173، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م.

عمر کا اخلاق رسول اللہ (ص) کے اخلاق کے برعکس ۔

اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ؛

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ. احزاب، آيه 21.

یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ ص کی ذات میں عمده نمونہ (موجود) ہے

 

اس آیت شریفہ کی روشنی میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات تمام لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہے ، زندگی کے تمام شعبوں میں آپ کا کردار اور رفتار سب کے لئے سرمشق اور آئیڈل ہے ،لہذا سارے مسلمانوں کو چاہئے کہ آپ کے اخلاق اور رفتار کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دئے اور ان کی سیرت اور کردار کے مطابق عمل کرئے ،آنحضرت کی سیرت اور کردار کے پہلوں میں سے ایک فیلمی کے ساتھ آپ کا طرز عمل ہے ، ہم ذیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں کے سے سلوک کے نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکے کہ خلیفہ دوم کا کردار آپ کی سیرت اور کردار کے بلکل مخالف تھا ۔

فیملی کے ساتھ اچھے برتاو کے بارے میں  پيامبر اكرم (ص) کے فرامین :

آپ  (ص) فیلمی کے ساتھ اچھے برتاو کی سفارش کرتے تھے :

رسول خدا صلى الله عليه وآله نے فرمایا :

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وأنا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي.

تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی فیلمی کے ساتھ اچھا ہوں .

القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 636، ح 1977، بَاب حُسْنِ مُعَاشَرَةِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت.

اسی طرح فرمایا :

خِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ.

تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا ہو ۔

القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 636، ح 1978، بَاب حُسْنِ مُعَاشَرَةِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عورتوں کو مارنے والوں سے سختی سے منع کیا ؛

أما يستحيى أحدكم أن يضرب امرأتَه كما يضرب العبد، يضربها أوّل النّهار ثم يضاجعها آخره.

کیا شرم نہیں کرتے ہو کہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو ایک غلام کی طرح مارے ۔ دن کے شروع میں اس کو مارے اور رات کو آغوش میں لے ۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 9، ص 442، ح 17943، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

فیملی کے ساتھ آنحضرت (ص) کا برتاو :

رسول خدا (ص) فیملی کے ساتھ نیک :

أنس بن مالك کہ جو کئی سال تک آنحضرت کی خدمت کرتے رہے انہوں نے نقل کیا ہے ؛

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَرْحَمَ بِالْعِيَالِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.

میں نے آنحضرت سے زیادہ اپنی فیلمی کے ساتھ اچھا برتاو کرنے والا نہیں دیکھا ۔

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 4، ص 1808، ح2316، بَاب رَحْمَتِهِ (ص) الصِّبْيَانَ وَالْعِيَالَ وَتَوَاضُعِهِ وَفَضْلِ ذلك، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ابن ماجہ میں یہ روایت ہے :

وأنا خيركم لأهلي.

اپنی فیملی کے ساتھ اچھا برتاو میں ،میں تم سب سے بہتر ہوں ۔

القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 636، ح 1977، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت.

فیملی کے ساتھ نرمی سے پیش آنا :

عائشہ نقل کرتی ہے :

كان أكرم الناس وألين الناس وأحسنهم خلقا وكان رجلا من رجالكم وكان بساما ضحاكا.

آپ اپنی فیملی کے ساتھ سب سے زیادہ کریم تھے ،سب سے زیادہ نرمی سے پیش آتے، نرمی سے پیش آتے ۔سب سے زیادہ اخلاق سے پیش آتے ،دوسرے مردوں کی طرح ایک مرد تھے اور بہت زیادہ تبسم اور خندہ پیشانی سے پیش آتے ۔

هناد بن السري الكوفي (متوفاي243، الزهد، ج 2، ص 598، تحقيق عبد الرحمن عبد الجبار الفريوائي، ناشر: دار الخلفاء للكتاب الإسلامي - الكويت، الطبعة: الأولى، 1406هـ؛

الآجري، أبي بكر محمد بن الحسين (متوفاي360هـ، الشريعة، ج 3، ص 1496، تحقيق الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، ناشر: دار الوطن - الرياض / السعودية، الطبعة: الثانية، 1420 هـ - 1999 م.

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے کبھی اپنی بیوی کو نہیں مارا  :

عائشہ سے نقل ہوا ہے ؛

عن عَائِشَةَ قالت ما ضَرَبَ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شيئا قَطُّ بيده ولا امْرَأَةً ولا خَادِمًا.

رسول خدا (ص) نے کبھی کسی خادم اور عورت کو تکلیف نہیں پہنچائی اور کسی کو نہیں مارا ۔

النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 4، ص 1814، ح2328، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

سؤال:

کیا خلفا ثلاثہ کا کفار اور مشرکین کے ساتھ رفتار کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا صحیح ہے خلفا «اشداء علي الكفار» تھے ؟

اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ ان کے رفتار کو دیکھنے کے بعد کوئی یہ کہہ سکتا ہے یہ ، «رحماء بينهم» تھے .

نتيجه:

یہ آیت خلفا ثلاثہ کو شامل نہیں ہے ؛ کیونکہ خلفا نہ «اشداء علي الكفار» تھے اور نہ ہی «رحماء بينهم»؛  تھے ۔لہذا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضرت زهرا سلام الله عليها کے گھر پر حملہ کا انکار نہیں کرسکتے ۔.

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی