2024 March 29
جناب عائشہ ،صحابی پر لعنت کرتی تھی ۔ امام بخاری کی طرف سے روایت میں تحریف ۔۔۔
مندرجات: ٢١٥٤ تاریخ اشاعت: ٢٥ October ٢٠٢٢ - ١٠:٥٥ مشاہدات: 2284
وھابی فتنہ » پبلک
جناب عائشہ ،صحابی پر لعنت کرتی تھی ۔ امام بخاری کی طرف سے روایت میں تحریف ۔۔۔

جناب عائشہ نے دو صحابی پر لعنت کی ۔۔

 

یزید بن قیس علیه لعنة الله

امام بخاری  کی طرف سے روایت میں تحریف ۔۔۔

 

ایک اور صحابی پر جناب عائشہ کی لعنت

«لَعَنَ اللَّهُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ

 

1   : صحیح ابن حبان  کی تحریف کے بغیر روایت۔ 

  «....قالت عائشة: ما فعل یزید بن قیس علیه لعنة الله؟ قالوا: قد مات, قالت: فأستغفر الله, فقالوا لها: ما لک لعنتیه ثم قلت: أستغفر الله؟ قالت: إن رسول الله صلى الله علیه وسلم قال: "لا تسبوا الأموات فإنهم افضوا إلى ما قدموا....»

 جناب عائشه نے کہا : یزید بن قیس نے کیا کام کیا ہے ؟ اللہ اس پر لعنت کرئے !

عایشہ کے پاس موجود لوگوں نے کہا : وہ دنیا سے چلا گیا ہے . 

عائشه نے کہا : أستغفر الله. 

لوگوں نے تعجب کیا اور کہا : کیا ہوا؟ پہلے اس پر لعنت اور پھر استغفار ؟

 

عائشه نے جواب دیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : مردوں کو برا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پا لیا۔

قال شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط مسلم

أبو حاتم التمیمی البستی، محمد بن حبان بن أحمد، صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان، ج7، ص: 290، الناشر : مؤسسة الرسالة – بیروت، الطبعة الثانیة ، 1414 – 1993، تحقیق : شعیب الأرنؤوط، عدد الأجزاء : 18

 

شیخ البانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ؛

التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان (5/ 43):

صحيح      [تعليق الشيخ الألباني]

جیساکہ اس روایت کی سند  اور  بخاری کی سند  ایک ہی ہے ۔  لہذا یہ روایت صحیح السند ہے ۔

2.     صحیح بخاری میں تحریف کے ساتھ رایت یوں نقل ہوئی ہے  :

  «.... عَنْ عَائِشَةَ - رضى الله عنها - قَالَتْ قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله علیه وسلم - « لاَ تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا»

أبو عبدالله البخاری الجعفی، محمد بن إسماعیل، الجامع الصحیح المختصر، ج5، ص 2388، الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت، الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987، تحقیق : د. مصطفى دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومه فی کلیة الشریعة - جامعة دمشق، عدد الأجزاء : 6، مع الکتاب : تعلیق د. مصطفى دیب البغا

3. «   یزید بن قیس»  آنحضرت (ص) کے اصحاب اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے مخلص ساتھیوں میں سے تھے .

 اب جناب عائشہ اس بزرگ صحابی کو شاید امیر المومنین علیہ السلام کی حمایت کی وجہ سے برا بلا کہتی تھی اور ان پر لعنت بھیجتی  تھی ۔

شاید امام  بخاری اور ان کے شیوخ نے  جناب عائشہ کی عزت بچانے کے لئے روایت کے شروع والے جملے کو نقل نہیں کیا اور روایت میں تحریف کے مرتکب ہوئے .

4.  : ہم اہل سنت کے بزرگوں سے پوچھتے ہیں کہ آنحضرت (ص) کے بزرگ اصحاب کی شان میں گستاخی اور انہیں برا بلا کہنے کا حکم کیا ہے ؟

اہل سنت کے بزرگ علماﺀ نے روایت نقل کے سلسلے میں کیوں امانت داری سے کام نہیں لیا ؟ کیوں اپنی مرضی سے روایت میں تحریف کی ؟

اگر یہی کام کوئی شیعہ انجام دیتے تو  اہل سنت کے علماﺀ کیا موقف اختیار کرتے ؟

 5اسکین  ملاحظہ کریں. «العاقلُ تَکفیه الإشارةُ» عاقل کے لئے اشارہ کافی ہے ۔۔

 

2:     «لَعَنَ اللَّهُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ۔۔۔۔ جو صحابی ہے لیکن جناب عائشہ نے اپنے کو دھوکہ دینے کی وجہ سے اس پر بھی لعنت کی ۔۔۔۔ دیکھیں صحیح سند روایت ۔۔

 

 

6744 - أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الثَّقَفِيُّ، ثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «إِنِّي رَأَيْتُنِي عَلَى تَلٍّ وَحَوْلِي بَقَرٌ تُنْحَرُ» فَقُلْتُ لَهَا: لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ لَتَكُونَنَّ حَوْلَكَ مَلْحَمَةٌ، قَالَتْ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكَ، بِئْسَ مَا قُلْتَ» ، فَقُلْتُ لَهَا: فَلَعَلَّهُ إِنْ كَانَ أَمْرًا سَيَسُوءُكِ، فَقَالَتْ: «وَاللَّهِ لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ» ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ ذُكِرَ عِنْدَهَا أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَتَلَ ذَا الثُّدَيَّةِ، فَقَالَتْ لِي: «إِذَا أَنْتَ قَدِمْتَ الْكُوفَةَ فَاكْتُبْ لِي نَاسًا مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ مِمَّنْ تَعْرِفُ مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ» ، فَلَمَّا قَدِمْتُ وَجَدْتُ النَّاسَ أَشْيَاعًا فَكَتَبْتُ لَهَا مِنْ كُلِّ شِيَعٍ عَشَرَةً مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ قَالَ: فَأَتَيْتُهَا بِشَهَادَتِهِمْ فَقَالَتْ: «لَعَنَ اللَّهُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَإِنَّهُ زَعَمَ لِي أَنَّهُ قَتَلَهُ بِمِصْرَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

"

[التعليق - من تلخيص الذهبي]

6744 - على شرط البخاري ومسلم

المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 14

 

لہذا اپنے مخالف صحابی پر لعنت  کرنا جناب ام المومنین کی سنت ہے۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات