2024 March 29
امام موسی کاظم (علیہ السلام) اہل سنت کے علما کی نظر میں۔۔۔
مندرجات: ٢٢٢٨ تاریخ اشاعت: ٢٤ February ٢٠٢٢ - ٢٠:٠٠ مشاہدات: 2513
مضامین و مقالات » پبلک
امام موسی کاظم (علیہ السلام) اہل سنت کے علما کی نظر میں۔۔۔


اهل سنت، کے علما کی نگاہ ۔ اهل سنت کے علماء۔ توسل ۔ امام کے معجزات اور اپنے دشمنوں سے آپ کا رفتار ۔

مقدمه:

ساتھویں امام ، حضرت موسي بن جعفر سلام الله عليهما کا مقدس وجود  128 هجري قمري کو ابواء نامی جگہ پر دنیا میں آیا . آپ کے والد گرامی، امام صادق سلام الله عليه اور آپ کی مادرگرامی جناب حميده خاتون سلام الله عليها ہیں. 25 رجب المرجب 183 هجری قمری کو بغداد میں آپ کی شھادت ہوئی ۔

 ہم اس تحریر میں مختصر انداز میں اھل سنت کی کتابوں اور اھل سنت کے علماء کی نگاہ میں آپ کی شخصیت کو چار حصوں میں بیان کریں گے ۔

 امام کاظم سلام الله عليه کی شخصیت کے بارے میں اھل سنت کے علماء کی نظر

 اهل سنت کے علماء کا امام  موسي بن جعفر عليهماالسلام سے توسل

3ـ امام  عليه السلام کے معجزات

4ـ‌   امام كاظم  عليه السلام کا اپنے دشمنوں سے رویہ

امید ہے امام ہماری اس کاوش کو قبول کریں گے ۔

پہلا حصہ :

امام کاظم عليه السلام  کی شخصيت کے بارے اھل سنت کے علماء کی نظر۔

امام کاظم عليه السلام ، اهل سنت کے علماء کے ہاں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ۔ اھل سنت کے علماء نے احترام کے ساتھ  آپ کو یاد کیا ہے۔ ہم اھل سنت کے علماء میں سے بعض کی نظر کو یہاں نقل کرتے ہیں ۔

 

 

ابن سمعون (متوفاي 387 هـ.ق):

آپ ساتھویں امام کے بارے میں لکھتے ہیں :

وتوفي موسى الكاظم في رجب سنة ثلاث وقيل سنة سبع وثمانين ومائة ببغداد مسموماً، وقيل إنه توفي في الحبس وكان الشافعي يقول قبر موسى الكاظم الترياق المجرب .

[حضرت] موسى كاظم 173 یا 178 هجري کو بغداد میں مسموم ہوئے اور دنیا سے چلے گئے اور یہ کہا گیا ہے کہ آپ زندان میں وفات پاگئے ہیں .

شافعي نے موسی کاظم علیہ السلام کی قبر کو ایک ایسی  آزمودہ  جگہ قرار دیا ہے جہاں ہر  درد کی  دوا ہے۔

ابن سمعون ، أبو الحسن محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس البغدادي ، أمالي ابن سمعون ، ج 1 ، ص125 .

خطيب بغدادي (متوفاي 463 هـ.ق):

خطيب بغداي، ابن خلکان، مزي اور دوسرے اھل سنت کے علماء نے ان کے بارے میں لکھا ہے :

وكان سخيا كريما وكان يبلغه عن الرجل أنه يؤذيه فيبعث إليه بصرة فيها ألف دينار وكان يصر الصرر ثلاثمائة دينار وأربعمائة دينار ومائتي دينار ثم يقسمها بالمدينة وكان مثل صرر موسى بن جعفر إذا جاءت الإنسان الصرة فقد استغنى.

آپ سخاوتمند اور کریم انسان تھے ، جب کوئی آپ سے بدرفتاری کرتے تو آپ ایک ہزار دینا کی تھیلی اس تک پہنچاتے ، اور آپ 300 ، 400 اور  200  دینار کی الگ الگ تھیلیاں بناکر رکھتے اور مدینہ کے فقیروں میں تقسیم کرتے ۔ آپ کی تھیلیاں لوگوں میں مشہور اور ضرب المثل بنی ہوئی تھیں اور یہ مشہور تھا کہ موسي بن جعفر عليهما السلام کی تھیلی جس تک پہنچی وہ بے نیاز ہوجاتا ہے ۔

البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي  بن ثابت الخطيب (متوفاى463هـ)، تاريخ بغداد، ج 13 ص 28 ، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

المزي،  ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 29 ص 44 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 5 ص 308 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

ابن جوزي حنبلي (متوفاى 597 هـ ق):

عبد الرحمن بن علي بن محمد أبو الفرج ابن الجوزي الحنبلي ، آپ کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں :

موسى بن جعفر بن محمد بن علي إبن الحسين بن علي أبو الحسن الهاشمي عليهم السلام. كان يدعى العبد الصالح لأجل عبادته واجتهاده وقيامه بالليل وكان كريما حليما إذا بلغه عن رجل أنه يؤذيه بعث إليه بمال.

موسى بن جعفر بن محمد بن علي إبن الحسين بن علي أبو الحسن الهاشمي عليهم السلام آپ کو آپ کی عبادت اور شب زنده داري کی وجہ سے عبد صالح کہے جاتے تھے ، آپ ایک کريم اور بردبار انسان تھے ، جب آپ کو معلوم ہوجاتا کہ کسی نے آپ سے بدرفتاری کی ہے تو اس کے لئے مال ارسال کرتے ۔

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاى 597 هـ)، صفة الصفوة، ج 2 ص 184 ، تحقيق: محمود فاخوري - د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م.

فخر رازي (متوفاي 604 هـ.ق):

انہوں نے اپنی تفسیر میں کوثر کے مختلف معنی کو بیان کیا ہے اور پھر  امام کاظم عليه السلام کو بھی کوثر کا مصداق قرار دیا ہے  :

والقول الثالث: الكوثر أولاده.... الأكابر من العلماء كالباقر والصادق والكاظم والرضا (عليهم السلام) ).

تیسرا نظریہ یہ ہے :  کوثر سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد ہیں  ؛ بزرگ علماء جیسے باقر ، صادق ، کاظم  اور  رضا عليهم السلام ،آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذریعت میں سے ہیں  .

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي، التفسير الكبير ج 32، ص 117، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1421هـ - 2000م ، چاپ اول.

محمد بن طلحه شافعي (متوفاى652 هـ ق):

محمد بن طلحه ،شافعي مذهب کے علماء میں سے ہیں ، آپ امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں :

أبي الحسن موسى بن جعفر الكاظم ( عليهما السلام ) الإمام موسى الكاظم ( عليه السلام ) . . . هو الإمام الكبير القدر ، العظيم الشأن ، الكبير المجتهد ، الجاد في الاجتهاد ، المشهور بالعبادة ، المواظب على الطاعات ، المشهود له بالكرامات ، يبيت الليل ساجدا وقائما ، ويقطع النهار متصدقا وصائما ، ولفرط حلمه وتجاوزه عن المعتدين عليه دعى كاظما، كان يجازى المسئ بإحسانه إليه ويقابل الجاني بعفوه عنه ، ولكثرة عبادته كان يسمى بالعبد الصالح، ويعرف بالعراق باب الحوائج إلى الله لنجح مطالب المتوسلين إلى الله تعالى به ، كرامته تحار منها العقول.

ابي الحسن، موسي بن جعفر الکاظم، امام کاظم سلام الله عليهما... آپ بلند مقام امام  ، عظيم الشأن ہستی ، تہجد گزار ، بہت زیادہ سعی و تلاش کرنے والا ، ایسی شخصیت کی جو صاحب كرامات تھی ،ان کی عبادت مشهور تھی ، آپ رات کو سجدہ اور قیام کی حالت میں گزارتے ،دن کو روزے اور صدقہ دینے کی حالت میں گزارتے ۔ آپ کو بردباری اور  آپ سے بدرفتاری کرنے والوں کو عفو و درگزر کرنے کی وجہ سے کاظم کہتے تھے ۔ کوئی آپ سے بدرفتاری کرتے تو آپ نیکی اور احسان سے اس کے ساتھ پیش آتے  اور عفو درگزر سے برائی کا جواب دیتے  ۔ آپ کی عبادت کی وجہ سے آپ کو عبد الصالح کہتے ہیں۔ عراق میں آپ باب الحوائج إلي الله  سے مشہور تھے  . کیونکہ لوگ ان کے وسیلے سے اللہ سے متوسل ہوتے اور اپنے توسل کا نتیجہ بھی پاتے  ۔ آپ  کی کرامتیں عقل کو حیران کرتی ہیں ۔

الشيخ كمال الدين محمد بن طلحة الشافعي (متوفاى652هـ)، مطالب السؤول في مناقب آل الرسول (ع)، ص 447 ، تحقيق ماجد ابن أحمد العطية.

ابن أبي الحديد معتزلي (متوفاى655 هـ ق):

ابن ابي الحديد معتزلي کہ جو  اهل سنت کے علماء میں سے اور نهج البلاغه کے شارح بھی ہیں ،آپ امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں۔

موسى بن جعفر بن محمد - وهو العبد الصالح - جمع من الفقه والدين والنسك والحلم والصبر.

موسى بن جعفر بن محمد وہی  عبد صالح ہیں.  آپ فقاہت  ، دیانت ، عبادت  اور حلم و صبر  کا مجموعہ تھے ۔

إبن أبي‌الحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 15 ص 172 ، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.

ابن خلكان (متوفاي 681 هـ.ق):

انہوں نے  «وفيات الأعيان» میں امام کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے :

موسى الكاظم . أبو الحسن موسى الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين ابن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم أحد الأئمة الاثني عشر رضي الله عنهم أجمعين .

أنه يؤذيه فيبعث إليه بصرة فيها ألف دينار وكان يصر الصرر ثلثمائة دينار وأربعمائة دينار ومائتي دينار ثم يقسمها بالمدينة .

ابوالحسن موسي کاظم ۔۔۔۔۔ ۔ آپ شیعوں کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں ۔آپ نہایت سخاوت مند اور کريم انسان تھے ۔ اگر انہیں یہ خبر دی جاتی کہ کسی نے آپ کے حق میں برائی کی ہے ، تو آپ اس تک ہزار دینار کی تھیلی پہنچادیتے ؛ آپ کے پاس 300 دينار ، 400 دينار  اور 200 کے الگ الگ تھیلیاں تھیں ، آپ انہیں مدینہ کے فقراء میں تقسیم کرتے ۔

إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان ، ج 5 ، ص308 ،  ناشر : دار الثقافة - لبنان ، تحقيق : احسان عباس .

نظام الدين النيسابوري (متوفاي 728 هـ.ق):

انہوں نے بھی فخر رازی کی طرح کوثر کی تفسیر میں تیسرا قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی ذریت  ہونے کو نقل کیا ہے اور امام کاظم کو کوثر کا ایک مصداق قرار دیا ہے ؛

والقول الثالث أن الكوثر أولاده ... ثم العالم مملوء منهم ... والعلماء الأكابر منهم لا حد ولا حصر لهم . منهم الباقر والصادق والكاظم والرضي والتقي والنقي والزكي وغيرهم.

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ کوثر سے مراد  ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی اولاد ہیں  ؛ دنیا میں اس وقت آپ کی نسل بری ہوئی ہے ،یہاں تک کہ بڑے بڑے علماء اھل بیت سے ہی ہیں کہ جنہیں گن نہیں سکتا، انہیں میں سے حضرت باقر ، صادق، کاظم ، رضا ، جواد ، هادي  اور حسن عسكري عليهم السلام ہیں .

تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان ، ج 6   ص 576اسم المؤلف:  نظام الدين الحسن بن محمد بن حسين القمي النيسابوري الوفاة: 728 هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - 1416هـ - 1996م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : الشيخ زكريا عميران ۔

 

ابن تيميه حراني (متوفاي 728 هـ.ق):

ابن تيميه حراني نے آپ کی شخصیت کے بارے لکھا ہے :

وموسى بن جعفر مشهور بالعبادة والنسك.

 موسي بن جعفر عليهما السلام عبادت اور پرہیزگاری میں مشہور ہیں .

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 57 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

ابو الفداء (متوفاى732هـ ق):

ابو الفداء ، امام کاظم عليه السلام  کی شخصيت کے بارے میں لکھتے ہیں :

ثم دخلت سنة ثلاث وثمانين ومائة فيها توفي موسى الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب ببغداد في حبس الرشيد، وحبسه عند السندي بن شاهك، وتولى خدمته في الحبس أخت السندي، وحكت عن موسى المذكور أنه كان إِذا صلى العتمة، حمد الله ومجده ودعاه إِلى أن يزول الليل، ثم يقوم يصلي حتى يطلع الصبح، فيصلي الصلح ثم يذكر الله تعالى حتى تطلع الشمس، ثم يقعد إِلى ارتفاع الضحى، ثم يرقد ويستيقظ قبل الزوال، ثم يتوضأ ويصلي حتى يصلي العصر، ثم يذكر الله تعالى حتى يصلي المغرب، ثم يصلي ما بين المغرب والعتمة، فكان هذا دأبه إِلى أن مات رحمة الله عليه، وكان يلقب الكاظم: لأنه كان يحسن إِلى من يسيء إِليه، ... وقبره مشهور هناك، وعليه مشهد عظيم في الجانب الغربي من بغداد.

  موسی کاظم ابن جعفر صادق، ابن محمد باقر ابن علي زين العابدين ابن حسين بن علي بن ابي طالب ، 183 ہجری کو بغداد میں ھارون کے زندان میں دنیا سے چلے گئے .

 آپ سندي بن شاهک کے زندان میں تھے ،اس کی  بہن نے زندان میں آپ کی خدمت کی ذمہ داری قبول کی  . وہ زندان میں  امام  کی  حالات یوں بیان کرتی ہے : آپ اللہ کی حمد و ثنا  کرتے  ، ان سے راز و نیاز کرتے ، اسی حالت میں رات گذر جاتی ،نماز صبح  کے بعد  دعا  اور  اللہ کی حمد و ثنا  کی حالت میں رہتے ، یہاں تک کہ  سورج طلوع  ہوتا  اور آپ چاشت  تک بیٹھ جاتے ، پھر  تیاری کرتے اور کھانا کھاتے اور  زوال سے پہلےتھوڑی دیر آرام کرتے ، پھر وضو کرتے اور نماز پڑھتے، پھر قبلہ رخ کی حالت میں تسبیح اور ذکر میں مشغول رہتے۔ یہاں تک کہ مغرب  کی نماز پڑھتے  اور  ھر روز یہی آپ کی حالت تھی ۔

 آپ کا لقب کاظم ہے کیونکہ جو آپ کے ساتھ برائی کرتا ،آپ اس کے ساتھ اچھے انداز میں پیش آتے اور اس کے ساتھ نیکی کرتے ۔ آپ کی قبر کی جگہ مشہور ہے ، بغداد کے مغرب میں آپ کی قبر موجود ہے اور قبر پر بڑا گنبد ہے ۔

 أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاى732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج 1 ص 157-158 ، طبق برنامه الجامع الكبير.

 

شمس الدين ذهبي (متوفاي 748 هـ.ق):

شمس الدين ذهبي کہ جو  اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں ،امام کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں :

وقد كان موسى من أجواد الحكماء ومن العباد الأتقياء وله مشهد معروف ببغداد.

  موسیٰ کاظم ؑ حکماء میں سخی ترین  اور خدا کے پرہیز  گار بندوں  میں سے  تھے ۔ آپ کی قبر بغداد میں ہے ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 6 ، ص 539 ، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1995م.

ذھبی نے اپنی دوسری کتاب میں لکھا ہے :

كان موسى بن جعفر يدعى العبد الصالح من عبادته واجتهاده.

موسي بن جعفر، زیادہ عبادت اور اللہ کی اطاعت میں زیادہ کوشاں رہنے کی وجہ سے  «عبد صالح» کے لقب سے مشھور تھے ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 6 ص 271 ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي ، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت ، الطبعة : التاسعة ، 1413هـ .

ذهبي نے ہی تاريخ الاسلام میں لکھا ہے :

موسى الكاظم ... وكان صالحاً ، عالماً ، عابداً ، متألهاً.

موسي کاظم ایک صالح ،عالم اور اللہ کی عبادت میں کوشاں رہنے والی شخصیت تھی۔۔ .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 12 ص 417 ، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.

ابن الوردي (متوفاى749هـ ق):

ابن الوردي اهل سنت کے علماء میں سے ہیں ،آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :

سمي الكاظم : لإحسانه إلى من يسيء إليه ... وقبره عليه مشهد عظيم بالجانب الغربي من بغداد .

آپ کو کاظم کہتے تھے ، کیونکہ جو بھی آپ سے برائی کرتے آپ اس کے ساتھ اچھائی سے پیش آتے ،آپ کی قبر بغداد کے مغرب میں ایک بڑی اور وسیع جگہ پر ہے .

ابن الوردي ، زين الدين عمر بن مظفر (متوفاى749هـ) ، تاريخ ابن الوردي ، ج 1 ص 198 ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان / بيروت ، الطبعة : الأولى، 1417هـ - 1996م.

أبو محمد يافعي (متوفاي 768 هـ.ق):

يافعي نے آپ کے بارے میں لکھا ہے :

  السيد أبو الحسن موسى الكاظم ولد جعفر الصادق كان صالحا عابدا جوادا حليما كبير القدر وهو أحد الائمة الاثنى عشر المعصومين في اعتقاد الامامية وكان يدعى بالعبد الصالح من عبادته واجتهاده وكان سخيا كريما .

  ابوالحسن موسي کاظم  ابن جعفر صادق۔۔۔۔   صالح ، عابد ،سخی ، بردبار  اور عظیم مرتبہ انسان تھے ، آپ شیعوں کے ان بارہ اماموں میں سے ہیں کہ جنہیں شیعہ معصوم سمجھتے ہیں۔ آپ کو اللہ کی عبادت اور اللہ کی راہ میں کوشاں رہنے کی وجہ سے عبد الصالح کہے جاتے ہیں ،آپ بہت ہی سخی ،شریف  اور معزز  انسان تھے ۔

اليافعي ، أبو محمد عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان ، مرآة الجنان وعبرة اليقظان ، ج 1 ، ص394 ، ناشر : دار الكتاب الإسلامي  - القاهرة - 1413هـ - 1993م .

ابن صباغ مالکي(متوفاى855 هـ ق):

ابن صباغ نے اپنی  کتاب الفصول المهمة میں لکھا ہے :

وهو المعروف عند أهل العراق بباب الحوائج إلى اللَّه ، وذلك لنجح قضاء حوائج المسلمين ونيل مطالبهم وبلوغ مآربهم وحصول مقاصدهم.

  موسي بن جعفر عليها السلام  عراق والوں کے ہاں "باب حوائج الي الله" یعنی اللہ کی طرف حاجتیں لے جانے کا دروازہ  کے نام سے مشھور ہیں اور یہ لقب ان سے توسل کے نتیجے میں لوگوں کی حاجتیں ، تمنائں اور ضرورتیں پوری ہونی کی وجہ سے دیا ہے ۔

ابن صباغ المالكي المكي، علي بن محمد بن أحمد (متوفاى855 هـ)، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ج 2 ص 932 ، تحقيق: سامي الغريري، ناشر : دار الحديث للطباعة والنشر ـ قم ، الطبعة : الأولى، 1422هـ .

ابن حجر هيثمي (متوفاي 973 هـ.ق):

ابن حجر هيثمي نے  اپنی کتاب " الصواعق المحرقه " کہ جو حقہقت میں شیعوں کے رد میں لکھی ہے، اس میں وہ امام موسي بن جعفر سلام الله عليهما کی شخصیت کے بارے میں لکھتا ہے :

موسى الكاظم وهو وارثه علما ومعرفة وكمالا وفضلا سمي الكاظم لكثرة تجاوزه وحلمه وكان معروفا عند أهل العراق بباب قضاء الحوائج عند الله وكان أعبد أهل زمانه وأعلمهم وأسخاهم.

موسیٰ کاظم ؑ اپنے والد  صادق ؑ کے علم  و معرفت  اور کمال و فضیلت میں وارث ہیں ۔ آپ کو صبر و تحمل اور عفو در گزر کی وجہ  سے  کاظم کہتے  تھے ۔ عراق والے  آپ کو   باب الحوائج کہتے تھے... آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عبادت گذار اور سب سے بڑے عالم اور سخی انسان تھے ۔

الهيتمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 590 ، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.

قرماني (متوفى 1019هـ ق):

احمد بن يوسف قرماني آپ کے بارے میں لکھتا ہے :

هو الامام الكبير القدر، الأوحد، الحجة، الساهر ليله قائما، القاطع نهاره صائما، المسمي لفرط حلمه وتجاوزه عن المعتدين کاظما. هوالمعروف عند أهل العراق بباب الحوائج، لأنه ما خاب المتوسل به في قضاء حجاة قط.

وہ ایک عالی قدر امام، نابغہ زمان، اور حجت تھے اور شب زندہ دار (عبادت سے کنایہ) اور دنوں میں روزہ رکھتے تھے۔ آپ کو دوسروں کی بنسبت کثرت حلم و صبر کی بناء پر کاظم کہا جاتا ہے۔ اور آپ اہل عراق کے درمیان باب الحوائج کے نام سے مشہور تھے اس لئے کہ جو بھی حاجت کے لئے آپ سے توسل کرتا تھا اس کی حاجت پوری ہوتی تھی۔

 القرماني، أحمد بن يوسف، أخبار الدول و آثار الأول في التاريخ، ج 1 ص 337 ، (المتوفى: 1019هـ)، المحقق، الدکتور فهمي سعد، الدکتور أحمد حطيط، عالم الکتاب.

 

عبد الحي بن أحمد بن محمد العكري الحنبلي{ متوفی 1089هـ{

آپ بھی اھل سنت کے بڑے عالم ہیں ،امام کاظم کے بارے میں کہتے ہیں:

السيد الجليل أبو الحسن موسى الكاظم ؛ قال أبو حاتم ثقة إمام من أئمة المسلمين وقال غيره كان صالحا عابدا جوادا حليما كبير القدر بلغه عن رجل الأذى له فبعث بألف دينار وهو أحد الأئمة الإثني عشر المعصومين على اعتقاد الأمامية

  عظیم مرتبہ والا، سید جناب ابوالحسن موسی بن جعفر۔۔۔ جن کے بارے میں ابو حاتم  کہتے ہیں : آپ ثقہ ( قابل اعتماد) اور  مسلمانوں کے  اماموں میں سے  ہیں۔  دوسرے آپ کو  نیک اور صالح ، عبادت گزار سخاوت مند ، حلیم  اور عظیم الشان شخصیت کے مالک انسان کہتے تھے ۔ آپ شیعہ عقیدہ کے مطابق معصوم اور بارہ اماموں میں سے ایک ہیں ۔

 ـ شذرات الذهب في أخبار من ذهب ،عبد الحي بن أحمد بن محمد العكري الحنبلي,  سنة الوفاة  089هـ ،ج ۱ ص   ,304 تحقيق عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط .الناشر دار بن كثير ،سنة النشر 1406هـ ،مكان النشر دمشق ،عدد الأجزاء 10

 

نبهاني ( متوفاي 1350 ه ق) :

اهل سنت کے علماء میں سے يوسف بن اسماعيل نبهاني آپ کے بارے میں کہتے ہیں:

موسي الكاظم أحد أعيان اکابر الائمة من ساداتنا آل البيت الکرام هداة الاسلام رضي الله عنهم أجمعين ونفعنا ببرکاتهم و أماتنا علي حبهم وحب جدهم الأعظم صلي الله عليه وسلم.

موسی کاظم ائمہ اھل بیت کے بزرگ ہستیوں اور دین کے پیشوا اور ہادیوں میں سے ایک ہیں ، خداوند ہمیں ان کی برکت سے نفع پہنچاتا ہے ، اللہ ہمیں ان کی محبت اور ان کے جد بزرگوار کی محبت کے ساتھ مرنے کی توفیق دئے  .

النبهاني، يوسف بن اسماعيل، جامع کرامات الأولياء، ج 2 ص 495 ، مرکز أهلسنة برکات رضا فور بندر غجرات، هند، الطبعة الأولي، 2001 م.

خيرالدين زرکلي (متوفاي 1410هـ):

آپ کے بارے لکھتے ہیں :

موسى بن جعفر الصادق بن محمد الباقر، أبو الحسن: سابع الأئمة الاثني عشر، عند الإمامية.كان من سادات بني هاشم، ومن أعبد أهل زمانه، وأحد كبار العلماء الأجواد.

  موسی بن جعفر صادق بن محمد باقر ؑ ،ابوالحسن ،شیعوں کے بارہ اماموں میں سے ساتھویں امام ہیں ۔ آپ بنی ہاشم کے سادات میں سے اپنے زمانے کے سب سے زیادہ عبادت گزار  اور بہت بڑا عالم اور نہایت سخاوت انسان تھے۔

الزركلي ، خير الدين (متوفاي 1410هـ)، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال والنساء من العرب والمستعربين والمستشرقين ، ج 7 ص 321 ، ناشر: دار العلم للملايين ـ بيروت، الطبعة: الخامسة، 1980م.

محمد دياب الإتليدي(متوفاي 1425هـ ق):

انہوں نے بھی آپ کے بارے میں لکھا ہے :

وكان يتزيا بزي أعرابي زهداً في الدنيا وتباعداً عنها

 موسي بن جعفر عليهما السلام، زھد اور پرہیزگاری اور دنیا سے دوری کی وجہ سے عرب کے دہاتی لوگوں کی طرح سادہ لباس پہنتے تھے ۔

الإتليدي، محمد دياب، إعلام الناس بما وقع للبرامكة مع بني العباس، ص 118 ، المحقق: محمد أحمد عبد العزيز سالم ، دار الكتب العلمية، بيروت / لبنان - 1425هـ - 2004 م.

  

 ابن تغري بردي :

 

اھل سنت کے عالم ابن تغزی بردی امام کاظم علیہ السلام  کی شخصیت کے بارے لکھتے ہیں :

  الامام موسى الكاظم ۔۔يدعى بالعبد الصالح لعبادته، ۔۔۔۔ وكان سيداً عالماً فاضلاً سنياً جواداً ممدحاً مجاب الدعوة.

 

  موسیٰ کاظم ؑ کو عبد صالح کہا جاتا تھا ۔۔ آپ سید، عالم  ،فاضل ،سخی  اور مجاب الدعوۃ ( ایسا شخص جس کی دعا رد نہیں ہوتی)تھے۔ 

 النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة، ج2 ص112:

 

  شيخ سيد شبلنجي

شيخ سيد شبلنجي آپ کے بارے میں اہل علم کا یہ قول نقل کرتے  ہیں :

موسی کاظم ، عظیم منزلت والے امام تھے  ,آپ عراق والوں کے ہاں’’ باب الحوائج الی اللہ ‘‘کے نام  سے مشہور تھے اور یہ شہرت ان سے توسل سے لوگوں کی حاجت پوری  ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔۔

نور الأبصار في مناقب آل البيت المختار ، ص148 ـ 152,

 

دوسرا حصہ : اهل سنت کے علماء اور  امام موسي کاظم علیہ السلام سے توسل؛

  اهل سنت کے بڑے علماء کہتے ہیں کہ امام موسي بن جعفر عليه السلام ، باب الحوائج کے مالک تھے ،جو بھی آپ سے متوسل ہوتے،اس کی حاجت پوری ہوجاتی ، اھل سنت کے بعض علماء جب کسی مشکل میں گرفتار ہوجاتے تو آپ سے متوسل ہوجاتے اور ان کی حاجت پوری ہوجاتی  ،ہم ذیل میں اسی کے چند نمونے ذکر کرتے ہیں ؛

ابن سمعون (متوفاي 387 هـ.ق):

انہوں نے امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں امام شافعی سے نقل کیا ہے ؛

كان الشافعي يقول قبر موسى الكاظم الترياق المجرب .

امام شافعی کہتے : موسی کاظم ؑ کی قبر ایک ایسی آزمودہ جگہ ہے جہاں ہر  درد کی  دوا ہے۔

 ابن سمعون ، أبو الحسن محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس البغدادي ، أمالي ابن سمعون ، ج 1 ، ص125 .

الدميري (متوفاي  808 هـ.ق):

انہوں نے بھی امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں امام شافعی کی بات کو نقل کیا ہے ؛

كان الشافعي يقول قبر موسى الكاظم الترياق المجرب .

 امام شافعی کہتے : موسی کاظم ؑ کی قبر ایک ایسی آزمودہ جگہ ہے جہاں ہر  درد کی  دوا ہے۔

الدميري، كمال الدين محمد بن موسى بن عيسى، الوفاة: 808 هـ ، حياة الحيوان الكبرى ج1، ص 189، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - 1424 هـ - 2003م ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : أحمد حسن بسج.

ابن صباغ مالکي (متوفاى855 هـ):

ابن صباغ نے اپنی کتاب الفصول المهمة میں لکھا ہے :

وهو المعروف عند أهل العراق بباب الحوائج إلى اللَّه ، وذلك لنجح قضاء حوائج المسلمين ونيل مطالبهم وبلوغ مآربهم وحصول مقاصدهم.

   موسي بن جعفر عليها السلام] عراق والوں کے ہاں ،باب حوائج الي الله کے نام سے مشھور ہیں اور لقب ان سے توسل کے نتیجے میں لوگوں کی حاجتیں ، تمنائں اور ضرورتیں پوری ہونی کی وجہ سے آپ کو دیا ہے  ۔

ابن صباغ المالكي المكي، علي بن محمد بن أحمد (متوفاى855 هـ)، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ج 2 ص 932 ، تحقيق: سامي الغريري، ناشر : دار الحديث للطباعة والنشر ـ قم ، الطبعة : الأولى، 1422هـ .

ابن حجر هيثمي (متوفاي 973 هـ.ق):

ابن حجر هيثمي نے  اپنی کتاب " الصواعق المحرقه " کہ جو حقہقت میں شیعوں کے رد میں لکھی ہے، اس میں وہ امام موسي کاظم علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں لکھتا ہے :

وكان معروفا عند أهل العراق بباب قضاء الحوائج عند الله. موسى الكاظم وهو وارثه علما ومعرفة وكمالا وفضلا سمي الكاظم لكثرة تجاوزه وحلمه وكان معروفا عند أهل العراق بباب قضاء الحوائج عند الله وكان أعبد أهل زمانه وأعلمهم وأسخاهم.

موسیٰ کاظم ؑ اپنے والد  صادق ؑ کے علم  و معرفت  اور کمال و فضیلت میں وارث  ہیں ۔ آپ کو صبر و تحمل اور عفو در گزر کی وجہ  سے  کاظم کہتے ہیں ، عراق والے  آپ کو   باب الحوائج کہتے تھے... آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عبادت گذار اور سب سے بڑے عالم  اور سخی تھے ۔

الهيتمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 590 ، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.

  ابا علي خلال کا آپ سے توسل :

ابو علي خلال، اهل سنت کے ان بزرگ علماء میں سے ہیں کہ جو امام موسي کاظم عليه لسلام کی قبر سے متوسل ہوتے ،جیساکہ خطيب بغدادي  اور ابن جوزي نے صحیح سند نقل کیا ہے ؛

اخبرنا احمد بن جعفر بن حمدان القطيعي قال :سمعت الحسن بن ابراهيم الخلاّل يقول : ما اهمّني امر، فقصدت قبر موسي بن جعفر (عليه السلام) . فتوسلت به إلا سهل الله لي ما احب .

احمد بن جعفر بن حمدان القطيعي نے نقل کیا ہے کہ حسن بن ابراهيم خلال سے سنا ہے وہ کہتے تھے  : کوئی بھی مشکل پیش نہیں آئی مگر یہ کہ  موسي بن جعفر (عليه السلام) کی قبر کے پاس جاکر ان سے میں متوسل ہوا اور اللہ نے جو میں چاہتا تھا وہی مجھے دیا۔

البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي  بن ثابت الخطيب (متوفاى463هـ)، تاريخ بغداد، ج 1 ص 120 ، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاى 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 9 ص 89 ، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.

عبدالباقي العمري الفاروقي( متوفاي 1279 هـ ق):

عبدالباقي العمري الفاروقي ، صاحب  کتاب «الترياق الفاروقي في منشأت الفاروقي» کہ جو خلیفہ دوم کی نسل سے ہے ،انہوں نے  امام علیہ السلا سے متوسل ہونے اور اپنی کشائی کے بارے میں لکھا ہے :

لذو استجر متوسلا ان ضاق امرک او تعسر

بأبي الرضا جدالجواد محمد موسي بن جعفر.

اگر کسی مشکل میں گرفتار ہوجائے تو امام رضا کے والد گرامی اور امام محمد جواد کے جد بزرگوار ، امام موسي بن جعفر عليهم‌السلام سے توسل کرو ۔

ایک اور جگہ پر وہ کہتے ہیں :

أيا ابن النبي المصطفي و ابن صفوه

علي و يا ابن الطهر سيدة النساء

لا کان موسي قد تقدس في طوي

فأنت الذي و اديه في تقدسا

خلعنا نفوسا قبل خلع نعالنا

غداة حللنا مرقدا منک مأنوسا

و ليس علينا من جناح بخلعها

لانک بالوادي المقدس يا موسي

نحن إذا عم خطب او دحي

کرب و خفنا نکتة من حاسد

لذنا بموسي الکاظم بن جعفر

الصادق بن الباقر بن الساجد

ابن الحسين بن علي بن ابي

طالب بن شيبة المحامد

اے اللہ کے برگزیدہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند ،اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھائی،علی کے فرزند ، اے جنت کے جوانوں اور جنت کی عورتوں کی سردار کے فرزند، اگر جناب موسی علیہ السلام گوہ طور پر جانے کی وجہ سے مقدس ہوگے تو آپ وہ کہ طور سینا نے آپ کی وجہ سے لباس تقدس پہنا ہے ۔

  ہم صبح کے وقت جب آپ کی قبر پر آتے ہیں  اور اپنے جوتے اتار دیتے ہیں تو اس وقت ہماری روحیں آپ سے کثرت محبت کی وجہ سے ،ہماری بدن سے نکلنے کے قریب ہوجاتی ہیں ۔ اگر ہماری روحیں نکل جائے تو جائے کیونکہ اے موسی! آپ وادی مقدس ہیں۔

جب ہمارے لئے کوئی ایسی مشکل پیش آئے جو ہماری زندگی کو تاریک کردے یا کسی برے حاسد سے ہم ڈر جائے تو موسي الکاظم ابن جعفر الصادق بن باقر ابن سجاد بن حسين بن علي بن ابي‌طالب بن شيبة الحامد،کی ہم پناہ لیتے ہیں .

الترياق الفاروقي في منشأت الفاروقي، ص 98-99.

قرماني (المتوفى: 1019هـ ق):

احمد بن يوسف لکھتے ہیں :

هوالمعروف عند أهل العراق بباب الحوائج، لأنه ما خاب المتوسل به في قضاء حجاة قط.

عراق والوں کے ہاں آپ " باب الحوائج" کے لقب سے مشہور ہیں ،کیونکہ جو بھی کسی مشکل اور حاجت کی وجہ سے ان سے متوسل ہوتے تو  اس کی حاجت روائی ہوتی ۔

القرماني، أحمد بن يوسف، أخبار الدول و آثار الأول في التاريخ، ج 1 ص 337 ، (المتوفى: 1019هـ)، المحقق، الدکتور فهمي سعد، الدکتور أحمد حطيط، عالم الکتاب.

تیسرا حصہ : اهل سنت کی کتابوں مین امام كاظم  عليه السلام کے معجزات

  اهل سنت کی کتابوں میں بہت سی روايات اور  ایسے واقعات  نقل ہوئے ہیں کہ جن کے مطابق انبياء کے علاوہ ، اولياء الهي بھی معجزات اور کرامات کے مالک ہوسکتے ہیں ، یہاں تک کہ ابن حبان  نے «باب المعجزات» کے ذیل میں مختلف عنوان دے کے ایسی روایات نقل کی ہیں کہ جن سے انبياء کے علاوہ دوسرے کا بھی صاحب معجزه‌ ہونا ثابت ہوتا ہے  اور اس میں یہ اعتراف کیا ہے :

ذكر الخبر الدال على إثبات كون المعجزات في الأولياء دون الأنبياء

ایسی روایات کا ذکر جن سے انبیاء کے علاوہ الاولیاء کے لئے بھی معجزہ ہونا ثابت ہوتا ہے ؛

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاى354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 14   ص 408 ،تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر:مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م.

اسی طرح وہ لکھتے ہیں :

ذكر خبر ثان يصرح بأن غير الأنبياء قد يوجد لهم أحوال تؤدي إلى المعجزات

دوسری خبر بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ انبياء کے علاوہ ،الاولیاء کے لئے ایسے حالات پیش آسکتے ہیں کہ جن سے وہ معجزات انجام دے سکتے ہیں  ۔

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاى354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 14   ص 41 ،تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر:مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م.

اهل سنت کی کتابوں میں جن ہستیوں کے لئے بہت سے معجزات نقل ہوئے ہیں ، انہیں میں سے ایک امام موسي بن جعفر عليهما السلام  کی شخصیت  ہیں ۔

ابن صباغ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

أمّا مناقبه وكراماته الظاهرة وفضائله وصفاته الباهرة تشهد له بأنه افترع منه الشرف

امام کاظم علیہ السلام کے مناقب اور ظاہر شدہ کرامات ،آپ کے فضائل اور اپ کی صفات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ شرافت اور عظمت کے مالک ہستی تھی ۔

ابن صباغ المالكي المكي، علي بن محمد بن أحمد (متوفاى855 هـ)، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ص 937، تحقيق: سامي الغريري، ناشر : دار الحديث للطباعة والنشر ـ قم ، الطبعة : الأولى، 1422هـ

 

اب ہم یہاں امام کے کرامات میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

قضيه شقيق بلخي و موسي بن جعفر عليهماالسلام:

شقيق بلخي نے  موسي بن جعفر عليهما السلام کے ساتھ اپنی ملاقات کے واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے :

وعن شقيق بن إبراهيم البلخي قال خرجت حاجا في سنة تسع وأربعين ومائتين فنزلت القادسية فبينا أنا أنظر إلى الناس في زينتهم وكثرتهم فنظرت إلى فتى حسن الوجه شديد السمرة يعلو فوق ثيابه ثوب من صوف مشتمل بشملة في رجليه نعلان وقد جلس منفردا فقلت في نفسي هذاالفتى من الصوفية يريد أن يكون كلا على الناس في طريقهم والله لأمضين إليه ولأوبخنه فدنوت منه فلما رآني مقبلا قال يا شقيق ) اجتنبوا كثيرا من الظن إن بعض الظن إثم ( ثم تركني ومضى فقلت في نفسي إن هذا لأمر عظيم قد تكلم على ما في نفسي ونطق بإسمي وما هذا إلا عبد صالح لألحقنه ولأسألنه أن يحالني فأسرعت في أثره فلم ألحقه وغاب عن عيني فلما نزلنا واقصة إذا به يصلي وأعضاؤه تضطرب ودموعه تجري فقلت هذا صاحبي أمضي إليه وأستحله فصبرت حتى جلس وأقبلت نحوه فلما رآني مقبلا قال يا شقيق إتل ) وإني لغفار لمن تاب وآمن وعمل صالحا ثم اهتدى ( ثم تركني ومضى فقلت إن هذا الفتى لمن الأبدال وقد تكلم على سري مرتين فلما نزلنا رمالا إذا بالفتى قائم على البئر وبيده ركوة يريد أن يستقي ماء فسقطت الركوة من يده في البئر وأنا أنظر إليه فرئيت قد رمق السماء وسمعته يقول:

أنت ريي إذا ظمئت من الماء  وقوتي إذا أردت الطعاما

اللهم سيدي مالي سواها فلا تعدمنيها قال شقيق فوالله لقد رأيت البئر قد إرتفع ماؤها فمد يده فأخذ الركوة وملأها ماء وتوضأ وصلى أربع ركعات ثم مال إلى كثيب رمل فجعل يقبض بيده ويطرحه في الركوة ويحركه ويشرب فأقبلت إليه وسلمت عليه فرد علي السلام فقلت أطعمني من فضل ما أنعم الله به عليك فقال يا شقيق لم تزل نعمة الله علينا ظاهرة وباطنة فأحسن ظنك بربك ثم ناولني الركوة فشربت منها فإذا سويق وسكر فوالله ما شربت قط ألذ منه ولا أطيب ريحا منه فشبعت ورويت فأقمت أياما لاأشتهي طعاما ولا شرابا ثم لم أره حتى دخلنا مكة فرأيته ليلة إلى جنب قبة الشراب في نصف الليل يصلي بخشوع وأنين وبكاء فلم يزل كذلك حتى ذهب الليل فلما رأى الفجر جلس في مصلاه يسبح الله ثم قام فصلى الغداة وطاف بالبيت أسبوعا وخرج فتبعته فإذا له حاشية وموال وهو على خلاف ما رأيته في الطريق ودار به الناس من حوله يسلمون عليه فقلت لبعض من رأيته يقرب منه من هذا الفتى فقال هذا موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام.

شفیق بلخی سے روایت ہے کہ میں 149 ھ میں حج کے لئے روانہ ہوا  اور ہم  نے مقام  قادسیہ پر قیام کیا ۔ وہاں میری نظر ایک نوجوان پر جا پڑی،  اسے دیکھ کر میں نے دل  میں کہا : شاید یہ کوئی صوفی ہے جو لوگوں پر بوجھ بننا چاہتا ہے۔یہ  سوچ کر اس کی سرزنش کرنے کے لئے اس کے قریب گیا ۔ اس نے مجھے آتے دیکھ کر میرا نام  لیا اور کہا : شفیق!{يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوااجْتَنِبُواكَثِيرًامِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ} [الحجرات: 12]بدگمانی سے بچو کیونکہ  کچھ بدگمانی گناہ ہے]۔  قرآن مجید کی  آیت کے اس حصے کو پڑھ کر جوان چلا گیا ۔میں نے دل میں کہا:  اس جوان نے میری دلی کیفیت کو  بھانپ لیا یہ تو اللہ کا ولی ہے ، یہاں سے چل کر ہم مقام ’’واقعہ ‘‘پہنچے تو وہ جوان مجھے نظر آیا۔میں بدگمانی کی معذرت طلب کرنے کے لئے اس کے پاس گیا تو  اس نے نماز سے فارغ ہوکر فرمایا: اے شفیق !وَإِنىِ لَغَفَّارٌلِّمَن تَابَ وَ امَنَوَ عَمِلَ صَالِحًا ثم اهْتَدَى‏(82,طه)[ میں یقینا اسے بخش دیتا ہوں  جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور عمل صالح بجالائے پھر ہدایت پر قائم رہے ]۔ یہ کہہ کر وہ میری نظروں سے غائب ہوگئے اور میں نے سوچا :ہو یا نہ ہو یہ جوان ’’ابدال ‘‘ ہے کیونکہ وہ میرے دل کی باتوں سے باخبر ہے۔ پھر ہم منزل ’’زبالہ‘‘ پر پہنچے  تو میں نے اس جوان کو دیکھا وہ ایک کنوئیں پر کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک ڈول تھا وہ پانی بھرنا چاہتا تھا  لیکن ڈول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر  رسی سمیت کنوئیں میں جاگرا ۔اس  نے آسمان کی طرف نظر کی اور دعا مانگی ۔ خدا کی قسم  میں نے دیکھا کہ کنوئیں  میں جوش پیدا ہوا اور پانی اُبل کر  اوپر آگیا اور جوان نے ہاتھ بڑھا کر اپنا ڈول نکال لیا  ، اس کے پانی سے وضو کیا  اور چار رکعت  نماز پڑھی ، پھر  ریت  کی کچھ  مٹھیاں اٹھا  کر اپنے ڈول میں ڈال دیا  اور کھانا کھانا شروع کیا ۔یہ دیکھ کر میں آگے بڑھا  اور انہیں سلام  کیا انہوں نے مجھے جواب دیا  ۔میں نے ان سے کہا : اللہ کی اس نعمت میں مجھے بھی شامل فرمائیں ۔انہوں نے  ڈول میری طرف بڑھا دیا اور میں نے دیکھا اس میں تو ستو اور شکر کی شربت ہے ، سیر ہوکر پیا اور ایسا مزے دار  مشروب  زندگی میں  نہیں پیا  تھا۔(یہاں تک کی اس کے بعد کئی دن مجھے  کھانے پینے کی خواہش نہ ہوئی۔)  جب میں نے ڈول ان کے حوالے کیا پھر  وہ میری نگاہوں سے غائب ہوئے اور پورے  راستے  میں دکھائی نہیں دیے اور جب میں مکہ پہنچا تو اس جوان کو خشوع اور خضوع سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا  وہ نماز میں زار و قطار رو رہا تھا، پوری رات وہ عبادت میں مصروف رہا،  صبح ہوئی تو اس نے بیٹھ کر تسبیح  پڑھی  اور صبح کی نماز ادا کی۔  پھر بیت اللہ کا سات بار طواف کیا  اور حرم سے باہر نکلا ،میں نے دیکھا کہ اس کے پاس سواری کے جانور  اور نوکر چاکر بھی ہیں ۔ انہوں نے ایک خوبصورت لباس پہنا اور لوگ مسائل دریافت کرنےکے لئے وہاں جمع ہوئے۔میں نے ان کے ایک غلام سے پوچھا کہ یہ  بزرگوار کون ہیں ؟ اس نے مجھے بتایا یہ عالم آل محمد  ابو ابراہیم  ہیں ۔  میں نے مزید وضاحت طلب کی  تو اس نے بتایا۔ یہ موسیٰؑ  بن جعفرؑ بن محمدؑ بن علیؑ بن  حسینؑ بن علی بن ابی طالب ؑ ہیں ۔ میں نے کہا  کہ حقیقتا  ایسے معجزات  ایسے ہی افراد کو زیب دیتے ہیں اور اسی خاندان کے لئے مخصوص  ہیں۔

  . ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاى 597 هـ)، صفة الصفوة، ج 2 ص 185-187 ، تحقيق: محمود فاخوري - د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م.

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 13-14 تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

ابن صباغ المالكي المكي، علي بن محمد بن أحمد (متوفاى855 هـ)، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، 940 – 943 ، تحقيق: سامي الغريري، ناشر : دار الحديث للطباعة والنشر ـ قم ، الطبعة : الأولى، 1422هـ

اس واقعے کو ابن حجر نے نقل کیا ہے اور اس کے شروع میں کہا ہے ؛

ومن بديع كراماته ما حكاه ابن الجوزي والرامهرمزي وغيرهما عن شقيق البلخي أنه خرج حاجا سنة تسع وأربعين ومائة فرآه بالقادسية

 یہ ان کرامات میں سے کہ جو بے مثال ہے اور  ابن جوزي ،رامهرمزي  اور دوسروں نے نقل کیا ہے...

الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2   ص 591 ، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.

زندان سے امام کا آزاد ہونا

ابن حجر هيثمي نے مسعودي سے نقل کیا ہے :

وذكره المسعودي أن الرشيد رأى عليا في النوم معه حربة وهو يقول إن لم تخل عن الكاظم وإلا نحرتك بهذه فاستيقظ فزعا وأرسل في الحال والي شرطته إليه بإطلاقه وأن يدفع له ثلاثين ألف درهم وأنه يخيره بين المقام فيكرمه أو الذهاب إلى المدينة ولما ذهب إليه قال له رأيت منك عجبا وأخبره أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم وعلمه كلمات قالها فما فرغ منها إلا وأطلق.

قيل وكان موسى الهادي حبسه أولا ثم أطلقه لأنه رأى عليا رضي الله عنه يقول ( فهل عسيتم إن توليتم أن تفسدوا في الأرض وتقطعوا أرحامكم ) «محمد/ 22» فانتبه وعرف أنه المراد فأطلقه ليلا

  هارون الرشيد نے  اميرالمؤمنين علي عليه السلام  کو خواب میں دیکھا ، آپ کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا اور یہ فرمارہے تھے : اگر تم نے  كاظم [عليه السلام] کو  آزاد نہ کیا تو اسی خنجر سے تیرے سر کو تن سے جدا کردوں گا۔ هارون الرشيد خوف کی حالت میں نیند سے اٹھا اور پولیس کے آفسر سے کہا : موسی کو آزاد کرو اور ۳۰ ہزار درھم بھی انہیں دے دو اور انہیں یہ اختیار دو کہ اگر چاہئے تو یہاں بغداد میں عزت و احترام کے  ساتھ رہے ،چاہے تو مدینہ واپس تشریف لے جائے ، جب ھارون  الرشید ، موسی بن جعفر علیہ السلام کے پاس گیا تو کہا :آپ کے بارے میں ایک عجیب خواب دیکھا ہوں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آزاد ہونے کے لئے مجھے ایک دعا تعلیم دی ،ابھی دعا تمام نہیں ہوئی تھی میں آزاد ہوا ۔

ابن حجر نے آگے لکھا ہے: نقل ہوا ہے کہ ہہلے الھادی نے آپ کو  زندان میں ڈالا اور پھر آپ کو آزاد کیا : کیونکہ اس نے امام علی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا ،آپ نے اس آیت کی تلاوت کی " تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو«محمد/ 22»

موسي الهادي نیند سے بیدار ہوا اور یہ سمجھ گیا کہ مقصد  موسي بن جعفر [عليهم السلام] کو آزاد کرنا ہے لہذا راتوں رات آپ کو آزاد کردیا .

أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي الوفاة: 973هـ ، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة  ج 2، ص 592 ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط

ایک شخص کا زندان سے آزاد ہونا

  ابن خلكان ایک واقعے کو نقل کرتا ہے کہ مهدي عباسي نے ایک شخص لمبے عرصے کے لئے زندان میں ڈال دیا ۔ امام کاظم عليه السلام کو اس نے خواب میں دیکھا  اور انہیں زندان سے رہائی کی خوش خبری دی اور وہ آزاد ہوگا ۔

وقال عبد الله بن يعقوب بن داود أخبرني أبي أن المهدي حبسه في بئر وبنى عليها قبة قال فمكثت فيها خمس عشرة سنة وكان يدلى لي فيها كل يوم رغيف خبز وكوز ماء وأوذن بأوقات الصلوات فلما كان في رأس ثلاث عشرة سنة أتاني آت في منامي فقال

حنا على يوسف رب فأخرجه      من قعر جب وبيت حوله غمم

قال فحمدت الله تعالى وقلت أتاني الفرج ثم مكثت حولا لا أرى شيئا فلما كان رأس الحول الثاني أتاني ذلك الآتي فأنشدني

عسى فرج يأتي به الله إنه       له كل يوم في خليقته أمر 

قال ثم أقمت حولا آخر لا أرى شيئا ثم أتاني ذلك الآتي بعد الحول فقال

عسى الكرب الذي أمسيت فيه       يكون وراءه فرج قريب

فيأمن خائف ويفك عان              ويأتي أهله النائي الغريب

فلما أصبحت نوديت فطننت أني أوذن بالصلاة فدلي لي حبل أسود وقيل لي اشدد به وسطك ففعلت وأخرجت فلما قابلت الضوء عشي بصري فانطلقوا بي فأدخلت على الرشيد فقيل لي سلم على أمير المؤمنين فقلت السلام عليك يا أمير المؤمنين ورحمة الله وبركاته المهدي فقال الرشيد لست به فقلت السلام على أمير المؤمنين ورحمة الله وبركاته الهادي فقال لست به فقلت السلام على أمير المؤمنين ورحمة الله فقال: الرشيد، فقلت الرشيد. فقال: يا يعقوب، ما شفع فيه إلى أحد غير أني حملت الليلة صبية لي على عنقي فذكرت حملك إياي على عنقك، فرثيت لك وأخرجتك. وكان يعقوب يحمل الرشيد على عنقه وهو صغير يلاعبه ثم أمر له بجائزة وصرفه.

يعقوب بن داود کہتا ہے :  مهدی عباسي نے مجھے ایک کنوئیں میں بند کر دیا اور اس کے اوپر ایک چھت ڈال دی ، میں ۱۵ سال اسی میں رہا ۔ ھر روز ایک روٹی اور ایک برتن میں پانی مجھے دیتا اور نماز کے وقت میں خبر دیتا تاکہ میں وقت پر نماز بڑھ سکوں۔

جب زندان میں تیرویں سال شروع ہوا تو کسی نے خواب میں مجھ سے کہا :یوسف کو اس کے مہربان رب نے  اس کنوئیں کے اندر سے باہر لایا کہ جس میں ھر طرف غم و اندوہ کا سما تھا  ۔ یہ خواب دیکھ کر میں نے اللہ کی حمد و ثنا بجا لائی اور یہ سوچا کہ اب رہائی کا وقت آن پہنچا ہے ۔لیکن ایک سال گزر گیا میں زندان میں پڑا رہا ،ٹھیک ایک سال بعد وہی بندہ پھر خواب میں نظر آیا اور کہا : امید ہے کہ جس غم و اندوہ میں مدتیں گزری اس سے رہائی مل جائے گی اور پریشانی ختم ہوگی ،گرفتار ،آزاد ہوگا ،اپنے وطن سے دور مسافر اپنے گھر اور بچوں سے آملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہوتے ہی مجھے آواز دی ،میں نے یہ سوچا ،شاید نماز کا وقت ہوا ہے ۔میں نے دیکھا کہ کالی رسی اوپر سے ننیچے آویزاں کی گئی اور مجھے اس سے اپنے کمر کو مظبوطی سے باندھنے کا کہا ۔میں نے ایسا ہی کیا اور مجھے اس سے باہر نکالا ،جب میں باھر نکلا تو باھر کی روشنی کی وجہ سے میری آنکھیں تار تار تھی ۔

 پھر مجھے رشید کے پاس لے گئے۔۔مجھ سے کہا گیا : امیر المومنین کو سلام کرو ۔میں نے کہا: السلام عليك ورحمة الله وبركاته ، يا أمير المؤمنين المهدي، رشید نے کہا میں مھدی نہیں ہوں۔ میں نے کہا : السلام على یا أمير المؤمنين ورحمة الله وبركاته الهادي، اس نے کہا میں ھادی نہیں ہوں ۔میں نے پھر سلام میں کہا : السلام على أمير المؤمنين ورحمة الله وبركاته ۔ اگے سے کہا : رشید ۔ میں نے کہا: رشید {یعنی اس کا نام لے کر سلام کیا }۔یعقوب کہتا ہے : رشید نے مجھ سے کہا : اللہ کی قسم کسی نے بھی تمہاری سفارش نہیں کی ،کل رات میں اپنی بچی کو کندوں پر اٹھایا ہوا تھا ،اچانک مجھے یاد آیا کہ جب میں بچہ تھا تو تم مجھے کندوں پر اٹھاتا تھا ،مجھے تم پر رحم آیا اور ھارون نے یعقوب کو انعام  دینے کا حکم دیا۔

إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 7، ص 25- 26.، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

  ابن سمعون نے بھی اسی واقعے کو  شافعي کے امام  امام کاظم عليه السلام کی قبر کے پاس سے دعائیں قبول ہونے کی بات کو نقل کرنے کے بعد واقعے اس کو  نقل کیا ہے ۔

وتوفي موسى الكاظم في رجب سنة ثلاث وقيل سنة سبع وثمانين ومائة ببغداد مسموماً، وقيل إنه توفي في الحبس وكان الشافعي يقول قبر موسى الكاظم الترياق المجرب، وقد أذكرتني هذه الحكاية ما حكاه الخطيب أبو بكر في تاريخه وابن خلكان أيضاً في ترجمة يعقوب بن داود أن المهدي حبسه في بئر وبنى عليها قبة فمكث فيها خمس عشرة سنة وكان يدلي له فيها كل يوم رغيف ...

ابن سمعون البغدادي ، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفاى387هـ)، أمالي ابن سمعون ، ج 1  ص 126 طبق برنامه الجامع الكبير

جیساکہ معلوم ہوا کہ  حضرت امام موسي بن جعفر صلوات الله و سلامه عليه کے اتنے کرامات اور حاجت مندوں کی حاجتیں پوری ہونے کے واقعات موجود ہے کہ عراق کے شیعہ اور اھل سنت کے ہاں آپ باب الحوائج الي الله کے لقب سے مشھور تھے ۔

چوتھا حصہ : امام کاظم عليه السلام کا اپنے مخالفوں کے ساتھ طرز عمل :

  حضرت موسي بن جعفر عليهما السلام کا تواضع اور اخلاق اتنا تھا کہ آپ کے دوست اور آپ کے دشمن سب اپ کی مدح کرتے تھے ۔

مزي نے تهذيب الکمال میں اور خطيب بغدادي نے اپنی  تاريخ کی کتاب میں ایک واقعے کو نقل کیا ہے کہ خلیفہ دوم کی نسل سے ایک بندہ امام  حضرت علي عليه السلام کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا :

قال الحسن : قال جدي يحيى بن الحسن : وذكر لي غير واحد من اصحابنا ان رجلا من ولد عُمَر بن الخطاب كان بالمدينة يؤذيه ويشتم عليا.

قال : وكان قد قال له بعض حاشيته : دعنا نقتله ، فنهاهم عن ذلك اشد النهي وزجرهم اشد الزجر ، وسأل عن العُمَري ، فذكر له انه يزدرع بناحية من نواحي المدينة ، فركب إليه في مزرعته ، فوجده فيها فدخل المزرعة بحماره ، فصاح به العُمَري : لا توطئ زرعنا.

فوطأه الحمار ، حتى وصل إليه ، فنزل ، فجلس عنده وضاحكه ، وَقَال له : كم غرمت في زرعك هذا ؟ قال له : مئة دينار.

قال : فكم ترجو ان تصيب ؟ قال : انا لا اعلم الغيب.

قال : انما قلت لك : كم ترجو ان يجيئك فيه ؟ قال : ارجو ان يجيئني مئتا دينار.

قال : فأعطاه ثلاث مئة دينار ، وَقَال هذا زرعك على حاله.

قال : فقام العُمَري فقبل رأسه وانصرف قال : فراح إلى المسجد فوجد العُمَري جالسا ، فلما نظر إليه ، قال : الله اعلم حيث يجعل رسالاته.

قال : فوثب اصحابه ، فقالوا له : ما قصتك ، قد كنت تقول خلاف هذا ؟ قال : فخاصمهم وشاتمهم.

قال : وجعل يدعو لابي الحسن موسى كلما دخل وخرج.

قال : فقال أبو الحسن لحامته الذين ارادوا قتل العُمَري : ايما كان خير ؟ ما اردتم أو ما اردت ان اصلح امره بهذا المقدار.

حسن بن محمد نے نقل کیا ہے: { ان رجلا من ولد عُمَر بن الخطاب كان بالمدينة يؤذيه ويشتم عليا.۔۔۔۔۔۔}

خلیفہ دوم  کی نسل  سے  ایک عمری شخص جب امام  موسیٰ کاظم علیہ السلام کو دیکھتا تو  وہ امام کو تنگ کرتا، انہیں برا بلا کہتا اور امام علی بن ابی طالب علیہ السلام  کو بھی برا بلا کہتا ۔ امام کاظم علیہ السلام کے بعض  پیروکاروں نے کہا:  ہمیں  اجازت دیں ہم اسے قتل کردیتے ہیں,  لیکن امام  نے  اس سے منع فرمایا۔ ایک دن آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا کہ وہ فلان جگہ اپنی کھیت میں کام کررہا ہے  ۔ امام  سوار  ہو کر اس کے کھیت کی طرف گئے.  اس نے امام  کو   آتے دیکھ کر شور مچاتے ہوئے کہا  :فصل کو پاوں تلے مت  روندو ، امام  اسکی باتوں پر توجہ کیے بغیر اس کے پاس گئے اور ہنسنے لگے اور اس  سے کها : تم نے  کتنا اس کھیت پر خرچ کیا  ؟ اس نے کہا سو درہم ۔ امام نے فرمایا: کتنے فائدے  کی امید ہے ؟ اس نے کہا  مجھے  معلوم نہیں ۔ امام نے  فرمایا : تم سے سوال کیا ہے کتنے کی امید ہے ۔ اس نے کہا دو سو درهم   ۔ امام نے  تین سو درہم اس کو دیا ۔ امام کی خوش اخلاقی  دیکھ کر  وہ اٹھا اور امام کے سر کا بھوسا لیا  ۔ اس کے بعد  جب بھی  وہ امام   کو دیکھتا ,ان  پر سلام کرتا  اور  کہتا: الله اعلم حیث جعل رسالته۔(اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔) جب بھی امام کو دیکھتا وہ امام کے لئے دعا کیا کرتا تھا۔

 مسجد میں جب یہ حالت پیش آئی تو امام کے اصحاب اس کے پاس گئے اور اس سے پوچھا مسئلہ کیا ہے ؟ تم تو پہلے ان کی بے احترامی کیا کرتا تھا ۔ اب یہ اچانک کیا ہوا ہے ؟ اس نے کہا : اب میں ایسا ہی کیا کروں گا اور پھر امام موسی کاظم علیہ السلام کے لئے دعا کرنے لگا ۔لوگ اس سے بحث و گفتگو کرنے لگے لیکن وہ یہی کہتا اور کرتا رہا ۔

اور جب  امام کاظم علیہ السلام گھر واپس پلٹے تو آپ نے ان اصحاب سے سے فرمایا کہ جنہوں نے اس کو مار دینے کی اجازت مانگی تھی۔ اب جو تم لوگ اس کے بارے میں کرنا چاہتے تھے وہ بہتر تھا یا یہ جو میں نے اس کے ساتھ انجام دیا  ؟   

المزي،  ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 29 ص 46-45 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي  بن ثابت الخطيب (متوفاى463هـ)، تاريخ بغداد، ج 13 ص 30 ، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

نتيجه:

امام کاظم صلوات الله و سلامه عليه کا مقدس وجود ،نسب کے لحاظ سے اور منزلت و مقام ، فضائل ومناقب ،اخلاق و تواضع غیرہ کے لحاظ سے اس مقام پر تھے کہ اھل سنت کے علماء نے بھی اپنی کتابوں میں اس کے نمونے ذکر کیے ہیں، ہم نے اس تحریر میں آپ کی شخصیت کے بارے میں اھل سنت کے علماء کے ںظریے اور اس مظلوم امام  کی شخصیت کے بارے میں بعض تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا ۔

 

 

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم

تحقيقاتي ادارہ ،حضرت ولي عصر عجل الله تعالي فرجه الشريف




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی