2024 March 29
کیا حضرت علی اصغر(ع) کا آسمان کی طرف اچھالا گیا خون واپس زمین کی طرف واپس نہیں آیا؟
مندرجات: ٣٣٨ تاریخ اشاعت: ٢٠ September ٢٠١٧ - ٠٨:٠٣ مشاہدات: 6298
سوال و جواب » امام حسین (ع)
جدید
کیا حضرت علی اصغر(ع) کا آسمان کی طرف اچھالا گیا خون واپس زمین کی طرف واپس نہیں آیا؟

 سوال:

         کیا حضرت علی اصغر(ع) کا آسمان کی طرف اچھالا گیا خون واپس زمین کی طرف واپس نہیں آیا ؟

کیا یہ مطلب ٹھیک ہے برائے مہربانی کتابوں کے نام کے حوالے سے مکمل جواب دیں۔

 

 جواب:

سوال میں دو مطلب بیان ہوئے ہیں:

1-          کیا حضرت علي اصغر (ع) کے خون کا آسمان کی طرف اچھالنے کے واپس نہ آنا، کتب میں سند معتبر کے ساتھ نقل ہوا ہے یا نہیں ؟

2-          کیا ذکر شدہ نقل صحیح ہے یا نہیں ؟

 

پہلے مطلب کا جواب:

کتب شیعہ اور اہل سنت میں امام حسین(ع) کے دو چھوٹے بچّوں کے گلے میں تیر لگنے اور امام کی گود میں خیمے کے سامنے شھید ہونے کے بارے میں نقل ہوا  ہے۔

بعض کتب میں اس بچے کا نام علی ذکر ہوا  ہے۔

بعض دوسری کتب میں اس کا نام عبد اللہ ذکر ہوا ہے۔

بچے کے دو نام ہونے کی وجہ سے ذہن میں یہ سوال ایجاد ہوتا ہے کہ کیا وہ دو بچے تھے یا ایک ہی بچے کے دو نام ذکر و نقل ہوئے ہیں۔

قرائن اور تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی طرف خون اچھالنا یہ فقط حضرت علی اصغر(ع) سے مربوط ہے اور اگر بعض کتابوں میں عبد اللہ نام ذکر ہوا ہے تو اس سے مراد یہی علی اصغر(ع) ہیں۔

کیونکہ

اولا: بعض روایات میں عبد اللہ ابن الحسین کو حضرت رباب کا بیٹا ذکر کیا گیا ہے اور واضح ہے کہ بی بی رباب علی اصغر(ع) کی والدہ تھی اور بہت بعید ہے کہ چھے ماہ کے بعد ایک دوسرا بیٹا بنام عبد اللہ پیدا ہوا ہو۔

ثانیا: ایک دوسرا قرینہ یہ ہے یہ امام حسین(ع) نے اپنے بچے کے بدن کو شھادت کے بعد شھداء کے خیمے میں لایا اور وہاں پر رکھا۔ اس بچے کے خون کے اچھالنے کے میں نقل نہیں ہوا لیکن علی اصغر(ع) کے بدن مبارک کو امام نے دفن کیا تھا۔

ثالثا:

امام حسین(ع) کے چھوٹے بچے کے بارے میں نقل ہو ہے کہ روز عاشورا امام نے میدان میں جانےسے پہلے چاہا کہ اس کے کان میں اذان گھٹی دیں کہ اسی وقت ایک تیر آیا جو بچے کے گلے میں لگا اور وہ شھید ہو گیا لیکن علی اصغر(ع) کہ چھے ماہ کے تھے کان میں اذان اور گھٹی کا دینا  معنی نہیں رکھتا۔

لھذا وہ روایت کے جس میں عبد اللہ کا نام ، باپ کی گود میں شھید ہونا اور خون کا آسمان کی طرف اچھالنا آیا ہے، وہ علی اصغر(ع) سے مربوط ہے۔ خود مؤرخین نے کہا ہے کہ ان روایات میں علی اصغر کے نام کی جگہ عبد اللہ کا نام ذکر ہوا ہے۔

یعقوبی اس بارے میں لکھتا ہے کہ:

«فإنه لواقف على فرسه إذ أتي بمولود قد ولد له في تلك الساعة ، فأذن في أذنه ، وجعل يحنكه ، إذ أتاه سهم ، فوقع في حلق الصبي ، فذبحه ، فنزع الحسين السهم من حلقه ، وجعل يلطخه بدمه ويقول : والله لأنت أكرم على الله من الناقة ، ولمحمد أكرم على الله من صالح ! ثم أتى فوضعه مع ولده وبني أخيه.»

حسین(ع) گھوڑے پر سوار تھے کہ ان کے بیٹے کو کہ جو اسی وقت پیدا ہوا تھا، امام کے پاس لائے۔ امام نے بچے کے کان میں اذان اور گھٹی دی۔ اسی وقت ایک تیر آیا جو بچے کے گلے میں لگا اور وہ شھید ہو گیا۔ امام نے تیر کو گلے سے باہر نکالا اس حالت میں کہ بچہ خون میں ڈوبا ہوا تھا۔

اس پر امام نے بچے سے کہا کہ خدا کی قسم تیرا مقام خدا کے نزدیک حضرت صالح کے اونٹنی سے بالا تر ہے اور رسول خدا کا مقام حضرت صالح سے بالا تر ہے۔ اس کے بعد بچے کو شھداء کے بدنوں کے نزدیک لا کر رکھ دیا۔

اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح _متوفاى292ق_، تاريخ اليعقوبي، ج 2 ص 245، ناشر: دار صادر – بيروت.

 

قابل توجہ یہ بات ہے کہ اگر عبد اللہ اسی دوسرے پیدا ہونے والے بچے کا نام ہو تو یہ علی اصغر(ع) کے تیر لگنے، شھید ہونے اور خون کس آسمان کی طرف اچھالنے کے متضاد نہیں ہے کیونکہ حضرت علی اصغر(ع) کا موجود ہونا کتب تاریخی میں ثابت ہے اور ممکن ہے حضرت عبد اللہ کے لیے بھی تیر لگنا اور باپ کی گود میں شھید ہونا تکرار ہوا ہو۔

یہ نکتہ اس لیے مہم ہے کہ بعض دل کے بیمار انسان دو نام ہونے اور دو طرح کی روایت ہونے کی وجہ سے وجود علی اصغر کا انکار کرتے ہیں ۔ پھر اسی کے ساتھ ان کا پیاسا شھید ہونا۔ امام حسین(ع) کا اس کے لیے دشمن سے پانی مانگنا سب کا انکار کر دیتے ہیں حالانکہ کتب شیعہ و سنی کے مطابق حضرت علی اصغر(ع) موجود ہونا ایک ثابت شدہ بات ہے۔

اب ہم موضوع سوال کی طرف واپس آتے ہیں:

علی اصغر(ع) کے خون کا اچھالنا کتب میں دو طرح سے نقل ہوا ہے:

1-             آسمان کی طرف خون کا اچھالنا اور خون کا واپس نہ آنا:

بہت سی روایات تاریخی واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ امام حسين (ع) نے علی اصغر(ع) کے خون کو آسمان کی طرف اچھالا ہے۔

 

مؤرخان اسلامی کے اقوال:

ابو الفرج اصفهانی بزرگ تاریخ دان نے اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں ایک عینی شاھد سے واقعے کو نقل کیا ہے کہ امام حسین(ع) نے جب خون کو آسمان کی طرف اوپر اچھالا تو ایک قطرہ بھی واپس زمین پر نہیں آیا:

«حدثني محمد بن الحسين الأشناني قال: حدثنا عباد بن يعقوب قال: أخبرنا مورع بن سويد بن قيس قال: حدثنا من شهد الحسين، قال: كان معه ابنه الصغير فجاء سهم فوقع في نحره، قال: فجعل الحسين يأخذ الدم من نحره ولبته فيرمى به إلى السماء فما يرجع منه شئ، ويقول: اللهم لا يكون أهون عليك من فصيل (ناقة صالح).»

مورع بن سوید شاھد عینی سے واقعے کو نقل کرتا ہے کہ:امام حسین(ع) کی آغوش میں ان کا چھوٹا بچہ تھا، ایک تیر آیا جو بچے کے گلے میں لگا۔ امام گلے کے خون کو اپنے ہاتھ میں جمع کرتے جاتے تھے اور آسمان کی طرف اچھالتے جاتے تھے در حالیکہ خون کا ایک قطرہ بھی واپس زمین پر نہیں آتا تھا۔ اس پر امام نے فرمایا کہ: اے خداوندا میرے بیٹے کا مقام تیرے نزدیک حضرت صالح کی اونٹنی سے کم تر نہیں ہے۔

الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين - متوفاى356 ق -، مقاتل الطالبيين، ص 60، طبق برنامه الجامع الكبير

ابو البركات دمشقی  مؤرخ اهل سنت، صاحب كتاب «جواهر المطالب» لکھتا ہے کہ:

«وأوتي (عليه السلام) بصبي صغير من أولاده اسمه عبد الله فحمله وقبله فرماه رجل من بني أسد فذبح ذلك الطفل ! فتلقى الحسين دمه بيده وألقاه نحو السماء؟ وقال: رب إن كنت حبست عنا النصر من السماء فاجعله لما هو خير لنا، وانتقم لنا من الظالمين.»

 

امام حسین(ع) کا ایک چھوٹا بیٹا تھا جس کا نام عبد اللہ تھا۔ امام نے اسے گود میں لیا اور چومنا شروع کیا کہ اسی وقت حرملہ کہ جو قبیلہ بنی اسد سے تھا، اس نے بچے کو تیر مار ذبح کر دیا۔ امام حسین(ع) نے بچے کے خون کو ہاتھوں میں لیا اور آسمان کی طرف اوپر اچھالا اور فرمایا: اے خداوندا اگر ظاہری طور آپ ہماری مدد نہیں کر رہے تو اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر جزا دے اور ہمارے دشمنوں سے انتقام لے۔

      جواهر المطالب في مناقب الإمام علي (ع) - ابن الدمشقي - ج 2 ص 288 ،‌ شمس الدين أبي البركات محمد بن أحمد الدمشقي الباعوني الشافعي المتوفى سنة 871 ه‍

ابن كثير دمشقی عالم اهل سنت،‌ هاني بن ثبيت حضرمی سے نقل کرتا ہے کہ:

«قال ثم إن الحسين أعيا فقعد على باب فسطاطه وأتى بصبى صغير من أولاده اسمه عبد الله فأجلسه فى حجره ثم جعل يقبله ويشمه ويودعه ويوصى أهله فرماه رجل من بنى أسد يقال له ابن موقد النار بسهم فذبح ذلك الغلام فتلقى حسين دمه فى يده وألقاه نحو السماء

پھر امام حسین(ع) تھک کر خیمے کے سامنے بیٹھ گئے۔ امام کے پاس ان کے چھوٹے بیٹے کو لائے جس کا نام عبد اللہ تھا۔ امام نے اس کو گود میں لیا اور اسکو چوم چوم کر خدا حافظی کر رہے تھے کہ اسی وقت بنی اسد قبیلے کے ایک بندے ابن موقد النار نے تیر اس بچے کو گلے پر مار کر ذبح کر دیا۔ امام نے اس کے خون کو ہاتھوں میں کر اوپر آسمان کی طرف اچھال دیا۔

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي _متوفاى774 ق_، البداية والنهاية، ج 8، ص 186، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

 

اوپر والی ہر دو تاریخی نقل کے مطابق، بچے کا نام عبد اللہ ذکر ہوا ہے لیکن اس کے کان میں اذان اور گھٹی دینے کا ذکر نہیں ہوا۔ اسی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت علی اصغر(ع) سے تعلق رکھتا ہے لیکن نام غلطی سے عبد اللہ ذکر ہوا ہے۔

 

خوارزمی ايک دوسرا  عالم اهل سنت ہے جو خون کو آسمان کی طرف اچھالنے کے علاوہ نقل کرتا ہے کہ اس بچے کا نام علی تھا:

«ناولوني عليا الطفل حتى أودعه. فناولوه الصبي، فجعل يقبله ويقول: ويل لهؤلاء القوم إذا كان خصمهم جدك، وبينا الصبي في حجره، إذ رماه حرملة بن الكاهل الأسدي فذبحه في حجر الحسين (عليه السلام)، فتلقى الحسين دمه حتى امتلأت كفه، ثم رمى به نحو السماء، وقال: أللهم إن حبست عنا النصر فاجعل ذلك لما هو خير لنا. ثم نزل الحسين (عليه السلام) عن فرسه وحفر للصبي بجفن سيفه، ورمله بدمه، وصلى عليه.»

امام نے فرمایا کہ علی کو لاؤ کہ میں اس سے خدا حافظی کروں۔ بچے کو لایا گیا۔ امام نے بچے کو چوما اور فرمایا:ہلاکت ہو ایسے گروہ کے لیے کہ جن کا دشمن تیرا دادا ہے۔ جب یہ بچہ امام کی گود میں تھا حرملہ بن کاھل اسدی نے بچے کو تیر مار کر امام کی گود میں شھید کر دیا۔ امام نے خون کو جمع کر کہ آسمان کی طرف اچھال دیا اور فرمایا: اے خداوندا اگر ظاہری طور آپ ہماری مدد نہیں کر رہے تو اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر جزا دے۔ پھر امام نے گھوڑے سے نیچے آ کر تلوار کی نیام سے ایک قبر بنائی پھر بیٹے کو دفن کر کے اس پر نماز پڑھی۔

 الخوارزمي، الموفق بن احمد _متوفاي568 ق_ مقتل الحسين عليه السلام، ج 2، ص 37، تحقيق: الشيخ محمد السماوي، انوار الهدي،

ابن اعثم كوفی نے بھی اس بچے کا نام علی ذکر کیا ہے:

«وله ابن آخر يقال له علي في الرضاع، فتقدم إلى باب الخيمة فقال: ناولوني ذلك الطفل حتى أودعه! فناولوه الصبي، فجعل يقبله ...»

امام حسین(ع) کا ایک دوسرا بیٹا بھی تھا جس کا نام علی تھا وہ شیر خوار تھا.......

الكوفي، أحمد بن أعثم _متوفاى314 ق_، كتاب الفتوح، ج 5 ص 115، تحقيق: علي شيري (ماجستر في التاريخ الإسلامي )، ناشر: دار الأضواء للطباعة والنشر والتوزيع ـ بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ

مرحوم سيد بن طاووس اپنی کتاب لھوف میں بچے کا ذکر کیے بغیر،اس کی شھادت کے واقعے کو اس طرح نقل کرتے ہیں:

«وَ لَمَّا رَأَى الْحُسَيْنُ عليه السلام مَصَارِعَ فِتْيَانِهِ وَ أَحِبَّتِهِ عَزَمَ عَلَى لِقَاءِ الْقَوْمِ بِمُهْجَتِهِ وَ نَادَى هَلْ مِنْ ذَابٍّ يَذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله؟ هَلْ مِنْ مُوَحِّدٍ يَخَافُ اللَّهَ فِينَا؟ هَلْ مِنْ مُغِيثٍ يَرْجُو اللَّهَ بِإِغَاثَتِنَا؟ هَلْ مِنْ مُعِينٍ يَرْجُو مَا عِنْدَ اللَّهِ فِي إِعَانَتِنَا؟ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُ النِّسَاءِ بِالْعَوِيلِ فَتَقَدَّمَ إِلَى الْخَيْمَةِ وَ قَالَ لِزَيْنَبَ نَاوِلِينِي وَلَدِيَ الصَّغِيرَ حَتَّى أُوَدِّعَهُ فَأَخَذَهُ وَ أَوْمَأَ إِلَيْهِ لِيُقَبِّلَهُ فَرَمَاهُ حَرْمَلَةُ بْنُ الْكَاهِلِ الْأَسَدِيُّ لَعَنَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِسَهْمٍ فَوَقَعَ فِي نَحْرِهِ فَذَبَحَهُ فَقَالَ لِزَيْنَبَ خُذِيهِ ثُمَّ تَلَقَّى الدَّمَ بِكَفَّيْهِ فَلَمَّا امْتَلَأَتَا رَمَى بِالدَّمِ نَحْوَ السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ هَوَّنَ عَلَيَّ مَا نَزَلَ بِي أَنَّهُ بِعَيْنِ اللَّهِ.»

امام حسین(ع) نے دیکھا کہ سارے جوان اور دوست شھید ہو کر زمین پر گر گئے ہیں۔ اب امام نے خود میدان جانے کا ارادہ کیا اور بلند آواز سے کہا کیا کوئی ہے جو رسول خدا کی آل کا دفاع کرے ؟

کیا کوئی خدا کا بندہ ہے جو ہم پر رحم کرے ؟ کیا کوئی ہے جو خدا سے جزا لینے کے لیے ہماری مدد کرے ؟ جب خیمے میں عورتوں نے یہ آواز سنی تو بلند آواز سے گریہ کرنا شروع کر دیا۔ امام خیمے کے نزدیک آئے اور اپنی بہن زینب سے کہا: بچے کو لاؤ میں اس سے آخری بار ملنا چاہتا ہوں۔

امام نے بچے کو ہاتھوں پر لے جونہی چومنا چاھا حرملہ بن کاھل نے بچے کو گلے میں تیر مار کر ذبح کر دیا۔ امام نے بی بی زینب سے فرمایا: بچے کو لے لو پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو گلے کے نیچے رکھ کر خون سے بھر کر خون کو آسمان کی طرف اچھال دیا اور فرمایا:جو بات میری اس مصیبت کو کم و آسان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ میرے اس امتحان کو خداوند دیکھ رہا ہے۔

اس کے بعد ابن طاووس کہتے ہیں کہ امام باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ:

«قَالَ الْبَاقِرُ عليه السلام فَلَمْ يَسْقُطْ مِنْ ذَلِكَ الدَّمِ قَطْرَةٌ إِلَى الْأَرْضِ

«امام باقر عليه السّلام فرماتے ہیں کہ: اس خون سے ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہیں آیا۔

السيد ابن طاووس، الحسيني، علي بن موسي _متوفاي 664ق_ ، اللهوف في قتلى الطفوف، ص 69، ناشر : أنوار الهدى - قم – ايران، چاپخانه : مهر، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1417

علامه مجلسی بھی لکھتے ہیں کہ:

«فتلقى الحسين دمه حتى امتلأت كفه، ثم رمى به إلى السماء

امام حسین(ع) نے بچے کے خون کو ہاتھوں میں لے کر اوپر آسمان کی طرف اچھال دیا۔

 المجلسي، محمد باقر _متوفاى1111ق_، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 45، ص 46، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

سيد محسن امين بھی لکھتے ہیں کہ:

«فتقدم إلى باب الخيمة وقال لزينب ناوليني ولدي الصغير حتى أودعه فأتي بابنه عبد الله وأمه الرباب بنت امرى القيس فأخذ واجلسه في حجره وأومأ إليه ليقبله فرماه حرملة بن كاهل الأسدي بسهم فوقع في نحره فذبحه فقال لزينب خذيه ثم تلقى الدم بكفيه فلما امتلأتا رمى بالدم نحو السماء ثم قال هون علي ما نزل به انه بعين الله .»

پھر امام حسین(ع) خیمے کے سامنے آئے اور بی بی زینب سے کہا کہ بچے کو لاؤ ۔ امام کے پاس ان کے چھوٹے بیٹے کو لائے جس کا نام عبد اللہ تھا جو بی بی رباب کا بیٹا تھا۔ امام نے بچے کو ہاتھوں پر لے جونہی چومنا چاھا حرملہ بن کاھل نے بچے کو گلے میں تیر مار کر ذبح کر دیا۔ امام نے بی بی زینب سے فرمایا: بچے کو لے لو پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو گلے کے نیچے رکھ کر خون سے بھر کر خون کو آسمان کی طرف اچھال دیا اور فرمایا:جو بات میری اس مصیبت کو کم و آسان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ میرے اس امتحان کو خداوند دیکھ رہا ہے۔

 

العاملي، السيد محسن الأمين (متوفاي1371ق_ لواعج الأشجان، ص 181، ناشر : منشورات مكتبة بصيرتي – قم، چاپخانه : مطبعة العرفان – صيدا

اس نقل میں آیا ہے کہ عبد اللہ کی ماں بی بی رباب ہے در حالیکہ علی اصغر چھے ماہ کے تھے اور انکی والدہ کا نام بی بی رباب تھا اور ممکن نہیں ہے کہ چھے ماہ کے بعد اور بھی کربلاء ایک دوسرا بیٹا بھی پیدا ہوا ہو۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ زیادہ امید ہے کہ اس بچے کے نام میں غلطی ہوئی ہے۔

 

2- خون کا زمین کا پر گرانا:

بعض کتب میں آیا ہے کہ امام حسین(ع) نے اپنے بیٹے کا خون زمین پر گرایا نہ آسمان کی طرف اچھالا۔

شیخ مفید لکھتے ہیں کہ:

 «ثم جلس الحسين عليه السلام أمام الفسطاط فأتي بابنه عبد الله ابن الحسين وهو طفل فأجلسه في حجره ، فرماه رجل من بني أسد بسهم فذبحه ، فتلقى الحسين عليه السلام دمه ، فلما ملأ كفهصبه في الأرض ...»

امام حسين (ع) خیمے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے بیٹے عبد اللہ کو کہ چھوٹا بچہ تھا لایا گیا۔ امام نے اسے گود میں لیا بنی اسد کے ایک مرد نے بچے کی طرف تیر چلا کر بچے کو ذبح کر دیا۔ امام حسین(ع) نے بچے کے خون کو ہاتھ میں لے کر زمین پر گرا دیا۔

البغدادي، الشيخ المفيد محمد بن محمد بن النعمان، العكبري ، _متوفاي 413 ق_ ، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج 2، ص 109، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر : دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت – لبنان، سال چاپ : 1414 - 1993 م

فتال نيشابوری نے بھی اسی مطلب کو نقل کیا ہے:

«ثم جلس الحسين عليه السلام امام الفسطاط فأتى بابنه عبد الله بن الحسن عليه السلام وهو طفل فأجلسه في حجره ، فرماه رجل من بنى أسد فذبحه ، فتلقى الحسين صلوات الله عليه دمه ، فلما ملا كفه ، صبه في الأرض ....»

النيسابوري ، محمد بن الفتال (الشهيد 508هـ) ، روضة الواعظين، ص 188، تحقيق: السيد محمد مهدى السيد حسن الخرسان، ناشر: منشورات الرضي ـ قم.

طبري نے اسی مطلب کو ابو مخنف سے نقل کیا ہے:

«( قال أبو مخنف ) قال عقبة بن بشير الأسدي قال لي أبو جعفر محمد بن علي بن الحسين إن لنا فيكم يا بنى أسد دما قال قلت فما ذنبي أنا في ذلك رحمك الله يا أبا جعفر وما ذلك قال أتى الحسين بصبى له فهو في حجره إذ رماه أحدكم يا بنى أسد بسهم فذبحه فتلقى الحسين دمه فلما ملا كفيه صبه في الأرض

عقبہ بن بشیر اسدی نے کہا کہ ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین(امام باقر(ع) ) نے مجھے فرمایا کہ: اے بنی اسد ہمارا ایک خون تمہارے ذمے ہے۔ میں نے کہا کہ اے ابو جعفر خدا آپ پر رحمت کرے۔ اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ اور اصل میں واقعہ کیا ہے ؟ امام نے فرمایا کہ بچے کو امام حسین(ع) کے پاس لے کر آئے۔ اس حالت میں کہ وہ بچہ امام کی گود میں تھا۔ ایک مرد تمہارے قبیلے میں سے تھا اس نے تیر بچے کے گلے پر مار کر بچے کو باپ کی گو میں ذبح کر دیا۔ امام نے بچے کے خون کو ہاتھ میں لے کر زمین پر گرا دیا۔

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبري، ج 4، ص 342، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

 

مندرجہ ذیل قرائن کی روشنی میں خون کو زمین پر گرانا صحیح نہیں ہے، کیونکہ

اولا:‌ اکثر مؤرخان کی نقل کے مطابق امام حسين (ع) کا اپنے بیٹے کا خون آسمان کی طرف اچھالنا ثابت ہے۔

ثانيا: ظاہرا شيخ مفيد و فتال نيشابوری نے طبری سے مطلب کو نقل کیا ہے اور دلیل فقط تاریخ طبری ہے۔

ثالثا: وہ چیزی جو آسمان والی روایات کو صحیح قرار دیتی ہے یہ ہے کہ زيارت نامه ناحيه مقدسه امام زمان (ع) میں خون کو آسمان کی طرف اچھالنے کا ذکر ہوا ہے۔

 زیارت میں ذکر ہوا ہے کہ:

«السَّلَامُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحُسَيْنِ الطِّفْلِ الرَّضِيعِ- الْمَرْمِيِّ الصَّرِيعِ الْمُتَشَحِّطِ دَماً الْمُصَعَّدِ دَمُهُ فِي السَّمَاءِ- الْمَذْبُوحِ بِالسَّهْمِ فِي حَجْرِ أَبِيهِ- لَعَنَ اللَّهُ رَامِيَهُ حَرْمَلَةَ بْنَ كَاهِلٍ الْأَسَدِيَّ وَ ذَوِيه.»

«سلام بر عبداللّه بن الحسين، کہ جو شيرخوار بچہ تھا، جس کو تیر مارا گیا کہ جس کا خون آسمان کی طرف اچھالا گیا، کہ جس کا سر باپ کی گود میں کاٹا گیا، خدا کی لعنت ہو حرملہ بن کاھل اسدی اور اس کے ساتھیوں پر کہ جہنوں نے بچے پر تیر چلایا۔

 

دوسرے مطلب کا جواب:

جب مؤرخان شیعہ اور اہل سنت دونوں نے ایک ہی طرح سے اس واقعے کو نقل کیا ہے اور کسی بھی مؤرخ نے اس بارے شک و تردید نہیں کی، پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ان مؤرخان کے نزدیک مسلّم اور مورد قبول ہے۔ اس وجہ سے اس کی سند کی بررسی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ ابو الفرج اصفھانی نے اس روایت کو سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جب سب نے اس واقعے کو قبول کیا ہے تو امر مسلّم شمار ہو گا۔

 

التماس دعا

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی