2024 March 29
کیا روایت «علي أولي الناس بعدي» اہل سنت کی کتابوں میں معتبر سند کے ساتھ ذکر ہوئی ہے ؟
مندرجات: ٤١ تاریخ اشاعت: ٢٧ July ٢٠١٦ - ١٩:٣٨ مشاہدات: 3764
سوال و جواب » امام علی (ع)
کیا روایت «علي أولي الناس بعدي» اہل سنت کی کتابوں میں معتبر سند کے ساتھ ذکر ہوئی ہے ؟

علی میرے بعد تم لوگوں کے سلسلے میں سب سے زیادہ اولویت رکھتے ہیں

سوال :حسینی

جواب

اس بات سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مومنین بلکہ پو رے عالم بشریت کے لئے ولی مطلق ہیں، اور حضرت پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تصرف کے لحاظ سے مسلمانوں کے تمام امور میں خود مسلمانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں، لہذا بغیر کسی چوں چرا کے رسول خدا کی اطاعت مطلق طور پر واجب اور مخالفت مطلق طور پر حرام ہے، جیسا کہ خداوند متعال سورہ احزاب کی چھٹی آیت میں اس بات کو بیان کرتا ہے۔

 النَّبِيُّ أَوْلي بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم / الاحزاب/6

 بےشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی نسبت زیادہ اولیِ ہیں۔

اس بنیاد پر سارے انسانوں پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مطلق ولایت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی ولایت مطلق کو امیر المومنین علیہ السلام کے لئے بیان کیا ہے۔ جس کو علماء اہل سنت نے اپنی معتبر اور صحیح السند کتابوں میں ذکر کیا ہے۔

اصل روایت

أبونعيم إصفهاني كتاب معرفة الصحابة میں وهب بن حمزه کے شرح حال ميں لکھتے ہیں: 

 (6007)- [6541] حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، وَأَحْمَدُ بْنُ يَحْيَي بْنِ زُهَيْرٍ، قَالا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَي، ثنا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ،عَنْ رُكَيْنٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ جَمْرَةَ (حمزة) قَالَ: صَحِبْتُ عَلِيًّا مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَي مَكَّةَ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ بَعْضَ مَا أَكْرَهُ، فَقُلْتُ: لَئِنْ رَجَعْتُ إِلَي رَسُولِ اللَّهِ (ص) لأَشْكُوَنَّكَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ لَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ (ص) فَقُلْتُ: رَأَيْتُ مِنْ عَلِيٍّ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ:   «لا تَقُلْ هَذَا، فَهُوَ أَوْلَي النَّاسِ بِكُمْ بَعْدِي».

رکین وھب بن حمزہ سے نقل کر تے ہوئے کہتے ہیں : میں مدینہ سے مکہ تک علی علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ اور اس سفر میں علی علیہ السلام نے کچھ ایسے کام انجام دئے جو مجھے اچھے نہیں لگے، تو میں نے کہا جب میں واپس پلٹوں گا تو آپ کے اس عمل کی شکایت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کروں گا۔ جب میں مدینہ پہنچا تو میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ملاقات کی تو کہا کہ میں علی [علیہ السلام] کو فلاں فلاں کام کرتے دیکھا۔ تو رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا:

ایسی باتیں نہ کرو؛ کیونکہ وہ میرے بعد تم لوگوں کے سلسلہ میں سب سے زیادہ اولویت  رکھتے ہیں۔

الأصبهاني، ابو نعيم أحمد بن عبد الله (متوفاي430هـ)، معرفة الصحابة، ج5، ص2723، ح 6501، طبق برنامه الجامع الكبير.

 المناوي، محمد عبد الرؤوف بن علي بن زين العابدين (متوفاي 1031هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج4، ص357، ناشر: المكتبة التجارية الكبري - مصر، الطبعة: الأولي، 1356هـ.

 السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج8، ص250، طبق برنامه الجامع الكبير.

الهندي، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين (متوفاي975هـ)، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج11، ص281، ح32961 ، تحقيق: محمود عمر الدمياطي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1419هـ - 1998م.

روایت کی سند کا جائزہ

ابونعيم إصفهاني:

 أبو نعيم. أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسي بن مهران. الإمام الحافظ الثقة العلامة شيخ الإسلام أبو نعيم المهراني الأصبهاني الصوفي الأحول سبط الزاهد محمد بن يوسف البناء وصاحب الحلية.

 وكان حافظا مبرزا عالي الإسناد تفرد في الدنيا بشيء كثير من العوالي وهاجر إلي لقيه الحفاظ. قال أبو محمد السمرقندي سمعت أبا بكر الخطيب يقول لم أر أحد أطلق عليه اسم الحفظ غير رجلين أبو نعيم الأصبهاني وأبو حازم العبدويي.

 ابونعيم، امام، حافظ، قابل اعتماد، علامه و شيخ الإسلام، اور محمد بن يوسف بناء کے پوتے اور صاحب كتاب حلية الأولياء ہیں۔

وہ ایک بہترین اور ماھر حافظ تھے کہ جنکے پاس بہت سی چھوٹی اسناد تھیں کہ جنکو تنہا انہوں نے نقل کیا۔ حفاظ ان سے ملاقات کے لئے ہجرت کر تے تھے۔ ابو محمد سمر قندی کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر خطیب سے سنا کہ جو کہتے ہیں کہ میں نے ان دو ناموں: ابو نعیم اصفہانی اور ابو حازم عبدوی کے علاوہ کسی اور نام میں حافظ کا نام نہیں دیکھا۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج17 ص453، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

الطبراني:

ذهبي اس بارے میں كتاب العبر میں کہتے ہیں:

 وفيها الطبراني الحافظ العلم مسند العصر أبو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب اللخمي في ذي القعدة بأصبهان وله مائة سنة وعشرة أشهر.

 وكان ثقة صدوقا واسع الحفظ بصيرا بالعلل والرجال والأبواب كثير التصانيف....

طبرانی نے{۳۶۰ ھ} کو دنیا کو الوداع کہا، وہ حافظ { جس کو ایک لاکھہ احادیث حفظ ہوں } شہرہ آفاق اور مسند زمانہ { احادیث کو معتبر ہو نے کے اعتبار سے لوگ جس کی طرف نسبت دیتے ہوں} تھے۔ ۱۰۰ سال ۱۰ ماہ کی عمر تھی۔  ذیقعدہ کے مہینہ میں انتقال ہوا اور شہر اصفہان میں دنیا کو الوداع کہا۔

وہ ایک سچے اور قابل اعتماد اور بہترین حافظہ کے مالک ہو نے کے ساتھ ساتھ علم رجال اور ابواب احادیث سے بھی واقفیت رکھتے تھے اور پر بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، العبر في خبر من غبر، ج2، ص321، تحقيق: د. صلاح الدين المنجد، ناشر: مطبعة حكومة الكويت - الكويت، الطبعة: الثاني، 1984.

اور تذكرة الحفاظ میں لکھتے ہیں:

 الطبراني الحافظ الامام العلامة الحجة بقية الحفاظ أبو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي الطبراني مسند الدنيا ولد سنة ستين ومائتين وسمع في سنة ثلاث وسبعين.. وصنف أشياء كثيرة وكان من فرسان هذا الشأن مع الصدق والأمانة.

طبرانی، حافظ، راہنما، علامہ، حجت {جس کو تین لاکھ احادیث حفظ ہوں } اور بقیۃ الحفاظ تھے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں ہیں اور علم حدیث پر مہارت رکھتے تھے؛ اور ساتھ ساتھ سچے اور امین بھی تھے۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج3، ص912، رقم: 875، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي.

أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ:

بزار ایک مشہور صاحب مسند کبیر اور تاریخ اہل سنت کے ایسے بزرگ علماء میں سے تھے جن کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے، ذھبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

 البزار. الشيخ الإمام الحافظ الكبير أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البصري البزار صاحب المسند الكبير...

بزار، شیخ و بزرگ، راہنما و رہبر، اور بہت بڑے حافظ اور صاحب مسند کبیر تھے۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج13، ص554، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

اور اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

 البزار الحافظ العلامة أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البصري...

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج2، ص653، رقم: 675، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي.

سیوطی بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

 651 البزار الحافظ العلامة الشهير أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البصري صاحب المسند الكبير المعلل..

بزار، مشہورحافظ، علامہ اور صاحب کتاب مسند الکبیر تھے۔

 السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، طبقات الحفاظ، ج1، ص289، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ.

أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ التُّسْتَرِيُّ:

یہاں سے روایت در حقیقت دو سند کے ساتھ ذکر ہوئی ہے، ایک بزارسے اور دوسری احمد بن زهير تستری سے۔ اگرچہ روایت کے قابل قبول ہونے کے لئے احمد بن بزار کا معتبر و موثق ہونا ہی کافی ہے؛ لیکن اس کے باوجود ہم احمد بن زھیر تستري کے بارے میں بھی ایک جائزہ لیں گے۔

ذھبی ان کے شرح حال میں لکھتے ہیں:

 التستري الحافظ الحجة العلامة الزاهد أبو جعفر أحمد بن يحيي بن زهير أحد الاعلام... قال الحافظ أبو عبد الله بن منده ما رأيت في الدنيا احفظ من أبي جعفر التستري.

تستری، حافظ، حجت {جسے تین لاکھ احادیث حفظ ہوں}،علامہ، پرہیزگار اور مشہور علماء میں سے تھے۔ عبداللہ بن مندہ کہتے ہیں کہ میں نے دنیا میں حفظ کے معاملہ میں ابو جعفر تستری سے زیادہ مضبوط کسی اور شخص کو نہیں دیکھا۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج2، ص757، رقم: 759، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي.

اور سیوطی انکے بارے میں لکھتے ہیں:

 التستري الحافظ الحجة العلامة الزاهد أبو جعفر أحمد بن يحيي بن زهير أحد الأعلام مكثر جود وصنف وقوي وضعف وبرع في هذا الشأن حدث عنه ابن حبان والطبراني. قال أبو عبد الله بن منده ما رأيت في الدنيا أحفظ من أبي إسحاق بن حمزة وسمعته يقول ما رأيت في الدنيا أحفظ من أبي جعفر التستري.

تستري، ایسے مشہور علماء میں سے ہیں جو حافظ، حجت، علامه، زاهد ہونے کے علاوہ محنتی تھے کہ جن سے بہت سی روایتیں ذکر ہوئی ہیں وہ صاحب تصنیف تھے، روایت کے ضعیف اور قوی ہو نے کے سلسلے میں صاحب نظر تھے اور متقی پرہیزگار تھے۔

 السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، طبقات الحفاظ، ج1، ص321، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ.

مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ:

بخاری اور باقی تمام صحاح ستہ کے راویوں میں سے ایک ہیں۔ مزی تہذیب الکمال میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

 رَوَي عَنه: البخاري، وأبو داود، والتِّرْمِذِيّ، وابن ماجة... وأبو حاتم الرازي، وَقَال: صدوق. وَقَال أبو العباس بن عقدة: سمعت محمد بن عَبد الله بن سُلَيْمان، وداود بن يحيي يقولان: كان صدوقا.

 وَقَال أبو محمد عَبد الله بن علي بن الجارود: ذكرته لمحمد بن يحيي فأحسن القول فيه. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب الثقات.

بخاري، ابوداود، ترمذي إبن ماجه اور اسی طرح ابوحاتم رازي نے ان سے روایت کی ہیں اور ابوحاتم کہتے ہیں کہ وہ بہت بڑے سچے تھے۔ ابن عقدہ کہتے ہیں میں نے محمد بن عبداللہ بن سلیمان اور داود بن یحی سے کہتے ہوئے سنا: کہ وہ بہت زیادہ سچے تھے۔

عبد اللہ بن علی بن جارود کہتے ہیں کہ: میں نے محمد بن یحی سے انکا ذکر کیا؛ تو انہوں نے ان کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کیا۔ ابن حبان نے بھی ثقات کے زمرے میں ان کا ذکر کیا ہے۔

 المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج26 ص93، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

ذهبي الكاشف ميں لکھتے ہیں:

 محمد بن عثمان بن كرامة العجلي مولاهم عن أبي أسامة وطبقته وعنه البخاري وأبو داود والترمذي وابن ماجة وابن صاعد والمحاملي وابن مخلد صاحب حديث صدوق مات 256 في رجب خ د ت ق

محمد بن عثمان بن كرامه، نے ابوأسامه اور اس کے ہم طبقات سے، اور ان سے بخاری، ابو داود، ترمزی وغیرہ نے روایت کی ہیں، وہ صاحب حدیث اور بہت صادق تھے۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج2 ص200، رقم:5044، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

اوران کو سيرہ أعلام النبلاء میں «امام، محدث و ثقه» کے عنوان سے ياد کیا ہے:

 ابن كرامة خ د ت ق. الإمام المحدث الثقة أبو جعفر محمد بن عثمان بن كرامة....

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج12، ص296، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

اور إبن حجر عسقلاني نے بھی انکو «ثقه» کہا ہے:

 محمد بن عثمان بن كرامة بفتح الكاف وتخفيف الراء الكوفي ثقة من الحادية عشرة مات سنة ست وخمسين خ د ت ق

 العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص496، رقم:6134، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَي:

اس کے بعد عبيد الله بن موسي ہیں اور صحيح بخاري، مسلم اور تمام صحاح سته میں ان کی بھی روايتیں موجود ہیں. مزي تهذيب الكمال میں لکھتے ہیں:

 وَقَال أبو بكر بن أَبي خيثمة، عن يحيي بن مَعِين: ثقة. وَقَال معاوية بن صالح: سألت يحيي بن مَعِين عنه، فقال: اكتب عنه فقد كتبنا عنه. وَقَال أبو حاتم: صدوق، ثقة، حسن الحديث، وأبو نعيم أتقن منه، وعُبَيد الله أثبتهم في اسرائيل، كان اسرائيل يأتيه فيقرا عليه القرآن. وَقَال أحمد بن عَبد الله العجلي: ثقة، وكان عالما بالقرآن، رأسا فيه.

ابوبكر بن أبي خيثمة یحی بن معين سے ذکر کر تے ہیں وہ قابل اعتبار شخصیت کے مالک تھے.  معاویہ بن صالح کہتے ہیں میں نے یحی بن معین سے ان کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا ان سے نقل کرو تو میں نے ان سے روایتیں نقل کیں۔ ابو حاتم نے کہا بہت سچے اور قابل اعتبار تھے ،اور اچھی احادیثیں ذکر کیں ہیں، اور ابو نعیم ان سے بھی زیادہ مورد اعتماد ہیں۔ اور عبیداللہ ان روایتوں میں زیادہ مضبوط ہیں جو اسرائیل سے نقل ہوئی ہیں۔ اسرائیل ان کے پاس آتے تھے اور ان کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کر تے تھے۔ احمد بن عبداللہ عجلی کہتے ہیں: وہ قابل اعتبار شخصیت کے مالک تھے، اور عالم قرآن تھے اور اس سلسلہ میں مانی جانی شخصیت تھے۔

اور آگے لکھتے ہیں:

 روي له الجماعة.

صحاح ستہ کے تمام مولفین نے ان سے روایت ذکر کی ہیں۔

 المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج19 ص168، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

ابن حجر انکے بارے میں لکھتے ہیں:

 عبيد الله بن موسي بن باذام العبسي الكوفي أبو محمد ثقة كان يتشيع من التاسعة قال أبو حاتم كان أثبت في إسرائيل من أبي نعيم واستصغر في سفيان الثوري مات سنة ثلاث عشرة علي الصحيح ع

ابو حاتم کہتے ہیں: عبد اللہ بن موسی، قابل اعتبار اور مائل بہ شیعہ تھے۔

 اسرائیل کی روایتوں میں ابو نعیم سے قوی تھے۔  

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص375، رقم:4345، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

اور ذھبی الکاشف میں لکھتے ہیں:

عبيد الله بن موسي أبو محمد العبسي الحافظ أحد الأعلام علي تشيعه وبدعته سمع هشام بن عروة وإسماعيل بن أبي خالد وابن جريج وعنه البخاري والدارمي وعبد والحارث بن محمد ثقة مات في ذي القعدة سنة 213 ع.

 

شیعہ اور بدعت گزار ہونے کے باوجود وہ ایک مشہور عالم اور حافظ ہیں۔ هشام بن عروة وإسماعيل بن أبي خالد وابن جريج کو انھوں نے سنا ہے۔ دارمی اور بخاری وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے۔ وہ ثقہ تھے اور ماہ ذیقعدہ سنہ۲۰۱۳میں دارفانی کو الوداع کہا۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1 ص687، رقم: 3593، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ:

مزی تہذیب الکمال میں لکھتے ہیں:

 قال إسحاق بن منصور عن يحيي بن مَعِين، وأبو داود: ثقة. وَقَال أبو حاتم: لا بأس به. وَقَال النَّسَائي: ليس به بأس. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب"الثقات".

اسحاق بن منصور نے یحی بن معین اور ابو داود سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ ہیں۔ اور ابو حاتم و نسائی کہتے کہ ان میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اور ابن حبان نے بھی کتاب ثقات میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔

 المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج32 ص434، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

ذھبی کہتے ہیں:

 يوسف بن صهيب عن الشعبي وابن بريدة وعنه القطان وأبو نعيم ثقة د ت س

یوسف بن صھیب ثقہ ہیں اور انھوں نے شعبی اور ابن بریدہ  سے روایتیں کی ہیں اور خود ان سے قطان اور ابو نعیم نے روایتیں کی ہیں۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج2 ص399، رقم:6437، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

 

ابن حجر تقریب التھذیب میں لکھتے ہیں:

يوسف بن صهيب الكندي الكوفي ثقة من السادسة د ت س

 

یوسف بن صھیب کندی کوفی ثقہ تھے اور چھٹے طبقہ روات میں سے تھے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص611، رقم:7868، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

 

ركين بن الربيع:

رکین بن ربیع، ثقات تابعین میں سے ہیں اور صحیح مسلم اور تمام صحاح ستہ میں ان سے روایت کی ہے۔

اور مزی تھذیب الکمال میں انکے بارے میں لکھتے ہیں:

قال عَبد الله بن أحمد بن حنبل، عَن أبيه، وعثمان بن سَعِيد الدارمي، عن يحيي بن مَعِين، والنَّسَائي: ثقة. وَقَال أبو حاتم: صالح.

 

روي له البخاري في كتاب"الأدب"والباقون.

 

عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے والد سے اور عثمان دارمی نے یحی بن معین اور نسائی سے ذکر کیا ہے کہ وہ ثقہ تھے۔ ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ صالح تھے۔ بخاری نے کتاب ادب المفرد میں اور صحاح ستہ کے تمام مولفین نے ان سے روایتیں کی ہیں۔

المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج9 ص225، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

 

ذھبی الکاشف میں صراحت کے ساتھ ذکر کر تے ہیں کہ احمد بن حنبل نے انکے ثقہ کی تصدیق کی ہے:

ركين بن الربيع بن عميلة الفزاري عن أبيه وابن عمر وعنه حفيده الربيع بن سهل وشعبة ومعتمر وثقه أحمد م ع

 

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1 ص398، رقم:1588، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

 

ابن حجر عسقلاني نے بھی ان کو ثقہ ہونے کو قبول کیا ہے:

ركين بالتصغير بن الربيع بن عميلة بفتح المهملة الفزاري أبو الربيع الكوفي ثقة من الرابعة مات سنة إحدي وثلاثين بخ م 4

 

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1، ص210، رقم: 1956، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

 

وَهْبِ بْنِ حَمْزَةَ:

موصوف اس روایت کے آخری راوی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں، اور موصوف خود زیر بحث روایت کے راوی ہیں۔

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج5، ص474، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996 م.

 

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير، ج1، ص190، باب «تسمية أصحاب الرسول (ص) ومن رآه... و ج1، ص223، باب «ذكر من روي عن رسول الله (ص) من جميع أصحابه...»، ناشر: شركة دار الأرقم بن أبي الأرقم - بيروت، الطبعة: الأولي، 1997م.

 

یہ روایت اس سند کی بنیاد پر مکمل طور سے صحیح ہے اور اس پر کسی طرح کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

یہی روایت کتاب معجم کبیر طبرانی میں سند میں ایک اختلاف کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔

(17846)- [360] حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، وأَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ التُّسْتَرِيُّ، قَالا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَي، ثنا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ دُكَيْنٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ: " صَحِبْتُ عَلِيًّا مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَي مَكَّةَ....

 

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج22، ص135، ح360، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

 

اس سند میں رکین بن ربیع کی جگہ "دکین" آیا ہے اور خود دکین بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں میں سے ہیں؛ چنانچہ ابن حجر عسقلانی نے تقریب التھذیب میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔

دكين مصغر بن سعد أو سعيد بزيادة ياء وقيل بالتصغير المري وقيل الخثعمي صحابي نزل الكوفة د

 

تقريب التهذيب ج1، ص201، رقم: 1828

اس سند کی بنیاد پر یہ روایت بھی مکمل طور سے صحیح ہے اور روایت کے سلسلہ سند میں دو اصحاب موجود ہیں: ایک دکین بن سعید اور دوسرے وھب بن حمزہ ہیں اور اس بات سے روایت کو مزید تقویت ملتی ہے۔

البتہ ابن ابی حاتم، نے اپنی کتاب میں دو افراد کا نام "دکین" کے طور پر ذکر کیا ہے۔ ایک کا نام دکین بن سعد یا سعید کوفی جن کے صحابی ہونے کی تصریح کی ہے اور دوسرے دکین کی ولدیت ذکر نہیں کی ہے اور یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں:

1994 دكين بن سعيد الخثعمي المزني كوفي له صحبة روي عنه قيس بن أبي حازم سمعت أبي يقول ذلك.

 

1995 دكين كوفي روي عن وهب بن حمزة روي عنه يوسف بن صهيب سمعت أبي يقول ذلك.

 

ابن أبي حاتم الرازي التميمي، ابومحمد عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس (متوفاي 327هـ)، الجرح والتعديل، ج3 ص439، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولي، 1271هـ ـ 1952م.

 

ابو بکر ھیثمی، معجم کبیر طبرانی سے روایت نقل کر نے بعد کہتے ہیں:

رواه الطبراني وفيه دكين ذكره ابن أبي حاتم ولم يضعفه أحد وبقية رجاله وُثقوا.

 

طبرانی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کی سند میں دکین ہے، ابن ابی حاتم نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے؛ لیکن کسی نے بھی اس کو ضعیف قرار نہیں دیا ہے؛ اور روایت کے باقی روات کی توثیق کی گئی ہے۔

الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص109، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.

 

ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ اگر مدنظر روایت کا راوی "دکین" ہو، تو دکین کی توثیق تو نہیں کی گئی ہے؛ لہذا اس بنیاد پر روایت حجت نہیں ہوگی۔

تو جواب میں ہم کہیں گے:

اول: پہلی بات تو یہ کہ دونوں ایک ہی شخص ہیں؛ کیونکہ دونوں کوفہ کے رہنے والے اور ایک ہی طبقہ کے ہیں۔ کوئی بھی ایسی دلیل موجود نہیں ہے جو ان کے دو ہونے ہونے کو ثابت کرے۔ 
ایسا لگتا ہے کہ ابن ابی حاتم نے حدیث 
«علي أولي الناس بكم بعدي» کو مخدوش کر نے کے لئے یہ کیا ہو۔ اہل سنت کے متعصب علماء نے فضائل امیر المومنین علیہ السلام کو چھپانے کے لئے اس طرح کے بہت سے کام انجام دئے ہیں۔

اگر چہ ھیثمی سے نقل شدہ اس جملہ "ولم يضعفه أحد"  کو بھی اگر توثیق نہ مانا جائے، تو اسکا شمار تضعیف میں بھی نہیں کیا جا سکتا۔

دوم: اس بات کا زیادہ امکان پا یا جاتا ہے کہ اس حدیث کا راوی «ركين بن الربيع» ہو؛ اس لئے کہ اکثر علماء اہل سنت نے اس روایت کی سند کو اسی طرح یعنی "یوسف بن صہیب نے رکین بن ربیع سے" کی صورت میں نقل کیا ہے؛ من جملہ ابن اثیر جزری نے اسد الغابہ میں وھب بن حمزہ کے حالات کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہے:

وَهْبُ بن حَمْزة. يعد في أهل الكوفة. روي حديثه يوسف ابن صُهَيب، عن رُكَين، عن وهب بن حمزة قال: صحبت علياً رضي الله عنه من المدينة إلي مكة....

 

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج5، ص474، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996 م.

 

ابن حجر عسقلانی بھی وھب بن حمزہ کے حالات میں تحریر کرتے ہیں:

ثم أخرج من طريق يوسف بن صهيب عن ركين عن وهب بن حمزة قال سافرت مع علي فرأيت....

 

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج6، ص623، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ - 1992م.

 

اور ابن عساکر نے بھی اپنی کتاب تاریخ مدینہ دمشق میں ذکر کیا ہے:

أخبرنا أبو الفتح يوسف بن عبد الواحد أناشجاع بن علي أنا أبو عبد الله بن مندة أنا خيثمة بن سليمان أنا أحمد بن حازم أنا عبيد الله بن موسي نايوسف بن صهيب عن ركين عن وهب بن حمزة قال: سافرت مع علي بن أبي طالب من المدينة إلي مكة...

 

تاريخ مدينة دمشق ج42، ص199

 

البتہ ابن حجر عسقلانی اور ابن عساکر نے رسول خدا صلي الله عليه وآلہ وسلم کے اصل کلام کو اس طرح نقل کیا ہے:

لا تقولن هذا لعلي فإن عليا وليكم بعدي.

 

اگرچہ یہ جملہ بھی ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ثابت کر تا ہے؛ لیکن بہر حال اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہل سنت کے بزرگان کا کام ہمیشہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات اور حدیث میں تحریف کرنا رہا ہے۔

ان باتوں سے ہٹ کر، نقل حدیث میں دو طرح سے نقل ہونے کا بھی زیادہ امکان ہے؛ ایک مرتبہ رکین بن ربیع اور وھب بن حمزہ سے اور ایک بار {دکین بن سعید اور چاہے دکین بغیر ولدیت کے}۔

اس بنیاد پر اگر دوسری سند میں اعتراض کا امکان ہو، تو پہلی سند میں کسی طرح کے اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔

نتيجه:

پہلی سند ابو نعیم اصفہانی سے نقل ہوئی، جو بلا شبہ صحیح ہے اور اسکے تمام راوی بزرگان اہل سنت ہیں۔

اور دوسری سند بھی دکین بن سعید سے نقل ہوئی ہے اور وہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں۔ دکین بن سعید نہ بھی ہو، تب بھی روایت کی صحت میں کسی طرح کا اشکال نہیں ہو سکتا۔

لہذا روایت کی سند مکمل طور سے صحیح اور اہل سنت کے نظریے کے مطابق حجت ہے۔

« النَّبِيُّ أَوْلي بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم » کی تفسير مفسرین اهل سنت کی نظر میں

بلا شبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مومنین اور بلکہ پورے عالم بشریت پر ولایت مطلق رکھتے ہیں، اور بیشک آنحضرت مومنین سے ان کے نفس کی نسبت زیادہ اولی ہیں، اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت مطلق طور پر واجب اور آپ کی مخالفت مطلق طور پر حرام ہے؛ جیسا کہ قرآن مجید کے سورہ احزاب کی چھٹی آیت میں اسی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔

النَّبِيُّ أَوْلي بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم / الاحزاب/6

 

بیشک آنحضرت مومنین سے ان کے نفسوں کی نسبت زیادہ اولی ہیں۔

اس بنیاد پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت مطلقہ میں کوئی شک وشبہ نہیں کیا جا سکتا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی ولایت کو امیر المومنین علیہ السلام کے لئے ایسی روایت میں بیان کیا ہے جو اہل سنت کی روایت میں صحیح السند ہے۔

یہاں اولویت  کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس طرح تصرف کر نا چاہیں اور جو تدبیر مسلمانوں کے لئے اپنانا چاہیں اپنا سکتے ہیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ تمام امور میں ان کی اطاعت کریں؛ جیسا کہ اہل سنت کے بزرگ مفسرین نے اس آیت سے یہی استنباط کیا ہے جن میں سے چند ایک کا نام یہاں ذکر کیا جا سکتا ہے:

1. محمد بن جرير طبري (متوفاي 310هـ)

اہل سنت کے مشہور مفسر طبری اس آیت کے بارے کہتے ہیں:

النبي أولي بالمؤمنين... يقول تعالي ذكره النبيُ محمدٌ أولي بالمؤمنينَ يقول: أحق بالمؤمنين به من أنفسهم أن يَحْكُم فيهم بما يشاء من حكمٍ فيجوز ذلك عليهم.

 

كما حدثني يونس قال أخبرنا بن وهب قال قال بن زيد النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم كما أنت أولي بعبدك ما قضي فيهم من أمرٍ جازَ كما كلما قضيتَ علي عبدك جاز.

 

اس آیت: النبي اولي بالمؤمنين... میں خدا نے پیغمبر کو مومنین کے نفسوں پر حاکم اور ان سے برتر قرار دیا ہے اور پیغمبر کو ان {مومنین} سے زیادہ اس بات کا حقدار جانا ہے ان کے بارے میں جو فیصلہ کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔

الطبري، محمد بن جرير بن يزيد بن خالد أبو جعفر، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ج21، ص 122، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1405هـ.

 

2. ابن كثير دمشقي سلفي (متوفاي774هـ)

اور ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

النبي أولي بالمؤمنين... قد علم تعالي شفقة رسوله صلي الله عليه وسلم علي أمته ونصحه لهم فجعله أولي بهم من أنفسهم وحكمه فيهم كان مقدَّما علي اختيارهم لأنفسهمكما قال تعالي «فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّي يُحَكِّمُوكَ فيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا في أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوا تَسْليماً».

خدا امت کے بارے میں اپنے رسول کی مہربانی اور دلسوزی سے بخوبی واقف ہے اس لئے آپ کو خود ان سے زیادہ ان کے نفوس پر حقدار سمجھا اور آپ کے حکم کو ان پر مقدم جانا ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے: تمہارے پروردگار کی قسم وہ اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہوسکتے، یہاں تک کہ اپنے اختلاف میں آپ کو اپنا حکم بنائیں اور آپ کے فیصلے سے دل میں ناراضگی کا احساس نہ کریں اور مکمل طور سے تسلیم ہو جائیں۔

القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج3، ص 468، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1401هـ.

3. ظهير الدين بغوي (متوفاي516هـ)

بغوی شافعی جن کو «محيي السنة» کہا جاتا ہے، اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

قوله عز وجل « النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» يعني من بعضهم ببعض في نفوذ حكمه فيهم ووجوب طاعته عليهم وقال ابن عباس وعطاء يعني إذا دعاهم النبي صلي الله عليه وسلم ودَعَتْهم أنفسُهم إلي شيءٍ كانت طاعةُ النبي صلي الله عليه وسلم أولي بهم من أنفسهم قال ابن زيد «النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» فيما قضي فيهم كما أنت أولي بعبدك فيما قضيت عليه. وقيل هو أولي بهم في الحمل علي الجهاد وبذل النفس دونه.

رسول خدا کا حکم اپنی امت کے لئے ایک دوسرے کے حکم کی بنسبت برتری رکھتا ہے اور انکی اطاعت سب پر واجب ہے، ابن عباس اور عطا دونوں کا کہنا ہے: اس آیت کا مطلب یہ کہ اگر رسول خدا نے مومنین کو کسی کام کا حکم دیا لیکن انکا نفس کچھ اور چاہتا ہو، تو رسول کی اطاعت ان پر مقدم ہے۔ ابن زید کا کہنا ہے: اللہ کے رسول کسی بھی فیصلے اور حکم میں اولویت رکھتے ہیں، جس طرح سے آقا کا حکم غلام کے حکم پر اولی اور مقدم ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے: یہاں رسول کے دفاع اور اپنی جان ان پر نچھاور میں اولویت مراد ہے۔

البغوي، ظهير الدين أبو محمد الحسين ابن مسعود الفراء، تفسير البغوي، ج3، ص 507، تحقيق: خالد عبد الرحمن العك، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

4. قاضي عياض (متوفاي 544هـ)

قاضی عیاض اپنی مشہور کتاب الشفاء میں «أولي بالمؤمنين» کی تفسیر اس طرح کر تے ہیں:

قال أهل التفسير: أولي بالمؤمنين من أنفسهم: أي ما أنفذه فيهم من أمرٍ فهو ماضٍ عليهم كما يمضي حكمُ السيد علي عبده.

مفسرین کا کہنا ہے نافذ الامر ہونے میں رسول خدا کی اولویت بالکل ایسے ہی ہے جیسے غلام اپنے آقا کا تابع و مطیع ہوتا ہے۔

القاضي عياض، أبو الفضل عياض بن موسي بن عياض اليحصبي السبتي، كتاب الشفا، ج1 ، ص 49 .

5. عبد الرحمن بن جوزي (متوفاي 597 هـ)

ابن جوزی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

قوله تعالي « النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم » أي احق فله أن يحكم فيهم بما يشاء قال ابن عباس إذا دعاهم إلي شئ ودعتهم أنفسهم إلي شئ كانت طاعته أولي من طاعة أنفسهم وهذا صحيح فان أنفسهم تدعوهم إلي ما فيه هلاكَهم والرسولُ يدعوهم إلي ما فيه نجاتَهم.

خداوند متعال کے اس فرمان : النبي اولي بالمؤمنين من انفسهم، کا مطلب یہ ہے کہ نبی لوگوں سے زیادہ حقدار ہے، یعنی رسول جس طرح چاہیں ان کے بارے میں کوئی بھی حکم دے سکتے ہیں، ابن عباس کہتے ہیں: اگر رسول خدا مومنین کو کوئی بھی حکم دیں اور انکا نفس ان کےخلاف ہو تو رسول خدا کے حکم کی پیروی مقدم اور اولی ہے۔ اور یہ بالکل صحیح بات ہے، کیونکہ لوگوں کا نفس انہیں ایسی چیز کی دعوت دیتا ہے جس میں ان کی ہلاکت اور نابودی ہے لیکن رسول انہیں ایسی چیز کی طرف بلاتے ہیں جس میں ان کی نجات ہوتی ہے۔

إبن الجوزي، عبد الرحمن بن علي بن محمد، زاد المسير في علم التفسير، ج6 ، ص 352، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1404هـ.

6. أبو القاسم زمخشري (متوفاي 538هـ)

زمخشری اہل سنت کے مشہور ادیب و مفسر اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

«النَّبِيُّ أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ ( في كل شيء من أمور الدين والدنيا ) منْ أَنفُسِهِمْ » ولهذا أطلق ولم يقيد، فيجب عليهم أن يكون أحبّ إليهم من أنفسهم، وحكمه أنفذ عليهم من حكمها، وحقه آثَرَ لديهم من حقوقها، وشفقتهم عليه أقدم من شفقتهم عليها، وأن يبدلوها دونه ويجعلوها فداءه إذا أعضل خطب، ووقاءه إذا لقحت حرب، وأن لا يتبعوا ما تدعوهم إليه نفوسهم ولا ما تصرفهم عنه، ويتبعوا كل ما دعاهم إليه رسول الله صلي الله عليه وسلم وصرفهم عنه، لأنّ كل ما دعا إليه فهو إرشادٌ لهم إلي نيلِ النجاةِ والظفرُ بسعادةِ الدارين وما صَرَفَهم عنه، فأخذ بحجزهم لئلا يتهافتوا فيما يرمي بهم إلي الشقاوة وعذاب النار.

رسول خدا دنیا و آخرت کے تمام مسائل میں لوگوں پر اولویت رکھتے ہیں، اور اس وجہ سے آیت مطلق ہے اور کوئی قید ذکر نہیں کی گئی ہے، اس بناء پر امت مسلمین پر واجب ہے کہ اپنے سے زیادہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب رکھیں، اور آپ کا حکم نفسوں کے مقابل میں واجب العمل ہے، اور آپ کا حق نفسوں کے مقابل میں مقدم ہے، اور آپ کی محبت و شفقت نفسوں کے مقابل میں اولویت رکھتی ہے، اور اپنی جانوں کو آپ پر فدا کریں، اور جنگ کے وقت آپ کی حفاظت کریں، اور ان تمام خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کریں جو آپ کی اطاعت کر نے سے روکتی ہیں، اور اگر وہ کسی چیز کی دعوت دیتے ہیں یا کسی چیز سے روکتے ہیں تو ان کی اتباع کریں، اس لئے کہ آپ دنیا و آخرت کی کامیابی کی دعوت دیتے ہیں اور جہنم کی آگ سے نجات دیتے ہیں۔

الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمر ، الكشاف عن حقائق التنزيل وعيون الأقاويل في وجوه التأويل، ج3 ، ص 531، تحقيق: عبد الرزاق المهدي، بيروت، ناشر: دار إحياء التراث العربي.

7. أبي البركات نسفي (متوفاي 710هـ)

ابی برکات نسفی کہتے ہیں:

«النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» أي أحق بهم في كل شيء من أمور الدين والدنيا وحكمه أنفذ عليهم من حكمها فعليهم ان يبذلوها دونه ويجعلوها فداءه.

بیشک آنحضرت مومنین سے ان کے نفس کی نسبت زیادہ اولی ہیں۔ یعنی دنیا و آخرت کے تمام امور میں ان پر برتری رکھتے ہیں، اور آپ کا حکم نفسوں کے مقابل میں واجب العمل ہے، لہذا لوگوں پر واجب ہے کہ اپنی جانیں آپ پر فدا کریں۔

النسفي ، أبي البركات عبد الله ابن أحمد بن محمود، تفسير النسفي، ج3 ، ص 297.

8. أبي حيان اندلسي (متوفاي 745هـ)

ابی حیان اندلسی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

«أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ»: أي في كل شيء، ولم يقيد. فيجب أن يكون أحب إليهم من أنفسهم، وحكمه أنفذ عليهم من حكمها، وحقوقه آثَرَ، إلي غير ذلك مما يجب عليهم في حقه.

پیغمبر اکرم تمام چیزوں میں برتری و اولویت  رکھتے ہیں، اور اللہ نے حکم کو مقید نہیں کیا ہے۔ لہذا مومنین پر واجب ہے کہ انھیں نفسوں سے زیادہ آپ کو محبوب رکھیں، اور ان کی حکم کو نفسوں کے حکم پر مقدم رکھیں اور آپ کے حق کی زیادہ رعایت کریں۔

أبي حيان الأندلسي، محمد بن يوسف ، تفسير البحر المحيط، ج7 ، ص 297، تحقيق: الشيخ عادل أحمد عبد الموجود - الشيخ علي محمد معوض، شارك في التحقيق 1) د.زكريا عبد المجيد النوقي 2) د.أحمد النجولي الجمل، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ -2001م .

9. ابن قيم الجوزية (متوفاي 751هـ)

زری دمشقی عرف ابن قیم جوزی حنبلیوں کے مشہور ادیب، مفسر، فقیہ، متکلم اور محدث ہیں، وہ ابن تیمیہ کے شاگرد اور ان کے افکار کے مبلغ و مروج مانے جاتے ہیں۔ کتاب زاد المہاجر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وقال تعالي «النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» وهو دليلٌ علي ان من لم يكن الرسولُ اولي به من نفسه فليس من المؤمنين وهذه الاولوية تتضمن امورا:

منها: ان يكون احبَّ إلي العبدِ من نفسه لان الأولوية اصلها الحب ونفس العبدِ احبٌ له من غيره ومع هذا يجب ان يكون الرسولُ اولي به منها واحب اليه منها فبذلك يحصل له اسم الايمان.

ويلزم من هذه الاولويةِ والمحبةِ كمالَ الانقيادِ والطاعةِ والرضا والتسليمِ وسائرَ لوازمِ المحبةِ من الرضا بحكمه والتسليم لامره وايثاره علي ما سواه.

ومنها: ان لايكون للعبد حكمٌ علي نفسه اصلاً بل الحكمُ علي نفسِه للرسول صلي الله عليه وسلم يَحْكم عليها اعظم من حكمِ السيدِ علي عبدِه أو الوالد علي ولده فليس له في نفسه تصرف قط الا ما تصرف فيه الرسول الذي هو اولي به منها.

النبي اولي بالمؤمنين من انفسهم، اس بات پر دلیل ہے کہ جو شخص بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے اوپر مقدم و برتر نہیں سمجھتا وہ مومن نہیں ہو سکتا اور اس اولویت  کا لازمہ چند امور ہیں:

1. رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے سے زیادہ محبوب رکھنا چاہئے، چونکہ اولویت  و برتری محبت و دوستی کی بنیاد پرہوتی ہے اور یہ بات فطری ہے کہ ہر کوئی اپنی جان کو دوسروں سے زیادہ محبوب رکھتا ہے اور جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سے زیادہ محبوب سمجھ لے گا تو اس کا مومن ہونا بھی محقق ہو جائے گا، اور کامیابی و رضا مندی اور تسلیم کی علامت آپ کے حکم کے برابر ہو جائے گی۔

2. اپنے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل میں کچھ نہ سمجھے اور خود پر رسول خدا کے حکم کو مقدم و بر تر سمجھے جس طرح سے آقا کا حکم غلام پر باپ کا بیٹے پر ہوتا ہے، اور رسول خدا کے حکم کے سامنے اپنے لئے کسی طرح کے حق کی اہمیت کا قائل نہ ہو۔

الزرعي، محمد بن أبي بكر أيوب أبو عبد الله (معروف به ابن قيم الجوزية)، الرسالة التبوكية زاد المهاجر إلي ربه، ج1، ص 29، تحقيق: د. محمد جميل غازي، ناشر: مكتبة المدني - جدة.

10. ملا علي قاري (متوفاي 1014هـ)

ملا علی ھروی جو قاری کے نام سے مشہور ہیں کہتے ہیں:

«أولي بالمؤمنين من أنفسهم» أي أولي في كل شيء من أمور الدين والدنيا، ولذا أطلق ولم يقيد فيجب عليهم أن يكون أحب إليهم من أنفسهم وحكمه أنفذ عليهم من حكمها، وحقه آثر لديهم من حقوقها وشفقتهم عليه أقدم من شفقتهم عليها.

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین و دنیا کے تمام امور میں مقدم و برتر ہیں، اسی لئے بطور مطلق آیا ہے کہ آپ کے لئے کسی بھی طرح کی قید و شرط نہیں ہے، مومنین پر واجب ہے کہ اپنے نفسوں سے زیادہ آپ کو دوست رکھیں، اور آپ کا حکم نفسوں کے مقابل میں واجب العمل ہے، اور آپ کا حق نفسوں کے مقابل میں مقدم ہے، اور آپ کی محبت و شفقت نفسوں کے مقابل میں اولویت رکھتی ہے،

ملا علي القاري، علي بن سلطان محمد، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج6 ، ص 297، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ - 2001م .

11. شوكاني (متوفاي 1250هـ)

محمد بن علي شوكاني اس آیت کی اس طرح سے تفسیر کر تے ہیں:

«النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» أي هو أحقٌ بهم في كلِ أمورِ الدين والدنيا وأولي بهم من أنفسهم فضلا عن أن يكون أولي بهم من غيرِهم فيجب عليهم أن يؤثروه بما أراده من أموالهم وإن كانوا محتاجين إليها ويجب عليهم أن يحبوه زيادة علي حبهم أنفسهم ويجب عليهم أن يقدموا حكمه عليهم علي حكمهم لأنفسهم.

وبالجملة فإذا دعاهم النبي صلي الله عليه وسلم لشيء ودعتهم أنفسهم إلي غيره وجب عليهم أن يقدموا مادعاهم إليه ويؤخروا مادعتهم أنفسهم إليه ويجب عليهم أن يطيعوه فوق طاعتهم لأنفسهم ويقدموا طاعته علي ماتميل إليه أنفسهم وتطلبه خواطرهم.

بیشک آنحضرت مومنین سے ان کے نفس کی نسبت زیادہ اولی ہیں۔ اسکے معنی یہ ہیں کہ آپ دینی و دنیاوی تمام امور میں زیادہ حق رکھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی اولویت تو بعد کی بات ہے آپ امت کے لئے خود ان کے نفسوں کی بنسبت بھی برتری رکھتے ہیں۔ لہذا واجب ہے کہ مال کے خرچ میں رسول خدا کو حق برتری دیں اگر چہ وہ اس مال کے زیادہ ضرورت مند ہوں، اور ان کو اپنے سے زیادہ محبوب رکیں اور ہرحکم پر رسول خدا کے حکم کو اہمیت دیں۔

اگر پیغمبر کوئی حکم دے اور انکے نفس کا رجحان کسی دوسرے حکم کی طرف ہو تو پیغمبر کے حکم کو ترجیح دیں اور ان کی اطاعت کو اپنے نفسوں کی اطاعت پر مقدم کریں۔

الشوكاني، محمد بن علي بن محمد، فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير، ج4 ، ص 261، ناشر: دار الفكر - بيروت.

12. حسن خان فتوحي (متوفاي1307هـ)

حسن خان فتوحی کہتے ہیں:

قال تعالي «النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» فإذا دعاهم لشيء ودعتهم أنفسهم إلي غيره وجب عليهم أن يقدموا ما دعاهم إليه ويؤخروا ما دعتهم أنفسهم إليه ويجب عليهم أن يطيعوه فوق طاعتهم لأنفسهم ويقدموا طاعته علي ما تميل إليه أنفسهم وتطلبه خواطرهم.

 خدا وند متعال فر ماتا ہے «النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم»  بیشک نبی مومنین سے ان کے نفس کی نسبت زیادہ اولی ہیں، جب پیغمبر اسلام لوگوں کو کسی کام کا حکم دیں اور ان کا نفس کسی دوسرے کام کا حکم دے رہا ہو تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اطاعت کے زیادہ حقدار ہیں اور ان کی اطاعت کو اپنے نفسوں کی اطاعت پر مقدم کریں۔

الفتوحي، السيد محمد صديق حسن خان، حسن الأسوة بما ثبت من الله ورسوله في النسوة، ج1 ، ص 182، تحقيق: الدكتور- مصطفي الخن/ ومحي الدين ستو ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الخامسة، 1406هـ/ 1985م.

اہل سنت کے بزرگ مفسرین کی گفتگو سے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس آیت میں اولویت  سے مراد تمام مسلمین پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری واجب ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے جملہ امور میں تصرف کا حق رکھتے ہیں اور ان کے تمام امور میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ حقدار ہیں۔

رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم نے اسی مقام و مرتبہ کو حدیث کے ذریعہ « فَهُوَ أَوْلَي النَّاسِ بِكُمْ بَعْدِي» امیر المومنین علیہ السلام کے لئے بیان کیا ہے؛ یعنی امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولایت کی طرح ہے، جس طرح لوگوں کا فرض ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مطلق طور سے اطاعت کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب پر ولایت مطلقہ رکھتے ہیں، اسی طرح سے امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت بھی سب کیلئے ثابت ہے۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات