2024 March 28
ولادت وفا و اطاعت، حضرت عباس ابن علی (ع) ، باب الحوائج
مندرجات: ٧١٨ تاریخ اشاعت: ٣٠ April ٢٠١٧ - ١٨:٥١ مشاہدات: 12875
یاداشتیں » پبلک
ولادت وفا و اطاعت، حضرت عباس ابن علی (ع) ، باب الحوائج

حضرت عباس کی زندگی کے نشیب و فراز:

ہر انسان اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں نشیب و فراز سے دوچار ہوتا ہے، وہ مختلف قسم کی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرتا ہے۔ عام طور پر لوگ مشکلات کے سامنے ہار مان کر اپنے آپ کو حالات کے بہاؤ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے درمیان کچھ اس طرح کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو معاشرے میں موجود سخت ترین حالات اور کٹھن سے کٹھن لمحات میں بھی پائیداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک قدم بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خداوند کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی صحیح طرح سے معرفت حاصل کی اور اپنی زندگی امامت اور ولایت کی اطاعت میں گزاری۔ آئمہ اطہار کو اپنی زندگی میں نمونہ اور اسوہ عمل قرار دیا ۔ ایثار و وفا کے پیکر، حیدر کرار کی تمنا ، ام البنین (س) کی آس ، حسنین کے قوت بازو ، زینب و ام کلثوم (علیہما السلام) کی ڈھارس ، قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس کا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا ہے۔

آپ نے اپنی زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے۔ آپ کو تین معصوم اماموں کا زمانہ درک کرنے کا شرف حاصل رہا اور آپ نے کما حقہ ہر ایک معصوم سے کمال فیض حاصل کیا۔ پوری زندگی میں ایک لمحے کے لیے بھی امام حق کی اطاعت میں آپ کے قدم نہیں ڈگمگائے۔

مدینے میں ام البنین(س)کے چاند کا طلوع:

حضرت عباس کے سن ولادت میں مؤرخین نے اختلاف کیا ہے لیکن ان اقوال میں سے دو قول مشہور ہیں کہ آپ 4 شعبان المعظم سنہ 23 یا 26ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

یہ بات حکمت سے خالی نظر نہیں آتی کہ امام حسین نے 3 شعبان المعظم کو اپنے وجود سے اس جہان خاکی کو منور فرمایا اور     4شعبان کو حضرت ابو الفضل العباس اس دنیا میں آئے یوں ان دو ہستیوں کا آپس میں ایک خاص ارتباط سے انکار ناممکن ہے۔

حضرت عباس(ع)  کی زندگی پر ایک نظر

ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہے۔جو اخلاص ،استحکام ، ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو درس اطاعت،وفاداری ،جانثاری  اور فداکاری دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔

اگرچہ اس کی فداکاری ، جانثاری اور وفاداری کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن تاریخ عباس بن علی (ع) کے خلعت کمالات کو میلا نہیں کر پائی۔ آج عباس کا نام عباس نہیں وفا ہے، ایثار ہے اطاعت ہے تسلیم ہے۔

عاشوار وہ باعظمت دن ہے جس میں انسانیت کے گرویدہ انسانوں نے اپنے قوی اور مستحکم ارادوں کو دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ تاریخ، کربلا والوں کی فداکاری پر ناز کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ زمانے والے ان کے کردار سے انقلابات برپا کرتے ہیں۔ کربلا ایسی دانشگاہ ہے جس کے فارغ التحصیلان ایمان، اخلاص، مجاہدت، فداکاری اور وفاداری جیسے مضامین میں عملی طور پر ڈاکٹریٹ کر کے گئے ہیں اور عباس اس دانشگاہ کے جانے پہچانے استاد ہیں۔

آج بھی یہ یونیورسٹی کھلی ہوئی ہے اور طلاب قبول کر رہی ہے جس کا ایک سبجکٹ وفا اور علمبرداری ہے جس کے استاد حضرت عباس ہیں۔ کہ جو اپنے بریدہ ہاتھوں سے انسان کو وفا سے عشق و محبت کا درس دیتے ہیں۔

ہم ایمان اور یقین کے چشمہ زلال تک پہنچنے کے لیے راہنمائی کے محتاج ہیں۔ ہماری روح تشنہ ہدایت ہے ہمارے دل مشتاق کمال ہیں۔ اولیاء الٰہی منتظر ہیں کہ ہم ان کی طرف رجوع کریں اور اس چشمہ ہدایت کے آب زلال سے اپنی روح کو سیراب کریں۔

حضرت عباس بھی ان اولیاء الٰہی میں سے ایک ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لیے مشعل فروزاں ہیں اور ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق ہیں وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں۔ بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں۔

ذیل  میں حضرت عباس کی زندگی کا ایک گوشہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے تا کہ ان کے چاہنے والے اپنی زندگی کو کسی حد تک ان کی زندگی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں اور انہیں راہ حق پر چلنے کے لیے نمونہ عمل قرار دیں:

ولادت حضرت عباس(ع)

کئی سال حضرت زہراء (س) کی شہادت کو گزر چکے تھے۔ حضرت علی(ع) نے فاطمہ(س) دختر پیغمبر(ص) کی شہادت کے بعد دس سال تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی اور ہمیشہ ان کے فراق میں مغموم تھے۔

خاندان پیغمبر کے لیے حیرت انگیز مقام تھا اس لیے کہ اس خاندان کے بزرگ بغیر زوجہ کے زندگی بسر کر رہے تھے۔ بالاخر ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے اور قبیلوں کی اخلاقی خصیوصیات اور ان کے مختلف خصائل سے آشنا تھے۔ اور ان سے کہا: ہمارے لیے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو تا کہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔

کچھ عرصہ کے بعد جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین (ع) کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھا جس کے آباؤ واجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا۔ اور بعد میں ام البنین کے نام سے شہرت پا گئی۔

جناب عقیل رشتہ کے لیے اس کے باپ کے پاس گئے اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ حضرت علی (ع) نے اس خاتون کے ساتھ شادی کی۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعد جب امیر المومنین (ع) کے گھر میں آئیں امام حسن اور حسین (ع) بیمار تھے۔ اس نے ان کی خدمت اور دیکھ بال کرنا شروع کر دیا۔

کہتے ہیں کہ جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو کبھی تمہارے لیے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہوجائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔

امام علی (ع) کی اس شادی کے بعد اسے اللہ نے چار بیٹوں سے نوازا: عباس، عبد اللہ، جعفر اور عثمان۔ جو چاروں کے چاروں بعد میں کربلا میں شہید ہو گئے۔ عباس کہ جن کی خوبیوں اور فضیلتوں کے بارے میں یہاں پر گفتگو کرنا مقصود ہے اس شادی کا پہلا ثمرہ اور جناب ام البنین کے پہلے بیٹے ہیں۔

فاطمہ کلابیہ خاندان پیغمبر میں قدم رکھنے کے بعد با فضیلت اور باکرامت خاتون  بن گئی ۔اور خاندان پیغمبر کے لیے نہایت درجہ احترام کی قائل تھی۔ اس نے گھرانہ وحی میں قدم رکھتے ہی  یہ پہچان لیا کہ اجر رسالت مودت اہلبیت ہے۔ اس نے حسنین اور زینب و کلثوم کے لیے حقیقی ماں کا فریضہ ادا کیا۔ اور اپنے آپ کو ہمیشہ ان کی خادمہ قرار دیا۔ امیر المؤمنین کی نسبت اس کی وفا بھی حد درجہ کی تھی۔ امام علی (ع) کی شہادت کے بعد امام کے احترام میں اور اپنی حرمت کو باقی رکھنے کی خاطر اس نے دوسری شادی بھی نہیں کی۔ اگرچہ  دیر تک (تقریبا بیس سال ) ان کے بعد زندہ رہیں۔

ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دی جب واقعہ کربلا در پیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین (ع) پر قربان ہونے خاص تاکید کی اور ہمیشہ جو لوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آ رہے تھے ان سے سب سے پہلے امام حسین (ع) کے بارے میں سوال کرتی تھیں۔

عباس بن علی(ع) ایسی ماں کا بیٹا تھا۔ اور علی (ع) جیسے باپ کا فرزند تھا۔ اور دست قدرت نے بھی اس کی سر نوشت میں وفا، ایمان، اور شہامت و شجاعت کو لکھ دیا تھا۔

عباس کی ولادت نے خانہ علی (ع) کو نور امید سے روشن کر دیا۔ اس لیے کہ امیر المؤمنین (ع) دیکھ رہے تھے کہ کربلا پیش آنے والی ہے یہ بیٹا حسین کا علمبردار ہو گا۔ اور علی (ع)کا عباس فاطمہ زہرا (س) کےحسین (ع) پر قربان ہو گا۔

امیر المؤمنین (ع) کبھی کبھی جناب عباس کو اپنی گود میں بٹھاتے تھے اور ان کی آستین کو پیچھے الٹ کر بوسہ دیتے تھے۔ اور آنسو بہاتے تھے۔

جناب عباس نے علی (ع) کے گھر میں حسنین(ع) کے ساتھ تربیت حاصل کی اور عترت رسول سے درس انسانیت ،شہامت، صداقت اور اخلاق کو حاصل کیا۔

امام علی (ع) کی اس خصوصی تربیت نے اس نوجوان کی روحی اور روانی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا جناب عباس کا وہ عظیم فہم و ادراک اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔

ایک دن امیر المومنین (ع) عباس کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھے حضرت زینب(س) بھی موجود تھیں امام نے اس بچے سے کہا: کہو ایک، عباس نے کہا : ایک، فرمایا : کہو دو، عباس نے دو کہنے سے منع کر دیا۔ اور کہا مجھے شرم آتی ہے جس زبان سے خدا کو ایک کہا اسی زبان سے دو کہوں۔ امام، عباس کی اس زیرکی اور ذہانت سے خوش ہوئے اور پیشانی کو چوم لیا۔

آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس بات کا باعث بنی کہ جسمی رشد و نمو کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی رشد و نمو بھی کمال کی طرف بڑھی۔ جناب عباس نہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خرد مندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی منفرد تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں تا کہ اس دن حجت خدا کی نصرت میں جانثاری کریں۔ وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔

شائد علی(ع)اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ کی تمام اولاد آپ کے اطراف میں نگراں و پریشاں اور گریہ کناں حالت میں جمع تھی، عباس کا ہاتھ حسین کے ہاتھ میں دیا ہو گا اور یہ وصیت کی ہو گی عباس تم اور تمہارا حسین کربلا میں ہوں گے کبھی اس سے جدا نہیں ہونا اور اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔

جوانی کی بہار:

جب سے عباس نے دنیا میں آنکھیں کھولیں امیر المؤمنین(ع) اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے اطراف دیکھا اور ان کی مہر و محبت کے سائے میں پروان چڑھے اور امامت کے چشمہ علم و معرفت سے سیراب ہوتے رہے۔

چودہ سال زندگی کے جناب امیر کے ساتھ گزارے ۔ جب علی (ع) جنگوں میں مصروف تھے تو کہتے ہیں کہ عباس بھی ان کے ساتھ جنگوں میں شریک تھے حالانکہ بارہ سال کے نوجوان تھے۔ نوجوانی کے زمانے سے ہی حضرت امیر (ع) نے انہیں شجاعت اور بہادری کے گر سکھا رکھے تھے۔ جنگوں میں حضرت علی (ع) انہیں جنگ کی اجازت نہیں دیتے تھے انہیں کربلا کے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا۔

تاریخ نے اس نوجوان کے بعض کرشمے جنگ صفین میں ثبت کیے ہیں کہ جب آپ بارہ سال کے تھے۔

مگر آپ کے بھتیجےجناب قاسم تیرہ سال کے نہیں تھے کہ جنہوں نے اپنے چچا کی رکاب میں شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے کہ دشمن دھنگ رہ گئے؟ مگر آپ کے والد علی (ع) نوجوان نہیں تھے جب جنگ بدر و احد،اور خیبر و خندق میں مرحب و عمر بن عبد ودّ جیسے نامی گرامی پہلوانوں کے ساتھ مقابلہ کر کے انہیں واصل جہنم کر کے پرچم اسلام کو سربلندی عطا کرتے رہے ہیں؟ کیا جناب عباس کے نانہال والے قبیلہ بنی کلاب میں سے نہیں تھے جو شجاعت، بہادری اور شمشیر زنی میں معروف تھے؟۔ عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں ٹکراؤں کا نام ہے عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔

صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المؤمنین (ع) کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جا کر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟ معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تا کہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چھوتے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔

معاویہ کی فوج میں زلزلہ آ گیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نوجوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المؤمنین (ع) نے اسے واپس بلا لیا نقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ ہاں یہ نوجوان کون تھا یہ قمر بنی ہاشم ، یہ بارہ سال کا عباس یہ شیر خدا کا شیر تھا۔

نیز تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ صفین میں معاویہ کی فوج نے پانی پر قبضہ کر رکھا تھا جب امیر المؤمنین (ع) کی فوج کو پیاس لاحق ہوئی تو آپ نے امام حسین (ع) کی قیادت میں کچھ افراد کو پانی کے لیے بھیجا اور حضرت عباس امام حسین کے دائیں طرف تھے۔ جنہوں نے پانی کو باقی لشکر والوں کے لیے فراہم کیا۔

یہ ایام گزر گئے سن چالیس ہجری آ گئی مسجد کوفہ کا محراب رنگین ہو گیا۔ جب حضرت علی(ع) شہید ہوئے حضرت عباس چودہ سال کے تھے۔ بابا کی شہادت کا عظیم صدمہ برداشت کیا رات کے سناٹے میں جنازے کا دفن کرنا برداشت کیا۔ اب ہر مقام عباس کے لیے امتحان کی منزل ہے عباس ہر منزل پر اپنا لہو پی کر کے برداشت کر رہے ہیں۔ باپ کے بعد حسنین (ع) عباس کی پناگاہ ہیں۔ ان کے اشاروں پر عمل کر رہے ہیں اور ہرگز اپنے باپ کی وصیت جو 21 رمضان کو عاشورا کے سلسلے میں کی کہ حسین کو اکیلا نہ چھوڑنا فراموش نہیں کر رہے ہیں۔ وہ جانتے تھے سخترین ایام در پیش ہیں کمر ہمت کو مضبوطی سے باندھے رکھیں۔

وہ دس سال بھی سختیوں کے گزار دیے جب امام حسن علیہ السلام مقام امامت پر فائز تھے اور معاویہ کی طرف سے مسلسل فریب کاریاں امام کو اذیت کر رہی تھیں۔ بنی امیہ کا ظلم و ستم عروج پکڑ رہا تھا حجر بن عدی کو شہد کر دیا عمرو بن حمق خزاعی کو شہید کر دیا علویان کو قیدی بنایا جانے لگا۔ منبروں سے وعظ و نصیحت کے بدلے مولا علی کو سب وشتم کیا جانے لگا۔ عباس ان تمام واقعات کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اپنا خون پی پی  کرانہیں تحمل کر رہےتھے۔ آخر وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب امام حسن(ع) کو زہر دے دیا گیا اور ان کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر باہر آ گیا۔ جنازے کو تیر لگ گئے عباس تلوار کو نیام سے نہ نکال سکے۔

عباس کرتے بھی کیا جب بھی ہاتھ قبضہ شمشیر پر رکھا ہے حسین(ع) نے یہ کہہ کے روک دیا ہے کہ عباس ابھی جنگ کا وقت نہیں ہے۔ عباس صبر کرو۔ آخر کار جناب عباس ان تلخ ایام کو بھی امام حسین (ع) کی رہنمائی کے سائے میں گزار دیتے ہیں اور مسلسل تاریخ کے نشیب و فراز کا اپنی گہری نگاہوں سے مطالعہ کرتے ہیں۔

جناب عباس کی ازدواجی زندگی:

جناب عباس نے اٹھاراں سال کی عمر میں امام حسن (ع) کی امامت کے ابتدائی دور میں عبد اللہ بن عباس کی بیٹی لبابہ کے ساتھ شادی کی۔ عبد اللہ بن عباس راوی ا حادیث، مفسر قرآن اور امام علی (ع) کے بہترین شاگرد تھے۔ اس خاتون کی شخصیت بھی ایک علمی گھرانے میں پروان چڑھی تھی اور بہترین علم و ادب کے زیور سے آراستہ تھیں۔ جناب عباس کے ہاں دو بیٹے ہوئے عبید اللہ اور فضل جو بعد میں بزرگ علماء اور فضلاء میں سے شمار ہونے لگے۔ حضرت عباس کے پوتوں میں سے کچھ افراد  راویان احادیث اور اپنے زمانے کے برجستہ علماء میں سے شمار ہوتے تھے۔ یہ نور علوی جو جناب عباس کی صلب میں تھا نسل بعد نسل تجلی کرتا گیا۔ اور کبھی خاموش نہیں ہوا۔

آپ مدینہ میں ہی قبیلہ بنی ہاشم میں رہتے تھے۔ اور ہمیشہ امام حسین(ع) کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گذار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کی مرگ کے بعد یزید کی بیعت کے لیے امام کو دار الخلافہ میں بلایا تیس جوان جناب عباس کی حکمرانی میں امام کےساتھ دار الخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق اس کے باہر امام کے حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں۔ تا کہ اگر ضرورت پڑے تو فورا امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔ اور وہ لوگ جو مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا گئے وہ  بھی جناب عباس کی حکمرانی میں حرکت کر رہےتھے۔

یہ جناب عباس کی جوانی کے چند ایک گوشہ تھے جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ اس کے بعد واقعہ کربلا ہے کہ جہاں عباس پروانہ کی طرح امام حسین (ع) کے ارد گرد چکر کاٹ رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی میرے مولا کو گزند نہ پہنچا دے۔سلام ہو عباس کے کٹے ہوئے بازوں پر۔سلام ہو عباس کی جانثاری اور وفاداری پر۔

ایک دن امام سجاد (ع) کی نگاہ عبید اللہ بن عباس پر پڑتی ہے انکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور اپنے  چچا عباس کو یاد کر کے فرماتے ہیں:

رسول خدا(ص) کے لیے روز احد سے زیادہ سخت دن کوئی نہیں تھا۔ اس دن آپ  کےچچا حضرت حمزہ کو کہ جو آپ کے شیر دلاور تھے شہید کر دیا گیا۔ بابا حسین کے لیے بھی کربلا سے زیادہ سخت دن نہیں تھا اس لیے اس دن عباس کو کہ حسین کا شیر دلاور تھا شہید کر دیا گیا۔

اس کے بعد فرمایا: خدا رحمت کرے چچا عباس کو کہ جنہوں نے اپنے بھائی کی راہ میں ایثار اور فداکاری کی۔ اور اپنی جان کو بھی دے دیا۔ اس طریقہ سے جانثاری کی کہ اپنے دونوں بازوں قلم کروا دیے۔ خداوند عالم نے انہیں بھی جعفر بن ابی طالب کی طرح دو پر دئیے ہیں کہ جن کے ذریعے جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں عباس کا خدا وند عالم کے ہاں ایسا عظیم مقام ہے جس پر تمام شہید روز قیامت رشک کریں گے۔

اور امام صادق (ع) نے جناب عباس کے بارے میں فرمایا:

«كان عمُّنا العبّاسُ نافذ البصيره صُلب الايمانِ، جاهد مع ابي‏عبدالله(ع) وابْلي’ بلاءاً حسناً ومضي شهيداً؛

ہمارے چچا عباس  بانفوذ بصیرت اور مستحکم ایمان کے مالک تھے امام حسین کے ساتھ رہ کر راہ خدا میں جہاد کیا اور بہترین امتحان دیا اور مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔

حضرت علی(ع) کو اپنی مستجاب تمنا کی آمد پر خوشی:

جب امیر المؤمنین حضرت علی کو حضرت عباس کی ولادت کی بشارت دی گئی تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، جلدی گھر آئے بچے کو آغوش میں لیا اور نومولود کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، حضرت علی کا یہ طرز عمل شاید عام لوگوں کو معمولی لگے لیکن حضرت علی اپنی مستجاب دعا کو شروع تولد میں ہی یکتا پرستی کا سبق پڑھا رہے تھے، چونکہ حضرت علی اپنی دور رس معصوم نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کا بیٹا عباس گوش شنوا اور چشم بینا رکھتے ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عباس نے اپنی پوری بابرکت زندگی میں ایک لحظہ کے لیے بھی حق کے راستے میں شک کا شکار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنے امام وقت کی اطاعت اور پیروی میں زندگی گزاری۔ امام علی نے اپنے نو مولود کا نام عباس (یعنی بپھرا ہوا شیر) رکھا۔

عباس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی عصمت و طہارت کے سایہ تلے گذری۔ انہوں نے اس موقع سے اپنے لیے پورا فائدہ اٹھایا۔ باپ نے جس غرض کے لیے آپ کو مانگا تھا اس پر پورے اترے اور کربلا میں آپ نے وہ کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لیے نمونہ عمل کے طور پر باقی رہے گا۔

امام علی نے کان میں اذان و اقامت اور نامگذاری کے مراسم انجام دینے کے بعد حضرت عباس کو فرزند رسول ، لخت جگر بتول حضرت امام حسین کی آغوش میں دیا۔ آقا حسین نے اپنے قوت بازو کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا، مولا حسین کی خوشبو محسوس کر کے حضرت عباس نے ولادت کے بعد پہلی بار آنکھیں کھولیں اور اپنے بھائی کے مبارک چہرے کی زیارت کی اس منظر کی شاعر نے یوں نقشہ کشی کی ہے:

ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی

اک آنکھ ہے مسرور تو اک آنکھ ہے باکی

 شاید حضرت عباس مولا حسین کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھول کر اپنے مولا و آقا حسینؑ کے چہرے کی زیارت کے ساتھ، اپنے باپ کی تمنا اور آرزو پر پورا اترنے کا عہد و پیمان کر رہے تھے۔

حضرت عباس مختلف مراحل زندگی میں:

 

حضرت عباس نے اپنی زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ۔ جب آپ نے اس دنیا میں قدم رکھا خاندان عصمت و طہارت کڑے وقت سے گذر رہا تھا۔ حضرت عباس کی پر فراز و نشیب زندگی کو پانچ مرحلوں میں بیان کیا جا سکتا ہے:

1۔ حضرت عباس ماں کی آغوش میں:

حضرت علی نے اپنے بھائی عقیل کے مشورے سے جو علم انساب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ایک متقی و پرہیزگار گھر میں بہادر قبیلے کی نہایت ہی باوقار خاتون فاطمہ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے خالق سے آرزو کی کہ پروردگارا ! مجھے ایک ایسا فرزند عطا کر دے جو اسلام اور توحید کی سر بلندی کے لیے کربلا کے خونی معرکے میں رسول کے فرزند حسین کی نصرت و مدد کرے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت علی کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فاطمہ کلابیہ(س) کے بطن سے اللہ تعالی نے چار بیٹے ان کو عطا فرمائے، جس کی بناء پر آپ کو ام البنین(س) کا لقب ملا، ام البنین(س) کے چاروں بیٹے شجاعت و دلیری میں زبان زد عام و خاص تھے ،اور سبھی نے معرکہ کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا ، لیکن عباس ان سب میں نمایاں تھے، ماں نے ایک خاص طریقے پر ان کی تربیت اور پرورش کی چونکہ وہ جانتی تھیں کہ حضرت عباس ہی امیر المؤمنین کی مستجاب تمنا ہیں، اور انہیں ایک خاص مقصد اور ہدف کی تکمیل کے لیے تیار کرنا ہے ، لہذا بچپنے سے ہی عباس کی تربیت میں ایثار و فداکاری اور اپنے امام کے سامنے اطاعت اور سر تسلیم خم کرنے جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھر دی تھیں۔

ماں کے سامنے انوکھا واقعہ:

ایک بار جناب ام البنین (س) مادر حضرت عباس تشریف فرما تھیں، اور حضرت عباس کا بچپن تھا، حضرت علی نے اپنے فرزند کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر کے بازؤوں کی جانب حیران ہو کر دیکھنے لگے ، محو فکر ہیں اور پھر ان بازؤوں پر بوسے دینے لگے، ام البنین (س) نے آپ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کیا، مولا! یہ کیسا طریقہ محبت ہے ؟ یہ آستین کیوں الٹی جا رہی ہے ، یہ بازؤوں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں؟! کیا ان میں کسی طرح کا عیب و نقص پایا جاتا ہے؟! امیر المؤمنین نے فرمایا: ام البنین اگر صبر و تحمل سے کام لو تو بتاؤنگا؟ "تمہارا یہ لال کربلا میں شہید کر دیا جائیگا اور اس کے شانے قلم ہوں گے، پروردگار انہیں دو پر عنایت کرے گا جس سے یہ حضرت جعفر طیار کی طرح جنت میں پرواز کرے گا۔

یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف امام حق کی نصرت ، وہ کتنی عظیم ماں ہو گی کہ جس نے نصرت امام کے لیے اپنی ممتا قربان کر دی اور آنسو نہ بہائے۔

2۔ عباس تربیت گاہ علوی میں:

اسلامی تاریخ کے تلخ ترین لمحات میں حضرت عباس نے آنکھیں کھولیں حضرت عباس کی ولادت اگر 23 سن ہجری کو درست مانی جائے تو آپ عمر کی حکومت کے آخری سالوں میں پیدا ہوئے اسی طرح آپ نے عثمان کے دور خلافت کو اچھی طرح سے اپنی تیز بین نگاہوں کے سامنے سے گزارا ،عثمان کی اقرباء پروری، اور خیر خواہ لوگوں کی نصیحتوں کو خلیفہ کی طرف سے بد بینی سے تعبیر کرنے جیسی صورت حال کو حضرت عباس نے قریب سے حس کیا اور جب انقلابیوں کے اصرار کے باوجود مروان کو اس کے عہدے سے نہ ہٹایا گیا تو انہوں نے خلیفہ کو محاصرے میں لے لیا اور عثمان کے قتل کے درپے ہوئے اور پانی روٹی کی ترسیل روک دی، تاریخ کے ان سخت حالات میں حضرت عباس دور سے صرف تماشائی بن کر نہ رہے بلکہ ہمیشہ اپنے باپ علی کے ساتھ سائے کی طرح رہے اور معاشرے میں کردار ادا کیا۔ جب عثمان کے محل اقامت کا محاصرہ کیا گیا ، حضرت عباس نے اپنے باپ کے حکم  کی تعمیل میں خلیفہ تک پانی اور غذا پہنچائی۔ عباس نے حادثہ قتل عثمان کو بھی دیکھا اور ان تمام حالات سے اپنے لیے آگاہی اور عبرت کا سامان مہیا کیا۔

 

آپ نے لوگوں کو حکومت عدل علوی کی برقراری کی طرف متوجہ اور اپنے باپ کے حق میں لوگوں کی بیعت کے مناظر کا بھی مشاہدہ کیا، اور ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی جانچا اور پرکھا کہ جنہوں نے مال دنیا اور ثروت اندوزی کی خاطر حکومت حق کی حمایت نہیں کی اور یا وہ لوگ جنہوں نے پہلے تو امام علی کی بیعت کی پھر جب دیکھا حکومت علوی میں اقربا پروری، ثروت اندوزی اور بیت المال لوٹنے کی کوئی گنجائش نہیں بیعت توڑی اور جنگ جمل کے ذریعے امام حق کا استقبال کیا۔ عباس بنو امیہ کی دغا بازیوں کو بھی سمجھ رہے تھے جو قتل عثمان کو بہانہ بنا کر نو پا علوی حکومت پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور خونخواہی عثمان کے نعرے کے ذریعے مظلوم نمائی کر رہے تھے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کر رہے تھے۔ حضرت عباس اپنے باپ علی مرتضی اور اپنے دونوں بھائیوں امام حسن اور امام حسین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان حالات میں بہترین کردار ادا کرتے رہے اور ایک لحظے کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے، ایسا کرتے بھی کیسے آخر حضرت عباس نے حضرت علی جیسے باپ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی، علی کے نزدیک حکومت اور مال دنیا کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ وہ خلیفہ مسلمین ہونے کے باوجود ان کی خوراک خشک نان جو ہوا کرتی تھی، اور کبھی لذیذ کھانا تناول نہیں فرمایا۔ حضرت علی پر مسلط کردہ جنگوں میں بھی حضرت عباس ہمیشہ اپنے باپ کے ساتھ کوہ استوار کی طرح رہے۔

بعض تاریخی روایات کے مطابق جنگ صفین میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے، امام علی نے مختلف جنگوں میں عباس کو میدان میں جانے نہیں دیا شاید امام ؑ انہیں ایک خاص معرکہ کے لیے جو 61 ہجری میں وقوع پذیر ہونا تھا ، محفوظ کر رہے تھے۔ حضرت عباس نے اپنے بابا کی مظلومانہ شہادت کو بھی تحمل کیا اور بستر شہادت میں دوسرے فرزندوں کی طرح حضرت عباس نے بھی اپنے باپ کی وصیتوں کو سنا اور ان کو ہمیشہ کے لیے اپنے سینے میں حفظ کیا اور ان پر عمل پیرا رہے۔

3۔حضرت عباس ،امام حسن(ع) کی خدمت میں :

سن 40 ہجری 21 رمضان المبارک آل علی کے لیے نہایت ہی غمگین گھڑی تھی، چونکہ ابن ملجم کی زہر آلود تلوار کا وار کاری ثابت ہوا اور یوں خورشید عدالت نے غروب کیا۔ اور لوگوں نے امام حسن کے ہاتھ پر بیعت کی، عین اسی وقت معاویہ اور اس کے کارندے سیم و رز کے ذریعے رؤسا قبائل کو خریدنے میں سرگرم عمل ہوئے اور امام حسن کی بیعت کو کمزور اور لوگوں کی عقیدت کو امام حسن کے لیے سست کرنے لگے اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ کوفہ اور اس کے اطراف سے امام علی کی شہادت سے پہلے ایک لاکھ بیس ہزار لوگ معاویہ سے جنگ کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی لیکن آج ان میں سے صرف بارہ ہزار افراد کو (وہ بھی بڑی زحمت اور تگ و دو سے) جمع کیا۔

 ماہ بی غروب ، عباس علی محمودی ، ص73

 یوں لوگ انتظار سے پہلے ہی اپنے امام کو تنہا چھوڑ کر ان کے پاس سے ہٹ گئے ، یہاں تک کہ ان کے چچا کے بیٹے عبید اللہ بن عباس (جو سپاہ امام کے کمانڈر تھے ) کو بھی بھاری رقم رشوت دیکر خرید لیا۔ عبید اللہ بن عباس کی خیانت سے سپاہ امام کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی ،دیکھتے ہی دیکھتے امام کے ایک اور کمانڈر بنام کندی 4 ہزار سپاہیوں کے ساتھ (جو شہر انبار میں مستقر تھے) معاویہ سے جا ملے ،اس سے بڑھ کر ان بے ایمان لوگوں نے مدائن کے نزدیک (ساباط) نامی گاؤں میں امام حسن کے خیمے پر حملہ کر کے آپ کے سجادہ کو پاؤں تلے سے باہر کھینچ نکالا اور آپ کو زمین پر گرا دیا اور خنجر سے آپ کی ران پر زخم لگا دیا، لوگوں کی بے وفائی ، معاویہ کے سیم و زر کے سامنے بک کر امام سے خیانت اور حتی آپ کے قتل کے درپے ہونا۔۔۔ ایسے عوامل تھے کہ امام حسن ؑ نے 25 ربیع الاول 41 ہجری کو معاویہ کے ساتھ صلح کی، اسی طرح حکومت عدل کہ جس کی امام علی نے بنیاد ڈالی تھی جو غریب اور بینوا لوگوں کی خوشبختی کی نوید تھی آج اختتام کو پہنچی ،پھر کیا تھا معاشرہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے ظلم و ستم کا شکار ہوا۔ ان تمام حالات اور مشکلات میں حضرت عباس اپنے بھائی امام حسن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لوگوں کو اصل حقیقت کی شناخت کی طرف دعوت دے رہے تھے،پکار پکار کر لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جہالت اور خوف کی قبر میں سوئے لوگ جاگ نہ سکے۔ لیکن جب معاویہ کے کارندے جیسے سمرۃ بن جندب،بسر بن ارطاۃ اور زیاد بن ابیہ کے تیغ تلے قتل عام ہوئے تو حکومت عدل علوی یاد آئی لیکن ............،

4۔ حضرت عباس امام حسین کی خدمت میں:

28 صفر سال 50 ہجری کو امام حسن کی شہادت واقع ہوئی ، امام حسین ، ابو الفضل العباس اور دوسرے سارے بنی ہاشم نے عزت و جلال کے ساتھ امام حسن کے بدن پاک کو مسجد النبی کی طرف تشییع کیا تا کہ نانا رسول اللہ کے جوار میں دفن کریں ، لیکن عائشہ نے امام کے مخالفوں کی مدد سے سبط رسول کے جنازے کو روکا اور آنحضرت کے جوار میں دفنانے سے منع کیا اور امام کے جنازے پر تیر باران کر کے ان کے جنازے کی بے حرمتی کی ،اس منظر کو دیکھ کر حضرت عباس کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی ہوئے ، حضرت عباس کو دیکھتے ہوئے جوانان بنی ہاشم نے بھی تلواریں نیام سے نکالنا چاہیں لیکن حضرت عباس کی  شجاعت ہمیشہ اطاعت امام کے سایہ تلے تھی ، امام حسین کے حکم پر حضرت عباس نے بنی ہاشم کے دوسرے جوانوں سمیت اپنی تلواروں کو نیام میں رکھا، چونکہ امام حسن کی وصیت تھی کہ ان کی وفات کے بعد اور دفن کے دوران خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرے ، آپ کا جنازہ بقیع کی طرف لے جایا گیا اور وہیں پر آپ کا مرقد مطہر بنا ۔

حضرت عباس اپنے بھائی امام حسین کے عاشق و گرویدہ تھے اور سخت ترین حالات میں بھی آپ نے محبت و وفاداری کے وہ نقوش چھوڑے ہیں کہ اب لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے ۔

امام حسین اپنے بھائی امام حسن کی شہادت کے بعد دس سال تک معاویہ کی حکومت کے دوران مدینہ میں رہے اور تبلیغ دین اور تدریس معارف الہی میں مشغول رہے اور حضرت عباس ہمیشہ سائے کی طرح امام حسین کے ساتھ رہے ، انہوں نے کبھی بھی امام حسن اور امام حسین کو اپنے بھائی ہونے کی حیثیت سے نہیں دیکھا ، بلکہ ان کو فرزندان رسولخدا و بتول (س) و امام و مقتدائے خود سمجھ کر ان کی اطاعت و نصرت میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے ۔ اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اپنے امام کی اطاعت اور ان کے اہداف کی تکمیل میں نچھاور کیا ۔ تبھی تو آئمہ اطہار کی لسان مبارک میں آپ عبد صالح سے ملقب ہوئے۔

قہرمان علقمہ ، آیت اللہ دکتر احمد بہشتی ، ص 189

امام حسین(ع) سے بیعت طلبی کے وقت حضرت عباس ؑ کا کردار:

جب معاویہ اس دنیا سے مر گیا اور یزید لعین مسند خلافت پر بیٹھ گیا اور عالم اسلام کی بڑی بڑی شخصیات سے بیعت کے درپے ہوا ، حاکم مدینہ ولید بن عقبہ نے امام حسین کو رات کے وقت، دار الامارۃ میں طلب کیا ، امام ان کی نیت سے واقف تھے لہذا آپ اپنے قوت بازو عباس اور دوسرے جوانان بنی ہاشم کے ہمراہ دار الامارۃ پہنچے اور انہیں ولید کے گھر کے باہر مامور کیا اور کہا کہ جب میری آواز اونچی ہو جائے تو گھر میں داخل ہونا ، اور خود ولید کے گھر میں داخل ہوئے ۔ ولید نے امام حسین کا استقبال کیا اور معاویہ کی موت کی خبر سنائی ، ساتھ ہی امام کو یزید کا حکم سنایا جس میں اہل مدینہ سے بالعموم اور امام حسین سے بالخصوص بیعت لینے کا کہا گیا تھا ۔ امام نے ولید کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :

ہم اہلبیت نبوت ہیں صبح ہو جائے اور سب لوگوں کے سامنے اپنے موقف کا اظہار کریں گے ۔ مروان بن حکم ( لعین ) جو ولید کے پاس موجود تھا کہنے لگا :یا امیر انہیں جانے نہ دیجئے ، اگر یہاں سے باہر چلے گئے تو پھر آپ کے ہاتھ آنا مشکل ہے ، یہیں ان سے بیعت طلب کرو ، نہ ماننے کی صورت میں ان کی گردن اڑاؤ ! امام حسین نے مروان پر ایک تحقیر آمیز نگاہ ڈالی اور فرمایا :

اے پسر زرقا (نیلی آنکھیں والی ماں کے بیٹا)! آیا تو مجھے قتل کرے گا یا یہ ؟ ( پاس بیٹھے ہوئے ولید کی طرف اشارہ کیا ) پھر امام نے ولید سے کہا " اے امیر ہم اہلبیت نبوت ، معدن رسالت ، محل رفت و آمد ملائکہ ہیں ۔۔۔ اور یزید ایک فاسق و فاجر ، شرابخوار ، ناحق قاتل نفس ۔۔۔ ہے کبھی بھی مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ۔۔۔"

یوں امام نے صراحتا اپنی عدم بیعت کا اعلان کر دیا ۔ مروان اور ولید نے حضرت عباس کی قیادت میں جوانان بنی ہاشم کی تلواروں کی چھنکار سنی تو امام سے متعرض ہونے کی ہمت نہیں کی ، حضرت امام حسین جوانان بنی ہاشم ( جن کی سربراہی حضرت عباس ؑ فرما رہے تھے ) کے جھرمٹ میں محلہ بنی ہاشم پہنچے ۔

امام نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اور مکہ ،حرم امن الہی کی طرف کوچ کا حکم دیا ، بہت سی بزرگ شخصیات اس سفر میں امام حسین کی ہمراہی سے محروم رہیں لیکن حضرت عباس نہ فقط ان مشکل حالات میں امام کے ساتھ رہے بلکہ انہوں نے امام کے تمام امور اور اہل خانہ کی سرپرستی اپنے ذمے لی اور اس کاروان کی علمداری کا حق نبھایا تمام ممکنہ خطرات کے سامنے سینہ سپر ہو کر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچے۔

زندگانی حضرت ابو الفضل ، شریف قریشی ، ص 119

حضرت عباس میدان کربلا میں :

امام حسین 3 شعبان ( یعنی اپنے روز ولادت) سن 60 ہجری وارد مکہ ہوئے اور 8 ذیحجہ تک حرم امن الہی میں عبادت ، دین اسلام کی تبلیغ اور فاسد حکمرانوں کی کارستانیوں سے زائرین بیت اللہ الحرام اور حجاج کرام کو مطلع کرتے رہے۔ اسی اثناء اہل عراق نے آپ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کوفہ آنے کی دعوت دی اور بے شمار خطوط لکھ کر آپ پر حجت تمام کی ۔ 8 ذیحجہ کو امام جان گئے کہ عمر و بن سعید بن العاص بہت زیادہ یزیدی سپاہیوں سمیت حاجیوں کے بھیس میں امام حسین کے قتل کی غرض سے وارد مکہ ہوئے ہیں ، امام نے بیت اللہ کی حرمت کی پاسبانی اور جس تحریک ( بنی امیہ ، خاص کر یزید کی شخصیت اور ان کی حکومت سے پردہ برداری) کا آغاز کیا تھا اس کی حفاظت کی غرض سے کوفہ کا رخ اختیار کیا تا کہ اہل عراق کی دعوت کی اجابت بھی ہو جائے ۔ حسینی کاروان حضرت عباس کی علمداری اور قیادت میں منزلیں طے کرتا ہوا 2 محرم سن 61 ہجری کو دشت کربلا پہنچا ، اس پورے سفر میں حضرت عباس نے کاروان حسینی میں شامل تمام افراد خاص کر اہل حرم کی آسائش کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، جنگ صفین میں ابن شعثاء اور ان کے سات بیٹوں کو تہ تیغ کرنے والا  شکاری شیر آج کربلا میں ہے ، حر بن یزید ریاحی امام کا راستہ روک رہے ہیں، ثانی حیدر ، قوت بازوئے حسین حضرت عباس بپھرے ہوئے شیر کی طرح انگڑائی لیتے ہیں لیکن مولا و آقا حسین عباس کو سمجھا کر آرام کر رہے ہیں ، امام کو خیموں کی جابجائی کا کہا جا رہا ہے عباس طیش میں آتے ہیں لیکن ان کی شجاعت امام وقت کی تابع ہوتی ہے ، ان کا ہر فعل و عمل ولایت اور امامت کی اطاعت اور تابعداری میں انجام پاتا ہے ۔ جب شمر امان نامہ عبید اللہ بن زیاد کو عباس اور ان کے بھائیوں کو دینے کے لیے آواز دے رہا ہوتا ہے لیکن حضرت عباس شمر کی آواز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے لیکن حکم امام پر ان سے ہمکلام ہوتے ہیں اور امان نامے کو رد کر کے شمر اور ابن زیاد کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں۔ یوں تو حضرت عباس کی پوری زندگی معرکہ آرا ہے لیکن کربلا میں ان کے کارنامے بلندی کی اوج کو پہنچے ، علی کے مستجاب تمنا اور ام البنین کی تربیت کا ثمر اپنے ہدف ( شہادت) کے نزدیک ہو رہا ہے ۔ تین دن سےحضرت زہراء کے لعل اور ان کے اہل و عیال پر پانی کی بندش رہی لیکن حضرت عباس نے کئی بار نہر فرات پر قبضہ جمایا لیکن مولا حسین کی پیاس اور ننھے بچوں کی العطش کی صدائیں یاد کر کے اپنی پیاس بھلایا اور ایک گھونٹ پانی پیئے بغیر خیام حسین کی طرف پانی لے کر لوٹ آئے۔

9محرم کی سہ پہر :

9 محرم سن 61 ہجری سہ پہر کا وقت ہے فوج اشقیاء ریحانہ رسول کی جانب پیکار کی غرض سے بڑھنے لگتی ہیں ۔ حضرت عباس فورا امام حسین کی خدمت میں پہنچتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ آقا دشمن آپ کی طرف آ رہے ہیں ، امام حسین نے فرمایا : قربان جاؤں جاؤ اور پتا کرو وہ کیا چاہتے ہیں ؟ امام کا یہ طرز تکلم حضرت عباس کی قدر اور منزلت کو بخوبی روشن کر دیتا ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالیترین مرتبہ پر فائز ہیں۔

حضرت ابو الفضل تیس صحابی جن میں زہیر بن قین ، حبیب بن مظاہر شامل تھے ، یزیدی فوج کے پاس پہنچے اور اس سے اس کا مقصد دریافت کیا کہ یہ فوجی تحرکات کس لیے انجام دیئے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے بے شرمانہ جواب دیا : عبید اللہ ابن زیاد کا حکم آیا ہے یا تم لوگ یزید کی بیعت کرو ورنہ جنگ کے لیے آمادہ ہو جاؤ ، حضرت عباس نے ان کے ارادوں سے امام کو آگاہ کیا ، آپ نے فرمایا : دیکھو بھائی ان کے پاس جاؤ اور آج رات کے لیے جنگ ٹالنے کی مہلت مانگو تا کہ یہ رات میں قرآن کی تلاوت اور نماز پڑھ کر گزاروں ۔ جب امام کا یہ پیغام عمر سعد تک پہنچایا گیا تو کافی چون و چرا کے بعد ایک رات کی مہلت مل گئی۔

زندگانی حضرت ابو الفضل العباس، شریف قریشی ، ص 170

شب عاشورا امام حسین کے دل ہلا دینے والے کلمات :

محرم کی دسویں رات امام حسین ، ان کے خاندان اور اصحاب کے لیے بڑی سخت رات تھی امام حسین نے اس رات اپنے تمام اعوان و انصار کو یکجا کیا اور اس حساس موقع پر فرمایا : (میں اپنے اصحاب اور خاندان سے بڑھکر وفادار اور بہتر کسی کے خاندان اور اصحاب کو نہیں سمجھتا ، اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے لیکن آگاہ رہو میں گمان نہیں کرتا کہ آج ان دشمنوں کی طرف سے ہمارے لیے کوئی کل نصیب ہو جائے ، میں نے آپ سب کو اجازت دی اور اپنی بیعت کو آپ سے اٹھایا تا کہ آسودگی اور بغیر ملامت کے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ اختیار کرو اور چلے جاؤ ۔

تاریخ ابن اثیر ، ج3 ، ص 285

لیکن ابھی امام کا خطبہ آخر کو نہیں پہنچا تھا ایک جوش و جذبہ اہلبیت و اصحاب امام کے اندر وجود میں آیا ، حضرت ابو الفضل نے سب سے پہلے سکوت کو توڑا اور اہلبیت کی نمائندگی میں بولے : آقا کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، خدا ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ آپ کے بعد ہم زندہ رہیں۔

تاریخ طبری ، ج6 ، ص 238

اور اصحاب کی طرف سے سب سے پہلے مسلم ابن عوسجہ نے اپنی حمایت کا اعلان کیا ۔

حضرت عباس کی آخری آس جو پوری نہ ہو سکی :

عصر عاشور امام حسین کے تمام یار و انصار شہادت کے رفیع درجے پر فائز ہوئے ۔ صبح سے سہ پہر تک حضرت عباس ، امام حسین کے ساتھ جوانان بنی ہاشم اور اصحاب با وفاء کی لاشیں اٹھا اٹھا کر نڈھال ہو گئے تھے اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھ چکے تھے ۔

مرحوم حبیب اللہ شریف کاشانی ، کتاب تذکرۃ الشہداء میں لکھتے ہیں کہ:

حضرت عباس کے دو صاحبزادے محمد و قاسم بھی کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔ لیکن ان سب سے بڑھکر انہیں بھائی کی تنہائی اور چھوٹے بچوں کی شدت پیاس سے العطش کی صدائیں برداشت نہیں ہو پا رہی تھیں ۔ حضرت عباس نے میدان میں جانے کی اجازت چاہی لیکن امام والا مقام نے یہ کہہ کر ٹالا کہ آپ میرے لشکر کے سپہ سالار اور علمدار ہیں ۔ امام، حضرت عباس کی موجودگی سے احساس توانمندی کرتے تھے اور دشمن بھی عباس کی موجودگی میں خیام حسینی پر حملہ کی جرأت نہیں کر سکتے تھے ۔ حضرت عباس کے اصرار پر آپ کو فقط بچوں کی پیاس بجھانے کے لیے پانی فراہم کرنے کی اجازت ملی ۔ آپ مشکیزہ ساتھ لیے نہر فرات کی طرف بڑھے ، دشمن کا محاصرہ توڑ کر نہر فرات پہنچے ، ایک چلو پانی لیا پیاس کی شدت بڑھ رہی تھی ۔ لیکن آپ نے پانی نہر فرات پر پھینکا اور اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: اے عباس یہ تیرے آئین (وفاء) کے خلاف ہے کہ تو اپنے مولا حسین اور ان کے ننھے بچوں اور مخدرات سے پہلے اپنی پیاس بجھائے ۔ مشکیزہ پانی سے بھر کر خیام حسینی کی طرف چل دیئے ، فوج اشقیاء مانع بنی لیکن ثانی حیدر ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے گئے ، عباس کی ایک آس تھی کہ کسی طرح پانی کا مشکیزہ خیام حسینی تک پہنچا دیں لیکن ایک بزدل نے پیچھے سے گھات میں لگا کر آپ کا دایاں بازو جدا کیا لیکن آپ نے مشکیزہ کو بائیں ہاتھ سے پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ایک بد ذات شقی نے چھپ کر پیچھے سے بائیں بازو کو بھی شہید کر ڈالا لیکن شجاعت کے پیکر عباس نے اس حالت میں بھی ہمت نہیں ہاری ،مشکیزہ کو دانتوں سے پکڑ کر پاؤں سے دفاع کرتے ہوئے آگے بڑھے، لیکن دشمنوں نے ایک دفعہ مشکیزے پر تیروں کی بارش کی اور پانی زمین کربلا میں گرا ، یوں عباس کی آس ٹوٹ گئی ۔ ایک ظالم نے گرز جفا کو آنحضرت کے سر اقدس پر مارا اور آپ اسی حالت میں زمین کربلا پر گرے در حالیکہ دونوں بازو جدا ہو چکے تھے، مولا حسین کو آخری سلام دیا ۔ امام حسین، آپ کی شہادت پر بہت روئے، عرب شاعر نے کہا :

احق الناس ان یبکی علیه فتی ابکی الحسین بکربلاء

اخوه وابن والده علی ابوالفضل المضرج بالدماء

و من واساه لا یثنیه شئی و جادله علی عطش بماء،

ترجمہ : لوگوں کے رونے کے زیادہ حقدار وہ جوان ہے کہ جس پر کربلاء میں امام حسین ؑ روئے ۔ وہ ان کے بھائی اور بابا علی ؑ کے بیٹے ہیں ۔ وہ حضرت ابوالفضل ہیں جو اپنے خون سے نہلا گئے ۔ اور اس نے اپنے بھائی کی مدد کی اور کسی چیز سے خوف کھائے بغیر ان کی راہ میں جہاد کی اور اپنے بھائی کی پیاس کو یاد کرکے پانی سے اپنا منہ پھیرا ۔

حضرت عباس کا عِلم:

الٰہی علماء اور وادی اسرار و رموز کے دانشمند کا نظریہ اور عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عباس اہل عِلم و فضل و بصیرت کے بزرگوں میں سے اور خاندان عصمت و طہارت کے اسرار سے باخبر تھے ۔

جناب عباس ایسے دانشمند تھے کہ جنوں نے کسی دنیاوی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیے تھا کیوںکہ آپ نے فیض الٰہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا تھا۔ آپ نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امیر المؤمنین اور اپنے بھائیوں سے اسرار الٰہی حاصل کیے تھے اور ان بزرگواروں کے پر فیض دامن سے استفادہ کیا تھا ۔

آیت اللہ بیر جندی لکھتے ہیں:حضرت ابو الفضل العباس اہل بیت علیہم السلام کے اکابر ،افاضل ،فقہاء اور علماء میں سے تھے ،بلکہ ایسے عالم تھے کہ جنوں نے کسی سے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا تھا۔

کبریت احمر، ص 406

مرحوم مقرم لکھتے ہیں :جہاں امیر المؤمنین اپنے بعد اصحاب کو اس طرح تعلیم و تربیت دیتے تھے کہ عالم وجود کے اسرار و رموز منجملہ علم منایا و بلایا (یعنی گزشتہ کے حالات اور موت کا علم) رکھتے تھے(جیسے حبیب بن مظاہر،میثم تمار اور رُشَید حجری وغیرہ) کیا یہ بات معقول ہے کہ امیر المؤمنین اپنے اصحاب کو اس طرح کے علم سے سرفراز فرمائیں اور اپنے نور چشم اور پارۂ جگر کو اپنے علوم سے محروم رکھیں ؟ جبکہ آپ کی صلاحیت و استعداد ان افراد سے کہیں زیادہ تھی !کیا ہمارے مولا و آقا حضرت ابو الفضل العباس کے پاس ان علوم کے حاصل کرنے کی صلاحیت و استعداد نہیں تھی؟

خدا کی قسم نہیں ،ایسا نہیں ہے !حضرت امیر المؤمنین نے اپنے ان تمام شیعوں کو جو علوم و معارف حاصل کرنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے تھے اپنے علوم سے سرفراز کرتے تھے چہ جائیکہ آپ کے نور چشم و پارۂ جگر، نہ یہ کہ دوسرے افراد جو آپ سے کسب علوم کرتے تھے ان کی صلاحیت و استعداد آپ کے فرزندوں سے زیادہ تھی ۔

مختصر یہ کہ حضرت عباس اپنی بہن زینب کبری علیہا السلام کی طرح ہیں کہ حضرت امام سجاد کے بیان کے مطابق کہ آپ نے فرمایا:

ہماری پھوپھی زینب عالمہ غیر متعلمہ ہیں (یعنی کسی سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیے) اسی طرح جناب عباس کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ عالم غیر متعلم ہیں ۔

اس کے علاوہ سردار کربلا ،قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس طیب و طاہر نفس اور پاک و پاکیزہ طینت اور اس عظیم اخلاص کی بنیاد پر کہ آپ جس کے حامل تھے اس حدیث شریف کے مکمل مصداق ہیں کہ :

'مٰا اَخلَصَ عَبد لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَربَعِینَ صَباحاً اِلاّٰ جَرَت یَنابیعُ الحِکمَةِ مِن قَلبِہِ عَلیٰ لِسٰانِہِ،

 جو شخص اپنے اعمال کو خدا کے لیے چالیس دن انجام دے اس کے قلب سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری ہوں گے ۔

عیون الاخبار ، ص 682

پس اس صورت میں اس شخص کے متعلق کہ جس نے اپنی عمر کے تمام اعمال و مراحل کو خداوند عالم کی مرضی و خوشی میں گزار دیئے ہوں اور تمام اخلاقی رذائل سے منزہ و مبرہ اور تمام فضائل سے آراستہ ہو ،کیا اس کے سوا تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس الٰہی علوم و معارف کے انوار سے متجلی ہو اور اس کا علم ،علم لدنی ہو ؟

دوسری دلیل اس بات پر کہ قمر بنی ہاش کا علم وجدانی ہے ،اگرچہ برہانی علوم و معارف میں بھی ماہر تھے ،معصوم کا کلام ہے کہ فرماتے ہیں :

'اِنَّ العَبّاسَ بنَ علیٍّ زُقَّ العِلمَ زُقّاً،

 بے شک عباس بن علی کو بچپن ہی میں اس طرح علم سے سیر وسیراب کیا گیا کہ جیسے پرندہ اپنے بچے کو دانہ بھراتا ہے۔

اسرار الشہادة ، ص 324

مرحوم مقرم اس کے بعد لکھتے ہیں: امام کی تشبیہ نہایت بدیع استعارہ ہے اس لیے کہ 'زق ' پرندے کا اپنے بچے کو دانہ بھرانے کے معانی میں ہے کہ جس وقت وہ خود تنہا دانہ کھانے پر قادر نہیں ہے حضرت امام علی کے کلام میں اس استعارہ کے استعمال سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سقائے سکینہ بچپن ہی سے حتی آغوش مادر سے علوم و معارف کے حاصل کرنے کی صلاحیت و استعداد کے حامل تھے۔

العباس ،مرحوم مقرم ، ص169

حضرت ابو الفضل العباس بھی اس طیب و طاہر خاندان سے دور نہیں سمجھے جاتے تھے کہ جن کے افراد بچپن میں دریائے علم تھے، یہ وہ مطلب ہے کہ جس کی گواہی ان کے دشمنوں نے دی ہے۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

'عثمان مسجد کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک مرد آیا اور ان سے پیسے کی درخواست کی عثمان نے حکم دیا کہ اسے پانچ درہم دے دیئے جائیں مرد نے کہا کہ مجھے دوسرے شخص کی طرف رہنمائی کرو ،عثمان نے کہا ان جوانوں کی طرف رجوع کرو (ہاتھ سے اس مسجد کی طرف اشارہ کیا کہ جہاں امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اور عبد اللہ بن جعفر بیٹھے ہوئے تھے ) مرد ان حضرات کے پاس گیا اور ان سے مدد کرنے کی درخواست کی حضرت امام حسن نے فرمایا:

اے مرد تین موارد کے علاوہ کسی سے پیسے کی درخواست کرنا جائز نہیں ہے :دیۂ قتل یا کمر شکن قرض یا بے حد تنگدستی ہو، پس ان موارد میں سے کون سا مورد تم سے متعلق ہے؟ اس نے کہا :ان میں سے ایک مورد ہے ،حضرت امام حسن نے پچاس دینار ،حضرت امام حسین نے انچاس دینار اور عبد اللہ بن جعفر نے اڑتالیس دینار عطا کیے ۔اس مرد نے مسجد کے دروازے کے بغل میں عثمان کو دیکھا اور اس واقعہ کو بیان کیا ۔

عثمان نے کہا: ان جوانوں کے مانند جوان کہاں پائے جاتے ہیں ؟ یہ وہ جوان ہیں کہ جنھوں نے اپنے کو علم سے مخصوص اور خیر و حکمت حاصل کی کیا ہے۔

خصال صدوق ، ج 1 ، ص 67

تاریخ میں آیا ہے کہ حضرت امام سجاد کے بارے میں یزید بن معاویہ نے کہا :آپ ایسے خاندان سے ہیں کہ جن کو علم پلایا گیا ہے۔

خصال صدوق ، ج 1 ، ص 67

ایک تعجب خیز واقعہ کہ جس کو تمام موثقین نے نقل کیا ہے وہ یہ ہے کہ:

کربلا کے ایک عالم کو اپنے علم پر غرور اور تکبر پیدا ہوا یہاں تک کہ ایک وقت اپنے دوستوں کے درمیان تھے ،حضرت ابو الفضل العباس اور ان کے الٰہی علوم و معارف کے بارے میں کہ جن کی وجہ سے آپ کو تمام شہداء پر امتیاز حاصل تھا بحث و گفتگو ہوئی ،اس وقت اس مغرور عالم نے اپنی گرانقدر خصوصیات منجملہ علوم ،نماز شب ، مستحبی اعمال اور زہد و تقویٰ کی بناء پر اظہار کیا کہ جناب عباس کے برتر ہے! اور کہا کہ اگر جناب عباس کو اس طرح کے فضائل کی وجہ سے برتری حاصل ہے تو میں بھی ان فضائل کا حامل ہوں اور روز عاشورہ کی شہادت کی برابری علم و فقہ (کہ جن کے متعلق وہ مدعی تھا وہ ان کا حامل ہے اور حضرت ابو الفضل العباس ان کے حامل نہیں ہیں) کے ساتھ نہیں کی جا سکتی ہے ۔

اس بزم میں موجودہ افراد کو اس کی جسارت سے بڑا تعجب اور حیرت ہوئی اور وہ مرد اپنے اس تکبر و غرور پر نہ ہی شرمندہ تھا اور نہ ہی اسے کوئی خوف لاحق تھا ۔

دوسرے دین مجمع میں موجودہ افراد اس مرد کے متعلق باخبر ہونا چاہتے تھے کیا وہ اپنی گمراہی پر باقی ہے یا خدا کی ہدایت اس کے شامل حال ہو گئی ہے ۔ پس اس کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ، وہاں پہنچ کر دق الباب کیا ،ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ جناب عباس کے حرم مطہر میں گئے ہوئے ہیں ، لوگ حرم مطہر کی جانب چلے وہاں پہنچ کر مشاہدہ کیا کہ اس مرد نے اپنی گردن میں رسّی باندھی ہے اور رسّی کا دوسرا سرا ضریح مطہر سے متصل کیے ہوئے ہے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے عمل پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کر رہا ہے ۔

جب لوگوں نے اس موضوع سے متعلق اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ جب میں کل کی شب سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں علماء کے مجمع میں بیٹھا ہوا ہوں ، اچانک ایک مرد داخل ہوا اور آواز دی کہ حضرت ابو الفضل العباس تشریف لا رہے ہیں آپ کا نام سنتے ہی لوگوں کے قلوب آپ کی طرف متوجہ ہو گئے یہاں تک کہ جناب عباس نور کے ہالوں میں جو آپ کے چہرۂ مبارک سے ساطع ہو رہا تھا بزم میں داخل ہوئے اس حال میں کہ تمام لوگ آپ کی عظمت اور شان و شوکت کے مقابلہ میں خاضع و خاشع تھے ، جناب عباس آ کر صدر مجلس میں بیٹھے اور میں اس وقت اپنی گزشتہ جسارت کی وجہ سے بڑی شدت کی ساتھ خوف و اضطراب میں مبتلا تھا ۔

جناب عباس نے اہل بزم کے ایک ایک فرد سے گفتگو کرنا شروع کر دی یہاں تک کہ میری باری آئی ، فرمایا تم کیا کہہ رہے ہو ؟ اس حال میں کہ میرے ہوش و حواس اڑے ہوئے تھے میں چاہتا تھا کہ اپنے کو اس ہلاکت سے نجات دوں اور اپنے گمان کے مطابق حق کو ثابت کروں ، جو دلیلیں اور باتیں تم لوگوں سے کہی تھیں حضرت کے سامنے پیش کیا ۔

جناب عباس نے فرمایا : میں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امیر المؤمنین اور میرے دونوں بھائی امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے پاس علم حاصل کیا ہے ،ان جلیل القدر اور الہی اساتید سے علم حاصل کر کے اپنے دین میں یقین کی منزل تک پہنچا ہوں جب کہ تم اپنی دین میں اور اپنے امام کی نسبت شک کرتے ہو ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ میں ان کے کلام سے انکار نہیں کر سکتا تھا ۔

اس کے بعد فرمایا : لیکن وہ استاد کہ جس کے پاس تم نے تعلیم حاصل کی ہے وہ تم سے زیادہ بدبخت ہے ! تمہارے پاس ایسے اصول و قواعد ہیں جو احکام کی نسبت جاہل افراد کے لیے قرار دئیے گئے ہیں تا کہ حقائق تک پہنچنے کے لیے انھیں استعمال کیا جائے ، جب کہ میں ان اصول و قواعد کا محتاج نہیں ہوں اس لیے کہ میں نے دین کے واقعی و حقیقی احکام کو وحی الہی کے سرچشمہ سے حاصل کیا ہے ۔

اس کے بعد حضرت فرماتے ہیں : مجھ میں گرانقدر صفات پائے جاتے ہیں ، انھیں بیان کرنا شروع کیا : کرم ، صبر ، ایثار اور جہاد وغیرہ کہ اگر تم سب کے درمیان ان میں سے کچھ صفات تقسیم کی جائیں تو تمہارے پاس انھیں قبول کرنے کی قدرت و توانائی نہیں ہو گی جب کہ تم میں حسد ، خود پسندی اور ریا وغیرہ جیسی رذیلہ صفات پائی جاتی ہیں اس کے بعد اپنے دست مبارک سے میرے منہ پر مارا اور میں اپنی گزشتہ خطاؤں کی وجہ سے خوف و ندامت کی حالت میں اٹھا اور حضرت سے توسل اور توبہ کر کے آپ کی باتوں کو قبول اور آپ کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔

عباس (ع) فخر نوع بشر شان مشرقین

ام البنیں کا لال وہ حیدر کا نور عین

زینب (ع) کےدل کی آس سکینہ کے دل کا چين

صورت میں بوتراب تو کردار میں حسین (ع)

ایثار کا امام وفا کا رسول ہے

خوشبو بتا رہی ہے کہ عصمت کا پھول ہے

شبیر فخر کرتے تھے جس کی حیات پر

ہے ثبت جس کی پیاس دل کائنات پر

آب رواں گواہ ہے جس کے ثبات پر

قبضہ ہے جس کا آج بھی نہرفرات پر

اب تک جہاں میں جس کا علم سربلند ہے

اسلام جس کے خون کااحسان مند ہے

اسلامی روایات کی روشنی میں علی ابن ابی طالب (ع) نے ایک خاص اہتمام کے تحت اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جو انساب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ایک متقی و پرہیزگار گھر میں بہادر قبیلے کی نہایت ہی باوقار خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے تمنا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا فرزند عطا کر دے جو اسلام کی بقاء کے لیے کربلا کے خونیں معرکہ میں رسول اسلام (ص) کے بیٹےحسین (ع) کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے علی کو عطا کر دیئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا لیکن عباس (ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی ۔ 14 سال تک باپ سے فضيلت و کمالات کے جوہر کسب کرتے رہے اور اس منزل پر پہنچ گئے کہ لوگ ثانی حیدر کہنے لگے ۔ شجاعت و فن سپہ گری کے علاوہ معنوی کمالات میں بھی اعلیٰ مدارج طے کیے زیادہ تر وقت دعا و مناجات اور عبادت میں صرف ہوتا بچوں کی سرپرستی اور کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری حضرت عباس (ع) کا خاص مشغلہ تھا ، باپ کے بعد امام حسن (ع) کے مطیع و فرمانبردار ہے اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے وفادار و علمبردار کہلائے حضرت عباس (ع) مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا علم فقہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے بخشش و عطا میں بھی شہرہ حاصل تھا اور اپنے معنوی اثر و رسوخ سے کام لے کر عوام کی فلاح و بہبود اور اصلاح حال کے وسائل فراہم کرتے تھے اسی لیے آپ کو آج بھی باب الحوائج کا لقب حاصل ہے اور کربلائے معلیٰ میں آپ کی بارگاہ آج بھی حاجت مندوں کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے ۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت "ایثار و وفاداری" ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین  دلیل ہے وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اور سخت ترین حالات میں محبت و وفاداری کے وہ یادگار نقوش چھوڑے ہیں کہ اب لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے اور چونکہ یہ کمال ان کو باپ دادا سے میراث میں ملا تھا، پروفیسر بدر فیض آبادی کہتے ہیں :

حق میں معصوموں کے عباس ابوطالب تھے

اک پناہ گاہ تھا عابد کے چچا کا دامن

حضرت عباس (ع) کی عمر اس وقت 32 سال کی تھی جب امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قرار دیا ہے تاریخ کی روشنی میں امام (ع) کے ساتھیوں کی تعداد 72 یا زیادہ سے زیادہ سو، سوا سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد کم از کم تیس ہزار تھی مگر حضرت عباس (ع) کی ہیبت پورے لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ آنے والے تمام لوگ مرد ، عورت اور بچے سبھی پرچم عباس (ع) کے زیر سایہ سکون و اطمینان کا احساس کرتے تھے ۔ شجاعت و دلیری کے ساتھ شفقت و ہمدردی آپ کا خاصہ تھا اور امام وقت کی اطاعت و پیروی شجاعت و مہربانی ہر چیز پر غالب تھی ۔ جناب عباس (ع) کے عشق و معرفت سے سرشار قلب میں صرف ولایت حسین (ع) کی دھڑکن تھی اور ان کی پاکیزہ طبیعت انوار توحید سے شعلہ فشاں تھی ۔ کربلا میں سیکڑوں ایسے موقع آئے جب علی علیہ السلام کے شیر کو غیظ و غضب میں دیکھ کر "تاریخ"نے کروٹيں لینا چاہا لیکن امام وقت کی نگاہیں دیکھ کر مجسمۂ اطاعت نے اپنی شمشیر غضب کو نیام میں رکھ لیا چنانچہ فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابو الفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے :

"چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پر فائز ہو گئے آپ نےبڑا ہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپنا حق ادا کر گئے" ۔

عباس دست و بازو ئے سلطان کربلا

روشن ہے جس سے شمع شبستان کربلا

جس کے لہو سے سرخ ہے دامان کربلا

جس کی وفا ہے آج بھی عنوان کربلا

حسن عمل سے جس نے سنوارا حیات کو

ٹھکرادیا تھا پیاس میں جس نے فرات کو   

حضرت عباس کی صفات کمالیہ:

قرآن مجید کی سورہٴ مریم میں جناب زکریا کی دعا اور تمنا کا تذکرہ ملتا ہے جس سے جناب یحییٰ پیدا ہوئے، حضرت فاطمہ بنت اسد کی دعا اور تمنا سے حضرت علی نے دنیا کو زینت بخشی اور حضرت علی کی دعا اور تمنا سے قمر بنی ہاشم ،علمدار کربلا، سقائے حرم، عبد صالح حضرت عباس نے دنیا کو رونق بخشی۔

آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا اور عباس نام رکھا گیا،

عباس عبس مصدر سے ہے جس کے معنی تیوری چڑھانا، اور اصطلاح میں بپھرے ہوئے شیر کو عباس کہتے ہیں،سن 40 ہجری میں حضرت علی نے سر پر ضربت لگنے کے بعد آخری لمحات میں اپنے بیٹوں منجملہ حضرت عباس کو وصیت و تاکید فرمائی کہ :رسول اللہ کے بیٹوں حسن و حسین سے منہ نہ موڑنا پھر تمام اولاد کا ہاتھ امام حسن کے ہاتھ میں دیا اور حضرت عباس کا ہاتھ امام حسین کے ہاتھ میں دیا،جیسا کہ حضرت علی کی تمنا سے ظاہر ہے آپ نے حضرت عباس کی تربیت میں ایثار و فدا کاری کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی، حضرت علی مسلسل حضرت عباس سے اس کا اظہار فرماتے رہتے تھے کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لیے مہیا کیا گیا ہے ، تمہارا مقصد شہادت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ مولائے کائنات حضرت عباس کو مستقبل سے باخبر کرنے کے ساتھ دنیا کو متوجہ کر رہے ہیں کہ ہمارے گھر کے بچے حالات میں گرفتار ہو کر قربانی نہیں دیا کرتے بلکہ آغاز حیات سے ہی قربانی کے لیے آمادہ رہتے ہیں ،جب شب عاشور زہیر قین نے یاد دلایا اور کہا عباس !آپ کو یاد ہے کہ آپ کے پدر بزرگوار نے آپ کو کس دن کے لیے مہیا کیا ہے؟

تو حضرت عباس نے اس طرح انگڑائی لی کہ رکابیں ٹوٹ گئیں اور فرمایا: اے زہیر آج کے دن شجاعت دلا رہے ہو، عاشور کی رات تمام ہونے دو اور صبح کا وقت آنے دو تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ بیٹے نے باپ کے مقصد کو کس انداز سے پورا کیا ہے اور عباس اپنے عہد وفا پر کس طرح قائم ہے ،دشمن کو میدان میں تلوار کا پانی پلانا واقعاً شجاعت ہے۔

لیکن جب جذبات تلوار چلانے پر پوری طرح آمادہ ہوں تو اس وقت اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے تلوار نہ چلانا اس سے بھی بڑی شجاعت ہے ،جناب عباس نے صرف صفین کی جنگ میں تلوار چلائی باقی موقعوں پر آپ نے اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی تلوار نیام ہی میں رکھی ،امام حسن کے جنازے کی بے حرمتی،والد بزرگوار کی شان میں منبر سے گستاخی ، مخلصین کا بے دردی سے قتل ،کربلا میں فرات سے خیمے ہٹائے جانے کا مطالبہ یہ تمام وہ مواقع تھے جہاں حضرت عباس کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی تھے لیکن آپ نے ان موقعوں پر بھی اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کر کے شجاعت کی مثال قائم کر دی ،اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کمالات و اوصاف سے حضرت عباس متصف تھے جو آپ کو معصوم علی جیسے امام سے ورثہ میں ملے تھے،

اسلامی لشکر کی علمداری،پیاس کی شدت سے انسانوں کی جان بچانے کو سقائی اور عبد صالح کا خطاب وہ صفات ہیں جن میں حضرت عباس کو کمال حاصل تھا، لشکر کی علمبرداری ہی کو لے لیجئے ہر قوم اپنے پرچم یا علم کو اپنی عزت و عظمت کا نشان سمجھتی ہے بالخصوص میدانِ کار زار میں جنگ کے درمیان دونوں فوجیں اپنا اپنا علم بلند رکھتی ہیں جس کا پرچم بلند رہتا ہے اُس لشکر کو فتح مند قرار دیا جاتا ہے اور جس فوج کا پرچم سرنگوں ہو جاتا ہے۔

وہ شکست خوردہ سمجھی جاتی تھی، اسی لیے علمدار کا باقاعدہ انتخاب کیا جاتا تھا اور علم اس شخص کو دیا جاتا تھا جس میں ایک ماہر اور بہادر کمانڈر کی تمام خوبیاں ہوتی تھیں ،جسے علم مل جاتا تھا اُس کا سر افتخار سے بلند رہتا تھا ،علمدار کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں امام علی فرماتے ہیں :

علم صرف بہادروں کے پاس رہنا چاہیے جو شخص مصائب کو برداشت کرسکے اور شدائد کا مقابلہ کر سکے وہی محافظ کہا جا سکتا ہے اور جو محافظت کا اہل ہوتا ہے وہی پرچم کے گرد و پیش رہتا ہے اور چار طرف سے اس کی حفاظت کرتا ہے محافظ اپنے پرچم کو ضائع نہیں کرتے ،وہ نہ پیچھے رہ جاتے ہیں کہ پرچم دوسروں کے حوالے کر دیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پرچم کو چھوڑ دیں" امام علی کے مذکورہ بیان کی روشنی میں علمدار شجاع،بہادر،محافظ، غیرت دار،ثابت قدم، مستقل مزاج اور صابر انسان ہوتا ہے ،کربلا کے میدان میں لاثانی مجاہدوں کے ہوتے ہوئے امام حسین حضرت عباس کو علم دے کر شجاع، بہادر، محافظ، غیرت دار، ثابت قدم ،مستقل مزاج اور صابر ہونے کی سند عطا کر رہے تھے۔

حضرت عباس کی دوسری صفت کمالیہ آپ کا سقاء ہونا ہے، سقائی یعنی پانی پلانا، کسی کو پانی پلا کر سیراب کرنا عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے جس کے لیے بے شمار اسلامی روایات موجود ہیں لیکن جب یہی کام کسی جاندار کی زندگی بچانے کا سبب بن جائے تو صفت کمالیہ میں شمار ہونے لگتا ہے کیونکہ اس کام کو خداوند عالم نے اپنے عظیم احسانات میں شمار کیا ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ،اور ہم نے آسمان سے پانی اس لیے نازل کیا ہے کہ اس سے مردہ زمینوں کو زندہ بنائیں اور حیوانات و انسان کو سیراب کریں۔

رسول اسلام فرماتے ہیں :جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا ،اب اگر پانی پلا کر کسی کی زندگی کو بچا لیا جائے تو وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا، پانی پلا کر زندگی بچانے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہو جاتی ہے، جب شارع مقدس نمازیوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اگر نمازی کے پاس صرف اتنا پانی ہو جس سے صرف وضو ہو سکتا ہو اور کوئی بھی جاندار پیاس کی شدت سے دم توڑ رہا ہو تو وضو کا پانی پلا کر جاندار کی زندگی بچا لی جائے اور نماز تیمم سے ادا کی جائے ،حضرت عباس ایسے ہی باکمال سقاء تھے آپ نے اپنی سقائی سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جانیں بچائیں ،سن 34 ہجری میں انقلابیوں نے مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور کھانا پانی تک گھر میں نہ جانے دیا اس طرح حضرت عثمان اور ان کے اہل خانہ بھوک و پیاس سے تڑپنے لگے تو ساقی کوثر حضرت علی نے کھانے کا سامان اور پانی کے مشکیزے اپنے بیٹوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے گھر پہنچوائے۔

،یہاں بھی حضرت عباس کی عمر اگرچہ 8 سال تھی لیکن آپ نے پانی پلا کر لوگوں کی جان بچائی، تعجب ہے ابن زیاد پر جس نے امام حسین اور ان کے بچوں پر پانی بند کرنے کے حکم نامے میں اس بات کا حوالہ دیا تھا کہ انہیں (اہل بیت کو ) اسی طرح پیاسا رکھو جس طرح خلیفہ عثمان کو پیاسا رکھا گیا تھا ،جن لوگوں نے حضرت عثمان اور ان کے اہل خانہ کی پیاس بجھائی انہیں کو حضرت عثمان پر بندش آب کے جرم میں پیاسا رکھا گیا ،

اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہو سکتی ہے،بہر حال اسی طرح سن 60 ہجری میں منزل ذو خشب یا ذو حسم کے پاس جب یزیدی کمانڈر حر نے امام حسین کا راستہ روکا تو حر کے لشکر کی زبانیں شدت عطش سے باہر نکل چکی تھیں ،گھوڑے اور اونٹ بھی لب دم تھے امام حسین نے جناب عباس کو حر کے لشکر کی مع جانوروں کے پیاس بجھا کر جان بچانے کی ذمہ داری سونپی،

حضرت عباس نے حر کے لشکر کو مع جانوروں کے سیراب کر دیا اور جانوروں کے آگے سے جب تک پانی نہ ہٹایا گیا جب تک کہ تین مرتبہ جانوروں نے پانی سے خود منہ نہ پھیر لیا،لیکن 61 ہجری میں حضرت عباس نے اپنی سقائی کو بام عروج تک پہنچا دیا ،علمداری کی یہ صفت بھی آپ کو امام معصوم حضرت علی سے ورثہ میں ملی تھی ،حضرت علی کو ساقی کوثر کا خطاب ملا ہوا تھا لیکن عباس کی معراج نے اس خطاب کو مبالغہ میں بدل دیا اور اس طرح آپ سقاء کہلائے ،سقاء مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ سیراب کرنے والے،حضرت علی نے لوگوں کو مہیا پانی سے سیراب کیا لیکن کربلا میں حضرت عباس نے جو سقائی کرنا چاہی اس میں پانی بھی خود ہی مہیا کرنا تھا ،اس مقصد کے لیے آپ نے کربلا میں متعدد کنوئیں کھودے لیکن پانی نہ نکلا،ادھر امام حسین کے 6ماہ کے بچے علی اصغر پیاس کی وجہ سے لب دم ہیں۔

مچھلی جب پانی سے باہر آ جاتی ہے تو اس کی تین کیفیتیں ہوتی ہیں ،پہلی یہ کہ وہ بہت زیادہ تڑپتی ہے اور دوسری کیفیت وہ جب اس کی تڑپ اور حرکت میں کمی آ جاتی ہے اور تیسری کیفیت یہ کہ اُس سے تڑپا بھی نہیں جاتا وہ صرف منہ کھول کر سانس لینے کی کوشش کرتی ہے ،روز عاشور کربلا میں حضرت علی اصغر کی یہی کیفیت تھی ،آپ بے حس و حرکت پیاس کی شدت اور تکلیف سے اسی طرح برداشت کر رہے تھے، بچوں کی یہ حالت جناب عباس سے نہ دیکھی گئی،ادھر آپ کی بھتیجی سکینہ نے آپ سے پانی کا مطالبہ بھی کر دیا تو آپ سے رہا نہ گیا اور آپ نے امام حسین سے اجازت طلب کی ،اجازت ملنے کے بعد آپ دریا پر پہنچے ،دریا پر قبضہ کرنے کے بعد بھی آپ نے پانی لبوں کو نہ لگایا،

بچوں کے لیے مشکیزہ بھر لیا لیکن پانی بچوں تک نہ پہنچ سکا اور آپ نے پانی مہیا کرنے پر اپنی جان بھی قربان کر دی اس سقائی کی حسرت آپ کے دل ہی میں رہ گئی۔

حضرت عباس کی تیسری صفت کمالیہ "عبد صالح" کا وہ خطاب ہے جو تمام انبیاء کو بھی نصیب نہ ہوا ،قرآن مجید میں اللہ نے حضرت داوٴد، حضرت ابراہیم ،حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب،حضرت عیسیٰ اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی کو عبد صالح کا خطاب دیا ہے، غیر انبیاء اور آئمہ میں صرف حضرت عباس کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کو عبد صالح کا خطاب دیا گیا جس کی سند چھٹے امام جعفر صادق نے زیارت حضرت عباس میں دی ہے ،اس کی روایت ابو حمزہ ثمالی نے کی ہے، حضرت عباس کے لیے امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

السلام علیک ایھا العبد الصالح یعنی اے عبد صالح آپ پر خدا کی طرف سے سلامتی ہو ،ہم روزانہ نماز کے اختتام پر اللہ کے نیک بندوں (عباد الصالحین) پر سلام پڑھتے ہوئے تشہد کے بعد کہتے ہیں السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین یعنی ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔

اس سلام میں انبیاء اور آئمہ کے ساتھ ساتھ حضرت عباس بھی شریک ہیں کیونکہ آپ عبد صالح ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق کی زیارت کے فقرات سے واضح ہوتا ہے ،کہ حضرت عباس علیہ السلام نے فقط بھائی و رشتہ دار اور فرزند رسول سمجھ کر امام حسین کی نصرت نہیں کی بلکہ آپ امام حسین علیہ السلام کو حجت خدا اور امام علیہ السلام واجب الطاعة سمجھ رہے تھے ، اگرچہ کربلا کے ہر شہید نے دشت نینوا میں کسی طرح نصرت امام حسین علیہ السلام میں دریغ نہیں کیا،

لیکن یہ سارے شہید اپنی ساری قربانیوں کے باوجود شہیدعلقمہ کے ہم مرتبہ نہیں ہو سکتے ،کیونکہ آپ کی بصیرت راسخ، آپ کا علم وافر، آپ کا ایمان محکم، آپ کا کردار مضبوط، اور آپ کا مقصد عالی تھا، لہٰذا امام جعفر صادق نے مذکورہ بالا الفاظ میں آپ کو مخاطب فرمایا، کہ یہ فضیلت قمر بنی ہاشم سے مخصوص تھی جس میں کربلا کا کوئی دوسرا شہید شریک نہیں تھا۔

جناب عباس علیہ السلام کا ایک معجزہ:

علامہ جلیل شیخ عبدُ الرحیم تستری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :"میں نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی، زیارت کے بعد حرم حضرت عباس علیہ السلام میں پہنچا وہاں میں نے دیکھا کہ ایک بدّو اپنے بیمار لڑکے کو لیکر آیا جس کے پیروں کو فالج کا اثر تھا،ضریح حضرت سے اس کو باندھ دیا اور رو رو کر دعائیں کرنے لگا تھوڑی دیر گزری تھی کہ بچہ صحیح و سالم ہو کر حرم میں با آواز بلند کہنے لگا:"عباس علمدار نے مجھ کو شفا بخشی "لوگوں نے اس کو گھیر لیا اور تبرک کے طور پر اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے، میں نے جس وقت یہ منظر دیکھا ضریح کے قریب گیا اور حضرت علیہ السلام سے درخواست کی ،کہ آپ نا آشنائے ادب کی دعاؤں کو سن لیتے ہیں اور ہماری دعاؤں کو جبکہ ہمیں آپ کی معرفت بھی ہے مستجاب نہیں فرماتے، ٹھیک ہے اب میں آئندہ آپ کی زیارت کے لیے نہیں آؤنگا، بعد میں مجھے یہ خیال آیا کہ میں نے گستاخی کی ہے خدا سے اپنی غلطی کی معافی مانگتا رہا،جب میں نجف پہنچا تو استاد بزرگوار شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ میرے پاس تشریف لائے اور پیسوں کی دو تھیلیاں دیتے ہوئے فرمایا: "لو یہ تمھارے پیسے ہیں جو تم نے حضرت عباس علیہ السلام سے طلب کیے تھے ،ایک سے اپنا مکان بنوا لو اور ایک سے حج کرلو"میں نے بھی حضرت سے یھی دو سوال کیے تھے۔

لہٰذا اس مقام مقدس پر اپنے لیے اور خصوصاَ ہر مومن کے لیے ،زائر کو جناب سکینہ علیھا السلام کا واسطہ دے کر دعائیں مانگنی چاہیے۔

آسماں والوں سے پوچھو مرتبہ عباس کا

نام لیتے ہیں ادب سے انبیاء عباس کا

پوری ہوجاتی ہے ہاتھ اٹھنے سے پہلے ھر مراد

مانگ لو دے کر خدا کوواسطہ عباس کا

مندرجہ ذیل معتبر کتب حضرت عباس (ع) کی زندگی و شخصیت کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کی جا سکتی ہے:

1 . ارشاد، شيخ مفيد، كنگرهء هزارهء مفيد، قم، 1413 ق.

2 . اعيان الشيعه، سيد محسن الامين، دارالتعارف للمطبوعات، بيروت، 1404 ق.

3 . بحارالانوار، علامه محمد باقر مجلسي، مؤسسه الوفاء، بيروت، 1403 ق.

4 . تاريخ طبري، محمد بن جرير طبري، قاهره، 1358ق.

5 . ترجمهء نفس المهموم (محدث قمي)، شعراني، انتشارات علميه اسلاميه، تهران.

6 . تنقيح المقال، عبدالله مامقاني، مطبعه مرتضويّه، نجف، 1352ق.

7 . چهرهء درخشان قمر بني هاشم، علي رباني خلخالي، مكتبه الحسين، قم، 1375.

8 . حياه الامام الحسين بن علي، باقر شريف القرشي، دارالكتب العلميه، قم، 1397 ق.

9 . زندگاني قمر بني هاشم، عم‏اد زاده، انتش‏ارات خ‏رد، 1322 ش.

10 . سفينه البحار، شيخ عباس قمي، فراهاني، تهران.

11 . العباس، عبدالرزاق الموسوي المقرّم، منشورات الشريف الرّضي، 1360 ق.

12 . العباس بن علي، باقر شريف القرشي، دارالاضواء، بيروت، 1409 ق.

13 . قاموس الرّجال، محمد تقي شوشتري، مركز نشر كتاب، تهران.

14 . المحاسن والمساوي، ابراهيم بن محمد بيهقي، داربيروت للطباعه والنشر.

15 . معالي السبطين، محمد مهدي مازندراني حائري (چاپ سنگي)، مكتبه القرشي، تبريز.

16 . مفاتيح الجنان، شيخ عباس قمي، دفتر نشر فرهنگ اسلامي، تهران.

17 . مقاتل الطالبيين، ابوالفرج اصفهاني، دارالمعرفه، بيروت.

18 . مقتل الحسين، عبدالرزاق الموسوي المقرّم، مكتبه بصيرتي، قم، 1394 ق.

19 . منتهي الامال، شيخ عباس قمي، انتشارات هجرت.

20 . يادوارهء پنجمين مراسم شب شعر عاشورا (عباس، علمدار حسين)، ستاد شعر عاشورا، شيراز

عباس (ع) فخر نوع بشر شان مشرقین

ام البنیں کا لال وہ حیدر کا نور عین

زینب (ع) کےدل کی آس سکینہ کے دل کا چين

صورت میں بوتراب تو کردار میں حسین (ع)

ایثار کا امام وفا کا رسول ہے

خوشبو بتا رہی ہے کہ عصمت کا پھول ہے

شبیر فخر کرتے تھے جس کی حیات پر

ہے ثبت جس کی پیاس دل کائنات پر

آب رواں گواہ ہے جس کے ثبات پر

قبضہ ہے جس کا آج بھی نہرفرات پر

اب تک جہاں میں جس کا علم سربلند ہے

اسلام جس کے خون کااحسان مند ہے

عباس دست و بازو ئے سلطان کربلا

روشن ہے جس سے شمع شبستان کربلا

جس کے لہو سے سرخ ہے دامان کربلا

جس کی وفا ہے آج بھی عنوان کربلا

حسن عمل سے جس نے سنوارا حیات کو

ٹھکرادیا تھا پیاس میں جس نے فرات کو  

التماس دعا.....





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی